جمعرات، 22 اپریل، 2021

زکوٰۃ دیجئے مگر مستحق کو


 

رمضان آتے ہی زکٰوۃ کی لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ قربان جایئے اس دین کے کہ زکوٰۃ، صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والے غربا ومساکین کی مدد کے لئے ایک ایسا دروازہ کھول دیا کہ انہیں بغیر کسی سرکاری مدد کے بھی زندہ رہنے کا سہارا ہے۔ دشمن یہی سوچتے ہوں گے کہ اگرچہ کہ اس قوم کو ختم کرنے کے لئے بستیاں اور کاروبار جلادیئے جاتے ہیں، ان سے روزگار چھین لئے جاتے ہیں، اس قوم سے زیادہ رشوت لینا ایک پنّیاسمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ قوم زندہ ہے۔ ورنہ کوئی دوسری قوم ہوتی تو دشمنوں کے قدموں میں گِرجاتی۔ علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری          صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

زکٰوۃ بے شک ایک بہت بڑا خدائی منصوبہ ہے جس کے ذریعے اسلام نے غربت و افلاس کے خاتمے کا طریقہ دیا ہے،مگر افسوس اسی بات کا ہے کہ زکٰوۃ دینے والوں کو اس بات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا ہے کہ ”جس طرح نماز میں کوئی فرض چھوٹ جائے تو نماز کا لوٹانا واجب ہے، اسی طرح اگر زکٰوۃ بھی صحیح مستحق کے ہاتھوں نہ پہنچے تو اس کا دوبارہ دینا واجب ہے“۔ دس بیس ہزار روپئے زکٰوۃ نکالنے والے تو پھر بھی مستحق کو تلاش کرلیتے ہیں لیکن لاکھوں کی زکٰوۃ نکالنے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ مستحق کی تحقیق کریں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج زکٰوۃ وصولی کا مافیا جتنی زیادہ زکوۃ وصول کرتا ہے، اصل مستحقین اس سے محروم رہتے ہیں۔ اصل سانحہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ باتیں جن اہلِ ثروت حضرات کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں، وہ اردو نہیں جانتے، انگریزی میں پڑھنے کا ان کے پاس وقت نہیں، جمعہ کا خطبہ سنتے نہیں، اور جن لوگوں سے زکٰوۃ کے بارے میں مشورے لیتے ہیں، وہ اتنے ایماندار ہوتے نہیں کہ اصل مستحقین تک اس زکٰوۃ کو پہنچنے دیں، وہ پہلے ہی اپنے مدرسوں یا اداروں کے لئے زکٰوۃ کے ایک بڑے حصے پر ہاتھ مارلیتے ہیں۔ قارئین ہی سے یہ درخواست ہے کہ ان باتوں کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کرکے مضمون یا آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں ایسے لوگوں تک پہنچائیں جو امت کے لئے اپنی دولت کی وجہ سے ایک سہارا ہیں۔

            ہر سال زکٰوۃ اگرچہ کہ ہزاروں کروڑکی نکلتی ہے، لیکن تقسیم کس طرح ہوتی ہے یہ ایک سانحہ ہے۔ اگرچہ کہ کئی ایک بیت المال اسی مقصد سے قائم کئے گئے ہیں، لیکن ان کے پاس بھی زکوۃ کی تقسیم کا تصور یہی ہے کہ پریشان حالوں کی وقتی ضرورت پوری کردی جائے۔ کسی کا مہینہ دو مہینہ پیٹ بھردینے سے وہ خودکفیل نہیں ہوجاتا، باقی آٹھ دس مہینے پھر مانگنے پر مجبور رہتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کے اِس قول پر غور فرمایئے کہ ”دس آدمی مل کر گیارہویں آدمی کو اس طرح زکوٰۃ دیں کہ وہ اگلے سال خود زکوۃ نکالنے کے قابل ہوجائے“۔ اس میں بین السطور یہ بات کہی گئی ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں کاسہ دینے کے بجائے کوئی ہنر دے دو، تاکہ وہ خود کما کرکھانے والا بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس زکوٰۃ سے ٹکنیکل انسٹیوٹس، بنک، انشورنس، فیکٹریز، انڈسٹریز اور مختلف چھوٹی بڑی صنعتیں وجود میں آئیں، جہاں لوگ بھیک مانگ کر نہیں بلکہ محنت کرکے ایک مستقل روزگار خودداری کے ساتھ کما سکیں۔ یہ کام نہ مولوی کرسکتے ہیں، نہ سماجی جہدکار اور نہ لیڈر۔ سانحہ یہ ہے کہ یہی لوگ ایسے پروجیکٹ لے کر اٹھتے تو ہیں لیکن اپنا اور اپنے قریبی لوگوں کاہی فائدہ پہنچا کر دو چار سال میں سارا سرمایہ ہڑپ کرجاتے ہیں۔ اس لئے قوم  زکٰوۃ کے کسی اجتماعی نظم پر بھروسہ نہیں کرتی۔ زکوٰۃ کو ایک بڑے پیمانے پر وصول کرکے فیکٹری یا انڈسٹریز یا انسٹیٹوٹ قائم کرنے کا کام خود امیر لوگ ہی Experties  کو ملازم رکھ کر، کرسکتے ہیں، یہ کام حیدرآباد میں غیاث الدین بابو خان نے اور یوپی میں ڈاکٹر محمود صاحب نے بخوبی کیا ہے لیکن دونوں حضرات نے یہ کارنامے تعلیمی میدان میں انجام دیئے ہیں۔ قوم میں ایسے کئی قابل لوگ اور بھی ہیں جو دوسرے میدانوں میں بھی زکٰوۃ کو استعمال کرکے قوم کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

