جمعہ، 27 اگست، 2021

سیاسی غنڈہ گردی کا علاج؟

 

                واٹس اپ پر ایک آڈیو گشت کررہی ہے جس میں ایک MLA کے ڈاکٹر فرزند اپنی ہی پارٹی کے کسی کارکن سے گالی گلوج کررہے ہیں۔ معاملہ کسی کی جائیداد کا ہے۔ کارکن نے دلالی کرکے ڈاکٹرکے نام پر پندرہ لاکھ کا مطالبہ کیا، بارہ لاکھ میں ڈیل ہوئی، ڈاکٹر کو سات لاکھ دیئے گئے، اور مابقی دوسرے بروکرز نے آپس میں تقسیم کرلیئے۔ بروکرز کو یہ یقین تھا کہ جو کچھ وصول ہوا،اس رشوت میں حصہ داری 50-50 نہیں تو کم سے کم 60-40  تقسیم ہونی چاہئے،۔ ڈاکٹر صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور جس زبان میں تقریباً 17 منٹ تک انہوں نے کارکن کو غلظیات سے بھرپور زبان میں نوازا،اور یہ دھمکی دی کہ اگر باقی پیسے فوری ادا نہ کئے گئے تو وہ آکر کارکن کی ماں اور بہن کو بے آبرو کردیں گے۔ اور یہی نہیں بلکہ ابّا سے ACP کو کہلواکر انہیں بند کروادیں گے اور متعلقہ بلڈنگ کو منہدم بھی کروادیں گے۔ یہ آڈیو کسی بھی شریف انسان کے لئے دو منٹ سے زیادہ سننے کے لائق نہیں۔ کارکن بھی اتنا چالاک ہے کہ چونکہ وہ ڈاکٹر کی غلظیات کو ریکارڈ کررہا تھا، اس لئے اس نے ان تمام شرمناک گالیوں کے جواب میں کہیں بھی گالی نہیں بکی، ہر گالی کو اپنا حق سمجھتے ہوئے، ''بھائی بھائی گالیاں کیئکو دیرے، گالیاں مت دو بھائی''، کی رٹ لگا تا رہا۔ یہ ڈرامے نئے نہِیں ہیں۔ کل تک پارٹی کے جو سینئر اسی طرح کی غنڈہ گردی کرکے بڑے لیڈر بن چکے ہیں، اب وہ لاکھوں کی نہیں بلکہ کروڑوں کی وصولی کے کاموں میں لگ گئے ہیں، اس لئے لاکھوں کی ڈیلس کرنے کا کام جونیئرس کے حوالے کردیا گیاہے۔ تاکہ لوٹ کی تقسیم میں انصاف قائم رہے۔ایسی غلظیات پارٹی کے دوسرے MLAs  اور کارکنوں کی زبان سے مختلف موقعوں پر منظرِعام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار کے مختلف ہتھکنڈے، سوال کرنے والوں سے بدسلوکی اور سبق سکھانے کے غیراخلاقی طریقے اور  الیکشن میں مخالف امیدواروں کی کردار کشی کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ عوام بھی گونگی بہری اوربے حِس ہوچکی ہے۔ ہر آدمی لعنت ضرور بھیجتا ہے لیکن اپنی عزت بچانے کچھ کرنا نہیں چاہتا۔ یہ حالات صرف ایک شہر کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں رائج ہیں۔ بی جے پی بھی یہی کررہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جئے شری رام کے نام پر کررہے ہیں، اور ہماری پارٹیاں نعرہ تکبیر بلند کرکے کررہی ہیں۔

