ہفتہ، 16 مارچ، 2024

فا ر و رڈ یر یا ۔ Forwarderreah واٹس اپ فارورڈ کرنے کی بیماری

 

ایسے مریضوں کو یہ مضمون پڑھ کر انشااللہ ایک رات میں افاقہ ہوجائیگا۔ یہ بیماری کرونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ یہ بیماری ڈائیریا یعنی پیچِش ہی کی طرح ہوتی ہے جو بھی پوسٹ آئے اگر فوری پاس آوٹ یعنی فاورڈ کرکے فارغ نہ ہوجائیں مریض کو سکون نہیں ملتا۔ جوں ہی کوئی فساد کی، ہیٹ اسپیچ کی یا اشتعال انگیز پوسٹ آئے گی یہ فرض کرلیتے ہیں کہ پوری قوم غفلت کی نیند سو رہی ہے، اِس پوسٹ کے فاورڈ کرتے ہی جاگ جائیگی، فاورڈ کرکے پھر یہ خود سوجاتے ہیں۔ ہم ایسے فاورڈ کرنے والوں کی اکثریت سے واقف ہیں، اس لئے ایسے پوسٹ ڈیلیٹ کردیتے ہیں، لیکن بعض اوقات اِن کی جال میں پھنس ہی جاتے ہیں۔ ڈی پی پر سوٹ یا شیروانی میں تعلیم یافتہ چہر ہ دیکھ کر مروّت میں میسیج کھولتے ہیں کہ شائد کوئی کام کا میسیج ہو، ابھی آدھا منٹ بھی دیکھ نہیں پاتے کہ ایسے ہی دو تین اور سمجھدار حضرات کے ویڈیوز پہنچ جاتے ہیں۔اب اگر مروّت میں سارے پوسٹ دیکھنے لگیں تو ہمارا حشر بھی نواب میر عثمان علی خان جیسا ہوسکتا ہے جنہوں نے مروّت میں بے شمارچھوٹے چھوٹے خطابی نوابوں، رئیسوں، جنگوں اور بہادروں کی بھیڑ کو دربار میں جمع کرلیا، جن کا کام سوائے گپ شپ کے کچھ نہیں تھا۔ بے چارے عثمان علی خان ایسی ہی وقت بربادی میں حکومت گنوا بیٹھے۔

فارورڈ کرنے کی اس بیماری میں اب تو ہر بوڑھا اور جوان مبتلا ہوچکا ہے۔خود ہی ثواب سمجھ کر ہر ہر پوسٹ چیک کرتے ہیں، اپنے آپ کو تھکاکر خود ہی کہتے ہیں ”لوگ ایسے فالتو میسیجس کیوں بھیجتے ہیں؟“۔ واٹس اپ فارورڈ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بکری، بیل، ہاتھی اور شیر سب کو ایک ہی چارہ ڈالنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک گروپ بنا کر سب کو فاورڈ کرتے رہتے ہیں چاہے وہ کسی سے متعلق ہو یا نہ ہو۔ اسی کے نتیجے میں کبھی بوڑھوں کے پاس دوسری شادی کے فضائل فاورڈ ہوجاتے ہیں تو کبھی خواتین کے پاس مردانہ طاقت بڑھانے کے میسیج فاورڈ ہوجاتے ہیں۔ واٹس اپ فاورڈ کرنے والوں کے مختلف اقسام ہوتی ہیں جیسے:

