اتوار، 24 جنوری، 2021

مہر کو اُدھار رکھنے کا چلن کس نے شروع کیا؟

مہر کی رقم کو اُدھار رکھنے کا رواج  صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ہم نے ہر مسلک کے علما سے دریافت کیا انہوں نے یہی فرمایا کہ مہر کو اُدھار رکھنے کی کوئی مثال سنّت سے نہیں ملتی۔ اگر مہر کو اُدھار رکھنے کی کوئی گنجائش ہوتی تو سب سے پہلے حقدار حضرت علیؓ تھے جن کے حالات کورسول اللہ سے زیادہ بہتر بھلا کون جان سکتے تھے؟ لیکن انہیں بھی جب اپنی قیمتی زِرہ بیچ کر مہر ادا کرنے کا حکم ہوا تو اندازہ لگالیجئے کہ دوسروں کے لئے کیا حکم ہوگا۔

                 مہر کی رقم نقد ہو یا اُدھار، کوئی ایسا بڑا Issue  نہیں ہے کہ اس پر بحث کی جائے۔ جو رقم طئے کی جاتی ہے اس سے نہ مرد کو کوئی بڑا فرق پڑتا ہے اور نہ عورت کو۔ لیکن جب ہر فقہ کی کتاب میں مہر کے ٹاپِک پر کئی کئی صفحات کے احکامات اور بحثیں ملتی ہیں، اور یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کے حقوق یعنی Women's Rights  کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اس لئے قاضی صاحب نکاح کے موقع پر مہر کا   اعلان بھی کرتے ہیں، تو پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مرد جو مال دے رہا ہے، اگرچہ کہ وہ اُدھار ہوتا ہے، اس کا  اعلان  تو ہورہا ہے، لیکن جو مال یا کھانا  عورت سے نقد وصول کیا جاتا ہے، اس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ نکاح کو عقد یعنی Agreement بھی کہتے ہیں۔اصولاً ایگریمنٹ تو دونوں پارٹیوں کے درمیان طئے ہونے والے معاہدے یعنی لین دین کا اعلان کرنا اور دونوں سے دستخط لینے کا نام ہے۔لیکن قاضی صاحب مہر کا اعلان کرتے ہیں، جہیز کا اعلان نہیں کرتے، کیا یہ عقد، عقد کہلانے کا مستحق ہے؟ اس پر علما اور فقہا خاموش کیوں ہیں؟ مہر کی رقم سے کئی گُنا زیادہ لڑکی والوں سے خرچ کروالینا کیا عورت کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ہے؟

اسی طرح کا معاملہ طلاق کا بھی ہے۔یعنی طلاق کے معاملے میں شریعت پر عمل نہ ہو تو بیوی سے رشتہ حرام ہے، لیکن نکاح کے معاملے میں شریعت پر عمل نہ بھی ہو تو رشتہ پاک اور حلال ہے، ایسا کیوں؟  ادھار مہر لیکن نقد جہیز پر سارے دیندار راضی ہیں، قاضی کمارہے ہیں، اورمہمان دعوتیں اڑا کر خوش ہیں۔ اسی کی وجہ سے مہر، نکاح اور طلاق پر جتنے احکامات ہیں وہ سارے یکطرفہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ علما اور فقہا کی خاموشی کی وجہ سے ایک طرف جہیز کا سسٹم کو مضبوط ہوچکا ہے، تو دوسری طرف Patriarchy  کو فروغ ملا ہے جس کی وجہ سے عورت نکاح نامے پر خاموشی سے دستخط کرنے پر مجبور ہے۔

 سوچئے کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ نے مہر کو نقد ادا کرنے پر اتنا زور دیا۔ فرمایا کہ التمس ولو خاتماً من حدید، ڈھونڈھو، چاہے ایک لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ فرمایا کہ چاہے ایک چادر ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ فرمایا کہ یہ بھی نہیں تو قرآن کی کچھ سورتیں یاد دلادو، اور پھر وارننگ دی کہ جو مہر ادا  نہ کرے اور ادا کرنے کی نیت بھی نہ رکھے وہ زانی کی موت مرا۔یعنی وہ  قیامت میں زانیوں میں سے ہی اٹھایا جائیگا۔ آخر مہر کو نقد ہی ادا کرنے پر اتنا زور کیوں ہے، یہ حکم عورت کو اس کا مقام دلانے کے لئے ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کا مقام وہی تھا جو ہندوستان کے مشرک دھرم میں ہے۔ یعنی جانور یا غلام یا لونڈی سے بھی بدتر۔ اس کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ اس کو اپنا حق مانگنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ عورت کا وجود صرف سیکس اور بچے پیدا کرنے  اور گھر کی نوکرانی بن کر رہنے کے لئے سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو آزادی دی، اس کی مرضی کو نکاح کی اصل شرط قرار دے کر اس کو مرد کے برابر ہونے کا احساس دلایا۔ مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرضی یا خوشی کا Token ہوتا ہے۔ عورت کے ہاں کہے بغیر نکاح حلال ہی نہیں ہوتا۔ مہر کی رقم مقرر کرنے کا حق بھی عورت ہی کو دیا گیا۔  جو شخص مہر اور نان نفقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اسے صبر کرنے، گناہوں میں نہ پڑنے  اور روزے رکھنے کی تلقین کی گئی، لیکن اُدھار مہر کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ تھا  مہر کے احکامات کے پیچھے چُھپا ہوا  منشائے شریعت یعنی Ultimate goal۔

