جمعہ، 26 جون، 2020

حج پر گئے بغیر بھی حج قبول ہوسکتا ہے

 

یہ تو طئے ہوچکا ہے کہ اس سال سعودی عرب سے باہر کے لوگ کرونا کی وجہ سے حج نہیں کرسکیں گے۔ شائد اللہ تعالیٰ حج پر نہیں جانے والوں سے کچھ اور کام لینا چاہتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اِس اشارے کو سمجھ سکیں۔ اور قابلِ مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اِس اشارے کو سمجھ کر حج پر گئے بغیر حج کا نہ صرف پورا پورا اجر بلکہ اس کی قبولیت کا بھی عندیہ حاصل کرلیں۔

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ جو دوسری صدی ہجری کے عظیم محدثین میں شامل ہیں، بخاری اور مسلم نے بھی ان سے کئی روایتیں حاصل کی ہیں۔ یہ شہر خراسان سے تعلق رکھتے تھے اِن کا ایک واقعہ شیخ فریدالدین عطارؒ نے تذکرۃ الاولیاء صفحہ 123  پر بیان کیا ہے۔ یہ وہی عطارؒ ہیں جن کی تصنیف منطق الطیر عالمی شہرت یافتہ کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ ”پرندوں کی محفل“ قدیم اردو ادب کا ایک اہم سرمایہ ہے۔ یہ بھی شہر خراسان سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ایک مرتبہ حج سے فراغت کے بعد بیت اللہ میں سوگئے، اور خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے بات کررہے تھے کہ اس سال چھ لاکھ لوگوں نے حج کیا لیکن کسی  کا حج قبول نہیں ہوا، لیکن دمشق کا ایک موچی جو حج میں شریک تو نہیں ہوسکا، لیکن اللہ نے اس کا حج قبول فرما کر اس کے طفیل تمام حاجیوں کا حج قبول فرمالیا۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ اس موچی کی تلاش میں دمشق نکل پڑے۔ کسی طرح اُس سے ملاقات ہوگئی۔ موچی نے اپنا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ”تیس سال سے میری تمنا تھی کہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کروں، میں نے اتنے سالوں میں بڑی محنت سے تین سو درہم جمع کئے تھے۔ لیکن ایک دن میرے پڑوس کے گھر سے کھانے کے پکوان کی بہت اچھی خوشبو آنے لگی۔ میری بیوی جو حاملہ تھی اس کا جی چاہا کہ تھوڑا سا اسے بھی کھانے کو  مل جائے۔ میں پڑوسی کے گھرگیا تاکہ کچھ کھانا مانگ لوں۔ لیکن اس نے کہا کہ وہ کھانا آپ کے کھانے کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ سات دن سے میں اور میرے بیوی بچے فاقے سے تھے، میں نے ایک مردہ گدھا راستے میں دیکھا، اسی کا گوشت لے آیا، اور پکایا ہے“ یہ سن کر میں اللہ کے خوف سے لرز اٹھا کہ میرے پڑوسی فاقے کررہا تھا اور مجھے اس کی خبر نہ ہوئی۔ میں نے اپنی حج کی پوری رقم اس کے حوالے کردی۔ اور دعا کی یا اللہ، شائد یہی تیری رضا تھی کہ میرا حج اس طرح ہو، اس کو تو ہی قبول فرمانے والا ہے“۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے خواب میں جو کہا تھا وہ واقعی سچی بات تھی، اللہ تعالیٰ  یقینا قضاوقدر کامالک ہے۔ کسی ضرورتمند مسلمان کی مدد کرنا واقعی حج کے برابر ہے“۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ جو مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ بشیربن الحارثؒ  ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے ایک شاگرد نے آکر کہا کہ ”حضرت، حج پر جانا چاہتا ہوں“۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ تیرا نفل حج ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر حضرت نے پوچھا کہ تیرے پاس زادِ راہ کیا ہے؟ شاگرد نے کہا کہ دوہزار دینار۔ حضرت نے کہا کہ کیا میں تجھے ایک ایسا طریقہ بتاؤ ں کہ تیرا مال بھی خرچ ہوجائے اور حج پر گئے بغیر نہ صرف تیرا حج قبول ہوجائے بلکہ تجھے حج کے قبولیت کی طمانیت بھی حاصل ہوجائے؟۔ شاگرد نے بڑے اشتیاق سے کہا کہ ضرور بتایئے۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ مال تو غربا اور مساکین میں تقسیم کردے، اور اگر تیرا جی چاہے تو کسی ایک شخص کوجو اکثرت العیال کی وجہ سے پریشان ہے اس کو اس کے پاؤں پر کھڑا کردے۔ اب بتا کیا چاہتا ہے؟ شاگرد بہت دیر تک سوچ میں پڑگیا اور کہنے لگا ”نہیں حضرت؛ اب طبیعت حج پر مائل ہے“ (یعنی حج کا موڈ بن چکا ہے)۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا ”شیطان برائی کے ذریعے ہی نہیں بلکہ نیکی کے بہانے بھی نفس پر قابو پالیتا ہے“۔

آج اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا موقع پیدا فرمایا ہے کہ جو لوگ اس سال حج پر نہیں جاسکے وہ دمشق کے اُس موچی کا بھی مقام حاصل کرسکتے ہیں جس کے حج پر گئے بغیر اس کا حج بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قبول کرلیا بلکہ اس کی وجہ سے جتنے حاجی اس سال حج پر آئے تھے اسکے طفیل ان تمام حاجیوں کا حج بھی قبول فرمالیا۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے مسلمانوں ہی کی نہیں ہر ذات کے انسانوں کی اکنامی تباہ کردی ہے۔ لاکھوں لوگ مائگریشن میں متاثر ہوچکے ہیں۔ گھروں میں جوان بیٹیا ں بیٹھی ہیں جن کی شادیاں ناممکن ہوچکی ہیں۔ سرکاری دواخانے ناکارہ ثابت ہوچکے ہیں۔ پرائیوٹ دواخانے لاکھوں روپیہ وصول کررہے ہیں جن کی وجہ سے غریبوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی نوبت ہے۔ روز کا غلّہ خرید کر کھانے والے مزدور، آٹو والے، ٹیکسی والے، میکانِک اور ٹھیلے والے  بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ کئی مدرسوں کے استاذ، اسکول کے ٹیچر اور ایسی ہی معمولی نوکریاں کرنے والے بے شمار لوگ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے بھوکے ہیں لیکن اپنی عزت کی خاطر کسی سے کہہ نہیں پاتے۔ اور خدا جانے ابھی اس کرونا کے ختم ہونے تک کیا کیا ہونے والا ہے۔ اگر یہ حج کا پیسہ ان ضرورت مندوں کے کام آجائے۔ بھلے پورا پیسہ خیرات نہ کریں، یہ تو کرسکتے ہیں کہ لوگوں کو تین چار ماہ کے لئے قرض دے سکتے ہیں۔ یقینا لوگ قرض واپس نہیں کرتے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے لوگ واپس نہیں کرتے۔ بے شمار شریف لوگ ایسے آج بھی موجود ہیں جو قرض لوٹانے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ایک حج پر کم سے کم تین لاکھ روپئے کا خرچ آتا ہے۔ اگر یہ پیسہ تین چار لوگوں کو قرض کے طور پر دے دیا جائے تو ایک طرف ان لوگوں کی زندگی آسان ہوجائیگی، اور دوسری طرف تین چار ماہ میں جب اگلے سال کے حج کی رقم جمع کروانے کا وقت آئے گا اس وقت تک یہ پیسے واپس بھی آجائینگے انشااللہ۔ اس طرح ہر شخص دو دو حج کے اجر کا مستحق ہوجائیگا۔ ایک تو اس سال کے حج کی نیت کا، دوسرے کسی مستحق کے کام آنے کا۔  فرمایا رسول اللہ نے کہ جو بندہ کسی کے کام آتا ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اُس شخص کے کام آسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔

نہ صرف حج پر جو نہ جاسکے وہ بلکہ کرونا کی وجہ سے جتنی شادیوں کی دعوتیں اور باراتیں کینسل ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے کئی لاکھ روپئے کی بچت ہوچکی ہے وہ لوگ بھی ان حالات میں بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ دلہن والے اور دلہا والے مل کر اگر تمام کینسل ہونے والی دعوتوں کا لاکھوں روپیہ امت کے پریشان حال لوگوں میں خیرات یا قرض کے طور پر دے دیں تو مسلمانوں کی غربت و افلاس میں کمی آسکتی ہے۔ اس سے انسانیت کی جو عظیم مثال  قائم ہوسکتی ہے اس سے لاکھوں غیرمسلم اسلام کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ انڈونیشیا آج سب سے بڑا مسلمان آبادی والا ملک ہے۔ پہلے وہاں بدھ مت کی پوجا ہوتی تھی۔ پورے ملک نے کس طرح اسلام قبول کرلیا اس کا ایک عجیب واقعہ ہے۔ عرب کے تاجر وہاں اپنا مال لے جاکر فروخت کرتے تھے۔ ایک بار وہاں بہت سخت قحط پڑا۔ جب عرب تجارتی قافلوں  کی کشتیاں کنارے لگیں تو وہاں کے بادشاہ نے پیغام بھیجا کہ اس سال لوگ قحط کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، فاقہ کشی پر مجبور ہیں، آپ لوگ کسی اور علاقے میں جاکر اپنا مال فروخت کرلیں۔ عرب تجار نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم لوگ ایک بہترین نفع والا کاروبار کریں گے، اور سارا مال اللہ کے راستے میں بھوکے اور پریشان حال لوگوں میں تقسیم کردیں گے۔ بادشاہ کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی۔ اس نے تجار کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون سا مذہب ہے جس میں تجارت کا یہ انوکھا اصول سکھایا ہے۔ جب عرب تجار نے اس کے سامنے اسلام کو پیش کیا تو اس نے فوری اسلام قبول کرلیا اور اپنے تمام ہم وطنوں کو اسلام میں داخل ہوجانے کی دعوت دی۔ اور اس طرح پورے ملک نے اسلام قبول کرلیا۔ ماشااللہ۔

ذرا سوچیں، یہ نفل حج اور عمروں کا پیسہ، یہ شادیوں اور  باراتوں کا پیسہ، یہ سالگرہوں اور عرسوں اور جلسوں کا پیسہ اگر آج عثمان غنیؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ کے تجارتی مال سے بھرے اونٹوں کی قطاروں کی طرح امت کی پریشانی کے وقت امت کے کام آجائے تو ایک بار پھر اسلام کا عروج واپس آسکتا ہے۔ ایک حاجی اوسطاّ تین لاکھ روپئے خرچ کرتا ہے۔ ہندوستان سے دیڑھ لاکھ حاجیوں کے 45 ارب روپئے بنتے ہیں۔ ایک شادی میں اگر اوسطاّپانچ لاکھ روپئے بھی خرچ ہوتے ہیں تو کم سے کم  چار لاکھ شادیاں ہر سال ہوتی ہیں۔ اگر یہ سادگی سے ہوجائیں تو قوم کا 200  ارب روپیہ بچتا ہے۔ اور یہی قوم کے کام آجائے تو کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ قوم کی اخلاقی، ایجوکیشنل، اکنامک اور سیاسی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہے؟  لیکن اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ شیطانی وسوسہ ہے کہ آدمی کسی بھی نیک کام پر اس وقت تک خرچ نہیں کرنا چاہتا جب تک کہ وہ پیسہ اس کی ذات پر خرچ نہ ہو۔ اگرچہ حج، عمرہ، نکاح، ولیمہ، روزہ رکھوائی، ختنہ کے پھول، عقیقہ، چہلم، برسی، عرس، روزہ افطاری کی دعوتیں، یہ سارے نیکی کی نیت سے ہی کئے جاتے ہیں، ان کے کرنے سے ثواب کا ہی تصوّر کیا جاتا ہے لیکن ان تمام کاموں کا محور ذات ہے۔ یعنی ان تمام کاموں میں پیسہ آدمی کی ذات پر، اس کی خواہشات کی تکمیل پر، اس کی شہرت اور رکھ رکھاؤ کے اظہار پر خرچ ہوتا ہے۔ کہنے کے لئے سارے کام نیک اور ثواب کے ہی ہیں لیکن اگر ان کاموں میں آدمی کی ذات کے اطمینان پر یہ پیسہ خرچ نہ ہوتو وہ ہرگز خرچ نہیں کرتا۔ حج کے معاملے میں بھی لوگوں کی اکثریت اپنی ذات کے خوشی اور اطمینان کے لئے خرچ کرتی ہے۔ راہِ لللہ دینے میں نہ کوئی نیکی نظر آتی ہے، نہ کوئی نام ہوتا ہے۔ سارا پیسہ گمنا م لوگوں میں چلا جاتا ہے اس لئے لوگ اپنی ذات کو اہمیت دیتے ہیں۔ قوم جائے بھاڑ میں۔ ان کو قوم سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ خیر یہ تو جاہلوں کا رویّہ ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ اگر چند لوگ بھی اس مضمون کی اہمیت سمجھ جائیں اور عمل کرلیں تو ان کی تو آخرت انشااللہ ثم انشااللہ شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

9642571721

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد 

 


 

ہفتہ، 20 جون، 2020

ایسا ہونا چاہئے، ویسا ہونا چاہئے ۔۔۔۔ ایک خطرناک بیماری

 

اتحاد ہونا چاہئے،ایجوکیشن ہونی چاہئے،مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہیے۔جس سے بات کیجئے وہ”چاہئے چاہئے“  منہ پر پھینک کر جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جولوگوں میں کرونا، کینسر اور ایڈز سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ یہ بیماری اُس وقت لاحق ہوتی ہے جب قوم میں سارے کے سارے لیڈر اور انٹلکچول بن جائیں۔ مقتدی کوئی نہ ہو سارے کے سارے  امام بن جائیں، ”میں خود کیا کرسکتا ہوں“ سوچنے والا کوئی نہ رہے۔ایسے لوگوں کو ”چاہئے  برادری‘ کہا جاسکتا ہے۔ جہاں دس آدمی مل کر بیٹھتے ہیں، ان میں کم سے کم ”نو“ اسی برادری کے لوگ ہوتے ہیں۔

جہاں تک لیڈرشِپ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے امت ابراہیمی میں پیدا ہونے والے ہر ہر کلمہ گو کے ایمان میں لیڈرشِپ ودیعت کردی ہے۔ جب ابراہیم ؑ ہر آزمائش میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”انی جاعلک للناس اماما“ یعنی میں تمہیں تمام انسانوں کا امام یعنی لیڈر بناؤں گا۔ یہ مسجد کے پانچ وقتوں کی وہ امامت نہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا کہ قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے۔اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام۔یقینا نمازوں کی امامت بھی لیڈرشِپ ہی کا ایک حصہ ہے لیکن جس امامت کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے وہ یہ ہیکہ پوری انسانیت کی قیادت یعنی سیاست، اکنامی، ایجوکیشن، سائنس، میڈیا، اخلاق، کلچر وغیرہ سب کچھ۔ ہر مسلمان کو لیڈرشِپ ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ قیادت اس کا حق ہے، اس کا منصب ہے، لیڈربننا ہماری اس دنیا میں ذمہ داری ہے۔ اس سے غفلت کے نتیجے میں آج ہم پر جاہل اور گنوار قومیں ہمارے سروں  پر مسلط کردی گئی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا بہتر مثال ہوسکتی ہے کہ جس جانور کو ہمارے لئے حلال کیا گیا اور اس کی پرستش کرنے والوں کو شِرک سے نکال کر ایک اللہ کی طرف لے آنے کا حکم دیا گیا، وہ جانور آج ہم پر آزمائش بن کر مسلط ہوچکا ہے۔ لیکن مایوسی کی بات نہیں ہے۔ کلمہ لا الہ الا اللہ“ پڑھنے کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے جذبہ ایمانی میں ایک قوت اور ہر زمینی خدا سے بغاوت کا جوہر اس کے خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن جس طرح ہر فن میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تربیت کی ضرورت ہے، لیڈرشِپ کے جوہر کو نکھارنے کے لئے بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ تھوڑی محنت، غوروفکر اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہم نے ہر ہفتہ ایک ایک لیڈرشِپ کے نکتہ جس کو Commandment کہتے ہیں، اس پر روشنی ڈالنے کا ایک پروگرام بنایا ہے۔ لیڈرشِپ کا سب سے پہلا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اِس لفظ ”چاہئے“ کو دفن کردیں، اور”اب میں کیا کرسکتا ہوں“ بس یہ سوچیں۔ مشورے اور تبصرے بند کریں اور جو کام خود کرسکتے ہیں ابھی اور اسی وقت اسٹارٹ  لے لیں۔ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو قوم کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اِن کرنے والوں کا ساتھ دے رہے۔

