جمعرات، 23 اپریل، 2020

حلیم نہیں کھائیں گے تو مرنہیں جائیں گے

 

 تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے خصوصی درخواست ہے کہ رمضان کے بابرکت مہینے کو رسوا نہ کریں۔ گودی میڈیا نے جس طرح تبلیغی جماعت کو نشانہ بناکر پورے ملک میں زہر پھیلادیا ہے،  اب وہ  تاک میں ہے کہ کب مسلمان افطار پارٹیوں یا تروایح کے لئے گھروں سے نکلیں اور کب حلیم کھانے کے لیئے ٹوٹ پڑیں، گویا حلیم نہیں کھائیں گے تو مرجائیں گے۔چند ایک پیٹ کوڑوں کی وجہ سے کتنے لاکھوں مسلمانوں پر مصیبت نازل ہوجاتی ہے ان مستی خوروں کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے۔

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے محلّے پرسخت نظر رکھے۔ جہاں جہاں حلیم کے دیغ لگ رہے ہوں، اس کے چبوترے بنائے جارہے ہوں یا گھروں سے سپلائی کا دھندہ ہونے والا ہو،  ان کو سمجھائیں۔ اگر سیدھی طرح بات نہ مانیں تو پولیس کو اس کی اطلاع دیں۔ ایک حلیم کا اڈّہ پورے ملک میں مسلمانوں کو میڈیا میں ویلن بنادینے کے لئے کافی ہے، گودی میڈیا کے رپورٹرز کیمرے لے کر انتظار میں بیٹھے ہیں۔

یاد رکھیئے افطار کروانے کا روزہ رکھنے کے برابر اجر ہے لیکن ان کو افطار کروانے کا جن کو ایک کھجور بھی میسّر نہیں ہوا کرتا تھا۔ پیٹ بھرے رشتہ داروں کو جمع کرنا سنت نہیں بلکہ فیشن، دکھاوا اور اسراف ہے۔ افطار کا وقت جس میں دعاؤں کی قبولیت کی بشارت ہے، اتنے اہم وقت کو کھانے میں برباد کردینا سنّت کی برکتوں کوبرباد کرنا ہے۔

تراویح سنت ہے اور اس میں ایک قرآن کا سننا بھی سنت ہے۔ لیکن جب ہر مسلک کے علما ء فرمارہے ہیں کہ ایمرجنسی میں یہ گھروں پر بھی پڑھی جاسکتی ہے تو اس کے باوجود اگر کوئی مسجد میں یا گھر پر لوگوں کی جمع کرکے جماعت بنانے کی ضد کرے تو وہ بخدا خیر نہیں شر پھیلارہا ہے۔ جہاد نہیں خودکشی کررہا ہے۔ اس کی اس حماقت سے کتنے رپورٹرز اور کتنے دشمن چینلس کا TRP بڑھے گا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کا کتنا فائدہ ہوگا، اُسے اس کا اندازہ نہیں ہے۔ آپ تمام کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو جاکر روکیں۔

تراویح میں قرآن سننے کا جہاں تک تعلق ہے، یہ بات یاد رکھیئے کہ سارے صحابہؓ  قرآن کے حافظ نہیں تھے۔ کسی کو کچھ سورے یاد تھے تو کسی کو کچھ۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے ایک ایسا نظام بنادیا کہ کوئی ایک جسے پوری قرآن یاد ہو وہ امامت کرے اور تمام کو تراویح میں قرآن سنادے، تاکہ سب کے لئے قرآن کے تمام احکامات کا  Revision ہوجائے۔ صحابہؓ چونکہ عرب تھے، انہیں کسی ترجمے کی ضرورت نہیں تھی، وہ راست قرآن کو عربی میں سمجھ لیتے تھے، اس لئے تراویح کے ذریعے انہیں قرآن کو Revise   کرنے کا ایک بہترین موقع مل جاتا تھا۔ اس سے پتہ چلا کہ تروایح میں جو اصل حکمت یا Wisdomپوشیدہ ہے وہ سال میں ایک مرتبہ پوری قرآن کو شروع سے آخر تک سمجھنا ہے۔ اس کے بغیر ہماری نمازیں، روزے، تراویح اور دعائیں بالکل ایسے ہیں جیسے کوئی بغیر روح کا جسم۔ لیکن ہم عرب نہیں ہیں، عربی ہماری زبان نہیں ہے اس لئے قرآن کو راست سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ ہم کیا کریں؟ کیا بغیر سمجھے بوجھے اسی طرح ہم شبینے ادا کرتے رہیں جو صدیوں سے کرتے آرہے ہیں، جس سے قرآن سے قریب ہونے کے بجائے اور دور ہوتے جارہے ہیں؟

 کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی Majority  اگرچہ کہ نمازوں، روزوں، تراویح اور نفل عمروں کی بے انتہا شوقین ہے لیکن ان کے نزدیک  قرآن کو سمجھنا بہت زیادہ ضروری نہیں، ایسا کیوں ہے؟ لوگ قرآن کو سمجھے بغیر اپنی اپنی عبادتوں پر بہت مطمئن ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ سے کتنا نقصان ہورہا ہے، انہیں اس کا اندازہ کیوں نہیں ہے؟ اس کا سبب نہ تو ان کی دین سے دوری ہے اور نہ دین سے بیزاری۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امت ایک ایسی سازش کا شکار ہوئی ہے جس سازش کو رچنے والے نہ یہودی تھے نہ نصرانی، نہ فاشسٹ ہیں نہ کمیونسٹ۔ یہ غلطی Blunder ہمارے اپنوں کی ہے۔ چاہے انہوں نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہو یا انجانے میں۔ اس غلطی کو سمجھنے کے لئے ہمیں ”تاریخِ ترکِ قرآن  The History of Abandoing Quran کو پڑھنا پڑے گا۔ لیکن فی الحال یہ ہمارا  آج کا موضوع نہیں ہے، یہ پھر کبھی انشااللہ۔

آج کا ہمارا موضوع صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں لاک ڈاؤن کی شکل میں ایک عظیم موقع عنایت فرمایا ہے۔ ہم اس سال قرآن کو ایک بار مکمل معنوں کے ساتھ Revise  کرسکتے ہیں۔ افطار کو سادہ اور مختصر کریں اور مغرب سے عشا ء تک پورے خاندان کے ساتھ قرآن کو سمجھنے کے لئے وقف کردیں۔ آپ چاہے جس مسلک کے ہوں۔ آپ ہی کے مسلک کے کئی علما، حفاظ اور مفتی آپ کے شہر میں موجود ہیں  جو آپ کے گھر آکر روزانہ قرآن کو آیت بہ آیت سمجھا سکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو یوٹیوب پر کئی ویڈیو اور آڈیو موجود ہیں، تفسیروں کی کتابیں ہیں۔ اپنے پورے خاندان کے ساتھ گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ قرآن پر لگانا مشکل نہیں ہے۔  اس کے بعد کسی بھی ایک حافظ کو گھر پر مدعو کرکے ان سے پورے خاندان کے ساتھ  تراویح میں قرآن سنیئے۔افطاریوں پر ہزاروں روپیہ یوں بھی ہم صرف دس پندرہ  منٹ کے منہ کے  چٹخاروں پر ضائع کرڈالتے ہیں بلکہ Flush کرڈالتے ہیں۔ اس سے ہزاروں بلکہ لاکھوں درجے بہتریہ ہے کہ یہی پیسہ آپ اگر ان علما و حفاظ پر خرچ کردیں جو آپ کو قرآن سمجھاکر، سنا کر کبھی نہ ختم ہونے والا علم اور اجر دلوائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی

9642571721


 

 

 

 

 

جمعرات، 16 اپریل، 2020

ہم کہتے ہیں دوسرے مسلمان نہیں، کافر کہتا ہے تم سب مسلمان ہو

ہمارے ایک دوست جن کا تعلق ایک ضلع سے ہے، کسی کام سے پاس کے گاؤں جاکر واپس ہورہے تھے کہ پولیس نے روک لیا۔ ان کا تعلق ایک جماعت سے ہے لیکن تبلیغی جماعت سے نہیں۔ مگر ظاہر پورا تبلیغی ہی ہے۔ ان پر شک کیا گیا کہ وہ دہلی سے آرہے ہیں۔ انہوں نے پولیس والوں کو بہت سمجھایا کہ تبلیغی جماعت کیا ہے اور ان کی جماعت کیا ہے لیکن پولیس والوں نے ایک نہ مانی اور ان کے ہاتھ پر 14دن کے قرنطینہ کا اسٹامپ لگادیا۔ ہم نے پوچھا کہ انہوں نے پولیس والوں کو کیا بتایا۔ انہوں نے جو کچھ جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ تبلیغی جماعت عقیدے اورایجنڈے کے لحاظ سے واقعی تھی ہی ایسی جماعت کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ صحیح ہوا، لیکن ہماری جماعت ہر اعتبار سے ارفع واعلی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے وہی بتایا جو ہر فرقے اورہر جماعت میں پہلا بنیادی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ان کی جماعت 73ویں فرقے والی جماعت ہے اور باقی ساری جماعتیں 72فرقوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ ہمیں ایسا ہی ایک واقعہ یاد آرہا ہے،