انٹلکچول گروپ: یہ لوگ صرف اپنی ذاتی تخلیق پیش کرتے ہیں جو واقعی تعمیری، فکری اور حرکی ہوتی ہیں۔ فی زمانہ یہ ناپید ہیں۔ البتہ کچھ شاعر، ادیب، صحافی اور لیڈر جن کی کہیں بھی دال نہیں گلتی، وہ واٹس یا فیس بک پر اپنی تخلیقات ڈال کر اپنی حسرت پوری کرلیتے ہیں۔ ان کا دل رکھنے کے لئے دوسرے مروّتاً ایک عد د لائک یا تھمس اپ سے انہیں نواز دیتے ہیں۔ یہ خودساختہ صحافی سنجیدہ لکھتے ہیں یا مزاحیہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ جس طرح یہ انڈیا، امریکہ اور عرب سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں، اس طرح کرتے ہیں گویا مودی، جوبائیڈن،کنگ سلمان سارے انتہائی شرمندہ و پشیمان کان پکڑ کر سامنے کھڑے ہیں، اور خوفزدہ ہیں کہ یہ حضرت اُن کی غلطیوں کا راز فاش نہ کردیں۔

 

مولوی گروپ: صبح اٹھتے ہی یہ پہلے فجر کی قضا ادا نہیں کرتے لیکن ”السلام علیکم“، صباح الخیر، جمعہ مبارک، شب برات شب قدر مبارک وغیرہ فارورڈ کرتے ہیں۔ ایک عدد حمد، نعت یا دعا بھی فارورڈ کردیتے ہیں۔ پھر ان کو اتحادِ امت کی بہت فکر ہوتی ہے، اس لئے کِس کس مسلمان سے امت کے اتحاد کو خطرہ ہے، کون کون کافر، مشرک اور خارج از اسلام ہے، ان کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔

جاگ مسلمان جاگ گروپ: اِن مریضوں کو ہر وقت اسلام اور مسلمان خطرے میں نظرآتے ہیں۔ بھگوا، اسرائیل، اور امریکہ کہاں کہاں کیا کیا کررہے ہیں، اس کی ایک ایک پل کی خبرفاورڈ کرتے رہتے ہیں۔ نعرہ ایک ہی ہوتا ہے کہ مسلمانو جاگو۔ یعنی یہ واٹس اپ تم بھی پچاس کو فاورڈ کرو تین جہاد اور پانچ حج کا ثواب ملے گا۔ یہ لوگ آپ کو جہاد کے لئے گھر سے نکال کر، خود اپنے دیوان خانے میں نہیں بلکہ بیڈ روم میں چھپ جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔

 

دیڑھ شانہ گروپ: یہ لو گ واٹس اپ یا فیس بیک پر اپنی تصویر نہیں لگاتے۔ پوچھنے پر یہ کہہ کہہ کر ہماری جان جلاتے ہیں کہ تصویر خودنمائی ہے، وہ اسے پسند نہیں کرتے۔چونکہ ہماری ڈی پی پر ہماری فوٹو ہے، جس سے یقیناً اِن کے پردے یا حجاب کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ہم ان کی پوسٹس کو Archive کے حوالے کردیتے ہیں۔ تاکہ دوبارہ نہ ان کی پوسٹ آئے نہ ہمارا خون جلائے۔ واٹس اپ پر تصویر یعنی DP آدمی کی شناخت کے لئے ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر آپ کو یاد آجائے کہ کہاں ملے تھے، کون صاحب ہیں، بوڑھے ہیں جوان ہیں، عورت ہیں، مرد ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، مولانا ہیں یا کیا ہیں۔ لیکن یہ ایک بے نیاز، قلندر اور درویش بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو اور بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں، تصویر کی جگہ مکہ، مدینہ، درگاہ، یا آیت یا کوئی اقوالِ زرین چسپاں کردیتے ہیں، اور بعض لوگ جہیز میں ملی ہوئی کار یا بائیک کی تصویر لگادیتے ہیں یا پھر اپنے ہمزادوں کی تصویریں جیسے شیر، گھوڑے، چڑیا یا پھولوں کی تصویریں ڈالتے ہیں۔ یہ سب تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن جو لوگ اپنے پوتوں یا نواسوں یا نواسیوں کی تصویر یں ڈالتے ہیں، ان کی عقل پر رونا آتا ہے۔ اب آپ ان معصوم بچوں کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگاتے بیٹھئے کہ کس پھل کا یہ تخم ہے۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر گروپ بھی بناتے ہیں اور آپ کی اجازت کے بغیرآپ کو شامل بھی کرلیتے ہیں۔ گروپ کا نام بھی اتنا بارعب ہوتا ہے کہ آپ ڈیلیٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جیسے ”دفاعِ اسلام گروپ“، ”صدائے حق گروپ“ وغیرہ۔ لیکن اندر وہی بھرا ہوتا ہے جو گروپ کے مقصد سے ایک سو کلو میٹر دور ہوتا ہے۔