                کیا یہ سسٹم کبھی بدلے گا؟ نہیں۔ یہ سسٹم اور مضبوط ہوگا۔ حکومت کے بدل جانے سے یا پارٹی یا افرادکے بدل جانے سے یہ نظام کبھی بدلنے والا نہیں۔ اگر کوئی اس نظام کو بدلنے کی واقعی ہمت رکھتا ہے تو وہ اِس مضمون کو آگے پڑھے ورنہ یہیں ختم کردے۔ جمہوریت میں اکثریت خریدی جاتی ہے۔ اچھی طرح یاد رہے کہ اصول یا قانون کے زور پر اب کوئی لیڈر نہیں بن سکتا بلکہ مستقبل کا سیاسی لیڈر وہی ہوگا جس کے پاس دولت ہو، یا پھر کوئی امبانی یا اڈانی اس کے لئے خرچ کرنے تیار ہوں۔ ایک اسمبلی یا پارلیمنٹ کا الیکشن جیتنے کئی کروڑ درکار ہیں، کوئی اتنا بے وقوف نہیں ہوتا کہ گاندھی یا ابوالکلام آزاد بننے کے چکّر میں عوام کی خدمت کے لئے اپنا سرمایہ داو پر لگا دے۔ اس کودوبارہ الیکشن جیتنے کے لئے کئی گُنا زیادہ نفع کے ساتھ اپنا سرمایہ واپس نکالنا بھی لازم ہے۔ اس دور میں لیڈری ایک ہنر ہے۔ صرف دولت پاس رہنے سے کوئی طاقت حاصل نہیں کرلیتا، تاوقتیکہ اُسے ووٹرس کو ہی نہیں بلکہ غنڈوں، مذہبی ٹھیکیداروں اور فراڈیوں کو خریدنے کا فن نہ آئے۔ عوام جاہل ہوتی ہے۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے امیدوار کی قابلیت اور تہذیب نہیں دیکھتی، جو لیڈر لاکھوں روپیہ ایک ایک جلسہ پر خرچ کرکے ان پڑھوں کی بھیڑ جمع کرے، جس کے پاس عالیشان کار، گھر اور بدعنوان سرکاری عہدہ داروں تک رسائی رکھتا ہو، اسی کو ووٹ ڈالتی  ہے۔ 

