پیر، 20 مارچ، 2023

نکاح میں شیروانی۔ ولیمہ میں سوٹ


اچھا؛ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ لوگ نکاح اور ولیمہ کو ایک ہی دن منعقد کرنے کی تحریک کی اتنی سختی سے مخالفت کیوں کررہے ہیں۔ ہم نے سمجھا تھا کہ ان کے پاس کوئی شرعی دلیل ہوگی، لیکن پتہ چلا کہ باپ دادا بلکہ پڑدادا اور سکّڑدادا سے چلی آرہی روایت کو باقی رکھنا ضروری ہے۔ وہ روایت یہ ہے کہ شادی کے دن شیروانی اور ولیمہ کے دن سوٹ پہننا ہماری آبائی شان ہے۔ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ولیمہ کو نکاح کے اگلے دن کرنے میں شائد سنّت کی کوئی  دلیل ہوگی، لیکن معاملہ دلیل ولیل کا نہیں، معاملہ شیروانی، سوٹ، کھڑے دوپٹے اور غرارے یا بنارسی ساڑی کی ضد کا ہے۔

اس دلیل پر ہم متفق ہیں۔ باپ دادا کی شان کو باقی رکھنا بہرحال ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس سرکاری عہدے رہے نہ قابلِ فخر حیثیتیں۔ اگر گھر پر سرکاری گاڑی ڈرایؤر کے ساتھ کھڑی ہوتی  اور ہمارے لوگ مہمانِ خصوصی بن کر جاتے تو اس میں شیروانی یا سوٹ میں جانے کی شان بھی ہوتی، لیکن اب جب کہ نظام سرکار کے لٹنے کے بعد سبھی نواب اور نوابوں کے چمچے روڈ پر آچکے ہیں، تو پھر ان شیروانیوں اور سوٹوں کا کیا کرتے؟ اس لئے ضروری تھا کہ نکاح کے دن شیروانی اور ولیمہ میں سوٹ کی روایت قائم کرکے اِنہیں زندہ رکھا جائے۔ اس لئے اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سوٹ تو سلوالیتے ہیں تاکہ دوسروں کے ولیموں میں پہننے کے کام آئے، لیکن شیروانیاں کرائے پر لی جاتی ہیں۔ جب شادی کے دو چار سال بعد پیٹ باہر نکل آتا ہے تو یہ سوٹ برسوں الماری میں لٹکا رہتا ہے۔ اب باپ دادا کا ہمارے پاس رہا ہی کیا جس پر ہم شان کریں سوائے دھوم دھام سے شادیا ں کرنے کے۔ چونکہ ہمارے دادا اور نانا نے جائدادیں بیچ کر ہمارے محترم پھوپھا جانوں اور خالو پاشاؤں کو خریدا، پھر اس کے بعد جو تھوڑا بہت ابا جان کو ملا تھا انہوں نے بیچ کر ہمارے بھائی جانوں کو خریدا، اس لئے یہ روایت باقی رکھنا ضروری ہے۔اب اگلی نسل اپنی اولاد کی شادیوں کے لئے چاہے خود بِک جائے، چاہے لڑکیاں بھاگ جائیں لیکن شیروانیوں کی شان باقی رکھنے کے لئے لڑکی کے باپ سے نکاح کے دن کا کھانا لینا ضروری ہے۔ اگر لڑکے والے منع بھی کریں تو لڑکی والوں کی سائڈ کے  شیروانیاں والے اعتراض کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی کی شادی کے کھانے پر توآپ نے  شیروانی استعمال کرلی، اب ہم کو کیسے محروم کرسکتے ہیں؟ پ ئے اکثر لڑکے والوں سے یہ پارسانہ جملہ سنا ہوگا کہ بھئی ہم نے تو کھانے کی دعوت سے منع کیا تھا لیکن لڑکی والوں کا اصرار تھا۔ ایسی شادیوں میں باپ دادا کی اور بھی سنّتیں ہیں جن کوپورا کرتے کرتے قوم کی کمر ٹوٹ چکی ہے، لیکن جھوٹی شان کو باقی رکھنے کے لئے پھر بھی ہم قرضوں، خیرات و زکوٰۃ کا سہارا لے کر اُس شان کو باقی رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی باپ دادا کی شان کو باقی رکھنے کے لئے ہمارے پاس شادیوں کے علاوہ اور رہا بھی کیا؟ اسی لئے ہم نے چہلم، برسی، ختنہ، چِھلّہ چھٹّی اور برتھ ڈے وغیرہ سبھی کو مِنی شادی کی تقریبات میں تبدیل کردیا۔ فرق یہ ہے کہ اِن تقریبات میں سوٹ یا شیروانی کی ضرورت نہیں۔ ہاں بعض لوگ جن کو ممتاز نظر آنے کی چول ہوتی ہے، وہ ضرور یہ پہن لیتے ہیں۔ اِن تقریبات کی وجہ سے جو پیسہ کی بربادی کے ساتھ دکھاوے کی لعنت بڑھتی جارہی ہے ہمارے بعض معصوم NRIs بڑے پیارے پیارے مشورے دیتے ہیں، جیسے شادی کو آسان کرنا چاہئے، لڑکی والوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے۔ ہر شخص یہ ”چاہئے چاہئے“ جیب میں رکھ کر پھرتا ہے۔ کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ ہمارے باپ دادا نے ہی سکھایا ہے کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے، لہذا اس میں بارہ خون معاف ہوتے ہیں۔ آن جائے پر شان نہ جائے، شادی کے موقع پر کسی پر نہ نصیحت کام کرتی ہے نہ وعظ۔ اگر جٹھانی کی بیٹی کی شادی دس لاکھ کی ہوئی ہے تو دیورانی اپنے شوہر کو وارننگ دیتی ہے کہ اپنی لڑکی کی شادی کم سے کم گیارہ لاکھ کی ہونی چاہئے، چاہے تم ڈاکہ مارو یا بھیک مانگو۔ یہاں سارے چاہئے چاہئے ناکام ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہمارے باب دادا کا سسٹم ہے، اور کوئی باپ دادا کے سسٹم سے ارتداد کرنے تیار نہیں، چاہے مایوس ہوکر لڑکیاں ہی ارتداد پر آمادہ کیوں نہ ہوجائیں۔ بے چارے NRIs کو کیا پتہ کہ ایک لڑکی کی شادی خاندان کو کتنے سال پیچھے کردیتی ہے۔پھر بھی اِن دعوتوں کے ان بھوکڑوں کے پاس ایسی دعوتوں کے جائز ہونے کی دوسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ صدیوں سے چلی آرہی ہمارے باپ دادا کی شان ہے۔

