جمعرات، 28 ستمبر، 2023

ہیجڑا بھی مرد بن جاتا ہے جب پاؤرکے ساتھ ہو

 

پچھلے ہفتہ ایک فرقہ پرست فاشسٹ ایم پی نے ایک مسلم ایم پی کوپارلیمنٹ کے بھرے اجلاس میں اپنی Hate speech کا نشانہ بنایا، یوں تو اس سے پہلے بھی کہیں زیادہ شرمناک Hate speeches  اوروں نے بھی کیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے باہر تھیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی غنڈہ مزاج نے پارلیمنٹ کے اندر یہ جسارت کی ہے۔ پارلیمنٹ کو سموِدھان کا مندر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں قانون بنایا جاتا ہے، اس کو یہیں سے چلایا جاتا ہے اور قانون کی مکمل حفاظت پارلیمنٹ سے ہی کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ جگہ سموِدھان کے لئے ایسی ہی مقدس ہے جیسے ہندؤوں کے لئے مندر یا مسلمانوں کے لئے مسجد۔ اگر کسی دوسرے دھرم کا کوئی آدمی کسی مندر، یا مسجد یا گردوارے یاچرچ میں جاکر غلط حرکت کرے تو اُس دھرم کے لوگ اس کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، وہ لنچنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ اور سمودھان کے دھرم کی دھجّیاں اڑا دی گئیں اس گستاخ کو سزا دینا تو درکنار، خود اسپیکر اور بھگوا پارٹی کے کئی ممبر ہنس ہنس کر اس کی ہمت افزائی کرتے نظرآئے۔ نہ حکمران پارٹی کے اور نہ اپوزیشن پارٹی کے کسی ممبر آف پارلیمنٹ نے بروقت ایکشن لیا، نہ  واک آوٹ کیا اور نہ اپنے پارٹی ورکرز کے ساتھ سڑک پر آیا، جبکہ یہ لیڈر اپنے دھرم یا جاتی یا اپنی پارٹی ایجنڈے کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو پارلیمنٹ کو سبوتاج کرڈالتے ہیں۔اور وہ ایم پی جس کو ذلیل کیا گیا نہ اُس کے پاس اتنی غیرت تھی اور نہ اُس کی پارٹی میں اتنی ہمت تھی کہ دھرنا دیتے، فلور پر اُس وقت تک احتجاج کرتے جب تک اُس غنڈے کو پارلیمنٹ سے معطل نہیں کردیا جاتا۔ اگرچہ کہ راہل گاندھی اور دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے مذمّتی بیانات دیئے لیکن یہ بیانات دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی سڑک حادثے کے زخمی کو جِسکی فوری آپریشن کی ضرورت ہے، اُس کے زخموں کو Dettol سے دھوکر ڈریسنگ کرکے بھیج دیا جائے۔

اگر حل تلاش کرنا ہو تو پہلے اِس غنڈہ حرکت کرنے والے کی ہمت کی اورپھر ڈر کر خاموش رہ جانے والوں کی سائیکالوجی کو سمجھنا ہوگا۔جس نے پارلیمنٹ کے Ethical rules کا وائلیشن کیا ہے اس غنڈے ایم پی کے پیچھے چلنے والوں کی تعداد جس کو Mass strength کہتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے جو کہ اس کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ جب کہ گالیاں کھانے والوں کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ خود انہیں کوئی معمولی سڑک چلتا بھگوا غنڈہ گالی دے تو گھر میں چھپ جاتے ہیں، سڑک پر نہیں آتے۔ اسی سائیکالوجی کا فائدہ اٹھا کر طاقتور ہمیشہ تھرمامیٹر کی طرح لوگوں کے دلوں میں ڈر کتنا ہے اس کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ سنجیوبھٹ، جسٹس لویا، اعظم خان، چدمبرم، بھیم کورے گاؤں، تری پورہ،پی ایف آئی، عمرخالد، منی پور، نوح اور میوات جیسے مسلسل واقعات وقتاً فوقتاً مریض کے ٹیسٹ کی طرح کئے جاتے ہیں، تاکہ اگر کہیں لوگوں میں احتجاج، بغاوت یا سڑکوں پر آنے کی ہمت باقی ہو تو ایسے باغیوں کو جیلوں، انکاؤنٹر، ای ڈی، یو اے پی اے یا پوٹا وغیرہ کے ذریعے ہمیشہ کے لئے ختم کیاجاسکے۔ ایسا جس کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے بزدل سوسائٹی کی یہ علامت ہوتی ہے کہ خود اس شخص کے قریبی لوگ بھی اس کا نام لیتے ہوئے  ڈرتے ہیں، اس شخص کا نام فون اور سوشیل میڈیا سے بھی ہٹا دیتے ہیں۔یہ بزدل لوگ باطل طاقتوں کے وفادار تو نہیں بنتے لیکن اپنی خاموشی اور فرار کے ذریعے باطل طاقتوں کو اور طاقتور بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف باطل طاقتیں دھرم یا مذہب کے نام پر اپنے اندھ بھگتوں کی حمایت حاصل کرکے اندھا دھند دولت اور پاؤر حاصل کرلیتے ہیں۔پھر فطری بات ہے کہ پولیس، فوج، میڈیا، عدالتیں، جج اور EVM سب ان کے پیچھے ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں، کیونکہ سب کو اپنی اپنی نوکری اور پروموشن کی ہوس ہوتی ہے۔ جب اتنی طاقتیں پیچھے ہاتھ باندھ کر حکم کا انتظار کررہی ہوں تو ایک مرد تو کیا ایک ہیجڑا بھی اتنی ہمت پیدا کرلیتا ہے کہ پستول ہوا میں لہراتے ہوئے، پولیس والوں کو اطراف لے کر ”گولی مارو سالوں کو“کہتے ہوئے کھلے عام پھرتا ہے۔

