جمعہ، 24 جولائی، 2020

واٹس اپ، یوٹیوب آپ کے سب سے بڑے دشمن

 

پہلے کمانڈمنٹ میں آپ نے پڑھا کہ ”چاہئے، چاہئے“ کو بند کیجئے یعنی علما کو یہ کرنا ”چاہئے“، عوام کو وہ کرنا ”چاہئے“۔ آپ کیا کرسکتے ہیں وہ آج شروع کیجئے ورنہ مشورے مت دیجئے اور نہ تبصرے کیجئے۔ دوسرے کمانڈمنٹ میں آپ نے پڑھا کہ ”میں، میں، میں“ کو دفن کیجئے۔تیسرا کمانڈمنٹ وہ ہے  جس کا  قیامت کے روزسب سے پہلے سوال ہوگا۔ اور اس کا جواب دیئے بغیر کوئی شخص اپنے رب کے سامنے سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے گا(چاہے اس کے ساتھ عبادتوں کے پہاڑ کیوں نہ ہوں)۔ یعنی ”وقت کہاں اور کیسے گزارا۔ عمر کہاں لگائی اور جوانی کی صلاحتیں، طاقت اور پُھرتیاں کہاں صرف کیں“۔ ”لاتزول ابن آدم یوم القیامہ من عند ربہ حتیٰ یُسأل عن خمسۃ، عن عمرہ فیما افناہ  و عن شبابہ فیما ابلاہ۔۔۔  (ترمذی  34595,2416)۔ 

آج امت ہر محاذ پر جس شکست، ذلت اور رسوائی کا شکار ہے اس سے ساری قوم واقف ہے۔ اس بدحالی سے باہر نکالنے کے لئے نہ کسی کے پاس ہتہیار ہے، نہ دولت نہ پاور۔ لیکن مایوسی کی بات اب بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک نعمت عطا کی ہے وہ ہے ”وقت“۔ یہ سب سے بڑا ہتہیار ہے بشرطیکہ  ہم اس کا صحیح استعمال کرلیں۔ اور اگر نہ کریں تو اس کی بہت سخت پوچھ ہے۔ نمازیں، روزے، تلاوتیں، زکوٰۃ و خیرات سب کا حساب  بعد میں ہوگا، سب سے پہلے جس چیز کاحساب ہوگا وہ ہے ”وقت“۔ اس دنیا میں بھی وقت کی اہمیت کا احساس بچپن سے دلایا جاتا ہے۔ یومِ آزادی کے موقع پر جب کلاسس سجائی جاتی تھیں تو ہم سے یہ پوسٹر دیوروں پر چسپاں کروائے جاتے تھے ”“ یعنی ”وقت دولت ہے“۔ چونکہ ہم کمانڈمنٹس آف لیڈرشپ کی بات کررہے ہیں، اس لئے ہم دیکھیں گے کہ ہم لوگ جن کاموں میں اپنا وقت خرچ کررہے ہیں کیا وہ کام ہمیں لیڈرشپ بخش سکتے ہیں یا مزید کاہل اور بے مقصد انسان بناتے ہیں؟حضرت علیؓ نے فرمایاتھا کہ ”وقت ایک تلوار ہے، اگر تم اس سے نہیں کاٹو گے تو یہ تمہیں کاٹ دے گی“۔ پہلے ہم یہ دیکھیں کہ ہم کس طرح اس  وقت کے ہتہیار کو ناکارہ بنارہے ہیں، پھر آخر میں یہ دیکھیں گے ہم اس کو دوبارہ کیسے استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ جس طرح کسی شرابی کو یا کسی  جوّے باز یا چرسی کو یہ اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ خود کو اور پورے معاشرے کو کیسے برباد کررہا ہے اسی طرح جو لوگ آج ٹی وی، واٹس اپ، فیس بک  یا یوٹیوب پر مصروف رہتے ہیں انہیں یہ بالکل اندازہ نہیں ہے کہ وہ خود بھی کس طرح برباد ہورہے ہیں اور معاشرے کو کس طرح برباد کررہے ہیں۔ صبح اٹھتے ہی کئی واٹس اپ  اور فیس بک پوسٹ ہمارے منتظر رہتے ہیں،بھیجنے والے وہ  لوگ ہیں جن کے پاس فالتو وقت بہت ہوتا ہے۔ ان میں عورتیں اور مرد دونوں شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر دیکھئے تو لوگ بڑے سیاستدانوں اور مشہور شخصیات کی نقل کرتے ہوئے دو دو چار  چار سطر کے پیغامات بھیجنے میں لگے ہیں۔ چاہے پڑھنے والوں کی تعداد دو چار سے زیادہ نہ ہو۔  انسٹاگرام  یا ٹک ٹاک اس جیسی چھچھوری سائٹس پر پوری نوجوان نسل دیوانی ہورہی ہے۔ اور ایسے ایسے واہیات پوسٹ ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ نئی نسل کیا اس قدر بدذوق ہوسکتی ہے؟

سب سے زیادہ وقت کی بربادی واٹس اپ پر ہوتی ہے۔ جتنے میسیجس ہم روزانہ وصول کرتے ہیں اور فارورڈ کرتے ہیں، اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم کو اتنی انفارمیشن کی واقعی ضرورت ہے؟ اس واٹس اپ سے پہلے بھی ہم زندہ تھے، کیا اس وقت زندگی میں کوئی کمی تھی؟ یا واٹس اپ آجانے کے بعد زندگی میں کوئی بہتری آگئی ہے؟ محلے میں کتنے گھر لٹ رہے ہیں ہم کو اس کی خبر نہیں ہے لیکن چین کے بارڈر پر کیا ہورہا ہے اس کی پل پل کی خبر ایک دوسرے کو فارورڈ کررہے ہیں۔ آپ کے خاندان والوں کو آپ کی ضرورت ہے لیکن آپ دنیا میں کرونا سے کہاں کتنے مررہے ہیں یہ فارورڈ کرتے بیٹھے ہیں۔ چونکہ زندگی میں کوئی بھی مقصد نہیں ہے، وقت بہت ہے  کہاں صرف کرنا ہے اس کا شعور نہیں ہے اس لئے بچوں کی طرح یہ سوشیل میڈیا پر فارورڈ فارورڈ کا کھیل کھیل  رہے ہیں۔

کچھ لوگ تھوڑے زیادہ سمجھ دار ہیں، وہ فارورڈ فارورڈ تو نہیں کھیلتے لیکن خود لکھ لکھ کر یا تو شائع کرواتے رہتے ہیں یا فارورڈ کرتے ہیں کہ مودی نے یہ کرڈالا، ٹرمپ کو وہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور عمران خان کیا کررہے ہیں۔ لکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے گویا مودی اور ٹرمپ سامنے شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے  ہیں اور آپ ان کے کان مروڑ کرآپ پوچھ رہے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا خود ان کے بیٹے یا داماد نہیں پڑھتے  تو بھلا کوئی دوسرا کیا پڑھے گا۔ کیا اس دور میں مسلمان سوائے ساٹھ ستر سال کے بوڑھوں کے، کوئی سنجیدہ چیز پڑھتا ہے؟آپ گھنٹوں اپنا وقت کیوں ضائع کررہے ہیں؟ پھر لکھنے کے بعد سب سے پوچھتے بھی ہیں کہ ”کیسا لکھا؟“۔ اور لوگ بغیر پڑھے تعریف بھی کرڈالتے ہیں کوئی لائک کلک کردیتا ہے کوئی انگوٹھا لہرادیتا ہے۔ اگر آپ کو کسی اخبار سے دو چار سو روپئے مل جاتے ہیں تو یہ پھر بھی ٹھیک ہے۔ لیکن ڈاکٹر، وکیل، کنسلٹنٹ وغیرہ اپنے وقت کے پیسے لیتے ہیں، لیکن آپ کو کیا ملتا ہے؟ پھر اپنا وقت کسی مثبت عملی کام میں کیوں نہیں لگاتے؟صحافی ہیں کہ مودی، امیت شاہ کو کسی بیوا کی طرح کوسنے میں لگے ہیں، علما حضرات ہیں کہ ایسے ایسے مسائل پر لکھے جارہے ہیں جن کی آج ضرورت نہیں ہے۔ ایک صاحب تشہد میں انگلی اٹھانے کے احکام لکھ رہے ہیں، کوئی مولانا چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے یا نہیں لکھ رہے ہیں، آج مسلمانوں کے اصل  مسائل کیا ہیں اور یہ حضرات کس قسم کے مسائل پر لکھ رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عورتیں ہیں کہ فیشن، زیور، یا پھر فضول چیزیں فارورڈ کرنے میں لگی ہیں۔ دینی مزاج کے لوگ ہیں کہ ہر وقت اختلافی مسائل پر ساری دنیا کے عقائد درست کرنے کی جنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ دین قائم ہوتا ہے  یا نہیں یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے، بس ان کا مسلک قائم رہے، یہی ان کی جستجو ہے۔