یقینا یہ برسوں نہیں بلکہ صدیوں پرانی مسلم تہذیب ہے، لیکن یاد رہے یہ اسلامی تہذیب نہیں۔ مہارانی جودھا بائی نے اپنے ساتھ  خوب رسمیں لائیں، لیکن درباری علما میں یہ ہمت نہیں تھی کہ اعتراض کرتے، لہذا ان کو مسلم تہذیب کا سرٹیفکٹ دے دیا گیا۔ اور آج بھی اگر مولوی ان رسموں کو ناجائز کہہ دیں اور ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کردیں تو نہ صرف امیر ان کو دعوت دینا چھوڑ دیں گے بلکہ ان کے چندے بھی بند ہوجائیں گے۔ عام آدمی کو تو بریانی اور بگھارے بیگن کی لالچ ہوتی ہے، وہ بے چارا حلال یا حرام کے چکر میں پڑے گا تو ہفتہ میں ایک آدھ بار گوشت کھانے کوملتا ہے اس سے بھی محروم ہوجائیگا۔

ہاں ایسی دعوتوں کو مسلم تہذیب کہنے کی دلیل سلیمان سکندر ؒ اور عبدالرحیم قریشی ؒ سے بھی لائی گئی ہے۔ اور یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ بڑے بڑے علما ایسی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ علما کی مسجدیں الگ ہیں لیکن شادی خانوں میں یہ سب ایک ہیں۔ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس شخصیت کی یاد میں لاکھوں کے جلوسِ میلاد نکالتے ہیں، جن کے نواسوں کے غم میں ماتم کرکے سینے لہولہان کرلیتے ہیں، جن کی خاطر شب برات میں مسجدوں کو بقعہ نور بناتے ہیں، جن کے فرمان ”النکاح من سنتی“ کو رقعہ پر چھاپتے ہیں، جن کی سنّت کو کوئی ہمارے طریقے سے ہٹ کر کرے تو اس کو کافر، بدعتی، مشرک، فاسق اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں، آخر اس شخصیت کی شادی یا ان کے نواسوں کی شادیاں ہمارے لئے دلیل کیوں نہیں بن سکتیں؟


