ہفتہ، 10 اگست، 2019

کیا ہوگئی قربانی؟

 

ہر سال قربانی ہوتی ہے، بکرے کٹتے بھی اور تقسیم بھی ہوجاتے ہیں۔ گھر گھر سے کلیجی اور بٹ کے پکوان کی خوشبو یہ اعلان کرتی ہے کہ امت ابراہیمی کے ہر فرزند نے مزے لے لے کر سنت ابراہیمی کا لطف اٹھایا۔ گوشت تقسیم تو ہوتا ہے لیکن گھوم پھر کر فریج میں واپس آجاتا ہے۔ سلام ہو حضرت ابراہیم پر کہ جنہوں نے بیٹے کی قربانی تو پیش کردی اور ہمارے لئے اتنی آسان سنت چھوڑ گئے کہ ثواب کا ثواب بھی اور لذیذ گوشت کے مزے بھی۔غیر مسلم بھی دیکھتے ہونگے تو حیرت میں پڑجاتے ہونگے کیا وہ قربانی یہی ہے جس کی یاد میں ہر سال لاکھوں جانوروں کا خون بہادیا جاتا ہے؟۔ جس قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ۔ انی جاعلک للناس اماما۔ یعنی ہم آپ کو تمام انسانوں کی امامت اور قیادت یعنی لیڈر شپ بخشیں گے۔اگر لاکھوں جانوروں کو ذبح کرنے سے دنیا کی قیادت ملک سکتی تھی تو آج مسلمان چاہے وہ عرب تاجدار ہوں کہ ہماری طرح کے مفلس، غیروں کی غلامی میں زندگی نہ گذارتے۔ اور نہ ہمارے ہی اندر سے دو کوڑی کے خود ساختہ دانشور پیدا ہوتے جو کہتے ہیں۔ ایک بکرے کی قیمت میں کسی غریب کا پورا کنبہ ایک مہینہ پیٹ بھر سکتا ہے، بجائے بکروں کا خون بہانے کے اسی پیسے سے کئی بیمار غریبوں کا علاج کروایا جاسکتا ہے، ایک عمرہ یا حج کے پیسوں سے کئی غریب لڑکیوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں وغیرہ وغیرہ، ان لوگوں نے اپنی آمدنی میں سے کھبی تو ایک روپیہ کسی غریب کیلئے نہیں نکالا ہوگا، لیکن جب کسی اسلامی فریضے کی بات آتی ہے تو انہیں فوری غریبوں کی ہمدردی یاد آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان عبادتیں تو کررہے ہیں لیکن ان میں کہیں نہ تو دنیاوی ترقی نظر آتی ہے اور نہ اسلامی اخلاق، کردار یا دعوت۔ اس لئے عام مسلمانوں کے عمل کو ہی اصل اسلام سمجھ کر یہ لوگ ملحدوں Atheistsکی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ ایک بکرے کی قربانی میں کتنا بڑا انقلاب پوشید ہ ہے۔ دراصل قربانی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ قربانی جو باپ دادا کے طریقے پر ہوتی ہے۔ جانور لے آئے، مولوی صاحب کی سکھائی ہوئی دعا پڑھ کر ذبح کردیا۔ اور ہوگئی قربانی۔ دوسری قربانی دو ہے جو حضرت ابراہیم ؑو اسماعیل ؑ کے طریقے پر کی گئی ہو۔ دونوں قربانیوں میں فرق صر ف "نیت "کا ہے۔ آپ کہیں گے یہ کون سی نئی نیت ہے؟۔ جی نہیں۔ یہ کوئی نئی نیت نہیں ہے۔ آپ قربانی تو وہی کررہے ہیں جو داد ا اور پڑ دادا کے زمانے سے دیکھتے آرہے ہیں۔ چھری پھیرتے وقت عربی میں دعا تو وہی کررہے ہیں جو مولوی صاحب نے سکھائی ہے۔لیکن دل اور دماغ میں چھری پھیرتے وقت وہ نیت نہیں گونج رہی ہے جو بیٹے کے گلے پر چھری پھیرتے وقت حضرت ابراہیم ؑکے دل میں تھی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہر عمل کا دارو مدار اس کی نیت پر ہے جو بدقسمتی سے نہ ہمارے بات دادا نے کھبی کی تھی نہ مولوی صاحب نے سکھائی ہے۔ قربانی کی اصل روح نیت ہے۔ اگر وہ نیت سچے دل سے نکلے تو خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ قربانی اللہ تعالی کے ہاں قبول ہوجاتی ہے۔ گوشت دنیا والوں کیلئے ہے اور نیت اللہ تعالی کیلئے ہے۔ اگر نیت ہی نہ پہنچے تو زمین پر ایک جانور کا گلا کاٹ کر آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے آپ کی زندگی میں کوئی انقلاب آئیگا۔ لوگوں کو اسی نیت کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں جانور ہر سال ذبح ہورہے ہیں لیکن انقلاب تو آنا دور کی بات ہے اب تو کم از کم ہندوستان میں اس قربانی کو ہی بند کردینے کے حالات پیدا کردیئے جارہے ہیں۔ فقہہ کی کتابوں میں صاحب نصاب، گوشت کی تقسیم،بکرے کی عمر، ٹانگ، کان وغیرہ کی ساری تفصیلات تو مل جاتی ہیں، نہیں ملتی تو وہ یہی "نیت"نہیں ملتی جس کے بغیر قربانی کرنا سوائے جانوروں کو محض ذبح کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ قرآن کا فرمان ہے کہ۔ لن ینال اللہ لحو مھا ولا دماؤ ھا ولکن ینالہ التقوی منکم کذالک سخر ھا لکم لتکبروا اللہ علی ماکم ھداکم وبشر المحسنین۔  یعنی "اللہ تعالی کے ہاں قربانی کو نہ گوشت پہنچتا ہے نہ اسکا خون بلکہ اسکے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے "۔وہ تقوی کیا ہے؟۔ یہ تقوی ہی دراصل وہ نیت ہے جو چھری پھیرنے سے پہلے سچے دل سے نکلتی ہے۔ پتہ چلا کہ جانور کو ذبح کرنا اصل سنت نہیں بلکہ وہ نیت یا ارادہ اصل سنت ابراہیمی یا سنت اسماعیلی ہے جسکے بغیر ہم نے اگر دس لاکھ بکرے بھی کاٹ ڈالے تو یہ اللہ کے ہاں پہنچنے والے نہیں۔