لیکن ہندوؤں سے لئے گئے جہیز اور بارات بلکہ کنیادان کے سسٹم نے اس منشائے شریعت کو ہی مکمل ختم کردیا۔  چونکہ مہر کا مقصد یہ تھا کہ عورت کی خوشی یا مرضی حاصل کرنے کے لئے مرد  نقد مہر ادا کرے چاہے علیؓ کی طرح زِرہ جیسی کوئی چیز بیچے، اپنا گھر بیچے، موبائیل، بائیک یا کار بیچے۔ لیکن جب سے جہیز اور بارات کی بدترین بدعتیں نکاح میں شامل ہوگئیں،عورت کی مرضی اور خوشی نکاح کی شرط نہیں رہی، بلکہ مرد کی خوشی نکاح کی شرط بن گئی۔ گویا اسلام نے عورت کو ظلم اور جہالت کے اندھیرے سے نکال کر جو آزادی عطا کی تھی، اب جہیز کے سسٹم نے آکر عورت کو پھر اسی ظلم کے دور میں دھکیل دیا، جہاں وہ پھر سے مرد کے رحم و کرم کی محتاج ہوگئی۔ اب عورت کو اُس کی  صلاحیت، کردار یا مرضی کی بنیاد پرکوئی شوہر نہیں ملتا بلکہ جہیز کی مقدار اور دعوت و ضیافت کے معیارکے مطابق ملتا ہے۔ وہ مرد نقد مہر ادا بھی کرے تو واجب ہونے کا جو اصل منشا تھا وہ تو پورا نہیں ہوا، کیونکہ مہر دینے کا مطلب پہلے یہ تھا کہ اسے کچھ دینا ہے، اس سے کچھ لینا نہیں ہے۔  اب بتلایئے اس جہیز نے پوری شریعت کی اصل منشا کو تباہ کیا ہے یا نہیں؟ علما اور مفتی حضرات صرف مہر اور طلاق پر فتوے دیتے ہیں، منشائے شریعت کو نافذ کرنا ان کے نصاب میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ سے پوری امت پریشان ہے۔ نقد مہر جو پورے معاشرے کی اصلاح اور اِن شادیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی غربت و افلاس کو ختم کرنے کی ضمانت ہے، بے اثر ہوچکا ہے۔

                مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتا، لیکن مرد کی قیمت بہرحال طئے ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی شادی میں ایک لاکھ سے ایک کروڑ تک جو خرچ ہوتے ہیں، وہ مردوں کی ڈِگری، عہدے اور خاندان کی بنیاد پر خرچ ہوتے ہیں۔افسوسناک بات تو یہ ہے کہ لڑکی حافظہ یا عالمہ ہی کیوں نہ ہو، اس کا بھی مہر گیارہ ہزار ہوتا ہے، لیکن جہیز اور بارات پر کم سے کم دو تین لاکھ خرچ ہوتے ہیں۔ اب بتلایئے، کہاں گئے عورت کے حقوق؟ کیا عورت پر یہ ظلم نہیں ہے؟  شریعت بے بس ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شریعت کو بے بس کس نے کیا ہے؟اس کے ذمہ دار وہ علما اور فقہا ہیں جنہوں نے ایسے نکاح کو جس میں جہیز اور بارات وغیرہ شامل ہیں،انہیں جائز کیا ہے۔ حیرت ہے کہ سبھی یہ جانتے ہیں کہ نماز میں کوئی واجب یا فرض جیسے قیام، رکوع یا سجدہ ہیں، اگر یہ ادا نہ ہوں تو نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح مہر جسے قرآن نے واجب کیا ہے، اگر یہ ادا نہ ہو، اگر ادا ہو لیکن یہ دے کر اس سے دس گنا رسم و رواج کے نام پر وصول کرلیا جائے، اور عورت کے حق کو چھینا جائے تو کیا یہ نکاح جائز ہوگا؟

دراصل علما اور فقہا فقہی احکامات کو اصل اسلام قرار دیتے ہیں، اور جہیز کو محض ایک سوشیل پرابلم یا ایک اخلاقی برائی قرار دے کر اس کو فقہی احکامات سے الگ کردیتے ہیں۔ ان احکامات میں پوشیدہ منشائے شریعت کو نافذ کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ کی تدوین جس دور میں ہوئی اس زمانے میں یعنی امام ابو حنیفہؒ، شافعیؒ، امام صادق ؒ یا ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کے زمانے میں نہ عورت سے جہیز یا کھانے لینے کا رواج تھا اور نہ دور دور تک ان کے تصور میں تھا کہ صدیوں بعد ہندوستان میں کروڑوں مسلمان ہوجائینگے، جو دوسرے معاملات میں تو خوب مسلکوں کی جنگیں لڑیں گے لیکن شادی کے معاملے میں بجائے محمد کے طریقوں کو اپنانے کے، رام چندرجی اور سیتا یا شیوا اور پاروتی کے طریقوں کو اپنالیں گے۔ اگر ان ائمہ کرام کے زمانے میں یہ جہیز اور بارات کی لعنتیں ہوتیں، یااگر وہ ائمہ کرام آج زندہ ہوتے تو تمام معاملات کو چھوڑ کر سب سے پہلے و ہ اِس حرام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس لئے ہمارا بنیادی فقہی لٹریچر جہیز سے متعلق احکامات سے خالی ہے۔ اور بعد کے دور میں مدرسوں کا نصاب انہی کے لٹریچر کی بنیاد پر تیار کیا گیابلکہ انہی فتوؤں کو صدیوں سے کاپی پیسٹ کیا جارہا ہے، اور انہی فتوؤں کو مکمل اسلام سمجھ لیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے علما اور فقہا نہ تو جہیز اور بارات پر حرام کا فتویٰ دینے تیار ہیں اور  نہ ایسی شادیوں میں شرکت کرنے کو ناجائز کہنے تیار ہیں، جب کہ یہ سب واضح حرام ہیں۔ (تفصیل کے لئے ہماری ویب سائٹ www.socioreforms.com پرعلما کی ویدیوز اور کتابیں ملاحظہ فرمائیں)۔

دورِ حاضر کے علما اور فقہا کی ایسی کئی  ٖغلطیوں کا اب  ازالہ بھی مشکل ہوچکاہے۔ مثال کے طور پر اسی مہر کے معاملے کو لے لیجئے۔ فقہ ہی کا ایک اصول ہے جس کو قیاس کہتے ہیں جومعاذ بن جبلؓ کی ایک حدیث سے لیا گیا ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی مسئلے کا حل پہلے قرآن میں تلاش کیا جائے گا۔ اگر نہ ملے تو سنّت یا حدیث میں دیکھا جائے،وہاں بھی نہ ملے تو پھر قیاس یا اجتہاد سے کام لیا جائے گا۔ یہ فقہ کا ایک بہترین اصول ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بعض معاملات میں بعد کے علما اور فقہا نے اس اصول کو نظراندازا کردیا۔نقد مہر کے معاملے میں سنّت واضح طور پر موجود تھی، آپ کے گیارہ نکاح، آپ کی صاحبزادیوں کے اور صفِ اول کے صحابہؓ کے نکاح موجود تھے۔ ان زندہ مثالوں کے موجود ہوتے ہوئے، ایک غیرمعروف صحابی ؓ کے ادھار رکھے جانے والے مہر کی روایت کو لے کر ادھار مہر کے قوانین بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب رسول اللہ کا عمل بھی موجود ہے اور حدیثیں بھی موجود ہیں کہ نقد مہر ادا کرو چاہے ایک لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو، تواس کے مقابلے میں کسی اور صحابی کے واقعہ کو رسول اللہ کے حکم کے  متبادل کے طور پر پیش کرنا بالکل غلط تھا، ایک ایسی چیز جس میں قیاس یا اجتہادکی کوئی ضرورت نہیں وہاں قیاس سے ادھار مہر ثابت کرنا اور لوگوں کو چور دروازہ کھول کر دینے کی ہرگز ضرورت ہی نہیں تھی۔

