پیر، 9 دسمبر، 2024

نفرت کے بم - نوشتۂ دیوار ۔ 1



یہ نئے دور کا بم ہے جو ایٹمی بم یا نیوکلیر بم سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن بم ہے۔ یہ وہ بم نہیں جو سائنسدانوں نے خفیہ تجربہ گاہوں میں بنایا ہو، بلکہ یہ تعصب اور ڈکٹیٹرشپ کے بھوکے ذہنوں کی تخلیق ہے: مکار، فاشسٹ، اور غیرانسانی انتہا پسندوں کا ہتھیار جو نفرت کے بیج بونے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا نہیں، بلکہ نظریات کا ہتھیار ہے، اور اس کا اثر نسلوں تک ہیروشیما کے بم کی طرح باقی رہتا ہے۔

کیا لاکھوں عرب کبھی امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی ظلم و ستم کو بھول سکتے ہیں جس نے فلسطینیوں کی زندگی کو ایک جہنّم  میں بدل دیا؟ کیا آر ایس ایس کے ایندھن سے چلنے والی بھگوا جماعتوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں، بھارت میں ذات پر مبنی مظالم کے شکار دلتوں کا درد، یا چین کے کمیونسٹ نظام کے تحت غریبوں کی دبائی گئی آوازیں کبھی فراموش کی جا سکتی ہیں؟ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ایسے گہرے زخم کبھی نہیں بھرتے—یہ انتقام کی چنگاریاں چھوڑ جاتے ہیں جو آئندہ نسلوں میں بھڑک اٹھتی ہیں۔ اور آج کے ظالموں کی نسلیں اس کی قیمت ادا کرتی ہیں۔ 

ظالم عروج پر آ سکتے ہیں، لیکن ان کا اقتدار عارضی ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنی زندگی میں انتقام کا سامنا کریں یا نہ کریں، ایک حقیقت اٹل ہے: ظلم کے نظریات مٹنے کے لیے ہی بنے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیلی جارحیت ہو، ہندوتوا فسطائیت کی تقسیم کرنے والی سیاست ہو، یا ماؤ کی آمرانہ حکومت کا لوہا، ان کے بت ویسے ہی زمین پر آ گریں گے جیسے لینن کے مجسمے گرا دیے گئے تھے۔ وہ حشرہوکر رہتا ہے جو آج ملکِ شام میں اسد خاندان کی 54 سالہ حکومت کے ساتھ ہوا یا کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کا ہوا، اس سے ذرا پہلے تاریخ دیکھتے جایئے صدّام حسین، حسنی مبارک، اندراگاندھی، شاہ ایران، مارکوس فلپائن، بھٹّو وغیرہ کا ہوا۔ 

نفرت، نفرت کو جنم دیتی ہے، اور اس کے اثرات ایک خاموش وبا کی طرح پھیلتے ہیں۔ اس کی تباہی جنگ کی فوری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے، یہ معاشروں کے اجتماعی شعور میں سرایت کر کے انہیں اندر سے توڑ دیتی ہے۔ 

نفرت کے بم کا اصل المیہ اس کے فوری دھماکے میں نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تباہی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ہے—ایک ایسا انتقام کا چکر جو نہ صرف متاثرین بلکہ ظالموں کی نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اور انسانیت کے سب سے تاریک جذبات کی ایک جھلسی ہوئی میراث چھوڑ جاتا ہے۔


ڈاکٹرعلیم خان فلکی

نوشتۂ دیوار ۔ 1

9.12.2024

9642571721

اتوار، 1 دسمبر، 2024

وہ کون تھی؟



وہ کون تھی، یہ تو ہم آخرمیں بتائیں گے لیکن اتنا بتادیں کہ وہ اتنی بے وفا نکلے گی یہ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا۔ جب آئی تھی تو ہماری جیبیں خالی تھیں لیکن نگاہیں، دل اور دماغ اتنے امیر ہوگئے تھے کہ چاہے بس اسٹانڈ ہو کہ ریلوے اسٹیشن، ہر ہر جگہ صفائی والی بھی ایشوریا رائے نظرآتی تھی، جیسے گرم نگاہوں سے ہمیں گھوررہی ہو۔ لیکن جب وہ ساتھ چھوڑ گئی تو خود ایشوریا رائے بھی ہمیں آج کی جیابھادری لگتی ہے، جسے دیکھ کر ہماری آنکھیں سرد ہوجاتی ہے۔