آج بالاجی اور سائی باباجیسی کئی مندروں کے دان سے جو دواخانے کھولے گئے ہیں، ان میں مفت علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں، فائدہ  اٹھانے والوں میں بے شمار برقعے اور داڑھیاں والے بھی نظرآتے ہیں۔ اسی طرح غیروں نے دان کے پیسے سے کئی کالج اور ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کئے ہیں، جن سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر مذہب کے نوجوان ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قوم کے پاس زکوٰۃ کا پیسہ صرف انہی لوگوں کو دینے کا تصوّر ہے جو اپنے باپ دادا کے زمانے سے مانگتے چلے آرہے ہیں۔ گویا زکٰوۃ وصولی ایک موروثی پیشہ ہے۔ کبھی جن عورتوں کی نانی یا دادی زکٰوۃ وصول کرتی تھیں پھر ان کے بعد ان کی ماں آنے لگی اور اب بیٹیاں آتی ہیں، رمضان سے پہلے ہی آکر سلام کرکے جاتی ہیں۔ دینے والے بھی پہلے سے ہر سال مانگنے والوں کی فہرست بنالیتے ہیں، اور مروّت میں دیئے چلے جاتے ہیں۔ زکٰوۃ کی رقم کا سب سے بدترین استعمال اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ ہے ”غریب لڑکیوں کی شادیاں“۔ شرعی طور پر شادی کے لئے مرد کی مدد کرنا تو جائز ہے لیکن لڑکی والوں کو جہیز اور کھانوں کا انتظام کرنے کے لئے دینا قطعی جائز نہیں۔ کیونکہ خود جہیز اور کھانا لڑکی پر نہیں لڑکوں پر واجب ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ مِڈل کلاس کے لوگ اتنی پرتکلّف شادیاں نہیں کرتے جتنی یہ زکٰوۃ لینے والا طبقہ کرتا ہے۔ پورا پیسہ جہیز یا پھر کھانوں میں اڑاتا ہے جیسے منگنی کا کھانا، شادی کے دن کا کھانا، مانجے، سانچق اور جمعگیوں اور مبارکہ کا کھانا۔ ایک وقت کا کھانا جو اگلے دن فلش ہوجاتا ہے، اس پیسے کا اگر صحیح استعمال ہو تو لڑکا اور لڑکی کاروبار کرکے یا کوئی پالیسی خرید کر کم از کم اپنے ہونے والے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ ان غریب لڑکیوں کی شادیوں پر زکٰوۃ دینے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی خادماوں کی بیٹیوں، نواسیوں یا پوتیوں کی شادیوں کے لئے خوب زکٰوۃ دیتے  ہیں، تاکہ ایک طرف خادمہ کہیں نوکری چھوڑ کر نہ جائے دوسری طرف زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے۔ یہ چالبازی ہے۔

            مدرسوں پر جو زکوۃ کے مال کو لٹایا جارہا ہے، اس کے سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ ہم ایسے مدرسوں سے واقف ہیں جن کے نام کروڑہا روپئے کی اوقافی جائیدادیں ہیں، آمدنی بھی خوب ہے۔ لیکن مولوی صاحبان جن کے شاگردانِ رشید اور معتقدین سعودی، کویت، دوبئی اور امریکہ وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ان سے جاکر خوب زکٰوۃ وصول کرتے ہیں، اور پچاس تا ساٹھ فیصد کفاف کی رقم جس کو آپ کمیشن کہہ سکتے ہیں، حاصل کرکے اپنے بنک بیلنس بڑھاتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے بھی مدرسوں سے ہم واقف ہیں جو زکٰوۃ کے حقیقی مستحق ہیں۔ جہاں نومسلم خاندانوں کی تعلیمِ دین اور رہائش کا انتظام ہے، ایسے ایسے دور دراز کے علاقوں میں دین سکھارہے ہیں جہاں دور دور تک کوئی تعلیم یافتہ مسلمان نہیں ملتا۔ اگر ان مسلمانوں کو دینی تعلیم نہ ملے تو چند سالوں میں کہیں کوئی کلمہ پڑھنے والا مسلمان بھی نہیں ملے گا، لیکن ان مدرسوں کے ذمہ داروں کی شہروں تک پہنچ نہیں ہے۔

