ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

ساٹھ سال سے زائد عمر کے بزرگ ۔ رحمت یا بوجھ؟

 

ساٹھ سال کے ہونے کے بعد جن کو سینیئر سیٹیزن کا درجہ مل جاتا ہے، اور وہ بزرگوں کی تعریف میں داخل ہوجاتے ہیں،  وہ آج سوسائٹی میں کیا کررہے ہیں، کس کام کے ہیں، ایک رحمت ہیں یا بوجھ؟  کیونکہ نوجوان پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں، جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ کسی نہ کسی اکنامک ایکٹیویٹی میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ساٹھ سال کے بعد جب اِن بزرگوں کی اکثریت تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہوجاتی ہے، اور اپنے پورے وقت کی مالک ہوجاتی ہے، یہ وقت ان کے پاس دولت سے بھی کہیں زیادہ اہم سرمایہ ہوتا ہے، اِس کا صحیح استعمال کرکے وہ قوم کا ایک قیمتی سرمایہ بن رہے ہیں  یا  خسارہ بن رہے ہیں، اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

گوگل پر دستیاب اولڈ ایج سروے رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں 60+   افراد کا تناسب 9% کے لگ بھگ ہے۔ یہ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050  تک یہ تناسب 20%  ہوجائیگا۔ فی الحال، مسلمانوں کی 18   کروڑ کی آبادی میں 1.62 کروڑ  60+ بزرگوں کی آبادی ہے، اور ہر گھر میں کم سے کم دو مرد یا عورتیں بزرگی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ اگر ان میں سے فرض کرلیں 25%  وہ   بزرگ ہیں جو بیمار ہیں، بستر کے ہوچکے ہیں، اگر ان کو کم کردیں تو تب بھی 1.2 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کا نہ کوئی مصرف ہے نہ ان کے پاس کوئی بامقصد، متحرک زندگی گزارنے  کا کوئی لائحہ عمل ہے۔ بس وہ وقت گزار رہے ہیں۔ یہ لوگ قوم کا ایک بہترین سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی غور کیجئے کہ ہندوستان میں فوجیوں کی تعداد 35 لاکھ ہے جو  سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، ملک میں امن و امان قائم کرنے کے اور قانون کی حفاظت کرنے کے بھی کام آتے ہیں۔ ان سے چار گنا زیادہ تعداد جن 60+  لوگوں کی ہے، ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فوج کی طرح اپنے خاندان اور محلّے کی اخلاقی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ دین، کلچر، تعلیم اور معاشرت کی مکمل سرپرستی کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے جب ساری گھریلو ذمہ داریوں سے فارغ کردیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی کوئی تو مصلحت ہوگی؟ اسی مصلحت کو معلوم کرنا آج کا کمانڈمنٹ ہے۔

نوجوان انقلاب لاتے ہیں۔ وہ کسی بھی فوج کا ہراول دستہ ہوتے ہیں یعنی فرنٹ لائین سپاہی۔ ان کا کام جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم کام رسد کا ہوتا ہے یعنی سپلائی لائین۔ اگر سپلائی لائین صحیح نہ ہو تو فرنٹ کے سپاہی لڑ ہی نہیں سکتے۔ یہ 60+ لوگ یہی سپلائی لائین کا کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر یہی گھروں میں بیٹھ جائیں تو سپاہیوں کا پسپا ہونا فطری بات ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمارے تمام 60+  حضرات گھروں میں ٹی، وی، موبائیل، محلے اور مقامی مسجد کی سیاست، بہو بیٹے کی زندگی میں اور خاندانی سیاست میں دخل اندازی اور گھر کے سودا سلف لانے، بچوں کو اسکول چھوڑنے، میڈم کو شاپنگ کروانے اورتقریبات میں انہیں لانے لے جانے کے کام میں مصروف ہیں۔ دین، کلچر، تاریخ، ادب، تحریک یا کسی تبدیلی اور انقلاب کا انہیں کوئی شعور ہے اور نہ کوئی موٹیویشن۔ نتیجہ یہ کہ فرنٹ لائین کے سپاہی یعنی نوجوان  دشمن کے خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کوئی امریکن، ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی لائف اسٹائیل اپنا چکا ہے، کوئی دین سے بیزار فیمنزم یا Atheism کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور کوئی دینی مزاج کا حامل ہے تو کسی نہ کسی مسلک، عقیدے یا سلسلے کا شکار ہوچکا ہے۔ وہ لڑ تو رہے ہیں لیکن دین کے لئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مسلکوں اور عقیدوں کے خلاف۔