نیت کیا ہے؟

انسان اولاد کی محبت میں سب کچھ کرسکتا ہے۔ اگر ہم سوتے ہوئے اپنے اپنے اعمال کا احتساب کریں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے 90%فیصد بد اعمالیاں صرف اولاد کی خوشحالی کیلئے سر زد ہوتی ہیں۔ اولاد کو اللہ تعالی کے حکم کے آگے ذبح کرنا تو درکنار انسان اولاد کو ایک کانٹا بھی چھبے یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اور اگرکوئی عزم کر بھی لے تو شیطان آکر وہی کہے گا جو ابراہیم و اسماعیل سے کہتا تھا۔ باپ سے کہے گا کہ "دوسرے سارے احکام تو پورے کرہی رہے ہیں، داڑھی ٹوپی، نماز، عمرہ، زکوۃ سبھی تو ادا کررہے ہیں، اگر بعض معاملات میں اولاد کی خاطر کوئی سمجھوتہ کرنا پڑے تو اللہ معا ف کرنے والا ہے "۔ادرھر اولاد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے گا کہ "تمہارا باپ اپنی مرضی چلانا چاہتا ہے چاہے اولاد کا مستقبل تباہ ہوجائے "۔اور ادھر بیوی کو جاکر یہ بھڑکائے گا اورکہے گا کہ "تمہارے شوہر کو بس دین معلوم ہے، دنیا کیا معلوم۔ اولاد کیلئے لوگ کیا نہیں کرتے تم وہی کرنا جو اولاد کیلئے بہتر ہو۔ اگر شوہر ناراض بھی ہوگا تو تھوڑی دیر غصہ کرے گا اور پھر چپ ہوجائیگا۔ شیطان کی اس طاقتور چال سے بچ کر نکلنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر آپ اس سے نکل سکتے ہیں تو چلئے اب کی بار جب بکرا خریدیئے تو چھری چلاتے ہوئے یہ دل میں سچی نیت کیجئے بلکہ قسم کھائیے کہ "اے اللہ تیرے حکم کے آگے حضرت ابراہیم ؑکی طرح گھر، ماں باپ،شہر اور ملک چھوڑنا ہو توکیا تیری مرضی کے آگے اگر اولاد کو بھی اس بکرے کی طرح قربان کرنا پڑتے تو کردونگا بسم اللہ اللہ اکبر۔۔۔۔ جب یہ قربانی کا گوشت گھر گھر پہنچے گا تو یہ اعلان ہوجائیگا کہ اس آدمی نے عہد کرلیا ہے کہ اللہ کے حکم کے آگے اولاد کوبھی قربان کرسکتا ہے۔ جب اولاد کی بھی وہ پروا نہیں کرے گا تو دوسرے کس شمار میں۔ اسلئے اب اس آدمی پر اعتبار کیا جاسکتا ہے کہ وہ انصاف کرے گا، کھبی جھوٹ دھوکہ فریب رشوت اور ناجائز کمائی کا سہار نہیں لے گا۔ نہ کھبی امانت میں خیانت کرے گا نہ بہو سے خوشی سے دینے اور لینے کے نام جہیز وصول کرے گا۔ اگر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں جائیگا تو ملک کے خزانوں کی حفاظت کرے گا۔ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ اگر ہر باپ یہ عہد کرلے تو کیسے ممکن ہے کہ معاشرہ میں برائیاں پنپیں اور لوگ اولاد کی خاطر اللہ کی نافرمانی کریں؟۔اگر پورے شہر سے صرف چند ایک بھی یہ عہد نبھانے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم نہ صرف امت ابراہیمی کہلانے کا حقدار ہونگے بلکہ اللہ تعالی نے اس امت کو اس دنیا کی امامت یعنی لیڈر شپ عطا کرنے کا جو وعدہ ابراہیم ؑ سے کیا تھا وہ بھی پورا ہوکر رہے گا۔ انشا اللہ۔ مختصر یہ ہے کہ بکرے کی قربانی محض ایک علامت یا Symbolہے اس قربانی کے جذبے کا جسکے نتیجے میں پورا گھر، معاشرہ اور ملک بدل جاتا ہے۔ ایک انقلاب آجاتا ہے۔ دنیا خود آگے بڑھ کر ایسے باپ، ایسی اولاد اور ایسی بیوی کو قیادت پیش کرتی ہے۔ یہی لوگ سیاست، سماج، معیشت اور تہذیب کے اصلی قائد کہلانے کے لائق ہوتے ہیں۔ اور اگرا س نیت ابراہیمی کے بغیر ذبیحے ہوتے رہے تو انقلاب تو کوئی نہیں آئیگا۔البتہ اس قوم کا سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی وجود آج جتنا بدتر ہے اسکی برتری میں اور اضافہ آتا جائیگا۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آیئے ہم عہد کریں کہ اب ہم جب بھی قربانی کرینگے اس سچی نیت اور عزم کے ساتھ کرینگے کہ ہم اللہ تعالی کے حکم کے آگے سب کچھ قربان کردینگے حتی کہ اولاد کوبھی، اسی طرح جیسے کئی ہزار روپئے کے بکرے کو ایک لمحے میں قربا ن کرڈالتے ہیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صد ر سوشیو ریفارمس سوسائٹی۔ حیدر آباد

9642571721


 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...