جمعہ، 29 اپریل، 2022

ہم نے کچھ نہیں مانگا۔۔۔ علما و مشائخین سے چند اہم سوالات

 

عید کے ساتھ ہی شادیوں کا سیزن شروع ہوجائیگا۔ کل تک جو لوگ نیکیاں لوٹنے میں مصروف تھے، کوئی تین تراویح میں قرآن ختم کررہا تھا تو کوئی پانچ میں، کسی نے اعتکاف بیٹھا تو کسی نے خوب خیرات وافطاری بانٹی۔حالانکہ یہ چیزیں فرض بھی نہیں ہیں، لیکن اس ماہ جوشِ عبادت پورے عروج پر ہوتا ہے، نیکیوں کا یہ طوفان عید کے ساتھ ہی جب تھمتا ہے تو عید کا سیزن شروع ہوجاتا ہے، اور جتنی نیکیاں رمضان میں کمائی تھیں، وہ ساری منکرات اور خرافات میں غرق ہوجاتی ہیں۔

اب دیکھتے دیکھتے عید کے ساتھ ہی پھر وہی شادیاں، باراتیں، باراتوں کے کھانے، جہیز اور بیوٹی پارلر سب کچھ عروج پر ہوں گے، ایسا لگے گا ہی نہیں کہ عید سے پہلے تک یہی دیندار نما لوگ  جوگِڑگِڑا، گِڑگِڑا کرپچھلے گناہوں کی معافی اور اگلے گناہوں سے حفاظت کی اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اب بصد شوق گناہوں کے گندے نالوں میں ڈُبکیاں لگانے بے چین ہیں۔پھر وہی ڈرامے بازیاں ہوں گی، لڑکے والے کہیں گے کہ ہم نے کچھ نہیں مانگا لڑکی والوں نے زبردستی کی۔ لڑکی والے بھی اپنے اپنے حیلے پیش کریں گے۔ ہمیں لڑکے والوں کے جھوٹ پر افسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی سنّت کے مطابق شادی کرنے کی خواہش رکھتے تھے تو شادی کی بات چیت میں پہلی شرط یہی کیوں نہیں رکھتے کہ اگر جہیز اور کھانا ہوگا تو ہم شادی نہیں کریں گے؟ کیا وہ دنیا کی آخری لڑکی ہے جو نہ ملے تو شادی ہی نہیں ہوسکتی؟ان کی ایکٹنگ کی یہ انتہا ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کوئی جہیز مت دیجئے، صرف شادی معیاری کیجئے۔ یہ لوگ کھل کریہ نہیں بتاتے کہ کس کا معیار؟ نبی کا یا کسی اور کا؟

اس پورے کاروبار میں ہماری مذہبی قیادت کا رول بہت اہم ہے۔ چاہے جس مسلک کے ہوں، جب تک یہ لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ ”مانگنا غلط ہے، ہاں خوشی سے دینا یا لینا جائز ہے“، شادیوں کی منکرات ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن تمام مسلک اگرچہ کہ عقیدے اور دوسرے کئی مسائل پر ایک دوسرے کی کھلی تکفیر اور تحقیر کرتے ہیں، لیکن ایک نکتہ پر ان کا اتحاد بلکہ اجماع ہے کہ شادی کی سنّت کو قائم ہونے نہیں دیں گے۔سب سے بڑا ناجائز تو ایسی شادیوں میں شرکت کرنا ہے، لیکن مولوی و مشائخین بضد ہیں کہ جہیز، جوڑا، بارات کا کھانا ناجائز سہی، اس میں شرکت جائز ہے۔  یوں تو اجتہاد کے دروازے سختی سے بند ہیں، لیکن شادیوں کے معاملے میں ہر مسلک کا مولوی اپنا اپنا اجتہاد پیش کررہا ہے، اور اکثریت کو خوش رکھنے کے لئے فتوے دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ  کے اصلاحِ معاشرہ کمیتی کی ایک قراد داد سوشیل میڈیا پر گھوم رہی ہے، یہ اگرچہ کہ ایک سال پرانی  مارچ 2021کی ہے، لیکن چونکہ جماعتوں کے پاس کارکنان کو دینے کوئی ہوم ورک نہیں ہے، اس لئے جماعت کو متحرک دِکھانے اور پیروکاروں کو مصروف رکھنے کے لئیجماعت ایک ہی ہوم ورک دوہراتی رہتی ہے۔ یہی فرق ہے ہم میں اور دوسروں میں۔ دوسرے ہر ہفتہ غنڈوں کو ہاتھوں میں لاٹھیاں، تلواریں اور جھنڈے دے کر ہر ہفتہ ایک نیا ہوم ورک دے رہا ہے، اور ہمارے پاس ۔۔۔ آ پ جانتے ہیں ہماری جماعتوں کے پاس دینے کے لئے کیا ہوم ورک ہے۔