سوال یہ ہے کہ یہ 60+ لوگوں کی فوج کرکیا رہی ہے؟ یہ لوگ بھی جہاں سے بڑھاپا شروع ہونے کے آثار شروع ہوتے ہیں، نماز، روزہ، افطار، تراویح، مسلکی اور فقہی بحثوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ سروں پر ٹوپی اور چہرے پر داڑھی آجاتی ہے۔ چونکہ بچوں کو بڑا کرنے میں پوری عمر گزر جاتی ہے، اس لئے آخری بچے کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک یہ 55 یا 60 سال تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ جوانی کی طاقت باقی نہیں رہتی، پیٹ نکل آتا ہے، کسی کو بی پی، کسی کو شوکر، اور کسی کو دل، گُردے یا گُھٹنوں کے مرض شروع ہوجاتے ہیں۔ زندگی میں قوم کے لئے کچھ کرنے کے جو ارادے دل میں پالتے ہیں، اب وہ ناممکنات میں ایک دکھائی دیتے ہیں۔

ٓآزادی کے بعد چونکہ مسلمانوں کی نہ جائدادیں رہیں نہ نوکریاں، بڑے کاروبار رہے اور نہ ان کی حکومت، اس لئے دنیاوی طور پر ترقی تو نہیں کرسکے، اب 60+ ہونے کے بعد اتنی ترقی کرلیتے ہیں کہ عزت مآب پھوپھا پھوپی، دادا  دادی یا تایا  تائی بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ ”لوگ کیا کہیں گے“ والی فوج کے سربراہ  یعنی کمانڈرز بن جاتے ہیں۔ شادیوں، چہلم، سالگرہوں یا طلاق خلع جیسے معاملات ان کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔

ہاں ان میں کچھ بدنصیب ایسے ہوتے ہیں جن کی اولاد بے وفا نکلتی ہے، تو کئی ایسے خوش نصیب ہیں کہ ہر محفل میں یہ شان بگھارتے پھرتے ہیں کہ ان کے لڑکے امریکہ یا آسٹریلیا میں ہیں۔ ان کے بچے باہر جانے سے ان کو تو فائدہ ہوا، گھر، پلاٹ، فلیٹ یا بینک بیلنس میں خوب اضافہ ہوا، لیکن قوم کو کیا فائدہ ہوا، یہ لوگ یہ نہیں سوچتے۔ ان کے امریکہ یا سعودی جانے سے پہلے اگر قوم میں ایک لاکھ ڈرائیور تھے تو آج دس لاکھ ڈرائیور ہوگئے۔ اگر ایک لاکھ مفلس، بھکاری یا قرضدار تھے تو آج دس لاکھ ہوگئے۔ ان پر زبان، دین، کلچر اور قومی وقار کا قرض تھا، اس قرض کو اتارنے کا کبھی ان کو خیال نہیں آیا، اس لئے آج دین، زبان، کلچر، تاریخ کہاں کھڑے ہیں، ہر شخص اس کا اندازہ کرسکتا ہے۔

60+ لوگوں میں کچھ خصوصیات مشترک ہوتی ہیں، ہر معاملے میں یہ بہترین تبصرے اور مشورے دے سکتے ہیں یا بہترین تقریریں کرتے ہیں، اور ہر وقت یہی کرتے رہتے ہیں۔ مایوسی ان کے مزاج میں ہوتی ہے۔ چونکہ ان کے ذہنوں میں قوم کے لئے کچھ کرنے کے ارمان یوں تو ہمیشہ پلتے ہیں، لیکن انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کبھی ہمت نہیں کرسکے، اس لئے یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نہیں کرسکے  تو دوسرے بھی نہیں کرسکتے۔ اس لئے کسی کا نہ ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہمت افزائی کرتے ہیں۔ یہ اکثریتMajority کے غلام ہوتے ہیں، جو سسٹم ان کو بزرگوں سے ملا اسی کو باقی رکھنے کے لئے اڑ جاتے ہیں۔ اگر کوئی سسٹم کو بدلنے  یا کوئی تبدیلی یا انقلاب لانے کی ان سے بات کرے تو فوری ریجیکٹ کردیتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں۔ شائد انہی کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا کہ 

