منگل، 19 مئی، 2020

ترکی ڈرامہ ارطغرل ۔ ایک انقلاب کا اشارہ


 

ترکی کے ڈرامے Ertugralجس کو اردو  میں غازی ارطغرل یا ارطغول کہا جاتا ہے، اس وقت ساری دنیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ امریکہ میں اسے ”بے آواز ایٹم بمSilent atomic bomb“ کہا جارہا ہے۔ مصر اور سعودی عرب میں اسے Banned کردیا گیاہے، کئی علما اس کو مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا ایک سبق کہہ رہے ہیں تو کچھ علما اس کا دیکھنا ناجائز اور حرام کہہ رہے ہیں۔ لیکن عوام کا یہ حال ہے کہ Netflix & Youtubeپر اس سیرئیل نے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے بھی تمام TRP Records توڑ دیئے ہیں۔ گھر گھر مرد  اور خواتین ہی نہیں بچہ بچہ اس کا دیوانہ ہوچکا ہے۔ 150 قسطوں پر مشتمل یہ سیرئیل تاریخی، ادبی اور عہدِ حاضر کی تمام فنّی مہارتوں سے پُر ہے۔اس سیرئیل کو کئی اعتبار سے ایک انقلابی Turning point کہا جاسکتا ہے۔ پہلے ہم اس پر ہونے والے چند اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے اور سارے واقعات Dramatised  ہیں۔ یہ بالکل صحیح تجزیہ ہے،ارطغرل کا کردار حقیقی ہے لیکن واقعات کو ڈراماٹائز کیا گیا ہے،  لیکن جتنے کردار ہیں سارے کے سارے  آج کی دنیا کے چلتے پھرتے کردار ہیں،سچے ہیں اور آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں  جو امت مسلمہ کی ذلّت و رسوائی کا سبب ہیں۔ اس سیرئیل کو غور سے دیکھئے اور اپنے موجودہ حالات پر نظر ڈالیئے۔ کیا Ural اور Kortuglu جیسے غدّار لیڈر بننے اور Power حاصل کرنے کے لئے دشمنوں سے ہاتھ ملا کر اپنے ہی بھائیوں کو نقصان نہیں پہنچاتے؟کیا آج عزیز جیسے بیوقوف حکمران موجود نہیں ہیں جن کو یہی خبرنہیں کہ انہی کے محل میں ان کی محبوبائیں اور وزیر مسلمانوں کے بھیس میں گُھسے ہوئے ہیں جو دراصل عیسائی Crusaders ہیں؟ کیاNoyan اور Alanchak جیسے منگولوں کی شکل میں  اسلام دشمن کفّار  آپ پر مسلّط نہیں ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں؟ کیا Aytulan, Gonchagul اور Colpan جیسی چالباز عورتیں ہمارے خاندانوں میں نہیں ہیں؟ کیا Saaduddin Vazirکی طرح کے منافق ہمارے درمیان نہیں ہیں جو جس کا نمک کھاتے ہیں اسی کی پیٹھ میں چُھرا گھونپتے ہیں؟ کیا Bahadur Bey, Batulan, Alptakin اور Gumustakinجیسے مسلمان جاسوس ہمارے اپنے محلّوں میں نہیں ہیں جو چند سِکّوں کی خاطر جاسوسی کرتے ہیں اور اپنے ہی ہیروز کو پسپا کرتے؟ کیا Titus, Aeris, Cardinal اور Bazantinians جیسے عیسائی اور یہودی مسلمانوں کو لڑوانے کی عالمی سیاست  نہیں کھیل رہے ہیں؟ کیا Dundar Bey جیسے سگے بھائی نہیں ہیں جو ایک لڑکی کی عاشقی کی نادانی میں خاندانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں؟

یہ سارے کردار سچے ہیں اور ہر جگہ موجود ہیں۔ نہیں ہے تو آج ایک  ارطغرل نہیں ہے جو کبھی واقعی تھا۔ جس کی ہمت، ذہانت اور بہادری کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت، سلطنتِ عثمانیہ وجود میں آئی۔ یہ سیرئیل دیکھتے ہوئے ہر دل میں ایک ارطغرل بننے کی تمنا پیدا ہوتی ہے۔ یہ فلم ان تمام غدّاروں سے مقابلہ کرنے کے لئے تلوار سے زیادہ عقل اور جوش سے پہلے ہوش استعمال کرنے کے گُر سکھاتی ہے۔ ارطغرل کا مقصدِ حیات مظلوم کی مدد اور عدل و انصاف کا قیام دکھایا گیا ہے، اسی مقصد کے لئے وہ اپنی جان کی پروا نہیں کرتا اور ہر دشمن کو مارگراتا ہے۔ عدل اور انصاف کا قیام ہی ایک اسلامی ریاست کو قائم کرسکتا ہے، یہی اس سیرئیل کا اصل میسیج ہے۔

دوسرا الزام اس سیرئیل پر یہ ہے کہ یہ محض ایک فلم ہے اور فلم دیکھنا اسلام میں حرام ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں انگریزوں کی ہر ایجاد پہلے حرام قرار دے دی جاتی ہے، پھر اسے حلال ہوتے ہوتے کئی سال لگ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم زمانے سے کئی سال بلکہ کئی سو سال پیچھے ہیں۔ جس طرح پرنٹنگ مشین حرام تھی، لاؤڈاسپیکر، گھڑیا ل دیکھ کر اذان دینا حرام تھے، اسی طرح ہم نے حالیہ تاریخ میں بھی انٹرنیٹ، TV، فلم، موبائیل، تھیئٹر، سوشیل میڈیا،  کیمرہ اور ویڈیووغیرہ ایجاد ہونے ساتھ ہی انہیں حرام قرار دے دیئے۔ ان فتوؤں پر مشتمل بے شمار کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ برسوں بعد یہ رفتہ رفتہ حلال ہونے لگے بھی تو اس حد تک کہ آپ مولاناؤں کی تقریریں سن سکتے ہیں۔

                غورفرمایئے۔ ہماری کم سے کم دو نسلیں علمی اور تہذیبی طور پر انٹرنیٹ کے دور میں اپنے شعور کو پہنچی ہیں۔ Tom & Jerry کے ساتھ بچپن گزرا ہے، مائیکل جیکسن کے ساتھ جوان ہوئے ہیں اور گوگل سے دین، History اور کلچر سیکھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثریت کو وہی تاریخ معلوم ہے جو انہیں TV،یا انٹرنیٹ پر انگریزوں نے بتائی ہیں۔ جس میں ہمارے ہیروز کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا لیکن ان کے ہیروز کا تذکرہ اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ وہ اصلی مہذب اور تاریخ ساز لوگ تھے۔ حالانکہ صدیوں پورے ایشیا، افریقہ اور آدھے یورپ پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ سائنس، ٹکنالوجی، حساب، فنِ تعمیر اور ادب میں صرف مسلمانوں ہی کی تہذیب تھی جس کا عشرِ عشیر بھی کسی اور قوم کے پاس نہیں تھا۔ آغازِ اسلام سے لے کر 19th سنچری تک مسلمانوں سے منگولوں، عیسائیوں اور یہودیوں نے بے شمارخونی جنگیں لڑی ہیں، لیکن جیت آخر میں مسلمانوں ہی کی ہوئی ہے۔ لیکن جب کیمرے، ویڈیو اور انٹرنیٹ ایجاد ہوئے  تو ہم حلال حرام کی بحثوں میں اٹک گئے۔ اسی طرح جس طرح بغداد میں جب ہلاکو خان داخل ہوا اس وقت ہم گدھے اور کوّے کا گوشت حلال ہے یا حرام کی بحثوں میں مشغول تھے۔ غیروں نے میڈیا،  فلموں، ڈاکومینٹریز اور E-Libraries کے ذریعے انٹرنیٹ پر اتنا مواد بھر دیا کہ آج خود ہماری نسلیں اس کامپلیکس میں مبتلا ہیں کہ کیا کبھی مسلمانوں نے جنگوں اور مذہبی اختلافات پر بحثوں کے علاوہ بھی کچھ اور کیا ہے؟  کیونکہ پورے میڈیا میں مسلمانوں کا کردار طالبان، القاعدہ  یا داعش ISIS کی طرح صرف خون بہانے والوں کا ہے۔