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدرسوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721




 

جمعرات، 9 مارچ، 2023

چٹ نکاح پٹ ولیمہ ۔ کیوں نہیں؟ (ایک اعتراض کا جواب)


لوگ بھی عجیب ہیں۔ بھوک کا رونا روتے ہیں، انہیں روٹی پانے کا راستہ دکھاو تو اسے شدت پسندی، بے جان اور بے وزن مہم قرار دے کر من و سلویٰ کی خواہش کرتے ہیں۔ من و سلویٰ بہم پہنچانے کے لئے پیغمبر کا آنا لازمی ہے، لہذا نہ اب کوئی پیغمبر آئیں گے اور نہ لوگوں کی خواہشات پوری ہوں گی۔ اپنی اپنی پسند اور اپنے مزاج کا دین چلتا رہے گا۔

بات اتنی سی تھی کہ نکاح اور ولیمہ دونوں ایک ہی وقت منعقد ہوجائیں تو اس سے نہ صرف بے شمار خرافات اور منکرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ لاکھوں گھرانوں کو غربت و افلاس سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ یوں تو ایک پان کے ڈبّے والے سے لے کر ایک کروڑپتی تک ہر شخص نکاح کو آسان کرنے کے دانشورانہ تکیہ کلام کی جگالی کرتا ہے لیکن جب کسی خرافات سے بھرپور شادی کا دعوت نامہ آتا ہے تو اس کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ رقعہ کھول کر پہلے ”تناول طعام”اور ”ولیمہ“ چیک کرتا ہے، صدیوں سے لذیذ کھانوں کی اِس بھوکڑ قوم کو دعوت نامے کے ایک ایک لفظ سے بِریانی، بگھارے بیگن اور شاہی ٹکڑوں کی پاگل کرڈالنے والی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ایسے وقت میں وہ نکاح کو آسان کرو کا کلمہ بھول جاتا ہے اور یاد رہتاہے تو صرف دعوت قبول کرنے کی سنّت۔ ہمارے مولویوں نے بھی پیٹ بھرنے والی ہر سنّت کو خوب دماغوں میں بٹھایا ہے۔ صرف شادیاں ہی نہیں بلکہ عرس، چہلم، برسی، برتھ ڈے، گیارہویں، کونڈے، افطارپارٹیاں، عیدملن، چِھلّہ، چھٹّی، عقیقہ، بسم اللہ، ہر موقع کی مناسبت سے ہمارے مولویوں کے پاس کھانے کا جواز ہے۔ کھانے کے لئے مرجانے والی قوم کہیں نہ کہیں سے جواز نکال لاتی ہے۔ حتٰی کہ جس گھر میں میت ہوجائے، لوگ تدفین کے بعد اپنے گھرواپس نہیں جاتے بلکہ میت کے گھر کھانے کے لئے آدھمکتے ہیں۔کیوں؟ کیونکہ کھانے کی دعوت قبول کرنا سنّت ہے۔ اب ایسی قوم سے شادی کے کھانے چھوڑنے کی امید کرنا یقناً سعئی لاحاصل ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص گُٹکا کھانے کی وجہ سے کینسر کے آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے، لیکن وہ گُٹکا چھوڑنے تیار نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ”میں اپنی شادی سے لے کر دادا و نانا بننے تلک یہ کھاتا رہا ہوں“، اسی طرح کوئی شخص جسے ہائی شوگر کی وجہ سے میوے کھانا بھی سخت منع ہے، لیکن وہ کہتا ہے کہ میں شادی سے لے کر دادا و نانا بننے تلک میوے حرام نہیں تھے، اب حرام کیسے ہوسکتے ہیں؟  اب اسے کون سمجھائے کہ یہی حلال میوہ شوگر کے مریضوں کے لئے خودکشی کا ذریعہ بنتا ہے اور خودکشی حرام ہے۔  

نکاح کے فوری بعد ولیمہ کرنے پر لوگوں کو سخت اعتراض ہے  سوال یہ ہے کہ ولیمہ کو اگلے دن ہی کرنے کی لاجک کیا ہے۔ چونکہ معترض نے اس مسئلے پر شرعی احکامات کی باریکی کی تحقیق کئے بغیر ایک مزاحیہ کالم میں معمولی عقلی سظح کی پتنگ اڑائی ہے اس لئے ہم بھی معمولی عقلی کی ہی پتنگ لڑائینگے، ورنہ اگر شرعی احکام کا مانجہ لگائیں گے تو ان کی بغیر مانجے کی پتنگ ایک آن میں ہوا ہوجائیگی۔