دوسری اہم نفسیات یہ سمجھئے کہ یہ معاملہ ہندو مسلمان کا نہیں ہے۔ یہ Power  اور Powerless  کی جنگ ہے جو روزِ ازل سے چلی آرہی ہے۔ کربلا میں دونوں طرف کلمہ پڑھنے  والے  ہی تھے۔ پاکستان بنگلہ دیش، عراق ایران، سعودی اور یمن، سوڈان کے دونوں متحارب گروپس، ترک اور عرب، یہ سارے وہی کلمہ پڑھنے والے لوگ تھے جنہوں نے ایک دوسرے کا Bloodshed کیا۔ دوسری طرف ہزاروں بدھسٹوں کا قتل ہوا، مرہٹوں نے چار لاکھ بنگالیوں کا قتل کیا، مرہٹوں نے ہی ساؤتھ کی مندریں لوٹیں، ہندوستان میں مسلمانوں کے داخلے سے پہلے تک ہر ریاست ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارتگری کررہی تھی، یہ تمام مثالیں ہیں کہ دونوں طرف اسی رام کو ماننے والے تھے۔ اسی طرح China square پر ٹینکوں سے عوام کو کچل دیا گیا، ہر دو طرف چینی تھے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں اکثریت جو ایک دوسرے کو قتل کررہی تھی، وہ ساری عیسائی تھی۔ اسی طرح سری لنکا، یوگانڈا، نیکاراگوا، انگلینڈ کے پروٹیسٹنٹس اور کیتھولکس، وغیرہ اگرچہ سارے ایک ہی دھرم کے لوگ تھے لیکن ایک دوسرے کے اوپر پاؤر حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے قتل کرتے رہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلنے والا ہے۔

سوال وہی آتا ہے کہ حل کیا ہے؟ کیا کبھی کمزوروں کو بھی  طاقت حاصل ہوگی؟ کیا کبھی طاقتور شکست کھائیں گے؟  اِس نفسیات کا قرآن بہترین تجزیہ بھی کرتا ہے اور حل بھی پیش کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ طاقتور ہو کہ کمزور، اہلِ ایمان ہوں کہ انکار کرنے والے، دونوں کے پاس جہاد اور قتال کا ہی راستہ ہے۔ سورہ نسا آیت 76 ”جو ایمان والے ہوتے ہیں وہ قتال کرتے ہیں، اور جو انکار کرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی قتال کرتے ہیں۔ پس قتال کرو ان سے جو شیطان کے دوست ہیں، اور بے شک شیطان کی چالیں ضرور کمزور پڑتی ہیں“۔

