آج جب ہمارے گھر بگھارا کھانا بنا تو اس
کی بھینی بھینی خوشبو نے ہمیں برسوں پرانے اس دور میں پہنچا دیا جب ہمیں نہ اسلام معلوم
تھا نہ عقیدہ۔ بگھارے کھانے کی خوشبو سے وابستہ ایک ایسی روحانی کیفیت آج بھی محسوس
ہوتی ہے جو بچپن سے کالج کے زمانے تک ہر ماہ فاتحہ کے دن محسوس ہوا کرتی۔ کوئی مہینہ
ایسا نہیں جاتا جب کوئی نہ کوئی فاتحہ کا موقع نہ ہوتا۔ گیارہویں، بارہ وفات، تیرہ
تیزی، کْنڈے، شبِ معراج، شب برات تو کبھی بی بی سگٹ کی کہانی، برسی یا آیتِ کریمہ کا
وِرد ہوتا۔ دادی ماں بڑے اہتمام سے بگھارے کھانے کی دیگ چڑھواتیں۔ دادا بابا غریبوں
کے کھانے کیلئے پہلیسے اتنظام کرتے۔ اْن مسکینوں کو بھی تاریخوں کا ایسا علم ہوگیا
تھا کہ اْنہیں بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مغرب کے ساتھ ہی جب بگھارے کھانیکی خوشبو
گلی میں مہکتی لوگ جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ غریبوں
کیلئے تو یہ بگھارا کھانا اور کدّو کا دالچہ من و سلوٰی سے کم نہ تھا۔ یہ دعوتیں کبھی چاچا کے
ہاں تو کبھی ماموں کے ہاں باری باری ہوتیں۔ جو صاحبِ استطاعت ہوتے وہ دالچہ کے ساتھ مرغی یا گوشت کا قورمہ بھی شامل کردیتے۔ سارا خاندان یکجا ہوتا۔ حالانکہ نندوں بھاوجوں یا صمدھنوں وغیرہ میں چھوٹی موٹی رنجشیں بھی ہوجاتیں لیکن ان دعوتوں کے دستر بچھانے اٹھانے میں یہ ساری رنجشیں جاتی رہتیں۔ عفو، درگزر اور صلہ رحمی کی مثال آنکھوں کے سامنے ہوتی۔ آج تو وہ رشتہ دار مہینوں ایک دوسرے سے نہیں ملتے لیکن اْس وقت تو ہر مہینہ پندرہ دن میں ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک رہتے، شائد سارے غریب ختم ہوگئے ہیں۔
ہاں تو کبھی ماموں کے ہاں باری باری ہوتیں۔ جو صاحبِ استطاعت ہوتے وہ دالچہ کے ساتھ مرغی یا گوشت کا قورمہ بھی شامل کردیتے۔ سارا خاندان یکجا ہوتا۔ حالانکہ نندوں بھاوجوں یا صمدھنوں وغیرہ میں چھوٹی موٹی رنجشیں بھی ہوجاتیں لیکن ان دعوتوں کے دستر بچھانے اٹھانے میں یہ ساری رنجشیں جاتی رہتیں۔ عفو، درگزر اور صلہ رحمی کی مثال آنکھوں کے سامنے ہوتی۔ آج تو وہ رشتہ دار مہینوں ایک دوسرے سے نہیں ملتے لیکن اْس وقت تو ہر مہینہ پندرہ دن میں ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک رہتے، شائد سارے غریب ختم ہوگئے ہیں۔
ہمیں ہر سال ۱۰ محرم کا وہ دن بھی یاد ہے جب نانی ٹھنڈا
شربت بنواتیں۔ سب بڑے چھوٹے“پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام کی ”کا مرثیہ پڑھتے اور
ہم سارے بچے مل کر محلے والوں کو دن بھر شربت پلاتے۔ دوڑ دوڑ کر ہر سائیکل اور اسکوٹر
والے کو روکتے۔ جسطرح مکہ اور مدینہ میں روزہ افطار کروانے والے دوڑ دوڑ کر افطاری
بانٹتے ہیں اسی طرح ہم بھی دوڑ دوڑ کر شربت پلاتے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ شربت پینے
والے کس مذہب اور کس مسلک سے ہیں۔ مسلمانوں
سے زیادہ عقیدت کے ساتھ تو ہندو بھائی پیتے۔ وہ بھی سر پر دستی ڈال لیتے اور امام حسین?