زکٰوۃ کے سب سے پہلے مستحق قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زکٰوۃ کی تقسیم شریعت کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ مروّت، نیک نامی اور شہرت کی خاطر زکٰوۃ دی جاتی ہے۔ بالخصوص جماعتوں اور مختلف اداروں یا تنظیموں کے ذمہ دار حضرات زکٰوۃ کی بڑی رقمیں دینے والوں کو اپنے جلسوں میں صدارت یا مہمانانِ خصوصی کی نشستیں دے کر ایک طرح سے اڈوانس میں  ان سے زکوٰۃ کا کمٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ کئی رشتہ دار جو مستحق تو ہوتے ہیں لیکن ان کی خودداری انہیں آکر مانگنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ نظر انداز ہوجاتے ہیں، اور دوسرے لوگ آکر، البم اور اخباری تراشے دکھا کر، دینے والوں کی خوب تعریفیں کرکے ساری زکٰوۃ وصول کرلیتے ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے تو خود آپ کے خاندان میں کئی یتیم اور بیوائیں ہیں، طلبا و طالبات ہیں جن کو فیس، ٹرانسپورٹیشن اور کتابوں یا ٹیوشن کی ضرورت ہے، کئی بیمار ہیں، کئی بوڑھے اور ضعیف ہیں جن کی اولاد ہوتے ہوئےزکٰوۃ کے سب سے پہلے مستحق قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زکٰوۃ کی تقسیم شریعت کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ مروّت، نیک نامی اور شہرت کی خاطر زکٰوۃ دی جاتی ہے۔ بالخصوص جماعتوں اور مختلف اداروں یا تنظیموں کے ذمہ دار حضرات زکٰوۃ کی بڑی رقمیں دینے والوں کو اپنے جلسوں میں صدارت یا مہمانانِ خصوصی کی نشستیں دے کر ایک طرح سے اڈوانس میں  ان سے زکوٰۃ کا کمٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ کئی رشتہ دار جو مستحق تو ہوتے ہیں لیکن ان کی خودداری انہیں آکر مانگنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ نظر انداز ہوجاتے ہیں، اور دوسرے لوگ آکر، البم اور اخباری تراشے دکھا کر، دینے والوں کی خوب تعریفیں کرکے ساری زکٰوۃ وصول کرلیتے ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے تو خود آپ کے خاندان میں کئی یتیم اور بیوائیں ہیں، طلبا و طالبات ہیں جن کو فیس، ٹرانسپورٹیشن اور کتابوں یا ٹیوشن کی ضرورت ہے، کئی بیمار ہیں، کئی بوڑھے اور ضعیف ہیں جن کی اولاد ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان تک پہنچ کر ان کے گھر ڈھونڈھ کر پہنچانا فرض ہے۔ ان لوگوں کے لئے  صرف زکٰوۃ کی ڈھائی فیصد رقم سے ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنے مال سے نکالنا اہم ہے۔ حضرت عمرؓ ہی کا فرمان ہے کہ ڈھائی فیصد تو منافق نکالا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو ایک اسلامی ریاست میں رہنے اور وہاں کی سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ نمازوں اور زکوٰۃ کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔ مومن کے لئے ڈھائی فیصد کی کوئی قید نہیں، اس کا سارا مال اللہ کا دیا ہوا ہے، اگر وہ حساب رکھ کر خرچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے حساب رکھ کر ہی دے گا۔ اللہ کی راہ میں بے حساب دینے والے کو اللہ تعالیٰ بھی اپنے خزانے سے بے حساب ہی دیتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ زکوۃ  کے مانگنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سب کے حصہ میں دو چار ہزار روپئے ہی آتے ہیں۔ اس طرح ہر مانگنے والا ساری عمر زکٰوۃ مانگنے پر مجبور رہتا ہے۔ کسی طالب علم کو اگر بائیک دلادیں، کسی کو بڑے کالج میں داخلہ دلادیں، یا کسی بیمار کے آپریشن کے لئے تین چار لاکھ روپئے یکمشت ادا کردیں تو یہ بھی زکٰوۃ کا ایک بہترین مصرف ہے کہ آپ کسی کو اس کے پاؤں پر کھڑا سکتے ہیں، اور فائدہ اٹھانے والا بھی ایک دن زکٰوۃ دینے کے قابل ہوسکتا ہے۔

ہماری NRIs سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ اپنی زکٰوۃ  ادا کرنے کی ذمہ داری پوری کریں۔ عام طور پر یہ لوگ رقم اپنے گھر یا سسرال بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے جو تقسیم ہوتی ہے وہ مستحقین میں کم اور مصلحتوں میں زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ یہ NRIs مدرسوں، جماعتوں یا اداروں کے لوگ جو عامل بن کر آتے ہیں، جلسے یا میتنگس کرکے خوب انفاق و خیرات پر تقریریں کرتے ہیں، اپنے کارناموں کو خوب لفّاظی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، ان کے حوالے کرڈالتے ہیں۔ ان وصول کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو نہ حساب پیش کرتے ہیں اور نہ کبھی آڈِیٹ کرواتے ہیں۔ اور اگر دینے والے کبھی جاکر ان کی دی ہوئی رقم کا حساب چیک کریں تو انہیں خود اندازہ ہوجائیگا کہ وصول کرنے والوں کا وصول کرتے وقت جس زہدوتقویٰ کا اظہار تھا، خرچ کے معاملے میں وہ زہدوتقویٰ دور دور تک نہیں پایا جاتا۔

