ہفتہ، 24 جولائی، 2021

کیرالا حکومت کا اقدام ہمارے علما و مشائخین کے لئے ایک عبرت کا تازیانہ


 

            چیف منسٹر کیرالا نے جہیز کو روکنے کے لئے جو فیصلہ لیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ انہوں نے کسی بھی کالج میں ایڈمیشن کے لئے ایک بانڈ پر دستخط کو لازم کردیا ہے جس کے ذریعے اگر طلبا نے تعلیم کے بعد شادی کے موقع پر جہیز لیا تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے۔ اس پر عمل آوری کتنی ہوگی ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن یہ اقدام کم از کم اُس قوم کیلئے ایک سبق بلکہ عبرت ہے، جس قوم کی شریعت میں جہیزکو معیوب یا مکروہ ہی نہیں بلکہ ”حرام“ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اُس قوم نے اس حرام کو روکنے کے لئے آج تک سوائے تقریوں، وعظ اور خطبوں کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ جن لوگوں نے عملی اقدام کئے ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر تنقیدیں کیں۔

            مسلم پرسنل لا بورڈ اور  دوسرے کئی متحرک علما نے عائشہ کی خودکشی کے بعد اگرچہ کہ جہیز کے خلاف خوب مہم چلائی، لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ سے زیادہ ثابت نہیں ہوا، کیونکہ وہ  شادیوں میں فضول خرچیوں کو ناجائز ضرور بولتے رہے لیکن ایسی شادیوں میں شرکت کو ناجائز بولنے سے گریز کرتے رہے۔ یعنی شراب کو حرام قرار دیتے رہے، لیکن پینے پر روک نہیں لگا سکے،  گویا پینے والوں کو سمجھانے کے لئے جاکر ایک دو گھونٹ ان کے ساتھ  پی کر سمجھانے کی پالیسی پر عمل کرتے رہے۔

            کیرالا سے پہلے بہار وغیرہ میں بھی اگرچہ کہ جہیز کے خلاف روک لگائی گئی، لیکن کیرالا کا یہ اقدام سب کے لئے قابلِ تقلید ہے۔ کیونکہ اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ نوجوانوں  ہی کے ذریعے آسکتی ہے۔ جہیز کا معاملہ جب تک والدین اور بزرگوں کے ہاتھوں میں رہے گا، لڑکے اور لڑکیوں کی بولیاں لگتی رہیں گی۔ نوجوان نسل بزرگوں کے رسم و رواج پر بلی چڑھتے رہے گی۔ چیف منسٹر کیرالا کے اقدام سے ہمیں یہ زبردست نکتہ ملتا ہے کہ اگر مدارس میں حفظ، مولوی، کامل، عالم یا فاضل میں داخلے سے پہلے ہی اگر ان سے یہ عہد لیا جائے کہ جہاں وہ دوسری سنتوں جیسے داڑھی، ٹوپی، عمامے وغیرہ، اور دوسرے فرائض جیسے نماز، روزہ وغیرہ کی پابندی کریں گے ویسے ہی نکاح جو کہ اِس دور کی سب سے نازک بلکہ ہتھیلی میں انگارہ رکھنے والی سنتوں میں سے ایک ہے، جہاد سے کم نہیں ہے، اس سنت کو چاہے دوسرے لوگ عمل کریں نہ کریں، یہ دینی علوم حاصل کرنے والے ہر قیمت پر عمل کریں گے۔ جس طرح کسی کے زبردستی کرنے پرشراب، سود یا خنزیر کا گوشت جائز نہیں ہوجاتا، اسی طرح لڑکی والوں کے اصرار کرنے پر جہیز یا کھانے بھی جائز نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ عہدِ حاضر کی تہذیب کی یہ ایک مہذ ب بھیک، رشوت، فتنہ اور غیرقوم کی نقل ہے۔ ورنہ جہاں یہ دینی طبقہ جہیز لینے کا مرتکب ہوتا ہے، یا ایسی شادیوں میں جاکر پہلے دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہے، وہیں عوام کو اُن سے اِن خرافات کے جائز ہونے کی تصدیق مل جاتی ہے۔

 

 

            بعض لوگ یہ حیلہ پیش کرتے ہیں کہ مدارس سے نکلنے والوں کی تعداد تو تین فیصد ہے، اور مشائخین تو بمشکل.5% 0ہیں۔ بجائے ساڑھے تین فیصد لوگوں پر تنقید کرنے کے، لاکھوں ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے  پیشوں کے لوگ جو 96.5% ہیں،جو خوب جہیز اور کھانے وصول کرتے ہیں، آپ جاکر اُن سے کیوں نہیں کہتے؟ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر برائی پرتنقید کیلئے لوگوں کی انگلیاں پہلے  علما اور مشائخین پر ہی کیوں  اٹھتی ہیں۔ یہ بات یہاں پر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اسلام کے ہندوستان میں داخل ہونے سے قبل ہم تمام کے آباواجداد بدھسٹ، جین، ہندو یا پھر دراوڑین ہی تھے۔ ان سب ادیان میں جو ایک قدرِ مشترک تھی وہ پنڈت پرستی تھی۔ ایک اعلیٰ ذات ان تمام کے ذہنوں پر حکومت کرتی تھی۔ دھرم سے تو کوئی بھی واقف نہیں تھا لیکن جو پنڈت کہہ دے، اسی کو دھرم مان لیتے تھے۔ ہمارے پُرکھوں نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن ذہنوں سے وہ پنڈت پرستی صدیوں سے آج بھی چلی آرہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے پنڈت کی جگہ مولوی اور مرشد کو دے دی ہے۔ اکثریت کے عقائد، رسم و رواج، حلال و حرام کے پیمانے وہی ہیں جو جمعہ کے خطبوں، وعظوں، جلسوں اور دین کے نام پر ہونے والی مجلسوں میں بیان ہوتے ہیں۔ اور ان تمام مقامات پر اجارہ داری اسی طبقے کی ہے جو 3.5%  ہے۔ اس لئے ڈاکٹروں یا انجینئروں سے پہلے اِس طبقہ کے عقائد، رسم ورواج اور حلال و حرام کے پیمانے درست کرنے ضروری ہیں۔ یہ لوگ 2020s کے مسائل کو بھی امام ابوحنیفہؒ اور ابن تیمیہ ؒ کے زمانے کے فتوؤں سے نکال کرحل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ مسائل بالکل بدل چکے ہیں۔ شریعت کا منشا جاننا قدیم فتوے جاننے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ وقت، مقام اور حالات کے لحاط سے کئی مسائل ایسے ہیں جو بدل جاتے ہیں۔ لیکن آج بھی انہی علما اور مفتیوں کی کثرت ہے جو خوشی سے جہیز لینے اور دینے کو جائز کہتے ہیں، منگنی اور شادی کے دن کے کھانوں کی بدعت کو اپنے خاندان کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی  جائز کرتے ہیں، اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اُدھار مہر سنت سے ثابت ہی نہیں۔ یہ واجب ہے اور نقد مہر کے بغیر نکاح ہوتا ہی نہیں۔ لیکن کسی نہ کسی گمنام صحابیؓ کے ادھار مہر کے واقعہ کو مثال بنا کر رسول اللہ اور معروف صحابہؓ اور خلفاءِ راشدین کی مثالوں کو نظرانداز کرڈالتے ہیں۔