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا                       منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

یہ لوگ بارش کے ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح جامد Stagnant  ہوتے ہیں جس پر مکھیاں اور مچھر بھنبھناتے رہتے ہیں۔ یہ نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں، نہ تحقیق نہ تدبّر۔ وہی جو بچپن میں ان کے بزرگوں نے ان کو سمجھا دیا اسی کی ساری زندگی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔ ہم نے 60+ صحافیوں، مضمون نگاروں، شاعروں اور ادیبوں کو دیکھا جو لکھے جارہے ہیں، لکھے جارہے ہیں، کیوں لکھے جارہے ہیں، اب ان کی اردو پڑھنے والا کون ہے، کیا بوڑھے قارئین کو اپنے مضامین یا شاعری کے ذریعے متحرک کیا جاسکتا ہے، کیا کوئی انقلاب آسکتا ہے؟یہ لوگ سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم نے 60+ ڈاکٹرز اور بزنس مین اور وکیلوں کو دیکھا، لیڈروں کو دیکھا، یہ سب آخری سانس تک جتنا کما سکتے ہیں کمانے اور کماتے رہنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ جتنا مزید کمائیں گے اس پر صرف بیٹے بہو اور داماد عیش بلکہ عیاشی کرینگے، اس سے قوم کے ہزاروں لاکھوں فرزندان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، قوم جتنی ذلیل آج ہے، مزید ہوتی جائیگی اس کا کوئی مداوا نہیں ہوگا،لیکن مجال ہے کہ قوم کے بیٹوں کے لئے کچھ وقت یا کچھ مال نکالیں۔ ہم نے صرف علما، خطیب اور اماموں کو ہی دیکھا جو آخری سانس تک اپنے مشن پر لگے رہتے ہیں، نہ آرام کرتے ہیں، نہ پروموشن کا انتظار کرتے ہیں، اور نہ ریٹائرمنٹ مانگتے ہیں۔

                اتنی طویل تمہید کا مقصد در اصل یہ بتانا تھا کہ 60+ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں کتنا اہم مقصدِ حیات عطا کیا تھا اور یہ لوگ کیا کررہے ہیں۔ میرے 60+  دوستو؛ یہ مت سمجھئے کہ زندگی کے سارے امتحان ختم ہوچکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل امتحان کا وقت اب آیا ہے۔ ابآگے جو دو مرحلے ہیں، ان کی تیاری میں ایک دن کی بھی غفلت ہوجائے تو زندگی دوبارہ موقع نہیں دے گی۔ جوانی میں یا ادھیڑ پن میں جو غفلتیں ہوجاتی ہیں، ان کی اصلاح کرلینے کا زندگی موقع دے دیتی ہے، لیکن اب وہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ دوسرا مرحلہ آخرت کا ہے اور اس سے پہلے کا مرحلہ آخرت کی تیاری کا ہے۔ چونکہ ہماری سوسائٹی صدیوں سے چلے آرہے اسٹیریوٹائپ دین پر چل رہی ہے اس لئے ہمارے ذہنوں میں آخرت کی تیاری سے مراد سختی سے نماز، روزہ، عمرہ، اذکار، زیارتیں، اور بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کرنا۔۔۔ اب اسی کو آخرت کی تیاری سمجھ لیا گیا ہے۔

                دوستو؛ یہ کام آخرت کی تیاری کی صرف پیکنگ Packing ہیں۔ تیاری کچھ اور ہے۔ تیاری یہ ہے کہ آپ کے پیچھے جو نسل آرہی ہے وہ آپ ہی کے نقشِ قدم پر چل کر آرہی ہے۔ اُس نسل کی اخلاقی تربیت کرنا۔ ان کو ایک غیرت مند، باوقارمسلمان بنانا جو اپنے دین کی اپنی مسجدوں، اپنی بستیوں اور اپنے حقوق کی حفاظت کی جنگ لڑنے والی ہو، آپ کی آخرت کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنے پیچھے کیسی نسل کو چھوڑ ا ہے۔ آپ کے پیچھے آنے والی نسل  یا تو آپ سے یہ سیکھے گی کہ دادا جان یا تایا جان کس طرح دوستوں میں وقت گزارتے تھے، کس طرح شادیوں میں تیار ہوکر جاتے تھے، کس طرح بیوی کے حکم کے آگے دین اور شریعت جانتے ہوئے بھی جھک جاتے تھے، یا پھر یہ سیکھے گی کہ آپ کس طرح دین، زبان اور کلچر کی حفاظت کرتے تھے، اگر کوئی ناانصافی دیکھتے تو خودغرض بن کر اپنے کام سے کام رکھتے تھے  یا مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے تھے۔ فاشسٹ حکمران آج جو کچھ کررہے ہیں ان کے اِس ظلم کو روکنے دادا جان آواز اٹھاتے تھے، کسی تنظیم کسی تحریک یا کسی احتجاج اور ٹکراو کا ساتھ دیتے تھے یا پولیس اور قانون سے ڈر کر منہ بند کرلیتے تھے۔ مظلوموں کی مدد کے لئے فوری جیب سے کچھ نکالتے تھے یا صرف ”اللہ سب کی حفاظت فرمائے“ کی دعائیں کرتے تھے۔ آپ کی آنے والی نسل بہادر نکلے گی یا بزدل، یہ آپ کے Attitude پر منحصر ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ

                راہِ ہستی سے ذرا ہوش میں ہو کر گزرو              نقش بنتے جاتے ہیں ہر گام کے بعد

آنے والی نسل کے لئے اگر آپ ایک مثال نہ بن سکے، اور آئندہ نسل آپ ہی کی کاپی نکل گئی تو یقین رکھئے وہ  دین اور کلچرکے معاملے میں آپ سے کہیں زیادہ  دور ہوجائیگی۔ مسلمانوں پر ظلم ہوتا رہے گا، مسلمان اخلاقی طور پر اور مالی طور پر بد سے بدتر ہوجائینگے۔ انہیں چپراسی کی بھی نوکری نہیں ملے گی جس کی پیشن گوئی سرسید نے دیڑھ سو سال پہلے کردی تھی۔ لیکن آپ کی نسلیں دروازے بند کئے اپنی خیر منانے کی فکر کرے گی، اور ایک دن دوسرے تیسری درجے کے شہری بن کر غلامانہ زندگی گزارے گی۔

دوستو؛ زندگی ایک ODI کرکٹ میچ کی طرح ہے، اور 60+ والے سارے لوگ اپنی زندگی کے آخری پانچ یا دس Overs میں ہیں۔ اس کے بعد آپ زندہ تو رہیں گے لیکن پویلین میں بیٹھیں گے، فیلڈ پر آپ کو آنے نہیں دیا جائیگا۔ اِس وقت ایک ایک رن اور ایک ایک وکٹ اہم ہوتی ہے۔ اگر آپ نے باقی گیندوں کو ٹُک ٹُک کرتے گزار دیا تو آپ آخرت کا میچ بری طرح ہاریں گے۔ پھر یہ ہوگا کہ ”و نفخ فی الصور فاذاھم من الاجداث۔۔۔۔۔و صدق المرسلون“ (سورہ یٰسین 51) اور اس کے بعد ”ووضع الکتاب فتری المجرمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا یظلم ربک احدا“ (کہف  49)۔ یعنی جب ایک بھیانک آواز یعنی صور سے  آپ نیند سے گھبرا کر اٹھیں گے، جھنجھلائیں گے کہ کس نے آپ کو نیند سے جگا دیا، پتہ چلے گا کہ یہی وہ دن تھاجس کی رب نے وارننگ دے دی تھی، اور رسولوں نے بھی بتا دیا تھا۔ پھر وہ کتاب یعنی آپ کا نامہ اعمال آپ کے سامنے پیش کردیا جائیگا۔ آپ چِلّا اٹھیں گے کہ یہ کیسا حساب ہے، کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نہیں چھوڑتا، کہا جائیگا کہ یہ کتاب آپ ہی کی زندگی کے تمام اعمال کا Statement ہے جس کا ایک ایک کاما اور ایک ایک فُل اسٹاپ آپ نے خود لکھا ہے، اب اس کا حساب ہوگا۔ وہاں آپ کی نمازیں، آپ کے روزے، عمرے، خیرات، زکوٰۃ، تقریریں وعظ، داڑھیاں، ٹوپیاں عمامے سارے بعد میں پیش ہوں گے پہلے پانچ چیزوں کا حساب ہوگا۔ فرمایا نبی نے کہ ”پانچ چیزوں کا حساب دیئے بغیر کوئی بندہ اپنے رب کے سامنے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاسکے گا۔ 1۔ وقت، 2۔ جوانی کی صلاحتیں، 3۔ مال کہاں سے کمایا، 4۔ مال کہاں خرچ کیا، 5۔ علم۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بچوں کو بڑا کرنے، ذاتی گھر  بنانے کے لئے اُس نے  کتنے جھوٹ بولے ہیں، کتنی مرتبہ، سود، رشوت، خوشامد، فریب، دھوکہ اور خلافِ سنّت کاموں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ ہزار میں دو چار لوگ ہی ایسے ہوں گے جنہوں نے مکمل حلال کمائی کمائی ہوگی۔ اور جہاں تک وقت کا معاملہ ہے۔ فرض کرلیں آپ ساٹھ سال کی عمر میں ہی انتقال کرجاتے ہیں، تو ایک منٹ ایک منٹ کاحساب وہاں لکھا ہوگا۔ وہ اسطرح کہ: 60 سال  x  12 مہینے  x  30 دن  x   24 گھنٹے  x   60 منٹ  =   3.1کروڑ منٹ کا حساب دینا ہوگا۔ پتہ چلے گا کہ اِس دن کے لئے مشکل سے 1%  یا 2%  وقت یا مال جیب سے نکالا تھا۔ باقی سارا خاندان، دوست احباب، رشتہ دار، فضول شوق Hobbiesمیں لگ چکا ہے۔ اس وقت ہر بندہ یہ چاہے گا کہ ائے میرے رب، بس ایک بار پھر سے واپس جانے کی مہلت دے دے، میں اِس آخرت کی بہترین تیاری کرکے آؤں گا، لیکن اب واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوگا۔