جو بھی قتال کے لئے تیار ہوگا، طاقت اسی کا حق ہے۔ جس کی شاندار مثال یہی کہ اندھ بھگت ہر وقت جلسے جلوسوں اور فسادات کے ذریعے قتال کے لئے تیار رہتے ہیں، اسی لئے انہیں پاؤر حاصل ہے۔ ارتغرل نے قتال کیا اُسے چھ سوسال کا پاؤر ملا۔عبدالعزیز ابن سعود نے قتال کیا سو سال سے اس کا خاندان سعودی عرب پر حکومت کررہا ہے۔ لیکن آج کے مسلمانوں کی طرح جو قتال کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اسی سورہ کی آیت 77 کے مصداق نماز اور زکوٰۃ پر تو خوب عمل کریں گے لیکن قتال سے بھاگیں گے“ وہ اسی سزا کے مستحق ہوں گے جو سزا انہیں گجرات، آسام، مؤ، مظفرپوراور سقوطِ حیدرآباد  وغیرہ میں مل چکی ہے، اور بقول مولانا سجاد ندوی کے ”ابھی تو اور جوتے پڑنے باقی ہیں“۔پہلا حل یہی ہے کہ ہر ہر شخص پہلے کسی مضبوط جماعت میں شامل ہوجائے۔ جماعت مضبوط نہ بھی ہو تو اس کو مضبوط کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شامل کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ڈاکٹر امبیڈکر نے صحیح کہا تھا کہ ”Mass strenth  پاؤر کی Master key ہے۔ مکہ میں نبی ایک تھے۔ تیرہ سال میں 70+ ہوئے جنہوں نے ہجرت کی، بدر میں 313، غزوہ تبوک میں دس ہزار اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ پچیس ہزار، اور خلافتِ راشدہ تک کئی لاکھ، جس کے نتیجے میں ایک تہائی دنیا پر اسلام کے دامن میں پناہ  لے چکی تھی۔ 

 قتال کے لئے سب سے پہلا ہوم ورک یہی ہے کہ Mass strength پیدا کی جائے۔ اسیِ کو جماعت کہتے ہیں، اسی لئے پیغمبر نے حکم دیا کہ ”انا آمرکم بالخمس، ۱۔ جماعۃ۔۔۔۔۔“ یعنی میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں، سب سے پہلے ہے جماعت“۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے جماعت کا ساتھ چھوڑا وہ ایمان سے پِھر گیا۔ ہر شخص پر لازمی ہے کہ کسی نہ کسی جماعت میں پہلے شامل ہوجائے۔ صحیح جماعت کی کسوٹی ایک ہی ہے کہ وہ یقییمون الصلوۃ کے ساتھ ساتھ کونوا قوامین بالقسط کے لئے کھڑی ہو یعنے کمزوروں کے حقوق اور انصاف کے لئے سڑکوں پرآنے کا منصوبہ رکھتی ہو۔ سڑکوں پر آنا ہی جہاد و قتال کا پہلا قدم ہے۔ گاندھی جی، محمد علی جناح، Arab Spring، خمینی، آریس یس، بجرنگ دل، کمیونسٹ، بی جے پی، مارٹن لوتھر کِنگ، منڈیلا وغیرہ سب اسی طرح سڑکوں پر آکر Mass strength پیدا کرکے انقلاب لانے کی مثالیں ہیں۔ لیکن اس کے لئے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ سب اپنی اپنی امیری، پراپرٹی، ڈگریوں اور خاندانوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ایک والنٹیئر کے طور پر پیش کرکے کام کریں جیسے کہ صحابہ ؓ نے کام کیا اور صرف 23 سال میں ایک تہائی دنیا کے لیڈر بن گئے۔آر یس یس اس کی دوسری زبردست مثال ہے جس نے جماعت کے بنیادی اصول پر کام کیا، اور ان کے تمام ارکان قابلِ تعریف ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قابلیت اور انا کو بازو ہٹا کر صرف ایک والنٹئر کی طرح کام کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔  تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بہترین والنٹئر ہی بہترین لیڈر بنتے ہیں۔ لیکن امت کی ٹریجڈی یہ ہے کہ جو ایجوکیٹیڈیا مدرسوں کے فارغ یا اہلِ سلسلہ ہیں وہ تو خودساختہ لیڈر، دانشور، عالمِ کُل ہیں ہی، لیکن جو آٹو والے، میکانک، سیلزمین یا فقیر بھی ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بہت بڑے دانشور اور لیڈر سمجھتے ہیں۔ ہر وقت مشورے، تبصرے اور اعتراضات کے انبار اپنی جیبوں میں لئے پھرتے ہیں۔ سارے امام ہیں مقتدی کوئی نہیں، کوئی انصاف کو قائم کرنے والے گروپ کو اختیار کرنے اس لئے تیار نہیں کہ ہر گروپ اس  شخص کے مسلک، عقیدے،سوچ اور مشوروں کے سامنے اُس سے بہت چھوٹا ہے۔ پاؤر ہر شخص کی خواہش ہے لیکن اس کے لئے وقت لگانا، جہاد و قتال کے لئے تیار ہونا، جیب سے مال نکالنا اس کے لئے ناممکن ہے۔ شادی بیاہ پر تو لاکھوں خرچ کرے گا، اس کے لئے گھر بھی بیچے گا، بھیک بھی مانگے گا، لیکن انصاف کو قائم کرنے والیل کسی گروپ میں شامل ہوکر اپنے جان و مال کا نذرانہ دینے تیار نہیں ہوگا۔ایسی قوم کے لئے دوسرا حل یہ ہے کہ قانون نے ووٹ کا جو انتہائی طاقتور ہتیار دیا ہے کم سے کم وہ تو استعمال کرے۔ یہاں بھی مسئلہ یہی ہے کہ مسلمان ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہی نہیں۔ اگرچہ یہ کہ مسئلہ دوسروں کے ساتھ بھی ہے۔ SC جیتنے والا ہو تو BC  یا ST ووٹ ڈالنے نہیں آتا، مالا کھڑا ہو تو مادیگا یا ویلما اس کو ووٹ ڈالنے نہیں آئے گا۔ برہمن کو ووٹ ڈالنے تو ہر نچلی ذات آئیگی لیکن کسی نچلی ذات کو ووٹ ڈالنے برہمنوں کی اکثریت نہیں آئے گی۔ لیکن پھر بھی اُن کی اوسط ووٹنگ 50 to 60% ہوہی جاتی ہے، لیکن مسلمان مشکل سے بیس تیس فیصد گھروں سے نکلتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی علاقے سے مسلمان کا جیتنا یقینی ہو تو وہاں کئی کئی بے ضمیر، بے حِس، اور لالچی مسلمان ووٹ کاٹنے دوسری پارٹیوں سے پیسہ لے کر یا اپنی لیڈری چمکانے کی حِرص میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کوئی بھی سو دو کروڑ خرچ کرنے والا جیت جاتا ہے۔

