منگل، 25 اگست، 2020

کرونا نے ہمیں مسلمان کردیا

 

سارے ہندوستان میں شادیاں دوپہر کی ہونے لگی ہیں۔ کوئی یقین کرے یا نہ کرے حیدرآباد میں بھی ظہر میں ہی شادیاں ہورہی ہیں۔ نہ بارات نہ دھوم دھڑاکہ، نہ ناچ گانے نہ پٹاخے، نہ بیوٹی پارلر,  اورنہ ہی صرف ایک دن کے لئے شیروانیاں اور دلہن کے ایک رات کے جوڑے۔ ہر شر میں خیر تو ہوتا ہی ہے، لیکن اتنا بڑا خیر ہوجائیگا یہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ علما اور سماجی تنظیمیں سالہا سال سے چِلّا رہی تھیں کہ سادگی اختیار کرو، کوئی سننے تیار نہیں تھا لیکن صرف دو تین مہینے کے کرونا نے انہیں مسلمان کردیا۔ مجبوراً ہی سہی، لوگ پولیس کے ڈر سے پچاس یا سو مہمانوں پر اکتفا کرکے یہ شان سے کہہ رہے ہیں کہ شادی الحمدللہ سنّت کے مطابق سادگی سے ہوگئی۔ (بشرطیکہ ان سے جہیز کتنا لیا ہے یہ نہ پوچھیں)

کل تک یہی لوگ تھے جو لڑکی والوں سے شادی کے دن کے کھانے اور وہ بھی پانچ سو  مہمانوں سے کم پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ اگر ان سے سادگی سے کرنے کو کہاجائے، حدیثِ نبوی سنائی جائے تو فوری جواز لاتے تھے کہ:

کھانا کھلانا سنّت ہے،دعوت قبول کرنا سنت ہے

جس کی جو استطاعت ہے کرنا چاہئے

لڑکی والے اگر خوشی سے کھلائیں تو جائز ہے

شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے

کیا مہمانوں کو بھوکا بھیج دیں۔ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے

اگر انہیں قرآن کا فرمان سنایا جائے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور ایسے شیطان کے بھائیوں کی تقریبات کا بائیکاٹ کرنا فرض ہے تو وہ ہمارا مذاق اڑاتے،  ہمیں شدّت پسند، Extremist  اور Backward  کہتے تھے۔ لیکن اب کرونا کے ہاتھوں یہ خود اتنے شدّت پسند ہوگئے ہیں کہ کل تک جو پانچ سو یا ہزار باراتیوں کے بغیر شادی کوناممکن سمجھتے تھے، خود کہہ رہے ہیں کہ اتنے لوگوں کی کیا ضرورت ہے۔

                راتوں کی شادیاں رکنے سے فضول خرچے تو بہت سارے رک گئے، اللہ کرے  کرونا کے بعد بھی یہ روش قائم رہے۔ لیکن دو نحوستیں اور باقی ہیں، جو نہ صرف شرعی طور پر قطعی ناجائز ہیں بلکہ مسلمانوں کی غربت و افلاس کا اہم سبب ہیں۔ ایک ہے شادی کے دن کا کھانا، دوسرے جہیز کی ہوس۔ ایسی کئی اطلاعیں ملی ہیں کہ پانچ سو یا ہزار مہمانوں کی دعوت کا جو خرچہ بچ گیا اس پیسے کو لڑکے والوں کو نقد دے کر یا جہیز میں اضافہ کرکے Compensate کردیا گیا۔ کہیں پر یہ حرکت لڑکی والوں نے خود ضد کرکے کی ہے اور کہیں لڑکے والوں نے بے شرمی سے خود کہہ کر وصول کیا ہے۔ جن لوگوں نے مانگ کر لیا وہ اتنے بڑے مجرم نہیں ہیں، وہ لوگ جنہوں سے زبان سے تو کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن ”جو آرہا ہے آنے دو“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے وصول کیا ہے، وہ قابل معافی نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر واقعی یہ خوددار ہوتے تو ہرگز ہاتھ نہ لگاتے اور واپس کرتے۔

                دن کی شادیوں سے دونوں طرف کے ماں باپ اور دادا،  دادی  یقینا  خوش نہیں ہیں لیکن دلہا اور دلہن ضرور خوش ہیں۔ آج کی نوجوان نسل فضول رسموں اور فضول خرچیوں کو ہرگز پسند نہیں کرتی لیکن بڑوں کی وجہ سے ہتہیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ سوشیو ریفارمس کے جتنے پروگرامس کالجس پر ہوتے ہیں، ہم اسٹوڈنٹس سے عہد نامہ سائن کرواتے ہیں،  لڑکے اور لڑکیاں جن میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی، سارے بخوشی سائن کرتے ہیں کہ کوئی جہیز نہیں لیں گے، کوئی چھچھورے رسم و رواج کو نہیں ہونے دیں گے، ایسے سائن کرنے والے اسٹوڈنٹس کے تقریباً دس ہزار فارمس ہمارے پاس جمع ہیں، لیکن جب ان سے شادی کے بعد ملاقات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے بہت منع کیا لیکن بڑوں نے ہماری ایک نہ چلنے دی۔ یہ سارے خاندان کے بڑے خود اپنی بھی اور اپنی اولاد کی بھی دنیا اور آخرت دونوں خراب کررہے ہیں۔

سوشیوریفارمس سوسائٹی کے نائب صدر عظمت اللہ خان صاحب اور ان کے پارٹنر جناب فصیح الدین صاحب نے مکمل سنّت پرجہیز اور کھانے کے بغیر نکاح کرنے والوں کے لئے شادی خانہ فری دینے  کا اعلان کیا۔پورے ایک سال میں صرف ایک نوجوان نے نکاح سنت کے مطابق کیا اور وہ نوجوان نومسلم تھا جو ایک بنک میں منیجر تھا۔ ورنہ پیدائشی مسلمان تو کئی آئے اور ہمارے کئی گھنٹے برباد کرکے گئے۔  ہر ایک نے یہی کہا کہ کوئی جہیز، جوڑا یا کھانا نہیں لے رہے ہیں۔ لیکن جب ہم نے لڑکی والوں سے کراس چیک کیا تو پتہ چلا کہ لڑکے والوں نے کہا تو ہے کہ کچھ نہیں چاہئے، لیکن دینے سے منع نہیں کیا ہے۔ یہ ایک ایسی چال ہے جس میں شکار کرنے کی زحمت بھی اٹھانی نہیں پڑتی، شکار خود جال میں پھنس جاتا ہے۔  مختصر یہ کہ ایک سال میں شادی خانہ مفت ہونے کے باوجود کسی پیدائشی مسلمان نے سنّت کے طریقے پر نکاح کرنے پر رضامندی پیش نہیں کی۔

اصل فتنہ لڑکی والے: ایسا نہیں ہے کہ مانگ کرنے والے صرف لڑکے والے ہوتے ہیں۔ اکثریت لڑکی والوں کی ہے جس نے چلن کو خراب کیا ہے۔ حالانکہ کئی ایسے نوجوان ہیں جن کے پاس قابلیت ہے اور وہ باکردار ہیں،  لیکن لڑکی والوں کو Well settled لڑکا چاہئے، NRI چاہئے، ذاتی گھر والا چاہئے۔ اس کے لئے لڑکی والے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے تیار ہوجاتے ہیں چاہے قرض لینا پڑے، چاہے لڑکیوں کے بھائیوں کو ڈرائیوری کرنی پڑے۔ اس کے نتیجے میں لڑکیوں کی عمریں تیس سال سے زیادہ کی ہورہی ہیں۔ اور اگر کہیں لڑکی زیادہ تعلیم حاصل کرکے کمانے لگے تو کئی ماں باپ جان بوجھ کر کچھ دن اور کمائی جمع کرنے کی ہوس میں لڑکیوں کو عمررسیدہ کررہے ہیں۔مجھے بنگلور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی کے لئے دو لڑکوں کے رشتے آئے۔ لڑکی کی ماں نے دونوں کے محلے کی مساجد سے یہ معلوم کروایا کہ دونوں میں سے نماز کا زیادہ پابند کون ہے۔پتہ چلا کہ ایک نوجوان فجربھی کبھی نہیں چھوڑتا، لیکن دوسرا نوجوان کبھی جمعہ میں ہی نظر آتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پابندی سے نماز پڑھنے والا بیروزگار اور کرائے کے گھر میں رہتا تھا۔ اور دوسرا لڑکا امیر گھرانے کا تھا۔ لڑکی کی ماں نے نمازی نوجوان کو منتخب کرلیا، آج وہ بنگلور کی ایک بڑی انڈسٹری کا مالک ہے۔ میں اس کا نام تو نہیں لکھ سکتا، لیکن آپ مجھ سے ملیں توضرور بتاؤں گا ان شاء اللہ