زوالوجیکل پارک گروپ: جس طرح باغِ عامہ میں ہمہ اقسام کی مخلوقات ہوتی ہیں، اسی طرح ہمہ اقسام کی پوسٹس آپ کے واٹس اپ میں ہر صبح فاورڈ ہوجاتی ہیں، چاہے ان کا تعلق آپ سے ہو یا نہ ہو، کوئی صاحب صحت پرتو کوئی صاحب سیاست پر، کوئی صاحب جنرل نالج پر تو کوئی صاحب مذہبی معلومات پر مسلسل فارورڈ کی بمباری کرتے ہیں۔کچھ لوگ ”جاگتے رہو“ پکارنے والے چوکیداروں کا رول نبھاتے ہیں۔ ایمپلائیمنٹ، اسکالرشپس، کالجس میں فری داخلے، ووٹرکارڈ، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ JIO والے کی شادی پر فری ریچارج، کانگریس کی طرف سے فری ریچارج، وغیرہ کی بھی اطلاعیں دیتے ہیں۔ کوئی صاحب جو خود اپنے خاندان کے مسائل سے بے خبر ہیں دوسروں کے خاندانوں کے اندر گھس کر اطلاعیں لاکر فاورڈ کرتے ہیں، جیسے چھوٹے امبانی کی شادی، عامرخان کی طلاق وغیرہ۔ 

پھٹکار ی گروپ: اِن لوگوں کو قوم کی غلطیاں پکڑکر قوم پر لعنت، ملامت اور پھٹکار کرنے میں مزا آتا ہے۔ یہ لوگ ہر واقعہ کا فوری لیباریٹری ٹیسٹ کرکے فوری رپورٹ بھی دے دیتے ہیں اور علاج بھی بتادیتے ہیں، جیسے؟

مساجد پر بلڈوزر۔۔۔۔۔ لوگ نمازوں کے لئے نہیں نکلیں گے تو یہی ہوگا

لڑکی نے غیرمسلم سے شادی کرلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ کا قصور ہے۔ وہ تربیت نہیں کرتے۔    

فسادات۔۔۔۔۔۔۔ لیڈر، مولوی، عوام سب بزدل ہوگئے ہیں۔

ان کی ہر پوسٹ میں تبصرے اور مشورے ہول سیل میں ہوتے ہیں۔ ان کو ”چاہئے گروپ“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اِن کی پوری بکواس ایک عدد ”چاہئے“ پر ختم ہوتی ہے۔ جیسے: اتحاد ہونا چاہئے۔ ایجوکیشن ہونی چاہئے، مودی کو یہ اور اویسی کو وہ کرنا چاہئے،وغیرہ۔ یہ مشورے تو کروڑوں خرچ والے دیں گے لیکن اپنی جیب سے ایک ہزار روپئے نکالنے کے بھی روادار رنہیں ہوں گے۔

