منگل، 18 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟


پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین
کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی چیزو ں پر اتنی شدّت سے زور دیا گیا ہے کہ باقی تمام احکامات کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی لئے دوسرے تمام احکامات کے ساتھ لوگوں کا رویّہ ایسا ہی ہے جیسیکسی غیر کی میّت کی نمازِ جنازہ پڑھنا یا میّت کو کندھا دینا جو کہ فرضِ کفایہ ہے،  اگر آپ نے ادا کرلیا تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی پوچھ نہیں ہے۔  صرف ستونوں کو عمارت نہیں کہا جاتا، اور نہ اس کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔  آیئے دیکھتے ہیں ستونوں سے آگے  اِس عمارت کی کیسے تکمیل ہوگی۔ اِس عمارت کی چھت کا کام کرنے والی جو چیز ہے وہ ”امربالمعروف“۔

ہم جانتے ہیں کہ ”امربالمعروف نہی عن المنکر“ کے الفاظ جنہیں  ہم نے دیندار لوگوں کی زبان سے بار بار سنا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں ان الفاظ کا امیج بہت ہی دھندلا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پندرہ بیس مسلمانوں  کو جمع کرکے دین کی اچھی اچھی نیکیوں کے بارے میں کہنا امربالمعروف ہے۔کچھ لوگ غریب بستیوں میں جاکر وہاں مزدور اورڈرائیورٹائپ کے لوگوں  کو جمع کرکے انہیں کھانا کھلاکر ان کے سامنے تقریریں کرنا اورپمفلٹ بانٹنا امر بالمعروف ہے۔ سعودی عرب میں نمازوں کے وقت زبردستی دکانیں بند کروانے والے پولیس ڈپارٹمنٹ کو امربالمعروف کہتے ہیں۔ یہ سارے امربالمعروف کی حقیقت کا ایک ادھورا بلکہ بھونڈا تعارف ہیں۔ یئے دیکھتے ہیں امربالمعروف حقیقت میں کیا ہے۔

قرآن میں امربالمعروف نہی عن المنکر کا پانچ مرتبہ ڈائرکٹ حکم ہے اور کئی مرتبہ اِن ڈائرکٹ حکم دیا گیا ہے۔ ہم مختصراً صرف ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ تم سب سے بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے، جو معروف کا حکم دیتی ہے اور منکرات سے روکتی ہے“۔ (سورہ آل عمران آیت 110)۔ اس آیت میں تین باتیں اہم ہیں۔

۱۔ تم سب سے بہترین قوم ہو:   اللہ تعالیٰ نے کس بنیاد پر امتِ مسلمہ کو سب سے بہترین قوم کہا ہے۔ کیا اللہ تعالی ٰ کو یہ علم نہیں کہ اس امت میں بے شمار فرقے، مسلک اور جماعتیں پیدا ہوچکی ہیں، ہر ایک اپنے آپ کو سب سے بہترین، صحیح العقیدہ اور 73 واں فرقہ کہتا ہے؟ صرف مسلمان ہی کیا، ہر دوسری غیرمسلم ذات اور فرقے کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے  بہترین قوم کہے۔ وہ کون سا  کام ہے جس کے کرنے کی وجہ سے اس قوم کو سب سے بہترین کہا گیاہے۔ مسلمانوں سے پہلے تو یہود سب سے بہترین امت تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے یہ اعزاز چھین کر کیوں مسلمانوں کو تاج پہنا دیا؟   

۲۔ اُخرجت للناس: محض مسلمان ہوجانے کی وجہ سے ہم بہترین قوم نہیں بلکہ اس لئے کہ ہم کو صرف اپنے ہی مسلک یا عقیدے کے مسلمانوں کے پاس جانے کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کے پاس جانے کے لئے پیدا کیا ہے۔تمام انسانوں سے مراد ہم پر برہمن، بی سی، دلت، سکھ، عیسائی اور یہودی وغیرہ ہر ایک کے پاس جانا فرض ہے۔  ہم پوری انسانیت کے لئے کام کرنے والے بناکر پیدا کیئے گئے ہیں َ