پہلے نکاح یاپہلے کیرئیر؟:  رسول اللہ نے پہلے نکاح بعد میں کیرئیر کا حکم دیا لیکن پہلے کیریئیر کے چکّر میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں اپنی عمروں کے بہترین حصے کو ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ان کی شادی بیس اکیس سال میں کردی جائے تو وہ ساری زندگی ماں باپ کے بھی فرمانبردار اور ایک دوسرے کے وفادار رہتے ہیں کیونکہ بھوکے کو وقت پر سوکھی روٹی بھی مل جائے تو وہ شکر کے ساتھ پیٹ بھر کھاتا ہے ورنہ پیٹ بھر ا ہو تو بریانی میں بھی کچھ نہ کچھ نقص نظر آتا ہے۔ شادی جلد کرکے وہی پیسہ جو مہنگی شادی خانوں پر برباد کیا جاتا ہے اسی پیسے سے دونوں  آگے تعلیم  حاصل کرسکتے ہیں اور کیرئیر بنا سکتے ہیں۔ لیکن بچوں کی پلاننگ کرنی پڑے گی۔ بچے اگر تین چار سال لیٹ ہوجائیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ یقینا مذہبی طور پر یہ ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے کہ فیملی پلاننگ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

وہ رمزِ شوق جو پوشیدہ لاالٰہ میں ہے   طریقِ شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہئے

اس کا حل یہ ہے کہ ایک کاغذ پربچوں کی پیدائش کو تین چار سال روکنے کا گناہ  لکھیئے، اور دوسرے کالم میں شادی وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے آج نئی نسل کیا کیا بدکاریاں کرنے پر مجبور ہے تمام بدکاریاں لکھئے اور اندازہ لگایئے کہ کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ ماں باپ اولاد جوان ہوجانے کے بعد ان کے ذہنوں میں کیا چلتا ہے، ا س سے بالکل واقف نہیں ہوتے، اور نہ ان کے جذبات کا ماں باپ کو اندازہ ہوتا ہے۔ کئی شریف گھرانوں کے لڑکے سروں پر ٹوپیاں پہن کر اور لڑکیاں گھروں سے برقع پہن کر نکلتی ہیں، باہر یہ لڑکے لڑکیاں کیا کیا کرتے ہیں اس سے ہر شخص واقف ہے، لیکن پھر بھی ہرشخص آنکھ بند کرکے دودھ پی رہا ہے، یہ سمجھ رہا ہے کہ دوسروں کے بیٹا بیٹی آوارہ ہوسکتے ہیں، میرے نہیں۔

کرونا اور جہیز ۔  دونوں وائرس ہیں:  لوگ محسوس نہیں کرتے کہ یہ شادیاں بھی کرونا کی طرح کا ایک وائرس ہیں۔ اس کو Epidemic  کہتے ہیں، یعنی کہ ”وبا“۔ وبا پھیلنے والی چیز کوکہتے ہیں۔ کرونا ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگتا ہے۔ شادیوں میں حرام خرچی کا شوق بھی ایک جِٹھانی سے دیورانیوں، نندوں اور بہنوں کو لگتا ہے، اگر بڑے بھائی یا بڑی بہن کی شادی دھوم سے ہو تو چھوٹے بھائیوں اور چھوٹی بہنوں کی شادیاں بھی ایسی ہی کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ کرونا میں مرنے والوں کی تعدادہندوستان میں صرف پچاس ہزار ہے۔ جبکہ جہیز کی وجہ سے خودکشی، قتل، زخمی، Infenticide اور پولیس مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کرونا کی وجہ سے لوگوں کو علاج کے لئے مالی طور پر سخت تنگی کا سامنا ہے، شادیوں کے لئے بھی جو ایک گھر پر مالی پریشانیاں آتی ہیں اس سے ہر شخص واقف ہے۔ اس طرح کرونا کا مقابلہ شادیوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کے نبی کے طریقے سے ہٹ کر، سنّت سے بغاوت کرکے  کی جانے  والی شادیاں کرونا سے کئی گُنا بڑھ کر خطرناک ہیں۔ اس لئے جس طرح کروناسے اپنے آپ کو بچانے کے لئے  Social Distancing  ضروری ہے، اسی طرح معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لئے ایسی شادیوں، ایسی منگنیوں، جہیز، ہُنڈے یا جوڑے کی رقموں اور باراتیوں کے کھانے والی شادیوں سے نہ صرف Social distancing  ضروری ہے بلکہ ایسے لوگوں کا مکمل سماجی بائیکاٹ Social Boycott  بھی ضروری ہے، ورنہ ان کی وبا پورے معاشرے کو تباہ کرڈالتی ہے۔ 

اگر شادیاں وقت پر ہوجائیں تو فائدے: جس طرح شادیاں دوپہر میں کرنے سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کتنے خرچ بچ گئے، کتنے لوگ قرض لینے سے بچ گئے، کتنی حرام کاریاں ختم ہوگئیں۔ سادگی سے نکاح کرنے کے حکم کا یہ تو ایک حصہ تھا، اگر جہیز اور جوڑے کی رقم اور مہنگے کھانوں کو بھی بند کرکے پوری شادی نبی کے حکم کے مطابق کرلیں تو فائدے دیکھتے جایئے۔

۱۔ لڑکی بوجھ نہیں، رحمت ہے یہ ثابت ہوجائیگا۔ ورنہ آج لڑکی ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ غربت و افلاس کا سبب ہے۔ اگر آپ کسی کی بیٹی، بہن، بھانجی یا بھتیجی کو جہیز اور کھانے کی بھیک لئے بغیر شادی کرکے لائیں گے تو کل کوئی آپ کی بیٹی، بہن، بھانجی یا بھتیجی کو بھی ایسے ہی کرکے لے جائیگا۔ اگر آج آپ اپنے سسر اور سالوں پر بوجھ نہیں بنیں گے تو کل دوسرے بھی آپ پر یا آپ کے بیٹوں پر بوجھ نہیں  بنیں گے۔  لڑکیاں پیدا ہونے پر واقعی خوشی ہوگی کہ گھر میں رحمت آئی ہے۔

۲۔ شادیاں وقت پر ہوں گی۔ عیاشی، آوارہ گردی اور بے حیائی کافی حد تک ختم ہوجائیگی۔ نئی نسل بری عادتوں اور بری صحبتوں سے بچ جائیگی اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجائیگا۔