                تنی طویل تمہید کا حاصل یہ ہے کہ ارطغرل سیریز نے پہلی مرتبہ امریکہ اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ کسی نے آج تک تاریخ میں یہود ونصٰرٰی کا وہ مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا تھا جیسے اس سیریز میں پیش کیا گیا ہے۔ چونکہ تاریخ کے یہ سچے اوراق ہیں اس لئے امریکہ یا یورپ اسے جھٹلا نہیں سکتے۔مسلمان اگر ٹکنالوجی کو حرام نہ کئے ہوتے، اور کئی اہم مضامین کی طرح Historyکو بھی مدرسوں کے نصاب سے نکالے نہ ہوتے تو ارطغرل جیسے کئی ہیروز کو اسکرین پر پیش کرکے ہم امریکہ و یورپ کو ہی نہیں ساری دنیا کو اسلامی تہذیب، طاقت  اور کارناموں کا قائل کرچکے ہوتے۔ اس سیریز نے مثبت سوچ اور ہمت رکھنے والوں کو اور بالخصوص خلافِ اسلام بننے والی فلموں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ایک زبردست پیغام دیا ہے کہ اگر آپ خود آگے بڑھ کر حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی نے نہیں روکا، احتجاج اور فتوے بند کیجئے اور خود کچھ کردکھانے کا اعتماد پیدا کیجئے۔ جو لوگ  شادیوں پر اور نفل عمروں پر اور کئی دوسری فضولیات پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں، اگر وہ امت کے لئے ایک تعمیری کام کریں، اور یہ پیسہ مثبت کام میں لگائیں تو ہم ہندوستان سے ایسے کئی ارطغول بنا کر دکھا سکتے ہیں جو فاشسٹوں کے ہرجھوٹ کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ ہم صحیح اسلام کی تصویر کروڑوں گھروں میں پہنچا سکتے ہیں۔

اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تصویر، ویڈیو، فلم، عورت کا اسکرین پر آنا سب حرام ہیں، لہوالحدیث ہیں تو ان اعتراضات میں بھی کوئی دم نہیں ہے۔ اعتراض کرنے والوں میں 90%وہ لوگ ہیں جن کی نمازوں میں بھی جیبوں میں Samsung,اور  IPhone ہوتے ہیں۔ ان کے گھر والوں کے ہاتھوں میں دن بھر موبائیل، IPad  اور لیپ ٹاپ ہوتے ہیں۔ یہ سب دن میں کتنی بار تصویریں دیکھ رہے ہیں، عورتوں کو دیکھ رہے ہیں اور سوشیل میڈیا کے ذریعے کتنے لہوالحدیث کے مرتکب ہورہے ہیں انہیں اس کا اندازہ ہے۔ اس کے باوجود اگر فلم حرام، عورت کا اسکرین پر آنا حرام اور لہوالحدیث حرام کے  فتوے دے رہے ہیں تو ”وما یخدعون الّا انفسھم وما یشعرون“ یہ کسی کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

                جس طرح اب وقت نے ہمیں یہ سکھادیا ہے کہ اب ہمیں شوگر، کرونا، ایڈز اور کینسر کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، ہمیشہ لاک ڈاؤن نہیں چل سکتا اسی طرح اب ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ سیرئیلس، فلموں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور گوگل کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ اسلام کا ان کے ذریعے تصوّر پہنچانا ہوگا،  ورنہ  ان کو حرام کرکے ہم دین کودنیا سے اور بھی  دور کردیں گے۔ نہ ویڈیو حرام ہے نہ فلم لہوالحدیث ہے، اور نہ عورت کا اسکرین پر آنا زِنا ہے۔ یہ سب Depend کرتا ہے آپ کے مقصد پر کہ آپ ان چیزوں کو ایک نیک مقصد کے لئے استعمال کررہے ہیں یا برے مقصد کے لئے۔ گھر کے کچن کی چُھری سے اگر کوئی کسی کا قتل کردے تو کیا چُھری رکھنے کو حرام کردیں گے؟

یہ بھی ایک اعتراض ہے کہ ارطغرل میں کام کرنے والے ایکٹرز یورپین کی طرح کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے طرزِ زندگی سے کہیں اسلام نہیں جھلکتا۔ یہ بھی ایک لغو الزام ہے۔ مسجد کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کا اسلامی لباس پہن کرآنا، باوضو ہونا اور نمازی ہونا شرط نہیں ہے۔ ایکٹرز بھی ایک مزدور کی طرح ہیں جنہوں نے کام کیا، مزدوری لی اور چلتے بنے۔ کئی علما اور مشائخین ایسے ہیں جو جہیز اور جوڑے کی رقم کو حرام کہتے ہیں، اس کے خلاف خوب تقریریں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ اپنے گھروں کی شادیوں میں ان  حرام چیزوں کو نہیں روک سکتے،، کیا ان پر آپ ارطغرل کے ایکٹرز کی طرح فتویٰ لگائیں گے، کیا ان کی اتباع بند کردیں گے،؟  علامہ اقبال، قائدِ اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد کی نہ  بڑی داڑھیاں تھیں اور نہ ٹوپیاں  یا عمامے۔ لیکن ان کے کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کی تاریخ روشن ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا عالم یا اپنے وقت کا ولی بھی ان کے کارناموں سے انکار نہیں کرسکتا۔ ہمیں کسی کے چہرے یا لباس کو دیکھ کر اس کے ایمان کی پیمائش Measure کرنے کی روش کو بدلنا ہوگا۔ایک بات اور سمجھنے کی ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح اب دور e-Commerice, e-Banking اور e-Education کا ہے، ہر ہر چیز انٹرنیٹ کے تابع ہوتی چلی جارہی ہے، اب اسلام کو بھی e-Islam  کرنا ہوگا۔ جن گھروں میں دادا جان کی لائی ہوئی اسلامی کتابوں کی ضخیم جلدیں تھیں اب انہیں دیمک کھارہی ہے۔ انہیں اب کوئی پڑھنے والا نہیں ہے۔ آپ کی زبان کے ساتھ ہی آپ کا پورا علمی اور تہذیبی سرمایہ ختم ہورہا ہے۔ جمعہ کا خطبہ سننے کے لئے کسی پاس وقت نہیں ہے، چاہے خطیب کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو۔ لوگ جماعت کھڑی ہونے سے پانچ منٹ پہلے آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکل جاتے ہیں، کیوں؟۔۔۔ کیونکہ انہیں انٹرنیٹ پر ہی ان کی پسند کے علما، کلاسس اور لکچرز اتنے مل رہے ہیں کہ وہ اب کسی عالم یا مولوی یا مسلک یا جماعت کے پابند نہیں رہے۔ اب e-Islam  کا دور ہے۔ آئندہ وہی دین چلے گا جو انٹرنیٹ، موبائیل یا کمپیوٹر پر ویڈیو اور کیمرے کے ذریعے ہوگا۔ اب تعلیم یافتہ طبقہ اجتماعات، جلسوں یا خطبوں میں نہیں آئے گا بلکہ Zoom, Facebook, Skype پر E-Ijtema میں آئے گا۔ اسی طرح اگر آپ کو اپنی History کو زندہ کرنا ہو تو یہ ارطغرل کی طرح Youtube & Netflix پر زندہ کرنا ہوگا۔  اگر آپ ان چیزوں کو حرام کرکے لوگوں کو پرانی روش پر واپس لانا چاہیں گے تو یہ ناممکن ہے۔  اب تو بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ نہ ویڈیو حرام ہے، نہ انٹرنیٹ اور نہ عورت کا اسکرین پر آنا حرام ہے۔ ہاں ان چیزوں کا استعمال حلال یا حرام ہوسکتا ہے۔ اگر عورت کو اسکرین پر آپ اخلاقی اور تعمیری مقصد کے ساتھ لائیں گے تو یہ جائز ہوگا اور اگر اسے ناچنے، تِھرکنے اور فحش کاری کے لئے پیش کرینگے تو حرام ہوگا۔ عورت کے متعلق ہمارے رویّہ اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ وہ دور چلا گیا جب عورت کو ناقص العقل اور ساقط الاعتبار کہا جاتا تھا۔ اسے صرف اتنی ایجوکیشن کی اجازت تھی کہ وہ دھوبی کا حساب لکھ سکے اور اپنے ماں باپ کو خط لکھ سکے۔ آج عورت ایکٹر ہے، نیوز ریڈر ہے، پائلٹ ہے، جج اور ایڈوکیٹ ہے، وزیراعظم ہے، سرجن اور جرنلسٹ ہے، پروفیسر ہے اور کیا نہیں ہے؟ اب آپ عورت کو اس دور میں دھکیل نہیں سکتے جس دور میں ہم نے صدیوں اسے Patriarchy کی مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر رکھا۔ ہاں اگر کوئی عورت برقع پہنتی ہے، نقاب لگاتی ہے اور دستانے پہنتی ہے تو آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ فلاں مسلک کے اصولوں کی پابندی کرتی ہے۔ لیکن جو عورتیں یہ نہیں کرتیں ان کو یہ کہہ دینا کہ زنا کررہی ہیں یا غیراسلامی ہیں یہ غلط ہے۔ یہ اپنے خودساختہ دین کے تصور کا تکبر ہے۔ ہندوستان، پاکستان، سعودی عرب، انڈونیشیا اور دوسرے کئی مسلم ممالک میں کروڑوں عورتیں نوکریاں کررہی ہیں شاپنگ کے لئے نکل رہی ہیں جو برقع نہیں پہنتیں۔ خود ہر شخص کے گھر یا خاندان میں کئی عورتیں ایسی ہیں جو نوکری بھی کررہی ہیں، شاپنگ بھی کررہی ہیں بہت اچھی مسلمان ہیں لیکن پردہ نہیں کرتیں۔ کیا معاذاللہ یہ ساری عورتیں زنا کررہی ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ یہ اسلام کی غلط تعبیر ہے۔ 