سے اپنی پوری محبت کا اظہار کرتے، ہندو اسے گنگاجل کی طرح پوِتر اور مسلمان اسے زم
زم کی طرح محترم سمجھ کر پیتے۔
مسجدوں میں فجر کے بعد سلام ہوتا اس کا
ترنّم آج بھی جب ہم روضہ مبارک کے سامنے سے سلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے گزرتے
ہیں تو یاد آتا ہے اور ایک روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اْس وقت ہوتا یہ تھا کہ ابھی
اندھیرا ہی رہتا، سلام کے بعد سب مصافحہ کرتے اور ہجوم میں کون کس کے سامنے مصافحے
کے لئے ہاتھ ہڑھا رہا ہے پتہ نہیں چلتا، مصافحہ کرنے کے بعد پتہ چلتا کہ ان میں سے
کچھ ایسے بھی ہوا کرتے تھے جن سے ناگواری ہے یا بات چیت بند ہے لیکن اس مصافحہ کی برکت
سے رنجشیں مٹ جاتیں اور دوبارہ دوستی ہوجاتی۔
لڑکپن میں دیکھا کہ محلے میں تبلیغی جماعت
آتی تو ہم سارے لڑکے مل کر گشت میں حصّہ لیتے۔ آگے بڑھ بڑھ کر دروازوں پر کھٹکے مارتے۔
کئی شرابی کبابی باپ اور چچا بھی بچوں کے اس جوش سے متاثر ہوکر مسجد آہی جاتے اور بیان
سن لیتے۔ ان میں سے کئی ایک نے گناہوں سے توبہ کرلی اور نیکی کی راہ پر چل پڑے جس کے
ہم گواہ ہیں۔ پھر تبلیغی نصاب پڑھنے کا اچھا خاصہ مقابلہ رہتا۔ ابّا نے یہ کتاب تو
خرید کرگھرلالی جو ہرشام پڑھی جاتی اور اس بہانے ہماری اردو بھی پختہ ہونے لگی اور
کئی چھوٹی چھوٹی حدیثیں بھی یاد ہوگئیں۔
تھوڑے اور بڑے ہوئے تو مسجد میں ایک مولانا
صاحب نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ یاد کرنے کا ہم میں شوق پیدا کردیا۔ ہر سورہ جب ترجمہ کے ساتھ نماز
میں پڑھتے تو نماز کا لطف دوبالا ہوجاتا۔ ہمیں احساس ہوا کہ قرآن جیسی عظیم ہدایت والی
کتاب کو سمجھے بغیر پڑھنا کتنا بڑا ظلم ہے۔ پھرفجر یا عصرکے بعد مسجد میں پابندی سے
درسِ قرآن شروع ہوگیا۔
پھر جب کالج میں آئے تو مختلف مولویوں اور
جماعتوں سے یہ معلوم ہوا کہ عمل سے کہیں زیادہ اہم عقیدہ ہوتا ہے جو سیدھے جنت میں
لے جاتا ہے۔ جس کا عقیدہ درست نہ ہو وہ چاہے جتنے نیک اعمال کرلے، جہنّم رسید ہوتا
ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ وہ بگھارے کھانے اور وہ سارے رشتے داروں کا ملنا اور فاتحہ و سلام
اور نماز کے بعد مصافحے یہ سب بریلویوں کی ایجاد کردہ بدعتیں ہیں جو سخت گمراہی ہیں۔
ہم نے بریلویت سے فوری توبہ کی اور ان سب کاموں کو بند کردیا۔
پھر پتہ چلا کہ وہ ۱۰ محرم کا جام جو ہندووں اور مسلمانوں کو،
سنیوں اور شیعوں سب کو محبت اور اتحاد کے گھونٹ
پلاتا تھا دراصل وہ شیعوں کی تقلید ہے اور شیعہ تو کافر ہیں۔ لہذا ہم نے اْس سے بھی
فوری توبہ کی۔
پھر کسی نے ہمیں بتایا کہ وہ گشت کرنا،