۳۔ 11 August,2020 کو ہونے والے بنگلور فساد پر غور کیجئے۔ کسی نے رسول اللہ کی فیس بک پر گستاخی کی۔ فرقہ پرستوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور گھروں کو، گاڑیوں کو آگ لگادی، سارا الزام مسلمانوں پر لگادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ گستاخی کرنے والے نے ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ اس کے پاس ہمارے رسول کا امیج ویسا ہی ہوگا جیسے ہمارا آج کردار ہے۔مسلمانوں میں  جھوٹ، دھوکہ، سود کا لین دین، شراب، قتل وقبضہ وغیرہ کے موضوع پر ہم پھر کسی اور وقت گفتگو کریں گے، یہاں ہم صرف شادیوں کی بات کرتے ہیں۔ اگر غیرمسلم، ہمارے نبی کے نکاح کے طریقے کو عملی طور پر ہماری زندگیوں میں دیکھ لیں تو کوئی عجب نہیں کہ وہ سارے ایمان لے آئیں، کیونکہ ان کا معاشرہ شادیوں کی وجہ سے جتنا تباہ ہے وہ ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو پھر بھی کئی ایسے سچے مسلمان ہیں جو لڑکی والوں سے ایک روپیہ بھی خرچ کروائے بغیر سنّتِ نکاح کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن ان کے ہاں بغیر جہیز کے شادی کا کوئی تصوّر نہیں۔ حتیٰ کہ کئی لڑکے لڑکیاں محبت کی شادی کے نام پر کورٹ میریج کرلیتے ہیں، لیکن شادی کے بعد جہیز کے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ دیکھ لیں کہ مسلمان کی شادی  چاہے وہ کوئی کروڑ پتی ہو یا غریب، مکمل ان کے پیغمبر کے طریقے پر ہوتی ہے، نہ منگنی نہ جہیز، نہ ہنڈا نہ بارات، مسجد میں نکاح کرتے ہیں، مہر ادا کرتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق سادگی سے ولیمہ کرتے ہیں تو اس سے ہمارے نبی کا امیج ہر مذہب کے لئے ایک ماڈل بن جائیگا۔ ان شاء اللہ

تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اب اِن دوپہر کی شادیوں کو مستقل چلن بنالیں اور فضول خرچ کرنے والے جن کے ارمان نبی کے طریقے کے خلاف ہیں، ان کے ارمانوں کا حصہ نہ بنیں اور ان کی تقریباتِ شادی کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کریں جیسے کہ کرونا کے مریضوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

 

Dr. Aleem Khan Falaki

President Socio Reforms Society

Hyderabad

9642571721


 

بدھ، 12 اگست، 2020

شادی اور نکاح کا فرق

ایک نومسلم بھائی کے نکاح کے موقع پر دیا گیا اردو خطبہ

 

 

                                دوستو: آج  5  اگست  2020   جب سارا ہندوستا ن  بلیک ڈے منارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک خوشی کا موقع یہ عطا فرمایا کہ ہم سب ہمارے ایک نومسلم بھائی  نلّا دانش کے نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے ہیں۔ یقینا دلہا، دلہن اور ان کے رشتہ دار قابلِ مبارکباد ہیں، لیکن آپ سب بھی قابلِ مبارکباد ہیں کہ آپ کسی عام نکاح کی محفل میں شریک نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک مجاہد کے نکاح میں شرکت کررہے ہیں۔ ایک ایسا مجاہدجس کو بنک کی منیجری کی نوکری چھوٹ جانے کا بھی خطرہ تھا،اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوجانے کا خطرہ تھا، ان خطرات سے بے خوف ہوکر انہوں نے اسلام قبول کیا، قانونی طور پر اعلان بھی کیا اور کاغذی کاروائی بھی مکمل کی۔ دانش نے ایک سال پہلے اسلام قبول کرکے لاالہ الااللہ کی گواہی تو دی، لیکن آج محمدالرسول اللہ کہنے کا حق بھی ادا کیا، یعنی اپنا نکاح مکمل نبی کے طریقے پر کرکے تمام پیدائشی مسلمانوں کو شرمندہ کردیا۔ یہ کارنامہ خود اسلام قبول کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

                                آپ شائد حیران ہوں گے بلکہ یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے زیادہ اہم نکاح کیسے ہوگیا۔یا د رکھئے،  کلمہ پڑھنا ایک زبانی فعل ہے، جب عمل کا وقت آتا ہے تو کس نے کتناسچے دل سے کلمہ پڑھا ہے اس کا ثبوت سامنے آجاتا ہے۔بھولیئے مت کہ  اب سے کچھ سو سال پہلے تک ہم سبھی ہندو تھے۔ ریڈی، راؤ، ورما، شرما، شودر اور برہمن یا ویش یا شتری  یہ سب ہمیں تھے۔ ہمارے آباواجدا د نے برہمن واد کے قائم کردہ ”ورنا سسٹم یعنی جاتی سسٹم“  جو  انسانوں کو اونچ نیچ، اعلیٰ ادنیٰ، پاک اور ناپاک میں تقسیم کرتا ہے، ایسے غیرانسانی عقائد کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیاتھا۔ ٹریجڈی یہ ہوئی کہ جن لوگوں کے ہاتھوں ہمارے پُرکھوں نے اسلام قبول کیا، ان عظیم اولیااللہؒ کے دنیا سے گزرجانے کے بعد  ہمارے باپ دادا نے، ان بزرگوں کے دعوتی مشن کو جاری رکھنے کے بجائے، ان کے انتقال کے ساتھ ہی ان  کی  قبروں پر  شرک کے وہ تمام دھندے شروع کردیئے جو اسلام لانے سے پہلے مندروں میں کیاکرتے تھے۔ ہمارے صرف اشلوک بدلے، ہم نے کلمہ، درود اور سلام ضرور پڑھنے شروع کردیئے لیکن ہمارے رسم و رواج، ہمارے عادات و اطوار، ہمارے خوشی اور غم کے مواقع پورے کے پورے وہی رہے۔ تمام رسم و رواج میں سب سے اہم شادی تھی۔ وہ جوں کی توں رہی، بس فرق یہ رہا کہ سات پھیرے لینے کے بجائے قاضی کو بلا لیا، اور کچھ منتر پڑھوانے کی جگہ کچھ قرآن، حدیث اور دعائیں پڑھوالیں۔ ہماری شادیوں کو آئیڈیل وہی اوتار رہے جن کی شادیاں مشرکانہ سماج کا ماڈل ہیں۔ سیتا جی کی شادی میں سونا چاندی، جانور، پیسہ، سامانِ ضروریات کے ساتھ ساتھ جہیز میں ہریجن  غلام مرداور عورتیں دی گئی تھیں۔ یہ جہیز ہم نے باقی رکھا۔ لارڈ شیوا کی بارات ہندوشاستروں کے مطابق اس کائنات کی سب سے بڑی بارات تھی۔ اس میں تمام بھگوان،  رُشی، انسان اور ان کے ساتھ جنگلوں سے شیر، ہاتھی اور گھوڑے سارے شریک ہوئے تھے۔ اب ہم اتنے ہجوم کو تو خیر جمع نہیں کرسکتے تھے، لیکن یہ کرلیا کہ پانچ پانچ سو، ہزار ہزار باراتی شادی کے موقع پر جمع کرلئے، اور ان کی دلہن کے باپ کے خرچے پر ضیافت کروادی۔

 

شادی اور نکاح میں فرق

                                پورے اسلامی لٹریچر میں کہیں شادی کا لفظ نہیں ملے گا، صرف نکاح کا لفظ ملے گا جس کو نبی نے فرمایا کہ ”نکاح میری سنّت ہے“۔ شادی میں ایک دھوم دھڑاکا، ایک جشن یا ایک Celebration پوشیدہ ہے۔ یہ کئی چھوٹی اور بڑی رسموں کا مجموعہ ہوتی ہے۔شادی کا ہندی لفظ ”وِواہ“ ہے۔  ان ہنگاموں کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے کچھ خطرناک عقائد چھپے ہوئے ہیں، جیسے:

شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے

اٹوٹ بندھن، جنم جنم کا ساتھ

جس گھر میں ڈولی جائے وہاں سے ارتھی اٹھے۔ (یعنی جس گھر میں بیاہ کربیٹی کو  ڈولی میں بھیج دیاجائے، اس گھر کو چھوڑ کر وہ کبھی واپس نہ آئے، مرنے پر وہیں سے اس کی ارتھی یعنی جنازہ اٹھے)