تیسرے وہ ہیں جو نہ  خود کچھ کرتے ہیں  اور نہ  کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن ”چاہئے چاہئے“ کی بکواس کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ہربات ایک ”چاہئے“ یا ”ضرورت ہے کہ۔۔۔“ یا  ”اگر“ یوں کریں  پر ختم ہوتی ہے جیسے مسجدوں میں یہ ہونا چاہئے، علما اور خطیبوں کو یہ کرنا ”چاہئے

مسلکوں کا اختلاف ختم ہونا”چاہئے“”ضرورت ہے کہ“  لوگ فضول خرچیاں اور جہیز بند کردیں۔ ”اگر“  قرآن کو پکڑ لیں تو انقلاب آسکتا ہے۔

ہر گفتگو میں کم سے کم 25 چاہئے پھینک کر جاتے ہیں۔ اگر آپ چائے خانے میں بیٹھنے والوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں تک حالاتِ حاضرہ پر گفتگوکرتے چلے جائیں تو ایک دن میں کم سے کم ایک لاکھ ”چاہئے، اگر اور ضرورت ہے“ جمع ہوجائیں گے۔اخبارات کے مضامین اٹھایئے، جلسوں کی تقاریر یا سیمینارز کے مقالے اٹھایئے، ایک سے اعلیٰ ایک تجریہ، پیشین گوئیاں، اور انکشافات مل جائیں گے لیکن آخر میں جب بات حل کی آئے گی تو بات  دو چار عدد ”چاہئے“ پر ختم ہوجائیگی کہجماعتوں کو یہ کرنا”چاہئے“،سرکار کو یہ کرنا ”چاہئے“،عربوں کو اور اقوام متحدہ کو یہ کرنا ”چاہئے“۔

یہ مشورے یا تبصرے شراب یا حشیش کی طرح کا ایک نشہ  ہے۔ جس میں علما، خطیب، صحافی، لیڈر، وظیفہ خوار ہوں کہ ملازم، چندہ دینے والے سیٹھ ہوں کہ بیروزگار نوجوان۔ ہر ہر شخص جیبوں میں ”چاہئے“ کے کھوٹے سکّے لے کر بانٹتا پھر رہا ہے۔ سب کو قوم سے بہت دلچسپی بھی ہے اور ہمدردی بھی۔ اس لئے وہ قوم کو یہ، یہ، یہ کرنا چاہئے کی نصیحتیں بانٹنے بے چین ہیں۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ آگے بڑھئیے اور قیادت فرمایئے ہم آپ کے پیچھے چلنے تیار ہیں، تو انتہائی انکساری اور عاجزی سے یہ کہیں گے ”ارے بھائی، ہم کس قابل ہیں، ہم تو پیچھے چلنے والوں میں ہیں“۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ٹھیک ہے ہم ویسا ہی کریں گے جیسے آپ چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے جو خرچ آئے گا اس کے لئے کچھ جیب سے نکالئے یا دو چار گھنٹے دے دیجئے۔ پھر ان کے چہرے کا رنگ اڑ جائیگا، صورت چھوٹی ہوجائیگی اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے غائب ہوجائینگے۔

ہم نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک  بار بلّی کا ظلم و ستم بہت بڑھ گیا تھا۔ تمام چوہے جمع ہوئے۔ گھروں کے چوہے، گلی کے چوہے، شہر کے چوہے،  کالے چوہے، بھورے چوہے، سفید چوہے، سیاسی پارٹیوں کے دفتروں کے چوہے، مسجدوں اور مذہبی جماعتوں کے دفتروں کے چوہے۔ سب نے باری باری جوشیلی تقریریں کیں کہ چوہوں کی قتل وغارتگری بند کی جانی ”چاہئے“۔ بلّی  کو  جبرواستبداد کی سزا ملنی ”چاہئے“،  اس گھر پر ہمار بھی اتنا ہی حق ہے جتنا بلی کا، ہمیں بھی  امن و سکوں سے رہنے کا حق ملنا ”چاہئے‘،  انصاف ملنا ”چاہئے“ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایک سمجھدار چوہا اٹھا جو غالباّ صدارت کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ دوستو حل ایک ہی ہے۔ ہم کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ”چاہئے“ اور بلّی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دینی ”چاہئے“۔ پھر کیا تھا، دھوم مچ گئی، تالیوں اور نعروں کا شور بلند ہوا، ہر چوہا ”لے کے رہیں گے آزادی“ کے نعرے لگانے لگا۔ سارے چوہوں نے گلے مل کر انتظامیہ کو مبارکباد دی، ہر چوہا ایک دوسرے سے اپنی تقریر کی سند لیتا رہا کہ ”میں نے خوب کہا نا؟“۔ اگلے دن اخبارات میں خوب تصویریں اور تبصرے شائع ہوئے۔ سوشیل میڈیا پر سینکڑوں لائکس آئے۔آگے کیا ہوا سب اندازہ کرسکتے ہیں۔عقلمندوں کو اشارہ کافی ہے۔  یہی صدیوں سے آج تک ہوتا چلا آرہا ہے۔ اسی قسم کے جلسوں، سیمینارز اور اجتماعات پر لاکھوں اور کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے صحافیوں کو اخبارات میں خوب جگہ دی جاتی رہی ہے۔

اس ”چاہئے“  کو بند کیجئے۔ یہ دنیا میں آپ کی لیڈرشِپ کو قائم کرنے کا پہلا کمانڈمنٹ ہے۔ بجائے ”چاہئے“ کے، یہ کیجئے کہ اپنی استطاعت میں جو کچھ ہے، اپنی جیب میں جتنا مال ہے، اور جتنے بھی ساتھی میسر آسکتے ہیں ان کو ساتھ لے فوری کوئی کام کا آغاز کیجئے۔ اگر وہی کام کوئی اور تنظیم کررہی ہے تو بجائے دیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے، ان کے ساتھ جڑ جایئے۔سمجھداروں کے لئے تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ راستہ ہے تو وہی چاہئے کمیونٹی کا جن کے ساتھ رہ کر اچھے اچھے سمجھداروں ذہنوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اگر آپ کے گھر کو آگ لگ جائے تو آپ یہ نہیں کہتے کہ فائر بریگیڈ کو آنا ”چاہئے“، پولیس کو پہنچنا ”چاہئے“، پڑوسیوں کو یہ کرنا ”چاہئے“۔ آپ اپنی ذمہ داری اور ایمرجنسی سمجھ کر اگر ایک بالٹی بھر پانی بھی ملے تو لے کر دوڑتے ہیں۔ اس وقت یہ نہیں کہتے کہ اتنی بڑی آگ بجھانے کے لئے ایک معمولی بالٹی پانی لے جانا بے وقوفی ہے۔ آج ملک اور قوم بھی ایسے ہی آگ کے شعلوں میں گِھر چکے ہیں۔ آپ کو کہیں گولیوں سے بھونا جارہا ہے۔ کہیں آپ کی بستیاں جلائی جارہی ہیں، کہیں آپ کے بچوں کو اسکولوں میں الگ بٹھایا جارہا ہے اور کہیں آپ کے لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔کہیں آپ کی مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر توڑے جارہے ہیں کہیں آپ کے کمزور اور نہتے بھائیوں کی لنچنگ کی جارہی ہے۔ آئندہ دس پندرہ سالوں میں آپ کی حیثیت ہریجنوں اور غلاموں کی کرنے کی پوری پوری سازشیں ہورہی ہیں۔ ایسے وقت میں سپریم کورٹ کو یہ ”کرنا چاہئے“ یا پولیس کو وہ کرنا ”چاہئے“ کی رٹ لگانے والے سوائے آگ کو مزید ہوا دینے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ چھوڑیئے اویسی کو یا پرسنل لابورڈ کو کیا کرنا چاہئے، چھوڑیئے پاپلرفرنٹ یا جماعتِ اسلامی کو کیا کرنا چاہئے۔صرف اور صرف  یہ سوچئے آپ کو کیا کرنا ہے۔ یاتو ان میں سے کسی میں شامل ہوکر ان لوگوں کی قوّت بڑھایئے۔ یا پھر اپنے طور پر کوئی کام چاہے ایک بالٹی برابر پانی کے ہی کیوں نہ ہو، اللہ پر توکّل کرکے شروع کرڈالئے۔