 ایک مسجد میں فاتحہ پر جھگڑا ہوگیا۔ ایک گروپ یہ چاہتا تھا کہ امام وہ ہو جو نماز کے بعد دعا میں 'فاتحہ ' بولنے والا ہو، لیکن دوسرا گروپ اسے بدعت سمجھتاتھا۔ ایک گروہ کے امام صاحب اقامت کے بعد جیسے ہی نماز پڑھانے آگے بڑھنے، دوسرے گروپ کے دو لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے امام صاحب کو بزور پیچھے کیا اور اپنے امام کو آگے کیا، پھر کیا تھا، دھکہ بازی شروع ہوگئی اور بات مکہ بازی تک پہنچ گئی۔ ایک دوکے منہ پھوٹے اور ایک دو کے دانت ٹوٹے۔ خیر دونوں نے الگ الگ جماعتیں کیں اور اس کے بعد دونوں پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔ انسپکٹر کوئی ریڈی صاحب تھے۔ دونوں گروپ FIRلکھوانے پر بضد تھے۔ دونوں گروپ ایک ساتھ بولے جارہے تھے۔ ایک گروپ ریڈی صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ فاتحہ اسلام کا کتنا اہم رکن ہے، دوسرا گروپ ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ بدعت ہے۔ ریڈی صاحب پریشان تھے کہ یہ بدعت ہندوستانی آئین میں جرم ہے یا نہیں، لکھیں تو کیا لکھیں۔ دونو ں ہی ایک دوسرے کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے، دونوں کے نزدیک معاملہ کفر اور اسلام کا تھا۔ دونوں کو یہ یقین تھاکہ وہ جہاد علی الحق پر ہیں۔ ہمیں ان لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں۔یہ بے چارے سیدھے سادھے لوگ ہوتے ہیں۔ 

شفاعت اور مغفرت کا انہیں جو بھی راستہ بتا دیا جائے اسی پر چل پڑتے ہیں، اور جو کوئی اس سے اختلاف کرے اس سے الجھ پڑتے ہیں۔ ان کے لئے قرآن و حدیث وہی ہے جو ان کے مولوی صاحب نے یا مرشد نے یا جماعت کے امیر نے بتادیا ہے، انہی "احبار و رھبان"کی بات بلا چوں و چرا سننا اور عقل کو دخل دیئے بغیر عمل کرنا ہی دین ہے۔ شکوہ ان سے ہے جو ان کے مرشد وہ رہنما ہیں۔ کیا ان جبہ و عمامہ پوشوں کو کسی کلمہ گو کی تکفیر یا تحقیر کرنے کی حرمت کے احکام نہیں معلوم؟۔کیا یہ شیروانیوں اور ٹوپیوں میں وعظ و تقریر کرنے والے مولوی حضرات، صحابہ رضی اللہ عنھم کا کوئی ایک بھی واقعہ ایسا بتا سکتے ہیں جس میں کسی صحابی نے مذہبی اختلاف کی بنیاد پر کسی دوسرے صحابی کو منافق، مشرک، کفر یا بدعتی کہا ہو یا کوئی اور مذاق اڑانے والا نام دیا ہو؟۔

