منگل، 18 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟


پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین
کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی چیزو ں پر اتنی شدّت سے زور دیا گیا ہے کہ باقی تمام احکامات کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی لئے دوسرے تمام احکامات کے ساتھ لوگوں کا رویّہ ایسا ہی ہے جیسیکسی غیر کی میّت کی نمازِ جنازہ پڑھنا یا میّت کو کندھا دینا جو کہ فرضِ کفایہ ہے،  اگر آپ نے ادا کرلیا تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی پوچھ نہیں ہے۔  صرف ستونوں کو عمارت نہیں کہا جاتا، اور نہ اس کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔  آیئے دیکھتے ہیں ستونوں سے آگے  اِس عمارت کی کیسے تکمیل ہوگی۔ اِس عمارت کی چھت کا کام کرنے والی جو چیز ہے وہ ”امربالمعروف“۔

ہم جانتے ہیں کہ ”امربالمعروف نہی عن المنکر“ کے الفاظ جنہیں  ہم نے دیندار لوگوں کی زبان سے بار بار سنا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں ان الفاظ کا امیج بہت ہی دھندلا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پندرہ بیس مسلمانوں  کو جمع کرکے دین کی اچھی اچھی نیکیوں کے بارے میں کہنا امربالمعروف ہے۔کچھ لوگ غریب بستیوں میں جاکر وہاں مزدور اورڈرائیورٹائپ کے لوگوں  کو جمع کرکے انہیں کھانا کھلاکر ان کے سامنے تقریریں کرنا اورپمفلٹ بانٹنا امر بالمعروف ہے۔ سعودی عرب میں نمازوں کے وقت زبردستی دکانیں بند کروانے والے پولیس ڈپارٹمنٹ کو امربالمعروف کہتے ہیں۔ یہ سارے امربالمعروف کی حقیقت کا ایک ادھورا بلکہ بھونڈا تعارف ہیں۔ یئے دیکھتے ہیں امربالمعروف حقیقت میں کیا ہے۔

قرآن میں امربالمعروف نہی عن المنکر کا پانچ مرتبہ ڈائرکٹ حکم ہے اور کئی مرتبہ اِن ڈائرکٹ حکم دیا گیا ہے۔ ہم مختصراً صرف ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ تم سب سے بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے، جو معروف کا حکم دیتی ہے اور منکرات سے روکتی ہے“۔ (سورہ آل عمران آیت 110)۔ اس آیت میں تین باتیں اہم ہیں۔

۱۔ تم سب سے بہترین قوم ہو:   اللہ تعالیٰ نے کس بنیاد پر امتِ مسلمہ کو سب سے بہترین قوم کہا ہے۔ کیا اللہ تعالی ٰ کو یہ علم نہیں کہ اس امت میں بے شمار فرقے، مسلک اور جماعتیں پیدا ہوچکی ہیں، ہر ایک اپنے آپ کو سب سے بہترین، صحیح العقیدہ اور 73 واں فرقہ کہتا ہے؟ صرف مسلمان ہی کیا، ہر دوسری غیرمسلم ذات اور فرقے کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے  بہترین قوم کہے۔ وہ کون سا  کام ہے جس کے کرنے کی وجہ سے اس قوم کو سب سے بہترین کہا گیاہے۔ مسلمانوں سے پہلے تو یہود سب سے بہترین امت تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے یہ اعزاز چھین کر کیوں مسلمانوں کو تاج پہنا دیا؟   

۲۔ اُخرجت للناس: محض مسلمان ہوجانے کی وجہ سے ہم بہترین قوم نہیں بلکہ اس لئے کہ ہم کو صرف اپنے ہی مسلک یا عقیدے کے مسلمانوں کے پاس جانے کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کے پاس جانے کے لئے پیدا کیا ہے۔تمام انسانوں سے مراد ہم پر برہمن، بی سی، دلت، سکھ، عیسائی اور یہودی وغیرہ ہر ایک کے پاس جانا فرض ہے۔  ہم پوری انسانیت کے لئے کام کرنے والے بناکر پیدا کیئے گئے ہیں َ

۳۔  تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ: یعنی تمام لوگوں کے پا س جاکر ہمیں اللہ نیہمیں جو معروف یعنی زندگی گزارنے کے لئے جتنے اچھے کام بتائے ہیں، لوگوں کو ان کا ”حکم“ دینا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جتنی باتوں سے روکا ہے ہمیں تمام انسانوں کو ان سے روکنا ہے۔ طریقہ وہی ہوگا جو نبیﷺ نے بتایا کہ”اگر سمجھانیکے باوجود کوئی برائی سے نہ رکے تو ہاتھ سے روکو، اگر یہ نہیں کرسکتے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم سے کم دل سے نفرت کرو۔ 

گویا وہی قوم سب سے بہترین قرار دی گئی ہے جو ہر رنگ، نسل، علاقے اور عقیدے کے لوگوں کے  پاس جائے اور اللہ کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کا ”حکم“ دے۔ اسی کی بنیاد پر اسے”بہترین امت“ قرار دیا گیا۔ورنہ اسی آیت کے مطابق اگر تم دوسروں کے پاس جاکر امربالمعروف نہیں کرسکتے تو تم ایک ”بدترین“ امت ہو۔ 

امر کے معنے تمام مفسرین نے ”حکم دینے“ یعنی آرڈر دینے کے لکھے ہیں۔ سعودی عرب میں بادشاہ کے حکم کو ”امرالملکی“ اور کورٹ آرڈر کو ”ام الدیوانی“ کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم حکم دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ حکم تو وہی شخص دے سکتا ہے جس کے پاس پاؤور ہو، اختیارات  یعنی اتھاریٹی ہو اور اتھاریٹی کو نافذ کرنے کی طاقت بھی ہو۔ گھر کا مالک تو آرڈر دے سکتا ہے لیکن نوکر یا چوکیدار  آرڈر نہیں دے سکتا۔ وہ صرف نصیحت، مشورہ یا گزارش کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سے کہتے ہیں کہ ”رانگ سائڈ گاڑی چلانا غلط ہے“۔ یہ صرف ایک نصیحت ہے۔ نصیحت فرض نہیں ہے، صرف ایک مستحب نیکی ہے، جبکہ حکم دینا فرض کیا گیا ہے۔  اگر  دوسرا شخص  بات نہ مانے تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر پولیس والا یا کمشنریہی بات کہے تو یہ نصیحت نہیں بلکہ آرڈر یعنی حکم ہے۔ اگرپولیس کی بات نہیں مانی گئی تو پھر اس کے پاس ایکشن لینے کا بھی اختیار ہے۔ گویا ہم کو محض نصیحت کرنے کی وجہ سے بہترین امت کا اعزاز نہیں ملا بلکہ ہمارا کام ”حکم“ دینا ہے۔ 

یہاں سب سے اہم بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اگر حکم دینے کا پاؤور آپ کے پاس نہیں ہے تو پہلے وہ پاؤور حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا سب سے بڑا فرض  ہے۔ اگر چھت نہ ہوتو جس طرح ستون بے کار ہیں، اسی طرح اگر آپ کے پاس پاؤر نہ ہوتو آپ کی نمازیں، روزے، وغیرہ دوسرے مذہبوں اور ذاتوں کی طرح محض  بے مقصد رسمی عبادات ہیں۔ جس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ ثواب کا فلسفہ اپنی جگہ ہے جس کا فیصلہ قیامت میں ہوگا، دنیا میں تو بہرحال جس کے ہاتھوں میں  پاؤور ہوگا، آپ اس کے غلام، یا ملازم، یا تابعدار یا مخبر ہوں گے۔  