                ارطغرل پر بعض لوگوں کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ڈرامہ یا تھیٹر سے اسلام نہیں پھیلتا۔ اس غلط فہمی کو ذہنوں سے نکالنا ضروری ہے۔ یہاں ہم اِس دور کے ایک اہم انٹلکچول جنہوں نے ندوہ اور جامعۃ الفلاح دونوں سے عالم کی سند حاصل کی، پھر IRFاور تلنگانہ ٹی وی کے میڈیا ڈائرکٹر رہے، کئی اہم ڈاکومینٹڑیز بناچکے ہیں، بہترین اسکرپٹ رائٹر، اسپیکر اور گیت کار ہیں۔ میڈیا کی اہمیت پر کئی ورکشاپ منعقد کرچکے ہیں  -  جناب صداقت حسین فلاحی صاحب، ان کی تقاریر کا لب لباب پیش کریں گے کہ  قرآن کی دعوت میں میڈیا، ڈراماٹائزیشن اور تھیٹر کے سارے عناصر موجود ہیں۔ نبی کے معنی ہی خبر دینے والے کے ہیں۔”عم یتساء لون، عن النباء العظیم؟“ نبا کہتے ہیں خبر کو۔ نبی جو خبر لاتے ہیں وہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ لوگوں میں بات پھیلانے کو میڈیا کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے  ہرنبی سے اس دور کے مروّجہ مزاج کو سامنے رکھ کر میڈیا کا کام لیا ہے۔ فرعون کے جادوگروں کے دل میں بات اتارنے کے لئے اللہ نے موسیٰ ؑ سے تقریر نہیں کروائی۔ بلکہ سانپوں کا ایک سین پیدا کیا۔ اس کو میڈیا کی زبان میں Dramatisation کہتے ہیں۔ اس کے کلائمکس پر لوگ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں، اور ایمان لے آتے ہیں۔ یہ بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کا چھوٹے بتوں کے سروں کو توڑ دینا اور کلہاڑی کو بڑے بت کے گلے میں ٹانگ دینا۔ جب لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارے بتوں کے سروں کو کس نے توڑدیا، تو آپ ؑ کا یہ کہنا کہ ”بڑے بت سے پوچھو“۔اس کو میڈیا کی زبان میں Suspense پیدا کرنا کہتے ہیں۔ اس کے کلائمکس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا مقصود تھا کہ جو بت خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟سسپنس پیدا کرکے دعوت پہنچانا بھی دعوت کا ایک اہم جز ہے۔ اسی طرح ابراہیم ؑ کا قوم سے یہ کہنا کہ سیّارہ ہمارا رب ہوسکتا ہے، جب وہ ڈوب گیا تو کہنا کہ نہیں، چاند ہمارا رب ہوسکتا ہے، پھر کہنا کہ یہ تو ڈوب گیا،یہ ہمارا رب نہیں ہوسکتا، سورج کو ہمارا رب ہونا چاہئے۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو سیارے، چاند اور سورج کو جس اللہ نے پیدا کیا اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا۔ کیا ابراہیم ؑ نے شرک کیا؟ کیا انہوں نے جھوٹ کہا؟ نعوذباللہ۔ دراصل یہ سب کچھ اللہ ہی نے ان سے کہلوایا۔ یہ تھیٹر کی ایک مثال ہے۔ اس سے لوگوں میں دلچسپی، تجسس  اور Logical thinking پیدا کی جاتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سیدھے سیدھے ابراہیم ؑ سے تقریر کرواکر چاند سورج کی عبادت کو حرام کرکے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم پہنچا سکتا تھا۔

                بہرحال دعوت یا تبلیغ کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف درس یا تقریر کرنے سے دین پھیلتا ہے، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے میڈیا کے تمام Elementsکا بھرپور استعمال کرتا ہے۔جیسے نوح ؑ کا کشتی بنانا، لوگوں کا جمع ہونا، کسی کا مذاق اڑانا، کسی کا غور کرنا، اسی طرح یونس ؑ کا مچھلی کے پیٹ میں پہنچ جانا، یوسف ؑ کا کنویں میں پھر محل میں، پھرجیل میں اور پھر محل میں پہنچ جانا۔ چونکہ ڈرامہ، سسپنس، کلائمکس، تھیٹر وغیرہ کے الفاظ ہمیشہ حرام کی زد پر رہے ہیں اس لئے ان الفاظ کے ساتھ ایک منفی تصوّر قائم ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ان الفاظ کے استعمال کرنے پر ہمیں فتوؤں سے نواز دیں۔ لیکن اگر وہ ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو قرآن کے ان تمام واقعات میں جو ڈراماٹائزیشن نظر آئے گا وہی دعوت کیلئے بھی لازمی ہے۔  عہدِ حاضر میں ہم کو اسلام پہنچانے کے لئے وہی میڈیا استعمال کرنا ہوگا جو ارطغرل میں پیش کیا گیا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ارطغرل میں بالکل جھوٹ پیش کیا گیا، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہی کام ہم پر فرض نہیں ہے۔ اگر آپ اسے غلط سمجھتے ہیں تو آگے بڑھئے اور صحیح کیا ہے پیش کیجئے۔ خود کچھ نہیں کرینگے اور صرف فتوے دیں گے تو اس سے امت کو بھی اور دین کو بھی سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انڈین ٹی وی پر مسلسل غیرسائنٹفک، غیرعقلی، خرافات اور جھوٹی مذہبی داستانوں کو ڈراماٹائز کرکے اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ اس کے سیرئیل بھی کروڑوں لوگ دیکھ کر پاگل ہورہے ہیں اور خرافات کو صحیح سمجھ رہے ہیں اور غلط عقیدوں پر اور سختی سے جم رہے ہیں؟ اب ضرورت ہے کہ امت مسلمہ میڈیا کا بھرپور استعمال کرے ورنہ جس طرح آپ کے بچے یہ خرافات دیکھ دیکھ کر متاثر ہورہے ہیں کل ہوسکتا ہے اپنا ایمان ہی نہ بدل ڈالیں۔ اہلِ مدرسہ اور اہلِ مسالک اب یا تو دور رہیں اور فتوؤں کو بھی دور رکھیں، یا پھر میدان میں اتریں اور ٹکنالوجی سیکھ کر صحیح دین کو میڈیا کے تقاضوں کے مطابق پیش کریں، یہی e-Islam ہے۔ اب مسلمان ہوں کہ غیرمسلم، جو تعلیم یافتہ ہوں گے اسی کے ذریعے اسلام کے قریب آئیں گے۔