                 اس قرارداد میں کل 23 نکات ہیں۔ تمام کا حاصل یہ ہے کہ جو سسٹم چل رہا ہے، چلنے دیجئے، حرام حلال کی بحث مت کیجئے، بس کوشش کیجئے کہ لوگ سادگی اختیار کریں، اگر نہ مانیں تو ان کی تقریبات میں شرکت کوئی گناہ نہیں ہے، ضرور کیجئے۔

مثال کے طور پر 8 ویں قرارداد یہ ہے کہ ”جہیز کا مطالبہ یا جبری لین دین ہو تو پہلے سمجھایا جائے، ورنہ ناپسندیدگی کا اظہا ر کیا جائے اس لئے کہ منکر پر نکیر ضروری ہے“۔کیا کوئی تسلیم کرے گا کہ اس نے مطالبہ کیا یا جبری طور پر لیا ہے؟ اظہارِ ناپسندیدگی کا اظہار کس طرح ہو؟ کیا ایسی شادی کا دعوت نامہ قبول نہ کرنے سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ ہے؟ نکیر کا طریقہ کیا ہو یہ تو بتایئے۔ نبی اور صحابہ ؓ کی تاریخ میں جب جہیز یا بارات کے کھانے کا وجود ہی نہیں توچاہے وہ خوشی سے دے یا جبری، ہر دو صورتوں میں ناجائز ہے۔ اس کو کسی طرح جائز کرنے کا اجتہاد کس نے کیا؟

قرارداد10میں کہا گیا کہ”غریب بچیوں کے لئے اجتماعی نکاح کا نظام قائم کیا جائے، اور سادگی کا خیال رکھا جائے“۔ دورِ رسالت یا پوری اسلامی تاریخ میں اجتماعی نکاح کا کیا کوئی ایک بھی واقعہ موجود ہے؟

16 وہیں قرار داد میں یہ اقرار نامہ لینے کے لئے کہا گیا کہ لوگ سادگی سے شادی کریں گے۔ لفظ سادگی کی جگہ اگر سنّت کہتے تو اقرار نامہ میں کوئی دم بھی ہوتا۔ لفظ سادگی کے استعمال کرنے کی اجازت در اصل ہر شخص کو اس کی اپنی سادگی  اور استطاعت کے مطابق آزادی دے دی جائے تو یہیں سے فتنہ شروع ہوتا ہے۔

17ویں قرارداد میں کالج اسٹوڈنٹس سے یہ عہد لینے کہا گیا کہ وہ خاندان کے دباو کو قبول کئے بغیر سنت کے مطابق نکاح کو ”ترجیح“ دیں گے۔ ترجیح یعنی Preference۔ یعنی لازمی نہیں بلکہ صرف کوشش کرینگے۔ لیکن اگر ماں باپ یا بزرگ ضد کریں گے تو پھر ہتیار ڈال دیں گے۔

  18ویں قرارداد یہ ہے کہ ”مختلف برادریوں سے عہد لیں گے کہ وہ ان رسومات کو ختم کرنے کی ”کوشش“ کرینگے“۔ کوشش تو سبھی کرتے ہیں، لیکن مانتا کون ہے؟ کیا قریشی، میمن، انصار، باغبان وغیرہ جیسی برادریاں جن کی شادیاں ایک کروڑ سے کم کی نہیں ہوتیں،جب تک ایسی شادیوں میں شرکت کا شرعی مقام طئے نہ ہو،  کیا یہ لوگ مانیں گے؟

19 ویں قرارداد میں کہا گیا کہ آتش بازی اور Mixed gthering سے بچا جائے۔ لیکن اگر کوئی باز نہیں آتا تو پھر اس کی شادی میں شرکت کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے پہلے یہ بتایئے۔ اگر جائز ہے تو پھر ایسے کروڑوں عہد نامے لیجئے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

23 ویں قرارداد جو سب سے زیادہ واہیات ہے، وہ یہ کہ ”لڑکی والوں سے کھانے کی دعوت پر زور نہ دیا جائے اور ولیمہ کو دولت کی نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے“۔ زور نہ دیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ خوشی سے کھلا رہے ہیں تو خوب ڈٹ کر کھایا جائے۔ پہلے یہ طئے ہو کہ سیرت رسول یا سیرتِ صحابہؓ میں کہیں لڑکی والوں سے کھانا لینے کی کوئی ایک بھی روایت موجود ہے؟

                ہمیں ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک شریر گدھے کو اس کے مالک نے رسی سے باندھ دیا۔ شیطان کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے گدھے کی رسی کھول دی۔ گدھا پڑوسی کے کھیت میں جاکر چرنے لگا اور فصل کو خراب کرڈالا۔ کھیت کے مالک غصہ آیا، اُس نے جاکر گدھے کے مالک کو قتل کردیا۔ مقتول کے بیٹے نے غصّے میں جاکر کھیت کے مالک کو قتل کردیا۔ پھر دونوں طرف کے بیٹا بیٹی نے انتقاماً ایک دوسرے کے گھر کو آگ لگادی، آگ پوری بستی میں پھیل گئی اور کئی گھر جل گئے۔ کسی نے شیطان سے کہا، یہ ساری بربادی تیری وجہ سے ہوئی تجھے شرم نہیں آتی؟ شیطان نے کہا میں نے کچھ نہیں کیا، میں نے تو صرف رسّی کھولی تھی۔