۳۔  تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ: یعنی تمام لوگوں کے پا س جاکر ہمیں اللہ نیہمیں جو معروف یعنی زندگی گزارنے کے لئے جتنے اچھے کام بتائے ہیں، لوگوں کو ان کا ”حکم“ دینا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جتنی باتوں سے روکا ہے ہمیں تمام انسانوں کو ان سے روکنا ہے۔ طریقہ وہی ہوگا جو نبیﷺ نے بتایا کہ”اگر سمجھانیکے باوجود کوئی برائی سے نہ رکے تو ہاتھ سے روکو، اگر یہ نہیں کرسکتے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم سے کم دل سے نفرت کرو۔ 

گویا وہی قوم سب سے بہترین قرار دی گئی ہے جو ہر رنگ، نسل، علاقے اور عقیدے کے لوگوں کے  پاس جائے اور اللہ کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کا ”حکم“ دے۔ اسی کی بنیاد پر اسے”بہترین امت“ قرار دیا گیا۔ورنہ اسی آیت کے مطابق اگر تم دوسروں کے پاس جاکر امربالمعروف نہیں کرسکتے تو تم ایک ”بدترین“ امت ہو۔ 

امر کے معنے تمام مفسرین نے ”حکم دینے“ یعنی آرڈر دینے کے لکھے ہیں۔ سعودی عرب میں بادشاہ کے حکم کو ”امرالملکی“ اور کورٹ آرڈر کو ”ام الدیوانی“ کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم حکم دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ حکم تو وہی شخص دے سکتا ہے جس کے پاس پاؤور ہو، اختیارات  یعنی اتھاریٹی ہو اور اتھاریٹی کو نافذ کرنے کی طاقت بھی ہو۔ گھر کا مالک تو آرڈر دے سکتا ہے لیکن نوکر یا چوکیدار  آرڈر نہیں دے سکتا۔ وہ صرف نصیحت، مشورہ یا گزارش کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سے کہتے ہیں کہ ”رانگ سائڈ گاڑی چلانا غلط ہے“۔ یہ صرف ایک نصیحت ہے۔ نصیحت فرض نہیں ہے، صرف ایک مستحب نیکی ہے، جبکہ حکم دینا فرض کیا گیا ہے۔  اگر  دوسرا شخص  بات نہ مانے تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر پولیس والا یا کمشنریہی بات کہے تو یہ نصیحت نہیں بلکہ آرڈر یعنی حکم ہے۔ اگرپولیس کی بات نہیں مانی گئی تو پھر اس کے پاس ایکشن لینے کا بھی اختیار ہے۔ گویا ہم کو محض نصیحت کرنے کی وجہ سے بہترین امت کا اعزاز نہیں ملا بلکہ ہمارا کام ”حکم“ دینا ہے۔ 

یہاں سب سے اہم بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اگر حکم دینے کا پاؤور آپ کے پاس نہیں ہے تو پہلے وہ پاؤور حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا سب سے بڑا فرض  ہے۔ اگر چھت نہ ہوتو جس طرح ستون بے کار ہیں، اسی طرح اگر آپ کے پاس پاؤر نہ ہوتو آپ کی نمازیں، روزے، وغیرہ دوسرے مذہبوں اور ذاتوں کی طرح محض  بے مقصد رسمی عبادات ہیں۔ جس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ ثواب کا فلسفہ اپنی جگہ ہے جس کا فیصلہ قیامت میں ہوگا، دنیا میں تو بہرحال جس کے ہاتھوں میں  پاؤور ہوگا، آپ اس کے غلام، یا ملازم، یا تابعدار یا مخبر ہوں گے۔  

ایک اہم بلکہ اہم ترین سوال: 

تمام مسلمانوں سے اور بالخصوص علما و مشائخین سے سوال ہے کہ اگر اللہ نے آپ کومعروف کا حکم دینے کے لئے پیدا کیا ہے، لیکن حکم دینے کے لئے پاؤور، اتھاریٹی یا اختیارات کی ضرورت ہے، جو کہ آپ کے پاس دور دور تک نہیں ہے۔اگر آپ نے باطل پاؤور کو چیلنج کیا، یا پاؤور میں حصہ بھی مانگا تو  آپ کو کچل دیا جاسکتا ہے۔ توپھر ایسے حالات میں کیا امربالمعروف کا فرض  ساقط ہوجائیگا؟ کیا   امربالمعروف کا کام  معاف ہوجائیگا، یا ملتوی ہوجائیگا؟ یا یہ بتائیں کہ امربالمعروف  کے لئے پاؤور کو حاصل کرنے کی کوشش فرض ہے یا نہیں۔ کیا آپ ایک ایسا