                جو لوگ اس سسٹم کو بدلنے کی بات کرتے ہیں، وہ اچھی طرح جان لیں کہ تبدیلی اس وقت آتی ہے جب Masses یعنی سمجھدار اور تعلیم یافتہ عوام کی طاقت  آپ کے ساتھ ہو۔ لیکن سمجھدار، تعلیم یافتہ لوگ اتنے بھولے بھالے ہوتے ہیں کہ سسٹم کو تبدیل کرنے پیارے پیارے دانشورانہ مضامین لکھ کر یا پرانے شہر میں تقریریں کرکے سوشیل میڈیا یا اخبارات میں شائع کرواکر خوش ہوجاتے ہیں، گویا انقلاب برپا کردیا،  جبکہ ان کے مضامیں پڑھنے والے ہزار میں ایک یا دو وظیفہ یاب بوڑھے ہوتے ہیں۔ ایسے تمام خودساختہ مصلحینِ قوم کو ان کی اپنی حیثیت کا علم ہی نہیں۔ اگر ان کو پولیس اٹھا کر لے جائے یا  ایسی بدتہذیب پارٹیوں کے غنڈے بیچ سڑک پر ان کی بے عزتی کردیں  تو ان کی دفاع میں دس لوگ بھی نہیں پہنچتے۔ پھر معمولی پولیس والے جیسی چاہے FIR پھاڑتے ہیں۔ دکھ ہوتا ہے ان سادہ لوحوں پر جو ''اسلامی نظامِ حکومت''، ''جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ''، ''مسلمانوں کی تاریخ''، ''اسلام میں حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، جمہوریت، معاشی نظام، سیاسی نظام'' وغیرہ وغیرہ  پر کئی کئی راتیں صرف کرکے لکھتے رہتے ہیں، یا پھر ان موضوعات پر پندرہ بیس لوگوں کو جمع کرکے جلسہ، سیمینار وغیرہ کرلیتے ہیں۔ ان بے شمار متحرک ذہین نوجوانوں پر بھی افسوس ہوتا ہے جو دو دو چار چار مل کر فلاحی کام شروع کردیتے ہیں۔ کئی ایک نوجوان سیاسی جماعتوں میں دلالی اور چمچہ گری کے ذریعے حقیر عہدوں کی تمنّا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کوئی سوشیل میڈیا پر گروپ ایڈمن بن جاتا ہے، کوئی Motivational  اسپیکر یا رائٹر بن جاتا ہے، اس طرح ذہین اور متحرک نوجوانوں کی ایک فوج جو مل کر ایک انقلاب لاسکتی تھی، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر ملت کو نہیں بلکہ دشمنوں کو طاقت بخشتی ہے۔ وہ فوج کیا خاک جنگ جیتے گی جو صف آرائی پر مائل نہیں ہوتی بلکہ الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ کر جنگ لڑنا چاہتی ہے۔ طالبان اور آریس یس کے اقتدار میں آنے کے راز کو سمجھئے۔ اپنی اپنی انا کو دفن کرکے اپنی اپنی صلاحیتوں کو پیش کرکے ایک طاقت کو پیدا کرنے پر اپنا سارا زور صرف کردینے والے افراد ہی انقلاب لاسکتے ہیں۔جب تک  اپنے آپ کو ایک امیر اور ایک جماعت کے حوالے نہیں کرینگے، آپ کی طاقت کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔ آپ ہر جگہ انقلاب لانا چاہتے ہیں، کوئی مسجدوں، مدرسوں اور درگاہوں کے نظام کو بدلنا چاہتا ہے، کوئی سیاسی اور سرکاری نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ کوئی اکنامک Empowerment پر کام کرنا چاہتا ہے تو کوئی ایجوکیشنل ریفارمس کی بات کررہا  ہے۔ کوئی دعوت و تبلیغ کے ذریعے پورے ہندوستان کو کلمہ گو بنادینے کا خواہشمند ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ تمام شعبے ایک عمارت کے کمرے ہیں۔  