                                ظاہر ہے اگر یہ عقیدہ ہوگا تو فطرتاً آدمی یہی چاہے گا کہ جتنی شاندار طریقے سے خوشیاں منائی جاسکتی ہیں، منالو۔ حرام حلال کی پروا کرنے ساری زندگی پڑی ہے، قرضے لو، دھوکہ دو  یا بھیک مانگو لیکن شادی دھوم دھام سے ہونی چاہئے، کیونکہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔  دوسری مجبوری یہ بھی تھی کہ منوسمرتی کے مطابق مشرک سماج میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ذاتیں ہوتی ہیں، جن کو جاتیاں بھی کہا جاتا ہے، یہ تمام برہمن کے تحت ہوتی ہیں، برہمن کے بعد ویش، شتری پھر شودر ہوتے ہیں، جن کو آج دلت، آدی واسی، او بی سی، بی سی، شیڈول کاسٹ وغیرہ وغیرہ میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پھر برہمن میں بھی اور دوسری تمام ذاتوں میں بھی سینکڑوں چھوٹی بڑی ذاتیں ہوتی ہیں۔ کوئی لڑکی اپنی جاتی کے باہر بیاہی نہیں جاسکتی۔ اخبارات کے Matrimonials کے صفحات پر دیکھئے، ذاتوں پر کتنا زور دیا جاتا ہے۔  برہمن کسی بھی جاتی میں شادی کرسکتا ہے، یا کسی بھی جاتی کی عورت کو دیوداسی کے طور پر استعمال کرسکتا ہے، لیکن کوئی نچلی ذات کی لڑکی یا لڑکا اپنے سے اونچی ذات میں شادی نہیں کرسکتا۔ خود  ان کی اپنی مخصوص جاتی میں بھی چونکہ بے شمار جاتیاں ہوتی ہیں، کوئی اپنی مخصوص جاتی کو چھوڑ کر دوسری اپنی ہی ہم وزن جاتی میں بھی شادی نہیں کرسکتا۔ اگر کر لے تو سماج قبول نہیں کرتا،  کیونکہ اس سے نحوست آتی ہے۔ اس نحوست کو دور کرنے کے پرائشچت یا کفّارے کے طور پر لڑکی کو کسی جانور یا درخت سے شادی کرنی پڑتی ہے۔ مشہور فلم اداکار امیتابھ بچن کے بیٹے  ابھیشیک کی شادی میں ساری دنیا نے یہ تماشہ دیکھا کہ ان کی بہو ایشوریا رائے جو الگ ذات کی تھیں، انہیں امیتابھ کے بیٹے سے شادی کرنے کے لئے پہلے ایک درخت سے شادی کرنی پڑی۔ کہیں ایسی شادیاں کتّوں سے، کہیں بلّیوں یا ہاتھیوں سے کی جاتی ہیں۔ مدّت کا تعیّن ان کی کُنڈلی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اس لئے آج کل کی جو تعلیم یافتہ نسل ہے، جو ان خرافات کو نہیں مانتی، اپنی شادی کے لئے اشتہار میں یہ واضح طور پر لکھتی ہیں کہ "Religeon no bar, Caste no bar" یعنی مذہب یا جاتی کی کوئی قید نہیں ہے۔ نئی نسل منوسمرتی کے ان اصولوں کو توڑ کر بہت تیزی سے باہر نکل رہی ہے۔کیونکہ ہر جاتی میں اچھے لڑکوں کی کمی ہوتی ہے۔ جب  مارکٹ میں سپلائی کم ہو اور ڈیمانڈ زیادہ  ہو تو آپ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ بلیک مارکٹنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اچھے لڑکے کسی بھی سماج میں کم ہوتے ہیں اس لئے ان کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ رشوت دینی لازمی ہے۔ یہاں سے ”جہیز“ اور ”ھُنڈا“ یعنی جوڑے کی رقم کا سلسلہ  شروع ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ھنڈا اور جہیز دے کر اچھے لڑکوں کو خرید لینا ہر لڑکی کے باپ کی مجبوری ہوجاتی ہے۔ اور ہر لڑکے کی ماں اور باپ  زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی حرص اور لالچ میں پڑجاتے ہیں۔جہیز دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مشرک سماج میں باپ کی وراثت میں سے بیٹی کا حصہ اس کی شادی کے وقت ہی دے دیا جاتا ہے۔ اس لئے باپ کی کل جمع پونجی کا کنڈلی نکالتے وقت ہی حساب کرلیا جاتا ہے۔ بلکہ پہلے سے ہی معلوم کرلیا جاتا ہے کہ بیٹی کے حصے میں کیا آئے گا۔ اسی کو دیکھ کر ہی کسی کے گھر رشتہ بھیجا جاتا ہے۔ جو نچلی ذاتیں ہوتی ہیں جن کی اکنامک کنڈیشن بہت خراب ہوتی ہے، وہاں جب لڑکے والوں کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ باپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے تو وہ لوگ جہیز کی ایک فہرست بناکر بھیج دیتے ہیں۔ غور فرمایئے، کیا آج مسلمان اسی مشرک رسم کو مکمل طور پر نہیں اپنا چکے ہیں؟ جسے یہ لوگ بے غیرتی اور ڈھٹائی سے ”لڑکی والوں نے خوشی سے دیا“ کہہ کر ڈرامہ کررہے ہیں، دراصل وہ انہیں اپنے باپ دادا کے اسی مشرک دھرم سے ملی ہیں۔

یہاں سے  پھر ایک اور رسم جنم لیتی ہے۔ جلد سے جلد سماج میں یہ اعلان کردینا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اس لڑکے کو ہم نے خرید لیا ہے، ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ بات چیت ہوجانے کے بعد کوئی زیادہ جہیز کا آفر دے دے تو لڑکے والوں کی نیّت بدل سکتی ہے۔ اس لئے لڑکی والے دھوم دھام سے منگنی کرڈالتے ہیں۔ لڑکے کو انگوٹھی پہنادیتے ہیں تاکہ جو بھی دیکھے، سمجھ جائے  کہ  یہ بکرا فروخت ہوچکا ہے۔ پھر شادی کے دن کا کھانا، چونکہ ان کے پاس ولیمہ نہیں ہوتا، اس لئے دونوں مل کر شادی کے دن کھانا کھلاتے ہیں۔ اس کو بارات کہا جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ نوٹ کی جائے کہ لڑکے والوں کے مہمانوں کے کھانے کا  پیسہ لڑکی والے دیتے ہیں اور لڑکی والوں کے مہمانوں کے کھانوں کا خرچہ لڑکے والے دیتے ہیں۔ اس لئے لڑکے والے اپنے زیادہ سے زیادہ مہمان لے آتے ہیں اور ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ہمارے پانچ سو، آٹھ سو یا ہزار آدمی ہوں گے۔ جب کہ لڑکی والے پریشر میں ہوتے ہیں، وہ ڈیمانڈ نہیں کرسکتے، یہ بھی لڑکے والے خود فِکس کرتے ہیں کہ لڑکی والے کتنے مہمانوں کو لائیں۔ کیا مسلمانوں میں آج یہ رسم من و عن اسی طرح نہیں چل رہی ہے؟