 اسلام چاہتے ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی تبلیغ تو جاری رہے، جیسے بیٹھ کر پانی پینا، داڑھی، ٹوپی، برقع، عرس و میلاد کرلینا، رفع یدین وغیرہ یوں ہی جاری رہیں۔  بغیر سمجھے نمازیں اور تلاوتیں چلتی  رہیں۔ رمضان کے نام پر قرآن کے معنوں سے قطعی ناواقف حافظوں کا اور حلیم بنانے والوں کا کاروبار چلتا رہے؟ کیا آپ ایسا ہی اسلام چاہتے ہیں جس میں لوگ  اللہ کے مقرّرکردحرام و حلال کو چھوڑ کر حکمران  جو بھی فیصلہ کرے وہی مان کر زندگی گزارتے رہیں؟ علما کو یہ کھل کر بتانا پڑے گا کیونکہ انہیں فرض، سنت موکدہ، غیرموکدہ، نفل اور مستحب بھی معلوم ہے اور مکروہ، ناجائز اور حرام کا بھی انہیں علم ہے۔ علما و مشائخین کو  بتانا پڑے گا کہ اس دور میں امربالمعروف سے آپ کو سختی سے روکا جارہا ہے تو  اختیار حاصل کرنے کی کوشش فرض ہے یا نہیں؟َ  بالخصوص کتاب اللہ کتاب السنہ کا دعویٰ کرنے والے افراد یہ بتائیں جن کے قائد علما میں سے کچھ نے یہ کہا ہے کہ حکمران چاہے جتنے جابر، ظالم اور کرپٹ ہوں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والے خوارج ہیں، وہ بتائیں کے امربالمعروف کی شریعت میں حیثیت کیا ہے۔ 

اگرآپ امربالمعروف کے فرض کو ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں  تو پانچ ستونوں سے آگے بڑھ کر سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ اپنی ڈگری، دولت، شہرت اور انا، سب کو چھوڑ کر ایک امربالمعروف کے لئے اٹھنے والی جماعت میں اپنے آپ کو Surrender کرنا پڑے گا۔ اگر ایسی کوئی جماعت نہیں ہے تو جماعت بنانی پڑے گی۔ تیسرا راستہ صرف منافقت کا ہے۔ اچھی طرح یاد رہے کہ آج مسلمانوں کے ساتھ جو بھی ظلم ہورہا ہے یہ ہندومسلم کی جنگ نہیں ہے۔ اگر یہ ہندو مسلم کی جنگ ہے تو پھر پاکستان، سعودی عرب، مصر، سوڈان وغیرہ میں جہاں لوگ ناانصافی، کرپشن اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ وہاں کون سے ہندو فاشسٹ داخل ہوگئے ہیں؟ یہ جنگ دراصل Power Versus Powerless یعنی طاقت بمقابلہ کمزور کی جنگ ہے۔ پاؤر والے یہ کبھی نہیں چاہتے کہ کمزور کبھی پاؤور کی بات کریں۔وہ یہی چاہیں گے  کہ وہ ہمیشہ حکمران رہیں  اور آپ دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری بن کر اُن کے ہر فیصلے پر جھکتے رہیں۔ وہ آپ کو لالچ دیکر آپس میں  لڑاتے رہیں  اور آپ لڑتے رہیں۔جو جھک جائے، اپنے دین و ایمان کو بیچ دے  وہ محفوظ رہے۔ جو نہ بیچے اس کی زندگی تنگ کردی جائے۔  