ہر کمرہ انتہائی اہم ہے، لیکن عمارت بغیر Pillars کی ہے  یعنی اس عمارت کی بنیاد کوئی نہیں۔ ہر کمرہ کتنے دن تک باقی رہے گا اس کا اندازہ لگالیجئے۔ Mass strength اصل بنیاد ہے۔ اگر کسی ایک جماعت اور ایک امیر کے پیچھے چل کر بنیاد کو پہلے مضبوط کریں گے تو عمارت کا ہر کمرہ محفوظ بھی رہے گا، اور ہر گروہ  اپنے مقاصد کی ضرور تکمیل کرے گا، ورنہ وہ سارے منہدم ہوں گے جو اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر انقلاب لانا چاہتے تھے۔ عوام ہوں کہ خواص، علما ہوں کہ دانشور، ڈاکٹر ہوں کہ انجینئر، سب کو ایک والنٹئر بن کر میدان میں آنا ہوگا، ہر شخص اپنی اپنی بولی  بولنابند کرے، اور ایک آواز ہوجائے، تب آپ کی آواز سن کر پولیس ہو کہ سرکاری محکمے، اسمبلی ہو کہ پارلیمنٹ، ہر جگہ آپ کی آواز سنی جائے گی، بلکہ آپ کی آواز سے ان کے درودیوار لرزنے لگیں گے۔ ورنہ ہر شخص قائد بننے کی چکّر میں اپنی اپنی بولی بولتا رہے گا تو اس سے شور پکارا ہوگا، کسی کو کان پڑے آواز سنائی نہ دے گی، اور آپ جانتے ہیں شور کو بند کرنے کے لیئے کسی بھی حکومت کو کیا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے پاس ایسی اجتماعی طاقتیں جیسے پاپولر فرنٹ، SDPI، جماعت اسلامی، جمیعتہ العلماء، سنی تحریک، اِمپار، مسلم راشٹریہ منچ، کانگریس، ایم آئی ایم، بی جے پی، کمیونسٹ، لوکل سیاسی پارٹیاں، وغیرہ موجود ہیں۔ تلاش کیجئے کہ کون سی جماعت حق اور انصاف کے لئے لڑسکتی ہے، مساوات قائم کرنے، ذات پات، رنگ، نسل اور مذہبوں کیتعصّبات کو ختم کرکے انسانوں کو انسانوں ہی کی غلامی سے نکال کر ہر ایک کو جینے کا مساوی حق یعنی حقیقی حقوقِ انسانی دِلا سکتی ہے، اس اجتماعیت میں فوری شامل ہوجایئے۔ ہوسکتا ہے آپ کو دہشت گرد کہا جائے، غدّار اور ملک دشمن کہا جائے کیونکہ فاشزم اور قانون کے دشمن ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ انکے سامنے آپ کی نسلیں سر اٹھا کر چلیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی نسلیں غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی کی غلامی سے آزاد ہوجائیں تو آپ کو قربانیاں دینے اپنی انا کو دفن کرکے ایک جماعت اور ایک امیر کے آگے جھکنا ہوگا اور اپنی Mass strength پیدا کرنی ہوگی۔ ورنہ کل بھی یہی سیاسی اور مذہبی قیادت قائم رہے گی، اور اس کے خلاف بولنے والے سب سے زیادہ عتاب کا شکار ہوں گے۔  کوئی مدد کو نہیں آئے گا۔ اور قوم کی بربادی کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو بس  اپنی نماز، اپنے گھر،اور  اپنی اولاد کے مستقبل کی فکرمیں ڈوب کر اپنی جان کو جوکھم میں ڈالے بغیر زندگی گزاریں گے،نہ کسی تبدیلی کے لئے ایک روپیہ جیب سے نکالیں گے، نہ ایک گھنٹہ دیں گے اور نہ اپنی توانائیاں صرف کریں گے،  بس دیوان خانہ میں بیٹھ کر یا تو مشورے دیتے رہیں گے، یا سوشیل میڈیا پر دو کوڑی کی دانشوری پیش کرتے رہیں گے۔