یہ صحیح ہے کہ ہمارا میڈیا ہونا چاہئے، ہماری دینی تعلیم، روزگار، جان ومال کی حفاظت، انصاف، ہمارے بنک اور ہمارے انشورنس وغیرہ قائم ہونے چاہئے لیکن ان تمام کاموں کے لئے ہزاروں کروڑ روپیہ درکار ہے۔ ہزاروں والینٹئر چاہئے۔ ایسے والنٹئر جو صحابہؓ کی طرح، یا ارطغرل کے جانباز ساتھیوں کی طرح صرف اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان اور اپنا مال لٹا کر میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی والینٹئرز  کو قیادت یعنی لیڈرشِپ سے نوازتا ہیے۔ جن کے دل میں لیڈر شِپ کی کوئی خواہش چھپی ہوئی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ انہی کو لیڈرشِپ عطا کرتا ہے۔ ”کم من فءۃِِ قلیلۃِِ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ“۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمت کرنے والے چند لوگوں کا چھوٹا سا گروہ بھی بڑے سے بڑے طاقتور گروہ پر غالب آگیا۔ قرآن میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمت کرکے گُھس پڑنے والے برابر غالب ہوکر رہیں گے۔ ”ادخلوا علیھم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غالبون۔ و علی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین“، یعنی چڑھائی کردو دشمن کے دروازے میں گھس کر۔ اگر تم داخل ہوجاتے ہو تو پس تم ہی غالب ہوکر رہوگے۔ اور بھروسہ رکھو مکمل اللہ پر اگر تم مومن ہو۔ ایک جگہ یہ فرمایا کہ جب ان ہمت والوں کو لوگوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ نادانی نہ کرو، تمہارا دشمن بہت طاقتور ہے، اور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہے۔ ان ہمت والوں نے کہا کہ ”حسبنا اللہ و نعم الوکیل“۔ ہمارے لئے اللہ کافی ہے۔ ایسے ہی لوگ تاریخ میں ہمیشہ فتح یاب ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ مشورے اور تبصرے کرنے میں لگے رہے، جب ان کو ساتھ دینے کے لئے کہا گیا تو کوئی بیوی کی مرضی کا محتاج تھا، کوئی دامادوں کی خدمت کررہا تھا، کوئی اپنی سیکوریٹی دیکھ رہا تھا تو کوئی اپنے بنک بیلنس کی فکر میں تھا، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اسی ہوس اور انہی مجبوریوں میں گھیرے رکھتا ہے۔ ان کی رسی اور ڈھیلی کردیتا ہے، یہ سمجھتے ہیں ہم مشورے دے کے کامیاب رہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب قوم سے کہا کہ وادی کے اس پار جو بستی ہے اس میں داخل ہوجاو، تو قوم نے کہا کہ موسیٰ تم دیوانے تو نہیں ہوگئے، وہ لوگ تو بہت زیادہ طاقتور لوگ ہیں۔ ”قاتلا انت و ربک ان ھھنا قاعدون“ جاو، تم اور تمہارا خدا مل کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزدلوں کو  چالیس سال صحرا میں بھٹکنے کی سزا ملی۔ یہ چالیس سال آج کے دور کے لئے ایک علامتی ہیں۔ جو تبصرے اور مشوروں میں رہ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بیس پچیس سال کی عمر سے لے کر ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر تک روٹی کا، قانون کا، اکثریت اور سماج کا غلام بنا کر رکھتا ہے۔ وہ ان مجبوریوں میں جانوروں کی طرح خود کو باندھ دیتے ہیں، پھر دشمن کے ہاتھوں خود بھی مارے جاتے ہیں اور پوری قوم کو مرواتے ہیں۔

پہلا کمانڈمنٹ اچھی طرح یاد رکھئے کہ آج کے بعد جو بھی ”چاہئے چاہئے‘‘ استعمال کرے گا اس کو آپ کسی کام پر لگائیں اور اگر وہ بہانے بنائیں تو اس سے ایسے ہی دوری اختیار کریں جیسے کرونا یا ایڈز کے مریض سے دور رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ بزدل ہوتے ہیں دوسروں کی بھی ہمتوں کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ معاشرے کے دیمک ہیں، جو پہلے نظرنہیں آتے، اسی وقت نظرآتے ہیں جب معاشرے کو کافی کھوکھلاکرچکے ہوتے ہیں۔ 

                                                سنگ تو بڑھ کر کوئی اٹھائے شاخِ ثمر کچھ دور نہیں

                                                تم جس کو بلندی سمجھے ہو، اِن ہاتھوں کی کوتاہی ہے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی   

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی

9642571721


 

جمعرات، 11 جون، 2020

اب نوجوانوں کی ماں باپ سے بغاوت ضروری ہے

 

نوجوان نسل جتنی زیادہ بِگڑی ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ بگاڑ ماں باپ میں پیدا ہوچکا ہے۔ آج لاکھوں کی تعداد میں ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں، ذہین ہیں اور بہترین مستقبل بنانے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی پہلی ضرورت شادی ہے۔ وہ سنت کے مطابق سادگی سے شادی کرکے ایک پاک زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ماں باپ اور باپ دادا سے چلا آرہا وہ سسٹم ہے جو انہیں غلط راستوں پر جانے پر مجبور کررہا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ کو ویل سیٹلڈلڑکا چاہئے جس کا گھر ذاتی ہو، نوکری اچھی ہو اور این آر آئی ہوتو لڑکے کے ماں باپ کو شادی لین دین والی اور معیاری  چاہئے۔ معیار کس کا؟  معیار رسول اللہ یا صحابہؓ کا نہیں بلکہ اُن جاہلوں کی شادی کا معیار چاہئے جس معیار کے ساتھ ان کے خاندان، محلّے اور شہر میں لوگ کررہے ہیں۔ نتیجہ۔۔۔؟؟؟

اللہ کے نبی کا فرمان تھا کہ پہلے نکاح بعد میں اعلیٰ تعلیم یا کیریئر۔ لیکن ہر دوطرف کے ماں باپ نے کہا کہ نہیں پہلے کیرئیر بعد میں نکاح۔ اللہ کے نبی کا فرمان تھا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ اور آسان ہو، لیکن ہردوطرف کے ماں باپ نے کہا کہ نہیں جب تک خوب خرچ نہ کیا جائے شادی کا ارمان پورا ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ ماں باپ کے پاس دلیل یہ ہے کہ پوری سوسائٹی یہی کررہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کون سی بداخلاقی، بدکاری اور بد تہذیبی ایسی رہی جو ہمارے معاشرے میں داخل نہیں ہوچکی؟ اور نبی کا فرمان رد کرنے کی سزا کے طور پر جو غربت و افلاس کا عذاب نازل ہوا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کے مکمل ذمہ دار ماں باپ ہیں۔ ماں باپ نے اپنے ماں باپ کو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا تھا، اور یہ سلسلہ اوپر سے کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ اب اگر نوجوان نسل نے بغاوت نہیں کی تو سمجھ لیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں اخلاقی اور معاشی طور پر ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ لفظ بغاوت پر کئی لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے لیکن اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

قرآن میں جہاں ایک طرف کہا گیا کہ ”ماں باپ کو اُف بھی نہ کہو“  وہیں یہ بھی اسی سورہ عنکبوت میں حکم دیا گیا کہ ”اگر وہ تم کو شرک میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تم ان کی (ماں باپ کی) ہرگز اطاعت مت کرنا“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حقوق العباد کے معاملے میں ماں باپ کا حکم ماننا فرض ہے وہیں شرک، بدعت، منکرات اور حرام کے معاملے میں ان کی اطاعت ہرگز نہیں کرنا فرض ہے۔اور شادی کے معاملے میں شرک یہ ہے کہ رسول اللہ کی شادیوں کو معیار بنانے کے بجائے ”لوگ کیا کہیں گے“ کے خوف سے اپنا معیار سنّت سے الگ کرلینا۔