            یہ وجہ ہے کہ ہم جہیز کے معاملے میں ہونے والے پورے بگاڑ کی ذمہ داری صرف دینی طبقہ پر ڈالتے ہیں جن میں علماء اور مشائخین ہی سرِ فہرست ہیں۔ انہی کے پیچھے قوم چلتی ہے۔ انہی کی کہی ہوئی باتوں کو لوگ شریعت سمجھتے ہیں، اور یہ جہاں جہاں نظر آئیں ان جگہوں کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ ایک بار ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اور امر بالمعروف کی تلقین کررہے تھے۔ فرمایا کہ بنی اسرائیل کے علما بھی امر بالمعروف کرتے تھے۔ لیکن جب دیکھتے کہ لوگ ان کی باتیں سننے تیار نہیں تو پھر یہ بھی انہی کے ساتھ کھانے  پینے، اٹھنے بیٹھنے لگتے، یعنی جو اکثریت کرتی، مجبوری کہہ کر یہ بھی وہی کرنے لگتے۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ یہ کہتے ہوئے پیٹھ سیدھی کرکے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ”خبردار، تم لوگ ایسانہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم دعائیں کرتے رہو، اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو رد کردے“۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ انسانی فطرت ہوتی ہے جو کہ قرآن میں بھی بیان ہوئی ہے ’اتّخذو اھبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ“۔ یعنی لیڈروں اور مرشدوں یا علما کو یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر اپنا رہنما بنالیتے تھے اور جس چیز کو وہ حلال کہیں اسی کو حلال کرتے اور وہ جس چیز کو حرام کہیں اسی کو حرام مان لیتے تھے۔ آج ہم بھی یہی کررہے ہیں۔ ہر مسلک میں ایسے علما پیدا ہوگئے ہیں جو یوٹیوب کے ذریعے ایسی ویڈیوز پھیلارہے ہیں جس میں کہا جارہا ہے کہ اپنے مسلک کے علما کے علاوہ کسی اور بات سننے سے گمراہ ہوجاوگے، اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خود انہی کے مسلک کے کیوں نہ ہوں، اگر اسپیکر عالم نہیں ہے تو اس کی تقریر سننا بھی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دن بہ دن لوگ تنگ ذہن ہوتے جارہے ہیں۔

 تمام سنتوں میں نکاح سب سے بڑی سنت اسی لئے کہ کہ اس سے پوری قوم کی اکنامی اور اخلاقیات جڑی ہوئی ہے۔ ایک بیٹی کی شادی میں پورا خاندان  معاشی طور پر جتنے سال پیچھے ہوجاتاہے، اس کی پابجائی کرنے کے لئے اسی گھر کا بیٹا جب خود شادی کرتا ہے تو کسی دوسرے گھر کو معاشی طور پر کئی سال پیچھے کرڈالتا ہے۔ اس طرح ہم سب ایک دوسرے کو منگنی، کھانوں، جہیز اور جوڑے کی رقم، پھر اس کے بعد پہلی زچگی کے خرچ کے لزومات کی وجہ سے ننگے کرڈالتے ہیں۔

 

            التماس ہے کہ مدرسوں کے طلبا جو کل منبر و محراب کے ذریعے یا پھر مشائخ بن جائیں تو بیعت کے ذریعے لوگوں کے عقائد اور اعمال کی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں، ان طلبا سے یہ عہد لے کر ہی داخلہ دیا جائے کہ وہ نکاح کو ہرگز مشرکوں کے طریقے پر نہیں کرینگے، اور کسی بھی ایسی شادی کی دعوت ہرگز قبول نہیں کریں گے جس میں غیرشرعی رسومات ہوں۔ اپنی شادی مکمل نبی کے طریقے پر کرینگے، اور تقریروں اور خطبوں میں صرف اور صرف اسی طریقے پر کرنے کی تلقین کرینگے۔ مگر یاد رہے یہ تقریریں کوئی نئی نہیں ہیں۔ جو عالم یا مرشد نہیں ہیں وہ بھی اس موضوع پر خوب شعلہ بیانی کررہے ہیں۔ اصل حکم یہ ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جو شادی نبی کے طریقے پر نہ ہو، جس شادی میں منگنی، کھانا اور جہیز اور جوڑے کی رقم لڑکی  والوں سے خوشی سے دینے کے نام پر لی جارہی ہو۔ گیارہ ہزار مہر باندھ کر گیارہ لاکھ خرچ کروائے جارہے ہوں، یا لڑکی والے خود سنت سے انحراف کرکے اپنی خوشی سے خرچ کررہے ہوں، جس شادی میں مہر نقد ادا نہیں کیا جارہا ہو، کیا اس شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا جائز ہے؟ کیا اس شادی میں چاہے وہ کتنے ہی قریبی عزیز کی کیوں نہ ہو، شرکت کرنا اور کھانا جائز ہے؟ سوائے چند علمائے حق کے کوئی اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتے، لیکن نکاح کے منشائے شریعت کے پیش نظر، ایسی شادیوں میں شرکت کیوں ناجائز ہے، یہ لوگوں کو بتایا جائے۔ اس سلسلے میں جتنے بھی علمائے حق ہیں جن میں بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث علما شامل ہیں، ہم ان کے فتوے آپ تک پہنچا سکتے ہیں۔ 

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

+91 9642571721

            

اتوار، 18 جولائی، 2021

ایڈوکیٹ حضرات ۔ کیا کرنا تھا اور کیا کررہے ہیں؟


 