جہیز اور کھانا مانگنا غلط ہے، ہاں کوئی خوشی سے دے تو لینا اور دینا جائز ہے“ یہ فتویٰ دینے والے ہی دراصل وہ لوگ ہیں جو گدھے کو رسی کھول کر دے رہے ہیں۔اسی کی وجہ سے ہر شخص کو آزادی ملتے ہی  اپنی اپنی سادگی کے معیار سے وہ  پورے معاشرے کو آگ لگا رہا ہے۔ اسی لئے آج گھروں کا بیچنا، سود پر پیسہ لینا یا خیرات اور بھیک مانگنا، چوری  جھوٹ یا دھوکے سے کسی بھی طرح کما کر بیٹیوں کی شادیا ں کرنا، ورنہ لڑکیوں کا فحاشی اور ارتداد کی طرف بڑھنا سوسائٹی میں کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس کے ذمہ دار نہ آریس یس ہے نہ بی جے پی،  اس کے ذمہ دار دو لوگ ہیں، ایک وہ جو ایسے فتوے دے کر چور دروازے کھول کر دے رہے ہیں، دوسرے وہ بے حِس لوگ جو ایسی شادیوں کی تقریبات میں شرکت کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ جواز ہر مسلک کے مولوی پیش کررہے ہیں۔ اگرچہ کہ یسے علمائے حق موجود ہیں جو حرام کو حرام کہتے ہیں، لیکن وہ،  اکثریت کی مروّت میں زیادہ زور سے نہیں بولتے، اور خود اپنے ہی مسلک کے علما سے اختلاف کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ چونکہ اکثریت کا چلن لوگوں کی شریعت بن چکی ہے۔ ”لوگ کیا کہیں گے“ اس دور کا سب سے بڑا خدا ہے۔ اس لئے ایسے فتوے دینے والے بھی انسان ہیں، انہیں بھی اسی معاشرے میں زندہ رہنا ہے، اس لئے وہ لوگ بغاوت نہیں کرسکتے۔

عہدِ حاضر میں اجتہاد کی شدید ضرورت ہے۔ فتویٰ اور اجتہاد میں وہی فرق ہے جو رسمِ اذاں اور روحِ اذان میں ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ہماری فکر کے دروازے کھول دیتا ہے۔ فتویٰ رسمِ اذاں ہے جسے  قدیم کتابوں سے نکالا جاتا ہے۔ اجتہاد روحِ اذاں ہے جو مستقبل پر نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ جن جن لوگوں نے جہیز اور کھانوں کو خوشی سے دینے کے نام پر جائز کیا، یہ ان کے ذاتی فتوے ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے اپنے خاندانی یا علاقائی ہندوؤانہ  طورطریق ہیں، جن کو جائز کرنے کے لئے وہ ایسے فتوے جاری کردیتے ہیں۔ فتوے اکثریت کومطمئن کرنے کے لئے ہوتے ہیں، اجتہاد کسی کی ناراضگی یا خوشی کی پروا نہیں کرتا، اگر اللہ کے حکم کے آگے اولاد کے گلے پر چُھری چلانا پڑے تو چلادیتا ہے، وہ رشتہ داریوں کی پروا نہیں کرتا۔ شادی میں خرافات جائز کرنے اور ان تقریبات میں شرکت کرنے کے جتنے جواز پیش کئے گئے ہیں، ان تمام میں شرعی دلائل کم اور مفادات جیسے چندے، تنخواہیں، تعلقات، اکثریت کی ناراضگی کا خوف پوشیدہ ہے۔ آج اجتہاد کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرؓ کے تمام کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اجتہاد کی روایت ڈالی۔ کم سے کم 25 ایسے واقعات لکھے جاسکتے ہیں، جن میں حضرت عمرؓ نے قرآن و حدیث کے احکامات کو بدلتے ہوئے حالات میں کیسے ان کی تعبیر کی جائے اس کی مثالیں قائم کیں۔ کوئی فتویٰ یا کوئی اجماع وحی کی طرح ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں ہوتا۔ جہاں مقام اور وقت بدلا، فتویٰ یا اجماع بدل جاتا ہے۔ آج کی جو شادیاں ہیں، وہ فقہی طور پر چاہے جائز ہوں لیکن سماجی، اخلاقی اور مالی طور پر امت کے لئے بے حد نقصان دہ ہیں، یہ تقریبات جیسے منگنی کا کھانا، شادی کے دن کا کھانا، جہیز، جوڑے یا ہُندے کی رقم، وغیرہ ایک نہیں بلکہ کئی حرام کاموں کا مجموعہ ہیں۔ مولوی اور مشائخین کم سے کم سطح پر ایسی تقریبات میں شرکت کیوں حرام ہوجاتی ہے، اس کی تحقیق کریں تو امت کی بہت بڑی خدمت ہوسکتی ہے۔ ورنہ ایک طرف ایسی رسومات کو ناجائز کہنا لیکن دوسری طرف ان میں شرکت کی اجازت دینا ایک کھلی منافقت ہورہی ہے جو برسوں سے جاری ہے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721 