اِس وقت قوم کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ فاشسٹوں سے ہے۔ آج جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، یہ پہلے کبھی نہیں تھے۔ اورقریب مستقبل میں یہ حالات اور بھی خطرناک صورت اختیار کرجائیں گے جب قانون میں آپ کو جو حیثیت آج حاصل ہے وہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ کی تہذیب، زبان، تاریخ، مذہب سب کچھ بہت تیزی سے ختم کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ جس تیزی سے انجذاب یعنی Assimilation کا کام ہورہا ہے، بہت جلد وہ دور آنے والے ہے کہ گاؤں کے گاؤں مذہب تو شائد تبدیل نہ کریں، لیکن مسلمانوں کی حالت شودروں کی طرح ہوجائیگی۔ حالات تو یہ بتارہے ہیں کہ اب آئندہ  وزیرِاعظم وہی ہوں گے جو مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہوں گے۔ مسلمانوں کو پولیس، فوج، عدلیہ، بڑے سرکاری عہدوں اور تجارت، صنعت و حرفت وغیرہ میں کہیں داخل ہونے نہیں دیا جائیگا۔بدقسمتی سے  اتنے بدترین حالات کا مقابلہ ہم مدرسوں کی تعمیر، غریب بچیوں کی شادیوں،افطار راشن کِٹس کی تقسیم، آئی کیمپ، بلڈ ڈونیشن کیمپ، جلسوں اور مسلکوں کے فروغ کے ذریعے کررہے ہیں، گویا دشمن کلاشنکوف سے حملے کررہا ہے اور ہم اس کا مقابلہ غلیل یا صرف اور صرف دعاؤں اور عبادتوں سے کررہے ہیں۔ اللہ کے نبی نے صحابہ ؓکو  پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کو برداشت کرکے اسلام کو قائم کرنے کی مثال قائم کی، لیکن ہمارے نزدیک پہلے لوگوں کا پیٹ بھرنا زیادہ اہم ہے۔ گویا جو شعور ہمیں حاصل ہے، وہ نبی کو حاصل نہیں تھا، نعوذباللہ۔ آج خدمت خلق پر بے شمار تنظیمیں لگی ہوئی ہیں، جن کا محبوب مشغلہ یہ ہے کہ امیروں سے پیسہ وصول کریں اور غریبوں پر خرچ کریں۔ نہ کبھی غریب ختم ہوں گے اور نہ یہ دھندہ۔ رفتہ رفتہ پوری قوم جس تیزی سے اس ملک میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہری بن جائیگی، اِ س کا احساس دور دور تک نہیں۔ یوں تو ہم بے شمار محاذوں پر کام کررہے ہیں لیکن فاشسٹوں سے مقابلہ کرنے کوئی تیار نہیں۔ذہنوں پر خوف اتنا زیادہ طاری کردیا گیا ہے کہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بڑے بڑے لوگ گھبرانے لگتے ہیں۔ حکمت اور مصلحت کے نام پر بزدلانہ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اگر پڑوس میں کسی کو گرفتار کرلیا جائے، یا گولی ماردی جائے تو باہر نکل کر خیریت پوچھنے کے بجائے اپنے گھر کے دروازے بند کرلیتے ہیں۔ایک کے بعد ایک مسجدیں گرائی جائیں گی، ایک کے بعد ایک گجرات ہوتے جائیں گے، ایک کے بعد ایک نوجوان گرفتار ہوتے جائیں گے لیکن ہم صرف واٹس اپ فارورڈ کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکیں گے۔ ان حالات میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر قوم کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنا بڑا کام جو تمام خدمت خلق کے دوسرے کاموں سے بہت بڑا کام ہے، کیا یہ بغیر مالی مدد کے ہوسکے گا؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اگلی نسلیں سر اٹھاکر اس ملک میں باعزت، باوقار اور خوشحال شہری بن کر چلیں تو آپ کو جتنا مال اپنے گھر کی تعمیر، شادیوں اور دوسری کئی خرافات پر خرچ کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اپنی نسلوں کے مستقبل کی تعمیر پر خرچ کرنا ہوگا۔ کیا ایسے کاموں کے لئے زکوٰۃ بھی نہیں دی جاسکتی؟ یہ تو علما اور مفتیانِ کرام، تعلیم یافتہ حضرات اور دانشور حضرات سوچیں، ہم نے تو بات رکھ دی۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 7386340883

 

  

ہفتہ، 3 اپریل، 2021

مسلم پرسنل لا بورڈ کی آسان نکاح مہم کیا صحیح خطوط پر ہے؟


مسلم پرسنل بورڈ کی جانب سے نکاح کو آسان بنانے کے لئے ایک دس روزہ مہم کا آغاز کیا گیا ہے جو 27th  مارچ  تا 5th اپریل 2021 چلے گی۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ بورڈ کے اِس اقدام کا ہر ہر شخص پر ساتھ دینا لازمی ہے۔ اس مہم کا اہم ایجنڈا لوگوں سے ایک اقرار لینا ہے۔ بورڈ کے علما نے خود یہ اقرار نامہ جاری کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی کچھ قراردادوں کا مجموعہ بھی تیار کیا گیا ہے جو سوشیل میڈیا اور کئی اخبارات میں شائع ہوچکا ہے۔ اس قرار داد کا ایک تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ 