ایک اہم بلکہ اہم ترین سوال: 

تمام مسلمانوں سے اور بالخصوص علما و مشائخین سے سوال ہے کہ اگر اللہ نے آپ کومعروف کا حکم دینے کے لئے پیدا کیا ہے، لیکن حکم دینے کے لئے پاؤور، اتھاریٹی یا اختیارات کی ضرورت ہے، جو کہ آپ کے پاس دور دور تک نہیں ہے۔اگر آپ نے باطل پاؤور کو چیلنج کیا، یا پاؤور میں حصہ بھی مانگا تو  آپ کو کچل دیا جاسکتا ہے۔ توپھر ایسے حالات میں کیا امربالمعروف کا فرض  ساقط ہوجائیگا؟ کیا   امربالمعروف کا کام  معاف ہوجائیگا، یا ملتوی ہوجائیگا؟ یا یہ بتائیں کہ امربالمعروف  کے لئے پاؤور کو حاصل کرنے کی کوشش فرض ہے یا نہیں۔ کیا آپ ایک ایسا

 اسلام چاہتے ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی تبلیغ تو جاری رہے، جیسے بیٹھ کر پانی پینا، داڑھی، ٹوپی، برقع، عرس و میلاد کرلینا، رفع یدین وغیرہ یوں ہی جاری رہیں۔  بغیر سمجھے نمازیں اور تلاوتیں چلتی  رہیں۔ رمضان کے نام پر قرآن کے معنوں سے قطعی ناواقف حافظوں کا اور حلیم بنانے والوں کا کاروبار چلتا رہے؟ کیا آپ ایسا ہی اسلام چاہتے ہیں جس میں لوگ  اللہ کے مقرّرکردحرام و حلال کو چھوڑ کر حکمران  جو بھی فیصلہ کرے وہی مان کر زندگی گزارتے رہیں؟ علما کو یہ کھل کر بتانا پڑے گا کیونکہ انہیں فرض، سنت موکدہ، غیرموکدہ، نفل اور مستحب بھی معلوم ہے اور مکروہ، ناجائز اور حرام کا بھی انہیں علم ہے۔ علما و مشائخین کو  بتانا پڑے گا کہ اس دور میں امربالمعروف سے آپ کو سختی سے روکا جارہا ہے تو  اختیار حاصل کرنے کی کوشش فرض ہے یا نہیں؟َ  بالخصوص کتاب اللہ کتاب السنہ کا دعویٰ کرنے والے افراد یہ بتائیں جن کے قائد علما میں سے کچھ نے یہ کہا ہے کہ حکمران چاہے جتنے جابر، ظالم اور کرپٹ ہوں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والے خوارج ہیں، وہ بتائیں کے امربالمعروف کی شریعت میں حیثیت کیا ہے۔ 

اگرآپ امربالمعروف کے فرض کو ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں  تو پانچ ستونوں سے آگے بڑھ کر سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ اپنی ڈگری، دولت، شہرت اور انا، سب کو چھوڑ کر ایک امربالمعروف کے لئے اٹھنے والی جماعت میں اپنے آپ کو Surrender کرنا پڑے گا۔ اگر ایسی کوئی جماعت نہیں ہے تو جماعت بنانی پڑے گی۔ تیسرا راستہ صرف منافقت کا ہے۔ اچھی طرح یاد رہے کہ آج مسلمانوں کے ساتھ جو بھی ظلم ہورہا ہے یہ ہندومسلم کی جنگ نہیں ہے۔ اگر یہ ہندو مسلم کی جنگ ہے تو پھر پاکستان، سعودی عرب، مصر، سوڈان وغیرہ میں جہاں لوگ ناانصافی، کرپشن اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ وہاں کون سے ہندو فاشسٹ داخل ہوگئے ہیں؟ یہ جنگ دراصل Power Versus Powerless یعنی طاقت بمقابلہ کمزور کی جنگ ہے۔ پاؤر والے یہ کبھی نہیں چاہتے کہ کمزور کبھی پاؤور کی بات کریں۔وہ یہی چاہیں گے  کہ وہ ہمیشہ حکمران رہیں  اور آپ دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری بن کر اُن کے ہر فیصلے پر جھکتے رہیں۔ وہ آپ کو لالچ دیکر آپس میں  لڑاتے رہیں  اور آپ لڑتے رہیں۔جو جھک جائے، اپنے دین و ایمان کو بیچ دے  وہ محفوظ رہے۔ جو نہ بیچے اس کی زندگی تنگ کردی جائے۔  

 امربالمعروف ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عدل اور قانون کونافذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ جب تک آزادی کے لئے ایک نسل گھروں سے نہیں نکلتی، اگلی نسل سر اٹھا کر نہیں چل سکتی۔ کچھ ہمارے ہی لوگ پاؤور کے مطالبے کو حکومت سے بغاوت کی کوشش، حکمران بننے کی خواہش اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر پاؤور والوں کی نظرمیں آجائیں تو انہوں نے دین اور اسلام کے نام پر آج تک جو کچھ کمایا وہ خطرے میں نہ پڑجائے۔ پاؤور یعنی امربالمعروف کی طاقت پیدا کرنا پاؤور کی بھوک نہیں ہے۔ یہ بھوک تو آج اعلیٰ ذاتوں میں ہی نہیں، پسماندہ ذاتوں میں بھی ہے، وہ بھی پاؤور چاہتے ہیں لیکن پاؤور حاصل کرنے کا ان کے پاس سوائے دولت، عیش و آرام اور اختیارات حاصل کرنے کے اور کوئی Ultimate goal نہیں۔ لیکن امربالمعروف کا مقصدِ حقیقی  امربالمعروف کو زندہ کرنا ہے، جو کہ انسانیت اور انصاف کی بقا کی گارنٹی دیتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ جس ذلت اور شکست کی زندگی اہلِ ایمان آج گزاررہے ہیں،وہ ہمیشہ ایسی ہی زندگی گزاریں۔ یہ حالات تو

 صرف اس لئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سچے مردانِ مومن جو گھر اورپیسے کو قربان کرکے سڑکوں پر نکلتے ہیں اُن کو  بزدل نامرد منافقوں سے الگ کرے جو گھروں سے نکلے بغیر اور اپنی جیبوں سے مال نکالے بغیر صرف مشورے، تبصرے اور اعتراضات کرتے ہیں۔  مَّا کَانَ اللَّہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیٰ مَآ أَنتُمْ عَلَیْہِ حَتَّیٰ یَمِیزاَ لْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ (آل عمران  آیت 110)۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذہب اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر دین مضبوطی سے قائم ہو تو مذہب کی حفاظت خودبخود ہوجاتی ہے۔ ورنہ مذہب، مسجدیں، عبادات بلکہ پورا قومی تشخّص خطرے میں پڑجاتا ہے۔ دین کے قیام کے لئے امربالمعروف لازمی ہے۔ اس کے بغیر دین ایک ایسی عمارت ہے جس کی کوئی چھت نہیں۔ جو لوگ امربالمعروف کئے بغیر نمازیں، روزے، حج اور عمرے ادا کئے جارہے ہیں، وہ ایک بار پھر اس مضمون کو پڑھ لیں، یہ ایک گزارش ہے۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا، حیدرآباد

 9642571721


 

جمعہ، 14 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے۔دوسری قسط - کون سا مسلک صحیح ہے؟