                                مشرک سماج میں شادی کا تصور ایک کنیادان کا تصوّر ہے۔ کنیا یعنی لڑکی، دان یعنی خیرات۔ لڑکی کو جہیز اور ھُنڈے کے ساتھ دان کردیا جاتا ہے۔ جہاں ڈولی جائے وہیں سے ڈولی اٹھے  کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ چونکہ اس کو جہیز اور شادی کے اخراجات کی شکل میں باپ کی وراثت میں سے حصہ دے دیا جاچکا ہے، اب اسے باپ کے مرنے کے بعد واپس آکر پھر سے مطالبہ کرنے  کا  حق نہیں ہے۔ اور جو کچھ جہیز اسے ملتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ اس کے شوہر کی ملکیت یا پراپرٹی  ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اخبارات میں جہیز کی وجہ سے  خودکشی یا قتل کے واقعات کی تفصیل میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ ”شوہر مزید جہیز کا مطالبہ کررہا تھا“۔عورت کے دماغ میں شادی کو ”اٹوٹ بندھن“ یا ”جنم جنم کا رشتہ“ کے طور پر بٹھانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب شوہر چاہے ظالم ہو یا شرابی ہو، یا زانی ہو، جوّے باز ہو کہ دھوکے باز ہو، بوڑھا ہو کہ بیمار، عورت کو اسی کے ساتھ رہنا ہے، اسی کے گھر مرنا ہے۔ اگرشوہر مارے تو اسے مار کھانی ہے کیونکہ منوسمرتی کے مطابق”عورت کو اگر شوہر مارتا ہے تو عورت کے پچھلے جنم کے جو پاپ ہوتے ہیں وہ دُھل جاتے ہیں۔ مرد کا ایک ایک تھپّڑ عورت کے ایک ایک پاپ کو دھوڈالتا ہے“۔حتیٰ کہ مرد کے ہاتھوں عورت کی موت بھی ہوجائے تو یہ قابلِ تعذیر جرم نہیں ہے۔ اگر کسی دوسری جاتی کے مرد کے ہاتھوں اس کی بیوی کا قتل ہوجائے تو اس کی بازپر س کی جاسکتی ہے لیکن اگر برہمن کے ہاتھوں بیوی مرجائے تو برہمن کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ بیوی کو اگلے جنم میں بہت اچھے انعام کی خوشخبری دی جاتی ہے۔اگر شوہرمرجائے تو بیوی کو بناؤسنگار سب کچھ ترک کردینا فرض ہے۔ وہ کسی سے شادی نہیں کرسکتی، وہ ایک منحوس عورت تصور کی جاتی ہے، کسی خوشی کی تقریب میں اس کے جانے سے وہاں بھی نحوست وارد ہوتی ہے، اس لئے وہ اپنے گھر کے آنگن میں ایک کمرہ بناکر رہے، لیکن خود اپنے گھر میں داخل نہ ہو۔ کچھ راجستھان کی ذاتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو ستی کردیا جاتا تھا یعنی جلا دیا جاتا تھا، تاکہ نہ وہ زندہ رہے اور نہ کسی مرد کی نظر میں آئے، کیونکہ اگر ایسی عورت کی ہمدردی میں کسی مرد نے آگے بڑھ کر اس عورت کو سہارا دے دیا تو اس مرد کو رنڈوا کہتے  ہیں اور اس عورت کو رانڈ۔ مرد چاہے تو عورت کو چھوڑ سکتا ہے لیکن عورت خلع نہیں لے سکتی، کیونکہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔کیا پیدائشی مسلمانوں نے یہ رسمیں چھوڑی ہیں؟ کیا ان کے پاس آج  بھی بیوا سے مطلقہ سے شادی کرنا ایک عیب نہیں سمجھا جاتا؟ کیا اگر شوہر ظلم کرے تو لوگ عورت ہی کو قصور وار سمجھ کر اس پر لعن طعن نہیں کرتے؟

                                 جہیز دینے کا حکم ہندو شاستروں میں موجود ہے۔ کہا گیا ہے کہ تین قسم کی دکھشنائیں Gifts ہوتی ہیں۔ ایک بھگوان کے نام پر، ایک گرو دکھشنا یعنی گرو، استاد یا پنڈت کو، تیسری ورو دکھشنا یعنی دلہا کو، جو دلہن والوں کی طرف سے دی جاتی ہے۔ یہ ایک مذہبی عقیدہ ہے کہ دلہا کو زیادہ سے زیادہ دکھشنا دی جائے۔ کیا ہمارے مولویوں نے یہی کام  نہیں کیا کہ جہیز کو ھدیہ یا تحفہ دے کر سنت سے ثابت کردیا؟

                                اب آیئے، دیکھئے، ان مسلمانوں کی طرف جن کے باپ دادا نے اسلام تو قبول کرلیا، لاالہ الا اللہ تو پڑھ لیا، لیکن کہاں تک انہوں نے محمدالرسول اللہ کو اپنا رسول مانا۔  شادی کی ایک ایک رسم آج تک وہی ہے جو اپنے پچھلے دھرم سے لے کر آئے تھے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ان رسموں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کو اسلامائز کرنے کے لئے ان کے وہی مولوی آگے آئے جو کبھی پنڈت اور پجاری بن کر ساتھ پھیرے لگواتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ جہیز، بارات، فضول خرچیوں اور کئی رسموں کو ”خوشی سے“، ”عُرف“  اور ”مباح“ کہہ کر نہ صرف جائز کردیا بلکہ بہ نفس نفیس ان میں شرکت کر کے خوب پیٹ بھر کر کھاکر نکلتے ہوئے مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں۔

                                اسلام میں شادی کا دور  دور تک کوئی تصور نہیں۔ صرف اور صرف نکاح کا ہے۔ اور جو اس نکاح کے طریقے کو نہ اپنائے، بنی نے خود فیصلہ فرمادیا کہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، وہ مجھ سے نہیں۔ وہ مشرکوں کا ہو سکتا ہے، وہ نصرانیوں یا یہودیوں سے ہوسکتا ہے، لیکن مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ ہر اس عقیدے کو اسلام نے کچل دیا جس کی بنیاد پر عورت کے حقو ق کی پامالی Violation of Women's Rights ہوسکتی ہے۔ جیسے جہیز، بارات، کھانا، جوڑے یا ہنڈے کی رقم۔ یہ سوشیل بلیک میل ہے۔ خوشی سے دینے والے اس جرم کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔

                                اسلام نے اس بات کو مکمل رد کردیا کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔ اگر عورت کو جہاں سرکشی پر طلاق دی جاسکتی ہے وہیں عورت کو بھی حق ہے کہ اگر مرد اس کے لائق نہ ہو تو وہ فوری خلع لے کر اپنی زندگی نئے سِرے سے کسی اور کے ساتھ شادی کرکے شروع کرسکتی ہے۔ نکاح کا تصور یہ ہے کہ لڑکی کے باپ یا بھائی کا  ایک روپیہ  بھی خرچ  نہ ہو، نہ جہیز پر اور  نہ ضیافت پر۔ الٹا یہ کہ مرد کو مہر ادا کرنا ہے۔ مہر، عورت کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو حق عورت کو دیا گیا آج مسلمان معاشرے نے وہ حق عورت سے چھین کر لڑکے کے باپ اور رشتہ داروں کو دے دیا جو شادی کی بات چیت کے موقع پر خود فِکس کرتے ہیں، صرف مہر ہی نہیں بلکہ مہمانوں کی تعداد، جہیز اور ھُنڈے کی مقداربھی وہ فِکس کرتے ہیں، اور لڑکی والے مشرک سماج کی طرح خاموشی سے مان لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ نبی کا فرمان ہے کہ جس نے مہر ادا نہیں کیا اور مہر ادا کرنے کی نیّت بھی نہیں رکھی، وہ زانی کی موت مرا۔ مہر نقد ادا کیا جائے۔

                                جہیز یا کھانے پر اگر کوئی باپ خرچ کربھی رہا ہے تو یہ جائز نہیں، لیکن وہ اگر اپنی ضد پر کررہا ہے تو اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں، اس کے  مرنے کے بعد لڑکی کو باپ کی وراثت سے پورا پورا حق ملے گا۔ اگر بھائیوں نے دینے سے انکار کیا تو وہ ایک بہت بڑے حرام کے مرتکب ہوں گے۔ اسی طرح عورت کو کسی بھی کلمہ گو سے شادی کی اجازت ہے۔ اسلام میں کوئی جاتی نہیں۔ نہ کوئی اونچا ہے اور نہ نیچا۔ ہاں کفو کے احکام ہیں،مگر ان کا تعیّن ذات کی بنیاد پر نہیں۔آج یوپی اور بہار وغیرہ میں برادریوں کا اتنا زور ہے کہ ہندوازم کی جاتیاں شرمندہ ہوجائیں۔  یہ ایک اہم  موضوع ہے جس پر انشااللہ آئندہ کبھی تفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی۔