اگر سو فیصد مرد اور عورتیں یہ فیصلہ کرلیں کہ انہیں ہر قیمت ووٹ ڈالنا ہے تو ملک میں پاؤر کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ موجودہ جمہوریت بھی ایک ناکام طرزِ حکومت ہے، اس سے کوئی انصاف قائم ہونے والا نہیں ہے۔ اسی کے ذریعے جتنے لوگ پاؤر میں آتے ہیں، ان میں آدھے سے زیادہ لوگ کرائمس اور مقدمات میں ملوّث ہوتے ہیں، لیکن ان کو ہٹانے کے لئے بھی تو وہی کورس کرنا پڑے گا، یعنی سڑکوں پر آنا، ایک جماعت بننا اور ووٹ کا بھرپور استعمال کرنا۔ یہی تو اس جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے کا آخری راستہ ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت حرام، ووٹ حرام صرف خلافت جائز وغیرہ وغیرہ۔لیکن سالہاسال سے یہ فکری نادانی ہورہی ہے خلافت کے لئے بھی  Mass strength  چاہئے،وہ کہاں سے آئے گی؟ اس لئے جو ذریعہ یعنی ووٹ موجود ہے، اس سیڑھی کا استعمال کرکے تو پہلے اپنی شناخت، اپنی حالت اور تھوڑا بہت پاؤر چاہے خیرات میں ملے اُسے حاصل تو کیجئے ورنہ اِس وقت تو نہ کوئی نیشنل پارٹی آپ سے بات کرنا چاہتی ہے نہ آپ کو مائناریٹی سیل سے آگے بڑھا کر نیشنل لیڈر بنانے تیار ہے۔ کیا آپ اُس وقت کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب آپ سے ووٹ ڈالنے کا بھی حق چھین لیا جائیگا؟

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 


پیر، 11 ستمبر، 2023

قبرستانوں پر قبضے کرنے والے زیادہ مسلمان ہیں یا کوئی اور؟


 