                 دانشوروں کے ایک اجلاس میں شرکت کا اتفاق ہوا  جہاں ملک کے نامور وکیلوں کو جمع کیا گیا تھا۔ عہدِ حاضر میں ایڈوکیٹس حضرات کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ دورِ حاضر میں جبکہ فاشزم اور ڈکٹیٹرشِپ کا عروج ہے، عام شہری قدم قدم پر ناانصافی اور امتیازات کا شکار ہیں، امن و سلامتی کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سوائے قانون کے ہتھیار کو استعمال کرنے کے بے بس عوام کے پاس کچھ نہیں۔ یہ کام صرف ایڈوکیٹس کرسکتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت جو خود فرقہ پرست حکومت کے تحت کام کرنے والے قانونی ادارے چاہے وہ عدالتیں ہوں کہ پولیس، اس کو روکنے کے لئے ایڈوکیٹس ہی امید کی آخری کرن ہیں، کیونکہ یہ قانون جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ وہاں وکیل جیسے اعلیٰ اور دانشور طبقے کے افراد بھی قوم کو وہی مشورے دے رہے تھے جو عام ڈاکٹرز، علماء اور یونیورسٹی کے سیمینارز یا عوامی جلسوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے ایجوکیشن اور دینی تعلیم کی اہمیت، جہیز، بیروزگاری، غریبوں میں راشن کِٹس کی تقسیم اور فیملی کونسلنگ وغیرہ۔

            جن لوگوں سے آپ دانشوری کی امید رکھ کر جائیں،اور یہ توقع کریں کہ آج کے اس بدترین سیاسی، سماجی اور معاشی انحظاط کے دور میں ان  دانشوروں کے کسی عملی کام میں شریک ہوجانے کا موقع ملے گا، مگر آپ کو  اگر صرف ایسے مشورے ملیں جو کسی بھی عام آدمی سے چائے یا پان کی دوکان پر بھی مل سکتے ہیں، تو بتایئے کیا کوفت نہیں ہوگی؟ دشمن اس وقت کلاشنکوف لے کر ہر طرف سے گولیاں برسارہا ہے اور قوم کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، روشن خیال طبقہ کلاشنکوف کا مقابلہ غلیل یا جھاڑو سے کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔

            ہمیں سب سے زیادہ حیرت ایڈوکیٹ حضرات کی سوچ پر ہوئی۔ظاہر ہے اِن میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ایڈوکیٹ جو اپنے پیشے میں خوب نام اور دولت کما چکے۔ ان کے پاس نہ ایسی میٹنگس میں آنے کے لئے وقت ہے اور نہ وہ قوم کے لئے کوئی مقدمہ مفت لڑنے تیار ہیں۔ دوسرے وہ ایڈوکیٹس جن کے پاس قوم کے لئے بے انتہا درد ہے، اور خدمتِ خلق کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ دونوں قسم کے ایڈوکیٹ حضرات سے ایک سوال ہے کہ  اِس وقت آپ کو  کیا کرنا چاہئے تھا اورآپ  لوگ کیا کررہے ہیں۔ جس طرح کرونا کی آزمائش میں ڈاکٹرز نے اپنی جانوں کی بازی لگا کر کئی زندگیاں بچائیں، علماء جس طرح مسلسل اصلاحِ معاشرہ کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، آپ کیا کررہے ہیں؟  آپ کی اِس دور میں سب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قانون کے ہی محافظوں کے ہاتھوں لاقانونیت کا شکار ہونے والے معصوم لوگوں کی مدد کے لئے محلے کے پولیس اسٹیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک دھوم مچاتے، اور پولیس والے ہوں کہ جج یاجسٹس، انہیں ان کی اوقات یاد دلاتے کہ وہ پبلک سرونٹ ہیں، نہ کہ قانون کے مالک۔ جس طرح ایک معمولی پولیس والا آپ کی گاڑی روک کر یا ایک کلرک آپ کی فائل روک کر پوری دادا گری کے ساتھ رشوت وصول کرتا ہے، وہ اس لئے یہ ہمت کرتا ہے کہ کوئی اس کے خلاف ایکشن لینا نہیں چاہتا، سارے لوگ دیکھ کر خاموش رہتے ہیں، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ ان کا کام نہ رک جائے۔ بس اسی خوف کا فائدہ اٹھا کر چاہے کوئی پولیس والا ہو، جج ہو، یوگی ہو کہ مودی، سارے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جب چاہے جس پر مقدمات دائر کروادیئے، جس کا چاہے مکان منہدم کروادیا، جس کو چاہے انکاؤنٹر کروادیا اور جس کو چاہے دہشت گرد اور غدّار قرار دے دیا۔ دوسرے تمام پیشوں کے لوگوں کے ڈر  یا کم ہمتی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ قانون سے واقف نہیں، لیکن ایڈوکیٹ حضرات جو قانون جانتے ہیں، لیکن قانون کا ان کے سامنے قتل ہورہا ہے، وہ آواز اٹھانے تیار نہیں۔ غریبوں میں راشن کی تقسیم، بنیادی تعلیم، حیا کی تربیت، روزگار وغیرہ بہت اہم شعبے ہیں، لیکن یہ شعبے آپ کے نہیں۔ اِن کاموں کو کرنے کے لئے اور لوگ ہیں جو بہت خوبی سے یہ کام کررہے ہیں۔ آپ کے کرنے کا کام یہ تھا کہ اسلام کا وہ اہم ترین حکم جو آپ سے بہتر کوئی اور ادا نہیں کرسکتا، آپ نے اسے پورا کرنا تھا یعنی عدل یعنی انصاف کا قائم کرنا۔ انصاف قائم کرنے والوں کو قرآن نے اللہ کا مددگار کہا ہے (سورہ حدید آیت 25)۔ ایک حدیث کے مطابق قیامت سے قبل سب سے پہلے عدل اٹھالیا جائیگا، آخری میں نماز۔ عدل یا انصاف کا تصوّر اس دور میں بہت ہی چھوٹا ہے۔ کیونکہ صدیوں سے جو دینی، علمی اور عملی انحطاط واقع ہوچکا ہے،اس کے نتیجے میں پورا دین ہی چند انفرادی اعمال اور کچھ اجتماعی عبادات میں سکڑ گیا ہے۔انصاف قائم کرنے کی بات جب منبر سے بھی ہوتی ہے وہ خاندان میں، وراثت میں اور آپسی معاملات میں کیسے انصاف کریں، یہ بتایا جاتا کہ اور بالخصوص ساس بہو، طلاق یا خلع وغیرہ کے جھگڑوں میں عام طور پر لفظ انصاف کا استعمال ہوتا ہے۔ حالانکہ عدل کا تعلق پہلے حکومت، سیاست اور معیشت سے ہے۔ یہاں اتنا موقع نہیں کہ ہم تفصیل میں جائیں۔ مختصر یہ اسلام پہلے انصاف قائم کرنے، مساوات، انسانی حقوق، امتیازات کے خاتمے، قیصروکسریٰ جیسے شہنشاہوں کی دولت چھین کر عوامی خزانے میں داخل کرنے، اپنے عہدوں اور اختیارات کا استحصال کرکے کمزوروں پر ڈکٹیٹرشپ کرنے والوں کا خاتمہ کرنے آیا ہے۔ اس کا طریقہ ہر دور میں الگ رہا ہے، اِس دور میں اس کا طریقہ یہی ہے کہ قانون ہی کے ذریعے قانون کی حفاظت کی جائے، اور قانون کو ہی اپنے ہاتھوں میں لینے والے قانون کے محافظوں کے ہاتھ کاتے جائیں۔ یہ کام کسی اور پیشے کا آدمی نہیں کرسکتا، صرف قانون جاننے والا ہی کرسکتا ہے۔آج آپ کو قوم کے لئے ایک سر سید بن کر لوث، بے غرض اور بلا معاوضہ خدمت کے لئے اٹھنا ہے۔  جس طریقے سے فاشسٹ ہر روز نئے نئے قانون لارہے ہیں، یقینا یہ سب آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ ساری سازشیں آپ کی ملت کو تہذیبی طور پر تباہ کرکے آپ کی شناخت کو مٹا کر آپ کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ناپاک کوشیشیں ہورہی ہیں۔ یقینا یہ سب دیکھ کر آپ کا بھی خون کھولتا ہوگا۔ لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ آپ کا ردعمل بھی اسی عام آدمی کی طرح رہتا ہے جو صرف میسیجس کو فارورڈ کرتا ہے، بہت ہوا تو سوشیل میڈیا پر کچھ جملے لکھ ڈالتا ہے۔ جن مقدمات سے آپ کو آمدنی ہوتی ہے ان کے لئے تو آپ اپنی پوری پوری ذہانت اور محنت جھونک دیتے ہیں، لیکن قوم کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، جن کی پیروی کے لئے آپ کو سرسید کی طرح بے لوث اور بے غرض ہوکر اپنی زندگی وقف کردینی چاہئے، وہاں آپ صرف زبانی جمع خرچ کرکے اپنی دانشوری ثابت کرتے ہیں۔