                                دوستو:  نکاح ایک ایسا طریقہ ہے جس کو اگر امت مسلمہ پیش کرے تو پورے ہندوستان کی غربت و افلاس نہ صرف دور ہوسکتے ہیں بلکہ کروڑوں غیرمسلموں کے پاس اسلام کی ایک شاندار دعوت پہنچ سکتی ہے۔ آج مسلمانوں کی غربت و افلاس کا اہم سبب یہی ہے کہ انہوں نے محمدالرسول اللہ کا کلمہ تو پڑھا لیکن اپنے پرکھوں کا طریقہ نہ چھوڑا، اس لئے آج ہندوستان میں ان کو شودروں کے بعد کا درجہ دیا جارہا ہے۔ اگر وہ یہ جہیز، یہ منگنی، یہ نقد رقم یعنی ھُنڈا اور یہ کئی سو مہمانوں کا کھانا چھوڑ دیں تو ان کی بیٹیاں  فاطمہؓ، ام کلثومؓ  اور امہات المومنینؓ کی طرح رخصت ہوں گی۔ نہ ماں باپ کو گھر بیچنا پڑے گا، نہ لڑکیوں کے بھائی کنگال ہوں گے، اور نہ انہیں اپنی شادی میں کسی اور گھر پر وہی ڈاکہ ڈالنا پڑے گا جو ڈاکہ ان کے بہنوائی نے ان کے گھر پر مارا ہے۔

                                دوستو: آخری بات یہ ہے کہ یہ لعنت سالہا سال سے نہیں صدیوں سے چل رہی ہے۔ مہارانی جودھا بائی کی لائی ہوئی رسمیں آج ہر امیر نے اپنا لی ہیں، ان کی وجہ سے یہ لعنت میڈیم کلاس اور Poor کلاس میں چلی آئی ہے۔ اس پر خطبے بہت ہوچکے، تقریریں اور تحریریں بہت ہوچکیں، تبصرے بہت ہوچکے۔  ان کو روکنے کا ایک طریقہ جو اسلام نے دیا ہے وہ کبھی اپلائی نہیں کیا گیا۔ اور وہ ”جب تم میں سے کوئی برائی کو دیکھے تو ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو زبان  سے روکے، اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو دل سے نفرت کرے، یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، اس کے بعد پھر ایمان باقی ہی نہیں رہتا“ اس کے مطابق اگر کسی ایسی شادی کی دعوت آئے جس میں وہی مشرکوں کے رسم و رواج یعنی منگنی، بارات، جہیز وغیرہ ہیں تو اس دعوت نامے کو اس کے سامنے ہی پھاڑ دیں، زبان سے کہیں کہ میں کسی ایسی شادی میں نہیں آسکتا جو میرے نبی کے نکاح کے طریقے کے خلاف ہے“۔ یہ بھی کہیں کہ ”آج تک یہ گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے، میں استغفار کرتا ہوں“۔ اگر وہ مروّت یا ”لوگ کیا کہیں گے“ کے خوف سے دعوت نامہ قبول کرتا ہے، زبان سے کچھ نہیں کہتا، جاکر کھانا کھاکر اور مبارکباد بھی پیش کرکے آتا ہے تو یہ جان بوجھ کر اپنے نبی کے حکم کی نافرمانی کرکے اپنے پُرکھوں کے دھرم کو زندہ کرنے والی حرکت ہے، اس کے بعد پھر ایمان باقی ہی نہیں رہتا۔

                نوٹ: نومسلم بھائی کی تفصیلات کچھ مصلحتوں کی وجہ سے پیش نہیں کی گئیں۔ یہ نکاح 5  اگست 2020  کو امان فنکشن ہال، مہدی پٹنم حیدرآباد پر بوقت ظہرمحترمہ خالدہ پروین صاحبہ کی زیرِ سرپرستی منعقد ہوا، جو جماعتِ اسلامی ہند کی رکن بھی ہیں، ایک معروف سماجی جہدکارہ اور ایک کونسلر بھی ہیں جن کے پاس بے شمار لوگ اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔ نکاح کے فوری بعد ولیمہ کیا گیا۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی کی جانب سے ایسے نکاح جو مکمل سنت کے مطابق منعقد کئے جائیں، یعنی جن میں نہ کوئی جہیز ہو، نہ لڑکی والوں سے کھانا لیا جائے، ایسے ولیمہ کی دعوتوں کے لئے شادی خانہ فری دیا جاتا ہے۔ یہ نکاح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ الحمدلللہ


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی

حیدرآباد

9642571721

  

اتوار، 2 اگست، 2020

دو مسجدیں اورشہید ہوگئیں

 

پہلے یہ تو ہوتا تھا کہ اگر کوئی مسجد گرتی تو کسی نہ کسی اخبار، پورٹل یا ٹی وی پر ایک صدائے احتجاج تو بلند ہوتی تھی۔ لیکن حیدرآباد جیسے شہر کے بیچوں بیچ دو مسجدیں منہدم کردی جاتی ہیں لیکن نہ کوئی احتجاج بلند ہوتا ہے نہ کہیں کوئی دکھ یا افسوس۔ ہاں حکومت اور مسلم قیادت کی چالبازی کے خلاف ایک غصہ تو ظاہر ہوا لیکن مسجد کی شہادت کا دکھ کہیں بھی ظاہر نہیں آیا۔ لوگوں کا رویہ ایسا تھا جیسے”جس کا گھر تھا وہی اگر خاموش ہے تو ہم کیا کریں“؛ قصہ یہ ہوا کہ تلنگانہ سکریٹریٹ  Secretariatجن مساجد کی وقف زمین پر بنایا گیا تھا، اب اسی سیکریٹریٹ کی جدید تعمیر کے لئے مسجدیں رکاوٹ بن گئیں تو مسجدوں کا صفایا کردیا گیا۔ ہم کو مسجد کا ماتم کرنا نہیں ہے، ماتم اس سے بھی کہیں زیادہ بڑے  ایک اور سانحہ پر کرنا ہے۔ کیوں کہ ہم اس کے علاوہ اب اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ہاں کچھ اخباروں میں لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لینے سے یہ فائدہ ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اردو کی آخری قاری نسل ہے، جو اب پچپن ساٹھ سال میں داخل ہورہی ہے، اخبار پڑھنا کچھ تبصرے کرلینا جن کی ہابی ہے، ان کو کچھ تازہ غذا مل جاتی ہے۔  اصل سانحہ کیا ہوااس پر گفتگو کرنے سے پہلے،  مسجد کے بارے میں تھوڑی تفصیل بتاتے چلیں کہ یہ دو مسجدوں میں سے ایک مسجد ہاشمی تھی جو  1947 سے بھی بہت پہلے نواب میر عثمان علی خان کے دورِ حکومت میں تعمیر کی گئی تھی، دوسری مسجد سیکریٹریٹ کہلاتی تھی، ہر ایک کے حصے میں کافی زمین وقف تھی، جس پر آندھراپردیش سکریٹیریٹ تعمیر کیا گیا تھا،جو بعد میں تلنگانہ سیکریٹریٹ بن گیا۔

مسجدیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ گرائی گئیں، اطراف و اکناف کی سڑکوں کو بند کردیا گیا، امام اور مؤذنوں کو تین دن پہلے سے ہی مسجد آنے سے منع کردیا گیا تھا، چونکہ سکریٹریٹ کی تعمیر کا کام جاری تھا اس لئے  مؤذن اور اماموں کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ انہیں خداحافظ کرکے مسجدیں مکمل زمین دوز کردی جائینگی۔ یہ کام اتنا منظّم ہوا کہ باہر کی دنیا کو خبر ہوتے ہوتے ایک ہفتہ لگا، کیونکہ  تفصیلی واقعہ نہ کسی اخبار میں آیا نہ کسی سوشیل میڈیاپر، کیونکہ اس علاقے کے اطراف کے اونچی عمارتوں کے چھت بند کروادیئے گئے تھے، اور کام کرنے والوں کو موبائیل لے جانے سے سخت منع کردیا گیاتھا۔