ہم کو تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے ہوں گے۔ تصویر کا ایک رخ ہے کہ مرکزی حکومت ہو کہ ریاستی حکومتیں، یہ ساری اوقافی جائدادوں پر اس طریقے سے قابض ہوچکی ہیں کہ اب ان کو خالی کروانا ناممکن ہے۔ دہلی میں بی جے پی نے 123 اوقافی جائدادوں بشمول 82 قبرستانوں کا انتظام  وقف بورڈ اور متولیوں کے اختیارات کو معطّل کرکے راست اپنے اختیار میں لے لیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ بھوپال بلکہ پورے مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، تلنگانہ اور کرناٹک میں ہوا ہے وہی کچھ ہونے جارہا ہے۔ بھوپال میں کُل 187قبرستان تھے اب گھٹ کر 23 رہ گئے ہیں، اور شہریوں کو تدفین میں بہت تکلیف ہورہی ہے۔ تلنگانہ میں 77ہزار ایکڑ زمین اوقاف کی ملکیت تھی لیکن 55 ہزار ایکڑ پر قبضہ ہوچکا ہے، اور باقی اوقاف کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ان قبضوں کے خلاف 3 ہزار مقدمات سالہاسال سے عدالتوں میں چل رہے ہیں، اور چلتے رہیں گے۔

تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ خود مسلمان قبضے کرنے میں سرکار سے پیچھے نہیں ہیں۔حیدرآباد کا ایک واقعہ یوٹیوب پر وائرل ہوچکا ہے، پچھلے ہفتہ NTR گارڈن کے قریب کسی میت کی اس کے ہڑواڑ میں دفن کرنے کے لئے جب قبر کھودی جارہی تھی تو متولی صاحب نے آکر کھدائی رکوادی۔ اور بتایا کہ وہ زمین انہوں نے کسی اور کو دے دی ہے۔ یہ نہیں کہا کہ بیچ دی ہے۔ ایسے واقعات پورے ملک میں اتنے زیادہ ہورہے ہیں کہ قبرستانوں میں پختہ مکان بن چکے ہیں، یہی نہیں بلکہ کسی نے قبضہ کرکے اصطبل بنالیا تو کسی نے ورکشاپ، کسی نے اپنے گائے بیل بکریاں باندھنی شروع کردی ہیں تو کسی نے دوکانیں تعمیر کرلی ہیں۔کئی قبرستانوں میں قبروں کی قیمت وصول کی جاتی ہے جس کے شرمناک واقعات کوویڈ کے دور میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔بلکہ ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک متولی صاحب جو سخت مالی پریشانیوں کا شکار تھے، کوویڈ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی، خیر خیریت بتاتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ کوویڈ کے بعد الحمدلللہ حالات اچھے ہوگئے۔ اندھ بھکت ہر دھرم میں ہوتے ہیں، ہمارے ہاں بھی ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ ولی کی قبر کے قریب تدفین ہونے سے مغفرت یقینی ہوجاتی ہے، اسی لئے ایسے ایسے اولیااللہ کے قبرستان بھی ہیں جہاں ولی کی قبر کے قریب تدفین کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن اگر پانچ دس لاکھ نذرانہ پیش کردیا جائے تو خالی جگہ نکل آتی ہے۔ جب خود مسلمانوں کا ہی یہ حال ہے تو حکومتوں سے کیا شکایت کی جائے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی جان لیں کہ چاہے کوئی سرکار ہوکہ لانکوہِلز جیسے بزنس ہاؤزس، جب تک ہمارے اپنے سیاستدان، سجّادے اور متولی دلّالی نہیں کرتے، کسی کی ہمت نہیں ہوسکتی کہ قبرستانوں یا اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرسکیں۔ یہ مقبوضہ زمینیں شکوہ کررہی ہیں کہ

گھر سے دشمن بھی نظارے کو تڑپ کر نکلا

مرے ہر زخم سے اک دوست کا خنجر نکلا۔

کئی سادہ لوح حضرات چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا کر پولیس اور عدالت جانے کی بات کرتے ہیں، جلسے کرکے ایسی ایسی دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں گویا پولیس فوری حرکت میں آجائیگی، حکومتیں ڈر جائینگی اور لینڈ گریبرز اور دلّال قبضے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ان خوش فہمیوں میں کئی دہے گزر چکے ہیں۔ فائدہ توکچھ نہیں ہوا لیکن ان شعلہ بیانوں کو ایک چھوٹے موٹے درجہ کے لیڈر کہلانے کا حق مل گیا۔