            ہر شہر میں کچھ وکیل مل کر ایک ایک ایسی تنظیم بناسکتے ہیں، جو قوم کے لئے اپنے وقت اور مال کا کچھ حصہ وقف کرکے قانونی طور پر ملت کا تحفظ کرکے ذہنوں میں جو لاچارگی، بے بسی اور مایوسی گھر کر چکی ہے، اس کو ختم کرسکتے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کا قانون جب تک سلامت ہے، ایک بہترین قانون ہے۔ ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی دیتا ہے، لیکن اس کو استعمال کرکے قوم کو فائدہ پہنچانے والے کوئی نہیں۔  ایک طرف من مانے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ معمولی کانسٹبل آکر منتظمین کو ڈرا رہا ہے۔ مسجدوں کے منتظمین کو کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت دینے پر پابندی ہے۔ آرٹیکل 19 کے ذریعے آپ پولیس کو چیلنج کرسکتے ہیں جو ہر قسم          ہر شہر میں کچھ وکیل مل کر ایک ایک ایسی تنظیم بناسکتے ہیں، جو قوم کے لئے اپنے وقت اور مال کا کچھ حصہ وقف کرکے قانونی طور پر ملت کا تحفظ کرکے ذہنوں میں جو لاچارگی، بے بسی اور مایوسی گھر کر چکی ہے، اس کو ختم کرسکتے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کا قانون جب تک سلامت ہے، ایک بہترین قانون ہے۔ ہر شہری کو مکمل حقوق اور آزادی دیتا ہے، لیکن اس کو استعمال کرکے قوم کو فائدہ پہنچانے والے کوئی نہیں۔  ایک طرف من مانے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ معمولی کانسٹبل آکر منتظمین کو ڈرا رہا ہے۔ مسجدوں کے منتظمین کو کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت دینے پر پابندی ہے۔ آرٹیکل 19 کے ذریعے آپ پولیس کو چیلنج کرسکتے ہیں جو ہر قسم کی میٹنگ اور اجتماع پر لا اینڈ آرڈر کا بہانہ کرکے روک  لگارہی ہے یہ Freedom of Speech کے بالکل خلاف ہے۔اس  کے علاوہ آرٹیکل 22، میں Protection against Arrrests & Detentionکے تحت کسی بھی قسم کی گرفتاری کے خلاف ضمانت دی گئی ہے، لیکن محض ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے نوجوانوں کو گھنٹوں روک لیا جاتا ہے۔ ایسے کئی مظلوم لوگ ہیں جن  پرجرم  ثابت کئے بغیر انہیں کئی کئی سال جیلوں میں رکھا گیا۔ آرٹیکل 21 کے تحت Right to Lifeمیں کئی اہم حقوق دیئے گئے ہیں لیکن جو طاقت اور پہنچ رکھتے ہیں وہی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، باقی جن کو علم نہیں وہ ایک خوفزدہ زندگی گزاررہے ہیں۔ آپ لوگ PIL کی بھرمار کرسکتے ہیں۔