دوستو؛ ہم نے 30-35 سال کی عمر تک والدین اور بھائی بہنوں کے لئے اپنا وقت اور مال لگا دیا، پھر 55-60 سال کی عمر تک گھر، بچوں کی تعلیم، دامادوں کو خریدنے اور اپنے شوق پورے کرنے پر لگا دیا۔ اب  اللہ نے ہمیں 60+  کے بعد اگر زندہ رکھا ہے تو یہ اس کا رحم ہے۔ اب 60 سال کے تمام ادھورے Backlogپورے کرنے کا یہ سنہری موقع پھر دوبارہ ہاتھ نہیں آئیگا۔ آپ نے آج تک جتنا کمایا وہ اب کام آرہا ہے، آج کے بعد سے جو بھی کمائیں گے وہ اس دن کام آجائیگا جس دن یہی اولاد، یہی دوست اور رشتہ دار آپ سے فرار حاصل کرنے والے ہیں جن کی خاطر آپ نے دین، قرآن اور شریعت سے خودغرضی اختیار کررکھی تھی۔(یوم یفرالمرء من اخیہ۔۔۔(عبس 34) اب آپ کو سب سے خودغرض ہوکر ایک ایک دن ایک ایک گھنٹہ دین اور قوم کی ترقی پر لگانا ہے۔ کرنے کے کام بہت ہیں۔ لیکن ان کا تعلق کونسلنگ سے ہے۔ جس طرح شادی سے پہلے یا بعد کی کونسلنگ ہوتی ہے، بچوں کی، اوراسٹوڈنٹس کی کونسلنگ ہوتی ہے، اسی طرح 60+  لوگوں کی بھی کونسلنگ ہوتی ہے۔ اگر آپ ہم سے رابطہ کریں تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ باقی زندگی کا ایک ایک دن کتنا اہم ہے، اور اس کو دین اور قوم کی ترقی کے لئے کیسے صرف کریں۔ آپ یہ کام گھر بیٹھے فون پر بھی کرسکتے ہیں، اپنے گھر، خاندان اور محلّے میں کرسکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ 60+ کے بعد آپ کی کمائی اور آپ کا وقت پورا کا پورا صرف اور صرف دین اور قوم کی ایک امانت ہے۔ عمر زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کی بزرگی کو دانشوری یا قیادت کی کسوٹی سمجھا جائے۔ جو ذرا اچھی انگریزی بولے، یا اچھے عہدے پر رہے، اس کو لیڈر مان لیا جائے۔  آپ کو والنٹئر بن کر اپنے آپ کوپہلے ایک کام سے جڑنا ہے۔ ایک بزرگ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ ائے اللہ میرے دن کو بانجھ نہ بنا۔ یہ دعا ہرایک کے لئے اور بالخصوص 60+ لوگوں کے لئے بہت اہم ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں کوئی نہ کوئی مثبت کام نہ ہوا  ہو۔ سوتے وقت ہر روز اپنے دن کا حساب کیجئے کہ آج کا دن کن کاموں میں گزرا، کیا یہ کام اس دن کام آجائیں گے جس دن آپ کا حساب ہوگا؟ کیا میرے دن سے میری آنے والی نسل کو کوئی پیغام ملا؟