اب کسی حکومت یا کورٹ سے انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے۔ انصاف اِس وقت دنیا کی سب سے مہنگی ترین شئے ہے، لیکن مسلمان اپنی جیبوں سے پیسہ نہیں نکال نہیں سکتے۔ انصاف کے لئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے، نچلی ذاتیں تو یہ کرسکتی ہیں، لیکن مسلمانوں کی بزدلی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ان کو خوابوں میں بھی اب UAPA, ED اور POTA نظرآتے ہیں۔

 سمجھداری کا یہ تقاضہ ہے کہ اب سکڑتے ہوئے قبرستانوں کا حل تلاش کریں۔ جو اختیار میں نہیں ہے اس کی بات نہ کریں بلکہ اس کی بات کریں جو ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کا حل وہی ہے جو شریعت نے دیا ہے۔ مثلاً

۱۔ قبریں مکمل نبی اور صحابہؓ کی قبروں کی طرح بنائیں

رسول اللہ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے 650 سال تک بھی ان کی قبرِمبارک کھلے آسمان کے نیچے زمین سے ایک بالشت اونچی رہی۔ اسی پر سے تپتی ہوئی دھوپ بھی گزرتی رہی، برسات بھی اور سردی بھی۔ پھر کسی حکمران نے قبرِ مبارک پر لکڑی کا ایک سائبان بنوایا۔ پھر 18th سنچری میں سلطنتِ عثمانیہ والوں نے اس کے اوپر سبز گنبد تعمیر کروائی۔ یہ اسلئے ضروری ہوا کہ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں جن کو سائے کی ضرورت تھی۔ ورنہ نبی کی قبرِ مبارک آج بھی وہی کچی ہے جس کے اوپر لکڑی کے سائبان پر غلاف ڈال دیا گیا ہے تاکہ لوگ اس پر چٹھیاں اور ڈوریاں وغیرہ نہ پھینک سکیں۔ جنت البقیع میں مدفون ہزاروں قبریں جن میں بڑے بڑے صحابہؓ اور صحابیات ؓ کی قبریں بھی ہیں آج تک بھی کچی ہی ہیں۔ تقریباً سارے عرب ممالک میں قبرستانوں کایہی طرز ہے۔ حتی کہ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز، فیصل، فہد یا عبداللہ ہوں کہ امارات کے نیہان، سب کی قبریں کچی ہیں۔ترکی میں بھی یہی رواج ہے۔ جن لوگوں نے ارتغرل سیرئیل دیکھی، وہ جانتے ہیں کہ قدیم ترکوں میں بھی قبر کو پکی بنانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔

 اسی کی بنیاد پر علمائے جمہور کا فتویٰ ہے کہ قبر اور آسمان کے درمیان کسی قسم کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔قبر کی تعمیر کا اسلامی شریعت میں طریقہ یہ ہے کہ خالی زمین مل جائے تو فبھا، ورنہ کسی بھی پرانی قبر میں اگر ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہوں تو ان ہڈیوں کو ایک جانب کرکے ایک مٹی کی آڑ بنادی جائے اور نئی میّت کو وہیں دفنا دیا جائے۔ اور اگر کہیں میت صحیح سالم ملے، جیسا کہ کبھی کبھی اللہ کے نیک بندوں کی میّت کئی سال بعد بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے آج ہی تدفین ہوئی ہو، ایسی قبروں کو دوبارہ بند کردیا جائے۔ اگر تمام قبرستانوں کو جس طرح جنت البقیع میں کیا جاتا ہے، تمام قبروں کو برابر کرکے سعودی عرب، کویت اور امارات وغیرہ کے قبرستانوں کی طرح کردیا جائے، قبروں کو صرف مٹی کی بناکر زمین سے ایک بالشت اوپر رکھا جائے۔ قبر کے اندر کسی قسم کے پتھر، سِل یا اینٹ استعمال نہ ہوں۔ پھر قبروں میں ہڈّیاں بوسیدہ ہوجانے پر دوسری میت کو جگہ دے دی جائے تو کوئی بھی قبرستان ایک ہزار سال تک بھی ناکافی نہیں ہوگا۔ بھوپال میں جس طرح تمام پکّی قبروں کو منہدم کرکے نئی قبروں کے لئے جگہ ہموار کی جارہی ہے، یہ طریقہ پورے ملک میں رائج ہونا چاہئے۔ حیدرآباد میں قبرستان بقیع واقع بنجارہ ہِلز ایک اچھی مثال ہے۔ تمام قبرستانوں کے منتظمین اگرجاکر جائزہ لیں تو رہنمائی مل سکتی ہے۔