            ایک اہم بات یہ عرض کرنی ضروری ہے کہ چونکہ دین میں اجتماعیت یعنی اجتماعی طاقت کو مضبوط کرنے کی سختی سے تاکید کی کئی ہے۔ اس کی اہمیت یہاں تک حدیث میں آچکی ہے کہ اگر دو لوگ بھی سفر کررہے ہوں تو کسی ایک کو امیر بنالو، تاکہ سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ شورائیت یعنی مشورہ ہو۔ اپنی اپنی جگہ ہر شخص دانشور اور لیڈر ہوتا ہے۔ لیکن اگر پچاس سمجھدار لوگ ہوں، اور پچاس کے پچاس لیڈر بن جائیں، کوئی والنٹئر نہ رہے تو وہ جماعت کبھی کام نہیں کرسکتی۔ اس وقت قوم کا سانحہ یہی ہے کہ سارے قیادت کرنا چاہتے ہیں۔ اجتماعیت کے احکام کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں دشمن کو آپ کی طاقت کو کمزور کرڈالنے کی آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ چونکہ قانون ہی اِس وقت انصاف کو حاصل کرنے اور اپنے اختیارات کا مجرمانہ استحصال کرنے والوں کے خلاف عام شہریوں کو زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے، اس لحاظ سے ایڈوکیٹ حضرات اِس وقت ملت کے لئے آکسیجن کا کام کرسکتے ہیں۔ ہر جماعت کو ان کی طاقت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ حضرات کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ جڑ جائیں جو کہ رسول اللہ کا حکم ہے، تو ہر جماعت طاقتور ہوسکتی ہے۔ ایسی جماعتیں جو صرف مذہب اور مسلک کی ترویج کے لئے کام کررہی ہیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں، ان میں نئے نئے کارکنان کی تعدا د میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے، لیکن وہ جماعتیں جو امتیازات، لاقانونیت، عدم مساوات، فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف اٹھی ہیں۔ لوگ ان کا ساتھ دینے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ سورہ نسا آیت77 میں ایک ایسی ہی سچویشن کا حال بیان کیا گیا ہے کہ کیا تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا کہ نماز، اور زکوٰۃ قائم کرو اور جہاد سے ابھی اپنے ہاتھ باندھے رکھو، کیونکہ یہی لوگ تھے جب ان پر ظلم ہوتا تھا تو مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جائے، لیکن جب ان پر قتال کا حکم آگیا تو ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ابھی اس کی کیا ضرورت تھی، کیا کچھ دن اور ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ نماز، روزے، عمرے اور تراویح چلتے رہیں، یہ خود اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے نہ گھروں سے نکلنا چاہتے ہیں اور نہ آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خوف گھر کرجانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجدوں اور بازاروں میں مخبر اتنی بڑی تعداد میں پھیلا دیئے گئے ہیں کہ یہ لوگ انصاف کے لئے اٹھنے والی جماعتوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ جاکر پہلے فرقہ پرست فاشسٹ حکمرانوں سے Conduct سرٹیفکٹ لاکر پہلے پیش کریں۔ یعنی موہن بھاگوت اور یوگی کہیں کہ ہاں فلاں فلاں جماعت بہت اچھی جماعت ہے، ان کا ساتھ دیجئے، تب یہ ان کا ضرور ساتھ دینے شاید آگے آئیں گے۔ آپ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے دلوں سے خوف دور کرنے کے لئے ایسی جماعتوں کا ساتھ دیں جن کے پاس Mass strength ہے، تبھی وہ جماعتیں ملک میں قانون، امن اور سلامتی لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاپولر فرنٹ نے ایک نومسلم لڑکی ہادیہ کا سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا، اور مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی، مولانا محمود مدنی جمؑیعۃ العلما کی جانب سے کئی معصوم لوگوں کے مقدمات لڑرہے ہیں،جماعتِ اسلامی اور، اہل حدیث اور اہلِ سنت الجماعت کے کچھ گروپ بھی یہ کام کررہے ہیں۔آپ  صرف مشورے  دینے یا تبصرے کرنے کے بجائے عملی طور پر ایک کارکن کی حیثیت سے ان جماعتوں میں شامل ہوکر، قانونی شعبوں کی مکمل ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو ان جماعتوں میں بے شمار نوجوان بے خوف ہو کر شامل ہوسکتے ہیں اور اس ملک کے قانون کی حفاظت کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ ویسے یہ کام تو پولیس  اور عدالت کا ہے، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ یہ لوگ فسادات، مسجدوں کے انہدام، کمزور طبقات پر بڑی ذاتوں کے ظلم کے وقت کیا کرتے ہیں۔ ان کے پاس قانون کی کوئی اہمیت نہیں، اِن کے پاس سرکار کی مرضی اور اکثریت کی آستھا ہی قانون ہے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 9642571721 

بدھ، 7 جولائی، 2021

مساجد کی انتظامی کمیٹیاں۔۔۔۔خادم یا ڈکٹیٹر؟



معاشرے میں بڑھتے ہوئے دینی، اخلاقی اور معاشی زوال کو روکنے  اور افراد کی تربیت کرنے کے لئے اسلام نے ایک بہترین مرکز عطا کیا تھا، وہ تھا منبر جہاں سے جمعہ اور عیدین کے خطبے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اِس مرکز کی اہمیت اور افادیت فنا ہوچکی ہے۔  لفظ ”زوال“ پر شائد کچھ لوگ ناراض ہوں لیکن اِس کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا دیں کہ جمعہ کے خطبے سامعین سے بالکل خالی ہیں۔ لوگ  خطبہ سننا ہی نہیں چاہتے، جماعت کھڑی ہونے سے صرف دو چار منٹ پہلے مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری مسجدوں کی انتظامی کمیٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔یوں تو ہر شخص مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات سے ہر شخص بیزار ہے، اور اِس کا الزام علما کے سر ڈالا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کوجماعتوں،  مسلکوں اور فرقوں کا اکھاڑہ بنانے میں انتظامی کمیٹیاں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ 