 امربالمعروف ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عدل اور قانون کونافذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ جب تک آزادی کے لئے ایک نسل گھروں سے نہیں نکلتی، اگلی نسل سر اٹھا کر نہیں چل سکتی۔ کچھ ہمارے ہی لوگ پاؤور کے مطالبے کو حکومت سے بغاوت کی کوشش، حکمران بننے کی خواہش اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر پاؤور والوں کی نظرمیں آجائیں تو انہوں نے دین اور اسلام کے نام پر آج تک جو کچھ کمایا وہ خطرے میں نہ پڑجائے۔ پاؤور یعنی امربالمعروف کی طاقت پیدا کرنا پاؤور کی بھوک نہیں ہے۔ یہ بھوک تو آج اعلیٰ ذاتوں میں ہی نہیں، پسماندہ ذاتوں میں بھی ہے، وہ بھی پاؤور چاہتے ہیں لیکن پاؤور حاصل کرنے کا ان کے پاس سوائے دولت، عیش و آرام اور اختیارات حاصل کرنے کے اور کوئی Ultimate goal نہیں۔ لیکن امربالمعروف کا مقصدِ حقیقی  امربالمعروف کو زندہ کرنا ہے، جو کہ انسانیت اور انصاف کی بقا کی گارنٹی دیتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ جس ذلت اور شکست کی زندگی اہلِ ایمان آج گزاررہے ہیں،وہ ہمیشہ ایسی ہی زندگی گزاریں۔ یہ حالات تو

 صرف اس لئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سچے مردانِ مومن جو گھر اورپیسے کو قربان کرکے سڑکوں پر نکلتے ہیں اُن کو  بزدل نامرد منافقوں سے الگ کرے جو گھروں سے نکلے بغیر اور اپنی جیبوں سے مال نکالے بغیر صرف مشورے، تبصرے اور اعتراضات کرتے ہیں۔  مَّا کَانَ اللَّہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیٰ مَآ أَنتُمْ عَلَیْہِ حَتَّیٰ یَمِیزاَ لْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ (آل عمران  آیت 110)۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذہب اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر دین مضبوطی سے قائم ہو تو مذہب کی حفاظت خودبخود ہوجاتی ہے۔ ورنہ مذہب، مسجدیں، عبادات بلکہ پورا قومی تشخّص خطرے میں پڑجاتا ہے۔ دین کے قیام کے لئے امربالمعروف لازمی ہے۔ اس کے بغیر دین ایک ایسی عمارت ہے جس کی کوئی چھت نہیں۔ جو لوگ امربالمعروف کئے بغیر نمازیں، روزے، حج اور عمرے ادا کئے جارہے ہیں، وہ ایک بار پھر اس مضمون کو پڑھ لیں، یہ ایک گزارش ہے۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا، حیدرآباد

 9642571721


 

جمعہ، 14 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے۔دوسری قسط - کون سا مسلک صحیح ہے؟




پانچ ستونوں سے آگے کی دوسری قسط پیشِ خدمت ہے۔یقیناً نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج دین کے ستون یعنی Pillars ہیں، لیکن صرف ستون کھڑے کرکے ان کے بیچ رہا نہیں جاسکتا۔ رہنے کے لئے پوری عمارت کی تعمیر لازمی ہے۔ آیئے اس عمارت کو مکمل کرنے کیلئے دوسرا step کیا ہے، اس پر غورکرتے ہیں۔

سورہ بقرہ آیت 148: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیہَا فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ  أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ  للَّہُ جَمِیعًا 

ہر ایک کی اپنی ایک  ڈائرکشن ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم پس تم بھلائیوں کی طرف پیش قدمی کرو، جہاں بھی تم ہوگے اللہ تعالیٰ تم کو جمع کرلے گا۔ 

یہ آیت تحویلِ کعبہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، آج کے حالات میں اِس آیت کوسمجھنا اس لئے بہت ضروری ہے کہ آج ہرشخص کی اپنی الگ ڈائرکشن ہے۔ اس کا اپنا الگ مسلک یا منہج ہے،  فرقہ یا جماعت یا عقیدہ  الگ ہے۔ عقیدوں کی ایک جنگ ہے، ہرشخص اپنے سے Different عقیدہ رکھنے والے کو کسی نہ کسی فتوے سے نواز رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ساری جنگ اپنے اپنے مسلک کے علما کی سرپرستی میں ہورہی ہے۔ پھر صحیح کون ہے اور غلط کون ہے اس کا فیصلہ کون کرے؟     