 اسی طرح علما کی اکثریت جہیز، بارات  اور ایسی شادیوں میں شرکت کو بھی مباح قرار دیتی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ائمہ کرام کے زمانے میں ایسی شادیاں ہوتی ہی نہیں تھیں اس لئے ان ائمہ کرام نے ایسی شادیوں کے ضمن میں کوئی فتوے صادر ہی نہیں کئے۔ اس لئے آج کے علما کے پاس سوائے اس کو مباح  قیاس کرنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ مباح تو اس چیز کو کہتے ہیں جو رسول اللہ نے نہیں کیا لیکن منع بھی نہیں کیا۔ جب کہ نکاح تو رسول اللہ نے کئے اور جس طریقے سے کئے وہی طریقہ پوری امت کے لئے ایک سنّت بن گیا۔ اب طریقہ موجود ہوتے ہوئے اس کو مباح کہنا، اور یہ ثابت کرنا کہ رسول اللہ کے طریقے سے ہٹ کر بھی کیا جاسکتا ہے، یہ  قیاس یا اجتہاد کی ایک غلط مثال ہے، اوراصولِ فقہ ہی کی خلاف ورزی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر دیندار آدمی بیٹھ کر پانی پینے کا تو پابند ہے کیونکہ یہ سنّت ہے، لیکن شادی کے معاملے میں اپنے آپ کو سنّت کا پابند نہیں سمجھتا۔ کچھ علما نے ہم سے یہ کہا کہ مہر کو ادھار رکھنے کی اجازت اس حدیث سے لے گئی ہے کہ ”یسّر ولا تعسرو“ یعنی آسانی پیدا کرو، مشکل پیدا مت کرو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب رسول اللہ کا واضح عمل بھی موجود ہے اور حکم بھی، اب علما کا اس حکم سے روگردانی کے لئے جواز ڈھونڈھ کر لانا، سنت کی خلاف ورزی پر اُکساناخود فقہی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، گویا رسول اللہ کو علم نہیں تھا کہ آسانی پیدا کرنا کس کو کہتے ہیں ورنہ وہ حضرت علیؓ کے لئے ضرور آسانی پیدا کرتے۔  علما اور فقہا کی اِس غلطی نے نہ صرف مہر کی اہمیت اور حکمت کو ختم کردیا بلکہ مردوں کو مہر دیئے بغیر جہیز وصول کرنے کے لئے چور دروازے کھول کر دے دیئے۔ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ آج ہوتے تو کیا کسی ایسی شادی میں جاتے جہاں مہر تو ادھار رکھا جارہا ہو، لیکن جہیز، باراتیوں کا کھانا، منگنی، جوڑے کی رقم، شاندار شادی خانے، ہزاروں دعوتیوں کا ہجوم اور بے شمار منکرات کا ارتکاب ہورہا ہو؟

                قرآن میں اگرچہ ادھار رکھنے کا اشارہ ملتا ہے لیکن وہ بھی مشروط ہے۔ جو آزاد عورت سے نکاح کرکے مہر اور نان نفقہ نہیں دے سکتا اس کو کسی لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت سے نکاح کرنے کی اجازت ہے، جس میں مہر کی شرط نہیں (نساء آیت25)۔ قرآن میں عورت سے لینے کی بھی اجازت ہے لیکن پہلے مہر نقد ادا کرکے، عورت کو مہر کا مکمل مالک بنادینے کا حکم ہے، اس کے بعد اجازت ہے کہ اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ دے دے تو لے لو اور لطف اٹھاو)نساء آیت 4)۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ اگر نکاح ہوگیا لیکن رخصتی سے قبل طلاق ہوگئی تو تب بھی آدھا مہر ادا کرو(البقرہ آیت 237)۔ سورہ نسا آیت 34 میں تو مرد کی Definition ہی یہ ہے کہ مرد قوّام اس صورت میں ہے جب وہ خرچ کرے یعنی مہر اور نان نفقہ دے۔ اگر وہ الٹا عورت سے لیتا ہے تو وہ مرد اور قوّام باقی نہیں رہتا۔ تفسیر روح المعانی میں امام آلوسی نے لکھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب حضرت شعیب ؑ کو ان کی بڑی بیٹی سے نکاح کا پیغام دیا تو حضرت شعیبؑ نے مہر کے طور پر یہ شرط رکھی کہ موسیٰ ؑ آٹھ سال شعیب ؑ کے ہاں مزدوری کریں گے، اور موسیٰ ؑ نے اسے قبول کیا۔ مطلب یہ کہ نقد مہر ادا کرنے کا حکم محمد سے پہلے کے انبیا کا بھی چلن تھا۔

حضرت مجاہدالاسلام قاسمیؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ”اگر لڑکی کا ولی، مہر سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرے اور داماد کوصرف اس خوف سے دینا پڑے کہ نہ دینے کی صورت میں لڑکی والے شادی سے انکار نہ کردیں، یہ رشوت ہے اور رشوت حرام ہے“۔ اندازہ لگایئے کہ بجائے ولی کے اگر داماد خود ڈیمانڈ کرے اور لڑکی والوں کو بجائے مہر لینے کے، اُلٹاجہیز زیادہ دینے پر مجبور ہونا پڑے، اس خوف سے کہ کہیں لڑکے والے رشتہ کینسل نہ کردیں تو یہ دوہرا حرام ہے۔