چندسو سال پہلے تک ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش کے سارے باشندے مشرک تھے۔ سوائے دوچار فیصد لوگوں کے جو ترک، عرب یا افغانستان سے آگئے تھے۔ اللہ نے ان کروڑوں لوگوں کو کلمہ اور نماز وغیرہ تو عطا کردیا لیکن ان لوگوں کے عقائد، رسم و رواج اور طور طریق وہی رہے جو مشرک سماج کے تھے۔ مشرک سماج میں شادی ماں باپ کی مرضی سے کرنا فرض ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے کہیں اور کرلیتے ہیں تو ان کو ”بھگوڑے“ کہتے ہیں۔ ان کی سماج میں کوئی عزت نہیں ہوتی، ان سے ”زناکاروں“ جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہی مشرکانہ عقیدہ یا طریقہ مسلمانوں میں بھی در آیا ہے اسی کو وجہ سے ماں باپ اولاد کی شادیوں کے معاملے میں جیسا چاہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہی طریقہ چلاآرہا ہے۔ شادی کے وقت عورت کو جتنا ذلیل کیا جاتا ہے سب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے شادی کے بعد پھر عورت اس کا بدلہ بھی لیتی ہے۔ لیکن کس سے؟ وہ جنہوں نے جہیز کے لئے اس کو تنگ کیا ان سے بدلہ نہیں لیتی بلکہ بہو اور بہو کے ماں باپ سے لیتی ہے۔ اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔

لوگ بالکل نہیں سمجھ رہے ہیں کہ ان شادیوں کے سسٹم نے معاشرے کو کتنا تباہ کردیا ہے۔ اگر مسلمان یہ بات نہیں سمجھیں گے تو آئندہ بدترین نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ حیرت ان مولوی حضرات پر ہوتی ہے جو ان شادیوں میں ہونے والی منکرات کو ”خوشی سے“ کا جواز فراہم کرکے نہ صرف انہیں جائز کررہے ہیں بلکہ ان مجرموں کو اسی طرح پروٹیکشن دے رہے ہیں جس طرح BJP  اپنے فسادی غنڈوں کو پروٹیکشن دیتی ہے۔ جہیز بارات وغیرہ کے خلاف تقریریں اور وعظ تو خوب کرتے ہیں لیکن اسلام نے ان کو روکنے کے لئے جو حکم دیا ہے کہ بائیکاٹ کریں (جب تم میں سے کوئی برائی کو دیکھے تو پہلے ہاتھ سے، یا زبان سے روکے یا کم سے کم دل سے نفرت کرے، اس کے بعد ایمان کا کوئی درجہ باقی نہیں رہ جاتا)، کوئی اس کا بائیکاٹ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ان کی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں، خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور لفافے یا کوئی اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کون سی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ کھلے حرام کو حلال کررہے ہیں؟

ہم نوجوان لڑکیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی خودداری اور غیرت کو جگائیں، اور بغاوت کریں۔ بغاوت کا مطلب یہ نہیں کہ گھر سے بھاگ جائیں اور ایک نئی بدکاری کی تہذیب کو رواج دیں۔ بلکہ یہ ہمت کریں کہ اعلان کردیں کہ ہم کسی ایسے بھکاری سے ہرگز شادی نہیں کرینگے جو بیڈ تو دور کی بات ہے بیڈ شیٹ بھی قبول کرے گا۔ نہ خوشی سے دینے لینے کے نام پر، نہ ماں باپ کی خواہش پر اور نہ رسم و رواج کے نام پر۔ اگر آپ ہمت کرکے کے یہ کہہ دیں گی تو آپ کا یہ جملہ پورے خاندان پر ایک بجلی بن کر گرے گا۔ ہوسکتا ہے آپ کی شادی رک جائے، ہوسکتا ہے دو چار سال تک کوئی رشتہ لے کر آپ کے گھر نہ آئے، ہوسکتا ہے لوگ آپ کو بڑزبان، گستاخ، باغی وغیرہ کہیں۔ ہوسکتا ہے اس سے بھی بڑے الزامات اور تہمتیں آپ کے سر باندھ دیں۔ لیکن یاد رکھئے اگر آپ کی شادی دو چار سال رک گئی یا نہیں ہوئی تو کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔ اگر آپ کے بچے دو چار سال بعد پیدا ہوں تو کوئی محشر بپا نہیں ہوجائیگا۔ لیکن آپ کا جملہ لوگوں کے دل، دماغ اور ضمیر کو زخمی کردے گا۔ لالچیوں کے منہ بند ہوجائیں گے۔ آپ کی وجہ سے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی بچ جائیگی۔

بغاوت کس طرح کرنی ہے؟ بغاوت شریعت نے جو آپ کو آزادی دی ہے، جو حقوق دیئے ہیں ان کے لئے آواز اٹھا کر بغاوت کرنی ہے۔  اللہ کے نبی نے لڑکیوں کو رحمت قرار دیا لیکن آپ کے ماں باپ نے آپ کو ایک بوجھ بنا دیا ہے۔ آپ کے لئے گھر بِکتا ہے، آپ کے لئے ماں باپ کو قرض، بھیک، یا ناجائز کمائی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آپ کے لئے بھائیوں کو بجائے تجارت جیسے بابرکت کام کے نوکری کی غلامی کرنا پڑتا ہے۔آپ کے شوہر اور سسرال کو خوش رکھنے کے لئے اپنی خودداری بیچنی پڑتی ہے۔ بتایئے آپ بوجھ ہیں یا رحمت؟

لڑکیاں تو غیرت اور خودداری کی نشانی ہوتی ہیں۔ لیکن ماں باپ نے آپ کو بے غیرت بننے پر مجبور کردیا ہے۔ آپ کی شادی کا سودا ایسے کیا جاتا ہے جیسے آپ کوئی معذورہوں، کوئی بدنام ہوں یا کوئی گناہگار ہوں۔ لڑکے کے ماں باپ آپ کی قابلیت، آپ کے کردار، آپ کی سیرت کی تو بات کرنا ہی نہیں چاہتے، وہ تو صرف جہیز، بارات اور نقد رقم کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آپ سے نہیں بلکہ ان چیزوں سے شادی کررہے ہیں؟ آپ تو اس پوری ڈیلنگ میں محض ایک سوپرمارکٹ کی کامپلی منٹری کے طور پر جارہی ہیں۔ اور اگر آپ کے ماں باپ نے لڑکے کے ماں باپ کے ڈیمانڈ کا انکار کردیا، تو کیا وہ لوگ آپ سے شادی کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ آپ کی غیرت اور خودداری کی توہین نہیں ہے؟ کیا آپ اب بھی ایسے گھر میں شادی کرینگی جہاں آپ کی نہیں بلکہ آپ کے لائے ہوئے جہیز اور ضیافتوں کی قدر ہے؟ آپ کو چاہئے کہ فون اٹھائیں اور جس سے بھی شادی ہورہی ہو، اس کو فون کریں اور بتائیں کہ میں یہ قابلیت رکھتی ہوں، میری یہ سیرت ہے۔ اگر آپ کو مجھ جیسے کردار کی لڑکی چاہئے تو اس لین دین سے انکار کریں ورنہ میں شادی کے لئے تیار نہیں۔ اگر لڑکا سمجھدار ہوگا تو فوری ہاں کہے گا، بے وقوف ہوگا یا لالچی ماں باپ کی اولاد ہوگا تو کہے گا کہ ”امی سے پوچھ کر بتاتا ہوں“۔ یاد رکھئے۔ جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اس سے راست بات کرنے اور معاملہ طئے کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ کی شادی ایک مثال ہے کہ آپ ؓ نے خود پیغام بھیجا اور بات چیت کی۔ لیکن ہمارے ہاں یہ معاملات بزرگوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر لڑکے لڑکیوں کی خریدوفروخت کا سسٹم ایجاد کردیا ہے۔ کیا اس سسٹم کوتوڑنا ضروری نہیں ہے؟

آج آپ کے ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ اگر تعلیم اچھی ہوگی تو اچھے رشتہ آئیں گے۔ دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر تعلیم ہوگی تو مرد کے اوپر انحصار ہونا نہیں پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی تعلیم مکمل ہونے تک عمریں تیس سال ہورہی ہیں۔جب لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں تو لڑکے کے ماں باپ کو بیس اکیس سال کی لڑکی چاہئے۔ کہاں جائنگے یہ سارے تیس سال کی لڑکیاں جو بڑی ڈگری رکھتے ہوئے بھی اچھی نوکری کرتے ہوئے بھی اس آئیدیل لڑکے سے محروم ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ پھر آپ کے ماں باپ آپ کو سمجھوتہ کرنا سکھائیں گے۔ پھر یا  تو عمر والے کا رشتہ آئے گا، یا کسی ایسے کا جس کی بیوی مرگئی ہے یا طلاق ہوچکی ہے۔ یا پھر غیر مسلموں کے علاوہ کوئی نہیں ملے گا کیونکہ مسلم سماج میں اب لڑکیوں کی تعلیم کے میچنگ لڑکے نہیں ملتے۔ بتایئے آپ کیا کریں گی؟ آپ کو مجبور اور بے بس کردینے والے نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی۔