اس کا فیصلہ یہ آیت کرتی ہے۔ وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیہَا فَاسْتَبِقُوا?لْخَیْرَٰتِ?، یعنی ہر ایک کی کوئی نہ کوئی جماعت،گروہ، فرقہ، مسلک یا سلسلہ ہے، اس میں برائی کچھ نہیں۔ لیکن صحیح کون ہے اس کا فیصلہ فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ کی کسوٹی پر ہوگا۔ فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ یعنی خیرمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرکے جو Excellence or Topper’s position حاصل کرے گا وہی شخص یا وہی مسلک صحیح ہوگا۔ خیرات یہ اردو والا خیرات نہیں جس کے معنی ہیں Charity۔ عربی میں خیرات خیر سے ہے جس کے معنی ہیں بھلائیاں، نیکیاں جیسے اخلاق، کردار، انسانیت، جسٹس، Equality یعنی کسی کو اپنے سے Inferior نہیں سمجھنا، سچائی پر ڈٹے رہنا اور غیبتوں اورسازشوں سے پاک ہونا، 

خیر کا Opposite ہوتا ہے شر۔ ہوسکتا ہے آپ کے خلاف دوسرے لوگ شرانگیزی کررہے ہوں، ہوسکتا ہے آپ کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈا پھیلارہے ہوں سوال یہ ہے کہ آپ شر کا مقابلہ کس طرح کررہے ہیں۔ اُسی طرح کررہے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے طائف میں پتھر مارنے والوں کے ساتھ کیا؟ حضرت علی ؓ نے منہ پر تھوک دینے والے کے ساتھ کیا؟ حضرت عمرؓ نے ان کا خطبہ روک کر ایک اعتراض کرنے والیکیساتھ کیا؟ یہ ہیں فَاسْتَبِقُوا?لْخَیْرَٰتِ کی Excellency کی مثال۔ اگرآپ بھی اسی طرح اپنے مخالفین سے پیش آتے ہیں تو آپ اور آپ کا مسلک یا فرقہ حق پر ہے۔ بے شک آپ 73 واں فرقہ کہلانے کے مستحق ہیں۔ اور اگر آپ جھوٹ اور پروپیگنڈے کا جواب بھی جھوٹ اور پروپیگنڈے سے ہی دینا چاہتے ہیں، تنقید کے بدلیتنقید، فتوے کا جواب اس سے بڑا فتوی، کے ذریعے

 دینا چاہتے ہیں تو معاف کیجئے نہ آپ صحیح ہیں نہ آپ کا مسلک نہ آپ کا فرقہ۔ کیونکہ آپ نے فَاسْتَبِقُوا  ا لْخَیْرَٰتِ نہیں بلکہ فَاسْتَبِقُوا  ا لْشّرپرعمل کیا ہے۔ نبیﷺ نے خود یہ فیصلہ سنایا ہے کہ مومن وہی ہے جس کی ہاتھ اور زبان سے دوسرا مومن محفوظ یعنی Secured رہے۔ آج ہرہرجگہ مسلکوں اور فرقوں کی اکثریت سے دوسرے مسلک یا فرقے محفوظ نہیں ہیں۔ ہر گروہ نے معصوم نوجوانوں کا Brainwash کرکے بھگوا شرپسندوں کی طرح دوسروں سے دِھنگامشتی کرنے آزاد چھوڑدیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ سڑکوں پر دھنگا مشتی کرتے ہیں اور یہ نوجوان سوشیل میڈیا پر دوسرے مسلکوں پر کیچڑ اچھال اچھال کر اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ 

اس آیت کا دوسرا حصہ بھی بے انتہا اہم ہے۔ أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ?للَّہُ جَمِیعًا?۔ یعنی تم جہاں بھی ہو اللہ تعالی تم سب کو جمع کردے گا۔ مفسرین نے آج کے انہی حالات کے پیش نظر دو معنی پیش کئے ہیں۔ 