اس پورے دردِ سر کا علاج یہ ہے کہ آپ واٹس اپ، فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹ ہی ختم کردیں، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،آپ اس کے بغیر جس طرح پہلے زندہ تھے،بعد بھی زندہ رہیں گے۔ اپنوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی میلے میں بے مقصد گھومتے ہوئے کھوئے ہوئے بچے کی طرح نہیں رہیں گے۔ذہن ہر وقت عدالت کا ایک کٹہرا نہیں ہوگا جس میں کبھی زعفرانیوں کو لا کر کھڑا کررہے ہیں تو کبھی یہودیوں کو، اور ان سب پر خود مقدمہ چلارہے ہیں، خود ہی فیصلے سنا رہے ہیں۔ ابھی ایک مقدمہ ختم بھی نہیں ہوتا کہ ذہن میں پھر دوسرا مقدمہ دائر ہوجاتا ہے۔ وقت جیسی عظیم نعمت جس کے بارے میں قیامت میں سب سے پہلے سوال ہونے والا ہے، وہ کسی تعمیری کام میں صرف ہوگا۔اگر سوشیل میڈیا نہیں ہوگا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ آپ اگر واقعی قوم کے کسی کام کے آدمی ہیں تو لوگ خود چل کر آپ کے پاس آئیں گے یا فون کرلیں گے۔لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ خود بھی ایک بے مقصد انسان ہیں جس کا پورا وقت صرف تبصرے اور مشورے دینے میں گزرتا ہے۔ آپ خود جب ایک کچہرے کا کنٹینر بن چکے ہیں تو لوگ اگر اِس میں فالتو میسیجس فارورڈ نہیں کریں گے تو کیا تازہ پھولوں کا گلدستہ لاکر ڈالیں گے؟

اِس سوشیل میڈیا پر وقت برباد کرنے والوں کی 99% اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ اگر واٹس اپ یا فیس بک پر داخلے کی پانچ یا دس ڈالر فیس عائد کردی جائے تو پھر نہ کوئی واٹس اپ پر نظر آئے گا نہ فیس بک پر۔یہ مفت کے چبوتروں پر بیٹھنے والے گنجیٹی اور چرسی کی طرح ہیں جن کی

 زندگی کا مقصد صرف وقت کو برباد کرنا ہے۔ ”لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔۔۔۔ ہتھیار ڈالنے کو ہتھیار بھی نہیں“

ڈاکٹر علیم خان فلکی۔ حیدرآباد

:WhatsApp/

 9642571721 



منگل، 5 مارچ، 2024

امبانی کا ہمارے نوابوں سے کیا مقابلہ


 

آج کل امبانی کے بیٹے کی شادی پر کئی سو کروڑ کے خرچ کے چرچے عام ہیں۔ شاہ رخ خان جیسے اداکاروں کو بھی ان کی اوقات دکھانے کی بھاری رقم ادا کی گئی۔ کسی اداکار کو نچوایا گیا اور کسی اداکارسے مہمانوں کو Serve کروایا گیا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اسراف جائز ہے یا ناجائز کی بحث کرنے والے مولوی ذہن کے لوگوں نے سب سے زیادہ اِن خرافات کی ویڈیوز کو فاورڈ کیا۔ اِن معصوموں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ خوداِن کے بادشاہوں اور نوابوں نے عاشقی اور شادیوں پر جتنا خرچ کیا، امبانی اور اڈانی اس کا عشرعشیر بھی خرچ نہیں کرسکتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امبانی نے اُس کی قوم کے عروج کے وقت یہ سب کچھ کیا، لیکن ہمارے نوابوں نے اپنے زوال کے وقت، جب کہ ان کی بادشاہتوں اور نوابیوں کا سورج ڈوبنے کے قریب آچکا تھا، اگرچہ لُٹ گئے لیکن شادی کے تماشوں کو نہیں روکا۔ اُن کے آباواجداد نے جو جنگیں جیتنے کی تاریخ بناکر خوب مال ومتاع چھوڑ کر گئے تھے، ان کی نسلوں نے بغیر جنگ کے سب کچھ ہارنے کی تاریخ بناکر گئے۔