واٹس اپ پر جو وقت کی تباہی ہے لوگ اس کا اندازہ نہیں کرتے۔ جب کسی میسیج کے آنے کی Bell سنائی دیتی ہے، ہم اس امید میں میسیج کھولتے ہیں کہ شائد کوئی اہم کام کی بات ہو۔ لیکن میسیج میں ہوتا ہے ”السلام علیکم، جمعہ مبارک، محرم کا چاند مبارک، بواسیر کا بہترین علاج، مودی کی تازہ تقریر، ایک فلم اسٹار نے پھانسی لگالی، مسلمان لڑکی بھاگ گئی“ وغیرہ۔ بے کار اور بے مقصد لوگوں کے لئے ایسے میسیج  تو وقت کو گزارنے کے لئے بہترین غذا ہیں، لیکن ایک مقصدی زندگی رکھنے والے مصروف لوگوں کے ساتھ یہ ظلم ہے۔ جو دو چار منٹ ان کے میسیج کھول کر کوفت اٹھانے میں ضائع ہوجاتے ہیں وہ کتنے قیمتی منٹ تھے اس کا بھیجنے والے بے وقوف کو اندازہ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر لوگ ایسے بے مقصد میسیج اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو بھیجیں جو انہیں جانتے ہیں، اور جن کو ایسے میسیجس کی ضرورت ہے تو ان کو فارورڈ کرنا تو  ٹھیک ہے۔ لیکن بروڈکاسٹ گروپ بناکر ہر ایک کو بھیجنے کی عادت ڈال لینا نہ کوئی ثواب کا کام ہے نہ جہاد بلکہ دوسروں کا بھی وقت برباد کرنے والی حرکت ہے۔ تاوقتکہ کوئی میسیج ہر ایک کے لئے انتہائی اہم میسیج نہ ہو، ہرگز فارورڈ نہیں کرنا چاہئے۔

ویڈیوز فارورڈ کرنے والے تو اور بھی زیادہ وقت برباد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے وقت کو برباد کرنے کا قیامت میں حساب تو دیں گے ہی دیں گے، دوسروں کا وقت برباد کرنے کا بھی انہیں حساب دینا ہوگا۔ ویڈیو کیا ہے یہ لکھتے بھی نہیں تاکہ دیکھنے والے کو یہ اندازہ لگ جائے کہ یہ اس کے کام کی ہے یا نہیں۔ لیکن دیکھنے والے بھی اتنے سمجھدار نہیں ہوتے، جس طرح جانور ہر چیز کو  کھانے سے پہلے منہ لگا کر یا سونگھ کر ضرور دیکھتا ہے کہ کھانے کی چیز ہے یا نہیں،  یہ لوگ بھی  میسیج کھول کر  ضرور دیکھتے ہیں،  دو تین منٹ ضائع کرتے ہیں اور خود ہی کہتے ہیں کہ ”یار، بے کار چیزواٹس اپ بھیج کر ہمارا وقت برباد کردیا“۔ اگر ان لوگوں کو وقت کے اہم ہونے کا ذرا سا بھی شعور ہوتا تو وہ سب سے پہلے ان تمام کے نمبر کو بلاک کردیتے جو ایسے بے مقصد ویڈیو بھیج کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ 

سوشیل میڈیا پر وقت برباد کے بدترین نقصانات:-۱۔ آپ جتنی ویڈیوز فارورڈ کرتے ہیں، کیا آپ کو یہ علم ہے کہ ان ویڈیوز کی وجہ سے ویڈیوز بنانے والوں کی ہر ویڈیو پر لاکھوں کی کمائی ہوتی ہے۔ کسی نے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا یا کسی ہندو نے مسلمانوں کی تائید میں جواب دے کر فاشسٹوں کو ذلیل کردیا، کسی مسلمان کی پِٹائی کی جارہی ہے یا کوئی مسلمان کہیں پیٹ رہا ہے۔ آپ جیسے لوگ ہی جذباتی ہو کر یہ ویڈیوز ایک جہاد سمجھ کر فوری فارورڈ کرتے ہیں، اس پر ان کے مناظر بڑھتے ہیں، جس پر ان کو یوٹیوب سے پیسہ ملتا ہے۔ پھر جتنے زیادہ لوگ یہ ویڈیوز دیکھیں گے اتنے زیادہ اس ویڈیو بنانے والوں کو اشتہارملیں گے جس سے ان کی آمدنی دوگنی اور تِگنی ہوجائیگی۔ اس لئے ویڈیوز بنانے والے اتنے چالاک ہوتے ہیں کہ ایسی ویڈیو بناتے ہیں جس سے ہندو مسلمان سبھی جذباتی اور مشتعل ہوجائیں  اور اہم کام چھوڑ کر پہلے یہ ویڈیوز دیکھیں۔ یہ سارا ایک فِسکڈ میچ ہوتا ہے اور آپ کو بے وقوف بناکر کمایا جاتا ہے۔ یہ ساری ویڈیوز بنانے والی کمپیناں انہی فرقہ پرستوں کی  ہوتی ہیں جو کبھی مسلمانوں کے خلاف کبھی خود اپنے خلاف پروپیگنڈا کروا کر کماتی ہیں۔ ان کی آمدنی تو کروڑوں میں ہوتی ہے لیکن ان ویڈیوز کو فارورڈ کرکے آپ کو کیا ملتا ہے؟

۲۔ دوسرا بدترین نقصان یہ ہے کہ آپ جتنے واٹس اپ یا فیس بک پر میسیجس فارورڈ کرتے ہیں، ان میں سے آدھے سے زیادہ جھوٹے جعلی ہوتے ہیں۔ کوئی بھی خبر فارورڈ کرنے سے پہلے قرآن کے اس حکم کو زہن میں رکھیئے کہ ”یاایھالذین آمنوا اِن جاء کم فاسق بنباِِ فتبینوا اِن تصیبوا قوماّ بجھالۃ فتصبحوا علی مافعلتم نادمین“۔ (حجرات 6)۔ یعنی ائے ایمان والو جب کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت میں کسی بِھڑ جاو اور تم کو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ ایک حدیث میں یہی بات اور زیادہ واضح اور تنبیہ کے ساتھ آئی ہے کہ ”کفیٰ بالمرءِ کذباّ ان یحدث بکل ما سمع“ یعنی ایک شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ اس کے پاس جو بھی خبر آئے وہ بغیر تحقیق کے دوسروں کو سنا دے۔