ایک تو یہ کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ کرے گا جس دن وہ سب کو جمع کردے گا۔ فَاللَّہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِی مَا کُنتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں دیا گیا وہ کسی دوسرے مسلمان کو کافر یا منافق کہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ بھی غلط ہے اور اس کا فرقہ یا مسلک بھی غلط ہے۔ اس غلطی کی بنیاد اُن اکابرین مسالک نے ڈالی جنہوں نے دوسرے مسلک یا عقیدوں کے خلاف کتابیں سب کی تکفیر کی۔اِن کے جواب میں مخالف عقیدے کے علما نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، یہ نہیں سوچا کہ وہ اس طرح کرکے قرآن کی تعلیمات کو کس طرح پامال کررہے ہیں۔   دوسرے الفاظ میں  ہمارے ہی بزرگوں کی اکثریت نے  شرکا مقابلہ خیر سے کرنے کیبجائے، شر کا مقابلہ شر سے ہی کرنا سکھادیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسجدیں ہی نہیں شریعت بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ اب اگر قرآن کی طرف لوٹنا ہیتو اُن تمام بزرگوں، ان کی کتابوں اور ان کی سوچ کو خداحافظ کہنا پڑے گا جن کی وجہ سے ہر فرقہ اور ہر مسلک آج بھی ایک دوسرے کا جتنا مخالف ہے اتنے تو بھگوا شرپسند بھی ہمارے مخلاف نہیں۔ 

دوسرے معنی جو مفسرین نے بیان کئے ہیں وہ یہ کہ جب تم خیرات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرکے کردار میں Excellence حاصل کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام ہم خیال، ہم کردار لوگوں کو Unite کردے گا۔ اگر آپ United ہوں گے تو Power آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ ورنہ آپ پر موچی، چمار، دودھ والے اور چائے والے حکمران مسلّط ہوجائیں گے، اور پھر آپ ان کے دوست یا مخبر بن کر اپنی حفاظت کے لئے بھیک مانگیں گے۔ چھوٹے چھوٹے عہدوں کے لئے ان کی پارٹیوں میں غلامی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  پانچ ستونوں سے آگے  کا ویزن نصیب فرمائے۔ وآخردعونا عن الحمد للہ رب العلمین۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدرسوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا، حیدرآباد

+91 9642571721


بدھ، 12 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے - معاملہ داری اصل دینداری ہے



نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ دین کے ستون یعنی Pillars ہیں۔ انہی ستونوں پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں ستون تو قائم ہورہے ہیں لیکن ہم عمارت سے محروم ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جس پلاٹ پر صرف ستون کھڑے کرکے چھوڑ دیں، اس پلاٹ کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لوگ اس پر کچہرا پھینکنے لگتے ہیں، کوئی قبضہ کرتا ہے، شرابی اور جوّے باز اسے اڈّہ بنالیتے ہیں۔ اور آج دین کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم ستون کھڑے کرنے کے تو قائل ہیں لیکن فرش، چھت، دیواریں، کھڑکیاں اور دروازے بنانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لئے ہم نے اس سیریز کا نام”پانچ ستونوں“ سے آگے رکھا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں وہ کیا کیا چیزیں ہیں جو دیواروں، کھڑکیوں اور دروازوں کا کام کرتی ہیں۔ 

سب سے پہلے ہے معاملہ یعنی Dealings۔ دین کو صرف دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ”الدین معاملہ“۔ یعنی دین معاملہ داری کا نام ہے۔ کسی کا اسلام یا ایمان اس کے چہرے، لباس یا عبادات کے طور طریق سے نہیں ثابت ہوتا بلکہ اس کی معاملہ داری سے ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ معاملہ داری سمنٹ ہے جس کے بغیر نہ تو ایک ستون کھڑا ہوتا ہے اور نہ ایک بھی اینٹ رکھی جاسکتی ہے۔ نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج اسی سمنٹ کوفراہم کرتے ہیں۔ 