                اب آیئے ارطغرل کی کہانی کی طرف۔ ارطغرل کی کہانی دلوں میں ایک ایمان کی بجلی پیدا کرتی ہے۔ پوری مسلم ورلڈ میں مسلمانوں کی جو سیاسی اور معاشی اور تعلیمی حالت ہے اس کی وجہ سے جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی اور ایک طرح کی الحاد پرستی Atheism پیدا ہوتی جارہی ہے ایسے مایوسی کے اندھیروں میں ارطغرل ایک مردانہ عزم وحوصلے اور ہمت کی ایک کرن ہے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ بدر، جنگ یرموک اور جنگ قادسیہ کس طرح لڑے گئے ہوں گے۔ اسے دیکھ کر یہ جوشِ ایمانی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ پر مکمل یقین رکھنے والے چاہے مٹھی بھر چند ہی کیوں نہ ہوں، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ اس سیریز میں ارطغرل کو جن حالات میں گِھرا دکھایا گیا ہے وہ آج کے حالات سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک طرف اسلام دشمن منگول ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان کا ذبیحہ کھانے کے بجائے اسلامی طریقے پر جانور کو ذبح کرکے کھاتا ہے تو اس کی گردن ماردیتے ہیں۔ مسجدوں کے مینار گِرا کر مسجدوں میں گھوڑے باندھنے کا حکم دیتے ہیں۔ اگر کسی نے اذان دینے کی کوشش کی، ٹوپی، داڑھی یا کسی اور طریقے سے اسلام کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو اس کی سزا موت ہوتی تھی کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے جیل خانے نہیں ہوا کرتے تھے۔ منگول یہ چاہتے تھے کہ ساری دنیا پر صرف ان کا راشٹرقائم ہو۔

دوسری طرف مسلمان حکومتیں جیسے سلجوق اور ایوبی وغیرہ  تھے،  ایک دوسرے سے جنگ کررہے تھے اور خونِ مسلماں دونوں طرف بہہ رہا تھا۔ تیسری طرف بیت المقدس کو واپس لینے کے لئے انگلینڈ، Crusaders, Templars & Bazantine  ہر طرف سے حملے کررہے تھے۔ ان کے پاس تربیت یافتہ جنگجو Mercenaries تھے  جن کی Main strategy مسلمانوں کو لڑوا کر دونوں کا خاتمہ کردینا تھا تاکہ پورے عرب پر ان کی حکومت قائم ہوجائے اور وہ یروشلم سے حکومت کریں۔ چوتھی طرف ارطغرل کے اپنے قبیلے قائی کی طرح ہزاروں قبیلے تھے۔ ہر قبیلہ کے سردار تمام قبیلوں کا سردار بننا چاہتا تھا۔ قبیلے کے اندر ہر شخص لیڈر بننے کے لئے کسی کے بھی ہاتھوں بِک سکتا تھا۔ پانچواں مسئلہ یہ تھا کہ ہر قبیلے میں عورتوں کی سیاست مردوں سے زیادہ تھی۔ بڑے بڑے سردار عورتوں کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ ان حالات میں ارطغرل اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے عدل قائم کرنے کے مقصد سے اٹھتا ہے۔ اس کا آخری مقصد اللہ کی رضا اور اسلام کا پرچم بلند کرنا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سگے بھائی اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اسے قبیلہ چھوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ قبیلے کے دوسرے لوگ جو منگولوں، عیسائیوں اور سلجوقیوں یا ایوبیوں کے لئے اشرفیاں لے کر جاسوسی کا کام کرتے ہیں، وہ حسد یا جلن کی وجہ سے یہ برداشت نہیں کرتے کہ ارطغرل ہیرو بن جائے۔ وہ اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ سارے واقعات کو اس قدر مضبوطی کے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب تک یہ غرور صرف ہالی ووڈ کو ہی تھا کہ ایسی بڑی فلمیں صرف وہی بناسکتے ہیں۔ لیکن ارطغرل کے بنانے والوں نے ثابت کردیا کہ مسلمانوں میں ہالی ووڈ سے زیادہ ذہین لوگ موجود ہیں۔ کہانی کا مقصد اور میسیج ایسا ہے کہ دیکھنے والا پہلے سین سے ہی اپنے اندر ارطغرل کا جذبہئ ایمانی ساتھ لے کر دیکھتا ہے۔ یہ دیکھنے سے لوگوں کے اندر خوف اور Inferiority Complex ختم ہورہا ہے۔ منافقت کے خلاف ضمیر زندہ ہورہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کو پھر سے زندہ کرنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اگر ایسے ایک دو چار اور سیرئیل بنادیئے گئے تو یہ ایک انقلاب کانقارہ ثابت ہوں گے۔

 

 

جہاں تک سعودی عرب اور مصر وغیرہ کے ارطغرل کے خلاف غصہ اور فتوؤں کا تعلق ہے، یہ مکمل سیاسی ہیں۔ یہ تاریخ ہے کہ ترکی سے انگلینڈ کی دشمنی محض پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے نہیں تھی۔ انگلینڈ ہمیشہ سے مسلمانوں کو ختم کرکے اسرائیل کی ریاست کو قائم کرنے کے لئے صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے کوشش کرتا آرہا تھا۔ ہمیشہ ناکام ہوا لیکن آخری میں 1923 میں اسے کامیابی حاصل ہوئی جب وہ رشیا اور فرانس کی مدد سے سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس مرحلے میں سعودی عرب اور مصر بجائے ایک مسلمان کا ساتھ دیتے انہوں نے انگلینڈ کا ساتھ دیا۔ انگلینڈ کلکتہ میں مقیم وائسرائے کے ذریعے عمان کے راستے ہتہیار فراہم کرتا رہا۔ آل سعود کے عبدالعزیز جو اس وقت تک کِنگ نہیں بنے تھے ترکوں سے دوستی کا عہد کرکے بھی پیچھے سے  انگلینڈ کے ہمنوا تھے۔ترک فوجیں انگلینڈ اور فرانس کے خلاف کئی محاذوں پر لڑرہے تھے۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر  عبدالعزیز  نے احصا اور دمام سے ترکوں کو نکال کر قتل کیا اور شریف آف مکہ نے اپنی فوجیں ایک انگلش کمانڈر Lawrence of Arabia کے حوالے کردیں۔ ہزاروں ترکی قتل کئے گئے، ترکی کی  ترکی سے مکہ تک کی ریلوے لائن اڑادی گئی۔ شائد اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے انعام کے طور پر عبدالعزیز اور شریف آف مکہ کو ایک ایک ملک مل گیا لیکن ایک عظیم سلطنتِ مسلمان جو سلطنتِ عثمانیہ کہلاتی تھی، جو مسلمانوں کی آخری Super power تھی، جو چالیس ملکوں پر یعنی تین براعظموں 3 Continets پر پھیلی ہوئی تھی، وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک شان، ایک طاقت اور دنیا پر رعب اور دبدبہ کا خاتمہ ہوگیا۔ ترکوں اور سعودیوں کی دشمنی کی یہ ایک وجہ تو مسلّم ہے۔