 بورڈ کے ذمہ دار حضرات جن میں تمام مسالک سے وابستہ جیّد علما، مفتی، مشائخین اور سجّادے حضرات ہیں، ان تمام سے درخواست ہے کہ اس تجزیہ پر غور فرمائیں اور اقرار نامہ میں رہ گئی خامیوں کو دور کرکے ایک ایسا طاقتور اقرار نامہ تیار کریں جس سے نہ صرف صحیح سنّت نکاح قائم ہو بلکہ غیرمسلم برادری کو بھی یہ پیغام پہنچ جائے کہ اسلام میں شادی کتنی آسان ہے۔ورنہ پیش کردہ اقرار نامہ بہت ہی کمزور اور مبہم ہے۔یہ اقرار نامہ ایسا ہے گویا کینسر کے مریض کاجسے فوری سرجری کرکے پھوڑا نکال پھینکنے کی ضرورت ہے، اس کو صرف ڈیٹال سے دھوتے رہنے اور وِکس یا بام لگاتے رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اس پورے اقرار نامے اور قراردادوں میں جو مجموعی بیان سامنے آرہا ہے وہ یہی ہے کہ جو سسٹم چل رہا ہے چلنے دو، بس تھوڑا سا خرچ کم کردو، اور لڑکی والوں پر تھوڑا سا بوجھ کم ڈالو۔ ہمیں یقین ہے کہ بورڈ کے علما اسے تنقید نہ سمجھتے ہوئے، ان امور پر ضرورتوجہ فرمائیں گے۔ 

عائشہ کی خودکشی کے بعد لوگوں میں جو  عبرت لینے کا جذبہ پیدا ہوچکا ہے، یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ان کے ذہنوں سے مشرکانہ رسم و رواج ہٹا کر نبی ﷺ کی اُس سنّت کو راسخ کردیا جائے جس سنّت کو  غربت و افلاس کا خاتمہ کرنے والی سنّت کہا جاسکتا ہے یعنی نکاح،  بشرطیکہ مکمل نبی ﷺ کے طریقے پر ہو۔ لیکن اس اقرارنامے میں سنّت پر کہیں زور نہیں دیا گیا،  البتہ مہارانی جودھابائی کی لائی ہوئی رسموں کو چھانٹ کرکیا بہتر ہے وہ قبول کرلینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ پورے اقرار نامے میں کہیں نقد مہر کی اہمیت پربات نہیں کی گئی۔ اس دور کی سب سے بڑی خرافات تو اُدھار مہر ہے۔ یہ کس نے اور کب جائز کیا، سنت سے خلاف جاکر کہاں سے جواز لائے، اس کی تحقیق تو ہونی ہے لیکن مختصراً یہ کہ سنت میں یا قرآن میں کہیں بھی مہر کو ادھار رکھنے کی ایک بھی روایت نہیں ملتی۔ نقد مہر عورت کی مرضی اور آزادی کا ٹوکن یا علامت تھا۔ لیکن جہیز نے اس حکم کو مکمل پامال کردیا۔ اب یہ علما جانیں کہ طلاق اگر شریعت کے مطابق نہ ہو تو رشتہ حلال نہیں رہتا، اسی طرح مہر واجب ہے، اگر یہ شریعت کے مطابق نقد ادا نہ ہو تو نکاح حلال ہوگا یا نہیں؟ اگر نقد مہر کے وجوب کی تفصیل لوگوں کو معلوم ہوجائے تو یہی ایک نکتہ جہیز اور کھانوں کا خاتمہ کرنے کافی ہے۔ 

پہلا عہد یہ لیا گیا کہ ”نکاح کو آسان بنائیں گے“۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نکاح کو آسان بنانے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے جو نکاح کیئے ان کا طریقہ کیا مشکل تھا؟ آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ”نکاح کو مکمل سنّت کے مطابق نافذ کریں گے“۔ نکاح صرف قاضی صاحب کی موجودگی میں ہونے والی کاروائی کا نام نہیں ہے  بلکہ لڑکا لڑکی کے انتخاب سے لے کر بات چیت اور پھر شادی کی آخری رسم تک ہونے والے تمام کاروائیوں کا نام ہے۔ ہم پہلے یہ طئے کریں کہ نکاح پورا کا پورا نبیﷺ کی سنّت کے مطابق انجام دینا کیا ضروری ہے؟ یہ کیا ہے، فرض ہے، واجب ہے، موکّدہ ہے غیر موکّدہ ہے، نفل ہے یا مستحب ہے جس کو کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں؟ اگر کوئی شخص نکاح میں غیراسلامی رسومات داخل کردیتا ہے اور شدت پسندی پر اترآتا ہے تو ایسے گستاخِ رسول کی شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

عہد نمبر 3 میں آپ یہ اقرار کرواتے ہیں کہ نکاح کے دن کا کھانا صرف بیرونِ شہر سے آنے والوں کو کھلائیں گے اور گھروالوں کو۔ پہلا سوال یہ کہ نکاح کے دن کے کھانے کا  جواز کس سنت رسولﷺ سے لیا گیا؟ دوسرا سوال یہ کہ نکاح کے دن مہمانوں کو جمع کرنے کی روایت اسلام کی ہے یا ہندوؤں کی؟ تیسرے یہ کہ جب آپ مہمانوں کو جمع ہی کررہے ہیں تو کیا عین کھانے کے وقت لوگوں سے یہ کہہ دیں گے جو جو شہر میں رہنے والے لوگ ہیں وہ  اپنے گھر تشریف لے جائیں اور شہر سے باہر سے جو آئے ہیں وہ  دستر خوان پر تشریف لائیں؟