مہر کی رقم پر عورت کا مکمل اختیار ہے وہ جہاں چاہے خرچ کرے، وہ اس کی مالک ہے۔ اور مہر اسی وقت مہر کہلاتا ہے جب مہر کا مال عورت کے قبضے میں ہو۔ ادھار مہر کو عورت کی ملکیت نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ لوگ نقد مہر ادا تو کرتے ہیں لیکن اس میں بھی چکمہ بازی سے کام لیتے ہیں۔ اگر کیش دیتے ہیں تو حساب پوچھتے رہتے ہیں گویا عورت شوہر کی اجازت لے کر خرچ کرے۔ کچھ لوگ مہر میں سونا یا پراپرٹی دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک چالاکی ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری سوسائٹی میں عورت ناک کی ایک نتھنی بھی بغیر اجازت بیچ دے تو ساسیں اور نندیں ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں۔ مہر میں فلیٹ یا پلاٹ عورت کے نام کرکے عورت کو بے وقوف تو بنا دیا جاتا ہے لیکن کیا وہ اپنی مرضی سے اس کو فروخت کرسکتی ہے؟ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہر کے نام پر بے وقوف بنا کر اپنے سرمائے کی حفاظت کی جائے۔

یقینا آپ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ پچیس پچاس ہزار روپئے مہر کی خاطر اتنی طویل بحث کیوں کی جارہی ہے۔ یہی بات سمجھنے کی ہے۔ مہر ادا کرنا واجب ہے، ایک لوہے کی انگوٹھی یا آج کے دور میں کچھ روپئے ادا کرنا مہر نہیں بلکہ مہر کا صرف ایک ٹوکن ہے، عورت کی قیمت نہیں کہ جانور یا ترکاری کی طرح اسے خریدا جائے، قیمت کو چُکایا جائے۔ واجب کا پورا مطلب  یہ ہے کہ ”عورت کو کچھ دیا جائے، اس سے کچھ نہیں لیا جائے“۔ اگر کچھ دے کر اس سے کئی گنا زیادہ واپس لے لیا جائے تواس سے واجب کا حکم الٹ جاتا ہے۔ مہر کی اہمیت اور اس کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ مہر بھی شادی کی دوسری کئی رسموں کی طرح ایک غیرضروری رسم بن جاتا ہے۔ گیارہ ہزار روپئے دے کر گیارہ لاکھ لڑکی والوں سے خرچ کروائیں دیئے جائیں تو اس سے عورت کا مقام بلند ہوتا ہے یا گِرتا ہے؟ واجب صرف پیسہ دینا نہیں، اس سے کچھ نہ لینا واجب کے معنوں میں چھپا ہوا ہے۔ مہر کا یہ اصل منشاءِ شریعت ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو آج کے علما اور فقہا سمجھنا نہیں چاہتے۔ یہ شریعت کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مہر کے حکم کو الٹ کر، اس میں ایک نئی چیز شامل کرنے سے نکاح ہوگا یا نہیں، مہر ادا ہوا یا نہیں، یہ رشتہ جائز ہوا یا نہیں، یہ تو علما جانیں لیکن ایک عام ضمیر یہ کہتا ہے کہ جب مہر کی اصل روح کا خاتمہ کردیا گیا تو یہ نکاح، وہ نکاح ہرگز نہیں جس کو سنّتِ نکاح کہا جاسکے۔ اب ایسی شادی کا نکاح پڑھانے والے قاضی اور اس میں شریک ہونے والے مہمانوں کے بارے میں کیا حکم ہونا چاہئے، یہ بھی اپنے ضمیر سے پوچھیں تو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ رسول اللہ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ”التقوی ھھنا“۔ تقویٰ یہاں ہے۔ اور ایک جگہ فرمایا کہ ”استفت بقلبک“۔ اپنے دل یعنی ضمیر سے پوچھ۔

                اس پوری بحث کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نقد مہر ادا کرنے کے فقہی مسائل پیش کیئے جائیں۔آپ  مہر ادا کریں یا ادھار رکھیں، دس ہزار دیں یا دس لاکھ دیں، اس سے کوئی بحث نہیں، اصل حکم یہ ہے عورت کو دیا جائے، نہ کہ اس سے لیا جائے۔ اس میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ اگر لوگ اور بالخصوص آج کے علما اور فقہا اس کو نافذ کرنے کی کوشش کریں تو مسلمانوں کی غربت و افلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ کروڑوں برادرانِ وطن کو بھی اسلام کے قریب آنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ورنہ اگر اس مسئلے کو نہ سمجھا گیا اور یہی چلن چلتا رہا تو بہت جلد مسلمان، شودروں سے بھی بدتر اخلاقی اور معاشی حالت کو پہنچنے والے ہیں، بلکہ پہنچ چکے ہیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلک

ی، صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

Cell: 9642571721 W/A 7386340883ٍ 



بدھ، 13 جنوری، 2021

اصل جرم۔۔ شریف اور دیندار لوگوں کی خاموشی



آج ہرطرف ظلم اور ناانصافی کا دور دورہ ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ دیندار لوگ کہتے ہیں یہ سب بے دینی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ کہتا ہے یہ ایجوکیشن نہیں ہونے کی وجہ سے ہے۔ شریف لوگ کہتے ہیں یہ سب فرقہ پرستوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان دینداروں، تعلیم یافتہ اور شریف لوگوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ رسول اللہ
نے فرمایا تھا کہ ”جوحق بات کہنے سے خاموش رہا  وہ گونگا شیطان ہے“(الساکت عن الحق شیطان اخرس)۔ حق تو یقینا ہر سمجھدار آدمی کہہ رہا ہے لیکن اپنے اپنے سوشیل میڈیا یا اردو اخباروں میں لکھ لینے یا اپنے محلوں میں تقریریں کرلینے  کو حق بات کہنا نہیں کہتے۔ حق کہنا اس بات کو کہتے ہیں جو باطل کے سامنے کہی جائے۔ اگردشمن سامنے نہیں ہے تو اس تک پہنچنے کے طریقے ڈھونڈھنا اصل کام ہے۔ ہم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ سوشیل میڈیا، یا اخباروں میں لکھ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اِس دور میں کسی سنجیدہ موضوع پر مسلمان پڑھتا نہیں ہے۔ پڑھتے بھی ہیں تو صرف ریٹائرڈ لوگ جن کے پاس پڑھنے کا وقت تو ہے لیکن کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ نوجوان ٹِک ٹاک یا اسنٹگرام پر ہے جہاں آپ جانہیں سکتے۔ اس لئے اپنی ہی طرح کے عمر رسیدہ لوگوں کے بیچ حق بات کہہ کر اپنے ضمیر کی تسلی کرلینے سے نہ حق پھیلے گا اور نہ کوئی تبدیلی آئے گی۔ حق پھیلانے کا طریقہ دوسرا ہے۔
دنیا میں اچھے یا بُرے،  جتنے انقلابات آئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک لوگ گھروں سے نکل کر سڑک پر نہیں آئے۔ چاہے وہ انقلابِ ایران ہو، انقلابِ اخوان ِ مصر ہو، عرب اِسپرنگ ہو، یا ہندوستان میں موجودہ فاشسٹ راج ہو۔ سڑکوں پر آئے بغیر، کچھ جانوں کو قربان کیئے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اچھے انقلاب کے لئے شریف اور دیندار لوگوں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے، اور بُرے انقلاب کے لئے چور، ڈاکو، قاتل  اور فرقہ پرست گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ جب چور ڈاکو گھروں سے نکل پڑتے ہیں تو شریف اور دیندارلوگ  اپنی اور اپنے بیٹوں بیٹیوں کی حفاظت کے لئے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیتے ہیں۔ پڑوس میں کوئی گرفتار ہوجائے یا کسی کو گولی ماردی جائے تو دروازے نہیں کھولتے۔ صرف واٹس اپ یا فیس بک پر میسیجس فاورڈ کرنے لگتے ہیں، جمہوریت، سیکولرزم اور انصاف کی فریاد اور دہائی دینے لگتے ہیں کوئی سننے والا نہیں ہوتا تو بے بسی میں سوائے دعاؤں اور بددعاؤں کے کچھ اور نہیں کرسکتے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بُرے لوگ دندناتے پھرتے ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، اور جیسے چاہے ویسے قانون میں تبدیلیاں کرنے لگتے ہیں، پولیس، فوج، کورٹ، جج، میڈیا اور مکمل اڈمنسٹریشن ان کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ ہر طرف صرف کرپشن کا یا پھر طاقت کا قانون چلتا ہے۔  شریف لوگ تدبیر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اس لئے ذلیل ہو کر اسی کو تقدیر سمجھتے ہیں اور قبول کرنے لگتے ہیں۔
طاقت صرف پولیس یا فوج کی نہیں ہوتی۔ عوامی طاقت یعنی Masses کی طاقت پولیس اور فوج کی طاقت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس لئے کوئی بھی حاکم کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ لوگ عوامی طاقت پیدا کریں۔ حاکم ہر اُس جماعت یا شخص کوجو عوامی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کرے اس کو ختم کرنے کی بھرپور کرشش کرتا ہے۔یا تو وہ اس طاقت کو خرید لیتا ہے یا پھر اس کو دہشت گرد، اینٹی نیشنل قرار دے کر اس سے ساری قوم کو دور رہنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جب دشمن کی طرف سے  پاپلر فرنٹ یا سیمی  وغیرہ کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا  شروع کیا جائے تو سب سے پہلے یہی دیندار اور شریف لوگ ہوتے ہیں جو ایسی ابھرنے والی طاقتوں سے دور رہ کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔یوں تو وہ دشمن جماعت کے ہرجھوٹ سے واقف ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف وہ جھوٹ کے علاوہ کچھ اور کہہ ہی نہیں سکتے، لیکن جب دشمن انہی کی طاقت توڑنے کے لئے کسی پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے تو یہی شریف اور دیندار لوگ دشمن کا اعتبار کرکے چوکنّے ہوجاتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ دشمن کا اعتبار کرتے ہیں، بلکہ صرف اس لئے کہ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ حق کے لئے لڑنے والوں کی تائید کرینگے تووہ دشمن کی نظر میں آجائیں گے۔
اِس وقت دشمن کے جاسوس صرف پولیس کے لباس میں یا  سیاسی پارٹیوں میں ہی نہیں، مسجدوں اور درگاہوں میں پھیل چکے ہیں، محلّوں اور خاندانوں میں داخل ہوچکے ہیں۔ کتنے سجّادے، کتنے مولوی اور کتنے سماجی ورکرز اس وقت دانستگی یا غیر دانستگی میں دشمن کے لئے جاسوسی کررہے ہیں، عام آدمی کو اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ دشمن کے ہاتھوں بِکنے والی پارٹیوں کو مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی کا درجہ مل جاتا ہے۔ قوم کو کچھ ملے یا نہ ملے انہیں حکومت سے بہت کچھ مل جاتاہے۔ پھر دشمن کو خود کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، یہی پارٹیاں خود مسلمانوں کے اندر سے اٹھنے والی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے جتنی چالیں چلتی ہیں، خود دشمن ایسی چالیں نہیں چلتا۔
سوال پھر وہی آتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی طاقت عوام پر منحصر ہوتی ہے۔  عوام  یعنی یہی شریف اور دیندار لوگ اگر حق کے لئے لڑنے والوں کے ساتھ شامل ہوجائیں تو حق پرستوں کی طاقت بڑھتی ہے،لیکن یہ لوگ گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے، جیبوں سے پیسہ نکالنا نہیں چاہتے۔ یہ لوگ مسجدوں اور مدرسوں پر خرچ کرنے یا نفل عمرہ یا نفل حج پر پیسہ خرچ کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں، یا پھر ان کا پیسہ شادیوں، گھروں کی تعمیر وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے، قوم کی تعمیر کے لئے ان کے پاس کوئی بجٹ نہیں۔ اِس وقت امّت کی طاقت بننے کی صلاحیت رکھنے والی جماعتوں کی تعداد پورے ملک میں دو چار سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ان میں افراد کی کمی ہے۔ افراد یہ چاہتے ہیں کہ یہ جماعتیں پہلے دشمن طاقتوں سے Conduct certificate  لاکر پیش کریں۔ اگر مسلمانوں کی آبادی کا صرف 5% طبقہ ہی کسی نہ کسی ایک پارٹی سے جڑ جائے تو ہر جماعت کی طاقت اتنی تو پیدا ہوجائیگی کہ اگر کسی معصوم کو گرفتار کیا جائیگا تو پچاس آدمی پولیس اسٹیشن پر جمع ہوکر اپنا جمہوری حق منوائیں گے، پھر کوئی معمولی پولیس والا جیسا چاہے ویسا ایف آئی آر نہیں پھاڑ سکے گا۔ عمرخالد، ڈاکٹرکفیل خان، صفورہ، ذاکر نائیک کے ساتھ جو کچھ ہوا، بابری مسجد، حیدرآباد میں سیکریٹیریٹ کی دو مساجد، اندور، اور اجین کی مساجد کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ گھروں سے نکل کر سڑک پر آنے سے ڈرے ہوئے تھے، اس کے برعکس دہلی، گجرات، مظفرپور، مالیگاوں وغیرہ کے تمام فسادی آزادی سے گھوم رہے ہیں کیونکہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو ان کے پالے ہوئے پِلّے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کوئی بھی حکومت یا پولیس یا فوج صرف اس بات سے گھبراتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ جس وقت بمبئی کے فسادات ہوئے جب مسلمان جہاں بھی ملے اسے قتل کیا جارہا تھا، جسٹس سری کرشنا کمیشن جس کی گواہ ہے، بال ٹھاکرے نے چلینج کیا تھا کہ مجھے گرفتار کرکے بتاو ساری بمبئی کو آگ لگادوں گا۔ داؤد ابراہیم اس کے مقابلے پر اترا لیکن اُسے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا، کیونکہ اُس کی حمایت میں سڑکوں پر آنے والا کوئی نہیں تھا جبکہ بال ٹھاکرے کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دہشت گرد ٹھہرا دوسرا قومی ہیرو بن گیا۔ حالانکہ دونوں مساوی درجے کے مجرم تھے، دونوں پھانسی کے سزاوار تھے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اسی بمبئی فسادات کے وقت ہوا تھا۔ جب بمبئی فسادات پورے زوروں پر تھے، نرسمہاراو ملک کا پرائم منسٹر تھا، وہ شیو سینا کے زخمی کارکنان کی عیادت کے لئے بمبئی آیا۔ ہاسپٹل میں رپورٹرز نے سوال کیا کہ کیا آپ مسلمانوں سے بھی ملے؟ اُس نے جواب دیا تھا  ”کس سے ملتا؟“۔ کیونکہ شیوسینا کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں میں تھے، مسلمانوں کی کوئی جماعت ایسی نہ تھی  جو عوامی طاقت یعنی Masses  دکھاتی۔ یوں تو بے شمار گروپ، بے شمار صدور، بے شمار نائب صدور تھے، ہر انجمن کے آگے آل انڈیا لکھا ہوتا تھا، لیکن جب وقت پڑے تو کوئی گروپ دس  ایسے جان نثار کرنے والے کارکن نہ پیش کرسکا جو احتجاج کریں۔ صرف اسی کا نتیجہ ہے کہ آج موریل اتنی گر چکی ہے کہ دشمن کو مسلمانوں کے غصّے کی پروا کیئے بغیر جیسا چاہے ویسا قانون بنادینے کی ہمت پیدا ہوچکی ہے۔ پہلے کانگریس کے دور تک یہ تو تھا کہ وہ مسلمانوں کی رائے کا پھر بھی خیال رکھتی تھی۔ ہر سیکریٹیریٹ میں اردو اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور مراسلوں کا نوٹ لیا جاتا کیونکہ کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت تھی۔سوال پھر وہی آتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی طاقت عوام پر منحصر ہوتی ہے۔  عوام  یعنی یہی شریف اور دیندار لوگ اگر حق کے لئے لڑنے والوں کے ساتھ شامل ہوجائیں تو حق پرستوں کی طاقت بڑھتی ہے،لیکن یہ لوگ گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے، جیبوں سے پیسہ نکالنا نہیں چاہتے۔ یہ لوگ مسجدوں اور مدرسوں پر خرچ کرنے یا نفل عمرہ یا نفل حج پر پیسہ خرچ کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں، یا پھر ان کا پیسہ شادیوں، گھروں کی تعمیر وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے، قوم کی تعمیر کے لئے ان کے پاس کوئی بجٹ نہیں۔ اِس وقت امّت کی طاقت بننے کی صلاحیت رکھنے والی جماعتوں کی تعداد پورے ملک میں دو چار سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ان میں افراد کی کمی ہے۔ افراد یہ چاہتے ہیں کہ یہ جماعتیں پہلے دشمن طاقتوں سے Conduct certificate  لاکر پیش کریں۔ اگر مسلمانوں کی آبادی کا صرف 5% طبقہ ہی کسی نہ کسی ایک پارٹی سے جڑ جائے تو ہر جماعت کی طاقت اتنی تو پیدا ہوجائیگی کہ اگر کسی معصوم کو گرفتار کیا جائیگا تو پچاس آدمی پولیس اسٹیشن پر جمع ہوکر اپنا جمہوری حق منوائیں گے، پھر کوئی معمولی پولیس والا جیسا چاہے ویسا ایف آئی آر نہیں پھاڑ سکے گا۔ عمرخالد، ڈاکٹرکفیل خان، صفورہ، ذاکر نائیک کے ساتھ جو کچھ ہوا، بابری مسجد، حیدرآباد میں سیکریٹیریٹ کی دو مساجد، اندور، اور اجین کی مساجد کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ گھروں سے نکل کر سڑک پر آنے سے ڈرے ہوئے تھے، اس کے برعکس دہلی، گجرات، مظفرپور، مالیگاوں وغیرہ کے تمام فسادی آزادی سے گھوم رہے ہیں کیونکہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو ان کے پالے ہوئے پِلّے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کوئی بھی حکومت یا پولیس یا فوج صرف اس بات سے گھبراتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ جس وقت بمبئی کے فسادات ہوئے جب مسلمان جہاں بھی ملے اسے قتل کیا جارہا تھا، جسٹس سری کرشنا کمیشن جس کی گواہ ہے، بال ٹھاکرے نے چلینج کیا تھا کہ مجھے گرفتار کرکے بتاو ساری بمبئی کو آگ لگادوں گا۔ داؤد ابراہیم اس کے مقابلے پر اترا لیکن اُسے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا، کیونکہ اُس کی حمایت میں سڑکوں پر آنے والا کوئی نہیں تھا جبکہ بال ٹھاکرے کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دہشت گرد ٹھہرا دوسرا قومی ہیرو بن گیا۔ حالانکہ دونوں مساوی درجے کے مجرم تھے، دونوں پھانسی کے سزاوار تھے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اسی بمبئی فسادات کے وقت ہوا تھا۔ جب بمبئی فسادات پورے زوروں پر تھے، نرسمہاراو ملک کا پرائم منسٹر تھا، وہ شیو سینا کے زخمی کارکنان کی عیادت کے لئے بمبئی آیا۔ ہاسپٹل میں رپورٹرز نے سوال کیا کہ کیا آپ مسلمانوں سے بھی ملے؟ اُس نے جواب دیا تھا  ”کس سے ملتا؟“۔ کیونکہ شیوسینا کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں میں تھے، مسلمانوں کی کوئی جماعت ایسی نہ تھی  جو عوامی طاقت یعنی Masses  دکھاتی۔ یوں تو بے شمار گروپ، بے شمار صدور، بے شمار نائب صدور تھے، ہر انجمن کے آگے آل انڈیا لکھا ہوتا تھا، لیکن جب وقت پڑے تو کوئی گروپ دس  ایسے جان نثار کرنے والے کارکن نہ پیش کرسکا جو احتجاج کریں۔ صرف اسی کا نتیجہ ہے کہ آج موریل اتنی گر چکی ہے کہ دشمن کو مسلمانوں کے غصّے کی پروا کیئے بغیر جیسا چاہے ویسا قانون بنادینے کی ہمت پیدا ہوچکی ہے۔ پہلے کانگریس کے دور تک یہ تو تھا کہ وہ مسلمانوں کی رائے کا پھر بھی خیال رکھتی تھی۔ ہر سیکریٹیریٹ میں اردو اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور مراسلوں کا نوٹ لیا جاتا کیونکہ کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت تھی۔ لیکن اب جب فاشسٹ یہ صاف کہہ چکے ہیں کہ نہ انہیں مسلمان ووٹوں کی ضرورت ہے، اور نہ وہ کسی مسلمان کو ٹکٹ دینا چاہتے ہیں۔ تقریباً سترہ ریاستیں ایسی ہیں جن میں کوئی مسلمان وزیر نہیں۔ وہ تو یہ بھی اعلان کرچکے ہیں کہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کو وہ ”مسلم فِری“ یعنے جہاں کوئی مسلمان نہیں ہوگا وہ  بنائیں گے۔ اگرچہ کہ بے شمار مسلمان ایسے ہیں جو پھر بھی بے غیرتی کے ساتھ ان فاشسٹ پارٹیوں  میں شامل ہورہے ہیں، لیکن یہ بیچارے تھوڑی سی شہرت اور تھوڑی سی دلّالی کے مواقع حاصل کرنے کے لئے مخبری بھی کررہے ہیں، فاشسٹوں کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی تگ و دو بھی کررہے ہیں، اور ایسے غدّار ہر دور میں رہتے ہیں، جن لوگوں نے ترکی کی سیرئیل ”ارتغرل“ نہیں دیکھی، وہ ضرور دیکھیں کہ کس طرح وہی  لوگ سب سے زیادہ خطرناک غدّار ثابت ہوتے ہیں، جن پر کبھی شک بھی نہیں کیا جاسکتا۔  یہ لوگ  اپنے مفادات کی خاطر اپنی قوم کا سودا کرسکتے ہیں۔