پانچ ستونوں سے آگے کی دوسری قسط پیشِ خدمت ہے۔یقیناً نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج دین کے ستون یعنی Pillars ہیں، لیکن صرف ستون کھڑے کرکے ان کے بیچ رہا نہیں جاسکتا۔ رہنے کے لئے پوری عمارت کی تعمیر لازمی ہے۔ آیئے اس عمارت کو مکمل کرنے کیلئے دوسرا step کیا ہے، اس پر غورکرتے ہیں۔

سورہ بقرہ آیت 148: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیہَا فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ  أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ  للَّہُ جَمِیعًا 

ہر ایک کی اپنی ایک  ڈائرکشن ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم پس تم بھلائیوں کی طرف پیش قدمی کرو، جہاں بھی تم ہوگے اللہ تعالیٰ تم کو جمع کرلے گا۔ 

یہ آیت تحویلِ کعبہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، آج کے حالات میں اِس آیت کوسمجھنا اس لئے بہت ضروری ہے کہ آج ہرشخص کی اپنی الگ ڈائرکشن ہے۔ اس کا اپنا الگ مسلک یا منہج ہے،  فرقہ یا جماعت یا عقیدہ  الگ ہے۔ عقیدوں کی ایک جنگ ہے، ہرشخص اپنے سے Different عقیدہ رکھنے والے کو کسی نہ کسی فتوے سے نواز رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ساری جنگ اپنے اپنے مسلک کے علما کی سرپرستی میں ہورہی ہے۔ پھر صحیح کون ہے اور غلط کون ہے اس کا فیصلہ کون کرے؟     

اس کا فیصلہ یہ آیت کرتی ہے۔ وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیہَا فَاسْتَبِقُوا?لْخَیْرَٰتِ?، یعنی ہر ایک کی کوئی نہ کوئی جماعت،گروہ، فرقہ، مسلک یا سلسلہ ہے، اس میں برائی کچھ نہیں۔ لیکن صحیح کون ہے اس کا فیصلہ فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ کی کسوٹی پر ہوگا۔ فَاسْتَبِقُوا لْخَیْرَٰتِ یعنی خیرمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرکے جو Excellence or Topper’s position حاصل کرے گا وہی شخص یا وہی مسلک صحیح ہوگا۔ خیرات یہ اردو والا خیرات نہیں جس کے معنی ہیں Charity۔ عربی میں خیرات خیر سے ہے جس کے معنی ہیں بھلائیاں، نیکیاں جیسے اخلاق، کردار، انسانیت، جسٹس، Equality یعنی کسی کو اپنے سے Inferior نہیں سمجھنا، سچائی پر ڈٹے رہنا اور غیبتوں اورسازشوں سے پاک ہونا، 

خیر کا Opposite ہوتا ہے شر۔ ہوسکتا ہے آپ کے خلاف دوسرے لوگ شرانگیزی کررہے ہوں، ہوسکتا ہے آپ کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈا پھیلارہے ہوں سوال یہ ہے کہ آپ شر کا مقابلہ کس طرح کررہے ہیں۔ اُسی طرح کررہے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے طائف میں پتھر مارنے والوں کے ساتھ کیا؟ حضرت علی ؓ نے منہ پر تھوک دینے والے کے ساتھ کیا؟ حضرت عمرؓ نے ان کا خطبہ روک کر ایک اعتراض کرنے والیکیساتھ کیا؟ یہ ہیں فَاسْتَبِقُوا?لْخَیْرَٰتِ کی Excellency کی مثال۔ اگرآپ بھی اسی طرح اپنے مخالفین سے پیش آتے ہیں تو آپ اور آپ کا مسلک یا فرقہ حق پر ہے۔ بے شک آپ 73 واں فرقہ کہلانے کے مستحق ہیں۔ اور اگر آپ جھوٹ اور پروپیگنڈے کا جواب بھی جھوٹ اور پروپیگنڈے سے ہی دینا چاہتے ہیں، تنقید کے بدلیتنقید، فتوے کا جواب اس سے بڑا فتوی، کے ذریعے

 دینا چاہتے ہیں تو معاف کیجئے نہ آپ صحیح ہیں نہ آپ کا مسلک نہ آپ کا فرقہ۔ کیونکہ آپ نے فَاسْتَبِقُوا  ا لْخَیْرَٰتِ نہیں بلکہ فَاسْتَبِقُوا  ا لْشّرپرعمل کیا ہے۔ نبیﷺ نے خود یہ فیصلہ سنایا ہے کہ مومن وہی ہے جس کی ہاتھ اور زبان سے دوسرا مومن محفوظ یعنی Secured رہے۔ آج ہرہرجگہ مسلکوں اور فرقوں کی اکثریت سے دوسرے مسلک یا فرقے محفوظ نہیں ہیں۔ ہر گروہ نے معصوم نوجوانوں کا Brainwash کرکے بھگوا شرپسندوں کی طرح دوسروں سے دِھنگامشتی کرنے آزاد چھوڑدیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ سڑکوں پر دھنگا مشتی کرتے ہیں اور یہ نوجوان سوشیل میڈیا پر دوسرے مسلکوں پر کیچڑ اچھال اچھال کر اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ 

اس آیت کا دوسرا حصہ بھی بے انتہا اہم ہے۔ أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأْتِ بِکُمُ?للَّہُ جَمِیعًا?۔ یعنی تم جہاں بھی ہو اللہ تعالی تم سب کو جمع کردے گا۔ مفسرین نے آج کے انہی حالات کے پیش نظر دو معنی پیش کئے ہیں۔ 

ایک تو یہ کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ کرے گا جس دن وہ سب کو جمع کردے گا۔ فَاللَّہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِی مَا کُنتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں دیا گیا وہ کسی دوسرے مسلمان کو کافر یا منافق کہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ بھی غلط ہے اور اس کا فرقہ یا مسلک بھی غلط ہے۔ اس غلطی کی بنیاد اُن اکابرین مسالک نے ڈالی جنہوں نے دوسرے مسلک یا عقیدوں کے خلاف کتابیں سب کی تکفیر کی۔اِن کے جواب میں مخالف عقیدے کے علما نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، یہ نہیں سوچا کہ وہ اس طرح کرکے قرآن کی تعلیمات کو کس طرح پامال کررہے ہیں۔   دوسرے الفاظ میں  ہمارے ہی بزرگوں کی اکثریت نے  شرکا مقابلہ خیر سے کرنے کیبجائے، شر کا مقابلہ شر سے ہی کرنا سکھادیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسجدیں ہی نہیں شریعت بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ اب اگر قرآن کی طرف لوٹنا ہیتو اُن تمام بزرگوں، ان کی کتابوں اور ان کی سوچ کو خداحافظ کہنا پڑے گا جن کی وجہ سے ہر فرقہ اور ہر مسلک آج بھی ایک دوسرے کا جتنا مخالف ہے اتنے تو بھگوا شرپسند بھی ہمارے مخلاف نہیں۔ 

دوسرے معنی جو مفسرین نے بیان کئے ہیں وہ یہ کہ جب تم خیرات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرکے کردار میں Excellence حاصل کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام ہم خیال، ہم کردار لوگوں کو Unite کردے گا۔ اگر آپ United ہوں گے تو Power آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ ورنہ آپ پر موچی، چمار، دودھ والے اور چائے والے حکمران مسلّط ہوجائیں گے، اور پھر آپ ان کے دوست یا مخبر بن کر اپنی حفاظت کے لئے بھیک مانگیں گے۔ چھوٹے چھوٹے عہدوں کے لئے ان کی پارٹیوں میں غلامی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں  پانچ ستونوں سے آگے  کا ویزن نصیب فرمائے۔ وآخردعونا عن الحمد للہ رب العلمین۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدرسوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا، حیدرآباد