بورڈ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کھانے ہی تو اصل فساد کی جڑ ہیں۔ جہیز تو ایک دو لاکھ کا ہوتا ہے لیکن یہ منگنی اوربارات کے کھانے، پھر سانچق، مانجے، جمعگی کے کھانے، نوروز اور مبارکہ کے کھانے، اُدھر ولیمہ کے خلافِ سنت مہمانوں کے سینکڑوں کے ہجوم کے کھانے،یہی  تو وہ فتنہ ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے گھر بِکتے ہیں، لڑکیاں گھروں سے بھاگتی ہیں، لڑکے شادی میں تاخیر کی وجہ سے آوارہ ہوتے ہیں۔جب شادی کے دن کے کھانے کا کوئی جواز نہیں تو پھر اس میں آسانیاں پیدا کرکے دینے کا کیا مقصد ہے؟اگر اپنے اپنے مہمانوں کو جمع کرکے کھلانے کا اتنا ہی شوق ہے تو نکاح اور ولیمہ ایک ساتھ کیجئے، مغرب میں نکاح اور عشا بعد ولیمہ کھلادیجئے، کسی کا مہمان بھوکا نہیں جائیگا۔شریعت میں اس کی اجازت ہے۔

 عہد نمبر 4 میں آپ پھر وہی کھانوں کو لے آتے ہیں، اور اقرار کرواتے ہیں کہ غیر شرعی دعوت میں ضرور جائیں گے لیکن کھانا نہیں کھائیں گے۔ پہلا سوال یہ کہ سینکڑوں لوگ جو دعوت میں آپ کو موجود دیکھیں گے انہیں کیا خبر کہ آپ نے کھایا یا نہیں کھایا؟ ان کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ جیسے مولانا دعوت میں شریک تھے۔دوسرا سوال یہ کہ کھانا کیوں نہ کھائیں؟۔ یہ حرام ہے؟ مکروہ ہے؟ یا کیا ہے، یہ وضاحت کیجئے۔ اگر یہ کھانا جائز نہیں تو پہلے کھلانے والوں سے اور کھانا مانگنے والوں سے عہد لیجئے۔ 

عہد نمبر 5 میں آپ یہ اقرار کروارہے ہیں کہ ولیمہ سادگی سے کریں گے اور دولت کی نمائش نہیں کریں گے۔سوال یہ ہے کہ کس کی سادگی آپ کے پاس معیار ہے؟ کیونکہ ہر شخص کی سادگی کا معیار اس کی آمدنی اور Status کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔جس کے پاس کئی کروڑ ہیں، ایک کروڑ کی شادی اس کے لئے سادگی ہے۔ NRI یا مڈل کلاس والے کے لئے پندرہ بیس لاکھ بھی سادگی ہی ہے۔ معمولی غریب لوگوں کے لئے دو چار لاکھ روپئے سادگی ہے، لہذا آپ بتایئے کہ سادگی کا معیار کیا ہے؟ اگر آپ نے ہر ایک کو اپنے اپنے اسٹانڈرڈ کے مطابق سادگی اختیار کرنے کا اختیار دیا تو آپ وہی چور دروازے کھول کر دے رہے ہیں جس کی وجہ سے شادیاں آج ناممکن ہوگئی ہیں۔ آپ صاف صاف  یہ کیوں نہیں کہہ ڈالتے کہ ولیمہ میں  سادگی کا معیار صرف رسول اللہ ﷺ یا حضرت علیؓ کا ولیمہ ہے یا پھر عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا،  جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دعوت بھی نہیں دی، جس سے ثابت ہوا کہ ولیمہ میں بڑے بڑے لوگوں کو بلانا قطعی ضروری نہیں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لکھ کر دے گا کہ وہ دولت کی نمائش نہیں کررہا ہے؟ شادی ہال اور کتنے ڈِش رکھے گئے یہ ثبوت ہے دولت کی نمائش کا۔ اب ایسی دعوت میں علما ہوں کہ دوسرے، جائیں گے یا نہیں؟ اگر جائیں گے تو پھر اس عہد5 کا لینا ہی بے کار ہے، کیونکہ آ ج کے دور کے چلن کے پیشِ نظر آپ شادی خانوں اور کئی کئی ڈِش کے کھانوں کو جائز کرتے ہیں، اور ان میں شرکت کرتے ہیں تو یہ اقرار نامے کے اثر کو مکمل ختم کردیتا ہے۔ 

عہد نمبر 6 میں آپ یہ اقرار کروارہے  ہیں کہ خلافِ شریعت دعوت ہو تو آپ اظہارِ ناپسندیدگی کریں گے۔ لیکن کس طرح؟ کیا منہ پُھلا کر؟ بات چیت بند کرکے؟ جب نبی ﷺ نے ایسے منکرات سے کس طرح کا رویہ رکھنا ہے یہ طریقہ بتادیا ہے  تو آپ سیدھے سیدھے وہی طریقہ کیوں پیش نہیں کرتے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمادیا کہ جب تم برائی کو دیکھو تو پہلے ہاتھ سے روکو، یا زبان سے یا پھر دل سے نفرت کرو۔ یعنی بائیکاٹ کرو۔  لہذا اظہارِ ناپسندیدگی بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں، جس وقت دعوت نامہ آئے،  اسی وقت ان سے معذرت کرلیں۔ یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔  لیکن یہاں پر علما حضرات ہی رشتہ داروں کے حقوق، صلہ رحمی اور قطع رحمی کی حدیثیں لاکر بائیکاٹ کے حکم کو موقوف کردیتے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری، درمختار اور فتاویٰ نذیریہ اور فتاویٰ رضویہ کے فتوے دکھاتے ہیں۔