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

حیدرآباد قتلِ عام 1948 سے دہلی 2020 تک امت کے زوال کا سفر

 

آج سے ٹھیک 72 سال پہلے حیدرآباد میں  جو کچھ ہوا، اس کو دیکھنے والوں نے قیامتِ صغریٰ سے تعبیر کیا۔ مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں تباہ کردیئے گئے، لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا اور باؤلیوں اور تالابوں میں اپنی عصمت و وقار کی حفاظت کرنے کی خاطر کتنی عورتوں نے کود کر جان دے دی اس کا آج بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ مجبوری قلم روک دیتی ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرنا نہ صرف یہ کہ ظالم کی ہمت اور طاقت کو خراج پیش کرنا ہے بلکہ اپنی ذلّت اور شکست کو تسلیم کرنا ہے۔خوددار قوموں کو یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ بیوا کی طرح آہ وِزاری اور نوحہ گری کریں۔ 1857 سے لے کر آج تک، اور بالخصوص آزادی کے بعد سے آج تک ہونے والے فسادات کی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ جتنے فسادات ہوے ہیں، ان میں اکثریت فسادات نہیں بلکہ نسل کشی تھے۔ ہر فساد کی ایک ہی نوعیت، ایک ہی سازش، اور ایک ہی نتیجہ یعنی مسلمانوں کی تباہی و بربادی۔ چاہے وہ حیدرآباد کا قتلِ عام ہو، گجرات، مظفرنگر ہو کہ حالیہ دہلی فساد ہو، سازش برہمن کی، ہاتھ نچلی ذاتوں کے اور پشت پناہی پولیس اور قانون کی۔

یہ نسل کشی اس بات کی غمّازی کرتی ہے کہ اب اس امت کے مکمل زوال کا سفر اپنے فطری انجام کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ کسی بھی قوم کے فطری زوال کو روکنا ویسے بھی ممکن نہیں۔ اس زوال کا آغاز بلکہ سہرا انگریزوں کے سر ہے جنہوں نے 1857 کا بدلہ اس طرح لیا کہ وہ مسلمان جنہوں نے  ہندو عوام کی قیادت کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی برپا کی تھی، ان سے انگریزوں نے اس طرح  انتقام لیا کہ مسلمان اب کبھی نہ ہندو کی قیادت کرسکیں اور نہ ہندو انہیں برداشت کرے۔ تاریخ وار جتنے بدلے وہ لیتا گیا اور برہمن کو اپنے ساتھ لے کر مسلمانوں کو تباہ و تاراج کرتا گیا، اس کا تذکرہ ہماری کتاب ”وندے ماترم ۔  قومی ترانہ یا دہشت گرد  ترانہ“ میں تفصیل سے موجود ہے۔ 