  

پیر، 18 اپریل، 2022

جنگِ بد رکا پیغام ۔ مزاحمت کے لئے اٹھئے


 

دشمن کی تعداد سے مرعوب نہ ہونا، جنگ بدر کا یہ پہلا پیغام ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آزمائش سے پہلے خود مسلمانوں کی صفوں میں کھڑے منافقین کو چھانٹ کر الگ کرتا ہے۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ جب تک مسلمان ایک جماعت  اور ایک امیر کی اطاعت میں داخل نہیں ہوں گے کوئی بھی جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور اہم ترین پیغام جن پر اگر عمل ہو تو آ ج بھی ایک انقلاب آ سکتا ہے، آیئے ان پر غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ سنہ  ۲ ہجری میں روزے فرض کئے جاتے ہیں اور سنہ  ۲ ہجری میں ہی جنگ بدر ہوتی ہے۔ رمضان اور جہاد کے حکم میں کیا کوئی تعلق ہے؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جان سکتا ہے، ہماری سمجھ میں تو یہ بات آتی ہے کہ بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ فتح و نصرت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں افطار کے دستر پر ٹوٹ پڑنے والوں،رات رات بھر موبائیل پر یا فضول بیٹھکوں اور شاپنگ میں جاگ کر،  ڈٹ کر سحری میں پیٹ بھرنے والوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، یہ  شکایت کرتے ہیں کہ ”بھائی رمضان میں کچھ بھی کام نہیں ہوتا، نیند پوری نہیں ہوتی وغیرہ۔ یہ لوگ رمضان پر جھوٹا الزام تراشتے ہیں۔ جہاں کئی دوسری سنّتوں پر بحث، تکرار حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر تک کرڈالتے ہیں، جیسے تروایح   8  رکعت یا 20 رکعت، افطار اہلِ حدیث کے مسلک پر یا حنفی مسلک پر وغیرہ۔ ان مسائل پر تکرار کرنے سے امت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہاں اللہ کے رسول افطار اور سحر میں کتنا کھاتے تھے اور کتنا سوتے تھے، اس سنّت پر کوئی شدّت دکھائے تو پوری قوم کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  کا فرمان ہے کہ آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جو بدعت سب سے پہلے شروع ہوئی وہ تھی پیٹ بھر کھانا۔ اگر لوگ ایک تہائی پیٹ کھا کر بس کردیں تو اس سے نہ صرف ان کی صحت ہمیشہ درست رہے گی بلکہ جنگیں جیتنا بھی آسان ہوجائے گا۔ صرف بدر ہی نہیں، کئی اور بھی غزوات اور جنگوں میں مسلمانوں نے روزے کی حالت میں ہوکر بھی فتح حاصل کی ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں  کے پپٹ دیکھے ہونگے جن میں مولوی، مشائخ، تاجر، لیڈر اور ملازمین سبھی شامل ہیں، ان کی توندیں نکلی ہوئی آتی ہیں، ہر وقت اونگھتے رہتے ہیں۔ اللہ کے رسول کا پیٹ کتنا تھا، کس طرح اللہ کے رسول کی طرح جسامت بنا کر رکھنی چاہئے، یہ انہیں ہرگز پڑھایا نہیں جاتا۔ یہ اسی لئے ہے کہ دوسری ساری سنّتوں پر محاذ آرائی کرتے ہیں، لیکن ایک تہائی کھانے اور بلاضرورتِ شدید نہ جاگنے کی سنّت پر ہرگز عمل نہیں کرتے۔ کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں گویا یہ آخری کھانا ہو۔ اسی لئے آج دشمن ان کی مسجدوں پر حملے کررہے ہیں، اور یہ صرف اللہ سے حفاظت کی دعا کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ جنگِ بدر کا یہ بھی پیغام ہے کہ اگر اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے لڑنے کی تمنا ہے تو کم سے کم کھاو اور اپنے آپ کو ایک سپاہی کی طرح ہر وقت جہاد کے لئے تیار رکھو۔

 