۳۔ دشمن کا سب سے بڑا ہتہیار یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو خوف میں مبتلا رکھے۔ یہ سائیکالوجیکل وارہے جو فیلڈ وار یعنی میدانی جنگ یا فسادات سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے ذریعے آپ کے حوصلے کو ختم کیا جاتا ہے یعنی آپ کی ہمت اور ایمان کو کمزور کردیا جاتاہے۔ اسی لئے قرآن نے کہا کہ اور تم کو ضرور آزمایا جائیگا کئی چیزوں سے جن میں سب سے پہلے خوف ہے۔ ”ولنبلونکم بشئی من الخوف۔۔۔۔۔ یہ جو لنچنگ، یا اکیلے مسلمانوں کو گلیوں یا کھیتوں میں مارے جانے کے، مسجدیں گرانے کے ویڈیوز ہوتے ہیں یہ صرف اسلئے پھیلائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا کر ان کے ذہنوں کو شکست خوردہ کردیا جائے۔ ان کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ وہ اب فرقہ پرستوں کے آگے جھک کر رہیں۔ آپ ایسی ویڈیوز کو دیکھ کر غصے میں یا غیرتِ جذبات میں مشتعل ہوکر جتنی جگہ فارورڈ کرتے ہیں آپ انہی فرقہ پرستوں کی مدد کررہے ہیں جو اس خوف کو گھر گھر پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک غنڈہ بھی آپ کی بستی میں آکر کسی معصوم پر ظلم کرے تو بجائے پولیس یا قانون کی مدد لینے کے، بجائے گھر سے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے،  آپ ڈر جاتے ہیں اور دروازے بند کرلیتے ہیں۔ یاد ہے جب حافظ جنید شہید، ایک نوجوان جو مدرسے کی چھٹیوں میں ٹرین میں گھر جارہا تھا تو اسے ٹرین سے اتار کر پلیٹ فارم پر خنجروں سے شہید  کردیا گیا۔ کئی لوگ جو دیکھ رہے تھے ان میں  خود اس نوجوان کے مدرسے کے ساتھی بھی تھے، جو ڈر کر اس کو بچانے نہیں آئے، جنید شہید  چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار  رہا تھا۔ اس شہید کی ماں کے الفاظ کو یاد کیجئے کہ ”اگر دو چار دوست بھی اس کی مدد کے لئے آجاتے تو میرا بیٹا بچ سکتا تھا“۔ فرقہ پرست یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو سپرد کردیں اور دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح اس ملک میں ڈرے سہمے رہیں۔ آپ ایسی ویڈیوز کو فارورڈ کرکے دشمنوں کے کام کو آسان کررہے ہیں۔ اپنی قوم کی شکست اور ذلت کا اانتقام لینے کے بجائے دوسروں کو بھی بزدل اور کمزور بنارہے ہیں۔

۴۔ آپ ایسی ویڈیوز پھیلا کر خود بھی اور دوسروں کو بھی شوگر، بی پی، ٹنشن، ڈپریشن اور خوف کا شکار کرتے ہیں۔ کیونکہ جب مسلسل یہی خوف و ہراس کی چیزیں دیکھتے رہیں گے،  مقابلے کی کوئی صورت نہیں پائیں گے تو آپ کو خوف کی وجہ سے یہ ساری بیماریاں لگتی جائیں گی۔ اورجو  دوسری ویڈیوز اس سے ہٹ کر ہیں جو صرف وقت گزاری کے لئے ہیں جیسے فلمیں، ڈرامے،  جنرل نالج وغیرہ۔ ان کو دیکھ دیکھ کر آپ صرف تھکیں گے، اور آپ میں کاہلی، سستی اور فضول وقت گزاری کی عادت پختہ ہوتی جائے گی۔

۵۔ کئی فالتو میسیجس کو پڑھنے کے چکر میں آپ میں یہ اضطراب یا بے چینی پیدا ہوجاتی ہے کہ آپ ہر میسیج کو ایک منٹ میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ کوئی پوسٹ ذرا سی بھی لمبی ہو تو آپ اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بامقصد سنجیدہ پوسٹ سے محروم ہوجاتے ہیں اور لچّر میسجس جن میں لطیفے، گانے یا فضول خبریں ہوتی ہیں ان کو ایک دومنٹ میں دیکھ دیکھ کر غیر سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم کو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کمانڈمنٹس والی ویڈیوز ہیں یا جہیز کے خلاف ورکشاپ ہیں یا دوسری اہم موضوعات پر تقریریں ہیں، ان کو مختضر کرکے چار پانچ منٹ میں لائیں۔ کیوں کہ لوگ ان کو بھی لطیفوں اور گانوں کے میسیجس کی طرح جلدی جلدی دیکھنا چاہتے ہیں۔ فالتو چیزیں دیکھنے کے ان کے پاس ٹائم ہے لیکن دس فالتو چیزوں کو ڈیلیٹ کرکے ایک سنجیدہ چیز دیکھنے کا ٹائم نہیں ہے۔ ہم ان لوگوں کو یہی جواب دیتے ہیں کہ ہمارے ویڈیوز یا مضامین آپ نہ ہی دیکھیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ غیرسنجیدہ لوگ تو ویسے بھی قوم کے کسی کام کے لائق نہیں۔ ان کے لئے لطیفے ہی بہتر ہیں۔ یہ اچھی طرح یاد رکھیں کے اگر آپ کو واقعی کوئی سنجیدہ کام کرنا ہے تو آپ کو پوری توجہ کے ساتھ ویڈیوز یا آڈیوز کو دیکھنے یا سننے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ مختصر کرو کہنا ایک جہالت ہے۔

۶۔ آپ انجانے میں ایک اور بھیانک غلطی کررہے ہیں۔ فرض کرلیں کہ X  پارٹی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ آپ اس کے خلاف جو بھی واٹس اپ آئے اس کو فارورڈ کرنا فرض سمجھتے ہیں۔  کیا آپ کو علم ہے کہ آپ X  پارٹی سے نفرت کو عام کرکے کس پارٹی کی غیر ارادی طور پر تشہیر کررہے ہیں؟ لوگ الکشن میں آپ کی بات مان کر بجائے X  کو ووٹ دینے کے Y  کو، یا Z پارٹی ووٹ دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا Y   یا  Z  مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے والے ہیں؟ اب تو حالت یہ ہے کہ خود مسلمان پارٹیاں مسلمانوں کی غفلت اور بے بسی کا فائدہ اٹھا کر بِک رہی ہیں، دلال بنی ہوئی ہیں۔ جس طرح بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں اٹھا رہی ہیں اور وقف کی زمینیں بِکوا کر، مسجدوں کو منہدم کرواکر، معصوم لڑکوں کو دہشت گردی میں پھنسا کر اپنا فائدہ کررہی ہیں، تو سوال یہی ہے کہ آپ  X سے بدلہ لینے کے چکر میں کس کا فائدہ کررہے ہیں؟  بہتر یہ ہے  کہ اسی کا فائدہ ہونے دیجئے جو کھلا دشمن ہے۔ کھلا دشمن، چھپے ہوئے منافقوں سے بہتر ہوتا ہے۔

وقت کا صحیح استعمال کیسے کیا جائے۔آپ اپنی زندگی کا ایک مقصد طئے کیجئے۔ بیک وقت آپ سیاست، مذہب، سماجی خدمت، ادب، کرونا وغیرہ کے فرنٹس پر کام نہیں کرسکتے۔ ورنہ آپ کِرانے  کی دوکان بن جائیں گے جس پر بے شمار چیزیں ملتی ہیں لیکن آپ ایک گلی کے ہی ہوکر رہ جاتے ہیں۔  یعنی ہر کام میں ٹانگ اڑا تے ضرور ہیں لیکن کام کسی فیلڈ میں بھی نہیں کرسکتے۔ ہر معاملے میں صرف تبصرے اور مشورے یا تنقید کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہر موضوع پر بک بک تو کرسکتے ہیں لیکن مثبت کام کسی موضوع پر نہیں کرسکتے۔ ہر آدمی دانشور بن جاتا ہے، مشوروں کے انبار جیبوں میں لے کر گھومتا رہتا ہے۔

کوئی ایک جماعت منتخب کیجئے۔ یا تو سوشیوریفارمس سوسائٹی کا ساتھ دیجئے، یا دوسری بہت ساری جماعتیں ہیں جو قوم کے سیاسی، معاشرتی، اکنامک محاذوں پر کام کررہی ہیں۔ اگر آپ کی انا بہت زیادہ  بڑی ہے اور آپ کسی کے والنٹیئر بن کر کام کرنا نہیں چاہتے، اپنے لیڈر آپ بن کر رہنا چاہتے ہیں تو کوئی بھی ایک کام منتخب کیجئے جس کا تعلق تعلیم، سوشیل ویلفیر، شعور  بیداری یا ادب وغیرہ سے ہو، اپنی تمام صلاحتیں اور اپنا وقت پورا اس کام کی تکمیل میں صرف کیجئے۔ سوشیل میڈیا پر صرف اپنے کام سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو جاری رکھئے، جو تعلق نہیں رکھتیں انہیں فوری حذف کیا کیجئے اور ایسے بے مقصد لوگوں کو بلاک کرنا شروع کردیجئے۔


    ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721



 

بدھ، 15 جولائی، 2020

بکرے کاٹنا کیا ضروری ہے؟

 

                اس مضمون میں نہ مسائل بیان ہوں گے نہ فضائل۔ اگر آپ ہر سال قربانی دیتے ہیں تو اس مضمون کو ضرور پڑھیئے گا؛ اور اگر قربانی کے قائل نہیں ہوں تو یہ مضمون پڑھناآپ کے لئے بے حد ضروری ہے۔ جیسے جیسے بقرعید قریب آرہی ہے، قربانی وغیرہ کے فقہی مسائل کا  اخبارات اور سوشیل میڈیا پر بیانات اور سوالات جوابات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جس میں سب سے زیادہ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ کرونا اور لاک ڈاؤن کے حالات میں قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ لیکن ہم ان مسائل پر بحث نہیں کرینگے۔ ہم آج اس مسئلے کی بات کریں گے جو سالہاسال سے ہے اور ہر سال کرونا وائرس کی وبا کی طرح بڑھتا جارہا ہے۔ وہ مسئلہ ہے قربانی سے انکار کا مسئلہ۔ اس میں ایک گروہ ایسا ہے جو اپنے آپ کو دانشوروں اور ریفارمسٹس میں شمار کرتا  ہے۔ یہ لوگ پہلے جب اپنے ملحدانہ مشورے دیتے تھے تو تھوڑے چوکنّے ہوکر بات کرتے تھے،  لیکن اب بلاجھجھک کہنے لگے ہیں کہ اگر قربانی کے جانوروں کو  ہلاک کرنے کے بجائے اسی پیسے کو ایجوکیشنل یا ویلفیر یا کسی اور کنسٹرکٹیو کام میں لگایا جائے تو قوم کی معاشی اور تعلیمی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ دوسرا گروہ جو فرقہ پرستوں سے ڈرا ہوا ہے وہ مصلحت پسندی سے کہتا ہے کہ چونکہ برادرانِ وطن کی اکثریت ویجیٹیرئین ہے اس لئے ہمیں ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے قربانی سے پرہیز کرنا چاہئے حالانکہ ہندودھرم شاستروں میں یہ واضح لکھا ہے کہ شری رام اور ان کے والد گوشت خور تھے۔ تیسرا گروہ، وہ ہے جو منکرین حدیث کا ہے۔ وہ نماز، روزے اور زکوٰۃ اور حج کا قائل ہی نہیں اس لئے قربانی ان کے نزدیک سوائے جانوروں کی ہلاکت کے کچھ اور نہیں۔ اور چوتھا گروہ اچھے مسلمانوں کی نئی نسل کا ہے۔ وہ بطور احترام کچھ نہیں کہتی لیکن دوسرے مذاہب کے بے معنی اور بے مقصد رسومات اور تیوہار کی طرح قربانی کو بھی ایک مذہبی تیوہار سمجھتی ہے۔ بالخصوص نئی نسل کی لڑکیوں کو قربانی وغیرہ سے بہت الرجی ہے۔ پوری نئی نسل کے ذہنوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس قربانی کے اتنے فضائل بیان کیئے جاتے ہیں، سالہاسال سے کروڑہا جانور ذبح کئے جاچکے ہیں لیکن آج تک نہ کوئی انقلاب آیا نہ مسلمانوں کی اخلاقی یا معاشی یا سیاسی حالت بدلی، بلکہ اور ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔

                قربانی کی اہمیت سے انکار کی ایک وجہ تو احساسِ کمتری ہے،  دوسرے یہ کہ یہ لوگ قربانی سے واقف تو ہیں لیکن قربانی کے اصل فلسفے سے واقف نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ان میں صحیح دین کے فلسفے کو سمجھنے کی خواہش بھی نہیں۔ اگر یہ ایک بار سمجھ جائیں تو یہی نہیں بلکہ ہر غیرمسلم بھی زندگی میں ایک بار قربانی کرنے کا خواہشمند ہوجائے۔ بکرا کاٹنا محض ایک علامتی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ اس قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ اللہ تعالیٰ کو جو پہنچتا ہے وہ بکرا کاٹنے کے پیچھے وہ نیت اور عمل کا ارادہ ہے جو قربانی کے بعد بندے کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔

                قربانی کا اصلی فلسفہ اس کی نیّت میں پوشیدہ ہے۔ جو حکمت اور فائدے اس میں پوشیدہ ہیں ان کو سمجھنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت کو اچھی طرح سمجھنا لازمی ہے کیونکہ یہ قربانی بھی انہی کی ایک یادگار سنّت ہے۔ جب انہیں بیٹے کو ذبح کرنے کی آزمائش سے گزارا گیا تو وہ اس امتحان سے پیچھے نہیں ہٹے، اور نہ ان کے بیٹے اسماعیل پیچھے ہٹے۔ آنکھوں پر پٹّی باندھی اور چُھری چلادی۔ تب سے لے کر آج تک لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بکرے کے گلے پر عربی زبان میں کچھ نیّت کے الفاظ پڑھ کر جانور کے گلے پر چھری چلانا سنّت ابراہیمی ہے۔ انہیں یہی سکھایا گیا ہے۔ اگر نیت یاد نہیں ہے تو کاغذ دیکھ کر یا سن کر الفاظ دوہرادیتے ہیں۔ پھر یہ کہہ دینے سے کہ ائے اللہ، یہ قربانی میری طرف سے یا فلاں فلاں کی جانب سے قبول فرما بسم اللہ اللہ اکبر۔ اس کے ساتھ ہی جب خون کا فوارہ نکل پڑتا ہے تو انہیں قبولیت کی رسید بھی مل جاتی ہے۔ہاتھوں اور کپڑوں پر سے خون کے چھینٹے دھوکر انہیں ایک جہاد والی عبادت کا لطف بھی مل جاتا ہے۔ عورتیں بھی پکوان کرکے گھر کو دھوتی ہیں اور خوب تھکنے کے بعد انہیں بھی ایک عبادت کا مزا آجاتا ہے۔ گوشت کی تقسیم کے ثواب کا بھی بھرپور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے۔ ران صمدھاوے میں، اچھا گوشت رشتہ داروں میں اور فالتو چھیچھڑے اور ہڈیاں غریبوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ چونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بیٹھا ہوا ہے بلکہ بٹھادیا گیا ہے کہ جانور کے خون کے پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ قربانی کو قبول فرمالیتا ہے اور سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اس لئے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے چار بکرے قربان کئے اور ہم نے پانچ۔

دوستو؛ کیا یہی قربانی ہے؟ کیا یہی سنت ابراہیمی ہے؟۔ یاد رہے کہ اسلام اور دوسرے تمام مذاہب کی عبادتوں اور عیدوں میں فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کی کوئی عبادت بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ ہر ہر عبادت کے پیچھے ایک نہ ایک مقصد، لاجِک اور انسانیت کے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ اس میں پوشیدہ ہے۔ آپ دوسرے مذاہب کے تیوہاروں کے دیکھئے، بے مقصد اور بے فائدہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ برباد کیا جاتا ہے جس سے نہ خود انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ قوم کو۔ بلکہ کچھ تیوہار تو ایسے بھی ہیں جن میں انسانوں کی جان بھی جاتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بکروں کو کاٹنے اور گوشت بھون کر کھانے کا بھلا کس کو فائدہ پہنچتا ہے سوائے اس کے کہ دو تین وقت کچھ لوگوں کا پیٹ بھرجاتا ہے۔یہ فائدہ کوئی ایسا بھی بڑا فائدہ نہیں جس کے لئے اتنے بکھیڑے مول لئے جائیں اور نہ اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز ہے جس کے فضائل میں اتنی آیتیں اور حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ کر تو واقعی لگتا ہے کہ یہ خودساختہ دانشور اور مصلح  سچ ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ پیسہ تعلیم یا فلاحی کاموں پر ہی لگا دیا جائے تو کہیں زیادہ فائدے ہوسکتے ہیں۔

