ہفتہ، 28 نومبر، 2020

جہیز لینے والے مرد کیا شرعی طور پر ”کُفو“ (میچِنگ) ہوسکتے ہیں؟

 

جہیزاور بارات کی نحوست نے دین اور امّت کو کتنا نقصان پہنچایا، آیئے ایک نئے زاویہ سے جائز لیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان بزرگوں کے لئے غورطلب ہے جو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے فریضے ادا کرکے اب پوتا پوتی اور نواسے نواسیوں کی شادیوں کے انتظار میں ہیں۔ یہ لوگ نماز روزے اور عمرے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، امت کی ترقی کے لئے بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں۔ امت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا بہت زبردست تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں خود اِن لوگوں نے رسم و رواج کو قائم رکھنے کی کوشش میں اسلام کے احکاماتِ نکاح کو کتنا نقصان پہنچایا، بلکہ تباہ کرکے رکھ دیا۔

شادی کے لئے دوسرے مذاہب یا کلچرز میں اتنا کافی ہے کہ مرد، مرد ہو یعنی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہو۔ چاہے وہ بوڑھا ہو، شرابی ہو، چورہو، جہاں بھی لڑکی کے ماں باپ اس کو شادی کرکے دے دیں، عورت کو اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، مرنے تک اسی کو بھگوان سمجھ کراُس کی پوجا کرنی ہے، جس گھر میں عورت کی ڈولی جائے وہاں سے اس کا ڈولا اٹھنے تک اسی گھر میں قید رہنا ہے، جیسا بھی سلوک اس کے ساتھ کیا جائے برداشت کرنا ہے۔ لیکن اسلام نے عورت کو اس جہنّم سے باہر نکالا اور عورت کو جینے کی آزادی دی۔ اس کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا، مہر فِکس کرنے کا اختیار دیا، سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ جب تک شوہر اس کے ساتھ انسانیت اور پیار سے رہے، وہ اس کا ساتھ دے سکتی ہے، اگر مرد نے اپنا رویّہ بدلا اور اس کو کمزور سمجھ کر اس کا استحصال کرنا شروع کیا تو عورت اس سے فوری خلع لے سکتی ہے۔ اسی طرح، جس طرح اگر عورت اگر سرکشی کرے تو مرد اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ اسلام نے اس قدر شاندار اصول دیا ہے کہ جب تک پیار ہے ساتھ رہو، ورنہ خوشی خوشی الگ ہوجاؤ، اور اپنی زندگی نئے سرے سے بسالو۔ عورت کو یہاں تک آزادی دی گئی کہ مرد اگر طلاق دیتاہے تو اسے قاضی کے سامنے وجہ بیان کرنی ہوگی، لیکن اگر عورت خلع چاہتی ہے، اور قاضی کو سبب بتانا نہیں چاہتی  تو قاضی عورت کو مجبور نہیں کرسکتا۔ سبحان اللہ۔ کیا دنیاکا کوئی قانون عورت کو اتنا بڑا مقام دے سکتا ہے؟ لیکن افسوس، صد افسوس کہ ہم نے ساتویں صدی میں کلمہ پڑھ کر اسلام تو قبول کیا تھا، لیکن ہمارے ذہن جو کل تک برہمن شاستر کو ماننے والے تھے، آج تک وہی ہیں۔ ہم نے عورت کو وہ مقام ہی نہیں دیا جو اسلام نے دیا تھا۔ عورت کو جتنے اختیارات اسلام نے دیئے تھے، وہ سارے کے سارے جہیز کی رسم نے ایک ایک کرکے چھین لیئے۔ آج عورت وہیں کھڑی ہے جہاں اسلام سے پہلے کھڑی تھی۔ جب عورت کو معلوم ہے کہ اس کی شادی کے لیئے ماں باپ کو گھر بیچنا پڑتا ہے، کیا وہ مرد کی ذرا سی بھی نافرمانی کرنے، طلاق یا خلع لینے کی ہمت کرسکتی ہے؟ وہ سوائے ایک لونڈی بن کر رہنے کے اور کچھ نہیں کرسکتی۔ اس کو پتہ ہے کہ اگر مرد سے الگ ہوگی تو پھر دوسرے مرد سے شادی کے لئے اس کے ماں باپ کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔

شادی کے لئے اسلام نے عورت سے زیادہ مرد پر قابلیت ثابت کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ اس کا صرف بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہونا کافی نہیں ہے۔ عورت سے نکاح کے لئے مرد میں جو قابلیتیں درکار ہیں اس کو ”کفاء ت“ کہتے ہیں۔ یعنی Matching, Equality, Suitablity, Adjustibility۔ جو مرد اس عورت کے قابل ہو، اس کو کُفو Match, Qualified کہتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کتنے مرد ہیں جو ایک مسلمان عورت سے نکاح کے لئے کوالیفائی کرتے ہیں۔

پہلی شرط ہے  لڑکا اور لڑکی دونوں مسلمان ہوں، دونوں کلمہ کا اقرار کرنے والے ہوں۔

دوسری شرط یہ ہے مرد مال یعنی پیسے میں لڑکی سے زیادہ ہو یا کم سے کم برابر ہو، لڑکی کا نان نفقہ یعنی کھانے پینے اور رہنے سہنے کا خرچ اٹھانے والا ہو۔

تیسری شرط یہ ہے کہ مرد دیانت والا ہو یعنی فاسق، فاجر، شرابی، زانی یا کسی بھی حرام کاموں کا عادی نہ ہو۔

چوتھی شرط یہ ہے خاندان، قبیلے، پیشے، کلچر اور رکھ رکھاو میں لڑکی سے بہتر ہو یا کم سے کم برابر کاہو۔ ایسا نہ ہو کہ لڑکی اس کو کسی بنا حقیر سمجھے یا اس شوہر کی وجہ سے کسی کے سامنے اسے احساسِ کمتری کا شکار ہونا پڑے۔

پانچویں شرط یہ ہے کہ لڑکے میں کوئی عیب یا بیماری ایسی نہ ہو جس کا راز بعد میں کھلے اور لڑکی کے لئے یا اس کے خاندان کے لئے باعثِ شرم ہو۔

اس کے علاوہ بھی علما اور فقہا نے کئی اہم شرائط بتائی ہیں، لیکن ہمارے مضمون کا مقصد شرعی مسائل بتانا نہیں ہے بلکہ جہیز نے جہاں دوسرے کئی اسلامی بنیادی احکامات کی اہمیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، وہیں کفو یعنی میچنگ کے احکامات بھی مکمل مذاق بن گئے، اور مرد، صرف اپنے مرد ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بالکل ہندو معاشرہ کی طرح عورت کو اسلام کے دیئے گئے رائٹس کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پولیس اسٹیشن، عدالتیں، قاضیوں کے دفتر، وکیلوں کے آفس برقع والیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جن بزرگوں کے چار چار بیٹے ہیں، وہ شاندار ٹوپیاں اور عمامے پہن کر نمازوں کو جاتے ہیں، اور عمرے پر عمرے کرتے ہیں۔ جن کی تین چار بیٹیاں ہو جائیں وہ ساری عمر قرضے ادا کرتے ہیں یا پھر گھر بیچ کر کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ کس طرح پوری سوسائٹی نے اس جہیز کی رسم کی آڑ میں عورت کا استحصال کیا، اور اسلامی شریعت کو ایک ایک کرکے پامال کیا۔

سب سے پہلے کلمہ کی شرط کو لیجئے۔ پچھلے ایک ہزار سال کی تاریخ پڑھئے۔ لاکھوں ہندو، انگریزاور دوسرے مذاہب کی عورتیں کلمہ قبول کرکے مسلمان مردوں سے شادیاں کرتی تھیں، کئی مغل شہزادوں کی مائیں راجپوت شہزادیاں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اس کا دور، دور تک کوئی تصوّر نہیں تھا کہ کبھی کوئی مسلمان لڑکی کسی غیر کلمہ گو سے شادی کرے۔ آج حالت یہ ہے کہ مسلمان لڑکیاں جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جارہی ہیں، ان کی میچنگ کے مرد ملنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ لڑکے جتنا زیادہ قابل ہیں، ان کے Rate بہت زیادہ ہیں جو لڑکیوں کے باپ Afford نہیں کرسکتے۔ اس لئے لڑکیاں اب نہ سید دیکھتی ہیں نہ برہمن، نہ شیخ یا پٹھان دیکھتی ہیں نہ ریڈّی، یا سنگھ۔یہ ٹرینڈ تو گلی گلی پھیل گیا ہے، غریب لڑکیاں بھی اب جہیز کی لعنت کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے شادیاں کرنے لگی ہیں چاہے وہ ہندو ہو، دلت ہو یا مسلمان ہو۔ شرط یہی ہے کہ جہیز اور بارات کے کھانے نہ مانگے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ارتداد جہیز کی وجہ سے نہیں بلکہ تعلیم، سوشیل میڈیا اور بے دینی کی وجہ سے آیا ہے۔ یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ کوئی مسلمان لڑکی چاہے وہ کتنی بے دین ہو، اس کا ضمیر یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ وہ عیاشی یا عاشقی کی وجہ سے اپنے رحم میں کسی مشرک کا نطفہ پالے۔ لیکن لوگ جب اچھے رشتے آنے کی نیّت سے لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھانے لگے تو اچھے رشتوں کی قیمت بہت بڑھ گئی۔ لڑکیاں اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اگر انہیں زیادہ قیمت دے کر مسلمان لڑکوں کو خریدنا پڑے تو و ہ اسے اپنی اور اپنی تعلیم کی توہین سمجھنے لگیں اور مجبوری میں غیر کلمہ گو لڑکوں سے شادیاں کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ غیرقوم تو اپنی تہذیبی فتح پر جشن منارہی ہے، لیکن  نہ ہمارے قابل لڑکوں کو اور نہ ان کے ماں باپ کو شرم آتی ہے کہ ان کی وجہ سے ہماری قوم کی ہزاروں لڑکیاں اسلام کے کفو کے احکامات کو توڑ کر کلمہ کا انکار کرنے والوں سے شادیاں کررہی ہیں۔