                بدر کا یہ پیغام ہے کہ دشمن کی تعداد یا اس کے ہتیار یا اس کے گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد دیکھ کر ہرگز نہ ڈرو۔ ”لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون“ کی تفسیر یہی بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑا ہتیار مومنین کے ہاتھوں میں دیتا ہے وہ یہ کہ خوف اور حزن کو ان کے دلوں سے نکال دیتا ہے۔ جب تک انصاف کو قائم کرنے کے لئے گھروں سے  نکلوگے نہیں، انصاف ملنے والا نہیں ہے۔ جو لوگ گھروں سے بیٹھ کر سوشیل میڈیا یا اخباروں میں خوب لکھ رہے ہیں یا تقریریں فرمارہے ہیں، وہ اب یہ سوچ کر نکل پڑیں کہ اگر اب انہوں نے باہر نکل کر مقابلہ کیا تو کل ان کی آنے والی نسل اس ظلم اور زیادتی کا خاتمہ کرے گی، ورنہ کل آپ کی نسلیں آپ سے زیادہ ڈرپوک، بزدل اور سر جھکاکر چلنے والی، مصلحتیں تراشنے والی اور دشمن کے خوف سے انہی کی جاسوسی کرنے والی نکلے گی۔ مسجدوں پر حملے اسی وقت ہوتے ہیں جب مسجدیں خالی ہوتی ہیں، اور اطراف رہنے والے مرد سارے مستی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، مسجد میں آنے والے فقط چند بوڑھے ہوتے ہیں۔ اگر مسجدوں کی حفاظت کرنی ہو تو دفاع اور مزاحمت لازمی ہے۔ بستی کا ہر مرد کم سے کم ایک یا دو نمازیں مسجد میں ادا کرے تو اس سے صرف 27 گنا زیادہ ثواب ہی نہیں بلکہ مسجدوں کی حفاظت بھی ہے اور مزاحمت یا Resistance کی طرف پہلا قدم ہے۔کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے جب دشمن دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں پر خودبخود ہیبت طاری ہوتی ہے۔ آج مندریں آبا د ہیں، کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ مسجدیں چونکہ جوان مردوں سے خالی ہیں، اسی لئے غنڈوں کی زد پر ہیں۔ ان غنڈوں پر الزام نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ مسجدوں، قبرستانوں، درگاہوں یا اوقاف کی زمینیں خالی ہوں تو ان پر فاشسٹ قبضہ کرنے سے پہلے تو خود مسلمان لیڈر، غنڈے اور پہلوان، قبضہ کرلیتے ہیں، اور متولی، سجادے،پولیس اور خود حکومت ان کے ساتھ مل کر چوری کا مال بانٹ لیتی ہے۔

 

                بدر کا تیسرا پیغام یہ ہے کہ جو لوگ مزاحمت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ان کا قتل عام یا جینوسائڈ کبھی نہیں ہوسکتا۔ جینو سائڈ انہی کاہوتا ہے جو مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 1948 میں حیدرآباد کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں گاجر اور مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے، ان کی بے شمار بستیاں اور کھیت جلادیئے گئے اور ان پر قبضے ہوگئے کیونکہ وہ مزاحمت کے بجائے صرف دعائیں کررہے تھے۔ یاد رہے اُس وقت کا حیدرآباد ایک انتہائی مذہبی کلچرکی حامل ریاست تھی۔ گھر گھر آیت ِ کریمہ، قصیدہ بردہ شریف کی محفلیں، شاندار مسجدیں اور مدرسے، تراویح، شب قدر، شب برات اور شب معراج کے شاندار تقاریب اور اس کے ساتھ ساتھ عرس، صند ل پنکھے  اور دستار بندیوں کے مقدّس اجتماعات سبھی کچھ تھے۔ لیکن مدرسوں کے نصاب میں جہاد، قتال، مزاحمت، انصاف کو قائم کرنے کے تھیوریٹیکل اور پراکٹیکل اسباق نہیں تھے۔ صرف چار دن میں ایک پورا ملک بابری مسجد کی طرح ڈھا دیا گیا۔ اسی کے مقابلے میں کشمیر یا افغانستا ن کو لیجئے، ان قوموں نے مزاحمت کی، سالہاسال سے کررہے ہیں۔ جتنے لوگ حیدرآباد میں صرف چند دنوں میں ہلاک کردیئے گئے، اتنے لوگ کشمیر یا افغانستان میں تیس سال میں نہیں مرے۔ بلکہ دشمن کو یا تو مات دی یا کم از کم خوف میں رکھا۔ جنگِ بدر کا یہ پیغام ہے کہ ”ان الذین آمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت، فقاتلوا اولیاء االشیطٰن، ان کید الشیطٰن کا ن ضعیفا“۔ کافر کو بھی قتال کا اتنا ہی حق ہے جتنا مومن کو۔ ایمان لانے کے بعد قتال کے لئے تیاری کرنا ایمان والوں کی نشانی ہے، کیونکہ فاشسٹ آج پورے قتال کے موڈ میں ہیں۔ دھرم سنسد میں جو کچھ کہا گیا وہ اسے کرکے دکھارہے ہیں۔ اب مسلمانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ایک جماعت ہوکر مقابلہ کریں۔پاپولر فرنٹ کے بانیوں میں سے ایک مرحوم اے۔سعید تھے جنہوں نے اپنی کتاب ”دین الحق“ میں ایک اہم بات لکھی کہ اگر مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ باہر نکلتی ہے، اور چوزے کسی کے پاؤں میں آنے لگتے ہیں تو وہ اچھل اچھل کر اُس شخص پر حملہ کرتی ہے۔ یہ نہیں دیکھتی کہ جس شخص کو وہ چیلنج کررہی ہے، وہ اس مرغی سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مال یا اپنی اولاد کی حفاظت کے لئے لڑنا یا مزاحمت کرنا فطرت میں رکھا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک جانور میں تو یہ فطرت زندہ ہے لیکن آج کے مسلمان مردوں کی یہ فطرت نہ جانے کہاں دفن ہوگئی کہ ان کے بھائیوں کے گھر پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، مسجدیں جلائی جارہی ہیں، میناروں اور درگاہوں پر چڑھ کر غنڈے بھگوا جھنڈے لہرا رہے ہیں، لیکن نہ جانے ان کی غیرت کہاں مرگئی ہے۔