ایسی دعوتوں میں شرکت کیوں حرام ہے جہاں جہیز یاکھانے ہوں، لڑکی والوں کی طرف سے خرچ کیا جارہا ہو، ان کے حرام ہونے کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری اور در مختار کو لکھے گئے 370 سال ہوچکے۔ فتاویٰ نذیریہ یا رضویہ کو لکھے گئے 150 سال ہوچکے۔ فتوے یا اجماع وقت اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں، یہ فقہ کا اصول ہے۔ اس زمانے میں یہ چلن تھا ہوگا کہ جو بھی کھانا یا جہیز دے دے لے لیا جاتا، اگر کوئی نہیں دیتا تو کوئی برانہیں مانتا۔ لیکن آج 2020s  کا دور ہے۔ اب جہیز اورکھانے کے بغیر 99% شادیاں ناممکن ہیں۔ اب پرانے فتوے اور اجماع شادیوں کے معاملے میں نہیں چل سکتے۔ آج جہیز اور کھانے ایک ایسی رشوت ہیں جس کے دیئے بغیر شادی ناممکن ہے، اس لئے یہ حرام ہیں۔ 

اس کے علاوہ یہ بھیک ہیں، فتنہ ہیں، سوشیل بلیک ہیں، غیرقوم کی نقل ہیں، تبذیر ہیں، قرآن کے حکم کے خلاف ہیں، ان میں لالچ، شان، دکھاوا اور تفاخر کے پورے پورے عناصر موجود ہیں، پھر ان میں شرک اور بدعت کے پورے امکانات موجود ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں جو علما نہیں جانتے۔ اس کے باوجود ایسی چیزوں کو حرام، بدعت یا شرک  کے برابر کہنے سے گریز کرناشریعت سے انحراف ہے۔

عہد نمبر 8 میں یہ اقرار لیا گیا کہ نوجوان سادگی سے کم خرچ پر شادی کریں گے اور کسی بھی قسم کے بیرونی دباو کو قبول نہیں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ بیرونی دباو تو اس وقت ہوتا ہے جب نوجوان جہیز اور کھانے لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ لیکن جب سارے مسلکوں کے علما نے کہا ہے، بار بار کہا ہے کہ اگر جہیز اورکھانے خوشی سے دیئے جائیں تو جائز ہیں، تو 90% نوجوان تو ویسے ہی چپ ہوجاتے ہیں۔ پہلے آپ خوشی سے لینا ناجائز اور رشوت کی طرح حرام ہے یہ واضح طور پر کہئے، تب یہ عہد کسی کام کا ہے ورنہ ایک رسمی عہد سے زیادہ کچھ نہیں۔ 

اب کچھ قراردادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ چونکہ جہیز اورکھانوں کی لعنت کے فروغ کے ذمہ دار سب سے پہلے علما اور مشائخین ہیں، اگر یہ لوگ ان دعوتوں میں شریک ہونا بند کرتے، اپنے شاگردوں اور مریدوں کو امر بالمعروف کے طور پر یہ کہتے کہ جو بھی نبیﷺ کے طریقے پر شادی نہیں کرے گا ہم نہ اس آدمی کی شکل دیکھیں گے، نہ اس کی دعوت میں شریک ہوں گے، نہ اس کو اپنی جماعت میں رکھیں گے اور نہ بیعت میں، تو آج امت مسلمہ کی حالت کچھ اور ہوتی۔آج اِ ن شادیوں کی وجہ سے پوری قوم اخلاقی طور پر بھی اور مالی طور پر بھی مکمل دیوالیہ ہوچکی ہے۔ کل آنے والی نسلوں کے پاس اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے جب کچھ نہیں ہوگا تو ہر محلے میں کتنی عائشائیں ہوں گی اور کتنی غیروں کے ساتھ بھاگ جانے والی ہوں گی، لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ اگر اقرار لینا ہی ہے تو سب سے پہلے ان تمام علما، مفتیوں، مسجد کمیٹیوں کے ذمہ داروں، اماموں، حافظوں اور خطیبوں سے لینا ہوگا جن کی وجہ سے ہر شخص کہہ رہا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جواِن کو چندہ دینے والے ہر شخص کی ہر دعوت میں شریک رہتے ہیں اور اپنے گھروں کی شادیوں میں سارے ان رسومات کو انجام دیتے ہیں جو تقریروں میں کہتے ہیں کہ جائز نہیں۔ ان سے یہ اقرار لیا جائے کہ ۱۔ آج کے بعد سے غیرشرعی شادی کرنے والے کی کسی دعوت میں نہیں جائیں گے۔ ۲۔ اب تک جتنی دعوتوں میں جاچکے ہیں، اس کی لوگوں سے معذرت کریں گے اور اللہ سے استغفار کرینگے۔ ۳۔ جو جہیز اورکھانے خود اپنے سسرالوں سے لے چکے ہیں وہ واپس کرینگے۔ ۴۔ اگر مہر ابھی تک اُدھار ہے تو فوری  ادا  کرینگے۔ اگر یہ اقرار نامہ عام لوگوں تک پہنچے گا تو گاؤں گاؤں شہر شہر جب یہ نکاح کو آسان بنانے والا قافلہ پہنچے گا تو اس کا استقبال کیا جائیگا۔ ورنہ اس تحریک کی تضحیک و تحقیر ہوگی۔ 