مثالیں یوں تو کئی ہیں لیکن ہم یہاں صرف جمعہ کے خطبوں کے تعلق سے کچھ عرض کریں گے۔ خطبہ دینے والا صرف مدرسے کا فارغ ہو، عالم یا مفتی یا حافظ یا کم ازکم قاری ہو، ایسا ضروری نہیں ہے، لیکن کمیٹیوں نے یہ شرط عائد کرکے نہ صرف خطبہ کی افادیت کو ختم کردیا بلکہ سمجھدار تعلیم یافتہ اور دانشور طبقے کو مسجد سے بھی اور خطبوں سے بھی دور کردیا۔ منبر پر وہ لوگ قابض ہوگئے جن کے موضوعات بھی محدود، دنیاوی تعلیم اور تجربات بھی محدود اور سوچ اور IQ بھی محدود ہوتی ہے۔ اِن کے خطبات سے ایک شرعی حکم، رسمی طور پر تو پورا ہوجاتا ہے لیکن خطبہ کے پیچھے شریعت کا جو اصل منشا ہے وہ پورا نہیں ہوتا، بلکہ غارت ہوجاتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے کئی موقعوں کو خطبہ کے لئے استعمال فرمایا، جیسے جمعہ، عیدین، نکاح، نمازِ جنازہ، جنگ اور نزاعات وغیرہ۔ تمام خطبوں میں بحیثیتِ مجموعی،  آخرت کی مسلسل یاد دہانی اور حالات حاضرہ کے پس منظر میں لوگوں کو ہدایات دی جاتی تھیں۔ شائد اسی لئے فقہا نے خطبہ دینے کا اختیار پہلے حاکم کو، پھر گورنر کو اور پھر صاحبِ اختیار اور صاحبِ اثر کو دیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں یہی مصلحت پوشیدہ ہے کہ خطیب حالات کی بصیرت رکھنے والا ہو، اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان حالات میں صحیح رہنمائی کرنے والا ہو۔ آج قدم قدم پر ایک طرف جن سائنسی، اقتصادی، ٹکنالوجیکل اور ایجوکیشنل چیلنجس کا سامنا ہے تو دوسری طرف سماجی انصاف، بین مذہبی تعاون، حقوق اور قانون کے سنگین مسائل ہیں، ان  امور میں منبر سے  قوم کی رہنمائی کرنے  والے کے لئے لازمی ہے کہ وہ  جہاں قرآن و حدیث کی صحیح تعبیر سے واقف ہو، وہیں وہ سائنس، قانون، اکنامی، بنکنگ،  پولیٹیکل سائنس اور ٹکنالوجی سے بھی مکمل آشنائی رکھتا ہو۔ اِن میدانوں میں ہر روز واقع ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھتا ہو۔ لیکن آج کے خطیبوں کی اکثریت سوائے واٹس اپ یا فیس بک کے،  نہ کبھی کسی اخبار کا مطالعہ کرتی ہے اور نہ کسی رسالے، مقالے یا کتاب کا۔ مدرسوں کے نصاب میں 50% فقہ ہے۔ قرآن بمشکل 10%ہوتی ہے۔ باقی صرف و نحو، قصص الانبیاء، عربی لٹریچر، فارسی اور منطق وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ فقہ بھی وہ جس کا بیشتر حصہ کم از کم ہندوستان کے لئے غیرضروری ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ مدرسہ سے فارغ ہونے والوں کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیاجاتا ہے کہ قیادت کے منصبدار یہی ہیں، یہ شائد 1857 کی جنگِ آزادی میں علما کی شہادتوں کی وجہ سے مفروضہ قائم کرلیا گیا ہے، جبکہ عہدِ حاضر کی قیادت سکھانے والا کوئی ہنر یا کوئی مضمون نہ نصاب میں ہے، اور نہ سکھایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دعوت و تبلیغ جو کہ اسلام کی روح ہے، اس کے چند احادیث تو پڑھائی جاتی ہیں، لیکن اس میں کوئی تخصص کروایا جاتا ہے اور نہ عملی طور پر اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ یقینا علما، انبیا کے وارث ہیں۔ لیکن انبیا کا پہلا کام لوگوں کے بیچ جانا، اور دعوت دینا ہوتا تھا، اور اس کے نتیجے میں پتھر کھانا ہوتا تھا۔لیکن مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد سوائے بالمعاوضہ امامت، خطبہ، تراویح ور ٹیوشن  یا داعی کی نوکری کے،  یہ لوگ کسی دعوتی کام میں نظر نہیں آتے۔ اِن کے مقابلے میں کالج اور یونیورسٹی سے نکلنے والے ہندوپاک میں بھی اور امریکہ لندن میں بھی بلامعاوضہ دعوت کے سب سے زیادہ کام کررہے ہیں۔

کیمٹیاں والے یہ سمجھیں کہ قیادت کا وصف نہ مدرسہ کی عطا ہے اور نہ کسی دنیاوی ڈگری کی دین ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح یا اسد اویسی صاحب کے دادا مرحوم عبدالواحد اویسی پیشے سے  وکیل تھے۔ اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ وکالت کرنے سے قیادت کا وصف قدرتی طور پرپیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال ایک فلاسفی کے اسکالر تھے،حسرت موہانی ایک کامریڈ شاعر تھے،  مولانا عبدالماجد درآبادی ایک کامریڈ اور صحافی تھے، عمران خان ایک کرکٹر تھے، اسی طرح  سرسید احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، احمد دیدات،پاپولر فرنٹ، جماعتِ اسلامی، ایم آئی ایم اور مسلم لیگ وغیرہ کے موجودہ قائدین کالج کی پیداوار تھے، کیا اِس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ میڈیسن یا جرنلزم یا فلاسفی پڑھنے سے یا کرکٹ کھیلنے سے یا جامعہ ازہر یا آکسفورڈ میں پڑھنے سے قائدانہ بصیرت حاصل ہوجاتی ہے؟ جی نہیں۔ قائدانہ صلاحیتیں اور قیادت کا شعور یعنی Vision اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ  ایک ایسا وصف ہے جو قدرتی ہے، جو کسی بھی  انسان کو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو۔اسی طرح سے آج مولانا سجاد نعمانی، مولانا محمود مدنی، سلمان ندوی، اصغر علی امام مہدی سلفی وغیرہ، اور پاکستان میں مولانا فضل الرحمان جیسے علما جو قومی سطح پر شاندار رہنمائی کررہے ہیں، یہ اس لئے نہیں کہ اس میں مدرسے کا کوئی دخل ہے۔ ہاں؛ مدرسے نے ان کی صلاحیتوں کو چارچاند ضرور لگائے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مدرسے کی وجہ سے یہ لوگ قیادت کا شعور حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ قیادت کا عنصر  ان میں پیدائشی تھا۔ یہ اگر عالم ہونے کے بجائے کوئی ڈاکٹر یا کرکٹر ہوتے تب بھی ان میں وہی قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوتیں جو آج ہیں۔ اگر قیادت کا تعلق صرف مدرسے سے ہوتا تو ہندو پاک میں ہر طرف صرف اور صرف اہلِ مدرسہ کی قیادت نظر آتی۔