+91 9642571721


بدھ، 12 مارچ، 2025

پانچ ستونوں سے آگے - معاملہ داری اصل دینداری ہے



نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ دین کے ستون یعنی Pillars ہیں۔ انہی ستونوں پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں ستون تو قائم ہورہے ہیں لیکن ہم عمارت سے محروم ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جس پلاٹ پر صرف ستون کھڑے کرکے چھوڑ دیں، اس پلاٹ کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لوگ اس پر کچہرا پھینکنے لگتے ہیں، کوئی قبضہ کرتا ہے، شرابی اور جوّے باز اسے اڈّہ بنالیتے ہیں۔ اور آج دین کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم ستون کھڑے کرنے کے تو قائل ہیں لیکن فرش، چھت، دیواریں، کھڑکیاں اور دروازے بنانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لئے ہم نے اس سیریز کا نام”پانچ ستونوں“ سے آگے رکھا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں وہ کیا کیا چیزیں ہیں جو دیواروں، کھڑکیوں اور دروازوں کا کام کرتی ہیں۔ 

سب سے پہلے ہے معاملہ یعنی Dealings۔ دین کو صرف دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ”الدین معاملہ“۔ یعنی دین معاملہ داری کا نام ہے۔ کسی کا اسلام یا ایمان اس کے چہرے، لباس یا عبادات کے طور طریق سے نہیں ثابت ہوتا بلکہ اس کی معاملہ داری سے ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ معاملہ داری سمنٹ ہے جس کے بغیر نہ تو ایک ستون کھڑا ہوتا ہے اور نہ ایک بھی اینٹ رکھی جاسکتی ہے۔ نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج اسی سمنٹ کوفراہم کرتے ہیں۔ 

اس کی ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے نماز۔ دیکھئے نماز کس طرح آپ کے معاملات کو درست کردیتی ہے۔ بندہ پوری نماز میں ہدایت مانگتا ہے، اللہ سے استعانت طلب کرتا ہے، رکوع اور سجدوں کے ذریعے اپنی عاجزی، محتاجگی اور بندگی کا مکمل اظہار کرتا ہے، آخر میں سلام پھیرتے وقت اللہ سے ہدایت اور استعانت کے بدلے وہ کیا دے سکتا ہے وہ دینے کا عہدکرتا ہے۔ وہ اِس طرح کہ سلام پھیرتے ہوئے سیدھی طرف منہ کرکیاپنے تمام سیدھی طرف بیٹھنے والوں سے کہتا ہے کہ ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ“یعنی ائے میری سیدھی جانب موجود لوگو، تم تمام کو میری طرف سے سلامتی ہے، میرا ہاتھ یا میری زبان تمہارے خلاف کبھی نہیں اٹھیں گے۔ تم چاہے میرا لاکھ برا چاہو، میں تمہارا برا نہیں چاہوں گا، میری طرف سے تم سلامت یعنی محفوظ ہو، نہ میں تمہاری غیبت کروں گا، نہ تم سے حسد رکھوں گا، نہ تم پر ہاتھ اٹھاوں گا اور نہ کسی ہاتھ اٹھانے والے کا ساتھ دوں گا۔ اسی طرح وہ بائیں طرف منہ کرکے بائیں جانب موجود تمام نمازیوں سے اللہ کے سامنے وہی عہد کررہا ہے جو سیدھی جانب کے لوگوں سے کرچکا ہے۔ ذرا تصوّر کیجئے، نماز کی اگر یہ حکمت عام ہوجائیتو مسجد میں جو بھی شخص آئے، اس سے سب کو صرف اور صرف خیر کی امید ہوگی، امت مسلمہ کا امیج جو دشمنوں نے بگاڑ دیا ہے، وہ مکمل بدل جائے گا۔ جو لوگ نماز کے منکر ہیں وہ بھی دوڑ

 دوڑ کر مسجدوں کو آنے لگیں گے۔ اسی لئے نمازِ باجماعت کی فضیلت ہے۔ تمام نمازی نہ سہی، اگر سو مصلّیوں میں سے دس بھی اِس عہد پر پابند ہوگئے تو ان کی آخرت تو کامیاب ہوگی ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے محلّے میں خیر کی ایک مثال ہوجائیں گے۔ لوگ ان کی گواہی کا اعتبار کریں گے، ان کو اپنے معاملات کا جج بنائیں گے۔ پورے محلّے کو اُن سے Inspiration ملے گی۔ پھر چراغ سے چراغ جلنے میں دیر نہیں لگتی۔

ایک اور حکمت کی بات عرض کردوں کہ دین نے ہمیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا جو طریقہ دیا ہے اس میں کتنی خیر ہے اندازہ لگایئے۔ دوسروں میں جو طریقے رائج ہیں جیسے گُڈ مارننگ، نمستے، ست سری اکال، ونکّم وغیرہ۔ یہ معنوں کے اعتبار سے سوائے ایک خیرسگالی کے کچھ نہیں۔ جبکہ السلام علیکم کے الفاظ میں وہی سلامتی کی بات ہے جو نماز میں سلام پھیرنے کے باب میں بتائی گئی ہے۔ اگر کوئی سچے دل سے آ پ کو سلام کررہا ہے تو دراصل وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ آپ میری زبان اور میرے ہاتھ سے محفوظ رہیں گے۔ اگر ہم سلام کی حکمت اور اہمیت سمجھ جائیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو انشااللہ ساری قومیں اپنے اپنے لغو طریقے چھوڑ کر السلام علیکم کہنے لگے گی۔ اسی سلام کی بدولت آج جو مسلمان اپنی معاملہ داری کی وجہ سے خود بھی بدنام ہے اور اپنی حرکتوں سے دنیا کو بھی اسلام اور مسلمانوں سے بدظن کررہے ہیں، اگر یہ لوگ سلام کے صحیح معنوں کو سمجھ کر دل سے عمل کریں تو مسلمانوں کی شناخت اور ان کا کردار بدل جائیگا انشااللہ۔ 

وآخردعونا عن الحمد لللہ رب العالمین۔ 


ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی آف انڈیا۔ حیدرآباد

 9642571721


 

بدھ، 26 فروری، 2025

گونگے بہروں کی تراویح


   اگر ہمیں کسی کی زبان سمجھ میں نہ آئے تو ہم پانچ دس منٹ سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرتے، لیکن تراویح میں اگرچہ کہ نہ امام وحافظوں کی اکثریت عربی سمجھتی ہے اور نہ پیچھے کھڑے نمازی سمجھتے ہیں،  لیکن پھر بھی دیڑھ دو گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ قرآن سے عقیدت اور  محبت کا ایک ثبوت ہے۔قرآن کے سننے  کا اجر تو یقیناً ملے گا، لیکن قرآن کا  اثر کیا ہوا یہ سوچنا ضروری ہے۔ 

اگر دن بھر کی بھوک پیاس برداشت کرکے افطار میں حلق تک پیٹ بھرلینا، پھر تراویح میں قرآن کا ایک لفظ بھی سمجھے بغیر رسمی عبادت پوری کرلینا اور پھر رات بھر فضولیات میں مشغول ہوجانا ہی عبادت ہے تو یہ  طرزِ عمل  تو دوسری قوموں کا بھی ہے۔ وہ بھی اپنے ہر تیوہار میں  رات بھر خوب کھانا، پینا اور بغیرسمجھیبھجن اور JSR کے نعرے بلند کرکے عبادت کا تصوّر کرلیتے ہیں۔  نہ اُدھر کوئی ویدانت یا کرشن کے اشلوک سمجھنے والا ہے جس میں آدھے سے زیادہ توحید کا پیغام موجود ہے، اور نہ اِدھر کوئی قرآن کو سمجھنے والا ہے۔ بس اپنے اپنے پنڈتوں کے پیچھے لوگ چل رہے ہیں، لیکن حقیقی دین یا سچّا دین کون سا ہے، لوگ نہیں سمجھتے۔ بس اپنے اپنے دھرم کی حمیّت یا غیرت ہے جس پر دونوں  اڑے ہوئے ہیں، اب اس جنگ میں تو جیت اسی کی ہوگی جو اکثریت میں ہے۔ وہ ہر طرح سے کوشش کرے گا کہ اقلیت کو اکثریت میں شامل ہونے مجبور کرے، ورنہ اس کو بلڈوز کردے۔ 

رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن۔ قرآن ہی اصل ہدایت ہے جس کو بندہ ہر نماز میں کئی بار اھدنا الصراط المستقیم کہہ کر مانگتا ہے۔ اب جبکہ رب کا فرمان ہے کہ یہی قرآن ہدایت ہے توکیا وجہ ہے کہ جس امت کو ہدایت عطا کی جا چکی ہے وہی قوم ایسے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ گمراہ ہے۔ دراصل قرآن کو  سمجھنے کی کوشش نہیں کرنا ہی وہ سب سے بڑا جرم ہے جس کی سزا یہ ہیکہ شرک اپنے پورے زور پر ہے۔ اور توحید کی جس دل میں ذرا سی بھی رمق ہو، اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینے کے درپہ ہوچکا ہے۔ 

اب بھی وقت ہے ہم سوچیں کہ اس قرآن کو سمجھنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں۔قرآن کو صحیح صحیح سمجھنے کا  نصاب نہ ہونے کی وجہ سے آج مسلمان اپنی دینی اور دنیاوی پستیوں کے غار میں گِرچکے ہیں، اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ایک صحیح نصاب پیش کریں، قرآن کو سمجھنے کی اہمیت پر ایک اہم اور عبرتناک  تاریخی واقعہ پیش کرنا چاہیں گے۔ 

 1920 میں جب شیخ الہند محمودالحسن ؒ اسیرِ مالٹا، کالاپانی کی سزا سے رہائی پانے کے بعد لوٹے تھے، دیوبند میں ایک تاریخی جلسہ منعقد کیا گیا، اس میں ہندوستان کے بڑے بڑے علما بشمول اشرف علی تھانویؒ، شبّیراحمدعثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حسین احمد مدنیؒ وغیرہ شامل تھے۔ شیخ الہند نے جو تاریخی خطاب فرمایا تھا اس کے اقتباسات مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی کتاب ”وحدتِ امّت“ میں پیش کئے ہیں۔ شیخ الہند نے فرمایا تھا  کہ ”چار سال کی قید کے دور میں، میں نے امت کی تباہ حالی پر جتنا غور کیا مجھے دو ہی اسباب نظرآئے۔

۱۔ ہمارا قرآن کو ترک کردینا

۲۔ ہمارے آپسی اختلافات“

حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں۔ مفتی محمد شفیع ؒ نے لکھا کہ آپسی اختلافات بھی محض قرآن کو ترک کرنے کے نتیجے میں ہیں۔ مفتی صاحب نے ایک اور مقام پر یہ واقعہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیریؒ نے اپنی آخری عمر میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ”ہم نے ساری زندگی مسلک اور فقہ پر محنت کی، قرآن پر کبھی توجہ نہیں دی“۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری امت قرآن سے بہت دور ہوچکی ہے۔ اگر اس کا ثبوت چاہئے تو اپنے محلّے یا خاندان میں ایک سروے کیجئے۔ کسی بھی مسجد میں نماز کے بعد باہر نکلنے والے نمازیوں سے ایک سوال پوچھئے۔ ان میں اکثریت ان نمازیوں کی ہوگی جو پنج وقتہ نمازی ہیں۔ روزے، زکوٰۃ، حج اور نفل عمروں کی پابندی کرتے ہیں۔سوال یہ پوچھئے کہ آپ نے آخری مرتبہ کب قرآن کو لفظ بہ لفظ سمجھنے کی کوشش کی؟ 99%   لوگوں کا جواب یہ ہوگا کہ کبھی نہیں کی۔  ہاں درس و تقریروں میں تھوڑا بہت سن لیا۔ ایسا نہیں کہ یہ لوگ قرآن سے بیزار ہیں، اور نہ ان لوگوں نے قرآن ترک کیا ہے۔ پھر بھی وہ کیا وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ قرآن کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ان کی نمازوں، داڑھیوں، ٹوپیوں، برقعوں، اور کسی نہ کسی بزرگ یا جماعت یا سلسلے سے تعلق نے انہیں اتنا مطمئن کردیا ہے کہ وہ  تصوّر کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو سمجھے بغیر بھی بہت اچھے، سچّے اور پکّے مسلمان ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی علما یا مشائخین کی انگلی نہیں چھوڑی۔ 

یہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ایک ویڈیو میں یہ سوال اٹھا یا کہ”کیا علما   نے قرآن کو ترک کیا ہے“۔ پھر انہوں نے ہی اس کا جواب دیا کہ ”بظاہر ایسا  لگتا تو نہیں لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ ان کا پورا زور فقہ اور حدیث پر ہے، قرآن پر نہیں“۔ مشائخین کا بھی پورا زور تصوّف پر ہے، نہ کہ قرآن پر۔   یہی وجہ ہے کہ کسی بھی  مدرسے کے عالمیت کے نصاب کو دیکھئے۔ اس میں پچاس فیصد فقہ ہوگی، پچیس فیصد علوم حدیث، پھر صرف و نحو، منطق، عربی لٹریچر اور قرآن بمشکل دس فیصد ہوگا جو کہ محض چند سورتوں کے ترجمہ پر مشتمل ہوگا۔ اسی لئے حفّاظ سے کسی آیت کے معنے و مطالب پوچھئے، ان کی اکثریت بتانے سے معذور ہے۔  علما و مفتیوں کی اکثریت وہ ہے جو فقہ سے متعلق قرآن میں جو تقریباً پانچ سو آیتیں ہیں، ان کے معنی تو وہ فرفر سناسکتے ہیں، لیکن باقی چھ ہزار سے زیادہ جو آیات ہیں، جن میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق رہنمائی ہے، وہ نہیں بتاسکتے۔ عدل و قسط  یعنی انصاف قائم کرنے کی اہمیت اور اس کا طریقہ? کارکیا ہے، جہاد و قتال کی حقیقی روح کیاہے، لاخوف علیھم کیا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی سب سے بڑی سنت یہ ہیکہ انہوں نے انصاف کو قائم کرنے کیلئے ایک طاقتور حکومت دے کر گئے، مسلمانوں کو غلام نہیں چھوڑا کہ وہ باطل سے اپنے جان و مال اور مسجدوں کی حفاظت کے لئے بھیک مانگیں اور اندھے قانون کی دہائی دیتے رہیں۔ آپ ﷺ مکہ میں اکیلے تھے جب یہ سفر شروع ہوا۔ تیرہ سال کی سخت آزمائشوں کے بعد صرف ستّر لوگ ملے جو ہجرت کے لئے تیار ہوئے۔ پھر مدینہ پہنچ کر دو سال بعد 313 ہوئے، پھر دو سال بعد اُحد میں ایک ہزار ہوئے، تبوک میں دس ہزار ہوئے اور حجّۃ الوداع میں ایک لاکھ پچیس ہزار۔ ایک سے لے کر ایک لاکھ پچیس ہزار تک یا یہ سفرمکمل قرآن کی ہدایات کی روشنی میں طئے ہوا۔  قرآن نے لوگوں کو نمازی، روزے دار، حاجی، حافظ، اور شاندار تجوید و لہن کے قاری  تو بہت بعد میں بنایا، روزِ اوّل سے وہ افراد بنائے جن کو کہا کہ تم سب سے بہترین امت ہو۔ ”کنتم خیرا امۃِ“۔ افسوس کہ ہم نے اِس آیت کے اسی حصّے کو لے کر جشن منانے شروع کردیئے ہم سب سے بہترین امت ہیں اور باقی سارے جہنمی، مشرک، اور کفّار ہیں۔ ہم ہی اللہ کے سب سے زیادہ لاڈلے ہیں اس لئیدوزخ کی آگ ہمیں نہیں چھوئے گی  لیکن اللہ دوسروں کو پکڑ لے گا۔ اسی خوشی میں ہم غیروں کے بڑے بڑے تیوہاروں کی طرح میلادالنبی، عظمتِ قرآن، محبتِ اہلِ بیت پر رات رات بھر جلسے اور قوالیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ اسی آیت کا اگلا حصہ ”للناس“ ہمارا دائرہ?ِ کار بھی طئے کرتا ہے کہ  تم کو صرف اپنے ہم مسلکوں کو جمع کرکے جلسے کرنے نہیں بلکہ للناس یعنی لوگوں کے لئے  یعنی  پوری انسانیت کے لئے پیدا کیا ہے، للناس میں برہمن، اعلیٰ ذات، ادنیٰ ذات، سِکھ، عیسائی، یہودی  سبھی آتے ہیں جن تک تم کو جانا ہے۔ اور کرنا کیا ہے، یہ بات اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ ”تامرون بالمعروف تنھون عن المنکر“ یعنی تم کو جسٹس یعنی عدل و انصٓف پر مبنی ایک طاقتور حکومت اور بیت المال کرنے کے لئے معروف کا حکم دینا ہے اور منکرات سے روکنا ہے۔ امر کے معنی ہیں حکم دینا۔ حکم وہ دے سکتا ہے جس کے پاس اختیار ہو یعنی Power ہو۔ جس کے پاس پاؤر نہیں، وہ پاؤر کے ہاتھوں غلام ہوتا ہے۔ پیغمبرﷺ کا Powerless ہونے سے Powerful ہونے کا سفر ہے، اور ہر قدم پر یہی قرآن تھی جو پاؤر تک پہنچنے کے لئے گائیڈ کررہی تھی۔ اگر وہ تمام مراحل کا Revision ہر سال تراویح میں ہوتا رہے تو پھر قرآن کا اصلی حق بھی ادا ہوگا اور یہ لاچار، نہتّی، مظلوم قوم غلامی سے باہر نکلے گی۔ لیکن اس کا طریقہ کار ان پانچ سو فقہ سے متعلق آیات میں نہیں جو علما اور مفتی پڑھ کر سند حاصل کرکے نکلتے ہیں، بلکہ یہ طریقہ کار باقی چھ ہزار سے زائد ان آیتوں میں ہے جن کو مدرسوں کے نصابوں اور حفظ کے مدرسوں نے مکمل نظرانداز کردیا۔ یہ وہ بنیاد ی غلطی تھی جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے یوں کی کہ”وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہوکراور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر“۔

اب بھی اگر قرآن کے تمام احکامات کو Revise کرنے کی اور اپنی اپنی زبان میں سمجھنے کی محنت شروع نہ ہوئی تو دن بہ دن ہم جتنے ذلیل اور شکستہ ہورہے ہیں، اگلے بیس پچیس سال میں کہیں زیادہ ذلیل و خوار ہونے والے ہیں۔ آج تو صرف اجمیر اور حاجی علی جیسی درگاہوں میں پوجا کی اجازت دینے کا مطالبہ ہورہا ہے۔ کل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے سے کوئی شیو نکلے گا اور ہر مسجد میں پوجا کی اجازت پوچھی نہیں جائیگی بلکہ قانون سے حاصل کرلی جائیگی۔ قانون ہمیشہ اکثریت کا چلتا ہے۔ اقلیت کا نہیں۔ 

نہ سمجھوگے تو مٹ جاو گے ائے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 

اب آخری سوال یہی ہے کہ قرآن کا اپنی زبان میں Revision کیسے ہو۔ تراویح اس کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ پارے بھی تیس ہیں  اور تراویح بھی تیس۔ ہر روز ایک پارہ Revise ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح سے کہ پہلے آپ افطار میں یہ ڈٹ کر کھانا بند کریں، عورتوں کو افطار کی تیاریوں سے باہر نکالیں۔ کم سے کم کھائیں۔ جتنا خالی پیٹ ہوں گے  اتنے مستعد ہوں گے۔ افطار اور نماز کے فوری بعد گھر کے تمام افراد کے ساتھ ایک ایک پارے کو لفظ بہ لفظ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پہلا ذریعہ ہے آپ خود۔ اگر آپ تفسیروں کا سہارا لے کر خود ہی ایک ایک آیت سمجھا سکتے ہیں تو سمجھایئے۔ اہم نکات کو لکھوایئے اور ہوم ورک بھی دیجئے۔ یہ آپ خود نہیں کرسکتے تو دوسرا ذریعہ ہے  ویڈیو۔ ہر مسلک کے ایسے علما موجود ہیں جن کی تفسیر ویڈیو یا آڈیو میں محفوظ ہے۔ ایک پارہ  ہر روز سنئے اور سنوایئے  اور اہم نکات نوٹ کروایئے۔





 تیسرا ذریعہ ہے آپ کے اطراف ایسے افراد موجود ہیں جو سمجھا سکتے ہیں۔ اگر ایسے کوئی عالم مل جائیں تو سونے پر سہاگہ ہوجائیگا۔ اگر ایسے عالم نہ ہوں تو تب بھی اس دور میں بے شمار کالج اور یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں جن کے قرآن سے شغف، اور دسترس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے استفادہ کیجئے۔ ہاں کچھ مولوی ایسے ہیں جو غیرعالم سے قرآن سننے پر اعتراض کرتے ہیں۔ دراصل یہ صدیوں سے پنڈتوں نے جو دماغ میں بٹھایا تھا کہ دھرم شاستروں کو صرف برہمن ہاتھ لگائے، کسی دوسرے کا ہاتھ لگانے دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ یہی ترکیب ہمارے پنڈتوں نے بھی سیکھ لی۔ اور اپنی دکان بند ہوجانے کے خوف سے غیرعالم کو قرآن کو سمجھانے سے منع کردیا اور یہ تبلیغ کی کہ اگر غیرعالم سے قرآن سمجھنے کی کوشش کروگے تو دین سے گمراہ ہوجاؤگے۔ یہی بات مسجد کی انتظامی کمیٹی کے کم عقل ذمہ داروں کے بھی دماغ میں بٹھا دی گئی ہے۔ اسی لئے وہ جمعہ کے خطبہ کے لئے کسی غیرعالم کو منبر پر کھڑا ہونے نہیں دیتے۔ حالانکہ جمعہ کے خطبہ کا مقصد حالاتِ حاضرہ  سے واقف کروانا اور دین کی روشنی میں رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام اِس دور میں عالم سے زیادہ بہتر وہ لوگ کرسکتے ہیں جو MBA ہیں یا ڈاکٹر یا انجیئر یا ایڈوکیٹ یا صحافی وغیرہ ہیں۔ 