ہم میرتقی میرکی مثنویوں کی زبانی لکھنؤ کا حال بیان کرتے ہیں۔ مضامینِ ڈاکٹر سیدمحی الدین زور جسے سیدرفیع الدین قادری نے مرتب کیا، اور جناب ایس اے شکور صاحب سابق ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی گورنمنٹ آف تلنگانہ نے ماہ نامہ”سب رس“ کے 2023-24 کے رسالوں میں سلسلہ وار شائع کیا، ڈاکٹر زور مرحوم نے ان مثنویوں کی تشریح کے ساتھ جو تبصرہ کیا ہے، وہ امبانی کی فضول خرچی پر فضول تبصرے کرنے والے ہر سادہ لوح کو خود اپنی اور اپنی قوم کی عبرت کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ میرتقی میر لکھنؤ چلے گئے، اگر وہ حیدرآباد، بیجاپور، جوناگڑھ یا بھوپال چلے جاتے تو وہاں کے نوابوں کی عیاشیاں لکھنؤ سے بھی چار ہاتھ زیادہ دیکھتے۔ اس لئے صرف لکھنؤ کو مجرم نہ سمجھئے، ایک زوال یافتہ قوم کی یہ حرامکاریاں یعنی اسراف و تبذیر انگیزیاں ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک رکشہ راں سے لے کر امراء تلک سارے ان رنگ رلیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ النّاس کاالملک۔ آج کی شادیوں کی بربادیاں صرف آج کی پیداوار نہیں ہیں، یہ لعنت ہمیں ورثہ میں ملی ہیں۔

میرتقی میر کا زمانہ مسلمانوں کے زوال کا زمانہ تھا۔ ایک طرف مرہٹے مغلوں کی ریاستوں کو ختم کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، تو دوسری طرف انگریز سراج الدولہ کو ختم کرکے آدھے ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے، اور میسور کے ٹیپوسلطان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ہرطرف مسلمان معاشرہ اخلاقی،سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بری طرح شکست و ریخت کے دہانے پر تھا۔ لیکن لکھنؤ کے نوابوں کی عیاشیوں کا یہ عالم تھا کہ غفلت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ڈاکٹر زور میر کی مثنویوں کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ  (معذرت کہ ہم ان مثنویوں کو پیش نہیں کرسکتے، ورنہ مضمون بہت طویل ہوجائیگا): ”سلطنتوں کے آخری دور میں عیش و عشرت میں کثرت ہونے لگتی ہے۔ اور بیہودہ رسومات رائج ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی اسلامی حکومت کا بھی یہی انجام ہوا۔ چنانچہ بادشاہوں اور امرا کے عیش پسند ہونے کی وجہ سے رعایا بھی قسم قسم کی بدعنوانیوں پر آمادہ ہوگئی تھی۔

میر کے زمانے میں جب کسی بادشاہ یا امیر کی شادی ہوتی تو کئی دن پہلے ہی تمام شہر میں آرائشیں ہونے لگتیں۔راستوں پر تماشائیوں کا ہجوم رہا کرتا، اور ہر طرف آتش بازیاں کی جاتیں۔ خاص کر شادی کی رات میں بے حد دھوم ہوتی تھی۔ چراغوں اور اناروں کی اِس قدر کثرت کہ راتیں دن معلوم ہونے لگتیں، اور تمام گلی کوچے باغ و بہار نظر آتے۔بادشاہ ہو یا کوئی بڑا امیر، اپنی شادی کی تقریب میں بخششوں کا بازار گرم کردیتا۔ ہر شخص کو اُس کے مرتبے کے مطابق انعام و اکرام یا خلعت عطا کی جاتی، اور اربابِ نشاط خاص اہتمام کے ساتھ گانے بجاے اور ناچنے کے لئے طلب کئے جاتے تھے۔