نبی کے فرمان کے مطابق آپ کو گریجویشن کے دوران یا فوری بعد شادی کرنی چاہئے۔ کیونکہ شادی کے بعد جو زندگی کا صحیح لطف اٹھانے کی عمر ہوتی ہے وہ گزر جانے کے بعد اگر شادی ہوتو بے مزہ ہوتی ہے۔ اس میں ایک سمجھوتے کی زندگی ہوتی ہے۔ اگر شادی سادگی سے ہو اور وہی پیسہ شادی کے بعد آپ کی تعلیم پر لگے تو یہزیادہ بہتر ہے۔ شادی کے فوری ؎بعد اگلے سال ہی بچہ ہو یہ کوئی ضروری نہیں۔ اسلام نے جہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے وہیں بچوں کی پلاننگ کی بھی اجازت دی ہے۔ کوئی قیامت نہیں آجائیگی اگر آپ کے بچے دو چارسال دیر سے ہوں گے۔ آپ کی اعلیٰ تعلیم اور کیرئیر کا خواب توپورا ہوجائیگا۔ آپ دیکھ نہیں رہی ہیں شادیوں میں تاخیر کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں غلط راستوں پر جانے پر مجبور ہیں۔ شادیاں ہورہی ہیں لیکن سابقہ افیرس کی وجہ سے طلاقیں بھی ہورہی ہیں۔

اب میں لاکھوں ان نوجوان لڑکوں سے بھی یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ مرد بنئے۔ قرآن نے  سورہ نسا آیت 34 میں مرد  اسے قرار دیا ہے جو عورت پر خرچ کرتا ہے، لڑکی والوں سے جہیز، بارات کا کھانا اور نقد رقم مانگنے والا مرد ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ ماں باپ ہیں جو آپ کو نامرد بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ آپ کے ماں باپ اور لڑکی کے ماں باپ مل کر آپ کے پیچھے جو سودے بازی کرتے ہیں پہلے وہ بند کریں۔ یہ میچ فکسنگ ہے۔ لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے بعد میں کہتے ہیں ہم نے تومنع کیا تھا لیکن لڑکی والوں نے اصرار کرکے دیا۔ اگر مرد واقعی مرد بن کر اپنا مطالبہ منوائیں تو سماج سے یہ سوشیل بلیک میلنگ ختم ہوجائیگی، اور لڑکی والے اس خوف سے باہر نکل جائیں گے کہ شادی کے بعد لڑکی کو کوئی بے عزت نہ کرے۔ لیکن آپ کو اپنے ماں باپ کو ہر قیمت پر منوانا پڑے گا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوستان سے بت پرستی کو ختم کیا جاسکتا ہے، شراب ختم کی جاسکتی ہے لیکن لڑکے کی ماں، دادی اور نانی کے دماغ سے جہیز اور بارات کے ارمان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے آپ کو مرد ہی نہیں بہت طاقتور مرد بننا پڑے گا ورنہ یہ ماں باپ جو بچپن سے آپ کو کبھی ختنہ کا دلہا، کبھی بسم اللہ یا روزہ رکھوائی کا دلہا بناتے رہے ہیں، اب شادی کادلہا بنا کرلڑکی والوں سے خوب وصول کرکے آپ کو نامرد بناتے رہیں گے۔آپ کو مرد بننے کے لئے نامرد ی سکھانے والے سسٹم سے بغاوت کرنی ہوگی۔

اس جہیز اور بارات نے آپ کے منہ پر تالے پڑوادیئے ہیں۔ آپ ہی کے نہیں بڑے بڑے مولویوں اور لیڈروں کے بھی منوؤں پر تالے پڑچکے ہیں۔یہ لوگ باہر تقریریں کرسکتے ہیں لیکن گھر والی کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے ورنہ وہ گھور کر دیکھتی ہے اور پوچھتی ہے کہ ”میرے ماں باپ سے جس وقت وصول کئے تھے اُس وقت اسلام کیوں یاد نہیں آیا تھا۔غور کیجئے کس طرح صحابہؓ ایک جنگ سے واپس آتے تھے اور فوری دوسری جنگ کے لئے نکل پڑتے تھے۔ کیونکہ ان کو نہ بہنوں کی شادی کی فکر تھی اور نہ بیٹیوں کی شادیوں کی۔ لیکن آپ گھر سے نہیں نکل سکتے۔ گجرات میں آپ کی بہنوں کو ننگا کرکے سڑکوں پر نکالا گیا اور عصمت ریزی کی گئی، دہلی میں کیا کیا ہوا یہ سب آپ جان کر بھی سوائے سوشیل میڈیا پر ان چیزوں کو فارورڈ کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکتے۔ گھر سے نکلنے کے بات آتے ہی آپ کو خوف آتا ہے کیوں کہ جس سسرال نے آپ کو گاڑی، پیسہ، بارات کا کھانا، فرنیچر وغیرہ دیا ہے اس کے بدلے آپ رہن ہیں۔ آپ ان چیزوں کے چوکیدار ہیں۔ آپ ان کو چھوڑکر نہیں جاسکتے۔ آپ کو اس غلامی سے نکلنے کے لئے بغاوت کی ہمت پیدا کرنی ہوگی۔

اب آپ کوسسٹم سے بغاوت یہ کرنا ہے کہ جو لوگ یہ جہیز اور بارات کے کھانے لے چکے ہیں وہ اس کا پیسہ واپس کریں۔ جو ابھی لینے والے ہیں وہ ہونے والے سسرال کو وارننگ دے دیں کہ اگر وہ بغیر جہیز اور کھانوں کے شادی کے لئے تیار ہیں تو بسم اللہ ورنہ کہیں اور رشتہ ڈھونڈلیں۔ رشتہ کینسل ہونے کے خوف سے لڑکی والے خود ہی آپ کے قدموں میں گِر کر تیار ہوجائینگے۔ لڑکی سے راست کہئے کہ میں فلاں ہوں، میری آمدنی اتنی ہے، میں اتنا نقد مہر ادا کرسکتا ہوں اور اتنے لوگوں کا ولیمہ دے سکتا ہوں، کیا آپ کو منظور ہے؟ اگر لڑکی سمجھدار ہوگی تو فوری ہاں کہے گی، بے وقوف ہوگی تو کہے گی ممی سے پپّا سے پوچھ کر بتاونگی۔ ایسی بزدل لڑکیوں سے شادی کرکے آپ بھی ساری زندگی بزدل ہی بنے رہیں گے۔ اسلام نے عورت اور مرد کو اپنی شادی کی بات چیت کی اجازت دی ہے۔ صحابہؓ کے کئی واقعات ثبوت ہیں۔ جوحق اسلام نے مرد اور عورت کو دیا تھا اس حق کو ماں باپ نے چھین لیا اور شادی کی بات چیت کو ایک سودے بازی بنادیا۔ دونوں طرف سے چچا، ماموں، تایا وغیرہ جاتے ہیں اور بات چیت طئے کرتے ہیں۔ ایک صاحب بارات میں کتنے آدمی ہوں گے یہ طئے کرتے ہیں، تو دوسرے صاحب جہیز میں کیا کیا ہوگا یہ طئے کرتے ہیں۔  یہ سارے آج کے مہذب دلال ہوتے ہیں۔ ان کو یہ خوف بالکل نہیں ہوتا کہ کل نبی جب حوضِ کوثر پر یہ سوال کریں گے کہ تم نے وہ چیزیں دین میں کہاں سے لائیں جو دین میں تھیں ہی نہیں تو ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟

نوجوانو؛ یہ بتاو کہ آپ کے دادا نے جو کچھ جائدادیں تھیں آپ کی پھوپھؤوں کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ آپ کے ناناوں نے اپنی جائدادیں آپ کی خالاؤں کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ جو کچھ تھوڑا بہت بچا تھا آپ کے والد حضرات نے آپ کی بڑی آپا کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ اب آپ کے پاس کل اپنی اولاد کی شادیوں کے لئے بیچنے کے لئے کیا ہوگا۔ لڑکیوں کی مائیں یہ بتائیں کہ کل آپ کی بیٹیاں اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے پیسہ کہاں سے لائیں گی۔ اگر لاکھوں روپیہ نہیں ہوگا تو کیا وہ اسی طرح کریں گے جو آج کی مجبور لڑکیاں کررہی ہیں؟ان حالات میں جب کہ فرقہ پرستوں نے یوں بھی مسلمانوں کے نوکریوں اور کاروبار کو ہرطرف سے روکا ہوا ہے، لاک ڈاؤن نے لاکھوں کو قرضوں میں مبتلا کردیا ہے۔ سیاسی حالات ایسے نہیں ہیں کہ آپ کی قوم معاشی یا سیاسی طور پر اوپر اٹھے گی اور کچھ پیسہ جمع کرے گی۔ اب جو کچھ بچا ہے اگر اس کو بھی شادیوں کی لعنت میں ختم کردیا تو مسلمانوں کے پاس بھیک یا چوری کے کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ کیونکہ پیغمبروں کی بات جب جب  رد کی گئی، نبیوں کے طریقے کو چھوڑ کر جب جب اپنی خواہشات کی پیروی کی گئی ان قوموں پر غربت، افلاس، زناکاری، فحاشی اور بالآخر ظالم قوموں کی غلامی کے عذاب آئے ہیں۔ شادیوں میں فضول خرچیاں اب اسی عذابِ الٰہی کی طرف لے جارہی ہیں۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ نبی کے طریقے پر شادی نہیں کرتے ا ان کی شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا شریعت کی توہین ہے۔ ان لوگوں کا دعوت نامہ نہ صرف واپس کیجئے بلکہ ایسے لوگوں کا معاشرے میں ایسے ہی بائیکاٹ کیجئے جیسے کرونا وائرس کے مریضوں کا کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ لوگ کرونا وائرس سے بھی بدتر لوگ ہیں، نہ ان کو مسجدوں میں آنے دیں نہ اپنے قبرستانوں میں۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

9642571721

صدرسوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد۔


  

منگل، 2 جون، 2020

خطرات ۔ لاک ڈاؤن کے بعد



لاک ڈاؤن کے بعد جن حالات کا سا منا ہوگا بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کو جن کا تقدیر پر اتنا اندھا ایمان ہے کہ جب تک مصیبت سر پر نہیں آجاتی، وہ آرام سے سونا چاہتے ہیں۔ سنا ہے ہمارے ایک بادشاہ سلامت نے بھی یہی کیا تھا۔ جب ان کی خدمت میں دست بستہ ہوکر یہ عرض کیا گیا کہ انگریز اب دہلی کی طرف بڑھ رہا ہے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ  ”دِلّی دور است“ یعنی دِلّی ابھی دور ہے۔ نتیجہ؟ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کی ماضی کی بھیانک غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے تو ان امور پر غور فرمایئے۔

پہلا خطرہ: لاک ڈاؤن کے بعد ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ کیونکہ دوکانداروں کو تین مہینے کے نقصان کی پابجائی کرنی ہے۔ اس کے بعدجب فیکٹریز اور انڈسٹریز کھلیں گی تو دوسری ریاستوں کے ورکر پتہ نہیں واپس آئیں گے یا نہیں۔ پروڈکشن کم ہوجائیگا اورڈیمانڈ زیادہ ہوجائیگا جس کے نتیجے میں بلیک مارکٹنگ اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔ مڈل کلاس اور غریب کلاس جن کی پہلے ہی جیبیں خالی ہوچکی ہیں ان پر کیا گزرے گی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں اس کے علاوہ جب فیکٹری کا مال مارکٹ میں کم ہوجائیگا تو کوالٹی بدتر ہوجائیگی۔ کم قمیت پربکنے والا نقلی مال مارکٹ میں پھیل جائیگا۔ بالخصوص کھانے پینے کی نقلی  اشیا جب ہر طرف پھیل جائینگی تو لوگوں کی دواخانے کتنے آباد ہوجائینگے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے رشوت کو ختم کرنے والی ایک سخت حکومت چاہئے۔ 

دوسرا خطرہ: سینکڑوں کمپنیوں اور فیکٹریز کے بند ہوجانے کا خطرہ ہے۔ ہزاروں کی نوکریاں چلی جائینگی۔ جب تک دوبارہ نوکریاں بحال ہوں، کئی ایک یا تو خودکشی کرنے یا پھر کرائم کرنے پر مجبور ہوجائینگے۔لاک ڈاؤن میں ایک مسئلے کو خوب ہوا دی گئی۔ گلف ممالک کے اہم ذمہ داروں نے جب کچھ ہندو ؤں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے کے جرم میں ملک سے نکال دیا، اورتنبیہ کی کہ جس طرح گلف میں لاکھوں ہندوؤں کو بلا لحاظ مذہب کام کرنے اور کمانے کا موقع دیا جاتا ہے اسی طرح ہندوستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے تعصب اور فرقہ پرستی کو روکے۔ اس واقعہ کا فائدہ اٹھا کر فاشسٹوں نے ہندوستان میں مسلمان ملازمین کے خلاف فضا بنانی شروع کردی تھی۔ اب لاک ڈاؤن کے بعد جو سخت Inflation  پیدا ہونے والا ہے، نوکریوں کے معاملے میں یہ سارے فرقہ پرست اپنا کام دکھائیں گے اور مسلمانوں کو نوکریوں سے نکلوانے کے لئے بھرپور کوششیں کرینگے۔  ان خطرات سے نپٹے کے لئے ایک اچھی، ایماندار اور تعلیم یافتہ حکومت جو تعصبات سے پاک ہو، وہ درکار ہوتی ہے۔ یہ کہاں سے آئے گی آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔

تیسرا مسئلہ:  حکومت نے بجلی اور پانی کے بِل نہ دینے کی رعایت ضرور دی ہے لیکن معاف نہیں کئے۔ بینکوں نے قرضوں کی قسطیں نہ دینے کی رعایت ضرور دی ہے لیکن معاف نہیں کئے۔ مکان داروں نے کرایہ داروں سے کرائے نہیں لئے لیکن معاف نہیں کئے۔ خود سرکاری ملازمین کو سرکار آدھی تنخواہ ادا کرسکی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر میں کیا ہوا ہوگا اور روزانہ کی دھاڑی والے مزدوروں کا کیا ہوا ہوگا۔ اب یہ لوگ پیسہ لائیں گے کہاں سے؟

چوتھا مسئلہ  :  یہ کرونا سے کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتا ہے۔ ٹڈیوں Locusts کے ہزاروں جُھنڈ جو ہندوستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ملک کے ایک خطرناک قحط سالی کا شکار کرسکتے ہیں۔ پہلے ہی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جس وقت تک یہ مضمون لکھا جارہا ہے پچاس ہزار ہیکٹر کی فصلیں تباہ کرچکے ہیں۔ یہ ٹڈیاں ایک دن میں پیتیس ہزار انسانوں کی ایک دن کی غذا ایک دن میں برباد کرتی ہیں۔ ان ٹدیوں کی پسندیدہ غذا تازہ فصلیں ہوتی ہیں۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا رخ موڑ دے جس طرح اکثر طوفانوں کا رخ پلٹ جاتا ہے۔ ہندوستانی اگریکلچر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ جون کا پہلا اور دوسرا ہفتہ ہندوستان کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔یہ ٹڈیاں اگرایک مہینہ بھی زندہ رہیں تو ہندوستان کی چھ مہینے کی غذا کو ختم کردیں گی۔

اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ حکمران عذابِ الٰہی کیا ہے یہ سمجھیں، عہدِ موسیٰ میں بنی اسرائیل کے نافرمانوں پر جن میں گائے کی پرستش کرنے والے نافرمان بھی شامل تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈیوں کا عذاب کیوں نازل کیا تھا، اِس کو سمجھیں۔ اس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور بائبل میں بھی۔ لیکن یہ سمجھانے والے کہاں سے آئیں گے اور سمجھنے والے حکمران کہاں سے آئیں گے اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ 