مختصر یہ کہ قیادت کے لئے عالم ہونا شرط نہیں، جمعہ کا خطبہ قیادت سازی کی پہلی سیڑھی ہے۔ منبر سے جہاں ایک طر ف عوام کی تمام دینی اور دنیاوی مسائل میں رہنمائی کی جاتی ہے، وہیں یہ منبر،  قائدین کو پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جسے شریعت نے عطا کیا ہے۔ ہر شہر میں ایسے کئی اہلِ علم و دانش و بصیرت موجود ہیں جن کو باری باری جمعہ کے خطبہ کے لئے دعوت دی جانی چاہئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر ہر ہفتہ ایک نیا موضوع، ایک نیا مضمون اور ایک نیا مقرر ہوگا تولوگوں کی مسجد سے دلچسپی بڑھی گی۔اور ہر مکتبِ فکرکا آدمی رہنمائی حاصل کرنے مسجدوں اور خطبوں کا رخ کرے گا۔ لیکن کمیٹی والے جن کی اکثریت خود بھی تعلیم یافتہ نہیں ہوتی، اور نہ اِن کی اکثریت کے پاس دین کا شعور ہوتا ہے اور نہ حالات کا ویژن ہوتا ہے، وہ اسی شخص کو منبر پر کھڑا کرتے ہیں جو چند فضائل اور چند مسائل کی بات کرے۔ چونکہ اِن خطبہ دینے والوں کی اکثریت میٹرک پاس بھی نہیں ہوتی، اس لئے قابل تعلیم یافتہ لوگوں کی اِن خطبوں سے عدم دلچسپی فطرتِ انسانی یعنی ہیومن سائیکالوجی ہے۔ اگرچہ کہ یہ غلط رویّہ ہے۔ اپنی انا کی خاطر خطبہ ترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے کہ کیونکہ شریعت میں جمعہ کا خطبہ سننا واجب ہے۔لیکن دوسری طرف خود نفسِ خطبہ، اگر خطبہ کے مقصد کوپورا نہیں کررہا ہو تو اس کے ذمہ دار کمیٹی کے ذمہ داران ہیں، جو خطبہ دینے والوں سے صرف وہی سننا چاہتے ہیں جو اِن کی سمجھ میں آئے۔ جو چیز ان کی سمجھ سے بالا تر ہو وہ اُس چیز کو پوری امت کے لئے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ 

ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اگر کسی دوسرے خطیب کو اجازت دی بھی جاتی ہے تو اس کے لئے مسلک کی شرط لازمی ہوتی ہے۔ بعض ذمہ داران جن میں خود علما بھی شامل ہیں، یہ بات ذہنوں میں بٹھاتے ہیں کہ غیر عالم مسجد میں تقریر کا اہل نہیں ہوتا۔ یہ تعصب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ غیر عالم کی تقریر سننے سے لوگوں کو باز رکھنے کے لئے یوٹیوب پر کئی ویڈیوز پھیلائی جاچکی ہیں۔ اس کا مقصد سمجھنے کے لئے نفسیاتِ انسانی کو سمجھنا ناگزیر ہے۔ برہمن کا کسی بھی غیربرہمن کو دھرم شاستروں سے دور رکھنا ایک مذہب کا وطیرہ نہیں بلکہ فطرتِ انسانی کا تقاضہ ہے۔ ملکوں پر حکومت کرنے کا جس طرح ایک جنون ہوتا ہے، اسی طرح ذہنوں پر حکومت کرنے کا بھی فطرت میں ایک جنون ہوتا ہے۔ ذہنوں پر حکومت کرنے کے لئے علم، عقیدہ، معجزے، کرامات، کے ساتھ ساتھ حسب نسب کی شان سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔یک علاقے کا کارپوریٹر یا ایم ایل اے جس طرح اپنے علاقے میں کسی اور کی لیڈری برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ذہنوں پر حکومت کرنے کے جنونی کسی اور کے علم، عقیدے یا تحریک کو برداشت نہیں کرسکتے۔ برہمن نے جس طرح یہ چال چلی کہ دھرم شاستروں کو کسی بھی غیربرہمن کے لئے چھونا بھی پاپ قرار دے دیا، اسی طرح ہم نے بھی  صدیوں تک قرآن کو یہ کہہ کر عام انسانوں سے دور رکھا کہ یہ ہر ایک کے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں، لیکن ڈاکٹر اسرار احمد، زاکرنائیک، نعمان علی خان، محترمہ فرحت ہاشمی،بلال فلپ، جاوید غامدی وغیرہ نے جب سوشیل میڈیا پر دین و قرآن کو اتنا آسان کردیا کہ کئی کئی ملین Views ان کوملنے لگے تو بوکھلاہٹ میں اہلِ مدرسہ کے پاس  اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مدرسے کو قبولیت کی کسوٹی بنا کر غیر مدرسے کے قابل طبقہ کے خلاف لوگوں کے ذہنوں کو مشکوک کردیا جائے۔ اسی لئے کمیٹیوں کے افراد کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا کہ خطبہ دینے کے اہل صرف مدرسہ سے فارغ لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد کمیٹیاں جمعہ کے خطبوں کو ریفارم کریں۔ خطبہ اولیٰ کسی بھی زبان میں ہوسکتا ہے۔ امام نوویؒ کے نزدیک خطبہ کے لئے فہم شرط ہے۔ یعنی لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ اسی لئے گونگوں اور بہروں پر خطبہ سننا واجب نہیں۔ شاہ ولی اللہ ؒ کے نزدیک عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں خطبہ کی اجازت نہیں، جبکہ امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک یہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ احسن ہے۔ خطبہ اولیٰ کے بعد خطیب بیٹھ جائے اور پھر خطبہ ثانی پیش کرے۔ خطبہ ثانی کا عربی میں ہونا فقہا کے نزدیک لازم ہے۔ دونوں خطبوں میں قرآن، درود،  اور وعظ لازمی ہیں۔مولانا محسن عثمانی پروفیسر جامعہ عثمانیہ کے مطابق خطبہ اولیٰ کے مقامی زبان میں ہونے کی وکالت کرنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، سید سلیمان ندویؒ، ابوالمحاسن سجاد بانی امارت شرعیہ وغیرہ ہیں۔ خطبہ اولی جب تک اردو یا دوسری کسی بھی مقامی زبان میں نہ ہو، خطبہ کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے امریکہ اور یورپ میں خطبہ اولیٰ صرف انگریزی میں ہوتا ہے۔ کیرالا میں کہیں ملیالی کے علاوہ خطبہ نہیں ہوتا۔ سعودی عرب، دوبئی وغیرہ میں بھی جہاں جہاں غیرعربی تارکین وطن کے سنٹرز ہیں، وہاں خطبہ اولیٰ انگلش،اردو،  فلپینی، تلگو یا ٹامل میں ہوتے ہیں۔ 