ارطغرل کی مخالفت کی دوسری وجہ ایک سعودی صحافی خشوقجی کا قتل بھی ہوسکتا ہے جس کو چھپانے بلکہ دبانے کے لئے سعودی عرب کو کئی ملین ڈالر کی رشوت امریکہ کو دینی پڑی، اس کا راز فاش کرنے والا ترکی ہی تھا۔ تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ 2023 میں ترکی ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوجائیگا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد اس پر عائد کردی گئی تھیں۔ اس کے بعد ترکی کے مسلم ورلڈ میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بن جانے کے پورے پورے امکانات ہیں جو سعودی عرب کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے جس طرح ایک فقیرمسکین ملک افغانستان پر حملہ کرنے مسلمان ملکوں نے یہودونصری کا ساتھ دیااسی طرح پھر سے یہی مسلمان ممالک دوبارہ ترکی کے خلاف غیروں کا ساتھ دیں اور ترکی کو آزادی سے روک دیں۔ چونکہ ارطغرل بنانے میں طیب اردگان کا ہاتھ ہے، یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ طیب اردگان کی طرف سے ایک بار پھر خلافت قائم کرنے کا اشارہ ہے۔ چونکہ طیب اردگان کی مقبولیت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، برما ہو کہ فلسطین، کشمیر ہو کہ یغور (چین)، جہاں بھی ظلم ہوتا ہے سب سے پہلے آواز اٹھانے والا ترکی ہی ہوتا ہے اس لئے امکانات ہیں کہ ترکی کو ختم کرنے سعودی عرب اورمصر کو پھر سے استعمال کیا جائے گا، کیونکہ ان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ ترکی میں اردگان سے پہلے مصطفیٰ اربکان اور مصر میں محمد مرسی پر جھوٹے الزامات لگا کر یہ لوگ اسلامی حکومت قائم ہونے کے راستے روک چکے ہیں۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

 صد ر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

                                                                                                                                                                    9642571721



اتوار، 10 مئی، 2020

کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ایک اور وائرس۔۔ علما اور مشائخین متوجہ ہوں

کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ایک اور وائرس۔۔۔    علما اور مشائخین متوجہ ہوں 


جب سے کرونا اور اس سے پہلے این آر سی کے وائرس پھیلے، ہر شخص کی زبان پر یہی ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے آیا ہے۔ آیئے ایک ایسے ہی کرتوت کا جائزہ لیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی کئی شادیوں کی خبریں آئیں۔ سبھی اس خوش فہمی میں تھے کہ یقینا یہ شادیاں مکمل سنّت کے مطابق ہوئی ہوں گی یعنی  نہ کوئی منگنی نہ بارات،نہ  کوئی ویڈیو گرافی اور نہ بیوٹی پارلر، ہر قسم کے اسراف و تبذیر سے پاک ہوں گی۔ لیکن آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا کہ ان بدترین حالات میں بھی وہ فتنہ ختم نہ ہو سکا جو اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ دس شادیوں میں سے ایک یا دو تو ماشااللہ واقعی سنت کے مطابق ہوئیں لیکن 90%  شادیوں میں یہ ہوا کہ لڑکی والوں کا جو پیسہ بارات کے کھانے، جہیز کی خریدی اور منگنی یا دوسری رسمیں نہ ہونے سے بچ گیا وہ پورا  کا پورا لڑکے والوں نے نقد کیش یا کسی اور شکل میں وصول کرلیا۔ کرائم وہی رہا صرف طریقہئ  واردات بدل گیا۔ لڑکے والوں کی طرف لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ دوگنی ہوگئی۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی یہ دلیل دی گئی کہ آپ نے بچّی کی شادی کے لئے کچھ نہ کچھ تو بچایا ہی ہوگا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے، بس اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔ اس کو ہم کمینگی یا کم ظرفی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسے گِرے ہوئے الفاظ کا استعمال ایک معیاری اخبارکے شایانِ شان نہیں، ہاں آپ جو چاہے کہہ لیں۔ 

لیکن جرم کے قصور وار صرف لڑکے والے نہیں ہیں۔لڑکی والے لڑکے والوں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ رشوت کبھی لینے والوں سے زیادہ نہیں پھیلتی، دینے والوں سے زیادہ پھیلتی ہے۔ جو مجبور یا ضرورتمند ہوتا ہے وہ کتوں کے آگے زیادہ بڑی ہڈی ڈال دیتا ہے۔  لڑکی والے بالخصوص لڑکی کی ماں، خالہ، دادی اور نانی وغیرہ  اصل فتنہ ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کامستقبل بنانے  سے زیادہ  دلچسپی ایک داماد کو خریدنے اور بیٹی کا گھر بھرنے سے ہوتی ہے،  چاہے اس کے لئے لڑکی کا باپ قرضوں میں ڈوب جائے، چاہے بھائی کنگال ہوجائے۔ اسی لئے اگر لڑکے والے کوئی جہیز یا نقد رقم لینا نہ بھی چاہیں تو لڑکی والے اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو لڑکی کا حق ہے، اس کا نصیب ہے، لڑکی خالی ہاتھ جائے گی تو لوگ کیاکہیں گے وغیرہ۔ 

لاک ڈاؤن میں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے یوں بھی سب کی اکنامی تباہ ہوچکی ہے، لیکن اس سے بھی برا وقت آنے والا ہے۔ گلف ممالک کی خبر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں نوکریاں ختم ہونے والی ہیں۔ اِدھر ملک میں فاشسٹ، مسلمانوں کو نوکریوں سے نکلوانے کی مہم چلارہے ہیں، تیسرے یہ کہ NRC,  NPR, کا فتنہ ختم نہیں ہوا، لاک ڈاؤن کے بعد پھر سر ابھارے گا کیونکہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے، اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس کے پاس سوائے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس لئے اِس وقت ایک ایک روپیہ سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہم  نے کرونا لاک ڈاؤن ریلیف پہنچانے کے سلسلے میں جتنے علاقوں کا دورہ کیا ایسے ایسے افسوسناک واقعات دیکھے کہ سر شرم سے جھک گیا۔ مسلمانوں کی غربت و افلاس تو پورے عروج پر ہے ہی، گھروں میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں جو شادی کی عمر سے تجاوز کررہی ہیں لیکن ماں باپ ان کی شادی کی استطاعت نہیں رکھتے۔  Middle class  اور  poor class سارے شادیوں میں پیسہ برباد کرکے تباہ حال ہیں۔ ایسے وقت میں اگر مسلمان مرد، حقیقی مرد بن جاتے تو ایک بدترین مصیبت مسلمانوں کے سر سے ٹل سکتی تھی، لیکن جسطرح سامان کی ذخیرہ اندوزی Hoarding کرنے والے یا شراب بیچنے والے لاک ڈاؤن کا بھرپور فائدہ اٹھا تے ہیں اور قیمتیں بڑھا کر خوب کماتے ہیں، بالکل اسی طرح لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر  لڑکے والوں نے بھی اپنے ریٹ اچانک بڑھائے ہیں۔ سیدھے سیدھے یہ کہہ رہے ہیں کہ شادی ملتوی کیجئے، یا پھر ایسے اشارے دیتے ہیں کہ نقد رقم بڑھایئے۔ 

دہلی فسادات ہوں کہ دوسرے کئی دہشت گردی کے واقعات، جتنے غنڈے ہیں سارے کے سارے آزاد گھوم رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس Power ہے۔ اور یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب پاور ہاتھ میں ہوتا ہے  تو انسان کمزوروں کا استحصال Exploitation کرتا ہے۔ لیکن دوسروں پرانگلی اٹھانے سے پہلے ذرا ہم خود اپنے دامن میں جھانکیں۔ کیا ہم RSS/BJP کے غنڈوں سے کم ہیں؟ کیا ہم ”لڑکے والے“  ہونے کا پاور استعمال کرکے لڑکیوں پر ظلم نہیں کررہے ہیں؟ منگنی کا کھانا، جہیز، بارات کا کھانا اور جوڑے کی رقم وصول کرنے کا Power جو ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا ہے جس کو سماج اور رسم و رواج کا مکمل Endorsement ملا ہوا ہے، کیا ہم یہ بھرپور استعمال نہیں کررہے ہیں؟ اگرچہ کہ یہ ایک بھیک اور سوشیل بلیک میل ہے لیکن ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم بھیک اور جہیز کی رشوت کھاتے ہیں۔ اسے حلال سمجھ کر کھاتے ہیں، اور کھانے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن دوسری طرف ”خوشی سے دینے اور لینے“ کے نام پر سب کچھ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ اور منافقت نہیں ہے؟  اس لوٹ میں لڑکوں کی مائیں، دادیاں اور نانیاں ساری شامل ہوتی ہیں، اگر ان کی توقعات سے ذرا سا بھی کم ملے تو آنے والی بہوؤں کی زندگی اجیرن کرڈالتی ہیں۔ یہ ہے ہمارے ”مرد“ ہونے کے Powerکا استعمال۔ اب ہم کس منہ سے مودی، یوگی یا امیت شاہ پر Power کو غلط استعمال کرنے کا الزام دے سکتے ہیں؟