مرد کے لئے کفو ہونے یعنی میچنگ ہونے کی دوسری شرط تھی مال۔ قرآن نے یہ شرط خود فِکس کی ہے۔ سورہ نساء آیت 34 میں یہ حکم دیا کہ مرد عورت پر قوّام یعنے نگران ہوگا اسی شرط پر کہ وہ مال خرچ کرے۔ لیکن اگر وہ عورت سے منگنی اور بارات کا کھانا مانگے، پلنگ، الماری، کار، بائیک، نقد رقم مانگے تو وہ عورت کا کفو نہیں رہا۔ آج 90% مرد جنہوں نے شادیاں کی ہیں، یا ان کے بزرگ ابّاجانوں اور امی جانوں نے یہ شادیاں کروائی ہیں، یا ان کی دادیوں اور نانیوں کے ارمانوں کی وجہ سے یہ شادیاں ہوئی ہیں، وہ سارے مرد اسلامی شریعت کے مطابق کفو نہیں ہیں۔ وہ ہندو معاشرے کے انہی مردوں کی طرح ہیں جو رسم و رواج کے نام پر منہ مانگا جہیز اور نقد رقم لے کر بِکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان مرد شادی کے بعد عورت کی ساری زندگیکفالت کرتے ہیں، ان پر ضرور خرچ کرتے ہیں، لیکن اسلام نے حکم دیا ہے کہ نکاح یا شادی کے لمحے سے ہی مرد خود خرچ کرے۔ نقد مہر ادا کرے، اپنی حیثیت کے مطابق ولیمہ دے اور سارے جہیز کا خود انتظام کرے۔ وہ جو بھی انتظام کرسکتا ہے وہ صاف صاف بتادے تاکہ لڑکی خود فیصلہ کرے کہ وہ مرد اس کے قابل ہے یا نہیں۔ لیکن جہیز کی رسم اتنی زیادہ طاقتور ہے کہ اسلام کے دیئے گئے حق کا لڑکیاں استعمال کرہی نہیں سکتیں، کیونکہ ماں باپ تو ان لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ جلد سے جلد ان کی شادی کرکے رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مردوں کی اکثریت ناکارہ مردوں کی فوج ہے جو صرف ڈرائیور، واچ مین، سیلزمین یا پھر ٹھیلے والوں کے کچھ اور نہیں۔ یاپھر ان مردوں کی ہے جو ملازم پیشہ ہیں، جن کی آمدنی کو اسلام نے ”نیچے والے ہاتھ کی آمدنی“ یعنی تنخواہ یا خیرات لینے والے ہاتھ کی آمدنی قرار دیا۔

                کفو کی تیسری شرط تھی دیانت، یعنی مرد اگرفاسق، فاجر، شرابی، زانی یا منکرات یعنی حرام عادتوں کا مرتکب ہو تو وہ شریف لڑکی کا کفو نہیں ہوسکتا، اس سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس جہیز کی رسم نے لڑکیوں سے ان کے اپنے کردار کی بھی عصمت چھین لی۔ بجائے مرد کا کردار دیکھنے کے لڑکیوں کا کردار دیکھا جاتا ہے، ان کی سیرت، نماز کی پابندی، امورِ خانہ میں مہارت، ان کے بال، رنگ، صحت، تعلیم سب کچھ دیکھے جاتے ہیں، لیکن مرد کا کردار دیکھا ہی نہیں جاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ مرد کے محلے میں جاکر دو چار لوگوں سے سطحی معلومات حاصل کر لی جاتی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کئی لڑکیاں حافظہ اور عالمہ ہوتی ہیں، ان کو بھی کئی لاکھ کا جہیز دے کر ایسے لڑکوں کے حوالے کیا جاتا ہے جن کو لڑکی کے حافظہ یا عالمہ ہونے کی کوئی خواہش بھی نہیں ہوتی۔ اس میں لڑکی کے ماں باپ خود اس فتنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ کہ ایسی لڑکیوں کے قابل کئی حافظ یا عالم لڑکے موجود ہیں جو شریف ہیں، دیندار ہیں اور اچھا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ لیکن لڑکیوں کے ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ جب ہم نے دس پندرہ لاکھ خرچ کرنے ہی ہیں تو کیوں کرائے کے مکان والے کو اپنی بیٹی دیں؟ کیوں معمولی پیشہ آدمی کو اپنی لڑکی دیں۔ اس حِرص میں جب وہ ایک ذاتی مکان والے، Well settled کو ڈھونڈھ کر بیٹی دیتے ہیں تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ لڑکا فضول دوستوں، فلموں، غلط عادتوں اور فسق و فجور کا عادی ہے۔ لڑکوں کا کردار تو اس وقت دیکھا جاتا جب جہیز کی بلیک میلنگ نہ ہوتی۔ کیونکہ کئی وقت ایسے بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین جتنا پیسہ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، اس رقم میں فاسق فاجر قسم کے لڑکے ہی ملتے ہیں، اور ماں باپ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بھی ملے بس لڑکی کے ہاتھ پیلے کردو۔

                کفو کی چوتھی شرط تھی خاندان، قبیلہ،  پیشہ، رکھ رکھاو، کلچر، زبان وغیرہ۔ اسلام نے کہا کہ قریش عورت کا غیر قریشی مرد کفو نہیں ہوسکتا۔ اگر مرد قبیلے میں کم ہوگا تو وہ اس پر برتری Superiority  کا رویّہ رکھے گی۔ حضرت زینب ؓ کی زید بن حارث ؓ سے شادی کا واقعہ سب کو معلوم ہے۔ آج کے عرب بھی عجمیوں کے کفو نہیں ہوسکتے، کیونکہ جو لوگ عرب ممالک میں رہ کر آچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ عرب کتنے سخت مزاج، عورتوں کے معاملے میں کتنے ظالم، شکّی اور مارپیٹ کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن جہیز کی مجبوری نے بے شمار غریب لڑکیوں کے ماں باپ کو مجبور کردیا کہ اپنی پندرہ سولہ سال کی لڑکیوں کو پچاس ساٹھ سال کے عرب عیاش بوڑھوں کے حوالے کردیں۔ کئی ایسے قاضی ہیں جو پولیس اور سیاستدانوں کو پیسہ کھلا کر عارضی شادیاں کرواتے ہیں، یعنی عیاشیاں کرواتے ہیں، ایک شیخ واپس جاتے ہی اسی لڑکی کا نکاح کسی اور عرب سے کرڈالتے ہیں۔ اس طرح اسلام نے جو خاندان اور قبیلے کی شرط رکھی تھی، اس منحوس جہیز کی لعنت نے اس شرط کو بھی تباہ کردیا۔

سوال یہ ہے کہ کفو کے سسٹم کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے، کس طرح لڑکیوں کی عزت اور ان کے مقام کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ اس کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی کونسلنگ کا جو ہم نے طریقہ کمانڈمنٹ 19  تا 22 بتایا ہے، اس پر سختی سے عمل ہو۔ کوئی شادی ایسی نہ ہو جس سے پہلے لڑکا لڑکی اور دونوں کے خاندانوں کی مکمل کونسلنگ نہ ہو۔ یہ ویڈیوز یوٹیوب چینل سوشیوریفارمس سوسائٹی پر دستیاب ہیں۔ بے شمار باتیں جو لوگ شادی سے پہلے غور نہیں کرتے، شادی کے بعد وہ کئی جھگڑوں کی بنیاد بن جاتے ہیں، وہ کونسلنگ میں اچھی طرح واضح ہوجاتی ہیں۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ جو لوگ جہیز اور بارات کے کھانے علی الاعلان لے چکے ہیں وہ علی الاعلان واپس کریں۔ اور تیسرا حل یہ ہے کہ جو شادیاں جہیزاور کھانے کے ساتھ ہورہی ہیں، ان شادیوں کا سختی سے بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے دعوت نامے کو قبول کرنے سے معذرت کرلی جائے۔

                کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب لڑکا لڑکی کلمہ پڑھنے والے ہیں تو یہ کافی ہے، مزید کفو یا کفاء ت کے احکامات کی ضرورت نہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ کفو یعنی میچنگ کی شرائط کے بارے میں قرآن، حدیث اور معروف علما کیا کہتے ہیں اس پر غور فرمایئے۔

قرآن: سورہ نساء آیت 34: مرد عورت پر قوّام ہے اس لئے کہ وہ مال خرچ کرتا ہے۔ (اگر وہ مال خرچ نہ کرے تو کفو نہیں ہے)۔

حدیث: رسول اللہ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا ”ائے علی، تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو۔ نماز میں جب وقت ہوجائے، جنازے کی تدفین میں جب وہ تیار ہوجائے، اور لڑکی کے نکاح میں جب اس کا کفو مل جائے۔ (ترمذی)

حدیث: جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ  ”کوئی نکاح نہ ہو سوائے اس کے کہ لڑکی کے کفو سے، اور ولی کے علاوہ کوئی نکاح نہ کرے۔ (سنن دارقطنی و ھدایہ، باب المہر)۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ”میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا کہیں اور نہ کرنے دوں گا“۔ (کتاب الآثار، امام محمدؒ)

                مرحوم صدرالدین اصلاحی نے اپنی کتاب ”نکاح کے قوانین“ میں لکھا کہ امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چار چیزیں کفو میں داخل ہیں۔ حسب نسب، پیشہ، حریت اور مال۔ امام شافعی کے نزدیک کفوہونے کے لئے لڑکے کا کسی بھی عیب یا بیماری سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جاری کردہ ”مجموعہ قوانین اسلامی“، دفعہ 70 میں لکھا ہے کہ اگر بالغ لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرلیا تو شرعی عدالت میں ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کو منسوخ کرواسکتا ہے۔ اور اگر نکاح کے وقت مرد نے جھوٹ کہا کہ وہ کفو ہے جب کہ وہ نہیں تھا  تو لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شرعی عدالت میں نکاح منسوخ کروائے۔

مفتی محمد شفیعؒ نے ”جواہرالفقہ“ میں کفو کے احکامات کے ضمن میں لکھا کہ کفو کے احکامات کو نظرانداز کرنا مساواتِ اسلامی کی غلط تعبیر ہے۔ کیا یہ اندھیر نگری ہے کہ مہذب اور غیر مہذب، عالم اور جاہل، گدھے اور گھوڑے ایک پلڑے میں تولے جائیں؟ فطرتِ انسانی میں ذہنی تحفظات Mental Reservations موجود رہتے ہیں۔ کفو یا کفاء ت کے احکام یہ تحفظات پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان تحفظات کے فطری اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔

                مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے رسائل و مسائل میں لکھا کہ ”نکاح کا مقصد عورت اور مرد میں ایک مضبوط رحمت و مودّت یعنی پیار کا رشتہ قائم کرنا ہے۔ یہ رشتہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دونوں کے درمیان مزاجوں اور حالات کی مناسبت اور مطابقت نہ ہو۔ کفو کے احکامات میں علما کے درمیان اختلاف تو ہے لیکن جن چیزوں پر اجماع ہے وہ ہیں اسلام، اخلاق، مال اور Social Status۔ ملک کی عدالتوں میں انصاف، سزا، حقوقِ انسانی اور بنیادی حقوق کے معاملے میں سب برابر ہیں، کوئی اونچا یا نیچا نہیں ہے لیکن نکاح کے معاملے سارے انسان آدم کی اولاد ہیں لہذا جو چاہے جس سے شادی کرسکتا ہے، یہ اصول نہیں چل سکتا۔ شادی ایک اچھی نسل پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے اس لئے اپنے خاندان کی لڑکی کے لئے اس کا کفو دیکھا جانا لازمی ہے۔ ورنہ معاشرہ کئی خرابیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ کفو کے تفصیلی احکامات جاننے کے لئے ہماری تصنیف ”مرد بھی بِکتے ہیں۔۔ جہیز کے لئے“ کا مطالعہ فرمایئے۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