  لیکن یاد رہے، جو بھی شخص جو بہت اچھی تقریر کرسکتا ہو، اس کو لاکر خطبہ کے لئے منبر پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ اُس پر لازمی ہے کہ وہ اپنی بات کی دلیل قرآن و حدیث سے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور جو شخص صرف قرآن و حدیث سے رٹ کر صرف آدابِ زندگی پیش کرسکتا ہو، اس کو بھی لاکر منبر پر کھڑا  نہ کردیا جائے، اس پر بھی لازم ہے کہ وہ حالات کا مکمل ادراک رکھتا ہو، اور قرآن و حدیث کی دلیل کے ساتھ رہنمائی بھی کرسکتا

 ہو۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ دونوں خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں ایک تقریر رکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے خطیب صاحب دو خطبے عربی میں دیکھ کر پڑھتے ہیں جو نہ وہ خود سمجھتے ہیں نہ عوام، لیکن سنت کی تکمیل کی ایک رسم پوری ہوجاتی ہے۔ چونکہ ان خطبوں سے پہلے اردو میں جو تقریر کروائی جاتی ہے، وہ  شرعی طور پر خطبہ کی تعریف میں داخل نہیں، اس لئے لوگوں پر اُس تقریر کا  سننا واجب نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا لوگوں کا تاخیر سے آنا حق بجانب ہے۔ اس لئے شریعت کے منشا کے مطابق ہونا یہ چاہئے کہ اردو میں جو تقریر کروائی جاتی ہے، اسی کو منبر سے خطبہ اولیٰ کے طور پر پیش کی جائے، دوسرا خطبہ عربی میں وہی خطیب پیش کرے، چاہے تو دیکھ کر پڑھے۔ اِس خطیب کے لئے لازم نہیں کہ نماز کی بھی وہی امامت کرے۔ کاش ایسا ہو کہ مساجد کی کمیٹیاں یہ انقلابی اقدام اٹھائیں اور اس بکھرتی ہوئی امت کو پھر سے مسجدوں کی طرف لانے میں مدد کریں۔ مضمون کی طوالت کے خوف سے ہم اور باقی امور پر تفصیل سے روشنی تو نہیں ڈال سکتے، لیکن ذیل میں ”عقلمندوں کو اشارہ“ کافی کے محاورے کا اعتبار کرتے ہوئے چند اشارے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

۱۔ ہر شہر میں دین کا بہترین درد اور سمجھ رکھنے والے، اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کا بھی بہترین شعور رکھنے والے علما، مفتیوں کے علاوہ کئی ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، ایم بی اے، وکیل، اور دانشور موجود ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو باری باری جمعہ کے خطبوں کے لئے بلایا جائے، اور ان سے رہنمائی حاصل کی جائے، ان کے اندر جو عظیم مفکرانہ، مصلحانہ اور قائدانہ صلاحتیں چُھپی ہوئی ہیں، ان کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ منبر کو صرف ایک مسلک، مدرسہ اور چند مخصوص دینی امور تک محدود نہ کردیا جائے۔

۲۔ بے شمار گروپ ایسے ہیں جو قوم کی فلاح کے لئے کئی فلاحی، تعلیمی، ادبی، اکنامک، اور دعوتی کاموں کے لئے میٹنگ یا سیمینار کے لئے کرائے کے ہال لینے پر مجبور ہوتی ہیں جب کہ ان کاموں کا مرکز مسجد ہونا چاہئے، لیکن کمیٹی والے مسجدوں کو مقفل کرڈالتے ہیں۔ اور ان نوجوانوں کو چندے کرکے وقت اور پیسہ ضائع کرنا پڑتا ہے۔ کمیٹی والے اگر ان گروپس کے لئے مسجدوں کے دروازے کھول دیں تو قوم میں بہترین قیادت کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ 

۳۔ اگر محلے میں چار پانچ مسجدیں ہو ں تو ہر مسلک کی مسجد سے لاؤڈاسپیکر پر ہی اذان ہو، یہ ضروری نہیں۔ نماز کے وقت کا اعلان سارے محلے کو سنانے کے لئے کسی ایک مسلک کی مسجد سے ہوجائے، یہ کافی ہے۔ ہر محلے کی تمام مسجدوں کی کمیٹیاں والے مل کر ایک ایک مہینہ بانٹ لیں، باری باری ہر مہینہ ایک مسجد کی اذان لاؤڈاسپیکر پرہو۔ ورنہ آجکل فاشسٹ جس طرح Law & Order کے مسائل پیدا کرنے کے لئے فسادات برپا کرنے کے بہانے ڈھونڈھ رہے ہیں اس سے سب واقف ہیں۔ 

۴۔ مؤذّنوں کا صحیح انتخاب کریں۔ اچھے لہن کی اذان دینے والوں کو اگر زیادہ تنخواہ دے کر لانا پڑے تو لائیں۔ ورنہ اکثر مؤذن جس بھدّے ترنّم میں اذان دیتے ہیں، اس بارے میں قارئین خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ غیر قوم کے کانوں پر بھی اسی طرح گِراں گزرتی ہے جس طرح اُن کی مندروں سے بھدّی آوازوں والے بھجن ہمارے کانوں پر گراں گزرتے ہیں۔

۵۔ اماموں کی تنخواہوں پر غور فرمائیں۔ کسی بھی امام کی تنخواہ پوچھئے اور اندازہ لگایئے کیا اتنی محدود تنخواہ میں ایک خاندان پل سکتا ہے؟ یہ کمیٹی  والوں کی ذمہ داری ہے کہ گھر گھر جائیں اور تعاون حاصل کریں، اور ہمارے اماموں کو معاشی طور پر خوشحال کریں تاکہ ان کو امامت کے علاوہ بھی کوئی اور ذریعہ آمدنی ڈھونڈھنا نہ پڑھے۔ وہی وقت وہ محلے کے بچوں کو بعد فجر یا بعد عصر دینی تعلیم سے آراستہ کرسکیں۔ 

آخری درخواست یہی ہے کہ کمیٹی والے حضرات،  خطیبوں پر یا مسجد وں کو دینی اور ملی کاموں کے لئے  استعمال کرنے کی اجازت طلب کرنے والوں پر اپنے مسلک یا سلسلہ کی شرط نہ رکھیں۔ یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں نہ لیں کہ 73 واں فرقہ کون ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کا حق اللہ سے چھیننے کی کوشش  نہ کریں جس نے واضح  طور یہ خود فیصلہ دے دیا ہے کہ فاللہ یحکم بینھم یوم القیامہ فیما کنتم فیہ تختلفون


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 9642571721 


پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...