آپ عشا کی نماز تک ایک پارہ Revise  کرسکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس نشست میں لازمی بیٹھیں۔ ورنہ بوڑھے اور بوڑھیاں تو  تراویح پڑھ لیتے ہیں، لیکن نوجوان بیٹے بیٹیا ں پوری رات سوشیل میڈیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا تو یہ قرآن کو سن لینے کا جو آخری دور ہے آپ کے بعد آپ کے خاندان میں یہ بھی باقی نہ رہے گا۔ عشا کے بعد تراویح میں شامل ہوجایئے۔آٹھ رکعت یا بیس رکعت کی بحث میں مت پڑیئے۔ اس بحث میں آپ کو ڈالا ہی اس لئے جارہا ہے کہ آپ قرآن اور تراویح کے اصلی مقصد سے دور رہیں۔  اگر کوئی حافظ مل جائے تو اپنے گھر پر ہی انتظام کیجئے تاکہ گھر کے تمام افراد اس میں شامل ہوسکیں اور حافظوں کو بھی ان کی سالہاسال کی محنت کاکچھ صلہ مل سکے۔ اس دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو مسجد لانا ممکن نہیں رہا اس لئے گھروں کو مسجد بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔ 

اور اگر گھرپر صرف میاں بیوی ہیں تو یہ اتنظام مسجد میں کیجئے۔ کوئی شادی خانہ بھی لیا جاسکتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ آسکتیہوں، اور وہاں عورتوں کا بھی انتظام ہو۔ ہر چار رکعت کے بعد جتنی قرآن پڑھی گئی اس کی تفسیر کسی اچھے عالم سے یا پھر کوئی تفسیر دیکھ کر پڑھی اور سنی جاسکتی ہے۔  شادی خانے کے مالکان تو اس مہینے میں یوں بھی ایسے کاموں کے لئے کوئی کرایہ نہیں لیتے۔ 

  اس کے بعد خدارا سوجایئے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ بلاضرورت عشا کے بعد جاگنا جائز نہیں ہے۔ اگر جلدی سوجائیں گے تو پھر تہجد میں اٹھ کر قیام اللیل کا لطف لے سکیں گے۔ جو پارہ آپ نے مغرب کے بعد سمجھنے کی کوشش کی تھی، اب تہجد میں اسی پارے کی تلاوت کریں۔ اگر آپ کو حِفظ نہیں ہے تو نماز میں قرآن کو دیکھ کر پڑھیں۔ یہاں بھی کچھ مولوی رخنہ ڈالیں گے اور کہیں گے کہ نماز میں قرآن کو دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ عرب علما بالخصوص سعودی علما کے نزدیک یہ جائز ہے۔ مکہ یا مدینہ میں اگر آپ نے تراویح پڑھی ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ امام کی قرات سنتے ہوئے قرآن میں دیکھتے رہتے ہیں۔ جب آپ خود نماز میں قرآن پڑھتے ہیں تو اس نماز کا لطف کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور آپ کا خشوع خضوع یعنی Concentration پورے عروج پر رہتا ہے۔ 

آخری میں اہم علامہ اقبال ہی کے حوالے اس قرآن کو سمجھنے کے لئے ایک اہم نکتہ دے رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے والد اقبال کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ قرآن کو اِس طرح پڑھو جیسے قرآن تم پر نازل ہورہا ہے۔ تب آپ کو لگے گا کہ یہ قرآن آج کے حالات میں آپ کی مکمل رہنمائی کررہا ہے۔ یہ آج یعنی 2025 میں نازل ہورہا ہے۔تب یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ قرآن ایک طرف بلڈوزر والوں سے کیسے مقابلہ کرنا ہے یہ سمجھارہا ہے،  تو دوسری طرف ان تمام دشمنانِ اسلام کے نزدیک کیسے جائیں، کیوں جائیں، کیا پیش کریں، یہ سکھارہا ہے۔ ایک طرف اپنے خاندانی وراثت کے جھگڑوں کا حل بتا رہا ہے تو دوسری طرف نوجوان نسلوں گمراہی سے باہر نکالنے کے طریقے دکھا رہا ہے۔ اگر قرآن کو آج بھی سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہمارے مولی ملا اور مرشد تم کو قرآن سے مزید دور کرکے صرف فضائلِ رمضان، میلادالنبی، محرم، معجزات اور کرامات کے شعلہ بیان وعظ سنا کر لفافے وصول کرتے رہیں گے، اور تم  کو سب سے بہترین امت ہونے کا نشہ پلا کر قوم کو سلاتے رہیں گے۔ اسلام صرف جلسوں اور جلوسوں میں  ہی باقی رہ جائیگا۔ امت میں  آج جتنے فرقے ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ فرقے پیدا ہوجائیں گے۔  کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کل تک تبلیغ، اہلِ حدیث، بریلوی جمیعۃ العلما  سب کی ایک  ایک منظّم  جماعت تھی، لیکن آج ہر جماعت دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، کل یہ دھڑے بے شمار ہوجائیں گے، دشمن آپ کی صفوں میں اتنے مخبر پیدا کردے گا  کہ بھائی کو بھائی سے، باپ کو بیٹے سے بھی مخبری کا خوف ہوگا۔ قرآن سے دوری نے آدھی سے زیادہ نوجوان نسل کو دہریت اور دنیاپرستی میں دھکیل ہی دیا ہے، کل عجب نہیں کہ پوری قوم بے دینی کے غار میں دفن ہوجائے، جیسے کہ روس، اسپین، چین اور افریقہ کے کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔ 



ڈاکٹر علیم خان فلکی ۔

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

پیر، 9 دسمبر، 2024

نفرت کے بم - نوشتۂ دیوار ۔ 1



یہ نئے دور کا بم ہے جو ایٹمی بم یا نیوکلیر بم سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن بم ہے۔ یہ وہ بم نہیں جو سائنسدانوں نے خفیہ تجربہ گاہوں میں بنایا ہو، بلکہ یہ تعصب اور ڈکٹیٹرشپ کے بھوکے ذہنوں کی تخلیق ہے: مکار، فاشسٹ، اور غیرانسانی انتہا پسندوں کا ہتھیار جو نفرت کے بیج بونے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا نہیں، بلکہ نظریات کا ہتھیار ہے، اور اس کا اثر نسلوں تک ہیروشیما کے بم کی طرح باقی رہتا ہے۔

کیا لاکھوں عرب کبھی امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی ظلم و ستم کو بھول سکتے ہیں جس نے فلسطینیوں کی زندگی کو ایک جہنّم  میں بدل دیا؟ کیا آر ایس ایس کے ایندھن سے چلنے والی بھگوا جماعتوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں، بھارت میں ذات پر مبنی مظالم کے شکار دلتوں کا درد، یا چین کے کمیونسٹ نظام کے تحت غریبوں کی دبائی گئی آوازیں کبھی فراموش کی جا سکتی ہیں؟ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ایسے گہرے زخم کبھی نہیں بھرتے—یہ انتقام کی چنگاریاں چھوڑ جاتے ہیں جو آئندہ نسلوں میں بھڑک اٹھتی ہیں۔ اور آج کے ظالموں کی نسلیں اس کی قیمت ادا کرتی ہیں۔ 