 9642571721



                                                                

جمعہ، 20 نومبر، 2020

پہلے نکاح یا پہلے کیرئیر؟ ہائیر ایجوکیشن کے نام پر لڑکیوں سے دشمنی


 



ؒ


لڑکیوں کی ہایئر ایجوکیشن کی پرزور وکالت کرنے والے دانشوروں سے آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں سوال کررہی ہیں کہ آج ہماری عمریں تیس سال سے تجاوز کرچکی ہیں، اب ہم سے شادی کون کرے گا کیونکہ جو بھی رشتہ آتا ہے انہیں بیس بائیس سال کی لڑکی چاہئے۔ کل تک جہیز سب سے بڑی رکاوٹ تھی، لیکن اب میچنگ سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔پہلے لڑکی اگر خوبصورت نہ بھی ہو خوب جہیز کی رشوت دے کر لڑکے کے ماں باپ کا منہ بند کرنا آسان تھا، لیکن اب ہائیر ایجوکیشن کی وجہ سے لڑکیوں کی عمر کی میچنگ، ان کی ڈگری کی میچنگ اور پھر ان کی تنخواہ کی میچنگ ملنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ کچھ حضرات نے اس موضوع پر ہمارا ویڈیو سن کر اعتراض کیا کہ ”آپ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوے بھی مولویوں اور ملّاؤں جیسی فرسودہ باتیں کررہے ہیں، لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے ”قوم کی ترقی“ ہے۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی رٹ لگانے والوں سے پہلے چند سوالات ہیں جن کاجواب ان کے پاس کوئی نہیں۔

ا۔ ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے؟   ۲۔ قوم سے اِن کی کیا مراد ہے؟  ۳۔ قوم کی ترقی کی ان کے پاس کیا تعریف ہے؟ ۴۔ اسلام چاہتا ہے کہ پہلے نکاح ہو بعد میں کیرئیر، یہ صحیح ہے یا غلط؟

قوم سے مراد  کیا انڈین پاکستانی یا عرب معاشرہ ہے؟  ہمارے پاس قوم سے مراد صرف ”قومِ رسولِ ہاشمی“ ہے۔اس قوم میں اور دوسری قوموں میں یہی فرق ہے کہ اس قوم کے لیڈر محمد الرسول اللہ نے زندگی کا ایک مکمل راستہ، ایک مکمل دستور دیا ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جس نے زندگی گزارنے کا مکمل دستو ر دیا ہو۔ وہ لوگ ہماری قوم کے لوگ ہی نہیں جو مسلمان تو کہلوانا چاہتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے اصول کبھی امریکہ سے، کبھی یہودیوں سے اور کبھی مشرکوں سے لے کر کسی نہ کسی طرح جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قوم کی ترقی سے مراد ہمارے آج کے دانشوروں کے ذہن میں یہ ہے کہ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ ڈگریاں حاصل کریں، نوکریاں کریں، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں، پھر ان کے رشتے اچھے گھرانوں سے آئیں، لڑکیاں امریکہ یا یورپ جاکر ان کے معاشرے میں سیٹ ہوجائیں۔ لیکن ہمارے نزدیک قوم کی ترقی صرف یہ ہے کہ جس قوم سے آپ کا تعلق ہے، آپ اس قوم کے لیڈر کو اپنا مکمل لیڈر تسلیم کرلیں، اور ان کے دیئے ہوئے دستور  کو پوری دنیا کا دستوربنادیں۔ جو فوج میدانِ جنگ میں اپنے کمانڈر کی 100% تابعداری کرتی ہے، جنگ وہی جیتتی ہے۔ جو فوج کمانڈر کے فیصلوں کو اپنی دانشوری کے تابع کرتی ہے وہ فوج بری طرح ذلت اور شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ آج مسلمان قوم کی ساری دنیا میں ذلت اور ہر قدم پر شکست کا سبب یہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے لیڈر نے جب حکم دے دیا کہ بالغ ہونے کے بعد کفو مل جانے پر پہلے نکاح کرو۔ ایجوکیشن ضروری ہے، کیرئیر بھی ضروری ہے اور پروفیشنلزم بھی ضروری ہے۔ لیکن اسلام نے اس کی Priority  طئے کردی ہے کہ پہلے نکاح بعد میں سب کچھ۔ لیکن ہمارے دو کوڑی کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں پہلے گریجویشن کریں، پھر پوسٹ گریجویشن، پھر کوئی میچنگ کا لڑکا ملنے تک نوکری کریں  اور تجربہ حاصل کریں۔ اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو اس کو بڑی حقارت سے مولوی یا ملّا سے تعبیر کریں گے۔ یہ نادان یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہ کس کی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ مولویوں کی نہیں بلکہ اس قوم کے سردار محمد الرسول اللہ کی راست مخالفت کررہے ہیں۔ کسی بھی رشتہ لگانے والے آفس میں جایئے، دیکھ لیجئے کہ شادی کی منتظر لڑکیوں کی اکثریت تیس سال کے آس پاس ہیں۔ اور ان میں زیادہ تو وہی لڑکیاں ہیں جن کے ذہنوں میں اعلیٰ تعلیم کا جنون بھردیا گیاتھا۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ ایجوکیشن، ایجوکیشن کی رٹ لگانے والوں کے پاس ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے، اس کی صحیح تعریف کیا ہے؟تھیوریٹکلی اس پر تو ہر دانشور ایک طویل تقریر کرسکتا ہے، لیکن پراکٹیکلی دیکھ لیجئے، ایجوکیشن دلاتے ہوئے ماں باپ کے ذہن میں جو مقصد ان کی چھٹی حِس میں چھپا ہوتا ہے وہ  یہ ہے کہ لڑکی کو مرد پر منحصر نہ ہونا پڑے، غلامی نہ کرنی پڑے، اگر شوہر مرجائے، بھاگ جائے، دوسری شادی کرلے یا چھوڑ دے تو لڑکی کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جب آغاز ہی شک، سرکشی اور بغاوت کی بنیاد پر ہو تو انجام بھی ویساہی  ہوتا ہے۔ پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار چاہے آسمان تک اٹھادی جائے، وہ دیوار ٹیڑھی ہی جائیگی۔ ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کا راز یہ ہے کہ بیوی پہلے لونڈی بن جائے پھر شوہر غلام بن جاتا ہے۔ یہ ایک Reciprocal عمل ہے۔ لیکن لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم انہیں پہلے جھکنے نہیں دیتی۔  اعلیٰ تعلیم کے بعد اپنی Ego کو دفن کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

میاں بیوی کے کامیاب رشتے کی بنیادیں چار ستونوں پر کھڑی ہیں۔ پہلا رشتہ یہ ہے کہ تعلق میاں بیوی کا ہو یعنی ایک دوسرے کے مکمل حقوق اداکررہے ہوں۔ دوسرا دوستانہ رشتہ ہے۔ یعنی وہ  ایک دوسرے کے ساتھ مکمل دوست کی طرح رہتے ہوں۔ تیسرا رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل محبوب اور محبوبہ کی طرح رہتے ہوں۔ پہلے دو تعلقات تو بہرحال دیکھنے میں آتے ہیں لیکن تیسرا رشتہ یعنی محبوب اور محبوبہ کا رشتہ جو پور ی زندگی کی جان ہے، یہ اس وقت ممکن ہے جب لڑکی کی عمر بیس بائیس  یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہے۔ جب جذبات کلی کی طرح علی الصباح کھلتے ہیں اور مہک آتی ہے۔ دھوپ نکل جانے کے بعدپھول کھلتا تو ہ ہے لیکن بڑھتی ہوئی دھوپ کی گرمی اس کی خوشبو کا ختم کردیتی ہے۔ جب لڑکیاں جوانی کی اصل عمر سے نکل جائیں، تو پھر انہیں خوشی کے رشتے نہیں آتے، مجبوریوں کے رشتے آتے ہیں۔ کبھی طلاق شدہ مردوں کے کبھی کوئی نہ کوئی خامی والے مردوں کے۔ اور جو فِٹ مردوں کے رشتے آتے ہیں ان کا Rate بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہذّب گھرانوں کی لڑکیاں کسی نہ کسی طرح سمجھوتہ کرلیتی ہیں، لیکن جن دماغوں میں فیمنزم اور لبرٹی آف وومن کا زہر اتارا جاچکا ہے وہ اپنے سے بہتر تعلیم یافتہ  اور کمائی والے کو دیکھتی ہیں جو ان کے ساتھ کام کرتا ہے چاہے وہ کوئی سید یا خان ہو، چاہے شرما یا ریڈی ہو چاہے سنگھ یا چٹرجی ہو۔ اس کو Cultural Assimiliation کہتے ہیں۔ اس میں غالب کلچر، کمزور کلچر کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے۔ مغلوں کے طاقتور کلچر میں راجبوت شہزادیاں ضم ہوجاتی تھیں۔ انگریزوں کے زمانے میں نوابوں کے کلچرکو  انگریز عورتیں اپنالیتیں اورنوابوں رئیسوں سے شادیاں کرلیتی تھیں۔ اب ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں جس تیزی کے ساتھ اس انجذاب میں مبتلا ہیں، یہ سلسلہ آئندہ پانچ دس سال میں خطرے کے نشان سے اس قدر اوپر اٹھ چکا ہوگا کہ آج جو لوگ غیرت مندی سے سوچ کر رنجیدہ ہیں، رفتہ رفتہ یہ بھی پتھر ضمیر کے ہوجائیں گے۔

اب بھی وقت ہے۔ جو کچھ حالات آج ہیں، فاشسٹوں کی ایک مکمل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلامی پرسنل لا اور اسلامی تاریخ اور تہذیب کے سامنے ان کے دیوی دیوتاؤں کے بچکانہ قصے ٹِک نہیں سکتے،اس لئے وہ  اپنی قوم کے تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام سے بدظن رکھنے اسلام کے خلاف مستقل پروپیگنڈے اور تشدّد پر اتر آئے ہیں۔ اگر قومِ رسولِ ہاشمی آج بھی اپنے قائد کے سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اور اکنامک اصولوں پر اڑ جائے تو پوری غیرقوم اسلام میں جذب ہوسکتی ہے، کوئی اس سے روک نہیں سکتا۔ لیکن ہم ایک قدرتی تنزّل کا شکار ہیں۔ پہاڑ سے تیزی سے نیچے کی طرف آتے ہوئے وزنی پتھر کی طرح ہم لوگ نیچے جارہے ہیں، یہ کیسے رکے گا اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم میلادالبنی کے  شاندار جلوس نکال سکتے ہیں، ہم فرانس کے صدر کے پوسٹر پیروں میں روند سکتے ہیں، ہم پرسنل لا میں دوسروں کی دخل اندازی روکنے گولیاں کھانے تیار ہیں لیکن نکاح کا حکم خود اپنے خاندان پر نافذ کرنے تیار نہیں۔ یہ حکم نافذ ہوجائے تو نہ صرف لاکھوں مسلمان ہر سال غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں بلکہ لاکھوں غیرقوم کی لڑکیوں کا اسلام میں داخلہ ممکن ہے، لیکن خود قومِ رسولِ ہاشمی آج دوسروں کو اس قوم  میں داخل ہونے کے راستے میں سب سےبڑی رکاوٹ ہے۔

لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے نام پر جو کورسس ان سے کروائے جاتے ہیں، ان کا بھی کوئی مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے بس اچھا رشتہ آئے، بچی امریکہ یا دوبئی چلی جائے توکوئی سی بھی کلرک کی نوکری مل جائے۔کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ لڑکیوں کو وہ کورس کروانا جو صرف مردوں کو سوٹ کرتے ہیں؟  کوئی لڑکی سیول انجینئرنگ، تو کوئی آرکٹکٹچر، کوئی  اگریکلچر  تو کوئی وِٹرنری کررہی ہے۔  ایسے کورسس میں ڈگری دلا کر ماں باپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟اگر کسی آفس یا فیکٹری میں سو میں سے پچاس لڑکیاں مسلمان بھی ہوں تو اس سے مسلمانوں یا اسلام کا نام کہاں روشن ہوا؟ اس سے قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ایک گھر کی آمدنی ڈبل ہوگئی۔ میاں بیوی جب دونوں کمانے لگے تو عیش ڈبل ہوگیا۔ پہلے ایک کار تھی، اب دو ہوگئے، پہلے ایک فلیٹ تھا اب دو فلیٹ ہوگئے۔ پہلے بچے دال روٹی بھی خوشی سے کھالیتے تھے، اب ماکڈونالڈ، کے ایف سی آرڈر کرنے لگے ہیں۔ بچے جو امریکہ چلے گئے، کیا ان سے قوم کو کوئی فائدہ ہوا؟ کبھی یہ سو ڈالر بھی جیب سے نکالتے ہیں تو قوم پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں۔۔یہ زیادہ تر مڈل کلاس کے لوگ ہوتے ہیں، مشورے، اعتراضات اور بکواس زیادہ کرتے ہیں، قوم کے لئے ان کے پاس سوائے تبصروں کے کچھ اور نہیں ہوتا۔

اسلام عورت کی نوکری کو بغیر کسی شرعی عذر کے کیوں پسند نہیں کرتا، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے مرد کو باہر کی دنیا کا اور عورت کو خاندان کا حاکم بنایا ہے۔ عورت پر اپنے اور اپنے اطراف کے بچوں اور عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیروزگاری کتنی عام ہے سب کو پتہ ہے۔ ایک مرد کو اگر نوکری ملتی ہے تو اس کی وجہ سے دس لوگ پلتے ہیں۔ لیکن اگر وہی نوکری عورت لے لے تو ایک گھر کی آمدنی کا گِراف اوپر اٹھتا چلاجاتا ہے، اور ایک مرد کے خاندان کا گراف گِرتا چلاجاتاہے۔ اس طرح ایک عورت کی نوکری کتنے افراد کی روٹی چھین لیتی ہے خود اس کو خبر نہیں۔ مرد مجبوری میں کئی کرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا ایک گھر کی ترقی سے قوم کی ترقی ممکن ہے؟

اگر شوہر بیمار ہو، مرجائے یا کوئی اور مجبوری ہو تو عورت نوکری کرسکتی ہے۔ لیکن یہ مشکل سے دو فیصد عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے 98% لڑکیوں کو یہ ذہن نشین کروادیا جاتا ہے کہ ان کا شوہر مرنے ہی والا ہے، یا عورت کو کمائی پر مجبور کردینے والا ہے۔

قوم کی ترقی لڑکیوں کی نوکریوں کی غلامی میں نہیں ہے بلکہ ہماری قوم، ہمارے کلچر اور ہمارے پرسنل کو پھیلانے میں ہے۔ دراصل ہمارے نام نہاد دانشور امریکہ اور یورپ کی لڑکیوں کو دیکھ کر سخت احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ انہیں فر فر انگلش بولنے والیوں میں، مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے والیوں میں، مردوں کی محتاج نہ رہنے میں ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں آخر ہماری لڑکیاں یہ ترقی کیوں نہیں کرتیں۔یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے آم کے پیڑ پر جام کیوں نہیں اُگتے؟ ان بے چارے دانشوروں کو یہی پتہ نہیں کہ ہر ترقی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مغرب کی عورت نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے تب جاکر اسے یہ آزادی ملی ہے۔ کیا ہماری تہذیب یہ قیمت ادا کرسکتی ہے؟ ہماری تہذیب اور ان کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ سیکس انسان کی بھوک اور پیاس کی طرح ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ اسلام نے اس کو ایک انتہائی قابلِ احترام طریقے سے پورا کرنے کا پورا طریقہ دیا جس میں عورت کی مکمل حفاظت ہے۔ لیکن مغرب نے اس ضرورت کو ویسا ہی پورا کرلینے کی آزادی دے دے جیسے بھوک اور پیاس کو وقتی طور پر پورا کرلینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک خاندان کو پالنا، بچوں کو پیدا کرنا اور ساری زندگی ایک کھونٹے سے بندھے رہنے کے قائل نہیں۔ عورت بے چاری کرتی بھی کیا، وہ بھی اس سسٹم کا شکار ہوگئی۔ پہلے پہل اسے بھی اس میں لطف نظرآیا، اسے لگا کہ وہ صحیح آزادی حاصل کرچکی ہے، لیکن چند سالوں میں یہ محسوس ہوگیا کہ اب وہ سوائے مردوں کی ہوس پورا کرنے والے کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ذرا زیادہ عمر ہوجائے تو پھر اس کی طرف کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا، باقی ساری زندگی وہ خود کمانے اور خود کھانے پر مجبور ہوگئی۔ دوسرا فرق ہے کہ مغرب میں پہلے تو کوئی شادی نہیں کرتا، اگر کرتے بھی ہیں تو طلاق کی شرح% 50-70 ہے۔ مغرب میں اب عورت اپنی آزادی کو باقی رکھنے کے لئے اپنے باس کو خوش رکھنے، غیرمردو ں سے بے تکلفی، ترقی کے نام پر کچھ برہنگی، کچھ جسم کی نمائش، پر مجبور ہے۔ کیا ہمارے دانشور یہی ترقی چاہتے ہیں؟  اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہزاروں عورتیں جو نوکریاں کررہی ہیں وہ ساری زنا ہی کررہی ہیں۔ لیکن اتنا تو کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلامی لباس کے بغیر،  بال کھولے، کبھی پیٹ اور کبھی پیٹھ دکھانے والی ساڑیاں یا اسکرٹ پہن کر نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

اور پھر جتنی ہزاروں لڑکیوں کو ہم اعلیٰ تعلیم کی بھٹّی میں جھونک رہے ہیں، کیا اتنی نوکریاں دستیاب ہیں؟ یہاں فاشسٹوں نے مسلمانوں کے لئے ویسے ہی نوکریاں ختم کردی ہیں۔ہم ہزاروں لڑکیوں کو کن نوکریوں کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں؟ اب جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو بھی آفر دیا جائے وہ بھیک سمجھ کر قبول کرلینے تیار ہیں، ان کی قابلیت، ان کی وفاداری اور محنت کا مکمل استحصال ہورہا ہے، ہم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ذہن بناکر نہ صرف انہیں نوکریوں کی بھیک پر مجبور کررہے ہیں، بلکہ حریص مردوں کو گھر بیٹھے بیوی کا مال کھانے، اس سے نوکری کروانے، پھر بچوں کی، ساس سسر کی اور گھر، پکوان، صفائی وغیرہ جیسی خدمات مفت حاصل کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔معصوم لڑکیاں ایک طرف صحیح عمر میں شادی کے لطف سے محروم ہیں تو دوسری طرف باقی ساری زندگی کے آرام سے محروم ہیں۔ اس سے بہتر ہوتا وہ شادی کی صحیح عمر میں شادی کرکے زندگی کا لطف تو اٹھاتیں۔ 

اب آیئے،جہیز کے زاویہ سے بھی بات کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتاکہ آج کی شادیاں، جہیز، بارات اور منگنی وغیرہ لڑکی اور اس کے ماں باپ پر ایک ظلم ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا فائدہ یہ تو ہونا چاہئے تھا کہ ایجوکیٹیڈ لڑکیاں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھتیں، لیکن آج کی ایجوکیشن کا مقصدناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ڈگریاں حاصل کرکے نوکریوں کے قابل بنانا ہے، پھر ایسی ایجوکیش کا فائدہ ہی کیا جس میں لڑکی کو جتنا پڑھایا جائے اس کے ماں باپ پر وہ اتنا زیادہ بوجھ بنتی جائے؟ اس تعلیم سے قوم کو کیا فائدہ ہوا؟ اس سے قوم کی ترقی کہاں ہوئی؟

حل کیا ہے؟ صحیح وقت پر شادی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ زندگی میں صحیح وقت پر صحیح پیار مل جائے، جذبات سرد ہونے سے پہلے زندگی شروع ہوجائے تو ایسا ہی ہے جیسے بھوک میں کسی انسان کو سوکھی روٹی اور دال بھی مزا دیتی ہے۔ لیکن اگر آدمی کا فالتو چیزوں سے پیٹ بھر جائے اور بعد میں اس کے سامنے بریانی بھی پیش کردی جائے تو وہ اس میں کئی خامیاں نکالتا ہے۔ اسی طرح اگر صحیح وقت پر شادی ہوجائے تو لڑکا یا لڑکی نہ خوبصورتی دیکھتے ہیں نہ پیسہ، ایک دوسرے کی بانہیں ان کے لئے بہت بڑا سہارا ہیں۔ اس کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے ان کی شادی کردی جائے تاکہ نہ ان کے ذہن جنسی جذبات  میں بہکیں، اور نہ کوئی دوسرا انہیں بہکانے کی کوشش کرے۔۔ شادی مکمل نبی کے طریقے پر ہو، یعنی نکاح گھر پر یا مسجد میں ہو، مہمانوں کو چائے یا شربت پیش کیا جائے، نقد مہر ادا کیا جائے، ولیمہ نبی اور علی ؓ کے ولیموں کی طرح ایک بکرے پر ہو، اور جو پیسہ بچ جائے، شادی کے بعد ان کی ایجوکیشن اور کیرئر پر خرچ کیا جائے۔ بچے فوری پیدا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسلام میں نہ بچے  پیدا کرنے سے روکا ہے اور نہ پلاننگ کرنے سے۔ دو چار سال بچے تاخیر سے پیدا ہوں تو کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔ دونوں زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے تعلیم بھی مکمل کرینگے اور اپنے اپنے پروفیشن میں کمانے بھی لگیں گے۔ جو پیسہ دکھاوے کی دعوتوں، جہیز اورجوڑے کی رقم میں ضائع کرکے تیار دلہوں کو خریدتے ہیں، اور بعد میں طلاقوں اور جھگڑوں میں زندگی گزارتے ہیں، اس سے نجات مل جائیگی۔ معاشرہ ایک صحیح بنیادوں پر چل پڑے گا۔ اس کی مزید تفصیلات آپ کو ہماری کتاب ”نکاح یا وِواہ“ میں مل جائیں گی۔