جب شادی کا جلوس نکلتا تو سب سے پہلے نشان کا ہاتھی ہوتا تھا جو زرق برق آرائش کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سونے کا پہاڑ چل رہا ہے۔ اس کے بعد کئی اور ہاتھی ہوتے تھے جو مست نوجوانوں کی طرح چلتے تھے۔ان تمام کی زیب و زینت زمیں پر وہی سماں پیدا کردیتی تھی جو آسمانوں پر ہویدا  رہتا ہے۔جلوس کے آخری میں خاص سواری کا ہاتھی ہوتا جو ابربہاری کی طرح جھومتا ہوا جاتا تھا۔ برابر برابر پلٹنیں چلتی تھیں۔ رنگ رنگ کے خوبصورت اور شوخ و شنگ گھوڑے عجیب بہار دکھایا کرتے۔ لوگ جلوس پر اس کثرت سے پھول پھینکتے کہ راستوں میں ہر طرف گل بکھرے ہوئے نظرآتے تھے۔ راستوں پر رقاص عورتوں کے لئے تخت سجائے جاتے تھے۔ نوبتیں بجتیں، اچھے اچھے لوگ سوانگ بھرکر نکلتے، کوئی جوگی، کوئی فقیر، کوئی پیر کوئی اوباش، طرح طرح کی نقلیں کی جاتیں تھیں“۔

گویا اُس وقت کے شاہ رخ خان اور سوہا خان بھی اس میں شامل ہوجاتے، ہر طرح کا بھانڈ پن کرتے اور انعام پاتے۔ آج امبانی یا اپنے نوابوں کی شادیوں پر تنقید یا تبصرہ کرنے والا پہلے اپنے دامن میں جھانکے۔ جب وہ خود اگر مفلس ہے تب بھی زکوٰۃ خیرات مانگ کر، اگر مڈل کلاس ہے تو گھر بیچ کر یا سود پر پیسہ لاکر اور اپنے بیٹوں کو بزنس مین بنانے کے بجائے دامادوں پر پیسہ لٹا کر شادیاں کررہا ہے، امیر اپنے Status کے لئے شاندار شادیاں کررہا ہے تو پر شخص خود انصاف کرے اور یہ بتائے امبانی ہوں کہ نواب، جب ان کے پاس دولت ہی دولت ہے تو وہ کیوں نہ کریں؟

ہمارے نوابوں کی شاہ خرچیاں صرف شادیوں پر ہی ختم نہیں ہوئیں۔آج کے فاشسٹ کہتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان میں اسلام کوزبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی۔خیریہ فاشسٹ تو پیدائشی جھوٹے ٹھہرے،  حقیقت میں ان تمام بادشاہوں نے اسلام پھیلایا یا کیا پھیلایا میرتقی میر ہی کی مثنویوں کی زبانی دیکھ لیجئے۔ ڈاکٹر زور نے تشریح میں لکھا ہے کہ

ہولی کی عید میں بادشاہ اور امرا خاص دلچسپی لیتے تھے۔ ایک دوسرے پر رنگوں کے شیشے کے شیشے ڈالے جاتے، جس کی وجہ سے مکانوں کے صحن ”رشکِ بوستاں“ بن جاتے۔ مختلف رنگوں میں بھیگے ہوئے نوجوان اس طرح چلتے پھرتے جیسے نہروں پر گل دستے بہتے رہتے۔ گلال بھر کر ایک دوسرے پر قمقمے مارے جاتے، اور منہ لال کردیتے۔ امیر امرا کوچوں اور بازاروں میں روشنی کرتے، دریا کے دونوں طرف روشنی کی ٹٹیاں باندھی جاتیں جس کا عکس پانی میں ایک عجیب عالم دکھاتا۔ انگریز آصف الدولہ کو قسم قسم کی آتش بازی کا سامان تحفے میں دیتے۔ خاص ہولی کی رات پوری شان و شوکت اور تزک احتشام کے ساتھ نواب کی سواری نکلتی، عجیب عجیب طرح سے رنگے ہوئے ہاتھی ایک خاص لطف پیدا کرتے تھے۔بادشاہ اور امرا خاص شکار کا اہتمام کرتے۔ زبردست فوجوں کے شور سے جانور بھاگنے لگتے۔ ہر قسم کے جانور کا شکار اس کثرت سے کیا جاتا کہ ساری فوج گوشت ہی گوشت کھاتی رہتی۔ مچھلیوں کے تودے اور گوشت ہاتھیوں پر لاد کر شہر لائے جاتے۔