 

                                                نہ بچا بچا کے تو رکھ اِسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ               کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

  

پیر، 16 اگست، 2021

ڈاکٹر علیم خان فلکی کی تصنیف کردہ کتاب "لائف انشورنس۔ آج کی اہم ترین ضرورت " کی تقریب رسم اجرائی



حیدرآباد۔ (فیصل مسعود)۔ سوشیو ریفارمس سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر علیم خان فلکی کی تازہ ترین تصنیف "لائف انشورنس۔ آج کی اہم ترین ضرورت "کا رسم اجراء15اگست2021کو ہوٹل اشوکا، حیدر آباد میں منعقد ایک تقریب میں عمل میں آیا۔ خطیب ِ شاہی مسجد مولانا ڈاکٹر احسن بن الحمومی نے کتاب کی رونمائی کی، مہمانانِ خصوصی میں الشیخ حسن الحمومی، مولاناولی اللہ شریف ادریس فرزند مفتی خواجہ شریف صاحب،  میر مسعود خان سینئر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، ایڈوکیٹ ظہورالدین بانی سکندرآباد کواپریٹیو بنک، سید لطیف الدین فینانشیل کنسلٹنٹ  شامل تھے۔ یہ کتاب انگلش میں کئی سال پہلے شائع ہوچکی تھی، اب اردو میں پیش کی گئی ہے۔ 

مولانا احسن بن الحمومی جو اپنی انقلابی فکر اور عملی میدان میں قوم کے سماجی، دینی اور تعلیمی شعبوں میں متحرک علما میں سے ایک ہیں، انہوں نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمایا کہ مسلمانوں کو اب اپنی جان و املاک کی حفاظت کے لئے تدبیر کرنا ناگزیر ہے۔ شرعیہ کمپلائنس کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرنے والی انشورنس کمپنیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی فینانشیل سیکوریٹی جلد سے جلد خریدنے پر غور کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ علما اگرچہ کہ قائل ہیں، لیکن عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی غلط فہمیوں کی وجہ سے جو بغیر مطالعہ یا تحقیق کے غیرذمہ دارانہ تبصرے کرکے علما پر الزامات تراشی پر اتر آتے ہیں، اس کی وجہ سے علما خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ 