                                بدر کا یہ بھی ایک اہم پیغام ہے کہ جب تک ایک جماعت قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک تو انہیں صبر اور قربانیوں کو پیش کرنا ہے۔ لیکن ایک بار جماعت قائم ہوجائے،تو ہر شخص پر جہاد فرض ہوجاتا ہے۔  اس کے لئے انہیں  اگر ہجرت کرنی پڑے تو کریں کیونکہ فرمانِ رسول ہے کہ  جس نے جہاد نہیں کیا، یا جہاد کرنے کی اس کے دل میں آرزو بھی پیدا نہیں ہوئی، وہ منافق کی موت مرا۔ اللہ کے بنی کا حکم ہے کہ پانچ چیزوں کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔ جماعت، والسمع والطاعۃ  والھجرۃ والجہاد۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ایک ویڈیو”اِ س حدیث کو کیوں چھپایا گیا؟“ یوٹیوب پر دستیاب ہے، ضرور سنئے کہ جماعت  والسمع والطاعۃ کے  بغیر آپ کبھی جیت نہیں سکتے۔ آپ کو ایسے وقت میں کسی ایسی پارٹی کے لئے اپنا مال، وقت اور توانائیاں لگادینا ضروری ہے جو پارٹی اس ملک سے فاشزم کو ختم کرکے تمام انسانوں چاہے وہ اقلیتیں ہوں، چاہے جاتی واد ہو یا چاہے کسی بھی قسم کی ناانصافی ہو، ان کو ختم کرنے کے لئے سڑکوں پر آنے کی ہمت رکھتی  ہو، اور نشاۃ ثانیہ کا خواب رکھتی ہو، اورجس کے جوان شہادت کا جام پینے کے لئے بے چین رہتے ہوں۔ تب جاکر 313  کی مثال اس سرزمین پر دُہرائی جاسکتی ہے۔

 

بدر کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آزمائش کے وقت منافقین کو مسلمانوں کے صفوں میں سے نکال باہر کرتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب مومن جہاد کے لئے گھروں سے نکلیں۔ ورنہ تو سارے مومن ہونے کا دعوی کریں گے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ خود آپ کی مسجدوں، جماعتوں، درگاہوں اور چلتے پھرتے عوام کے بیچ کتنے ضمیر فروش جاسوس پھیل گئے ہیں، جو اپنے مفادات کے لئے یا اپنی تنخواہوں کے لئے آپ کی جاسوسی کررہے ہیں۔ آپ ان سے ڈر کر یا ED یا IT یا پولیس یا کسی اور ڈپارٹمنٹ سے ڈرکر جب تک قوم سے ہمدرد ی صرف پرانے شہر کی بیٹھکوں میں کرتے رہیں گے، منافقین آپ کے ساتھ شامل رہیں گے، خود آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ آپ خود کب منافقین میں شامل ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین کی زندہ مثال ہے۔ جب مومن ایک ہزار کے لشکر کے خلاف مقابلے کے لئے نکلے اور کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ سمندر میں کود جانے کو کہیں گے تو کود جائیں گے، ایسے وقت میں عبداللہ بن ابی نے بہانے کئے، ایک اور مثال سورہ بقرہ میں طالوت کی آئی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ اس نہر سے جو بھی پانی پئے گا وہ مجھ سے نہیں، پھر بھی کچھ لوگوں نے پانی پیا اور نافرمانی کی، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو چھانٹ کر اسی طرح الگ کردیا جس طرح عبداللہ بن ابی کو۔ آج حالات سے ڈر کر جتنے لوگ گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں، جہادسے انہیں خطرہ بلکہ چِڑ ہے، مصلحت اور مفادات کے پیش نظر صحیح جگہ  ایک روپیہ جیبیوں سے خرچ کرنا نہیں چاہتے اور نہ ایسی کسی بھی مہم کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو مزاحمت کا اعلان کرے، یہ تمام وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ خود چھانٹ کر الگ کررہا ہے۔ یہ ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں۔ مکہ میں جب ہجرت کا حکم ہوا تو رسول اللہ کے ساتھ ہجرت کے لئے تیار ہونے والے صرف 70 کے لگ بھگ صحابہ ؓ تھے۔ حالانکہ اور بھی بہت سارے لوگ مکہ میں تھے جنہوں نے ایمان تو لایا لیکن ہجرت کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان کو سورہ نساء میں منافق کہا گیا۔ اس لئے جو لوگ آج کے حالات میں مسلمانوں کو تباہ کرنے کی ان تمام سازشوں کو دیکھتے ہوئے بھی صرف اللہ حفاظت فرمائے کہہ کر اپنی جان بچاتے ہیں اور گھروں سے نہیں نکلتے، یہ تمام وہی منافقین ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ خود چھانٹ رہا ہے، اس لئے  بدر کا پیغام یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے نہ ہمت ہاریئے، نہ شکایت کیجئے، کیونکہ مومنِ مجاہد کا اجر تو یوں  بھی اس دنیا میں نہیں ہوتا، اس کا اجر تو اللہ تعالیٰ نے جنت میں محفوظ کردیا ہے، اور شہادت کے ساتھ ہی جب اسے یہ انعام ملے گا تو وہ یہ کہے گا کہ کاش میں پہلے ہی یہ انعام حاصل کرلیتا، میں نے اتنی دیر کیوں کی۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی،

سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

  

پیر، 4 اپریل، 2022

اور وہ مرگئے


مرحوم  محتاجِ تعارف ہرگز نہیں تھے۔ہر شخص انہیں جانتا ہے۔اگر نہیں بھی جانتا ہے تو مندرجہ ذیل اوصافِ حمیدہ پڑھ کر ان کا چہرہ ذہن میں گھوم جائیگا، ان کا ا آج انتقال ہوگیا۔۔اچانک نہِیں ہوا کیونکہ انہیں خود بھی یقین تھا کہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ مرحوم نے وارثین کے لئے بہت کچھ مال اور جائداد چھوڑی ہے، اور قوم کے لئے بے شمار مشورے، تبصرے، اعتراضات اور سوالات چھوڑے ہیں۔ مرحوم بیک وقت ایک فلسفی، لیڈر، دانشوراورمصلح ہونے کے ساتھ ساتھ، دین پر بھی اگرچہ کہ عالم نہیں تھے، لیکن عالمانہ گفتگو کے شوقین انسان تھے۔لیڈروں اور علما پر تنقید ان کاخاص موضوع تھا، اگر اس پر کوئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہوتی تو انہی کو اعزازی طور پر دے دی جاتی۔ انہوں نے قوم و ملت کے لئے بے شمار ایسے منصوبے چھوڑے جن کو کبھی وہ شروع ہی نہ کرسکے۔ اگرچہ کہ ان کے پاس اِن منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے کافی مال تھا، لیکن چونکہ کوئی منصوبہ کبھی آغاز کی صورت نہ دیکھ سکا، اس لئے مجبوراً وارثین کو وہ مال آپس میں خوشی خوشی تقسیم کرلینا پڑا۔ ہاں بیٹیوں کی شادیوں کی منصوبہ بندیاں کامیابی سے تکمیل تک پہنچیں، شہر کی قابل رشک شادیوں میں ان کے گھر کی شادیاں شامل ہیں۔ ماشاء اللہ داماد بھی بہت خوددار ملے۔ کسی نے کچھ نہیں مانگا۔ جو بھی ملا، لڑکی والوں نے خوشی سے دیا کہہ کر قبول کرلیا۔ 

مرحوم بے حد قوم پرست تھے۔ جب گھر میں یا دوستوں کے بیچ دیوان خانے میں ہوتے تو بابری مسجد، کشمیر فائلس، حجاب اور دھرم سنسد جیسے واقعات پر دشمن کو چیر ڈالنے کے قائل تھے، لیکن جب باہر ہوتے تومحض پولیس اور قانون کا لحاظ کرتے ہوئے صلح پسندہوجاتے تھے۔ مسجد، مدرسہ یا خدمتِ خلق کے کاموں میں تو ہزار دو ہزار روپئے ضرور دیتے لیکن اگر پاپولر فرنٹ جیسی کوئی انقلابی تھریک  ان تک رسائی کرے  تو صاف کہہ دیتے کہ آپ ناگپور سے ایک کنڈکٹ سرٹیفکیٹ لالیں کہ آپ پر حکومت کی نظر نہیں ہے، میں ضرور مدد کرونگا۔انہیں یقین ہوچکاتھا کہ دشمن بہت طاقتور ہے، ہم کچھ نہیں کرسکتے، بس دعا کرسکتے ہیں، اس لئے جب بھی کوئی بری خبر آتی فوری یہ دعا کرتے ائے اللہ مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ دشمن کا خاتمہ فرمادے۔ مرحوم جماعت کے منکر نہیں تھے لیکن اپنے نام کے ساتھ کسی جماعت کا لیبل لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ مرحوم امت میں اتحاد پیدا کرنے کے خواہاں تھے، اس لئے جس جماعت کو وہ پسند نہیں کرتے اس کے سخت خلاف ہوجاتے۔ خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی اور ارتغرل،  مرحوم کے پسندیدہ ہیروز تھے، اس لئے قوم کے نوجوانوں سے بالکل مایوس ہوگئے۔،کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اب ویسے مجاہدین پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ نوجوانوں سے کہتے کہ دشمن سے مقابلے کے لئے گھروں سے نکلنے کی ہمت پیدا کرو،اسی لئے انہوں نے اپنے بیٹوں اور دامادوں کو سعودی عرب، امریکہ اور کینیڈا بھیج دیا تھا۔ 