ایسے وقت میں علما اور مشائخین کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم ان سے انتہائی مودّبانہ درخواست کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے کرونا وائرس کو ختم کرنے کے لئے فتوے دیئے، مصافحہ، ملنے ملانے اور ہر قسم کی سوشیل Gathering پر شرعی طور پر روک لگانے کے جواز پیش کیئے۔ حتی کہ نمازِ باجماعت، جمعہ، تراویح، شبِ قدر اور افطار کو تک سختی سے روک دیا اور مسجدوں پر تالا ڈلوادیا۔ قرآن و حدیث اور سنت سے دلائل پیش کیئے۔ آپ نے غلط کچھ نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ نہ صرف حکومت کی مدد کے لئے تھا بلکہ عوام کی صحت اور بھلائی کے لئے ہی تھا۔ اس لئے آپ کی تحقیق اور بیان وقت کی اہم ترین ضرورت تھی، بلکہ اسلام کی عصرِ حاضر میں صحیح ترجمانی تھی، ماشااللہ۔  لیکن یہ بھی غور فرمائیں اگر کرونا سے لوگ مررہے ہیں، اس لئے اس کے تدارک کے لیے یہ فتوے جاری کرنا ضروری تھا، تو یہ بھی دیکھئے کہ ایک اور وائرس ایسا ہے جو کرونا سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ Covid-19 سے مرنے والوں کا تناسب صرف 3% ہے،  کرونا کے Fatatlity rate یعنی مرنے والوں کے تناسب کو سامنے رکھیئے اور اس وائرس کی وجہ سے مرنے والوں یا متاثر ہونے والوں کے تناسب کو سامنے رکھیے، آپ دنگ رہ جائیں گے۔ جس کرونا کی وجہ سے تقریباّ دو مہینے سے مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑا، پورے ہندوستان میں آج کی تاریخ تک مرنے والوں کی تعداد 1200 ہے، اور ساری دنیا میں مرنے والوں کی تعداد 2.5 لاکھ ہے۔ جب کہ جس وائرس کی بات ہم کررہے ہیں اس کی وجہ سے  ہر سال2 لاکھ  لڑکیاں ماؤں کے پیٹوں میں ہی ماردی جاتی ہیں۔ National Crime Records Bureau (NCRB)  کی رپورٹ جو گوگل پر موجود ہے، اس کے مطابق ہر روز مرنے والی یا ماردی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 21 ہے، یعنی ہر سال 7665 لڑکیاں اپنی جان گنواتی ہیں اور ہر روز 150 لڑکیاں اسی وائرس کے نتیجے میں جو Domestic violence  ہوتا ہے اس میں زخمی ہوجاتی ہیں۔ یعنی سالانہ 54,750 عورتیں زخمی ہوتی ہیں۔ ابورشن یعنی اسقاط حمل اسلام میں بھی حرام ہے اور انڈین قانون کے تحت بھی جرم ہے، لیکن اپنے شہر کے کسی بھی Maternity Home  کے کسی ملازم کے ہاتھ میں ایک دوہزارروپئے  رکھ کر پوچھئے، وہ اندر کے راز بتادے گا کہ ہر روز کتنے حمل گرادیئے جاتے ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے ہرروز  فحاشی Prostitutionپر مجبور ہونے والی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔اس وائرس کا نام ہے ”شادیاں“۔ 

علما بھی، مشائخین بھی اور ہم بھی اس وائرس کو روکنے کی ہر طرح تلقین اور تبلیغ کررہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس شادیوں کے  وائرس کے خلاف ہم کیا کررہے ہیں؟ ہمارے علما کیا کررہے ہیں۔ جس طرح علما اور مشائخین نے کرونا کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح کی Social and Religeous distancing یعنی کسی بھی قسم کے سماجی یا مذہبی اجتماع کے خلاف جواز پیش کیا ہے، شادیوں سے پیدا ہونے والی بربادیوں کے وائرس کو ختم کرنے کے لئے آپ ایسی شادیوں سے مکمل  Distancing یعنی مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ کیوں نہیں دے سکتے؟ جبکہ قرآن و حدیث میں ایسی غیرشرعی اور خلاف سنّت تقریبات و رسومات پر مبنی شادیوں کے حرام ہونے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے پورے پورے احکامات موجود ہیں، اگراس میں آپ کو کوئی شک ہو تو ہمیں واٹس اپ کیجئے ہم پورے دلائل فراہم کرسکتے ہیں۔ کرونا وائرس نے کم از کم ایک سبق تو سکھایا ہے کہ کسی بھی مہلک وبا سے بچنے کا پہلا Effective طریقہ یہی ہے کہ جہاں جہاں یہ وائرس پیدا ہوسکتا ہے ان سے دور بہت دور رہو۔ برسہابرس سے جہیز اور بارات کے خلاف تقریریں اور وعظ بہت ہوچکے، مضامین اور کتابیں بہت لکھ چکے، اب ایسے مریضوں سے مکمل دوری اختیار کرلینے کا وقت آچکا ہے۔ 

یہ ہوسکتا ہے کہ خود آپ علما  اور مشائخین کی گھروں کی شادیاں اسی وائرس سے متاثر ہوئی ہوں، یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ایسی غیرشرعی رسومات والی شادیوں میں شرکت کرتے آرہے ہوں، لیکن کم از کم قرآن و حدیث میں ایسی شادیوں میں شرکت کے تعلق سے جو واضح احکامات موجود ہیں ان کو بیان تو کرنا آپ پر فرض ہے، محض اپنے اوپر حرف آجانے کے خوف سے یا بڑے لوگوں کے ناراض ہوجانے کے خوف سے بائیکاٹ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان نہ کرنا کتمانِ حقHiding the truth ہے۔

ان شادیوں کے وائرس کی وجہ سے ہونے والی اخلاقی اموات Moral deaths  بلکہ اخلاقی خودکشیوں Moral suicides  کا اندازہ لگایئے۔ اس کے سامنے کرونا کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ جس طرح Covid-19 کے مریضوں سے ملنا تو درکنار، اگر وہ مرجائیں تو ان کی میّت کا بھی آپ بائیکاٹ کررہے ہیں، قبرستانوں میں ایسی میّت کی تدفین کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں، بالکل اسی طرح جو لوگ معاشرے کو برباد کرنے والی،  ان شادیوں کے وائرس کا شکار ہیں، ان  لوگوں کا بھی بائیکاٹ لازمی ہے، ورنہ کل یہ معاشرہ  اخلاقی اور مالی طور پر تباہ ہونے والا ہے۔ اگر آج کوئی گھر فروخت کرکے یا بھیک یا قرض مانگ کر آپ کو اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کی دعوت دے رہا ہے اور آپ پورے شوق سے جارہے ہیں تو یاد رکھیئے کل آپ کو بھی اپنا گھر فروخت کرناپڑے گا یا اپنے بیٹے کو کنگال کرکے داماد کو خریدنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ جو لوگ نبی ﷺ کی نکاح کی سنّت کے بائیکاٹ پر ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں، اور آپ کو دعوت نامہ دینا چاہتے ہیں، یہ لوگ سنّت کے دشمن ہیں، ان کا رقعہ قبول کرنا تو درکنار ان سے مصافحہ کرنا، ان کی رسومات میں شرکت کرنا، مبارکباد دینا، ان لوگوں کا کھانا چکھنا حتی کہ اگر یہ مربھی جائیں تو ان کی میّت میں جانا ایک خوددار، سمجھدار اور شریعت کے پاسدار مسلمان کے لئے باعثِ شرم ہے۔ 

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ سب سے بدترین نکاح وہ ہے جس میں فضول خرچ ہو، وہ رسمیں ایجاد کی گئی ہوں جو نہ ہمارے نبی ﷺ کی کسی شادی میں، نہ ان کی صاحبزادیوں کی شادیوں میں اور نہ کسی صحابیؓ کی شادیوں میں تھیں۔ ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والے اصل وائرس کو پھیلانے والے لوگ ہیں۔ ایسے شرکت کرنے والوں سے بھی دور رہنا ایسا ہی ضروری ہے جیسے کرونا کے مریض کے قریبی رشتہ داروں سے بھی دور رہنا ضروری ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج امت پر یہ عذاب آیا ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج BJP/RSS  کے غنڈہ عناصر پوری قوم کو ہر طرح سے ذلیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 



ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721




ہفتہ، 2 مئی، 2020

وہابی، دیوبندی اور بریلوی کا تعصّب کیا کبھی ختم ہوگا؟

 

سبھی اس گمان میں تھے کہ  این آر سی  کی سازش کے خلاف  پوری  امّت اپنے مسلکی اختلافات کو  فراموش کرکے متحد ہوچکی ہے۔ لیکن کچھوچھا شریف کے مولانا سید ہاشم میاں صاحب نے Limra TV کو ایک انتہائی شرانگیز انٹرویو دے کر نہ صرف اتحاد کی اس امید کو پارہ پارہ کردیا بلکہ دشمن میڈیا کو مزید زہر اگلنے کے لئے ایک شرمناک موقع دے دیا۔ موصوف اگر کوئی سچ بات ہی کہہ دیتے تو شائد ہمیں یہ کالم لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن جس دلیری سے انہوں نے جھوٹ اور تہمتیں باندھی ہیں، انہیں دیکھ کر تو ارنب مکرجی جیسے شرپسند کذّاب بھی مات کھاتے ہیں۔ بقول شاعر   ؎  اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ موصوف نے نہ صرف کچھوچھا شریف کی عظمت و وقار کو پامال کیا بلکہ  مسلمانوں کی اہم جماعتوں اور مدرسوں کو سعودی عرب، دوبئی اور کویت جیسے دہشت گرد ممالک سے پیسہ لے کر سارے ملک میں دہشت گردی پھیلاناے والے کہا، اور بریلوی وہابی کے درمیان نفرت کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر اگر ان کے سمجھدار معتقدین بھی ان کو غلطی کا احساس نہ دلاسکیں تو یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ ہوگا۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے اور ہم سے واٹس اپ پر بھی طلب کی جاسکتی ہے۔

دیوبندی اور بریلوی مسلکوں کی پیدائش کا 1857 ء  کی جنگِ آزادی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب انگریز نے جان لیا کہ اس ملک میں جب تک مذہبوں اور مسلکوں میں اتحاد باقی رہے گا اس ملک پر حکومت کرنا ممکن نہیں ہے، اس نے پورے ملک میں جنگِ آزادی کے جذبے کو پہلے ہندو مسلم پھر بریلوی دیوبندی میں ایسے بانٹا کہ آج تک اس سازش کے اثرات ہندوستان کے ہر شہر اور ہر ضلع میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سب سے پہلے اس نے 1872 کے بعد گؤرکشا اور وندے ماترم (آنند مٹھ، بنکھم چٹرجی) کے ذریعے ہندومسلم فسادات کا بازار گرم کردیا۔ اس کے بعد دیوبندیت، بریلویت اور قادیانیت کے بیج بو کر امت کا اتحاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ کردیا۔ 1866میں دیوبند قائم ہوا۔ اس کے اثر کو ختم کرنے کے لئے انگریز نے دیوبندی مسلک سے اختلاف رکھنے والے ایک وفد کو مکہ، مدینہ بھیج کر دیوبندیوں کے مشرک اور کافر ہونے پر فتوے منگوائے۔ جوں ہی یہ وفد Delegation فتوے لے کر ہندوستان واپس پہنچا اور فتوؤں کا اجرا ہوا، انگریز بغیر جنگ کے میدان جیت گیا۔ ہندوؤں  اورمسلمانوں کی پوری توجہ جنگِ آزادی سے ہٹ کر ایک دوسرے کے خلاف خونریزی پر مرکوز ہوگئی۔

فتوے جیسے ہی عام ہوئے، جس محلّے میں جس مسجد پر بھی جس کا غلبہ تھا، اس نے قبضہ کرلیا، اس طرح محلہ محلہ مسجدیں بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہوگئیں۔ مسجدوں کے دروازوں پر لکھ دیا گیا کہ یہاں صرف بریلوی یا دیوبندی ہی آسکتا ہے۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ جیسے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے  والد کے حوالے سے ”قولِ فیصل“ میں لکھتے ہیں کہ اگر دوسرے مسلک کا کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھ لے تو مسجدیں دھوئی جانے لگیں۔ ایک دوسرے کے خلاف فتوے شائع کرنے والے اخبارات و رسائل خوب بکنے لگے۔ مذہب کی پہچان اسوہئِ رسول سے نہیں بلکہ سفید، ہرے، پیلے ٹوپیوں اور عماموں سے، فاتحہ، سلام اور جھنڈوں سے ہونے لگی۔ انگریز تو چلا گیا لیکن اس کی بوئی ہوئی مسلکی نفرتوں کی فصلوں کو آج تک ہمارے علما اور مشائخین پوری پوری محنت اور وفاداری سے سینچ رہے ہیں۔ آج بھی ایک دوسرے کو کافر و مشرک یا بدعتی ثابت کرنے والے واعظین کا شمار اکابر مجاہد علما میں کیا جاتا ہے، ان کے ناموں کے آگے ایسے ایسے القابات لگائے جاتے ہیں جس سے ان لوگوں کے نہ صرف جیّد واعظ یا عالم ہونے کی پبلسٹی ہوتی ہے، بلکہ یہ مستقبل کے ولیوں یا مجتہدین کی صف کے دعویدار نظرآتے ہیں۔  ان کو بھاری لفافے، اچھی ہوٹلوں میں قیام اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔

جس طرح سیاسی پارٹیوں کو الیکشن جیتنے کے لئے کچھ نعرے ایجاد کرنے پڑتے ہیں اسی طرح مذہبی میدان جیتنے کے لئے بھی کچھ نعروں کی ضرورت پڑتی ہے۔جب ایک گروہ نے مخالف کیمپ کو ذلیل کرنے کے لئے  ”عاشقِ رسول اور گستاخِ رسول“  کے ٹیاگ Tag ایجاد کیئے تودوسرا گروہ کہاں چُپ بیٹھنے والا تھا اس نے بھی مخالفین کے خلاف ”بدعتی، درگاہ پرست، مُردہ پرست“ جیسے Tags ایجاد کئے۔مسلمانوں کے خلاف جو کام فاشسٹوں نے ”جئے شری رام یا وندے ماترم“ کے نعروں سے لیا وہی کام مسلمانوں  نے ایک دوسرے کے خلاف عاشقِ رسول اور بدعتی وغیرہ کے القابات سے لیا۔جس طرح فاشسٹ فرقہ پرست پارٹیاں اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہلوانے لگیں حالانکہ نیشن کے اصل دشمن ہمیشہ سے یہی لوگ رہے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کی جماعتوں نے بھی اپنے لئے عاشقِ رسول اور دوسرے کے لئے گستاخِ رسول کے نام دے کر خود آر یس یس کی طرح اسلامی  نیشنلسٹ بن گئیں، دیوبندیوں کا مخالف گروہ کو بدعتی اور مشرک کہنا خود ان کے خالص مسلمان کا دعویٰ بھی بی جے پی کے اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہلوانے والے دعوے سے مختلف نہیں۔ پچھلے دیڑھ سو سال میں ہر دو کی طرف سے ایک دوسرے کی مخالفت میں جتنی کتابیں، مضامین اور رسالے لکھے گئے، یا آج سوشیل میدیا پر پورے زوروں پر یہ جنگ جاری ہے، یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بدترین  اور شرمناک باب ہے۔