                 جب تک لوگ قربانی کی نیّت کیا ہے اس کو نہیں سمجھیں گے، اسی طرح لاکھوں جانور ہلاک ہوتے رہیں گے۔ آیئے جانیں کہ نیّت کیا ہے جس میں ایک انقلاب چھپا ہے۔ نیّت  وہ نہیں جو زبان سے آپ پڑھ رہے ہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت جو  ارادہ  یا  سچّا عزم یا مقصد دل اور دماغ میں چلتا رہتا ہے اس کو نیت کہتے ہیں۔اسی لئے نبی   کا فرمان ہے کہ ہر عمل کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے۔ قیامت میں ظاہر میں کیا نظر آرہاہے وہ نہیں دیکھا جائے گا بلکہ دل میں اس عمل کے کرتے وقت کیا ہے وہ دیکھا جائیگا۔ وہ نیّت یہ ہے کہ جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت بندے کے دل اور دماغ میں یہ عزم یا  پکّا ارادہ گونجتا رہے کہ ”ائے اللہ، تیرے حکم کے آگے میں میری جان، مال اور شہر تو کیا اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر“۔

اور یہی وہ آخری قربانی تھی جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو اس دنیا کی امامت دینے کا اعلان فرمایا ”انی جاعلک للناس  اماما“۔ آپ اسی لئے آج بھی یہودیوں کے امام ہیں، نصرانیوں کے امام ہیں، مسلمانوں کے امام ہیں۔ ہندودھرم شاستروں میں کئی ایسی باتیں اور واقعات ہیں جن کے تانے بانے ابراہیمؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں سے ہی ملتی ہیں۔ ہاں ان کی شکل بدل گئی ہے،چونکہ کاغذ ایجاد نہیں ہوا تھا اس لئے  صدیوں سے یہ باتیں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ ہفتہ کے دن عبادت، گائے کی پوجا، سر منڈھانا وغیرہ ایسے کئی اعمال ہیں جو بنی اسرائیل سے چلے آرہے ہیں۔”النبی الخاتم“ میں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے بہت تفصیل سے یہ باتیں پیش کی ہیں۔ غرض یہ کہ ہر مذہب میں تعلیمات کی شکل تھوڑی بدلی ہوئی لیکن اصل ایک ہی ہے یعنی ”کان الناس امّۃ واحدہ“۔ انسان ایک ہی امت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلسل پیغمبر اور کتابیں اور صحیفے بھیج کر انسانوں کی ہدایت جاری رکھی، اور آخری نبی محمد اور آخری کتاب قرآن ہے۔ اس کے ساتھ ہی سابقہ تمام نبیوں کی شریعت اور تمام کتابوں کو منسوخ کرکے اللہ تعالیٰ نے اسی دین کو انسانیت کے لئے مقرر فرمادیا۔ جتنے ادیان آئے ان سب کے امام ابراہیم ؑ ہی تھے۔

لیکن یہ امامت صرف ایک بیٹے کی قربانی کے بعد نہیں مل گئی۔یہ  قربانی تو آخری امتحان تھا، جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت وہ تمام امتحان بھی ذہن میں ہونے لازمی ہیں جن سے گزر کر ابراہیم ؑ بیٹے کی قربانی تک پہنچے۔ چھری پھیرتے ہوئے بندہ کی نیت یہی ہو کہ میں بھی ان تمام قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

سب سے پہلا امتحان حلال کمائی کا ہوتا ہے۔ جب ابراہیم ؑ نے دیکھا کہ والد کی کمائی حلال نہیں ہے۔ وہ  بت بنا کر بیچتے ہیں، آپ نے والد کا گھر چھوڑدیا۔بندہ چھری پھیرنے سے پہلے ایک لمحہ یہ سوچ لے کیا اس کی کمائی حلال کی ہے؟کسی مولوی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ ”استفت بقلبک“ یعنی اپنے دل سے پوچھ، اپنے ضمیر سے پوچھ۔

دوسرا امتحان محلہ اور شہر چھوڑنا ہے۔ جب آپ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ لوگ ان پتھر کے بتوں یا مورتیوں کو توڑ کر ایک اللہ کی عبادت اختیار کریں لیکن لوگ نہ مانے۔آپ نے بتوں صرف توڑا ہی نہیں بلکہ عقلی اور منطقی  لوگوں کو  ہر طریقے سے سمجھایا کہ نہ چاند سورج خدا ہوسکتے ہیں، نہ پتھر اور مٹی کی مورتیاں خدا ہوسکتے ہیں، اور نہ خدا کا تصور ان کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان کے مسلمان اس طرح سے سعودی عرب یا پاکستان وغیرہ سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں اسی ماحول میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے جس ماحول میں ابراہیم ؑ پیدا کئے گئے تھے، یعنی جہاں قدم قدم پر بت بنائے جاتے ہیں اور پوجے جاتے ہیں۔

تیسرا امتحان تھا قانون سے ٹکرانے کا۔ یہ کوئی معمولی امتحان نہیں ہوتا۔ چاہے حکمران کوئی بادشاہ ہو، فوجی ڈکٹیٹر ہو، جمہوری صدر ہو یا کوئی اور، ہر حکمران چاہتا ہے کہ اس کی مرضی چلے۔ جو ان کی مرضی پر نہ چلے اسے سزائے موت، یا عمر قید، یا جھوٹے انکاؤنٹر یا پھر جھوٹے الزامات میں ساری عمر عدالتوں کے چکر کاٹنے کے عذاب میں مبتلا کردے۔لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن قانون کے آگے مجبور ہوکر اکثر مخبر (انفارمر) بن جاتے ہیں۔  ابراہیم ؑ کو بھی سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن آپ نے یہ پکّی نیت کی ہوئی تھی کہ والد یا شہر تو کیا جان بھی اللہ کے لئے قربان کرنی پڑی تو کردیں گے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانِ عزیز کو ختم ہونے سے بچالیا۔ لیکن امتحانوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

                اگلا امتحان تھا بیوی اور نوزائیدہ بچے کو لے کر ملک چھوڑ دینے کا۔ آپ بیوی اور بچے کو لے کر بے آب و گیاہ صحرا میں نکل پڑے اور تقریباّ ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ طئے کرنے کے بعد جس مقام پر پہنچے اسے دنیا آج مکۃ المکرمہ کے نام سے جانتی ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد حکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو چھوڑ کر واپس پلٹو۔ بیوی نے یہ بحث نہیں کی کہ یہ کیسا اسلام ہے کہ آدمی اپنی بیوی اور بچے کو تنہا صحرا میں چھوڑ کر چلاجائے۔ صرف اتنا پوچھا کہ ”کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟“۔ جواب ہاں میں ملنے پر بیوی نے خداحافظ کہہ دیا۔ جب بیوی کو شوہر پر اعتماد ہو کہ اس کی نیّت خالص ہے وہ اللہ کو خوش کرنے کے علاوہ اور کچھ نیت نہیں رکھتا تو ایسی بیوی، شوہر پر ضرور اعتماد کرتی ہے۔