مرحوم نہ داڑھی کے قائل تھے اور نہ کسی مسلک کے، ریٹائرمنٹ کے بعد لیکن قائل ہوگئے، اور ایسی داڑھی چھوڑی کہ چہرے پر داڑھی کی ساری عمر کی کمی کا کفارہ ہوگیا۔ اسی لئے انہیں مسجد کی کمیٹی کا ممبر بنادیا گیا۔ پولیس ہربار فساد سے پہلے فسادیوں کا ساتھ دیتی، فساد کے بعد

 امن کمیٹی قائم کرنے ان کو ساتھ لیتی۔ مسلک پر سختی سے جم گئے، مگر چونکہ عربی سے ناواقف اور اردو میں کمزور تھے، کبھی کسی زیارت یا چہلم میں قرآن تھوڑی بہت پڑھ لیتے لیکن معنی یا مطالب سے نہ واقفیت تھی اور نہ کوئی واسطہ، اس لئے اپنے مسلک کے مولویوں یا مشائخین پرمکمل ایمان رکھتے تھے۔ وہ جو کہیں اسی دین پر چلنا عین اسلام سمجھتے تھے۔ جہاں بھی تین پاروں یا پانچ پاروں کی تراویح ہوتی، یہ قرآن مکمل سن کر قرآن سے فراغت حاصل کرلیتے تھے۔ افطار کے بہت شوقین تھے۔ کہتے تھے کہ یہ مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے اور کھانے کے لئے آتا ہے۔ دعوتیں قبول کرنے کے بہت شوقین تھے۔مرحوم کو عمرے کرنے کا بہت شوق تھا۔ کسی عمرے پر دو تین لاکھ سے کم خرچ نہیں ہوتے۔ 

ویمنس رائٹس یعنی عورتوں کے حقوق کے بہت قائل تھے۔ بیوی کو مشورہ ضرور دیتے لیکن فیصلے کا حق ہمیشہ بیوی ہی کو دیتے۔ دوسری شادی ان کے مذاق کا خاص موضوع تھا لیکن کرنے کی کبھی ہمت نہ کرسکے۔مقامی لیڈرز، سیلیبریٹیز، سفیر یا قونصل کے ساتھ کسی نہ کسی موقع پر تصویر کھنچوانے اور فیس بک پر ڈالنے کے بہت شوقین تھے۔ چونکہ ان کے پاس کثرت سے واٹس اپ آتے تھے، ان تمام کو پڑھنا ممکن نہیں تھا، اس لئے پہلے ان تمام پوسٹس کو فارورڈ کردیتے۔سنجیدہ پوسٹس سے انہیں نیند آجاتی تھی، اس لئے ٹک ٹاک، ریلس اور انسٹگرام دیکھنا بھی سیکھ گئے تھے، مگر اذان کے وقت پاز کردیا کرتے تھے۔ کشورکمار اور لتا کے گانے سن کر اور امیتابھ اور دھرمیندر کی فلمیں دیکھ کر جوانی گزاری، لیکن محمد رفیع اور دلیپ کمار سے عقیدت رکھتے تھے۔اردو سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ اس لئے اکثر اپنے  ذاتی اشعار سناتے۔  اردو کا کوئی رسالہ یا کتاب خرید کر پڑھنے کے قائل نہیں تھے، کہتے تھے کہ ادب تو غالب اور اقبال کے پاس تھا، اب کہاں۔ 

مرحوم خوش گفتار انسان تھے، اور قطع کلامی کے بے انتہا شوقین تھے۔ اتنے ذہین تھے کہ مخاطب کے بات شروع کرنے سے پہلے ہی پوری بات سمجھ جاتے اور ''میں سمجھ گیا، میں سمجھ گیا''کہہ کر بیچ بیچ میں بول پڑتے۔ مرحوم نے کبھی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچی، البتہ ٹانگ کھینچنے والوں کی اخلاقاً تائید کرتے تھے۔ اہم میٹنگس میں جب بھی مرحوم کو دعوت دی جاتی، وہ انتہائی گرمجوشی سے وعدہ بھی کرتے اور ارادہ بھی، لیکن بدقسمتی سے ٹھیک اسی دن اور اسی وقت گھر کا کوئی نہ کوئی کام ایسانکل آتا کہ میٹنگ کو کنارے کردیتے۔ بہرحال، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔نمازِ جنازہ کل بعد ظہر آپ ہی کے محلے کی مسجد میں ہوگی۔ ان کا تعلق ہر محلّے، ہر شہر اور ہر خاندان سے ہے۔ اگر آپ ان کا  پورا نام جانتے ہیں تو ہمیں مطلع فرمائیں۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی

9642571721



 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...