مصنّف ڈاکٹر علیم خان فلکی نے کہا کہ اس کتاب کا بغور مطالعہ کئے بغیر لائف انشورنس پر جائز یا ناجائز کا فتویٰ دے دینا ایک زیادتی ہے۔ چونکہ علما کی رائے منقسم ہے، اس لئے لائف انشورنس کی اجازت دینے والے علما جیسے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مفتی ظفیرالدین ؒ دارلعلوم دیوبند، مجاہدالاسلام قاسمیؒ اور جامعہ نظامیہ وغیرہ کے دلائل پر عمل کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ میں فینانشیل سیکوریٹی خرید کر اپنے بیوی بچوں کو محفوظ کرنا لازمی ہے۔ کرونا اموات، حادثات، فسادات، بڑھاپا، معذوری، شادیاں، طلاق یا علہدگی کی صورت میں بے سہارا ہوجانے والے ہزاروں معصوم بچوں کی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ لوگ فینانشیل پلاننگ پر توجہ دیں۔ 

ایڈوکیٹ میر مسعود خان نے کہا کہ حالات جو بھی ہیں، وہ مشیّتِ خداوندی ہی کے تحت ہیں، اور یقینا اللہ تعالیٰ نے اس کا حل بھی ضرور دیا ہے، اب یہ امت کے سوچنے والے اہلِ علم طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس کتاب میں ایک کوشش کی گئی ہے، ایسی ہی تدابیر خود بھی کریں اور عملی طور پر کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ سکندرآباد بنک کے بانی اور ڈائرکٹر ظہورالدین صاحب نے بنک قائم کرنے سے پہلے جو جائز نا جائز کی بحثوں سے لے کر  بالآخر بنک کے کامیابی کی منزلوں تک پہنچنے تک کے پیش آنے والی رکاوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بنک اور  لائف انشورنس دورِ حاضر میں مسلمانوں کو ہر قسم کی معاشی بدحالی سے محفوظ رکھنے کا واحد حل ہے۔ 

سید لطیف الدین صاحب جن کو کئی انشورنس کمپنیوں میں خدمات انجام دینے کا کئی سال کا تجربہ ہے انہوں نے مختلف شرعیہ بنیاد پر کام کرنے والی کمپنیوں کے پلان کا جائزہ پیش کیا اور کہا کہ ہر عمر اور ہر قسم کے حالات سے دوچار لوگوں کے لئے انشورنس قرضوں، رہن اور آخر میں گھر فروخت کرنے کی مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے۔ 

رئیس احمد صاحب نے نظامت کی۔اور کہا کہ بدقسمتی سے لوگ ڈاکٹر اور وکیل کی فیس تو بخوشی اڈوانس ادا کرتے ہیں، لیکن معاشی منصوبہ بندی جو

 خاندان کی بقا کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ مفت چاہتے ہیں، اوربجائے ماہرین سے مشورہ کرنے کے اپنے سالے یا بہنوائی سے مشورہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی اکنامی سب کے سامنے ہے۔  یہ کتاب 9959959008 پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ 



 

منگل، 10 اگست، 2021

مسلم راشٹریہ منچ اورامپار مسلمانوں اور آریس یس کے درمیان ایک پُل


 

ّّآر یس یس بہت تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہورہی ہے۔  اِس کام کے لئے کارسیوک نہیں بلکہ خود مسلمان انہیں اتنے دستیاب ہوگئے ہیں جو مسلم راشٹریہ منچ کے جھنڈے تلے مسجد کی کمیٹیوں، درگاہوں، اورجماعتوں میں داخل ہوکر آر یس یس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔ دوسری طرف تعلیم یافتہ لبرل طبقہ میں  بی جے پی کی قائم کردہ تنظیم اِمپار IMPAR  کام کررہی ہے جو اونچے عہدوں پر فائز مسلمانوں کے علاوہ سماجی طور پر اثر  رکھنے والوں کو  اِمپار میں شامل کرکے ایک ماڈریٹ کلاس کو تشکیل دے رہی ہے۔ لوگ جوق در جوق منچ یا اِ مپار میں جو شامل ہورہے ہیں، ہمارا گمان یہی ہے کہ وہ اچھی نیّت اور ایمانداری کے ساتھ آریس یس اور مسلمان کمیونٹی کے درمیان ایک پُل کا کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکمران طبقہ کے ساتھ مل کر کمیونٹی کو روزگار، تعلیم، حقوق اور انصاف کے معاملے میں کوئی فائدہ پہنچایا جاسکے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور دوستی کے ذریعے جتنے فائدے  اپنی کمیونٹی کوپہنچائے جاسکتے ہیں، وہ مخالفت یا ٹکراو کے ذریعے نہیں پہنچائے جاسکتے۔ 