 چونکہ یہ ٹڈیاں عمان کے صحراؤں سے ہوتی ہوئی ایران اور پاکستان سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہورہی ہیں، اس لئے جن لوگوں نے تبلیغی جماعت کے واقعہ کو لے کر کرونا کو مسلمان بنادیا اور ملک کی ؎فضا کو زہر آلود کردیا، اب وہی لوگ ٹڈیوں کو لے کر پاکستان کی سازش کے نعرے لگانا شروع کرچکے ہیں۔ ارنب گوسوامی نے ٹی وی چینل پر زہر اگلا اور حکومت اب تک خاموش ہے۔ اگرچہ کہ ملک کی اکثریت کا تعلیم یافتہ طبقہ اس جاہلانہ الزام کو رد کرچکا ہے بلکہ ارنب گوسوامی کو دھتکا ر چکا ہے، لیکن بھگتوں کی ٹی وی چینلس نے ایسے زہریلے اینکرز کی جئے جئے کار کرنی شروع کردی ہے۔ اگر ٹڈیوں کے دَل ہندوستان کی طرف آنا نہ رُکے تو یہ فرقہ پرست ملک کے امن  اور سلامتی کے لئے کرونا اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

پانچواں خطرہ :  لاک ڈاؤن کی وجہ سے NRC, CAA وغیرہ کے جو سانپ بِلوں میں دبک گئے تھے، وہ اپنے پھن نکالنے بے چین ہیں۔ ان کی سنسناہٹ پھر سے سنائی دینے لگی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور سانپ ہیں جو جو باہر آنے کیلئے بے چین ہیں۔ چونکہ میڈیا پر یوں بھی پہلے ہی سے سخت لاک ڈاؤن تھا، اب اس کرونا کے لاک ڈاؤن نے مداریوں کو اور موقع فراہم کردیا۔ اس دوران قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شاہین باغ کا بدلہ لینے کتنی گرفتاریاں کی گئیں، کیا کیا اذیتیں دی گئیں اور ان معصوموں کے گھر والوں پر کیا کیا گزری ہوگی، یہ لاک ڈاؤن مکمل ختم ہونے کے بعد سامنے آئے گا۔ دہلی فسادات کے مجرمین اسی طرح آزادی سے گھوم رہے ہیں جس طرح دوسرے کئی فسادات اور بم دھماکوں کے مجرمین آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ 

چھٹا خطرہ :  لاک ڈاؤن اللہ کی طرف سے ایک موقع تھا کہ اپنی شادیوں کواپنے نبی ﷺ کی طریقے پر مکمل سادگی سے کرکے ہر مذہب اور ہر ذات کے انسانوں کے لئے مسلمان انسانیت کے دروازے کھول دیتے، لیکن رحمت للعلمین ﷺ کی اس امت نے بے رحمی، خودغرضی اور ظلم کی وہ مثال قائم کی کہ دشمنانِ اسلام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ہزاروں شادیاں ملتوی یا کینسل کردی گئیں کیونکہ لوگوں کو بارات اور بارات کا کھانا چھوڑنا پسند نہیں تھا۔ جب تک کرونا کا خطرہ مکمل ختم نہیں ہوتا، شادی خانے دوبارہ جب تک نہیں کھلتے، لوگ شادی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ کئی لڑکے والوں نے موقع کے فائدہ اٹھاکر دوکانداروں کی طرح اپنے بھی Rate بڑھادیئے اور کہا کہ بارات کے کھانے، نوروز، جمعگی، منگنی کی دعوتوں کے جو پیسے بچ گئے ہیں وہ نقد دے دیں یا جہیز کی مقدار بڑھادیں۔ لڑکیوں کے مجبور باپ یہ مطالبہ قبول کرنے پر مجبور ہوگئے اور شادیاں ہوگئیں۔ زیادہ تر شادیوں میں لڑکے والوں نے کچھ نہیں مانگا لیکن لڑکیوں کی مائیں، دادیاں اور نانیاں جو اصل فتنہ ہوتی ہیں، انہوں نے ضد کرکے خود جہیز اور نقد پیش کیا تاکہ لڑکی کی عزت میں کوئی کمی نہ آئے۔ لڑکیوں کے بھائی کنگال ہوگئے، باپ قرضوں یا بھیک میں مبتلا ہوگئے۔ فائدہ کس کا ہوا؟ فائدہ تو کپڑے، سونے، بیوٹی پارلر اور کیٹرنگ والوں کا ہوا لیکن خود داماد، سسر اور سالے سارے مزید غربت کا شکار ہوگئے۔ راشن کی تقسیم میں بے شمار وہ لوگ نظر آئے جنہوں نے غربت کے باوجود کئی لاکھ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے پر لٹادیئے اور خود بھیک پر مجبور ہوگئے۔ اگر وہ پیسہ ہوتا تو شائد آج اسی بیٹی اور داماد کے کام بھی آتا۔ 

اب لاک ڈاؤن کے بعد اُن ساری شادیوں کی تاریخ دوبارہ طئے ہوگی۔ لین دین کے معاملوں پر نظرِ ثانی کی جائیگی۔ لڑکے والے کبھی کچھ نہیں مانگتے، بڑے خوددار لوگ ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے جو بھی دینا ہو اپنی لڑکی کو دے دو، صرف ہمارے مہمانوں کی ضیافت اچھی کردو۔ لیکن مہمانوں کی تعداد پر سوشیل فاصلے کی پابندیوں کی وجہ سے مہمان پچاس یا سو سے زیادہ نہیں ہوسکیں گے اس لئے باقی مہمانوں کا بچنے والا پیسہ کس طرح وصول کیا جائیگا اس کے بھی نئے نئے طریقے ڈھونڈھ لئے جائیں گے۔ گویا لاک ڈاؤن کے طفیل میں ایک لعنت جو ختم ہوسکتی تھی اور زیادہ بڑھ جائیگی۔ اس کا حل یہی ہے کہ علما، سماجی جہدکار اور دانشور آگے آئیں اور قوم کو سمجھائیں لیکن یہی لوگ جب اپنے گھروں کی شادیوں میں یہی سب کچھ کرینگے تو یہ نحوست اور زیادہ خطرناک صورت اختیار کرنے والی ہے، کیونکہ کرونا سے پہلے ایک عام مسلمان کی جو معاشی صورتِ حال تھی اب ویسی نہیں رہی، اور بدتر ہوچکی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان دلہنوں کے بھائی اٹھائیں گے۔ کیونکہ وہ بہن کی شادی روک نہیں سکتے اس لئے ماں باپ کا سارا مال بہن کی شادی کے لئے قربان کرکے خود کنگال ہوجائیں گے اور سڑکوں پر مسلمان آٹو اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی، واچ مین اور قلیوں کی، سیلزمین اور حقیر پیشوں پر کام کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ جائیگی۔ اس کے ساتھ ہی بھیک، خیرات، غریب بچی کی شادی کے لئے چندہ مانگنے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائیگی۔ 

ساتواں خطرہ :  لاک ڈاؤن کے دوران مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر پر اذانوں کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اب کئی شہروں میں ایک فساد کا باعث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن آزمائشوں کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے بڑی آزمائش خوف کی ہے۔ ولنبلونکم بشئی من الخوف۔۔۔۔ (البقرہ)۔ لوگوں کے ذہنوں پر پہلے ہی سے اتنے خوف بٹھادیئے گئے ہیں کہ مسلمان خوف لیکن ایک نفرت آمیز خوف کے ساتھ خاموش رہیں گے لیکن کچھ مقامات پر ٹکراؤ کے امکانات ہوں گے جذباتی افراد دونوں طرف ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ ایک کے ساتھ حکومت،  پولیس، قانون کے رکھوالے جج  اور اکثریت ہے، دوسری طرف صرف نعرہئ تکبیر۔ اس کے نتیجے میں صرف اللہ کو علم ہے کہ یہ صورتِ حال کتنی دھماکو ہوسکتی ہے اور کتنی مسجدوں میں شرانگیزی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ اگر حکومت کو واقعی صوتی آلودگی Sound polution کو روکنا ہے تو پہلے مندروں کے لاؤڈاسپیکر فوری ہٹوادے۔ اذان تو بمشکل دو منٹ کی ہوتی ہے لیکن یہ مندروں کے لاؤڈاسپیکر جو گھنٹوں نہ صرف کانوں کو پھاڑتے ہیں بلکہ قریب کے رہنے والے نہ کسی طالب علم کو پڑھنے دیتے ہیں، نہ کسی بیمار کو سونے دیتے ہیں، نہ محلے کی فضا کو پرامن اور خاموش رہنے دیتے ہیں۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی

حیدرآباد

9642571721

 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...