اگر ہر شخص ایک نہ ایک جماعت میں شامل ہونا شروع کردے، جو کہ خود اسلام کا حکم ہے۔ رسول اللہ نے وصیت فرمائی کہ ”اوصیکم بالخمس، الجماعۃ، السمع والطاعۃ والھجرۃ والجہاد“۔”میں تمہیں پانچ باتوں کی وصیت کرتا ہوں، جماعت میں شامل ہو، سنو، اطاعت کرو، ہجرت اور جہاد میں شامل ہو“۔ اور پھر یہاں تک تنبیہ فرمائی کہ جو جماعت سے ایک انچ بھی الگ ہوا وہ گمراہی کی موت مرا۔ لوگ اپنے مذہبی اور مسلکی عقیدوں کے ساتھ جن مذہبی جماعتوں جیسے تبلیغ، اہلِ حدیث، شیعہ، اہلِ سنت والجماعت، یادیوبند یا سلسلوں سے جڑے ہیں، وہ بے شک جڑے ر ہیں۔ لیکن جہاں تک  ہندوستان میں اپنی شناخت کے ساتھ باوقار طریقے سے ایک  مساوی درجے کے شہری بن کر رہنے کا تعلق ہے،  یہ کام مذہبی جماعتوں کا نہیں، سیکولر جماعتوں کا ہے۔ اس میں ایجوکیشن کے ماہرین، قانون کے ماہرین، بنکوں، انشورنس، انڈسٹری، لاء اینڈ آرڈر کے ماہرین کی ضرورت ہے۔ دشمن کی ایجوکیشن پالیسی ہو کہ این آر سی، یونیوفارم سول کوڈ، مسلم مخالف فسادات، کشمیر، یو اے پی اے، پوٹاجیسے مسائل ہیں، یہ اسی لئے اٹھائے گئے ہیں کہ فاشسٹ یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان اپنے مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر جس قدر ایک دوسرے سے متنفّر اور متعصب ہیں، اُس قدر تو کسی فسادی مشرک سے بھی نہیں، اس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اسی کا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ ہر مسلک کے کسی نہ کسی مذہبی رہنما کو خرید کر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی چالیں چل رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اجمیر کے ایک سجّادے نے پاپولر فرنٹ کے خلاف زہر اگلا، اور بنگلور اور حیدرآباد میں ان کے خلاف ایف آئی آربک کرواکر کچھ لڑکوں کو گرفتار کروایا۔ ذاکر نائیک کے خلاف کچھ مشائخین کو استعمال کرکے ذاکر نائیک کو جلاوطنی پر مجبور کروایا۔ اویسی خاندان کو اپنا ہمنوا بنا کر عوام سے انہیں دور کردیا۔ بہار، یوپی، وغیرہ میں ہر مولوی کو کسی نہ کسی پارٹی سے فنڈ ملتا ہے اور وہ ووٹوں کو کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ بابری مسجد کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے عین قبل کتنے مولانا بِکے، کتنوں نے پوشیدہ ملاقاتیں کیں، پھر کیا بات ہوئی یہ قوم کو آج تک نہیں بتایا، یہ سبھی جانتے ہیں۔ حیدرآباد میں انکاؤنٹر ہوے، گرفتاریاں ہوئیں، مساجد شہید کی گئیں، صف اول کے علما اور مشائخین حتیٰ کہ خود جماعتِ اسلامی نے اویسی صاحب کے ساتھ مل کر خاموشی اختیار کی۔ چند ہی ایسے لوگوں نے آگے بڑھ کر آواز اٹھائی جن کے ساتھ Masses نہیں ہیں۔ کون ہے اس کا ذمہ دار؟ اس کے ذمہ دار یہی  بزدل ناعاقبت اندیش شریف اور دیندار لوگ ہیں۔ اگر ہر شخص ایک ایک جماعت یا ایک ایک تحریک کے ساتھ جڑ جائے، ہر ریاست میں اس جماعت کے حکم پر فوری دوڑ کرگھروں سے نکلنے  والوں کی تعداد اگر ایک ایک لاکھ بھی ہوجائے تو مجال ہے کسی حکومت کی کہ اِن کے مشورے کے بغیرکوئی کام کرے۔ اِس وقت جماعتوں کے جتنے اہم نام ہیں ان میں کسی بھی ریاست میں دو چار ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار سے زیادہ متحرک افراد نہیں ہیں۔ اگر افراد ہیں بھی تو ان میں سے آدھے سے زیادہ اپنی عمروں کے اس حصے میں ہیں جہاں آدمی صرف مشورے دے سکتا ہے یا دعا کرسکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے نزدیک مغفرت اسی میں ہے کہ سب کچھ کفار کے حوالے کرکے ہم بس نمازیں، روزے اور عمرے کرتے رہیں، زیارات قبور کرتے رہیں،  یا عقیدے کے نام پر فاتحہ عرس جائز یا ناجائز کی بحثیں کرتے رہیں۔ 