۲۔ کچی قبر کے احکام

یوں تو اس سلسلے میں کئی احادیث ملتی ہیں، یہاں ہم صرف تین احادیث کا ہی ذکر کریں گے۔ جو صحاح ستہ کے راویوں نے بیان کی ہیں۔

۱۔ حضرت جابرؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی نے قبربنانے کے تعلق سے تین چیزوں سے سخت منع فرمایا۔ ایک ”اَنؐ یُجصّصَ“ یعنے ان کو گچ لگا کر پختہ نہ کیا جائے۔ (جس زمانے میں سمنٹ ایجاد نہیں ہوئی تھی لوگ گچ کا استعمال کرتے تھے)۔ دوسرے یہ کہ ”اَن یُقعَدَ“ یعنی قبروں پر بیٹھا نہ جائے۔ تیسرے یہ کہ ”اَن یُبنٰی علیہ“ یعنی ان پر عمارت تعمیر نہ کی جائے۔

۲۔ مسند احمد میں بحوالہ الترغیب والترہیب جلد ۴ صفحہ ۴۴ پر ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے قبر پکّی اور اونچی بنائی اس نے محمد کی شریعت سے اختلاف کیا۔

۳۔ حضرت علیؓ نے ایک صحابی ابوالھیاج اسدی کو دو کام دیئے اور فرمایا کہ مجھے رسول اللہ نے بھی اسی کام کے لئے بھیجا تھا۔ ۱۔ جو بھی اونچی قبر نظر آئے سب کے برابر کردو یعنی ایک بالشت اوپر رہیں۔ ۲۔ کوئی بھی بُت یا تصویر قبر پر ہو تو اسے مٹا دو۔ (اس زمانے میں مشرک اپنی قبروں پر بت اور عیسائی کرائسٹ کی تصویریں لگاتے تھے)۔

ایک اختلاف

قبر کے اوپر قبّہ یعنی گنبد یا چھت بنانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بریلوی علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ لیکن قبر کو پکّی نہ بنانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ چونکہ کئی ایسے اولیا کے مزار ہیں جہاں لوگ عقیدت کے ساتھ آتے ہیں، اس لئے ان کو سایہ فراہم کرنے اگر وہاں عمارت بنائی جائے تو بعض علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ لیکن قبر کو پکی بنانے کے بارے سبھی علمائے حق جو چاہے بریلوی ہوں کہ دیوبندی یا اہلِ حدیث، سبھی کے نزدیک جائز نہیں۔ اب اِس دور میں دو قسم کے مزارات ہیں۔ ایک تو ان حقیقی بزرگانِ دین کی مزارات جوواقعتا اولیااللہ تھے۔ دوسری بے شمار جعلی پیروں کی مزارات جو مذہبی تجارت کے اڈّے ہیں۔ اللہ کے نبی کی آخری پانچ چھ دن کی وصیّتیں بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل کی گئی ہیں جن میں آپ نے بکثرت یہ فرمایا کہ خبردار قبروں کو دوسری امتوں کی طرح عبادت گاہ نہ بنادینا جس طرح انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو بنادیا۔ جو حقیقی اولیا اللہ تھے وہ ہرگز ایسے نہیں تھے کہ اپنے جانشینوں کو پکی قبریں بنانے کی اجازت دے کر بندوں کو استعانت طلب کرنے کے لئے ایک مذہبی پِک نِک کی طرح قبروں پر آنے کی  ترغیب دیں۔ یہ کام کچھ جانشینوں نے بہت چالاکی سے کردیا اور قبروں کو سنگ مرمر جیسے قیمتی پتھروں سے مزیّن کرکے فائیواسٹار قبروں میں تبدیل کردیا، صندل، پنکھے، عرس اور کرائے کے قوّالوں کے ذریعے خوب اس کی مارکٹنگ کی۔ مرحوم کے بارے میں من گھڑت قصّے سنانے والے اورلکھنے والوں کو خلیفہ بنادیا گیا۔ ایسی کتابوں یا ملفوظات کو لکھے جب دو تین سو سال گزر جاتے ہیں، تو فطرتِ انسانی ان کو وحی کی طرح قبول کرلیتی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اکثر اِن مزارات پر کسی نہ کسی مشہور فلم اسٹار، کرکٹر، سیاستدان یا سیلیبریٹیز کی حاضری کی تصویریں اخبارات اور سوشیل میڈیا پر گشت کرتی ہیں،ایسا نہیں کہ یہ لوگ مرحوم بزرگ کے معتقد ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خود نہیں آتے بلکہ لائے جاتے ہیں، اور لانے والوں کو درگاہ سے خوب کمیشن ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کئی درگاہیں ایسی ہیں جہاں کے غلّہ کا کئی کئی کروڑ میں ہراج ہوتا ہے۔ یہ پیسہ اوقاف والوں اور سجّادوں کے خاندانوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ جن اولیااللہ نے اللہ کے دین کو پھیلانے میں اپنی عمریں لگادیں، ایک کمبل اور ایک چٹائی جن کی کل متاعِ حیات تھی، ان کی نسلوں نے اپنے بزرگوں کی قلندری کو بیچ کر عالیشان، رعب و دبدبے والی زندگی کوخرید لیا ہے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قبروں کی زمین بیچ رہے ہیں۔