 

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

                                                9642571721 

منگل، 10 نومبر، 2020

کونسلنگ سیکھنا۔ وقت کی اہم ترین ضرورت قسط۔2: شادی کے بعد کی کونسلنگ

 

 ٓکیا آپ جانتے ہیں کہ ایک عمل ایسا بھی ہے جس کا درجہ نماز، روزہ اور دوسرے کئی اہم فرائض سے بھی زیادہ اہم بتایا گیا ہے؟ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی کے درمیان اختلافات کو دور کرنا اور صلح کروانے کا درجہ کئی فرائض پر بھاری ہے۔ کیونکہ فرمایا رسول اللہ نے کہ اس سے ایمان مونڈھ جاتا ہے۔ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان اگر اختلافات ہوں تو ان میں صلح کروانا سب سے بڑی نیکی ہے کہ کیونکہ حدیثوں میں ہی آیا ہے کہ ابلیس کے تمام پسندیدہ کاموں میں سب سے پہلے مقام پر کسی میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کروانا ہے۔ اسی لئے شائد نبی نے وارننگ دی کہ وہ شخص بدترین مجرم ہے جس کے کسی ایک ریمارک سے بھی کسی میاں بیوی کے درمیان رنجش پیدا ہوجائے۔ اگر رسول اللہ کی کونسلنگ کے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگے گا کہ کونسلنگ آپ کے فرائضِ نبوّت میں سے ایک تھا۔ آپ کے پاس بیویاں اپنے شوہروں کی، اور شوہر اپنی بیویوں کی شکایات لے کر آتے، اور آپ ہر وقت ان کی کونسلنگ فرماتے۔ جانے کیوں سیرت کا اتنا اہم پیغام ہمارے مدرسوں سے نکال دیا گیا۔ امریکہ اور یورپ نے کونسلنگ کو اپنا لیا، اور آج ان کے پاس اِس سبجیکٹ کی اتنی اہمیت ہے کہ جس طرح معمولی بخار زکام کے لئے بھی لوگ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اسی طرح کسی سے تعلقات بھی خراب ہونے لگیں تو پہلے وہ لوگ کونسلر کے پاس جاتے ہیں۔

ہم نے قسط۔1 میں شادی سے پہلے کونسلنگ کرنے کی اہمیت اور طریقہ بیان کیا، آج ہم شادی کے بعد کی کونسلنگ کرنے کے بار ے میں بتائیں گے۔ اس کے لئے نہ ڈگری درکار ہے اور نہ ڈپلوما۔ اس کے لئے کامن سینس، بولنے کی صلاحیت اور رسول اللہ اور صحابہؓ  کی ازدواجی زندگیوں کا مطالعہ درکار ہے۔ لیکن ایک اہم شرط یہ ہے کہ کونسلر کا سینہ ہر میاں بیوی کے رازوں کا قبرستان بن جائے، یعنی وہ کبھی کسی سے حتیٰ کہ اپنی بیوی سے  بھی کسی کے بارے میں کچھ نہ بتائے۔ ایسا کونسلر جو کسی کی زندگی جوڑنے میں کامیاب تو ہوجاتا ہے لیکن اپنی جیت کی خوشی فوری بیوی یا کسی اور سے شیئر کرتے ہوئے، لوگوں کی باتیں بیان کردیتا ہے، وہ دوبارہ لوگوں کی زندگی میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔ کونسلنگ کی ہر خاندان میں ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ 60+ عمر کے ہوتے ہیں، وہ اس کام کے لئے بے انتہا آئیڈیل ہوتے ہیں، بالخصوص خواتین کو اگر ہم اس کے لئے تربیت دیں تو وہ بہت شاندار کام کرسکتی ہیں۔ پھر اس کے بعد لوگوں کو نہ پولیس یا کورٹ جانے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ خاندانوں میں ٹنشن پیدا ہوتے ہیں، ورنہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا کتنے لوگوں کا ذہنی سکون چھین لیتا ہے، ہر شخص اس سے واقف ہے۔سوشیوریفارمس سوسائٹی ان افراد کو تربیت فراہم کرسکتی ہے جو کونسلنگ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

کونسلر کی ذمہ داریاں:

۱۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت کا پُل بنائے رکھنا۔ کیونکہ اختلاف جب تک اختلاف ہے، ختم کرنا آسان ہے۔ جب اختلافات ضِد بن جائیں تو سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انا Ego کی دیوار اتنی اونچی ہوجاتی ہے کہ سب اِس سے سر ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہوتے رہتے ہیں۔ بات چیت بند ہوجاتی ہے، لوگ اب ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھالیتے ہیں۔انہیں اپنے حق پر ہونے کا انہیں اتنا یقین ہوجاتا ہے کہ اب کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ لوگوں کے  فیملی ڈاکٹر یا فیملی وکیل بلکہ امیر خاندانوں میں فیملی CA بھی لازمی ہوتے ہیں، لیکن فیملی کونسلر ہرگز نہیں ہوتے، اسی لئے اکثر جھگڑوں کو لوگ پولیس، وکیل، پہلوان، مولوی صاحب یا قاضی صاحب یا پھر عاملوں کے پاس لے جانے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور ایک بار جو ان لوگوں کی دہلیز چڑھ جائے، وہاں سے سب کچھ لٹا کر ہی واپس لوٹتا ہے، اور نتیجے میں رشتے بنتے نہیں، بلکہ ٹوٹ کر مزید نفرتیں، زندگی بھر کی کوفت اور یادوں کے زخم پر ختم ہوتے ہیں۔یہ واقعات ہر امیر غریب، دیندار یا کم دیندار، کسی بھی مسلک یا جماعت کے ذمہ داروں کے بھی گھروں میں آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔  اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی کونسلر سے ضرور رابطہ رکھیں۔ کونسلر کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان Communication کو ختم ہونے نہ دے۔

دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ میں اپنے رویّہ میں تبدیلی لانے کی خواہش پیدا کرنا۔یہ تو طئے ہے کہ جب تک میاں بیوی اور دونوں کے لوگ جب تک اپنے اپنے رویّہ میں تبدیلی پیدا نہیں کرینگے، جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے۔

تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح ڈائگنائز کریں کہ اصل بیماری کیا ہے۔ مارپیٹ، منہ پھلالینا، زبان چلادینا وغیرہ وغیرہ تو کسی اور بیماری کی علامتیں Syptoms  ہوتے ہیں جیسے ایک دوسرے پر شک، شوہروں کا فضول دوستوں میں وقت برباد کرنا، عورتوں کا فلم، ٹی وی، موبائیل یا شاپنگ میں  وقت برباد کرنا، شوہروں کا اپنے کام کو زیادہ اہم سمجھنا، حالانکہ ایک ماں کا بچّے کو پالنا اتنا  ہی اہم ہیں جتنی اہم شوہر کی نوکری ہے لیکن اکثر شوہر اپنے کام کو اتنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور بیوی کو وقت ہی نہیں دیتے، ان کو عورتوں کی باتیں فالتو نظر آتی ہیں، بعض میاں اور بیوی کو بہت جھوٹ بولنے کی یابہت زیادہ  چغلیاں کرنے کی عادت ہوتی ہے،  بعض میاں یا بیوی کی کمزوری یہ ہوتی ہے اگر کسی کی غلطی سے چمچہ یا پلیٹ بھی گِر جائے تو بحث شروع کردیتے ہیں کہ کیا ہوا، کسی کی غلطی سے ہوا، وغیرہ۔ جب تک وہ ایک دوسرے پر الزام نہ دے لیں اور ثابت کرنے کے لئے بحث حجّت اور تکرار نہ کرلیں۔ کسی گھر میں ہر وقت ایک دوسرے کو دوسروں کی مثال دے کر چھوٹا کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہروں کی بری عادتوں جیسے شراب، چرس، سگریٹ وغیرہ پر مسلسل جھگڑے ہیں، اس کے علاوہ ایک اور بیماری ہوتی ہے جسے اضطراب یا Impulsivity کہتے ہیں۔ جیسے عورت کا کنفیوزڈ یا ڈبل مائنڈیڈ ہونا، غصہ کے وقت مرد خاموش رہنا چاہتا ہے اورعورت بحث کرنا چاہتی ہے عورت ایک مکمل مرد چاہتی ہے جس پر دوسروں کا قبضہ یا اختیار نہ ہو، اسی طرح ماں بھی ایک مکمل بیٹا چاہتی ہے، بہنیں مکمل بھائی چاہتی ہیں جس پر بہو کا قبضہ نہ ہو۔ ان تمام کی فطرت کی وجہ سے مرد بے چارہ سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے، مرد کے مزاج میں آرڈر دینا ہوتا ہے، دونوں تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ مر دکھانے کے دستر یا عورت کے میک اپ کا انتظار برداشت نہیں کرتا۔ ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھگڑے میں محض سمجھانے منانے سے کام نہیں چلتا بلکہ یہ ذہنی امراض Mental Diseases  ہوتے ہیں۔ کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو کسی اسپیشلسٹ سے رجوع کروائے جیسے، سیکس کونسلنگ، ڈپریشن تھراپی، اسٹریس ٹریٹمنٹ، اینگر مینجمنٹ، Behavoioral Therapy یا پھر Mental Counseling۔

میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟

۱۔ سسرالیوں کی دخل اندازی: جوائنٹ فیملی میں جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت نیوکلیر فیملی کے۔ اسلام نے جوائنٹ فیملی کو ناپسند کیا ہے۔ یہاں تک شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر بیوی الگ سے چہار دیواری چاہتی ہے تو مرد اس کا انتظام کرے۔ اگر ابّاجان نے کئی بچے پیدا کئے ہیں، تو وہ ان کی پرورش کے ذمہ دار ہیں بیٹوں اور بہوؤں پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ کہیں لڑکا بیوی کی شکایتیں اپنی امی جان سے اور لڑکی اپنی امی جان سے سنانے لگتے ہیں، پھر دونوں امی جانیں مل کر لڑکے لڑکی کی زندگی میں دخل اندازی شروع کردیتی ہیں۔۔ کہیں نندیں، بھاوج کو ملی آزادی سے جلس کا شکار ہوجاتی ہیں۔کہیں سالیاں مشکلات کھڑی کردیتی ہیں۔ کئی طلاق کے جھگڑے تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ کہیں لڑکے کے والدین نے غصے میں بیٹے کو جذباتی بلیک میل کیا اور طلاق کہلوادی، اور کہیں لڑکی کے ماں باپ نے اپنی انا کی وجہ سے لڑکی کو گھر بٹھوالیا۔ لڑکیوں کی ساسوں کے ساتھ اگر ظلم ہوا تھا تو اب وہ بدلہ لیتی ہیں تو اپنی بہوؤں سے۔ ہماری سوسائٹی کی سوچ بہت گھٹیا ہے جیسے ”ہمارا بیٹا بہت اچھا ہے، اس کی بیوی کمینی ہے“۔ ”ہمارا داماد بہت اچھا ہے لیکن اس کی ماں اور بہنیں بہت غلط ہیں“۔ ”ہمارے لڑکے کی ساری کمائی اس کے سسرال والے لوٹ رہےہیں“۔ بیٹی بیمار ہوجائے اور داماد اس کا علاج کروائے تو بہت ہی شریف داماد ہے۔ اگر بہو بیمار ہوجائے اور بیٹا اس کی دیکھ بھال کرے تو بہو ایکٹنگ کررہی ہے اور شوہر کو غلام بناکر رکھی ہے۔ کونسلر یہ سمجھائے کہ یہ سارے مسائل جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داری کم نبھاتا ہے اور دوسروں پر الزامات زیادہ لگاتا ہے۔