                آج مسلمان جس حال میں کھڑے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کسی نے انہیں خبردار نہیں کیا تھا۔ ہر دور میں علما اور دانشوروں نے قدم قدم پر انہیں خبردار کیا تھا کہ”وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔۔۔ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں“۔پولیس ایکشن سے بہت پہلے قاسم رضوی کو بھی اور نظام کو بھی خبردار کردیا گیا تھا۔ لیکن قاسم رضوی نے وہ خط بغیر پڑھے پھاڑ دیا تھا اور نظام کو پورا یقین تھا کہ انگریز ان سے وفاداری کرے گا۔ آج ہم جو کچھ ہیں یہ ہمارے بڑوں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہر خبردار کرنے والے کی بات سن کر وہ یہی کہتے رہے کہ:یہ اولیا اللہ کی سرزمین یہاں کچھ نہیں ہوگا،ولا تہنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین،ہم بابری مسجد کی طرف اٹھنے والی آنکھوں کو پھوڑ دیں گے،گولیاں کھائیں گے، شریعت میں کسی کو دخل اندازی نہیں کرنے دینگے۔اب حال یہ ہے کہ مسلمانوں سے جائدادیں، انڈسٹری، اعلیٰ عہدے، نوکریاں سب کچھ چھینی جاچکی ہیں، میڈیا میں ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جاچکا ہے۔ کسی بھی حکومت کو چلانے کے لیئے تین اہم شعبے ہوتے ہیں۔ لیجسلیچر، قانون اور ایڈمنسٹریشن۔ ان تینوں سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کیا جاچکا ہے۔ برسہابرس سے آریس یس نے محنت کرکے اپنے وفادار سیوکوں کو ہر ہر کرسی پر بٹھادیا ہے، اب اگرآریس یس ختم بھی ہوگی تو اس کے بوئے ہوئے یہ نفرت کے بیج ختم ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ سال لگیں گے۔ اب آپ کو کن مسائل پر سوچنا ہے، کیا بولنا ہے کیا لکھنا ہے کیا جلسے کرنے ہیں کیا کھانا ہے اور بچوں کو کیا پڑھانا ہے ان تمام باتوں کا فیصلہ آریس یس کررہی ہے۔انصاف ملنے کے امکانات دور دور تک معدوم ہوچکے ہیں، اب کسی نے منہ کھولا تو عمرخالد، ڈاکٹر کفیل، صفورہ وغیرہ کے واقعات ہر شخص کو بری طرح خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ نہ آپ اب جلسہ کرسکتے ہیں نہ جلوس نکال سکتے ہیں۔ کسی بھی قسم کا احتجاج آپ کو UAPA میں بند کرواسکتا ہے۔ آپ پر ایسے ایسے جھوٹے الزامات لگا دیئے جائنگے کہ کئی سال آپ صرف مقدمات لڑتے ہوئے گزار دینگے۔ آپ اگر کسی ایسی جماعت یا فرد کا ساتھ دینگے جو فاشسٹوں کی نظر میں کھٹکتے ہیں تو پھر پولیس والے آپ کے خاندان کے لوگوں کو اس قدر ہراس کرینگے کہ آپ کے اہلِ خاندان خود پولیس بن کر آپ کے جانے آنے پر پابندی لگادیں گے۔ 

 اس  انجام کو پہنچنے کا پہلا سبب ہمارے باپ دادا کی غفلت ہے جن کو خبردار کیا گیاتھا لیکن ناعاقبت اندیش مولویوں اور لیڈروں کی بھڑکانے والی جوشیلی تقریروں اور نعروں میں انہیں مستقبل کے خطرات بالکل محسوس نہیں ہوتے تھے، بلکہ وہ خود بھی ایسے جھوٹی تسلی دینے والوں کو دل سے چاہتے تھے جو انہیں فکروعمل کی زحمت سے بچادیں۔ اب اگر آج ہم فوری طور پر ایکشن میں نہ آئیں تو ہمارے بچے، پوتا پوتی جن حالات سے گزرنے والے ہیں وہ آج سے بھی بدتر ہوں گے۔کل ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی۔