وہ جب تک ساتھ تھی بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوتی تھیں، کیونکہ اس کی ہمّت پر چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ جب وہ چھوڑ کر گئی تو غلطیاں کرنے کی ہمت بھی ساتھ لے کر چلی گئی، ہمارے لئے بس ایک پچھتاوا اورپشیمانی چھوڑ گئی، ہم منٹو چھوڑ کر بہشتی زیور پڑھنے لگے۔جب تک وہ ساتھ رہی رانجھا اور قیس بھی ہمیں بونے لگنے لگے۔ بغیرکسی حکیم کے نسخے کے ہم محمودغزنوی کی طرح کئی شب خون مارلیتے تھے۔ وہ کیا گئی کہ ہم رنگون میں بیٹھے بہادرشاہ ظفربن گئے۔ وہ ساتھ تھی تو ہم ہرایک سے بِھڑجاتے تھے بشرطیکہ سامنے والا مسلمان ہو۔ ظاہر ہے ہم مسلمان ہیں، مسلمان سوائے مسلمان کے کسی اور سے نہیں بِھڑسکتا۔ ہم مسلمانوں کی گلیوں میں بائیک جس رفتار سے چلاتے تھے، ہماری سوچ اُس رفتار سے بہت کم ہوتی، بلکہ بہت ہی کم۔ جب وہ سر پر سوار تھی تو ہم یہ بھی بھول گئے تھے کہ ہمیں کچھ سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔ سوچ تو اس کے جانے کے بعد آئی مگرسوچنے کے لئے کچھ نہ رہا۔ اُس کی زلفوں کے سائے میں وہ سرور تھا کہ ہم بستر پر اُس وقت جاتے جب سارا زمانہ بستر سے اٹھنا شروع کرتا۔ اور اس وقت بستر سے باہر نکلتے جب لوگ بستر پر جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ جو نشہ اور مستی اس کے ساتھ تھی، وہ نہ کسی ڈرگ میں تھی نہ شراب میں۔ نشے میں تو لوگ ایک دوسرے کا خون پی جاتے ہیں، ہم نے تو اس عاشقی میں صرف سگریٹ شروع کیا تھا۔ جب تک سگریٹ پی نہیں تھی سگریٹ بہت مہنگی لگتی تھی۔ جب پہلی بار پی تو سگریٹ پھر بہت سستی ہوگئی۔ وہ ڈاکٹر جو کہتا تھا کہ سگریٹ سے کینسر ہوتا ہے، وہ بے چارا خود کینسر کا شکار ہو کر ایک دن مرگیا، اس کے بعد سے سگریٹ سے ہمارا ہر خوف جاتا رہا۔ 

اُس نے ہمیں شادی پر اکسایا، اور کہا کہ ابھی شادی کرلو تو ہمیشہ خوش رہوگے، ورنہ اگر بڑھاپے میں کی تو محلّے والے خوش ہوں گے۔ مگر کیا کریں ہمیں کسی کا رنگ پسند نہیں آتا تو کسی کی کمر۔ حالانکہ قدرت نے ہر حسینہ میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے۔ کسی کی آنکھوں میں انگور کا رس ہے تو کسی کے گالوں میں سیب، کسی کے لبوں پر میٹھے آم کی قاشیں ہیں تو کسی کی زبان میں شکر۔۔۔۔ مگرکیاکریں ہمیں تو ایک میوہ نہیں چار چار میؤں کے فروٹ چاٹ کی خواہش تھی۔۔ 