۲۔ جہیز: میاں بیوی کے جھگڑوں میں لڑکی والوں نے کتنا خرچ کیا، اس پر بہت زیادہ فساد ہوتے ہیں۔ لڑکی جس گھر میں بیاہ کر جاتی ہے اگر وہاں اس کی جٹھانی کی شادی چالیس لاکھ کی ہوئی تھی اور نند کی شادی پچیس لاکھ کی ہوئی تھی لیکن اس لڑکی کی شادی صرف پانچ دس لاکھ کی تھی تو اس لڑکی کے ساتھ نچلا برتاو شروع ہوجاتا ہے۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ لڑکیوں کو ان کے برابر کے لڑکے اس لئے نہیں ملتے کہ ان کے برابر والے لڑکوں کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لڑکی کا باپ جس لڑکے کو Afford کرسکتا ہے، بے چاری کو اس آدمی کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ جہیز کی وجہ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں Matching یا کفو باقی نہیں رہتا۔ لڑکی کبھی نہ اس گھر سے محبت کرسکتی ہے اور نہ اس گھر کے بڑوں کو عزت دے سکتی ہے جس گھر کی وجہ سے لڑکی کے والد کو اپنا گھر فروخت کرنا پڑے، یا سود پر قرض لینا پڑے۔ اگر لڑکی والوں کو جہیز، کھانے، ہُنڈے اور منگنی پر خرچ کرنا پڑے تو یہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ ہمارے ہاں لڑکے والے شادی چاہتے ہیں ہندو رسم و رواج پر، لیکن طلاق چاہتے ہیں اسلام کے طریقے پر، یہ منافقت ہے۔ اگر کوئی لڑکی کا باپ لاکھوں خرچ کررہا ہے تو وہ اس لئے نہیں کررہا ہے کہ اس کی بیٹی جاکر ساس سسر، نندوں اور دیوروں کی نوکرانی بن کر رہے گی۔ جہیز لینے والوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ مال لانے والی کی عزت بھی کریں اور خدمت بھی۔کیونکہ اکثر گھروں میں خود خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی، اب بہو کے لائے ہوئے فرنیچر، فریج، ٹی وی، کار، اور گھر پر سارے عیش کرتے ہیں، اور اسی کو برا کہتے ہیں۔ کئی لوگ پہلے چاند پری  یعنی V. V. Fair لڑکی ڈھونڈھتے ہیں۔ بہت تعلیم یافتہ ہو، بڑے خاندان کی ہو وغیرہ۔ لیکن جب یہ چیزیں نہیں ہوتیں لیکن ان کی جگہ پانچ دس لاکھ زیادہ کا جہیز ہو تو پھر اسی پر خوشی خوشی راضی ہوجاتے ہیں۔ ساس اور نندیں اپنی مرضی سے ہی یہ سب طئے کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد اسی لڑکی میں خامیاں تلاش کرنے لگتی ہیں۔ کونسلر یہ سمجھائے کہ کہاں جہیز کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

۳۔ سابقہ عاشقیاں: بے شمار جھگڑے لڑکے یا لڑکی کے سابقہ Affairs کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر کسی ایک کا بھی مزاج عاشقانہ ہو تو یہ لت شادی کے بعد بھی نہیں چھوٹتی۔ موبائیل فونوں نے اس لعنت کو اب اتنا عام کردیا ہے کہ کوئی لڑکا یا کوئی لڑکی اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس طرح امریکہ اور یورپ میں کوئی بھی ڈیٹنگ یا شادی سے پہلے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ پہلے آپ کے کون کون یار تھے، کس سے کس حد تک تعلق تھا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ان کے کلچر میں جوان ہونے کے بعد ان تمام چیزوں کی ان کا کلچر خود خوشی سے اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح اب ہمارے ہاں بھی وہ ماحول بن چکا ہے کہ ہرلڑکی اور ہر لڑکا کسی نہ کسی کو ضرور پسند کرتے ہیں، ہائے ہیلو یا چیاٹنگ کی حد تک، یا اس سے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہاں ایسے گھرانے ضرور ہیں جہاں کے لڑکے لڑکیاں انتہائی پاک باز ہیں، لیکن ان کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں لڑکے سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک نہیں کئی لڑکیوں سے عاشقی اور عیاشی کا حق ہے لیکن انہیں کوئی ایسی پاک حور ملے  جس پر کبھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑی ہو۔ لڑکیاں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کا ماضی جیسا بھی رہا ہو، لیکن انہیں ایسا مرد ملے جو اسمارٹ بھی ہو، خرچ کرنے والا بھی ہو اور فرشتہ ہو۔ یہ ناممکن ہے۔ اگرچہ کہ کئی جھگڑوں میں لڑکے یا لڑکی کو صرف شک رہتا ہے کہ ان کا شریکِ حیات کسی اور کے ساتھ Involve ہے لیکن کئی جھگڑوں میں یہ سچ بھی ہوتا ہے۔ جہاں لڑکا یا لڑکی اپنے فون یا ای میل ایک دوسرے سے چھپاتے ہیں، وہاں یہ شک اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کونسلر کی ایسے واقعات میں بہت زیادہ ذمہ داری ہے کہ محض سمجھا منا کر بات ٹالنے کی کوشش نہ کرے، حقیقت معلوم کرے۔ اور اصل واقعات کو جاننے کے بعد ہی انہیں سمجھائے کہ جو ماضی تھا اسے بھول کر ایک نئی زندگی شروع کریں۔ اگر رازوں پر پردہ پڑا رہا تو یہ راز ایک کینسر کی طرح بار بار دوبارہ لوٹ کر آئے گا۔

۴۔ ماں باپ کا اثر:  ہر لڑکے اور لڑکی کے رویّہ میں اپنے اپنے ماں باپ کا بیک گراؤنڈ بہت گہرے اثرات چھوڑ تا ہے۔ جس گھر میں بیوی نے اپنی شادی کے فوری بعد اپنے شوہر کو اپنے ماں باپ سے الگ کروالیا، اس گھر کی پلی بڑھی لڑکی کا شوہر کے ساتھ رویّہ مختلف ہوتا ہے اور وہ لڑکی جس کی ماں نے ایک سسرال میں رہ کر زندگی گزاری، اس  کارویّہ مختلف ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ میں ہر وقت لڑائیاں ہوتی رہی ہیں تو ان کے بچوں کا اپنی بیوی یا شوہر کے ساتھ رویّہ مختلف ہوتا ہے، اور اس گھر کے بچوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے جس گھر میں ماں باپ بہت پیار سے رہتے تھے۔ کونسلر کسی بھی جھگڑے کو سلجھانے سے پہلے مرد اور عورت دونوں کے ماں باپ کا بیک گراؤنڈ ضرور جان لے۔

بہتر رومانٹک شادی شدہ زندگی گزارنے کے طریقے: Tips

۱۔ ہر جھگڑا کمرے کے اندر ہو باہر نہ آئے۔ایک دوسرے سے جو بھی شکایت ہو، وہ کمرے کے اندر حل ہونی چاہئے۔ جب لڑکایا لڑکی یہ باتیں اپنی امّی جانوں کے سامنے لاتے ہیں تو پھر ان کے جھگڑے کبھی حل نہیں ہوتے۔ اگر وہ بھولنے کی کوشش بھی کریں تو لوگ یاد دلادیتے ہیں۔

۲۔ گھروں میں دینی تعلیم: کم سے کم دن میں ایک مرتبہ کسی نماز کے بعد یا دسترخوان پر کچھ دیر قرآن اور حدیث کا کچھ نہ کچھ پڑھنے اور سننے کا سلسلہ ہو تو رفتہ رفتہ یہ گھر کے ہر فرد کے کردار کی  تعمیر میں بہت مددگار ہوتا ہے۔

۳۔ عورت کو کمتر اور نوکرانی سمجھنے کی صدیوں پرانی روِش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج کی عورت مرد سے کم نہیں بلکہ ذہانت میں، تعلیم میں، صلاحیتوں میں اور کمائی میں مرد سے زیادہ کامیاب رہتی  ہے۔ ہمارے پرانے لٹریچر میں لکھا گیا کہ عورت ناقص العقل، ساقط الاعتبار ہوتی ہے، یہ عورت کا انتہائی غلط امیج ہے جو ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے، اس میں برہمنانہ سوچ پوشیدہ ہے۔ عورت کے ساتھ ایسا سلوک کیجئے جیسا سلوک آپ چاہیں گے کہ کوئی اور مرد آپ کی بیٹی یا بہن کے ساتھ کرے۔

۴۔ احسان مت جتایئے: اگر آپ نے بغیر جہیز کے شادی کی ہے، یا کسی غریب گھرانے سے کی ہے، تو آپ یہ احسان جتا کر اس کی عزتِ نفس کو ٹھیس مت پہنچایئے۔ شادی آپ نے کی تھی، اس نے زبردستی نہیں کی تھی۔ احسان جتانا ایک کم ظرفی ہے، اگر عورت پر اس طرح کا احسان جتا کر اس کو ذلیل کرینگے تو وہ بھی کم ظرفی کا جواب کم ظرفی ہی سے دے گی۔

اس کے علاوہ ایسی کئی باتیں ہیں جو کونسلنگ کے سلسلے میں آپ کی مددگار ہوسکتی ہیں۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی ان لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتی ہے جو کونسلنگ میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں۔ دینی طورپر، اخلاقی اور سماجی طور پر یہ کام بہت عظیم کام ہے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721