قرارداد نمبر2 میں خرافات و بدعات کو ختم کرنے اور باجے، پٹاخے، ڈی جے، مہنگے کارڈز، وغیرہ کو ختم کرنے کا اقرار کروایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بدعات اور خرافات کیا ہیں پہلے یہ واضح ہو۔  لوگ سمجھ رہے ہیں کہ باجے پٹاخوں وغیرہ کی بات ہورہی ہے۔اصل فتنہ جہیز اور کھانے ہیں، نہ کہ باجے یا پٹاخے۔ یہ ذیلی چیزیں ہیں۔ جس طرح میّت کے سر کے بال مونڈھنے سے میّت کا وزن کم نہیں ہوتا، اسی طرح یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں کم کرنے سے نکاح آسان نہیں ہوتا۔ پہلے جہیز، منگنی، بارات اور جوڑے کی رقم کا خاتمہ کریں پھر ذیلی چیزوں کی بات کریں۔ 

قرار داد 8 میں وہی خوشی سے دینے کی شکل کو آسان کردیا گیا۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ جس نکاح میں جہیز کا مطالبہ ہو جبری لین دین ہو، اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔سوال یہ ہے کہ اگر خوشی سے لین دین ہورہا ہے تو کیا جائز ہے؟  مانگ کر جبراً لینے والے بہتر ہیں یا خوشی سے لینے والے بہترہیں؟   مانگ کر لینے والے تو پھر بھی غنیمت ہیں کہ ان کی فہرست پوری کرکے ان سے جان چھڑائی جاسکتی ہے، لیکن یہ خوشی سے لینے والے وہ ہوتے ہیں جن کی نیت کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنے مال سے بھرے گی۔ شان سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں مانگا، لڑکی والوں نے خوشی سے دیا۔ لینے سے انکار نہیں کرتے، لیتے ضرور ہیں۔ پورے ہندوستان پاکستان میں کیا کوئی ایک شخص ایسا بتاسکتے ہیں جو یہ اقرار کرے کہ ہاں میں نے جبراً لیا ہے؟ ہر آدمی خوشی سے ہی لینے والا بھکاری ہے۔ اس لئے آپ اقرار یہ لیجئے کہ چاہے خوشی سے ہو یا جبراً، جہیز اورکھانے لڑکی والوں سے لینا ایک رشوت، فتنہ، غیرقوم کی نقل ہیں اس لئے حرام ہیں، ہم ہرگز نہیں لیں گے۔ 

قرارداد 23 میں پھر وہی کھانے کی بات دوہرائی گئی کہ لڑکی والوں پر کھانے کی دعوت پر زور نہ دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی لڑکی کے والد نے اگر کہہ دیا کہ میں کھانا بالکل نہیں کھلاؤں گا،تو کیا اس کی بیٹی کی شادی ہوگی؟ سوائے دو چار کے باقی ساری لڑکیاں بیٹھی رہیں گی۔ جب لڑکی والوں سے کھانا لینا شریعت میں جائز ہی نہیں تو یہ اقرار کیوں نہیں لیتے کہ ہم کھانا ہرگز نہیں لیں گے، اگر کھانا لینے پر اصرار کیا گیا تو ہم شادی کسی اورگھرمیں کرینگے؟ایک طرف آپ شریعت کا بھی لحاظ کررہے ہیں کہ زور نہیں ڈال رہے ہیں، دوسری طرف مشرکوں کی رسم کی اجازت بھی دے رہے ہیں کہ بغیر زور ڈالے کھانا کھلارہے ہیں تو ضرورکھالو۔ گویا گوشت مت ڈالو، جو بوٹی آرہی ہے آنے دو۔ اس کے بجائے آپ یہ عہد لیجئے کہ جس دعوت نامے میں لڑکی والوں سے کھانا لیا جارہا ہے ہم وہ دعوت نامہ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ نکاح کا کھانا خود پتہ دیتا ہے کہ جس شخص نے کئی لاکھ کا کھانا دیا ہوگا اس کو لازماً منگنی کا کھانا، جہیز، ہنڈا بھی دینا پڑا ہوگا۔اور ہوسکتا ہے لڑکی کے والدین سے پہلی زچگی کا خرچہ بھی لیا جائے گا۔ 

یہ تھیں وہ خامیاں جو نکاح کو آسان بنانے کی مہم کوبے اثر بناسکتی ہیں۔ اس سے جہیز اورکھانوں کی لعنت ختم نہیں ہوگی بلکہ اور مضبوط ہوگی۔ پہلے لوگ ایک شرمندگی کے احساس کے ساتھ کرتے تھے، اب آپ کی ہدایات کی روشنی میں کھل کر کرینگے۔ایک درخواست قارئین سے یہ ہے کہ اس تحریر کو مسلک اور سلسلہ کے تعصب سے بالا ہوکر سمجھنے کی کوشش کریں۔اسی مضمون کی ویڈیو پچھلے ہفتہ ریلیز ہوئی تو لوگوں نے بات حق ہے یا نہیں اس پر کوئی بحث نہیں کی۔ صرف اس نکتہ پر گالی گلوج کرنے لگے کہ ان کے علما اور مشائخین پر تنقید کیوں کی گئی۔ تنقید ضرور ہو لیکن جو بات کہی گئی ہے اس پر، نہ کہ اس بات پر کہ ان کے مسلک کے  علما پر تنقید کیوں کی گئی۔ 

بیاں میں نکتہئ ِ  توحید  آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیئے


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 7386340883


 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...