مگر اس کے کہنے پر ہمیں شادی کرنی ہی پڑی۔ بعد میں پتہ چلا کہ نہ سیب باقی رہتا ہے نہ انگور، باقی رہتی ہے تو بس ایک عورت، جس کو قدرت نے یقینا انگور، سیب اور آم کی آمیزش سے بنایا ہے، لیکن پتہ نہیں کیا مصلحت تھی کہ اُس کی زبان کو کریلا بنادیا۔ اس کے سامنے ہر مرد بھگوان بن جاتا ہے یعنی سنتا بہت کچھ ہے مگر کچھ بول نہیں سکتا۔ اتنے تلخ تجربات سے گزرتے گزرتے یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔ ہماری حالت وہی ہوگئی جس کو شائد تقدیر کہتے ہیں۔ سنا ہے کہ جب خدا نے کائنات کی تخلیق کی تو سب سے پہلے کتّے کو پیدا کیا اور کہا کہ جاتیری عمر بیس سال ہے۔ کتّا اپنی اوقات سمجھتا تھا، اس نے کہا مجھے صرف پانچ سال چاہئے۔ پھر اس کے بعد گدھے کو پھر بندر پھرہاتھی وغیرہ کو پیدا کیا اور وہی بیس سال کا آفردیا، مگر یہ انسانوں سے زیادہ سمجھدار اور قناعت پسند تھے، انہوں نے کتے کی طرح پانچ سال لئے باقی چھوڑدیئے۔ آخر میں حضرت اشرف المخلوقات کو پیدا کیا اور وہی بیس سال کی آفر دی۔ حضرت انسان نے ھل من مزید کا مطالبہ کیا۔ جواب ملا کہ بیس سے زیادہ چاہئے تو کتے کے پندرہ اور گدھے اور بندر وغیرہ کے پندرہ پندرہ سال پڑے ہیں وہ لے لو۔ حریص انسان نے یہ ڈیل قبول کرلی۔ ہم جو کبھی اُس معشوق کے بہکاووں میں آکر آسمانوں میں اڑ رہے تھے، پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہمارے پر کٹے، کب ہم اپنی اصلی عمر کی حدوں سے نکل کر کتے، گدھے اور بندر کے اسٹیج میں آگئے۔ اب اس بے وفا کمینی کی یاد آتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ اگر ایک دن بلکہ ایک گھنٹے کے لئے کہیں مل جائے تو اس کا گلا دبادیں۔ مگر وہ بہت دور نوجوانوں کی بھیڑ میں کھڑی مسکرا مسکرا کر ہمیں منہ چُڑاتی ہے۔ آپ یقینا یہ جاننے کے لئے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ بے وفا تھی کون۔۔۔۔۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کوئی کافر حسینہ تھی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ اگر وہ کوئی کافر حسینہ ہوتی تو بھلا ہم آپ کو کیوں بتاتے؟ اگر ایک ہوتی توشائد بتابھی دیتے، لیکن وہ جادوگرنی کوئی حسینہ نہیں تھی بلکہ ہماری جوانی تھی۔ وہ اُس ناقابلِ اعتبار محبوبہ کی طرح تھی، جو زندگی میں آئی تھی تو علی الاعلان خوشخبریاں، خواب، ارمان، جذبات، اکساہٹیں اور منچلے ارادے لے کر آئی تھی، لیکن گئی تو ایسے کہ جانے سے پہلے کوئی خبر دی نہ وارننگ۔ جی چاہتا ہے کہ جوانی کو پکڑ کر کسی شیشے میں بند کردوں اورشیشے کے اوپر سگریٹ یا گُھٹکا کی پیکٹ کی طرح یہ اسٹیکر لگادوں کہ یہ صحت کے لئے مضر ہے۔ مگر کتنے ہیں جو یہ پڑھ کر سگریٹ یا گُھٹکا چھوڑتے ہیں؟ یہ جوانی تو ایک ایسا پبلک ٹوائلٹ ہے جس کے باہر جو بھی ہے اسے اندر جانے کی جلدی ہے اورجو اندر ہے اسے باہر نکلنے کی جلدی ہے۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی

زندہ دلانِ حیدرآباد







 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...