جمعرات، 5 نومبر، 2020

کونسلنگ سیکھنا۔ وقت کی اہم ترین ضرورت قسط۔1 : شادی سے پہلے کی کونسلنگ


سنا ہے مہنگی چیزیں پائدار ہوتی ہیں، لیکن شادیاں اِس دور میں اتنی مہنگی ہونے کے باوجود پائدار کیوں نہیں؟امریکہ اور یورپ میں طلاق اور علہدگی کا تناسب 50-70% تک ہے جبکہ ہمارے ہاں بمشکل 1.3% ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ہاں شادی کے بعد کشیدہ تعلقات یورپ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ہمارے ہاں ہر تیسری شادی جھگڑوں، مارپیٹ،طلاق کی دھمکیوں یا پھر پولیس اسٹیشن، کورٹ، قاضی یا پھر پہلوانوں اور عاملوں کے دفتروں تک پہنچنے لگی ہیں۔ اس کے وجوہات کئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے ہاں کونسلنگ کا رواج نہیں۔ کہیں زمین خریدنے سے پہلے یا پیسہ کسی کاروبار میں انویسٹ کرنے سے پہلے ہم کئی ایکسپرٹس سے مشورہ کرتے ہیں لیکن زندگی جیسی اہم ترین چیزجو بدقسمتی سے صرف ایک بار ملتی ہے، وہ کسی کے حوالے کرنے سے پہلے کسی پروفیشنل سے مشورہ نہیں کرتے۔ اس مشورہ کو کونسلنگ کہتے ہیں۔ یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ہوتی ہے شادی سے پہلے جس کو Pre-Marriage کونسلنگ کہتے ہیں۔ دوسری Post-marriae کونسلنگ جو شادی کے بعد اگر کوئی اختلافات پیدا ہوجائیں تو کی جاتی ہے۔ کونسلنگ اتنی ہی اہم ہے جیسے کسی بیمارکا ڈاکٹر سے رجوع کرنا اہم ہے۔ اس مضمون میں ہم شادی سے پہلے کی کونسلنگ کی اہمیت اور طریقہ کار پر روشنی ڈالیں گے اور قسط۔2 میں شادی کے بعد کی کونسلنگ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔ 

شادی سے پہلے کونسلنگ کی مثال ہائی وے کے ان Road signs کی طرح ہے جوبتاتے ہیں کہ کہاں خطرناک موڑآرہا ہے اور کہاں اسپیڈ بریکر۔ جو ڈرائیور ان سائنوں کو نظرانداز کرتا ہے، سب کو معلوم ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہ کونسلنگ کرنے کے لئے کسی ڈگری یا ڈپلوما کی ضرورت نہیں۔ ہر وہ شخص جس میں بولنے کی اچھی صلاحیت ہو، رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ  کی ازوواجی زندگی کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ نفسیات کا بھی مطالعہ رکھتا ہو، وہ یہ کام کرسکتا ہے۔ 60+ عمر کے لوگ اگر اس پر تھوڑی سی محنت کریں تو ان کے خاندان بلکہ محلّہ کے لوگوں کے ازدواجی مسائل بہت خوش اسلوبی سے سلجھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے اگر کوئی تیار ہو تو سوشیوریفارمس سوسائٹی ان کو ٹریننگ فراہم کرسکتی ہے۔ یہ کام امر بالمعروف نہی عن المنکر کے فرائض میں ایک اہم فریضہ ہے۔ نکاح بقول حدیث مبارک آدھے ایمان کی تکمیل ہے۔ اس نکاح کو بابرکت بنانا، گھریلو زندگی کو خوشحال بنانے میں مدد کرنا ایک عظیم خدمت ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ”الدین نصیحہ“، یعنی دین نصیحت کا نام ہے۔ کونسلنگ ایک بہترین نصیحت ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے خاندان یا محلّہ کا کوئی کیس پولیس یا کورٹ یا قاضیوں یا پہلوانوں کے پاس جائے یہ آپ کے لئے باعثِ شرم ہے۔

کونسلر کی ذمہ داریاں:

یہ بات یاد رہے کہ مارکیٹ میں بے شمار کونسلر ہیں جو شادی سے پہلے یا شادی کے بعد کی کونسلنگ کے ماہر ہیں۔ خوب فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ لیکن وہ اسلامی احکامات سے واقف نہیں ہوتے۔ اس وقت صحیح اسلامی کونسلنگ کرنے والے کونسلرز کی بہت کمی ہے۔ اگر قارئین کوشش کریں تو یہ صلاحیت پیدا کرنا ناممکن نہیں ہے۔ 

شادی سے پہلے لوگ بات چیت ضرور کرتے ہیں لیکن وہ باتیں طئے کرتے ہیں جن کی دنیا والوں کی نظر میں بہت اہمیت ہے لیکن شریعت کی نظر میں اہم نہیں ہیں۔ جیسے مختلف رسومات، مہمانوں کی تعداد، ضیافت، جہیز اور ہُنڈے یا جوڑے کی رقم وغیرہ۔ وہ باتیں جو شادی کے بعد بستر کا کانٹا بن جاتی ہیں ان چیزوں پرلوگ بات چیت کے وقت طئے ہی نہیں کرتے۔  اور ایک دوسرے کے کامن سینس پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یا تو مروّت کی وجہ سے نہیں پوچھتے، یا جھجھک Hestitation یا پھر خوش فہمیاں ہوتی ہیں کہ سامنے والے سمجھدار لگ رہے ہیں، ہر چیز کا خیال رکھیں گے، لیکن بعد میں جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو تعلقات میں ناگواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کونسلر کا کام یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کاآئینہ بنادے، یعنی دونوں کسی بھی قسم کی مروّت یا جھجھک کے بغیر دل کی بات کھل کر ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیں۔ 

وہ سوالات جو لڑکا لڑکی اور دونوں کے خاندانوں کے ساتھ کونسلنگ میں پوچھے جانے ضروری ہیں: 

۱۔ مسلک یا مذہب، پردہ، داڑھی وغیرہ: اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ دونوں کے نزدیک مسلک یا مذہب کے معاملے میں کوئی سختی یا شدّت پسندی تو  نہیں پائی جاتی۔ اگر ایک بھی پارٹی میں عقائد یا عبادات وغیرہ کے معاملے میں Sensitivity پائی جائے تو کونسلر کو چاہئے کہ دونوں پارٹیوں کو کھل کر اپنا اپنا موقف بیان کرنے دے۔ ہوسکتا ہے ایک پارٹی فاتحہ، پیری مریدی کی قائل ہو اور دوسری بالکل نہیں۔ ایک پارٹی شادی کے بعد لڑکی کو پردہ کروانے کی قائل ہو، دوسری پارٹی پردے کی قائل نہیں، ایسے مسائل ہرعلاقے میں الگ الگ ہیں۔ان بنیادوں پر ہم نے کئی خاندانوں میں سخت اختلافات پیدا ہوتے دیکھے ہیں۔ کونسلر کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح یا غلط کا درس دینا شروع کردے۔ وہ صرف یہ کام کرے کہ دونوں فریقوں کو کسی ایک کے موقف پر اتفاق کرنے پر زور دے۔

۲۔ بیماریاں، غلط عادتیں: اکثر لوگ لڑکا یا لڑکی میں کوئی بیماری ہو، ذہنی طور پر کوئی مسئلہ ہو تو چھپاتے ہیں اور یہی توقع کرتے ہیں کہ شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔ کئی لوگ بیٹا یابیٹی کی غلط عادتوں، غلط صحبتوں کو چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے بعد برے نتائج سامنے آتے ہیں۔

۳۔ اگر لڑکا یا لڑکی طلاق یافتہ ہوں تو طلاق کس وجہ سے ہوا، وہ سچ سچ بیان کرنا ضروری ہے۔ اس میں غلط بیانی ہو تو یہ دھوکہ دہی ہے۔ کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اطمینان حاصل کرلے کہ جو کچھ کہا گیا وہ سچ ہے، کیونکہ طلاق کے قصوں میں سچ بہت کم لوگ بولتے ہیں۔ 

۴۔ لڑکا اگر NRI ہو تو شادی کے بعد لڑکی کہاں رہے گی، یہ پہلے سے ہی طئے ہوجائے تو بعد میں مسائل پیدا نہیں ہوتے، ورنہ اس بنیاد پر کئی جھگڑے ہوتے ہیں۔

۵۔ وراثت: اس چیز کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں۔ اسلام میں وراثت کی تقسیم کے احکام بہت سخت ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ جس آدمی نے وراثت کی صحیح تقسیم نہیں کی، اللہ تعالیٰ قیامت میں خود اس کے خلاف مقدمہ لڑے گا۔ یہ معاملہ قیامت میں سب سے پہلے پوچھے جانے والے معاملات میں سے ایک ہے۔ کونسلر یہ پوچھے کہ جو کچھ شادی پر خرچ کیا جائے گا، کہیں بعد میں وہ خرچ لڑکی کی وراثت میں سے تو کم نہیں کردیا جائیگا۔ لوگ سینکڑوں کی کھانے کی دعوت پر یا جہیز پر محض اپنی شان کی خاطر لٹا دیتے ہیں، اس میں لڑکی کی اپنی خواہش نہیں ہوتی۔ بعد میں لڑکی کے بھائی لڑکی کی وراثت میں ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ لڑکی سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اس بات پر تیار ہے کہ جو کچھ اس کی شادی پر خرچ ہوگا وہ اس کی وراثت کے حق میں کاٹا جائیگا۔ اگر لڑکی راضی نہ ہو تو شادی سنّت کے مطابق سیدھی سادھی کی جائے، ورنہ لڑکی کے بھائیوں کے ساتھ بہت سخت ناانصافی ہوگی۔ یہ بھائیوں پر ظلم ہے کہ شادی پر لاکھوں لٹانے کے بعد پھر بہن وراثت میں سے بھی حصہ مانگنے آتی ہے۔ 

۶۔ جہیز اور کھانے: اکثر لڑکے والے شان سے کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں مانگا، لڑکی والوں نے زبردستی دیا، یا خوشی سے دیا۔ یہ ایک جھوٹ ہے۔ لڑکے والوں کا یہ کہنا ایک سوشیل بلیک میل ہے۔ کونسلر یہ راست پوچھے کہ کیا واقعی وہ جہیز لینے کو ناجائز سمجھتے ہیں، یا ایکٹنگ کررہے ہیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائیگا، دل میں چھپی ہوئی بیماری سامنے آجائیگی۔ 