مرغ بازی کا لکھنؤ والوں کو بڑا شوق تھا۔ لوگ مرغوں کو خاص اہتمام کے ساتھ پالتے اور لڑنا سکھاتے۔ بڑے بڑے آدمی بھی مرغ بغل میں مارے نکلتے، اس کی دھوم حیدرآباد تک پہنچی ہوئی تھی۔ مرغ والوں کو اپنے مرغ کا اس قدر  ”وقر“  تھا کہ جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے“۔

اب آیئے حیدرآباد کے نوابوں کے محلوں کا بھی جائزہ لیجئے۔ موئیدالدین ظفر ”سقوط حیدرآباد“ ناشر تعمیرِملّت، حیدرآباد کے ایک مضمون کے مطابق محلوں یا دیوڑھیوں میں کئی قسم کی عورتیں ہوتیں۔ پہلی قسم جس کو دلہن بیگم کہاجاتا وہ، وہ ہوتیں جن کی شادی عالیشان بارات کے ساتھ نکلی ہو۔ باقی ”منکوحائیں“ ہوتیں جن سے نکاح تو ہوا لیکن بارات نہیں نکلی۔ تیسری قسم ”خواص“ کی ہوتی جو نواب صاحب کو پسند آجاتیں۔ اور ان کو پسند کروانے والو ں کو بھی بڑے نواب کبھی خوب انعام و اکرام یا جائدادیں عطا کردیتے اوراگر کچھ زیادہ ہی پسند آجائے تودلالوں کو نواب، جنگ، یار وغیرہ کا خطاب عطا فرمادیتے۔ چوتھی قسم وہ تھی جو نوابوں کا ناچ گانے یا کسی اور طرح سے دل بہلاتیں۔ اور کیوں نہ بہلائیں کیونکہ بے چارے نواب امورِ سلطنت چلانے کی اتنی ذمہ داریاں اٹھاتے کہ بہت تھک جاتے تھے۔ اُن کی صبح دن میں دو تین بجے ہوتی، تازہ ہونے تک رات ہوجاتی، سازو سرود، شعروشاعری، مجرے و موسیقی وغیرہ کی محفلیں سجتیں۔ چاہے سلطنت اجڑ جائے لیکن تہذیب کو وہ اجڑنے نہیں دیتے اور رات رات بھر ان تہذیبی محفلوں کی سرپرستی فرماتے۔ آج کے نواب یعنی جو دو چار کروڑ کے مالک بن چکے ہیں، یہی کررہے ہیں، انہی کے دم سے آج مندی ہاؤز، بریانی ہاؤز، تھیٹرز اور کلب آباد ہیں۔ جن کے پاس کچھ نہیں ان کے بھی دم سے چبوترے آباد ہیں۔

وہ شادیاں ہوں کہ عیاشیاں، امبانی سے زیادہ شان ہمارے بادشاہ، نواب اور ہمارے آباواجداد  دکھا کر جاچکے ہیں، فرق یہی ہے کہ امبانی کی قوم کو آنے والی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کا پورا پورا شعور ہے، لیکن ہمارے نوابوں کو دور دور تک یہ شعور نہیں تھا کہ آنے والی نسلوں کا انجام کیا ہوگا۔ فکر تھی صرف یہ کہ ان کی یا ان کی بیٹیوں کی شادی کس شان سے ہوگی اور ”لوگ کیا کہیں گے“۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

واٹس اپ: 9642571721

  

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...