پھر برسوں بعد جب واپس لوٹ کر آتے ہیں تو بچہ بڑا  اور سمجھ دار ہوچکا  تھا۔  اس کے بعد وہ آخری امتحان لیا جاتا ہے جس کو ہم قربانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بندہ کسی کے لئے والدین کو چھوڑ سکتا ہے،  ملک کو چھوڑ سکتا ہے، بیوی کو بھی چھوڑ سکتا ہے لیکن اولاد کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہیں پر ہر انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ آزمانا تھا کہ ابراہیمؑ اللہ کی محبت میں اولاد کو قربان کرتے ہیں یا اولاد کی محبت میں اللہ کے حکم کو ٹالتے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے لوگ اولاد کی محبت میں آزمائے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر،  اعلیٰ تعلیم کے لئے، بچوں کے شاندار مستقبل کے لئے لوگ اللہ کے احکامات کو جانتے ہوئے بھی مان نہیں سکتے۔ لیکن ابراہیم ؑ اس امتحان میں بھی پورے اترے۔ اور بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے تیار ہوگئے۔ اس امتحان میں پورے اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شاندار انعام کا اعلان فرمایا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ ”و اذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما“ (سورہ بقرہ  124) یعنی جب ابراہیم کے رب نے انہیں کئی باتوں سے آزمایا، اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے تو کہا کہ میں آپ کو تمام انسانوں کی امامت عطاکروں گا“۔ امامت یعنی لیڈرشِپ کے ہیں۔ لوگ جو اس لیڈرشپ کے معنی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک لیڈرشپ کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں لے جانی والی لیڈرشپ۔ یہ وہ لیڈرشپ ہے جو تمام انسانوں کی اخلاقیات، اکنامی، سیاست، امن انصاف او حقوق العباد کے مکمل نظام کو قائم کرنے والی لیڈرشپ ہے۔

دوستو؛ یہ  صرف ایک بکرے کی قربانی نہیں ہے۔ اس کے خون کا پہلا خطرہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا کی لیڈرشپ کے لئے پیدا کیا ہے، اس پر ہمارا حق ہے، یہ ہمارا منصب ہے، ہم کو لیڈرشپ قائم کرنے کے مقصد سے پیدا کیا گیا ہے۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ، وکالت یا مزدوری وغیرہ تو صرف روٹی کمانے کے ذرائع ہیں، ہمیں ان کے لئے نہیں اور نہ عالیشان گھر بنانے، اپنی بیٹیوں کی اعلیٰ خاندانوں میں شادیاں کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، ہم کو اس دنیاکا نظام بدلنے کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ کیونکہ جب آپ نظام بدلنے کے لئے نہیں اٹھیں گے تو لازمی طور پر کسی اور نظام کے تحت آپ کو غلام بن کر رہنا ہوگا جیسے کہ آج ہم ہیں۔ اگر آپ پتھروں اور گائے اور ہاتھی جیسے جانوروں کی پرستش کے نظام کو ختم نہیں کرینگے تو  انہی جھوٹے خداؤں کی  پرستش آپ کے سر پرمسلّط ہوکر رہے گی۔ آپ اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے نہیں اٹھیں گے تو غیر اللہ کی محکومیت آپ کی سزا ہوکر رہے گی۔ اس لئے جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت یہ اچھی طرح سوچ لیجئے کہ آپ ایک جانور کی جان لے کر کیا چاہتے ہیں۔ صرف مزے دار پکوان یا ایک انقلاب؟ اگر انقلاب چاہئے تو یہ بھونے ہوئے گُردے اور کلیجی کی خوشبو کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ ابراہیم ؑ کی ان قربانیوں اور امتحانوں کو اپنے ذہن میں چھری پھیرتے وقت تازہ کرنے سے آئے گا۔ تو گویا قربانی کی نیت یہ ہوئی کہ ”ائے اللہ، میں ان تمام قربانیوں کے لئے تیار ہوں جو ابراہیم ؑ نے دی تھیں۔ میں اس کے لئے حرام کمائی تو کیا، گھر، ملک، بیوی  تو کیا اگر اولاد کو بھی ذبح کرنا پڑے تو تیرے حکم کے آگے کردوں گا، بسم اللہ اللہ اکبر“۔ جب بندہ اس سچّی نیت کے ساتھ جانور ذبح کرتا ہے، اور اس کا گوشت گھر گھر پہنچتا ہے تو یہ گوشت دراصل ایک پیغام ہے جو گھر گھر یہ اعلان کرتا ہے کہ بھیجنے والے نے یہ عہد کرلیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے۔اس طرح اللہ کا وہ کیا دین ہے، کیا حکم ہے جس کے لئے یہ بندہ اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہے، وہ ہر ایک کے ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح پورا خاندان اور پورا معاشرہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ فائدہ جو ایک بکرے کی قربانی کے ذریعے ہوتاہے۔ جانور کے گلے پر چھری پھیرنے کے ساتھ ہی جو کام بندے کے ذمہ واجب ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں:  پہلا کام: اعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئاّ یعنی ایک اللہ کی عبادت، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،دوسرا کام: قم فانذر: اٹھو اور دوسرے انسانوں کو پیغام پہنچاو۔ اگر 25 کروڑ مسلمان قربانی کرتے وقت یہ عہد کرلیں کہ وہ صرف چار چار ہم وطن غیرمسلم بھائیوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیں گے تو 85 کروڑ انسان دوزخ کی آگ سے بچ جائیں گے۔ تیسرا کام: یاایھاالذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم باباطل: چاہے کچھ ہوجائے حرام مال کو ہاتھ نہیں لگانا، اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا جس میں حرام کمائی کے بغیر آج گزارا ناممکن ہوچکا ہے۔ اپنے اور اپنی اولاد کے پیٹ میں صرف اور صرف حلال کمائی پہنچانے کا عہد کرلینا،چوتھا کام:  کونوا قوّامین بالقسط: یہ دین عدل قائم کرنے کے لئے آیا ہے۔ جس قوم میں انصاف قائم نہیں ہوتا وہاں قتل و غارتگری، ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ زنی اور ہر طرح کی انارکی پیدا ہوجاتی ہے۔ عدل یہ ہے کہ سماج میں انسانی حقوق، مساوی حقوق،خواتین کے حقوق، صنفی انصاف اور مساوات قائم ہوں۔ پانچواں کام یہ ہے کہ یہ سارے کام تنہا نہیں کیے جاسکتے۔ اکیلا آدمی حلال کمائی کا نظام قائم نہیں کرسکتا اور نہ انصاف قائم کرسکتا ہے۔ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق انصاف قائم کرنے اٹھ جائے تو بجائے اسلام کے ہر طرف قتل و خون شروع ہوجائیگا۔ اس کے لئے ایک اللہ کی رسی یعنی ایک جماعت ایک سمع و طاعت کا نظم، ایک امیر کی اتباع، ہجرت اور جہاد کی  منصوبہ بندی کرنے والی ایک مکمل  تنظیم  درکار ہے۔ ہر قربانی کرنے والا چھری پھیرتے وقت پہلے اپنی انا کو ذبح کرے، اپنی قابلیت، اپنی میں،  اپنے لیڈر بننے کی تمنا، اور اپنے خاندان کے فخروغرور کو ذبح کرے اور ایک معمولی خدمت گزار کے طور پر اپنے آپ کو ایک اجتماعیت کے حوالے کردے، تب جاکر ایک بکرے کی قربانی سے دنیا کو فائدہ پہنچے گا، ورنہ اپنی انا کو قربان کئے بغیر جو قربانی ہوگی اس سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا، امت جتنی ذلت کا شکار آج ہے اس کی ذلت میں ہر سال اضافہ ہوتا جائے گا۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی،حیدرآباد

9642571721


 

اتوار، 5 جولائی، 2020

میں میں میں ۔ ایک خطرناک بیماری

 

میں یہ سمجھتا ہوں۔۔میں حق بات کہتا ہوں۔۔۔۔میں نے اتنے لوگوں کی مدد کی ہے۔۔۔یہ ”میں میں میں“کے وائرس سے ہر دس افراد میں سے نو افراد اس کے شکار ہیں۔ یہ قوم میں لیڈرشِپ کی کمی کا دوسرا سبب ہے۔ ہم نے پہلے کمانڈمنٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ جب تک قوم ”چاہئے چاہئے“ کا پہاڑہ بند نہیں کرے گی یعنی ”حکومت کو یہ کرنا چاہئے، مسلمانوں کو وہ کرنا چاہئے“ قوم کسی بھی مثبت کا م کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اچھے لیڈر بننے کے لئے پہلے ایک اچھا والنٹئر بننا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ بیماری صرف عورتوں میں ہوتی ہے جو ہر ایک سامنے ”میرے ابا میری امی، ہمارا خاندان“ کی رٹ لگاتی ہیں۔ لیکن مشاہدات یہ بتارہے ہیں کہ مردوں میں یہ بیماری عورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کسی سے صرف دس منٹ گفتگو کیجئے وہ پانچ منٹ صرف یہ بتانے میں لگادیتا ہے کہ ”میں کتنا اہم ہوں“، جیسے”میں کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔

ہمارے دادا فلاں تھے، ہمارا خاندان فلاں ہے“”فلاں فلاں تک میری رسائی ہے“”ہمارا مسلک، ہمارے علما، ہمارا سلسلہ،  ہمارا مدرسہ،  ہماری جماعت، ہمارے لوگ ہی اصل دین پر قائم ہیں“اس ”میں، میرا، میری، ہمارا“ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو مخلص لوگ ہوتے ہیں بہت تیزی سے آپ سے دور ہوجاتے ہیں، جو بچ جاتے ہیں وہ چونکہ کوئی بھی مقصدِ حیات نہیں رکھتے اس لئے ایک چائے پر گھنٹوں ساتھ گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ان کو عام زبان میں چمچے کہتے ہیں۔ آپ یا تو انہی چمچوں کے  ہوکر رہ جاتے ہیں یا پھر کسی کے آپ بھی چمچے بن جاتے ہیں۔

لیڈرشِپ کا دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ آپ اِن ”میں، میں، میں“ کرنے والوں سے دور رہئے۔ ان کی اس عادت کو قرآن نے یوں واضح کیا ہے کہ ”لاتحسبن الذین یفرحون بما اتو و یحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا فلا تحسبنھم بمفازۃ من العذاب و لھم عذاب الیم۔ (سورہ آل عمران188)۔ یعنی جو لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں سے خوش ہوتے ہیں، بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور جو کام نہیں کئے وہ بھی اس طرح بیان کرتے ہیں گویا وہ انہی کی وجہ سے ہوئے اور اس طرح اپنی تعریف چاہتے ہیں، یہ مت سمجھو کہ وہ عذاب سے بچ گئے، ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے۔

یہ بات ایک حدیث میں بھی وارد ہوئی کہ قیامت میں تین لوگوں کو پیشانی کے بل بال گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لایا جائیگا۔ ان میں سے ایک سخی ہوگا، دوسرا شہید اور تیسرا عابد۔ ان کو کہا جائیگا کہ تم نے یقینا نیک کاموں میں زندگی گزار دی، لیکن تمہارے دل میں یہ تھا کہ لوگ تمہاری سخاوت کی وجہ سے تمہاری عزت کریں، تمہاری بہادری سے مرعوب ہوجائیں، تمہارے ذہد وتقویٰ کے دیکھ کر متاثر ہوں، تمہیں یہ سب کچھ دنیا میں مل گیا اب یہاں جہنم کی آگ تمہارا انعام ہے“۔ اس ”میں“ کی کئی مثالیں ہیں۔ جیسے گلی گلی مدرسے ہیں جن کی ضرورت نہیں۔ یہی متحرک علما یا حفاظ مل کر جو موجودہ مدرسے ہیں انہی کو مضبوط بنانا شروع کریں تو دینی تعلیم ترقی کرے گی اور ہر مدرسہ ایک کالج یا یونیورسٹی میں تبدیل ہوگا۔ لیکن ہر ایک کو ”بانی Founder “ کہلانے کا جنون ہوتا ہے۔دو دو کمروں میں مدرسے چلانے کی وجہ سے دینی تعلیم کا معیار کہاں پہنچ گیا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔

NRC, CAAمیں پانچ پانچ دس دس کے سینکڑوں گروپ بن گئے اور مختلف طریقوں سے احتجاج کرنے لگے۔ کوئی سڑکوں پر، کوئی سوشیل میڈیا پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گدھے گھوڑے سب برابر ہوگئے۔ حکومت بات کرتی بھی تو کس سے؟ کیا سینکڑوں لیڈروں کو جمع کرکے بات کی جاسکتی ہے؟ اگر تمام اپنی ”میں“ مٹا کر ایک بڑی جماعت کے والنٹئر بن جائیں تو  ایک طاقت بن سکتے ہیں،پھر نہ کسی صفورہ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے نہ شرجیل امام کو۔

ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جس وقت بال ٹھاکرے نے بمبئی میں قتل و خون کا بازار گرم کردیا تھا جس کے جواب میں داؤد ابراہیم نے دھماکوں سے بمبئی کو دہلا دیا تھا، نرسمہاراؤ جو اس وقت پرائم منسٹر تھا، وہ شیوسینا کے زخمیوں کے دیکھنے کے لئے بمبئی پہنچا۔ اس سے رپورٹرز نے پوچھا کہ کیا آپ مسلمانوں سے بھی  ملے؟ اس نے جو ایک جملے میں جواب دیا تھا وہ عبرت ناک جملہ آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس نے کہا تھا ”میں کس سے ملتا؟“۔ یعنی تمام ہندو تو ضم ہوکر ایک طاقتور پارٹی بن چکے تھے جس کی لیڈرشِپ سے بات ہوسکتی تھی لیکن مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ناگپاڑہ میں سو گروپ تھے، اندھیری میں دیڑھ سو اور بھیونڈی میں دو سو، ہر گروپ جس میں دو،دو، چار چار لوگ تھے ہر ایک شخص اپنے آپ کو بال ٹھاکرے کی طرح  سمجھتا تھا کہ ”میں“ لیڈر ہوں۔ اب اگر کوئی حکومت بات کرے گی بھی تو کِس کِس سے؟

جہاں بھی مسلم ووٹ اتنے ہوتے ہیں کہ ان کے نمائندے کے جیتنے کے امکانات پورے پورے ہوتے ہیں وہاں کئی کئی لوگ الکشن لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے ووٹ کاٹتے ہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ ”اسمبلی یا پارلیمنٹ میں ”میں“ جاکر مسلمانوں کی تقدیر پلٹ دوں گا۔ اور آخر میں جاتا ہے تو وہ شخص جاتا ہے جو سیکولر ووٹ لے کر ملک سے غداری کرتا ہے اور کچھ کروڑ روپیہ لے کر فرقہ پرست پارٹی جوائین کرلیتا ہے۔اگر دو دو چار چار ہزار ووٹ لے کر دشمنوں کو جِتانے کے بجائے اپنی ”میں“ کو قوم کی خاطر قربان کرکے اپنے آپ کو ایک جماعت بنائیں اور نظمِ جماعت قائم کرکے اپنے سے زیادہ قابل دوسرے کو سمجھیں تو اس سے اسلامی اخوت بھی قائم ہوگی اور سیاسی قوت  بھی۔