۷۔کفو یا کفاء ت   Equality, Compatibility:  فی زمانہ اس سوال کی اہمیت بالکل ختم کردی گئی، حالانکہ اسلام میں لڑکی اور لڑکے میں کفاء ت دیکھنا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری کتاب ”مرد بھی بکتے ہیں۔۔ جہیز کے لئے“ میں ایک مکمل باب موجود ہے، آپ چاہیں تو الگ سے منگواسکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ یہ دیکھے کہ دونوں کلمہ، شریعت کی پابندی، اخلاق و کردار، قبیلے یا خاندان،ایجوکیشن،  زبان، کلچر، رکھرکھاو میں ایک دوسرے کے کفو ہیں یا نہیں۔ ورنہ دونوں میں جو ذہنی طور پر فاصلے پیدا ہوں گے، ایک دوسرے پر برتری یا کمتری کا احساس پیدا ہوگا، اس سے ازدواجی زندگی میں بہت ساری ناگواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کئی فقہا کے نزدیک کلمہ کے بعد مال میں کفو دیکھا جائے۔ اس دور میں اس کا Application جہیز پر ہوتا ہے۔ اگر لڑکے والے جہیز اور کھانا مانگ رہے ہیں، یا انہیں سماجی مجبوری کی وجہ سے دینا پڑرہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مال میں لڑکی کے کفو نہیں ہے۔ یہ قرآن کے اس حکم کے خلاف ہیں کہ ”الرجال قوامون علی النساء۔۔۔ بما انفقوا من اموالھم“ سورہ نساء آیت 34۔ یعنی مرد عورت پر فضیلت اس لئے رکھتا ہے کہ وہ اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتا ہے۔ لیکن اگر پلنگ، فرنیچر، دعوت، فلیٹ، کار، بائیک وغیرہ کے لئے عورت کو خرچ کرنا پڑے تو وہ عورت کا کفو نہیں ہوسکتا۔  جہیز نے اس دور میں کفو کے احکامات کوتباہ کردیا ہے۔ لڑکیوں کی مجبوری یہ ہو تی ہے کہ وہ اپنے کفو سے شادی نہیں کرسکتیں کیونکہ عام طور پر اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو اسی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جس کی قیمت لڑکیوں کے والد کے لئے ادا کرنا ممکن ہو۔ کفو کی اہمیت واضح کرنے کے لئے کئی احادیث موجود ہیں۔ یہاں حضرت عمرؓ کا ایک قول ہی کافی ہے کہ ”میں کسی بھی شریف خاندان کی لڑکی کا نکاح کسی بھی غیرکفو میں کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا“۔ اس جہیز کی لعنت نے تو لڑکیوں کو غیرمسلموں سے بھی شادی کے لئے مجبور کردیا ہے۔ 

وہ سوالات جو لڑکا لڑکی سے راست کونسلنگ میں پوچھے جانے ضروری ہیں:

۱۔ کونسلر دونوں سے یہ یقین حاصل کرے کہ دونوں شادی واقعی اپنی خوشی سے کررہے ہیں، کسی کی کوئی زبردستی یا مجبوری نہیں ہے۔ اس دور میں سب سے زیادہ جھگڑے انہی بنیادوں پر ہیں کہ لڑکا یا لڑکی کسی اور سے محبت میں گرفتار ہیں لیکن ماں باپ اس کے مخالف ہیں،لڑکا یا لڑکی مجبوری میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں، لیکن شادی کی رات سے ہی مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔

۲۔ جہیز: لڑکے کے والدین اپنے ارمان بلکہ بھیک وصول کرنے کی آرزو میں لڑکے کی خواہش کا بہانہ کرتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ لڑکے کی خواہش ہے کہ اسے بائیک، کار، وغیرہ وغیرہ دیئے جائیں۔ جو ناجائز ہیں۔ کونسلر راست پوچھے کہ کیا واقعی وہ جہیز لینا چاہتا ہے؟ کیونکہ جتنے نوجوان ہیں ان کی اکثریت جہیز اور کھانے لینے کی مخالف ہے، لیکن ماں باپ کی ضد کی وجہ سے مجبور ہیں، انہیں بالکل پتہ نہیں کہ جہاں ماں باپ کی فرمانبرداری ان پر فرض ہے، جہیز جیسے معاملات میں جہاں ماں باپ انہیں شرک یا منکر پر مجبور کررہے ہیں، وہاں ماں باپ کی نافرمانی بھی ان پر فرض ہے۔ 

۳۔ کونسلر لڑکی سے پوچھ لے کہ جو جہیز دیا جارہا ہے یا منگنی اور شادی میں کھانا کھلایا جارہا ہے، کیا وہ واقعی خوشی سے دیا جارہا ہے؟ کیونکہ علما کی اکثریت اس ناجائز کو اس بنیاد پر جائز کرتی ہے کہ اگر خوشی سے خرچ کیا جائے تو جائز ہے۔ لڑکی بتادے گی کہ خوشی سے دیا جارہا ہے یا گھر فروخت کرکے یا سود پر پیسہ لا کر، یا بھائیوں کو کنگال کرکے مجبوری سے دیا جارہا ہے۔ کونسلر دونوں کو سمجھائے کہ اگر نکاح جیسے پاک رشتے کی بنیاد ایک حرام کام پر کھڑی ہو، اور ایسے نکاح سے جو نسل پیدا ہو، اس کا انجام کیا ہوگا، اس سے معاشرے کوکتنا نقصان پہنچے گا۔دونوں میں اس لعنت کے خلاف لڑنے کی ہمت پیدا کرنا کونسلر کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ ایسے کونسلر دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ 

۴۔ سابقہ محبتیں یا Affairs: یا تو لڑکا لڑکی صاف صاف بتادیں کہ اگر ماضی میں ان کا نام کسی سے جڑا تھا۔ یا پھر دونوں یہ پہلے ہی دن عہد کرلیں کہ وہ ایک دوسرے کو سچے دل سے چاہیں گے لیکن ماضی کی کوئی بات نہیں چھیڑیں گے۔ اس دور میں ہر لڑکے اور لڑکی کے فون میں غیرمحرم لڑکے یا لڑکیوں کے نمبر ضرور ہوتے ہیں جن سے وہ ہائے ہیلو یا اس سے بھی آگے بہت کچھ کرتے ہیں۔ لڑکوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جن لڑکیوں سے دوستی کو وہ فخر سے اپنے دوستوں میں بیان کرتے پھرتے ہیں، وہ لڑکیاں بہرحال کسی نہ کسی کی تو بیویاں بنتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی عاشقی میں گرفتارلڑکیاں تو دوسروں کی بیویاں بنیں اور ان کے نصیب میں بس ایسی حور آئے جو مکمل پاک، کنواری اور اللہ سے ڈرنے والی ہو، یہ ممکن نہیں۔ 

۵۔ لڑکی اگر نوکری کرنا چاہے تو لڑکے کا کیا خیال ہے، یہ پہلے ہی طئے ہونا چاہئے۔ یہ بھی طئے ہونا لازمی ہے کہ تنخواہ پر کس کا حق ہوگا؟

۶۔ لڑکی جوائنٹ فیملی سسٹم میں خوشی سے رہنے کے لئے تیار ہے  یا محض مجبوری کی وجہ سے؟ (جوائنٹ فیملی کیوں اسلام میں ناپسندیدہ ہے،  اس کے نقصانات کیا کیا ہے، ایسی فیملی میں کس کس طرح کی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، یہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمایئے)۔

۷۔ شادی کے بعد لڑکی کو شوہر کی جانب سے نان نفقہ پاکٹ منی کے طور پر ڈائرکٹ ملے گا، یا شوہر یہ کہے گا کہ جو بھی چاہئے میری امی سے لے لو؟

اہم TIPS: 

۱۔ عورت کی عزت کرنی لازمی ہے: ہماری نانیوں اور دادیوں کا زمانہ چلا گیا جب نہ عورت کی ایجوکیشن اہم تھی، نہ نوکری اور نہ ان کاکوئی آئیڈیل ہوا کرتا تھا۔ آئیدیل وہی تھا جو ان کے بڑے منتخب کرلیتے۔اسی آدمی کو وہ اپنا سرتاج بنالیتے۔ جہیز یا شاندار دعوتوں کی لعنت دور دور تک نہیں تھی۔ آج   لوگ  یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا چاہے جہیز وصول کرلو، لڑکی آکر نوکرانی کی طرح سب کی خدمت کرے، یہ ناممکن ہے۔ اب لڑکیاں، لڑکوں سے زیادہ ایجوکیٹیڈ ہیں، کمانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، بلکہ ان کو کمانے کے لئے تیار رہنے کے لئے  ہی پڑھایا جاتا ہے۔ اگران کا باپ ان کی شادی پر خرچ کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ لڑکی آکر سسرال کی نوکرانی بن کر رہے۔ شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے والا باپ اپنی بیٹی کے لئے ایک مالک نہیں بلکہ ایک چوکیدار خرید رہا ہے۔اگر آپ ایک واقعی سمجھدار اور خدمت گزار بیوی یا بہو چاہتے ہیں تو یہ جہیز جیسی حرام چیز سے سختی سے پہلے انکار کیجئے۔

۲۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ جہیز کے بغیر شادی کرنے والی لڑکیاں جھگڑالو ہوتی ہیں، احسان نہیں مانتیں۔ یہ غلط ہے۔ آپ جو لوگوں کے سامنے کہتے ہیں کہ ہم  بغیر جہیز کے شادی کئے، غریب لڑکی کو دیکھ کرکئے، دونوں طرف سے کرکے لائے، یہ جملے احسان جتانے والے ہیں، جس سے ہر لڑکی کی انا زخمی ہوتی ہے۔ احسان جتانا ایک کم ظرفی کی علامت ہے، اس لئے ایسی لڑکیاں ہمیشہ کم ظرفی کاجواب کم ظرفی سے دیتی ہیں۔ 

۳۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کی لعنت نے انہیں اس اسٹیج پر لا کھڑا کیا ہے کہ ان کی عمریں شادی کی عمر سے بڑھ جاتی ہیں، شریعت بالغ ہونے کے بعد پہلے نکاح کا حکم دیتی ہے، بعد میں کیریئر۔ جو لوگ اس حکم کو توڑتے ہیں انہیں قدرت کی مار پڑتی ہے اور پھر شادیاں مشکل ہوجاتی ہیں۔

۴۔ کچھ لوگوں کو V.V.Fair یعنی بہت گوری بہو کی تلاش ہوتی ہے۔ اس بے وقوفی کی وجہ سے بھی کئی نقصانات ہوتے ہیں۔ اچھا کردار جتنا گوری لڑکیوں میں ہوسکتا ہے اتنا ہی سانولی یا کالی لڑکیوں میں ہوسکتا ہے۔ جتنا امیر لڑکیوں میں ہوسکتا ہے اتنا ہی غریب لڑکیوں میں ہوتا ہے۔ 

۵۔ لڑکی اور لڑکے کی عمر کے فرق کے بارے میں اکثر لوگ اکثر غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ کونسلنگ کے نقطہ ئ  نظر سے اگر فرق دس سال کا ہو تو 100% خوشحال رومانٹک لائف کا زیادہ امکان ہے۔لوگ چاہتے ہیں کہ فرق کم سے کم ہو۔ ایسی صورت میں  لڑکیاں ایک دو بچے ہونے کے بعد شوہر کی آپا نظر آنے لگتی ہیں، اس کے بعد شوہر،  بیوی میں رومانس نہ پاکر اِدھر اُدھر جھانکنے لگتے ہیں۔ 

اور کئی اہم Tips ہیں لیکن مضمون طویل نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال، شادی سے پہلے کونسلنگ اچھی زندگی کی شروعات کے لئے بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔جتنے لوگ اِسے سیکھنے کی کوشش کرینگے معاشرے کو اتنا زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی اس سلسلے میں بھرپور مدد کرے گی۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721



پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...