دور دور تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ کوئی تبدیلی آئے۔ تبدیلی اُس وقت آتی ہے جب عوام کا ذہن بیدار ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تعلیم Educationسے تبدیلی آتی ہے۔ یہ غلط فہمی ہے۔ ہندو آبادی کا 90% حصہ اچھوتوں یا نِچلی ذاتوں پر مبنی ہے، اگرچیکہ ان ذاتوں میں بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ہیں، لیکن یہ لوگ نہ کبھی دھرم کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں نہ خود اپنے محسنوں جیسے ڈاکٹر امبیڈکر اور مہاتما پھولے وغیرہ کی کتابیں پڑھتے ہیں جنہوں نے ان کے ذہنوں کو غلامی سے آزاد کروانے کے لئے اپنی عمریں لگادیں۔ یہ لوگ ذہنی غلامی سے اس لئے آزاد نہیں ہوسکے کہ صدیوں کی غلامی نے ان کے ذہنوں میں اتنی مضبوط جگہ بنالی ہے کہ غلامی خود ان کے ذہنوں میں ایک طاقتور بت بن چکی ہے۔منوسمرتی اور برہمن واد کی غلامی سے باہر نکلنے کے تصور سے بھی یہ گھبراتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بن چکا ہے کہ اسی غلامی میں ان کی مُکتی یعنی نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جاہل قیادت جو گؤ گوبر اور گؤ موتر کی سیاست کے ذریعے ملک کو تباہ کررہی ہے، اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ جو لوگ ان فاشسٹوں کو ووٹ نہیں دیتے، ذہنی طور پر یا دِلی طور پر انہی کے ساتھ ہیں۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ اس دھرم میں خود ان کا کیا مقام ہے، اصلی دھرم کیا ہے، ہندوازم کیا ہے اور ہندوتوا کیا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

مسلمان عوام بھی بالکل اسی ذہنی غلامی کا شکار ہے۔ کچھ صدی پہلے تک مسلمان خود ہندو تھے۔ اس لئے فطرت بھی وہی ہے کیونکہ DNA بھی وہی ہے۔کسی نہ کسی کو ایک آقا کے طور پر ماننا اور اس کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی سمجھنا ان کے مزاج میں ہے۔  اسی لئے مولوی، ملّا، عاملوں، مرشدوں اور سجّادوں نے ان کے ذہنوں کو اس قدر غلامی میں جکڑ رکھا ہے کہ ان کی بھی مُکتی یعنی شفاعت اور مغفرت کا راستہ انہیں صرف غلامی میں نظرآتا ہے۔ یہ قرآن یا صحیح سنّت کو پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ ابّاجان اور دادا جان جس راستے پر چلتے تھے، یا جو بھی مولوی صاحب نے یا مرشد یا  امیرِجماعت نے فرمادیا بس وہی ان کا دین ہے۔ ذہنوں میں ایسے عقائد بٹھادیئے گئے ہیں کہ بغیر قرآن اور بغیر اصلی سنّت پر عمل کئے بھی انہیں سیدھے جنّت مل سکتی ہے، انہیں اس کا یقینِ کامل ہے۔ چند پوجا پاٹ کے رسوم اور گنپتی یا رام نومی کے جلسے جلوسوں کی طرح کے کچھ اعمال کرکے بغیر حساب کے نجاتِ اخروی کی ان کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ دوسرے گروہ نے یہ کیا کہ ایک مدرسے سے نکلنے والے سو طلبا میں سے جو دو چار ہشیار اور ذہین ہوتے ہیں انہوں نے مدرسے سے نکلتے ہی نئے نئے مدرسے قائم کرکے گلی گلی مدرسوں کا جال بچھادیا۔ حالانکہ خود کوئی کاروبار کرکے جو مدرسے پہلے سے موجود ہیں انہی کو مضبوط کرنے کا کام کرتے تو دینی تعلیم کا معیار کئی درجے بلند ہوسکتا تھا۔ لیکن چونکہ مدرسوں سے نکلنے والوں کے پاس کوئی فن نہیں ہوتا اور نہ انہیں دنیا میں ایک Competative life گزارنے کا شعور دیا جاتا ہے، نتیجتاّ وہ مدرسہ قائم کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے۔سارے مدرسے تو نہیں لیکن ان مدرسوں کی اکثریت دینی تعلیم کا ذریعہ کم، کمائی کا ذریعہ زیادہ ہے۔  ان مدرسوں سے غریب، یتیم اور مسکین بچوں کی روٹی، کپڑے اور چھت کا مسئلہ تو حل ہوجاتا ہے لیکن اس کام کو ایک بہترین خدمت ِ خلق کہاجاسکتا ہے، دینی تعلیم کی ترقی نہیں کہاجاسکتا۔یہاں سے  ایسے حفّاظ اور علما کی ایک فوج نکلتی ہے جو نہ قرآن و حدیث کے معنی یا منشا کو سمجھ سکتی ہے اور نہ اس میں اپنی شکست خوردہ قوم کو کھڑا کرنے کا شعور ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ خود ان مدرسوں کا نصاب بھی ہے جو اسے بدلنے تیار نہیں ہوتے۔ یہ وجہ ہے کہ آج ٹوپیوں، داڑھیوں اور برقعوں کی تہذیب تو باقی رہی لیکن مثالی مسلمان جسے دیکھ کر دنیا متاثر ہو، وہ دور دور تک نظرنہیں آتے۔”نماز دین کا ستون ہے“ بس اسی ایک حدیث پر تمام دینداروں کا اسلام آکر ختم ہوجاتا ہے۔ جس جوش، غضب اور ولولے سے چنگھاڑتی ہوئی تقریریں اور وعظ بریلویت یا وہابیت پر ہوتی ہیں، جتنا زور داڑھی اور مسلک پرستی پر دیا جاتا ہے، اگر اس کا 10%   زور بھی عدل و انصاف کے قیام، حلال کمائی، سنّتِ نکاح، سچ بولنے، صلہ رحمی، امانت، عہد کی پابندی، اسراف و تبذیر کی حرمت اور علم کے حصول کی اہمیت پر دیا جاتا  تو جو لوگ آج مسلمان ترکاری یا میوہ فروشوں کو اپنے علاقے میں داخل ہونے نہیں دیتے، جو لوگ مسلمانوں کو اپنی کالونی میں فلیٹ لینے نہیں دیتے، وہی لوگ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر گلے لگاتے۔

فی الحال، اگر لوگوں کے ذہن بدلنے ہیں تو سب سے پہلے ان مولویوں، ملّاؤں، ذاکروں اور واعظوں کے لفافے بند کیجئے جو اسلام کے بجائے مسلکوں اور اپنے خودساختہ عقیدوں کا پرچار کررہے ہیں۔ عوام کو جلسوں میں لانے کے لئے فلم ایکٹروں کی طرح کی اسٹیج پر حرکتیں کرتے ہیں۔ چیخنا، چلّانا، عجیب عجیب منہ بنانا، عوام سے داد لینے کی ترکیبیں اپنانا، اپنے ناموں کے آگے مقدس القابات لگالینا، مخالف الرائے علما کو مباہلہ Debate کا چیلنج کرنا، بڑی بڑی ٹوپیاں، رنگ برنگے عمامے پہن کر رعب جمانا، نعرے پکارنے والوں کو معاوضہ دے کر لانا، یہ تمام ہتھکنڈے جو جاہل عوام کو متاثر کرنے کے لئے آج کل استعمال کئے جارہے ہیں، جاہل عوام کو ان سے روکا نہیں جاسکتا، لیکن جو لوگ ایسے واعظوں کو لفافے پیش کرتے ہیں اور ایسے جلسوں پر خرچ کرتے ہیں کم سے کم وہ لوگ اپنی آخرت کا خوف کریں، ان کو تو سمجھایا جاسکتا ہے۔ جو بھی عالم یا واعظ دیوبندیت، بریلویت، شیعیت یا سنّیت، حنفیت یا سلفیت پر بولے اور دوسروں پر تنقید کرے ایسے علما، مولویوں اور ملاوں کے جلسوں پر مکمل روک لگانا ضروری ہے۔ اسی سے شائد ماحول بدلے۔ یہ لوگ برہمنوں کی طرح اپنے عالم یا مفتی یا مشائخ یا سجّادے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امت کی حقیقی اسلام سے روز بروز دور کررہے ہیں۔ اپنی کروڑوں کی دولت چھپانے انہیں مجبورا فاشسٹوں کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اگر وہ فاشسٹوں کا ساتھ نہ دیں، تو کب چدمبرم کے گھر پر ED کے Raid کی طرح ان کے گھر پر دھاوا ہوجائے انہیں یہ خوف ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اپنی دولت بچانے امت مسلمہ کی عزت و آبرو کو داؤ پر لگادیتے ہیں۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی،حیدر آباد

9642571721


 

 


پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...