لاک ڈاؤن کے دوران  ہزاروں کی تعدا د میں لوگوں نے راشن تقسیم کئے۔ یہی کام سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا جیسے RSS، کانگریس، کمیونسٹ وغیرہ۔ جتنا ان تمام پارٹیوں نے جملہ خرچ کیا اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں نے تقسیم کردیا۔ فرق یہ تھا کہ ہمارے لوگ اپنے اپنے طور پر تقسیم کرتے رہے، پاکٹ لینے والا پاکٹ لے کر بھول گیا کہ یہ کون تھے۔ لیکن جن پارٹیوں سے اسے پاکٹ ملا، اُسے یاد رہا کہ فلاں پارٹی نے میری مدد کی تھی۔ اس طرح وہ صرف پاکٹ لے کر نہیں گیا بلکہ ایک پارٹی کے پورے منشور Menifesto کو وہ اپنے ذہن میں بسا کر گیا جس سے پارٹیاں مضبوط ہوئیں۔ اس کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے لیکن ہمارے معصوم لوگ سمجھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ یہی کام کرتے ہوئے صرف ایک بڑی جماعت کا بینر ہی لگا لیتے تو ایک اجتماعیت کو مضبوط کرتے۔ پاپولرفرنٹ، جماعتِ اسلامی، اہلِ حدیث، تبلیغی جماعت یا کسی بھی بڑی جماعت کو اگر اپنے کام کا کریڈٹ دِلاتے تو قوم ان جماعتوں سے جڑ کر ان کو بھی کریڈت دیتی۔ کچھ لوگ اپنی ”میں“ اس طرح بیچ میں لاتے ہیں کہ ”مجھے شہرت پسند نہیں“، ”میں سمجھتا ہوں کہ فلاں فلاں جماعت میں یہ یہ خامی ہے“، ”میں جماعتوں کے  لیبل لگانے کا قائل نہیں“۔ ”میں صرف اللہ کے لئے یہ کام کررہا ہوں، کسی اور کو خوش کرنے کی مجھے ضرورت نہیں“۔ شہرت کی خواہش کے بغیر کام کرنا یقینا بہت اچھا جذبہ ہے لیکن یاد رہے کہ یہ ایک زبردست شیطانی وسوسہ بھی ہے۔ کیونکہ جس اللہ نے شہرت کی خواہش سے منع کیا ہے اسی اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاّ“ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، یعنی ایک مضبوط جماعت بن جاو۔اپنی اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کا انجام دیکھنے کے بعد کم از کم اب تو یہ سمجھنا چاہئے کہ آپ چاہے لاکھ امیر ہوں، تعلیم یافتہ ہوں، دانشور ہوں، عالمِ دین ہوں، یا جو بھی ہوں، اگر ہار سے جڑے تو نقلی موتی بھی اصلی ہیرے کی طرح لگتا ہے ورنہ اصلی ہیرا بھی چوروں کے کام آتا ہے۔ یاد رکھئے آپ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں انفرادیت Individuality کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، Masses  کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ طاقت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب سب اپنی اپنی ”میں“ کی طاقت کو ایک بڑی طاقت میں ضم کردیں۔ ورنہ اگر ہر شہر میں پانچ ہزار آرگنائزیشنس ہوں، پانچ ہزار پریسیڈنٹ، پانچ ہزار وائس پریسیڈنٹس اور پانچ ہزار جنرل سکریٹری ہوں، ہر آرگنائزیشن میں پانچ دس کارکن ہوں اور ہر آرگنائزیشن اپنی پوری توانائیاں صرف کرکے دو دو لاکھ چار چار لاکھ روپیہ جمع کرکے سماجی خدمات کرتی ہو، تو مجموعی طور پر پوری قوم کے کتنے افراد کا نقصان ہورہا ہے اور کتنے پیسے کا نقصان ہورہا ہے اس کا اندازہ لگا لیجئے۔ دو  دو چار چار لاکھ سے چھوٹے چھوٹے فلاحی کام ہوتے ہیں جس سے سو دو سو لوگوں کی ہی مدد ہوتی ہے۔ لیکن ایک جماعت بن کر یہ پیسہ جمع کرلیں تو ہزاروں کروڑ بنتا ہے جس سے انڈسٹری یا یونیورسٹی یا میڈیا ہاؤس قائم ہوجاتا ہے۔ لوگ خود صدر یا نائب صدر بن کر خوش ہیں، اپنی ”میں“ کو کسی بڑی طاقت میں ضم نہیں کرسکتے، نتیجہ کیا ہے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔ بڑی جماعت کے ساتھ ہونے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک آٹو والے بھی ہیں تو ہاتھ میں پستول لے کر گھوم سکتے ہیں کوئی پولیس والے میں آپ کو روکنے کی ہمت نہیں ہوتی جیسا کہ آپ نے ابھی حالیہ دہلی کے فسادات میں دیکھا۔ لیکن اگر آپ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے صدر بھی ہوں، مرسیڈس گاڑی میں بھی پھرتے ہوں تو ایک پولیس والے سے بھی بات کرنے کے لئے کار سے اتر کر جاکر باادب کھڑا ہوکر بات کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو کسی بڑی طاقت میں ضم کردینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشکل بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے آگے جھکنا ہوتا ہے، جسے علامہ اقبال نے یوں کہا کہ۔یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔یہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں گھاس پھوس کی طرح ہوتی ہیں، یا سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتی ہیں۔ جب تک مالی مدد ملتی رہے، یہ کام کرتی ہیں۔ لیکن قوم کا اصل مال کا  اور ذہین افراد کا سرمایہ یہ کھا جاتی ہیں۔ بڑی جماعتیں بھی افراد اور مال کی محتاج ہوتی ہیں اور یہ بھی۔ نہ بڑی جماعتیں اپنے منصوبوں کی تکمیل کرسکتی ہیں اور نہ یہ، دونوں کے دونوں ناکام رہتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنی بڑی بڑی جماعتیں ہیں کیا کررہی ہیں؟ جواب یہی ہے کہ جماعتیں توکام کررہی ہیں لیکن جماعتوں کے جسم میں جس خون کی ضرورت ہے وہ ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو قائم کرنے والے پورا چوس لے رہے ہیں۔

سیرتِ صحابہؓ  کے اس واقعہ کو یاد رکھئے۔ ایک جنگ کے موقع پر ایک صحابیؓ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں سوائے میرے نام کے، کیا میں میرا نام دے سکتا ہوں؟“۔ رسول اللہ نے فرمایا ہاں تم اپنا نام بھی دے سکتے ہیں۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد جب لوگ مالِ غنیمت جمع کروارہے تھے تو اندھیرے میں ایک صحابی ؓ منہ پر رومال رکھے ہوئے آئے اور کچھ مال جمع کروایا۔ جمع کرنے والے نے جب نام پوچھا تو کہا کہ ”میں جس کے لئے یہ کام کررہا ہوں وہ میرا نام جانتا ہے“ سبحان اللہ۔ یہ تھا صحابہؓ کا وہ جذبہ جس کی وجہ سے وہ کم تعداد میں ہوکر بھی بڑی سے بڑی فوجوں کو شکست دے سکتے تھے، اور آج کروڑوں میں ہوکر بھی ہر محاذ پر ہم ذلیل ہیں۔ کیونکہ ہم ہر کام میں ”مجھے کتنی اہمیت دی جارہی ہے“ یہ ضرور دیکھتے ہیں۔ امام غزالیؒ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ”اگر امام سلام پھیرتے ہوئے ترچھی نظر سے دیکھ لے اور صرف یہ سوچے کہ آج میرے پیچھے اتنے لوگوں نے نماز پڑھی ہے، اس امام کی نماز فاسد ہے۔ مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے۔“۔آج آپ ہر شخص کی زبان سے کیا یہ نہیں سنتے کہ

آج میرے جلسے میں اتنے ہزار لوگ تھے“”اتنے لوگوں نے میری تقریر سن کر اسلام قبول کرلیا“”فیس بک پر مجھے اتنے Likes ملے، ٹوئیٹر پر میرے اتنے Followers ہیں، یوٹیوپ پر میرے اتنے viewers ہیں“”میرے مضامین فلاں فلاں اخبارات میں شائع ہوتے ہیں

ایک عظیم مفکر نے فرمایا تھا کہ ایک عظیم الشان عمارت بنانی ہو تو اس کی بنیاد کے اینٹ اور پتھر بنو۔ ہر شخص کو اس عمارت کی Lighting یا دروازے یا کھڑکیاں بننے کی خواہش ہے لیکن بنیاد کے پتھر کوئی بننا نہیں چاہتا۔ لیڈرشپِ کا دوسرا کمانڈمنٹ یہی ہے کہ اپنے آ پ کو صحابہؓ کی طر ح والنٹیر بنالیں پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا سپہ سالاری دے گا، جسے چاہے گا خلافت عطا کرے گا، اور ہم اقلیت میں بھی ہوکر حکومت کریں گے، ورنہ اگر سعودی عرب یا پاکستان کی طرح اکثریت بھی ہوجائیں تو غلام ہی رہیں گے، امریکہ کے چین کے اور روس کے۔ یا پھر ورلڈ بنک کے قرضے اتارتے ہوئے کئی نسلوں کی زندگی غربت اور افلاس میں گزر جائیگی۔

 اگر ہم اسمبلی یا پارلیمنٹ میں گئے بھی تو جس جماعت کے ذریعے جائیں گے اس جماعت کے زرخرید غلام کی طرح ہوں گے۔ بی جے پی ، بی ایس پی ، ٹی ۤآر ایس اور کانگریس میں غلاموں کو دیکھ لیجئے ۔  

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

 

 

 

 


پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...