آج جب ہم اپنی قوم کی اخلاقی حالت کو دیکھتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا یہ قوم دوبارہ کبھی عروج حاصل کرسکے گی۔ سلام ہے آر یس یس کے جان نثار سیوکوں کو کہ جنہیں پتہ ہے کہ ان کا لیڈر ایک جعلی ڈگری رکھنے والا ہے، انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ ان کی پارٹی میں کئی لیڈر بدکردار ہیں، لیکن وہ افراد سے بے نیاز ہوکر جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، پوری سمع و طاعت کے ساتھ اپنی جان و مال کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ پولیس کانسٹبل ہو کہ فوجی جنرل، اسلام میں جماعت کا جو حکم ہے، وہ حکم اُن لوگوں نے مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ لیکن ایک ہماری قوم ہے کہ معمولی آٹو والا ہو کہ بڑے سے بڑا عالم، دانشور یا تاجر، سب اپنے آپ کو جماعت سے بے نیاز یا مستثنیٰ سمجھتے ہیں، کیونکہ ہر شخص اپنی جگہ خود بہت بڑا لیڈر، دانشور اور عالم ہے۔ اس لیے حیدرآباد سے لے کر حالیہ دہلی فساد تک جو کچھ بھی ہوا، ایسا لگتا ہے کہ واجبی ہوا۔ کیونکہ جو جماعت سے نہیں جڑتا احادیث میں اس کی سزا کی پیشن گوئی کردی گئی ہے۔ فرمایا رسول اللہ نے کہ ”جو جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوا وہ جہالت کی موت مرا“۔ اگر ایک ایک فرد کسی نہ کسی جماعت سے مکمل تن دہی کے ساتھ مکمل سمع و طاعت کا ثبوت دے کر جڑ جائے تو اور نیت صرف اور صرف دین کی سربلندی ہو تو جو فاشسٹ قوتیں ستّر سال کے بعد اقتدار تک پہنچی ہیں، وہ ہم سات سال میں پہنچ سکتے ہیں۔ اب ہمیں عقیدوں اور فقہی مسائل پر لڑنے والے مسلک کی جماعتوں کی ضرورت نہیں بلکہ دینی اور سیاسی طاقت رکھنے والی جماعتوں میں فوری شامل ہونا لازمی ہے۔ خطرات اوپر بیان کردیئے گئے ہیں، آج ان خطرات کا مقابلہ کرنے ہمت کے ساتھ آگے آئیں گے تو کل آنے والی نسلیں سر اٹھا کر چلیں گی، ورنہ جس خوف میں آج ہم جی رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ خوف میں وہ مبتلا کردی جائینگی۔ یونیفارم سیول کوڈ نافذ کیا جائیگا، ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوچکی ہیں۔ اگر بی جے پی کا اقتدار اگر اور دس سال چلے تو یہ بھی ممکن ہے۔ ہر ہر شہر میں ایک اور دہلی یا حیدرآباد ہونے کے پورے پورے امکانات ہیں۔

دین میں ہر دور میں پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، واضح طور پر موجود ہے۔ قرآن ہمیں یہ گائیڈ کرتاہے کہ یہ صرف عہدِ نبوی کے لیئے نہیں تھابلکہ 2020 میں بھی 2030 میں بھی جو حالات پیش آئیں گے ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس کی رہنمائی کے لیئے بھی تھا۔ لیکن دین کو عوام کے ذہنوں میں بٹھانے والے مدرسوں سے نکلنے والے حضرات جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح دین کو دنیا کے سامنے پیش کریں، ان کے مدرسوں کے نصاب میں قرآن بمشکل دس فیصد ہے، باقی نوّے فیصد فقہ  ہے، منطق یا فارسی ہے یا پھر قصص النبین، صرف و نحو وغیرہ جیسے مضامین ہیں۔ وہ فقہ جو آدمی کو غسل یا تیمم، لونڈی اور غلام، طلاق یا خلع، کے احکامات تو سکھاتی ہے لیکن اس دنیا میں سیاسی، معاشی یا اخلاقی طور پر کس طرح کھڑا ہونا ہے، کس طرح خود امت اور غیر قوموں کو صحیح اسلام سے روشناس کروانا ہے، یہ چیزیں ان کے داخلِ نصاب نہیں، یہ وجہ ہے کہ اہلِ مدرسہ نہ کسی کے پیچھے چل سکتے ہیں اور نہ دوسرے ان کے پیچھے چلنے تیار ہیں، جمعہ کے خطبے سننے کوئی نہیں آتا، خطیب خالی دیواروں یا ستونوں کو مخاطب کرتے رہتے ہیں، یا پھر ان ضعیف بوڑھوں کو جو اولِ وقت آکر دائیں اور بائیں جانب کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ آج علما کو سننے والوں کی تعداد پچھلے دس سال یا بیس سال کے مقابلے میں کئی گنا گھٹ چکی ہے، آئندہ دس بیس سال میں یہ اور بھی تیزی سے گھٹے گی۔ اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ پورے نصاب کو بدل کر ایک مکمل دعوتی نصاب ترتیب دیا جائے۔ سود پر کتابیں بہت لکھی جاچکیں اب بنک اور انشورنس کا ایک ایسا ماڈل جو کشمیر سے کنیاکماری تک دوسرے بینکوں کی طرح قائم ہوسکے، اس کی تیاری کی جائے، اگر ممکن نہیں تو موجودہ لائف انشورنس سے مجبوری کے تحت کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اس کی راہیں نکالی جائیں تاکہ ہر سال لائف انشورنس کی معلومات نہ ہونے کے سبب قوم جو ہزاروں کروڑ روپئے کا نقصان کررہی ہے، اس نقصان سے بچ سکے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی

حیدرآباد

9642571721





پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...