            آریس یس چیف موہن بھاگوت کے حالیہ بیانات مسلمانوں کے لئے بڑے خوش آئند ہیں۔ آریس یس کی پیدائشی، نفرت کی روایات کو  توڑ کر وہ دوستی اور محبت بھرے بیانات کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آریس یس سے مسلمانوں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ کبھی کہہ رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمانوں کا DNA  ایک ہے وہ الگ کبھی نہیں ہیں، ہمیشہ سے جڑے ہوئے ہیں۔

کبھی کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمان نہیں رہے گا تو ہندوتوا ختم ہوجائیگا۔

جو مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کی بات کرتا ہے وہ ہندو نہیں ہوسکتا،

لنچنگ کرنے والے ہندوتوا کے دشمن ہیں۔

احتجاج کا حق سب کے لئے برابر ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ ڈائیلاگ ضروری ہے،

یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خود آریس یس کیڈر ان کے ان پیغامات پر ہوسکتا ہے یہ ا لزام لگائے کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

            ان بیانات پر شک و شبہ کرنے کے پورے امکانات موجود ہیں۔ یہ بیانات اس وقت اگر وہ دیتے جب وہ اقتدار میں نہیں تھے،، تو کچھ اور بات ہوتی۔ اب جب کہ پولیس، عدالتوں اور میڈیا کو مکمل اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلمانوں کو ہر طرح سے نہتّا کیا جا چکاہے اور وہ مسلمانوں کو چاروں خانے چِت کردینے کی پوزیشن میں آچکے ہیں، اب مسلمانوں سے اِس ہمدردی اور مہربانی کے پیچھے کیا ہوسکتا ہے، یہ سوچنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ہندو قوم جو ہزاروں ذاتوں میں نہ صرف بٹی ہوئی ہے بلکہ  ہر ذات ایک دوسرے سے نفرت کرتی ہے، ان تمام کو متحد کرنے کے لئے ایک مشترکہ دشمن کو پیدا کرکے اس کے خلاف  ووٹوں کو Polarise کرنا ناگزیر تھا، اس لئے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا اور ایک نہیں، دو دو الیکشن جیت گئے، اور ہندوتوا اور ہندوراشٹرا کی لہر اتنی مضبوط کردی کہ آئندہ دو تین الیکشن اور جیتنے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں،ہوسکتا ہے آریس یس اقلیتوں کے تئیں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے، ملک میں امن اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کے بارے میں مثبت سوچ کی طرف بڑھ رہی ہو، اس لئے موہن بھاگوت کے ان بیانات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مسلمانوں کو بھی دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ کانگریس نے ساٹھ ستر سال تک مسلمانوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا، سامنے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور پیچھے سے اِن کی جڑوں کو کاٹتی رہی، اور یہ پالیسی اب تلنگانہ، آندھرا، بہار کے  چیف منسٹر بھی اپنا چکے ہیں۔ اور کھلی منافقت کررہے ہیں، ایسے وقت میں آریس یس جو روزِ اول سے مسلم اور اسلام دشمنی کا کھل کر اعلان کرتی رہی، اب کھل کر دوستی کی بات کررہی ہے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے علما اور قائدین کو آگے بڑھنا چاہئے۔ کیونکہ جس قسم کے لوگ منچ اور اِمپار میں شامل ہورہے ہیں، ان کی عوامی مقبولیت صفر ہے۔ انہیں آخر میں کچھ چھیچھڑے ہی ملیں گے یعنی وقف کونسل یا کسی ریاست کے وقف بورڈ، اردو اکیڈیمی، حج کمیٹی وغیرہ جیسی کچھ کرسیا ں ہی ملیں گی، لیکن قومی دھارا میں نہ انہیں ایک قائد تسلیم کیا جائیگا،  اور نہ پوری مسلمان قوم کے نمائندہ کی انہیں حیثیت ملے گی۔ ہاں اگر عوام میں مقبولیت رکھنے والے لیڈر یا علما یا دانشور آگے بڑھیں تو شائد غلط فہمیاں دور ہوں اورمسلمان بھی ترقی کریں۔        مسلمانوں کو ہندوراشٹرا قائم ہونے سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ موہن بھاگوت کی یہ لاجِک قابلِ قبول ہے کہ جس طرح امریکہ کا ہر شہری امریکی کہلاتا ہے، اسی طرح ہندوستان کا ہر فرد ہندو کہلائے گا۔لفظ ہندو کا تعلق ہندو دھرم سے نہیں ہے۔ سپریم کورٹ خود بھی یہ تسلیم کرچکی ہے کہ ہندواِزم کوئی دھرم نہیں ہے۔ بھاگوت جی جب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ NRC سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو، ان کی بات کا اعتبار کرناچاہے۔ کاشی متھرا پر اگروہ لوگ ضد کررہے ہیں تو اِس پر بھی سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانا نہ فرض ہے نہ سنّت، یہ بھی چھوڑا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ دوستی دوطرفہ ہونی چاہئے۔ ایک طرف مسلمانوں کو بھی کچھ اقدام کرنے ہیں اور دوسری طرف آریس یس کو بھی کچھ اقدام ایسے کرنے ہیں، جو دوستی کی ہی نہیں بلکہ اس ملک میں انسانیت، جمہوریت اور قانون کی بقا کے لئے لازمی ہیں۔ اگر آریس یس ان اقدامات کے لئے تیار ہے۔ اگر وہ ان امور کو نافذ کرنے کا اعلان کرتی ہے تو نہ صرف ہم جیسے عام مسلمان بلکہ اویسی، اعظم خان اور سجاد نعمانی جیسے عظیم المرتبت علما واور قائدین بھی آریس یس میں شامل ہونے تیار ہوجائینگے۔ یہ ذمہ داری منچ اور اِمپار میں شامل ہونے والوں کی ہے کہ وہ ایک ایسی سازگار فضا پیدا کریں کہ آریس یس قائل ہوجائے کہ یہ اقدامات صرف مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے دیش کے تحفظ کے لئے لازمی ہیں۔ جیسے

۱۔ہندوستانی ہونے کے ناطے اگر ہر شخص ہندو کہلائیگا تو سیکولرزم کی ضمانت دینی پڑے گی۔ آریس یس اور بی جے پی کے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لیڈر سارے سیکولرزم کے خلاف ہیں۔ آریس یس ضمانت دے کہ سیکولرزم کے خلاف جتنے بیانات دیئے گئے ہیں، وہ سب واپس لئے جائیں گے۔

۲۔ دھرم کے معنی ہیں Way of Life۔ اگر آریس یس کے نزدیک ہندوتوا ایک صحیح Way of Life ہے تو اِسے خطرہ کیوں ہے کہ انسان صحیح چیز کو چھوڑ کر اسلام یا کوئی اور دھرم قبول کرلے گا؟  ہر مذہب کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ اگر صحیح Way of Life رکھتا ہے تو بے خوف ہو کر پیش کرے پھر دیکھئے کہ آئندہ پچیس تیس سال میں عوام کس کو قبول کرلیتی ہے۔

۳۔ آریس یس اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے جتنی جھوٹی افواہیں پھیلارہی ہے، نصابی کتابوں میں، فلموں اور سیرئیلس میں جس قسم کی بے بنیاد، زہرافشانی کی جارہی ہے، اس کو بند کرے، آریس یس نے تاریخ کو بھی ووٹوں کی طرح مکمل Polarise کردیا ہے،آریس یس تاریخ کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کرے اور مسلمان بادشاہوں کے اس ملک پر کتنے احسانات ہیں، وہ سچ سچ پیش کرے۔