سنّتوں سے لوگوں کی محبت پر ہمیں بڑا رشک آتا ہے جب وہ ولیمہ کو اگلے دن ہی کرنے پر بضد ہوتے ہیں۔ جس طرح برہمنوں اور شودروں کی مندریں الگ ہوتی ہیں، اسی طرح سنّتوں کی محبت میں ہمارے دینداروں کی بھی مسجدیں الگ ہیں، فرقے، لباس، رنگ اور حلیئے الگ ہیں،اورمعاملہ جب اگلے دن ولیمہ کرنے کا آتا ہے تو بات صرف سنت تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس میں عقیدہ بھی شامل ہوجاتا ہے، اسی لئے بوڑھیوں کے بھی دماغ میں یہ بٹھادیا گیا کہ بقول حضرت معترض کے وہ کہہ اٹھتی ہیں ”ائی ماں؛ کیا بے صبرا دلہا ہے، اجاڑ، ذرا تو صبر کرنا، سیم ٹائم نکاح اور ولیمہ کتے۔۔۔۔“

ہر سنّت کے پیچھے ایک منشائے شریعت ہوتی ہے جس کو علما علّت یا حلت کہتے ہیں۔ اس کو سمجھے بغیر سنت پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے شوگر کے مریض کو محبت میں خوب شوگر کی چائے پلاتے جانا۔ رسول اللہ کے زمانے میں نکاح بات چیت کے موقع پر ہی پانچ دس افراد کی موجودگی میں ہوجاتے تھے۔ لڑکی والوں سے کھانا لینے کا دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا، اس لئے اگلے دن ولیمہ کا اعلان ہوتا تھا۔ بلکہ ولیمہ نام ہی اعلان کا ہے۔ یہی سنت ہے۔ولیمہ کا اصل مقصد اعلان ہے  نہ کہ وقت۔ لیکن اگر آج کی طرح  نکاح کے دن ہی لڑکی کے باپ کے خرچ پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو جمع کرلیا جائے تو اعلان خودبخود ہوچکا، اب مزید اعلان کرنے کا کیا تُک ہے؟ اور سنّت کی محبت کے دعویداروں سے یہ بھی سوال ہے کہ جب سیرت میں بارات کاے کھانے کا کوئی وجود نہیں تو ولیمہ اگلے دن کرکے نکاح کے د ن کا کھانا ایجاد کرنا کیا سنت ہے؟ یہ ایک صریح بدعت ہے۔ یہ رسول اللہ کی سنت نہیں بلکہ مہارانی جودھابائی کی سنت ہے۔ اکبراعظم کے خوف سے اس وقت درباری علما کے پاس ایسی رسموں کا جواز پیدا کرکے دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، لیکن بدقسمتی سے بعد کے علما میں اجتہاد کا شعور نہیں رہا اور یہی روش جڑ پکڑ گئی، اور آج راجبوتوں کی ہر رسم کو اسلامی جوازفراہم کیا جارہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اِس دور میں جن کے پاس حرام حلال کی پروا کئے بغیر لاکھوں کی کمائی ہے وہ تو کئی کئی لاکھ کا کھانا کھلاسکتے ہیں، لیکن ایسے مستی خورے سماج میں دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں۔ لیکن ان کی وجہ سے جو شان اور دکھاوے کا ماڈل بن چکا ہے،”لوگ کیا کہیں گے“ کے خوف سے اکثریت کے لئے نکاح کے دن کھانا کھلانا بچی کی سسرال میں عزت کا سوال بن جاتا ہے۔ اس لئے جن لڑکیوں کے باپ قرض لے کر یا گھر بیچ کر یا بیٹوں کو کنگال کرکے خرچ کرسکتے ہیں ان کی شادیاں تو ہوجاتی ہیں۔ لیکن جن لڑکیوں کے باپ یہ نہیں کرسکتے وہ لڑکیاں سوائے انتظار میں بال سفید کرنے یا غلط راستوں پر جانے کے اور کیا کرسکتی ہیں؟