بعد میں جب لوگوں میں بے چینی پیدا ہوائی تو چیف منسٹر نے پہلے کہا کہ  مسجدیں غلطی سے  شہید ہوگئیں، لیکن اس سے بھی خوبصورت  مسجد تعمیر کروادی جائیگی۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی صاحب جو اسی قسم کے بیانات دے کر عوام کو چپ کرواکر وقت گزروا دینے کے کام پر رکھے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی طرح کی شاندار مسجد تعمیر ہوگی۔ اویسی صاحب جو شہر کے  ایم پی ہیں ان کا چیف منسٹر کے نام مبارکبادی اور شکریہ کا ایک ٹویٹ جاری ہوا اور اس کے بعد چند ایک دیوانے چِلّاتے رہ گئے،  اور اب  وہ مسجدیں ایک داستانِ پارینہ ہوگئیں۔اگرچہ کہ کانگریس  اور مسلم شبّان کے کچھ مسلم نوجوانوں نے محدود گروپ میٹنگس،  سوشیل میڈیا اور جھنڈیوں کے ذریعے سڑکوں پرگاہے گاہے کچھ احتجاج جاری رکھا،، لیکن ان کا یہ احتجاج ایک سیاسی مخالف پارٹی کے لوگوں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے بہت آسانی سے نظر اندازکردیا گیا۔ رسماً ایک دو جماعتوں نے واٹس اپ اور فیس بک پر مسجد کو اسی جگہ بنانے کا مطالبہ کیا، اور ایک دو حضرات کورٹ بھی گئے، لیکن حکومت کا رویہ یہ ہے کہ ”جاؤ جو ہمارا بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو“، کیونکہ NRC & CAA کے احتجاج کے زمانے سے پولیس کی دہشت جو ذہنوں میں بٹھانے کی ریہرسل کی جارہی تھی اب پوری کام آئی۔

اب ان سوالات پروظیفہ یاب فارغ  حضرات بحث کرتے رہیں کہ اگر غلطی سے مسجدیں شہید ہوئیں تو کیا خاطی کے خلاف پولیس رپورٹ ہوئی؟ اگر سب کچھ غلطی سے ہوا تو کیا مسجدیں اسی مقام پر بنائی جائنگی؟ تعمیر کا نقشہ جو جاری کیا گیا ہے اس میں دو کے بجائے صرف ایک مسجد ہے جو اپنے اصل مقام پر نہیں بلکہ کہیں اور ہٹ کر ہے۔ اصل مسجد کی جگہ سڑک بننے والی ہے۔

مسجدیں غلطی سے گریں یا دانستہ منصوبہ بندی سے گرائی گئیں یہ راز اس طرح فاش ہوگیا کہ وہاں ایک مندر بھی تھی جو منہدم کردی گئی، حیرت اس بات پر ہے کہ مندر کے لئے نہ کوئی احتجاج ہوا، نہ لوگ سڑک پر آئے، جب کہ بی جے پی نے شہر میں  ماحول کو اس قدر فرقہ وارانہ اور زہریلا کیا ہوا ہے کہ اگر غلطی سے بھی کوئی کار کسی مندر کی دیوار سے ٹکرا جائے تو یہ لوگ سڑکوں پر نکل کر ہنگامے برپا کرڈالتے ہیں، لیکن ایک مندر گرادی گئی اور یہ لوگ خاموش رہے۔ سنا  یہ گیا کہ انہدام سے پہلے  پجاریوں نے خود مورتیاں ہٹائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسجدیں اور مندر کے انہدام سے پہلے ہندو اورمسلم دونوں طرف کے خاص خاص لیڈروں کو اعتماد میں لے لیا گیا جس طرح بابری مسجد کے فیصلے کے وقت ہوا تھا۔ ایک سوال پھر بھی یہ اٹھتا ہے کہ مندر کی مورتیاں تو بحفاظت ہٹوائی گئیں لیکن مسجدوں کی جانمازیں، قرآن اور دیگر چیزیں کیا اٹھا کر رکھی گئیں یا ڈمپ کردی گئیں؟امام اور مؤذن حضرات سے تاحال کسی کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ انہیں کسی سے بھی بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔

مسجد یں شہید کرنے کی وجہ اگر سڑک کی تعمیر، یا اس کی جگہ ایک بڑی مسجد کی تعمیر، یا کوئی اور مثبت تعمیری منصوبہ ہوتا تو شائد اتنا دکھ نہ ہوتا، کیونکہ سعودی عرب میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہاں اگر کبھی  کوئی مسجدگرائی بھی جاتی تو کسی مثبت تعمیری مقصد سے، لیکن اس کی جگہ کہیں زیادہ شاندار مسجد وجود میں بھی آجاتی۔ لیکن سکریٹیریٹ کی مسجدیں جس مقصد سے گرائی گئی ہیں، اس کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ مسلمانوں کے لئے، یعنی امتِ ابراہیمی کے لئے جس کی بعثت کا مقصد شرک کو مٹانا اور بتوں کو توڑنا تھا، ایسی امت کے لئے انتہائی باعثِ شرم ہے۔ اور اس سے غفلت کا عذاب دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت اور رسوائی ہے۔ چیف منسٹر صاحب کا واستو پر عقیدہ ہے، اور سکریٹیریٹ کی عمارت کی تعمیر واستو کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ ہوئی تو تھی لیکن اس وقت کے چیف منسٹر جن پنڈتوں کو مانتے تھے ان کے مطابق واستو کچھ اور تھا اور اب یہ چیف منسٹر صاحب جن پنڈتوں کو مانتے ہیں ان کا واستو الگ ہے۔ یہ ایک مشرکانہ عقیدہ ہے۔ اگر اس عقیدے میں کوئی برائی نہیں بھی ہے تو یہ ایسا عقیدہ بھی نہیں کہ اس کے لئے اچھی خاصی عمارتوں کو گرا کرسینکڑوں کروڑ روپیہ برباد کرکے، اس کے لئے مسجدوں کو شہید کرکے نئے واستو کے مطابق عمارت بنائی جائے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ کرونا اور اس کے بعد کے حالات کی وجہ سے لوگ بھوکے مررہے ہیں، بے روزگاری اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ کارپوریٹ دواخانے لوٹ مچائے ہوئے ہیں، کئی اسکول اور کالج بند ہوچکے ہیں، خود حکومت کے پاس تنخواہیں دینے پیسہ نہیں ہے،، ایسے وقت میں عوام کا پیسہ عوام کے نازک وقت پر کام آنے کے بجائے ایک شخص کے مذہبی عقیدے پر برباد ہورہا ہے۔، یہ سب سے زیادہ افسوسناک بات ہے۔ اور ایسے مشرکانہ عقائد کی بنیاد پر ایسے پروجیکٹ کی حمایت میں خود مسلم قائدین کا خاموش رہنا پوری امت کے لئے باعثِ شرم ہے۔