۳۔ قانون کیا کہتا ہے

ہندوستان کا قانون یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی زمین کسی فرد کی یا اُس کے خاندان کی ذاتی میراث ہو، اس پر وہ اڈوانس میں قبر کی جگہ محفوظ کرسکتا ہے، یا کسی کو بھی بیچ سکتا ہے۔ لیکن اگر زمین وقف کی ہو تو متولی یا سجّادہ اُس زمین کو بیچنے یا کسی کو اڈوانس میں دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ متولی یا سجّادے اس زمین کے مالک نہیں ہوتے، صرف انتظامیہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ 

۴۔ قبروں کو کب تک باقی رکھا جائے؟

جب تک کسی قبر پرآکر فاتحہ یا دعا پڑھنے والے موجود ہیں اُس وقت تک توایک جذباتی لگاؤ کے پیش نظر اُس قبرکے باقی رہنے کا جواز تو سمجھ میں آتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اگرقبریں باقی رہیں تو نئی تدفین کے لئے جگہ کہاں سے آئے گی، یہ سوچنا ضروری ہے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ کئی اضلاع میں لوگ ووٹ بھی اس لئے دینے لگے ہیں کہ الیکشن لڑنے والے وعدہ کررہے ہیں کہ جیتنے کے بعد مسلمانوں کو دو چار ایکڑ قبرستان کے لئے زمین دلوائیں گے۔ بجائے تعلیم، روزگار، کالج، یا کوئی اور ترقی کی چیز مانگتے، لوگ ووٹ کے بدلے قبرستان مانگنے لگے ہیں۔   

 ۵۔ جمعہ کے خطبوں اور بیانات میں سمجھایا جائے۔

 علما اور جمعہ کے خطیب حضرات جس طرح شراب، سود، جہیز وغیرہ پر خطبے دیتے رہتے ہیں، ان میں کچی قبروں کی افضلیت پر بھی خطبے پیش کریں، اور مضامین یا پمفلٹ کے ذریعے یہ شعور جگائیں تو رائے عامہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ورنہ عام لوگ تو بات مان لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ مُنڈ بکروں یا بیلوں کی طرح ہوتے ہیں، کسی کی نہیں سنتے، اور پکی قبر بنانے کے لئے لڑنے مارنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔  جب کہ وہ بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود اِن کے مرنے کے بعد اُن کے پوتے یا نواسے زندگی بھر اُدھر نہیں پھٹکیں گے، پھر بھی جس طرح یہ کسی بھی بِزی سڑک کے کنارے اپنی کار پارک کرکے بے حِسی سے چلے جاتے ہیں، یہ احساس نہیں کرتے کہ ان کی وجہ سے ٹرافک کو کتنی تکلیف ہوگی، اسی طرح یہ لوگ جانتے ہیں کہ قبرستانوں کی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے لیکن پھر بھی یہ بداحساس اور خودغرض لوگ  اپنے ابّا کی قبر پختہ بناکردوسری قبروں کا راستہ روک دیتے ہیں۔ 

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

نوٹ: محترم ایڈیٹر صاحب سے درخواست ہے کہ راقم الحروف کے نام کے ساتھ فون نمبر بھی ضرور شائع فرمائیں کیونکہ محض مضمون نگاری ہمارا پیشہ نہیں ہے بلکہ سماج کی تبدیلی کے ایک مکمل مشن پر ہم کام کررہے ہیں۔ لوگ جب رابطہ کرتے ہیں تو اس سے عوام کو رہنمائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جزاک اللہ

  

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...