۴۔ بھاگوت جی نے کئی جگہ سارے انسان ایک ہیں، عورتوں کے حقوق مساوی ہیں، عورتوں کو انسانی حقوق کے ساتھ جینے کی آزادی ہونی چاہئے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے لئے جو کتاب انسانوں کو ورنوں یعنی ذاتوں میں تقسیم کرتی ہے، عورت کو شودر کا درجہ دیتی ہے، اس کتاب پر Ban لگایا جائے، یعنی منوسمرتی کو ممنوع، خلافِ قانون بلکہ خلافِ انسانیت قرار دے۔

 ۵۔ اگر اس ملک سے دہشت گردی، فرقہ پرستی اور Hate speech کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنا ہو تو گولوالکر اور ساورکر کے لٹریچر کو Ban کیا جائے جو  ہر غیر ہندو کو قتل کرنے، ان کی عورتوں کی کھلم کھلا عصمت ریزیاں کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔یوگی جیسے لوگ انہی کے شاگرد ہیں جو ایسی تقریروں کے ذریعے نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل کررہے ہیں، ایسے دہشت گردوں کو پھانسی دی جائے۔

۶۔ جب تک تحفظات Reservations کا نظام قائم ہے، ملک میں قابل لوگ کبھی آگے نہ آسکیں گے۔ گدھے آگے رہیں گے اور شیر، چیتے اور گھوڑے پیچھے رہیں گے، اس سسٹم کو ہمیشہ کے لئے ختم کیجئے، لیکن دوسری طرف کمزور طبقات کو یونیورسٹی کی تعلیم تک مفت سہولیات دیجئے، ان کا معیار زندگی بہتر بنانے جتنا پیسہ خرچ کرسکتے ہیں کیجئے۔

اور ایسے کئی اقدامات ہیں، اگر یہ اقدامات کئے جائیں تو یہ ملک پھر ایک بار وہ سونے کی چڑیا یا اکھنڈ بھارت بن سکتا ہے جسے کبھی مسلمان بادشاہوں نے بنایا تھا۔ ورنہ مسلمانوں سے پہلے تک کی تاریخ یہی تھی کہ چھوٹے چھوٹے ہندو، برہمن، دراوڑین، جین اور بدھ راجے مہاراجے ایک دوسرے سے لڑتے، ایک دوسرے کی مندریں لوٹتے اور قتل ِ عام کرتے، یہ ملک پھر اسی رخ پر لوٹ رہا ہے۔

            آخر میں ہم منچ اور اِمپار میں شامل ہونے والوں سے یہ التما س کرتے ہیں کہ آریس یس کا صحیح منشا اور نیّت سمجھے بغیر ان کے ساتھ غیرمشروط Unconditional شامل ہوجانا، شاید آپ کے ذاتی مفادات کے حق میں تو بہتر ہو لیکن قوم کے حق میں بہت نقصان دہ ہوگا۔ بس اتنا یاد رکھئے کہ ہلاکو خان جب بغداد پر حملہ کرنے آگے بڑھ رہا تھا، کچھ علما اور کچھ جہدکار جاکر اس سے مل گئے اور شہر میں داخل ہونے میں اس کی مدد کی، اسی امید پر کہ انہیں کچھ انعام ملے گا، عہدے مل جائیں گے، اقتدار میں کچھ حصہ مل جائیگا۔ ہلاکو نے جب شہر فتح کرلیا، ہر طرف لاشوں کے انبار لگا دیئے، اس وقت یہ لوگ جب انعام اور عہدوں کی امید لے کر اس کے دربار میں گئے، تو اس نے یہی کہا کہ جب تم اپنی قوم کے وفادار نہیں رہ سکے تو میرے کیا وفادار ہوسکتے ہو۔ یہ کہہ کر اس نے ان تمام کی گردن ماردینے کا حکم دیا۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ:  +91 7386340883

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...