یہ بات طئے ہے کہ کوئی نسل سر اٹھا کر نہیں چل سکتی جب تک اس سے پہلی والی نسل سر کاٹنے یا سر کٹانے کا کام نہیں کرتی۔ آج مسلمانوں کی جو بھی حالت ہے وہ اس لئے ہے کہ ہمارے والد اور دادا کی نسل آزادی کے بعد سخت معاشی مسائل میں گِھر گئی، نہ انہیں جماعت کی مہلت ملی اور نہ سیاست یا معاشی پلاننگ کی۔ وہ خوفزدہ تھے کہ ان کے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ رفتہ رفتہ اسی خوف میں اگلی نسل پروان چڑھی، اور اُن سے زیادہ خوفزدہ رہی۔ رفتہ رفتہ نوکریاں، تحفظات، ہیومن رائٹس، جمہوری حقوق، حتیٰ کہ مذہبی اور تہذیبی آزادی چِھنتی گئی۔ مسجدیں اور بستیاں جلائی جاتی رہیں، ایجوکیشن کے نصاب سے مسلمانوں کو ختم کرکے ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے والوں کا کردار مسخ کیا گیا۔ شہروں اور سڑکوں کے نام تبدیل کردیئے گئے۔ فلموں اور میڈیا میں مسلمانوں کے کیریکٹر کو انتہائی شرمناک بنا کر پیش کیا گیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ایسی پالیسیز بنائی گئیں کہ مسلمان خودبخود پسپائیت محسوس کرنے لگیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ موجودہ لوگ جو تیس تا پچاس سال کی عمر میں ہیں اگر وہ اپنے آپ کو کسی جماعت میں شامل کرکے ایک طاقت نہیں بنائیں گے تو  اگلی نسل موجودہ  نسل سے کہیں زیادہ خوفزدہ، پسپا اور سیکنڈ کلاس سیٹیزن بن کر رہ جائیگی، اور اس کے بعد کی نسلیں بہت تیزی سے اسلام چھوڑ کر نکل جائینگی۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جو پہلے نہیں کہی گئیں۔ ہرآنے والے دور کے خطرات سے مسلمانوں کو علما اور دانشوروں اور صحافیوں نے خبردارکیا ہے،، لیکن مسلمانوں کی بدبختی یہ ہے کہ ایک تو ان کی زبان مکمل چِھن گئی، دوسرے قیادت جو ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے وہ مکمل مسلکوں اور عقیدوں کے پرچار کرنے والوں کے ہاتھوں میں چلی گئی، جنہیں نہ سیاسی شعور ہے اور معاشی یا تعلیمی شعور ہے۔ تیسرے یہ کہ ان کے جانوں اور مالوں کا خوف ذہنوں پر اس قدر شدّت سے بٹھادیا گیا ہے کہ وہ مجاہد بننے کے بجائے مخبر بن جانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ گویا آج کے مسلمان چٹان سے ٹوٹ کر گرنے والے اُس پتھر کی طرح ہیں جو بہت تیزی سے نیچے آرہا ہے، اس کو روکنا مشکل ہے۔ ایسے وقت میں اگر کچھ لوگ حق کی آواز اٹھا کر دشمن کی چالوں سے لوگوں کو خبردار بھی کرتے ہیں، تو اس کافائدہ دشمن کو ہی پہنچتا ہے۔  مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں چھپے ہوئے سانپ صفت لیڈروں کو تو جانتے ہی ہیں، لیکن اگر مسلمان فاشسٹوں کے خلاف آواز اٹھاتے بھی ہیں تو اس سے ہاتھ تو انہی کے مضبوط ہوں گے جو ویسے بھی مسلمانوں کے کبھی خیرخواہ نہیں تھے۔ مثلاً آپ بی جے پی یا آریس یس کے خلاف جو بھی کہیں گے، اس کا راست فائدہ کانگریس، کمیونسٹ، ٹی آر یس، نتیش، مایاوتی، لالو، شیوسینا یا ترنمول کو ہی جائے گا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِن لوگوں نے کبھی مسلمانوں کا کوئی فائدہ کیا ہے؟ یا پھر ان مسلمان پارٹیوں کا فائدہ ہوگا جو موقع پرست ہیں یا جن کے لیڈر پہلے سے ہی فاشسٹوں سے ملے ہوئے ہیں۔

تمام شریف اور دیندار لوگوں سے گزارش ہے کہ تبصرے بند کردیں اور فوری ایک ایک تحریک میں شامل ہوجائیں۔ جس دن ہماری ہر تحریک کے پاس ایک ایک دو دو لاکھ جوا ں ہمت کارکن جمع ہوجائیں گے، وقت پڑنے پر اپنی جانوں کا نذرانہ لے کر سڑکوں پر آجائیں گے، اس دن انقلاب کی پہلی کرن نمودار ہوگی۔ اگلی نسل مرد بن کر سر اٹھا کر گھروں سے نکلے گی۔ ورنہ اپنی نسلوں کو غلام ابن غلام بنانے کے لئے تیار ہوجایئے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 7386340883   

  

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...