ہم کو ہمارے ہیں مذہب کے چوکیداروں نے مسلکوں اور عقیدوں میں اتنی سختی سے جکڑ رکھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ہی پہلے مسلمان ماننے کو تیار نہیں، جب کہ کافر ہم کو منوا رہا ہے کہ تم سب مسلمان ہو۔ آج آپ سن رہے ہیں کہ مسلمان دوکاندار وں اور میوہ ترکاری فروشوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے،لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کو نوکریوں سے نکالا جائے گا۔ کافر یہ نہیں دیکھے گا کہ آپ تبلیغی ہیں یا سلفی، دیوبندی ہیں یا بریلوی، سنی ہیں یا شیعہ، آج امت پر جو ذلت، تہمت اور غربت و افلاس کا عذاب آیا ہے یہ صرف انہی لوگوں کو وجہ سے آیا ہے جو اپنے مسلک اور عقیدے کے حق ہونے کی جنگ آپس میں لڑ رہے ہیں اور معصوم مسلمانوں کو لڑوارہے ہیں۔ ان جاہل مسلمانوں کو جن کو نہ قرآن سمجھ میں آتی ہے نہ حدیث۔ جو مکمل اندھی عقیدت کے ساتھ ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ جو صبح سے شام تک پچاس چھچورے واٹس اپ تو دیکھ سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ موضوع پر ایک ورق پڑھنا نہیں چاہتے۔ جمعہ کے دن اول وقت مسجد میں داخل ہوکر خطیب کو سننا نہیں چاہتے۔ آپ دوسرے فرقے یا دوسری جماعت کے مسلمانوں کو اپنی طرح کے مسلمان مانیں یا نہ مانیں لیکن دشمن کے ڈنڈے، تلواریں، گولیا ں اور گھروں کو جلانے والی مشعلیں مانتی ہیں کہ آپ مسلمان ہیں۔ آپ کو جو شودر بنائے تلے ہیں وہ بڑے دشمن نہیں ہیں۔ آپ کے اصل دشمن وہ ہیں جو مسلمانوں کو ہی مسلکوں اور عقیدوں کی بنیاد پر اونچ نیچ بنارہے ہیں۔ ان کی قرآن و حدیث انہیں مشرکوں کو "اسلام و ایمان یعنی سلامتی اور امان "کی دعوت دینے کے کا م نہیں آتی بلکہ مسلمانوں کو ہی اسلام سے خارج کرنے کے کام آتی ہے۔

آج فقہی موضوعات پر ضخیم کتابیں لکھنے والوں سے، عقیدے پر گھنٹوں گرجدار وعظ و تقریر کرنے والوں سے اور اپنے اپنے مسلک کے حق ہونے پر ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اڑجانے والوں سے یہ ایک حدیث (کم سے کم ایک، ورنہ یو ں تو اور بھی حدیثیں ہیں)یہ فریاد کررہی ہے کہ اپنے مسلک اور عقیدے کو ہی حق سمجھنے کے غرور اور تکبر سے باہر آؤ، دوسرے تمام موضوعات جن سے مسلک اور گروہی عقیدے تو قائم ہوسکتے ہیں لیکن اسلام کھڑا نہیں ہوسکتا، انہیں چھوڑو اور پہلے اس حدیث پر ایمان لاؤ، اس کو اپنا ؤ، اسی کو پھیلاؤ اور اسی پر اڑ جاؤ۔چاہے سامنے والے کا عقیدہ، مسلک اور عمل کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، تم اس کے حساب لینے والے اور اس پر لعنت کرنے والے یا سزا دینے والے نہ بنو، اپنی آخرت کا سوچوکیونکہ ہوسکتا ہے یہی ایک حدیث کل قیامت میں تمہارے خلاف نہ کھڑی ہوجائے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ و سلم نے "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے لوگ سلامت رہیں۔ اور مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کی جان اور مال امان میں ہوں۔  (سنن ترمذی 2504، بخاری، مشکوۃ)۔ 

آج یقینا مسلمانوں کے اعمال کفر، شرک، منافقت اور بدعتوں سے بھرپور ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو قرآن و حدیث میں کہیں ایک جگہ بھی کیا یہ حق دیا گیا ہے کہ ہم کسی کو کافر، مشرک، منافق یا بدعتی کہہ سکتے ہیں؟ اگر اس شخص کا خاتمہ ایمان پر ہوگیا تو کل قیامت میں ہمارا کیا ہوگا؟کیا ہماری تصانیف، وعظ و تقریر ارو بحث و حجتیں ہمارے کام آئیں گی؟یہ الشیخ۔۔۔ حفظہ اللہ، دامت برکاتہ، مولانا، سید سادات یا سجادے ہونے کا لیبل کام آئے گا؟۔ ہم کو صرف، صرف اور صرف دعوت پہنچانے اور اس شخص کے حق میں تہجد میں اٹھ کر دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لست علیھم بمصیطر (غاشیہ22)بخدا جس کا مذہب،مسلک یاعقیدہ کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں دل میں بھی یہ سوچنے کا حق دے کہ وہ کافر، مشرک، منافق یا بدعتی ہے تو وہ مسلک یا عقیدہ ہی اس کو جہنم میں لے جائیگا۔ اگر آج ہندوستان میں عزت و وقار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دشمن سے عزت کی بھیک نہ مانگیں، پہلے خود ایک دوسرے کو ویسی عزت دینا سیکھیں جیسی اس حدیث میں حکم دیاگیا ہے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر، سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدر آباد

9642571721


 

  

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...