لوگوں کو خوشامدیں کرکرکے مسجد کی طرف لانا، وہ تبلیغی نصاب پڑھنے کے بہانے حدیثوں
کو رٹنا، وہ اردو کو درست کرنا یہ سب تبلیغی جماعت کا حصہ ہیں اور تبلیغی جماعت تو
دیوبندیوں کی جماعت ہے جن کے عقیدے درست نہیں
ہیں۔ تبلیغی نصاب میں کئی حدیثیں ضعیف ہیں۔ اب بھلا ہم شیعوں یا بریلویوں کو کیونکر
ناراض کرتے ہم نے تبلیغی اجتماع میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ گشت والوں کو دور سے دیکھ کر
بھاگنے لگے۔ ہمارا ایک دوست تو اتنا شریر تھا کہ اگر گشت والے کسی دوسرے محلے کے ہوتے
اور نام پوچھتے تو فوری ہندو نام بتا دیتا تاکہ وہ ایک لفظ بھی آگے نہ بولیں۔
پھر پتہ چلا کہ معنوں کے ساتھ قرآن کو پڑھنے
کا چلن وہابی اہلِ حدیث یا اہلِ قرآن فرقے کا ہے جو گستاخانِ رسول ہیں۔ ہمیں یہ کہا
گیا کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور پڑھانے کیلئے
پہلے سترہ علوم کا ماہرہونا ضروری ہے۔ جس طرح ہندو دھرم میں برہمن کے علاوہ
کوئی اور شخص دھرم کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگا
سکتا اسی طرح قرآن بھی ہر شخص کے سمجھنے کی کتاب نہیں۔۔ یہ صرف عالم کا کام ہے یہ خواص
کیلئے ہے۔ عوام اس کو سمجھنے کے نہ قابل ہیں نہ مکلّف۔ بغیر شیخ کی اجازت کے قرآن تو
درکنار تسبیحِ فاطمی بھی نہیں پڑھی جا سکتی۔ عوام کو اِسیصرف تراویح میں سننے یا بغیر
سمجھے پڑھ کر مرحومین کی بخشش کیلئے دعا کرنے کی اجازت ہے۔ ہم نے سوچا جب ہم ایک چیز
کے مکلف ہی نہیں ہیں تو کیوں بکھیڑے مول لیں اور کیوں اپنے اوپر وہابی یا سلفی کا لیبل
لگالیں اسلئے ہم نے یہ بھی ترک کیا اور سکون کی سانس لی۔ اپنے بچوں کو عربی پڑھوانے
مولوی رکھ لیا وہ پوری محنت سے انہیں ع غ اور ک ق کے مخارج سکھاتا بچہ بھی اس تجوید
کے ساتھ امامِ کعبہ عبدالرحمن السدیس کے لہن کی نقل کرتا ہم خوش ہوجاتے اور مولوی صاحب
بھی تعریف سن کر خوش ہوجاتے۔ معنی و مطالب جب مولوی صاحب کو ہی نہیں معلوم تو وہ بچوں
کو کیا سکھاتے۔ اس طرح سنسکرت کے اشلوکوں کی طرح مولویوں نے بھی بچوں کو قرآن رٹا کر
دو چار رکعت کی ٹھونگے مارنے والی نمازیں تو سکھادیں۔ اب ہم اور بچے کم از کم جمعہ
کی نماز کو جاتے ہیں تو کبھی ٹوپی اور کبھی بغیر ٹوپی کے دو چار رکعتیں اللہ میاں کو
دے آتے ہیں۔ پانچ وقت تو پڑھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ مصروفیات بہت زیادہ رہتی ہیں۔ دوسرا
مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو قریب ترین مسجد ہے ہمارے
عزیز دوست قاسمی صاحب سے پتہ چلا کہ وہ قادریوں کی مسجد ہے جس میں بدعتیں ہوتی ہیں