اصل سانحہ

ان سوالات کے جوابات نہ تو ہمیں چیف منسٹر سے چاہئے، نہ مسلم قیادت سے۔ جوابات ہمیں جوابات معلوم ہیں۔ اب حکومت اور مسلم قیادت کو اچھی طرح علم ہے کہ مسلمان بڑے سے بڑے حادثے پر کتنا شورپکارا کریں گے، تقریروں یا بیانات میں کیا کہیں گے، اردو اخباروں یا سوشیل میڈیا پر کیا لکھ لیں گے۔ انہیں اس کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ سب پڑھنے والے یا سننے والے کون  ہیں، کتنا دم رکھتے ہیں، چونکہ نیشنل میڈیا سوائے اردو کے کہیں بھی انہدام کے خلاف ایک لفظ بھی آنے نہیں دے گا، یہ اردو والے اردو اخبارات میں چیخ کر چلّا کر خاموش ہوجائینگے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسے حادثات ایک یا دوہفتہ سے زیادہ خبروں میں نہیں رہتے، جوں ہی ایک اور واقعہ ہوا لوگ نادان بچے کی طرح ہوتے ہیں، پرانا واقعہ بھول کر نئے واقعہ میں کھوجاتے ہیں، ابھی مسجد گری، لوگ بات کرہی رہے تھے، ٹی وی اور سوشیل میڈیا پر امیتابھ بچن کے کرونا کی وجہ سے دواخانے میں شریک ہونے کی خبر پر گفتگو کرنے لگے، کیا اس بھانڈ کا کرونا کا شکار ہونا اور دواخانے میں شریک ہوناکوئی نیشنل خبر ہے؟ لیکن واٹس اپ اور فیس بک کے بیماروں کے لئے ضرور اہم خبر  ہے۔ ہر روز نئی نئی خبروں کو صرف فارورڈ کرکے  اپنے فرض سے سبکدوش ہوجانا جس قوم کی زندگی کا چلن بن جائے اب اس قوم کو جگانے کے لئے صرف حضرت اسرافیل کا صور ہی کام کرے گا۔ یہ سلسلہ اب یوں ہی چلنے والا ہے، کچھ دنوں میں متھرا اور کاشی کی مسجدوں کا فیصلہ آئے گا، بابری مسجد کی جگہ مندر کا سنگِ بنیاد رکھا جائیگا، اور پورے ہندوستان کے فرقہ پرست جمع ہوکر اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے، بقرعید پر کچھ جانوروں کو لے کر کچھ مقامات پر مارپیٹ ہوگی، ان تمام واقعات کا مقصد اب مسلمانوں کو آکسیجن سے کوما میں بھیجنے کا مکمل بندوبست کرنا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ حیدرآبا د   تو  مسلمانوں کا وہ شہر ہے جواگر کسی بھی جگہ کے مسلمان پر کچھ آنچ آئے، اسکے خلاف آواز اٹھانے میں سب سے پہلے ہوا کرتا تھا،ملین مارچ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیکن اچانک یہ کیا ہوا کہ اپنے ہی شہر کی مسجدیں شہید ہوگئیں لیکن ہر شخص اس لئے خاموش ہے کہ وہ یہی سوچ رہا ہے کہ  جب قیادت خاموش ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ وہ قیادت جس کی ایک آواز پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے تیار ہوجاتے، وہ آواز ہی مصلحت کی چادر اوڑھ کر پتہ نہیں کس گلی کی ہوگئی۔قیادت اور اس کے ساتھ دینے والی جماعتیں سمجھدار ہیں، انہوں نے جب دیکھ لیا کہ قوم اتنی غفلت کا شکار ہے کہ اب سڑکوں پر نہیں آئے گی، تو انہوں نے یہ کیا کہ قوم کی اس غفلت کا سودا کرلیا۔

کیونکہ انہیں بھی اور حکومت کو یہ معلوم ہے کہ ان منہدم کی جانے والی مسجدوں میں مصلی کتنے آتے تھے۔ جب اللہ کا گھر یوں بھی ویران پڑا رہتا تھا،تو ایسا گھر دشمن کی نظر میں کیوں نہیں کھٹکتا؟ اس لئے مسجدیں جب منہدم ہوئیں، کئی مسلمان ملازمین  نے بھی  دیکھا، لیکن کیوں کسی نے احتجاج نہیں کیا، کیوں کسی کی غیرتِ ایمانی اور حمیّتِ قومی نہیں جاگی، کیوں انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی؟  سکریٹریٹ کو کسی نہ کسی کام سے جانے والے ہزاروں افراد ہیں، کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ کبھی اذان کی آواز سن کر کسی نے مسجد کا رخ کیا تھا؟ یہ اصل سانحہ ہے۔

یوگی پولیس اور دہلی پولیس ایک ایسا ماڈل بن چکا ہے جس کا خوف ہر ریاست پر چھاگیا ہے۔ کسی اور پر ہو نہ ہو، مسلمانوں کے ذہن پر تویہ خوف اچھی طرح بیٹھ چکا ہے۔نرسمہاراو کی تصویریں شہر میں جگہ جگہ لگادی گئیں کوئی کچھ نہ کرسکا، اور ایک شخص جو بابری مسجد کے انہدام کی سازش کا اصل سرغنہ تھا۔ جس کا تعلق نہ حکمران جماعت سے ہے نہ مسلم قیادت سے، اس کے باوجود اس کی تقاریب پر کروڑوں روپیہ برباد کیا جارہا ہے، یہ عوام کی بزدلی اور حکومت کی ہٹ دھرمی اور ڈکٹیٹرشپ کا کھلا ثبوت ہی نہیں سخت وارننگ ہے۔  اب گھر گھر سے صفورہ، کفیل، شرجیل اگر پکڑے جائیں گے تو سوائے سوشیل میڈیا پر لوگ تبصرے کرنے کے اور کچھ نہیں کرینگے۔ اگر پڑوس کا بچہ بھی گرفتار ہو جائے تو پڑوسی گھر سے نکل کر پولیس والوں سے بات نہیں کرے گا بلکہ فیس بک یا ٹویٹر پر سوال کرے گا، جب کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سوشیل میڈیا ایسے ہی ان تمام کچہرا  لوگوں کا اڈّہ ہے جو ٹائم پاس کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں جو چاہے لکھ لو، جو چاہے کہہ لو، حکومت ہو کہ پولیس، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب زو کے جانوروں کی طرح ہوتے ہیں جو چنگھاڑتے ضرور ہیں، لیکن ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہ تو پنجروں میں بند ہوتے ہیں۔ ہاں پنجرے سلاخوں کے نہیں ہوتے، خوف کے پنجرے ہوتے ہیں، قانون اور جیل کے خوف کے، بچوں کے مسقتبل کے خوف کے،  یا پھر لالچ کے پنچرے ہوتے ہیں۔ کسی اردو اکیڈیمی یا مقامی حج یا اوقاف کی صدارت کا لالچ، کارپوریٹر یا اسمبلی کے ٹکٹ کا لالچ کے پنچرے ہوتے ہیں۔  انہیں اچھی طرح چونکہ معلوم ہے کہ اب چاہے مسجدیں شہید کردو، چاہے فیک انکاؤنٹر کرڈالو، چاہے ان کی اکنامی اور روزگار یا تعلیم تباہ کرڈالو،  چاہے نرسمہاراؤ کے پوسٹر سارے شہر میں لگوادو چاہے اس کی سالگرہ تقاریب پر کروڑوں روپیہ خرچ کرڈالو، نہ مسلمان کچھ کرسکتے ہیں نہ دلت اور نہ دوسری ذاتیں۔ اس لئے ہمیں نہ چیف منسٹر سے سوالات کرنے ہیں اور نہ مسلم قیادت سے اور نہ مسلم قیادت کے پیچھے چلنے والوں سے۔ یہ سب سمجھدار لوگ ہیں۔

انقلابات صرف Masses سے آتے ہیں۔ جب تک لوگ سر پرکفن باندھ کر سڑکوں پر نہ نکلیں کوئی انقلاب نہیں آسکتا۔ اب جو لوگ اپنے سروں کو بچانے کی فکر میں اپنی زبانوں کو بند کرچکے ہیں، ہمتوں کو معطّل کرچکے ہیں وہ دراصل یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل ان کی نسلیں ماتحت اور غلام ابن غلام ابن غلام بن کرہی اس دیش میں رہیں گی۔

بہرحال دو مسجدوں کی شہادت پر یہ قبرستان جیسی خاموشی اب مستقبل میں کئی اور مسجدوں کی شہادت اور اس سے زیادہ اہم یہ کہ  ہمت، عزائم اور حوصلوں کی موت کا پیغام دے رہی ہے۔ امید کی ہمیں کوئی کرن اس لئے نظر نہیں آتی کہ ایسے کئی مضامین پڑھ کر لوگ راقم الحروف کو فون کرکے خوب سراہتے ہیں، لیکن جتنے فون آتے ہیں وہ تمام یا تو ریٹائرڈ لو گوں کے  ہوتے ہیں، حسرت رہ گئی کہ کبھی کوئی نوجوان لڑکے یا لڑکیاں فون کرلیں  جن کے لئے یہ مضامین لکھے جاتے ہیں۔  انہیں نہ مسجدوں کے انہدام کی پروا ہے نہ خود ان کے اپنے دین، کلچر، تاریخ اور قومی شان کی فکر ہے اور نہ انہیں یہ فکر ہے کہ کل کے ہندوستان میں ان کی حیثیت کیا ہوگی۔ اب انہیں کوئی یہ کیسے بتائے کہ کل کے ہندوستان میں ان کی حیثیت ہریجنوں سے بھی بدتر بنانے کی پوری منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ یہی سب سے بڑا سانحہ ہے۔ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...