اس کی ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے نماز۔ دیکھئے نماز کس طرح آپ کے معاملات کو درست کردیتی ہے۔ بندہ پوری نماز میں ہدایت مانگتا ہے، اللہ سے استعانت طلب کرتا ہے، رکوع اور سجدوں کے ذریعے اپنی عاجزی، محتاجگی اور بندگی کا مکمل اظہار کرتا ہے، آخر میں سلام پھیرتے وقت اللہ سے ہدایت اور استعانت کے بدلے وہ کیا دے سکتا ہے وہ دینے کا عہدکرتا ہے۔ وہ اِس طرح کہ سلام پھیرتے ہوئے سیدھی طرف منہ کرکیاپنے تمام سیدھی طرف بیٹھنے والوں سے کہتا ہے کہ ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ“یعنی ائے میری سیدھی جانب موجود لوگو، تم تمام کو میری طرف سے سلامتی ہے، میرا ہاتھ یا میری زبان تمہارے خلاف کبھی نہیں اٹھیں گے۔ تم چاہے میرا لاکھ برا چاہو، میں تمہارا برا نہیں چاہوں گا، میری طرف سے تم سلامت یعنی محفوظ ہو، نہ میں تمہاری غیبت کروں گا، نہ تم سے حسد رکھوں گا، نہ تم پر ہاتھ اٹھاوں گا اور نہ کسی ہاتھ اٹھانے والے کا ساتھ دوں گا۔ اسی طرح وہ بائیں طرف منہ کرکے بائیں جانب موجود تمام نمازیوں سے اللہ کے سامنے وہی عہد کررہا ہے جو سیدھی جانب کے لوگوں سے کرچکا ہے۔ ذرا تصوّر کیجئے، نماز کی اگر یہ حکمت عام ہوجائیتو مسجد میں جو بھی شخص آئے، اس سے سب کو صرف اور صرف خیر کی امید ہوگی، امت مسلمہ کا امیج جو دشمنوں نے بگاڑ دیا ہے، وہ مکمل بدل جائے گا۔ جو لوگ نماز کے منکر ہیں وہ بھی دوڑ

 دوڑ کر مسجدوں کو آنے لگیں گے۔ اسی لئے نمازِ باجماعت کی فضیلت ہے۔ تمام نمازی نہ سہی، اگر سو مصلّیوں میں سے دس بھی اِس عہد پر پابند ہوگئے تو ان کی آخرت تو کامیاب ہوگی ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے محلّے میں خیر کی ایک مثال ہوجائیں گے۔ لوگ ان کی گواہی کا اعتبار کریں گے، ان کو اپنے معاملات کا جج بنائیں گے۔ پورے محلّے کو اُن سے Inspiration ملے گی۔ پھر چراغ سے چراغ جلنے میں دیر نہیں لگتی۔

ایک اور حکمت کی بات عرض کردوں کہ دین نے ہمیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا جو طریقہ دیا ہے اس میں کتنی خیر ہے اندازہ لگایئے۔ دوسروں میں جو طریقے رائج ہیں جیسے گُڈ مارننگ، نمستے، ست سری اکال، ونکّم وغیرہ۔ یہ معنوں کے اعتبار سے سوائے ایک خیرسگالی کے کچھ نہیں۔ جبکہ السلام علیکم کے الفاظ میں وہی سلامتی کی بات ہے جو نماز میں سلام پھیرنے کے باب میں بتائی گئی ہے۔ اگر کوئی سچے دل سے آ پ کو سلام کررہا ہے تو دراصل وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ آپ میری زبان اور میرے ہاتھ سے محفوظ رہیں گے۔ اگر ہم سلام کی حکمت اور اہمیت سمجھ جائیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو انشااللہ ساری قومیں اپنے اپنے لغو طریقے چھوڑ کر السلام علیکم کہنے لگے گی۔ اسی سلام کی بدولت آج جو مسلمان اپنی معاملہ داری کی وجہ سے خود بھی بدنام ہے اور اپنی حرکتوں سے دنیا کو بھی اسلام اور مسلمانوں سے بدظن کررہے ہیں، اگر یہ لوگ سلام کے صحیح معنوں کو سمجھ کر دل سے عمل کریں تو مسلمانوں کی شناخت اور ان کا کردار بدل جائیگا انشااللہ۔ 

وآخردعونا عن الحمد لللہ رب العالمین۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا۔ حیدرآباد

 9642571721


 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...