وہاں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ اسلئے قاسمی صاحب دور کی مسجد میں جاتے ہیں۔ لیکن وہاں
قریب میں چشتی صاحب رہتیہیں وہ ہمارے محسن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دیوبندیوں یا اہلِ
حدیثوں کی مسجد ہے ان کا عقیدہ درست نہیں ہیاسلئے وہاں نماز ہرگز درست نہیں۔ ہم نہ
ہمارے محسن کو ناراض کرنا چاہتے ہیں اور نہ ان بکھیڑوں میں پڑنا چاہتے ہیں اسلئے کبھی
کبھار گھر پرہی نماز پڑھ لیتے ہیں۔
الحمدللہ اب ہم تمام جماعتوں اور مسلکوں
میں عزت کی نظرسیدیکھیجاتے ہیں۔کیونکہ ہم تمام علما کی عزت کرتے ہیں۔ کوئی علما پرتنقید
کرے توہمیں بہت غصّہ آتاہے۔یہ جب خود ایک دوسرے کے مسلک پر تنقید کریں یا تحقیروتکفیرکریں
توبرائی نہیں ہے ہاں ہمارا ان پر تنقید کرنا یا ان کی اصلاح کی کوشش کرنا شریعت میں
دخل اندازی کرنیکیبرابر ہے۔ اسی طرح جس طرح مودی یا آریس یس پر انگلی اٹھانا دیش سے
غدّاری کے مترادف ہے۔ کچھ لوگ ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی عقلِ سلیم استعمال
کرنی چاہئے اور قرآن کا صحیح مطالعہ کرکے صحیح راہ منتخب کرنی چاہئے۔ لیکن ہم نے ایسیلوگوں
کا بھی انجام دیکھا ہیجوخوب مطالعہ کرنیکیبعد سارے مسلکوں سے بینیاز ہوگئے۔ پھربھی
اگرکوئی دیوبندیوں سے نکل کر بریلویوں میں جاملے تو اس کو شفاعت و مغفرت کا وسیلہ مل
ہی جاتا، کوئی بریلوی اگر بغاوت کردے تو سلفی اْسے بلا کر فضیل? الشیخ کا درجہ تو دے
ہی دیتے ہیں اور اسیطرح کوئی اور دیوبندیوں میں چلاجائے تو وہاں اسے پناہ مل ہی جاتی
ہے لیکن اگر کوئی تینوں سے ہی بغاوت کردے تو پھر اسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ اِن لوگوں
کی پروپیگنڈہ مشین امریکہ اور آریس یس سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ پھر بیچارہ نہ گھر کا
رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ اس کو کافر، مشرک، ملحد، منکرِ حدیث، گستاخِ رسول، گستاخِ صحابہ،
ٹائی سوٹ والا گوگل مولوی وغیرہ کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔
الحمدللہ اب ہم بہترین مسلمان ہیں کیونکہ
ہمارے دل میں ایمان ہے۔ ڈھائی فیصد زکوٰ? دیتے ہیں، عمرہ اور زیارتِ مدینہ برابر کرتے
ہیں۔ گائے کی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ جو بھی جماعت، مسلک یا مدرسے والے یا مساکین
آتے ہیں پچاس یا سو روپیہ دیتے ہیں۔غریب بچیوں کی شادی کیلئے جہیز، جوڑے اور کھانے
کے پیسے جمع کرنے والوں کی بھی مدد کرتے ہیں تاکہ جہیز قائم رہے اور لڑکیاں بھکاری
مردوں کو خریدتی رہیں۔ ایسے مسلمان رہنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائ
حیدر ۤآباد
9642571721