سنا ہے کہ جب بنگال میں تاریخ کا بدترین قحط پڑا تھا، ملکہ برطانیہ نے معصومیت سے کہا تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ اسی طرح حضرت معترض کی طرح کئی معصوم ایسے ہیں جن کو زمینی حقائق کا علم ہی نہیں، آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ جس کی استطاعت ہے وہ خرچ کرے، ورنہ وہ سادگی سے شادی کرے۔ مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ یا علیؓ کی استطاعت نہیں تھی، وہ نہیں کرسکے، لیکن جس کی استطاعت وہ ضرور کرے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کلچر الگ تھا، مطلب یہ کہ اب ہم رسول اللہ کے  قدامت پسند کلچر پر نہیں چل سکتے اگر ہم مہارانی جودھا بائی کے کلچر پر نہیں چل سکے تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔

ولیمہ اگلے دن کرنے کی منطق جو ہمارے مولویوں نے بیان کی ہے وہ ہے شبِ زفاف کی۔ ہمارے مولویوں نے بھی ولیمہ کی اصل علت کو بازو ہٹا کر دلہا دلہن کی ملاقات اور۔۔۔۔۔۔ کی شرطیں رکھ دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دلہا شبِ زفاف کی تکمیل کا کوئی سرٹیفکٹ پیش کرتا ہے جس کے بعد ہی ولیمہ جائز ہوتا ہے؟ آپ کو اڈوانس میں ولیمہ کا رقعہ لیتے ہوئے کیسے یقین ہے کہ شبِ زفاف کامیاب ہوگی؟ کیا آپ نے اگلے دن ولیمہ کرنے والوں سے دعوت نامہ قبول کرنے سے پہلے کبھی کوئی ضمانت لی ہے کہ شبِ زفاف کامیاب ہوگی؟ کیا شریعت میں ایسی کوئی شرط ہے کہ شبِ زفاف کا ثبوت ہو تو ولیمہ کھانا جائز ہے ورنہ نہیں؟ بھائی، ولیمہ میں کسی ثبوت وبوت، یقین وقین کی بات نہیں ہوتی، صرف اچھے گمان اور امید کی بنیاد پر ہی لوگ آتے ہیں اور کھا کر چلے جاتے ہیں۔ سب کو گمان یا امید ہوتی ہے کہ شبِ زفاف ضرور ہوگی۔ جب آپ کئی دن پہلے سے یہ گمان یا امید رکھتے ہیں کہ شبِ زفاف ضرور ہوگی تو یہی گمان آپ ولیمہ کو سیم ٹائم یعنی نکاح کے وقت ہی کرکے اسی گمان یا امید کی بنا پر کھاسکتے ہیں۔

چونکہ معترض حضرت سوشیو ریفارمس سوسائٹی سے واقف ہی نہیں، نہ انہوں نے مضمون لکھنے سے پہلے کسی ذمہ دار سے اس کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کیں، نہ کبھی اِس کی یوٹیوب، ویب سائٹ، فیس بک دیکھی،نہ ہماری وہ کتابیں پڑھیں جن کی مستند علما نے اپنے مقدمہ کے ذریعہ تصدیق کی۔ اور نہ اِس اہم موضوع پر کسی مستند عالم سے کوئی رہنمائی حاصل کی۔ اور کہہ دیا کہ ان کی شادی سے لے کر دادا و نانا بن جانے تک چونکہ ایک ہی وقت میں نکاح اور ولیمہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا، لہذا اسی کو دلیل بنا کر ہمیں شدت پسند، بے وزن اور بے جان کہہ کر بریانی، بگھارے بیگن اور شاہی ٹکڑوں کے بھوکوں کو یہ کہہ کر خوش کردیا کہ ڈٹ کر کھاو سب جائز ہے۔ اور یہاں تک جسارت کے ساتھ یہ کہہ ڈالا کہ یہ کوئی حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے۔ کم سے کم یہ غیرذمہ دارانہ جملہ لکھتے ہوئے آدمی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ حلال و حرام کے بِل میں بغیر تحقیق کے صرف اپنے عقلی گھوڑے دوڑانا غلط بلکہ گمراہ کن رویہ ہے۔ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے یا نہیں یہ جاننے کے لئے کئی علمائے حق  ابھی زندہ ہیں، جن کی تحریریں ہماری کتابوں میں نقل ہیں، جن کے ویڈیوز ہماری چینلس پر موجود ہیں۔ پہلے علمی طور پر لیس ہویئے پھر حلال و حرام کے موضوع پر قلم اٹھایئے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721    

  


پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...