ظالم عروج پر آ سکتے ہیں، لیکن ان کا اقتدار عارضی ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنی زندگی میں انتقام کا سامنا کریں یا نہ کریں، ایک حقیقت اٹل ہے: ظلم کے نظریات مٹنے کے لیے ہی بنے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیلی جارحیت ہو، ہندوتوا فسطائیت کی تقسیم کرنے والی سیاست ہو، یا ماؤ کی آمرانہ حکومت کا لوہا، ان کے بت ویسے ہی زمین پر آ گریں گے جیسے لینن کے مجسمے گرا دیے گئے تھے۔ وہ حشرہوکر رہتا ہے جو آج ملکِ شام میں اسد خاندان کی 54 سالہ حکومت کے ساتھ ہوا یا کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کا ہوا، اس سے ذرا پہلے تاریخ دیکھتے جایئے صدّام حسین، حسنی مبارک، اندراگاندھی، شاہ ایران، مارکوس فلپائن، بھٹّو وغیرہ کا ہوا۔ 

نفرت، نفرت کو جنم دیتی ہے، اور اس کے اثرات ایک خاموش وبا کی طرح پھیلتے ہیں۔ اس کی تباہی جنگ کی فوری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے، یہ معاشروں کے اجتماعی شعور میں سرایت کر کے انہیں اندر سے توڑ دیتی ہے۔ 

نفرت کے بم کا اصل المیہ اس کے فوری دھماکے میں نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تباہی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ہے—ایک ایسا انتقام کا چکر جو نہ صرف متاثرین بلکہ ظالموں کی نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اور انسانیت کے سب سے تاریک جذبات کی ایک جھلسی ہوئی میراث چھوڑ جاتا ہے۔


ڈاکٹرعلیم خان فلکی

نوشتۂ دیوار ۔ 1

9.12.2024

9642571721

اتوار، 1 دسمبر، 2024

وہ کون تھی؟



وہ کون تھی، یہ تو ہم آخرمیں بتائیں گے لیکن اتنا بتادیں کہ وہ اتنی بے وفا نکلے گی یہ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا۔ جب آئی تھی تو ہماری جیبیں خالی تھیں لیکن نگاہیں، دل اور دماغ اتنے امیر ہوگئے تھے کہ چاہے بس اسٹانڈ ہو کہ ریلوے اسٹیشن، ہر ہر جگہ صفائی والی بھی ایشوریا رائے نظرآتی تھی، جیسے گرم نگاہوں سے ہمیں گھوررہی ہو۔ لیکن جب وہ ساتھ چھوڑ گئی تو خود ایشوریا رائے بھی ہمیں آج کی جیابھادری لگتی ہے، جسے دیکھ کر ہماری آنکھیں سرد ہوجاتی ہے۔

وہ جب تک ساتھ تھی بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوتی تھیں، کیونکہ اس کی ہمّت پر چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ جب وہ چھوڑ کر گئی تو غلطیاں کرنے کی ہمت بھی ساتھ لے کر چلی گئی، ہمارے لئے بس ایک پچھتاوا اورپشیمانی چھوڑ گئی، ہم منٹو چھوڑ کر بہشتی زیور پڑھنے لگے۔جب تک وہ ساتھ رہی رانجھا اور قیس بھی ہمیں بونے لگنے لگے۔ بغیرکسی حکیم کے نسخے کے ہم محمودغزنوی کی طرح کئی شب خون مارلیتے تھے۔ وہ کیا گئی کہ ہم رنگون میں بیٹھے بہادرشاہ ظفربن گئے۔ وہ ساتھ تھی تو ہم ہرایک سے بِھڑجاتے تھے بشرطیکہ سامنے والا مسلمان ہو۔ ظاہر ہے ہم مسلمان ہیں، مسلمان سوائے مسلمان کے کسی اور سے نہیں بِھڑسکتا۔ ہم مسلمانوں کی گلیوں میں بائیک جس رفتار سے چلاتے تھے، ہماری سوچ اُس رفتار سے بہت کم ہوتی، بلکہ بہت ہی کم۔ جب وہ سر پر سوار تھی تو ہم یہ بھی بھول گئے تھے کہ ہمیں کچھ سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔ سوچ تو اس کے جانے کے بعد آئی مگرسوچنے کے لئے کچھ نہ رہا۔ اُس کی زلفوں کے سائے میں وہ سرور تھا کہ ہم بستر پر اُس وقت جاتے جب سارا زمانہ بستر سے اٹھنا شروع کرتا۔ اور اس وقت بستر سے باہر نکلتے جب لوگ بستر پر جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ جو نشہ اور مستی اس کے ساتھ تھی، وہ نہ کسی ڈرگ میں تھی نہ شراب میں۔ نشے میں تو لوگ ایک دوسرے کا خون پی جاتے ہیں، ہم نے تو اس عاشقی میں صرف سگریٹ شروع کیا تھا۔ جب تک سگریٹ پی نہیں تھی سگریٹ بہت مہنگی لگتی تھی۔ جب پہلی بار پی تو سگریٹ پھر بہت سستی ہوگئی۔ وہ ڈاکٹر جو کہتا تھا کہ سگریٹ سے کینسر ہوتا ہے، وہ بے چارا خود کینسر کا شکار ہو کر ایک دن مرگیا، اس کے بعد سے سگریٹ سے ہمارا ہر خوف جاتا رہا۔ 

اُس نے ہمیں شادی پر اکسایا، اور کہا کہ ابھی شادی کرلو تو ہمیشہ خوش رہوگے، ورنہ اگر بڑھاپے میں کی تو محلّے والے خوش ہوں گے۔ مگر کیا کریں ہمیں کسی کا رنگ پسند نہیں آتا تو کسی کی کمر۔ حالانکہ قدرت نے ہر حسینہ میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہے۔ کسی کی آنکھوں میں انگور کا رس ہے تو کسی کے گالوں میں سیب، کسی کے لبوں پر میٹھے آم کی قاشیں ہیں تو کسی کی زبان میں شکر۔۔۔۔ مگرکیاکریں ہمیں تو ایک میوہ نہیں چار چار میؤں کے فروٹ چاٹ کی خواہش تھی۔۔ 

مگر اس کے کہنے پر ہمیں شادی کرنی ہی پڑی۔ بعد میں پتہ چلا کہ نہ سیب باقی رہتا ہے نہ انگور، باقی رہتی ہے تو بس ایک عورت، جس کو قدرت نے یقینا انگور، سیب اور آم کی آمیزش سے بنایا ہے، لیکن پتہ نہیں کیا مصلحت تھی کہ اُس کی زبان کو کریلا بنادیا۔ اس کے سامنے ہر مرد بھگوان بن جاتا ہے یعنی سنتا بہت کچھ ہے مگر کچھ بول نہیں سکتا۔ اتنے تلخ تجربات سے گزرتے گزرتے یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔ ہماری حالت وہی ہوگئی جس کو شائد تقدیر کہتے ہیں۔ سنا ہے کہ جب خدا نے کائنات کی تخلیق کی تو سب سے پہلے کتّے کو پیدا کیا اور کہا کہ جاتیری عمر بیس سال ہے۔ کتّا اپنی اوقات سمجھتا تھا، اس نے کہا مجھے صرف پانچ سال چاہئے۔ پھر اس کے بعد گدھے کو پھر بندر پھرہاتھی وغیرہ کو پیدا کیا اور وہی بیس سال کا آفردیا، مگر یہ انسانوں سے زیادہ سمجھدار اور قناعت پسند تھے، انہوں نے کتے کی طرح پانچ سال لئے باقی چھوڑدیئے۔ آخر میں حضرت اشرف المخلوقات کو پیدا کیا اور وہی بیس سال کی آفر دی۔ حضرت انسان نے ھل من مزید کا مطالبہ کیا۔ جواب ملا کہ بیس سے زیادہ چاہئے تو کتے کے پندرہ اور گدھے اور بندر وغیرہ کے پندرہ پندرہ سال پڑے ہیں وہ لے لو۔ حریص انسان نے یہ ڈیل قبول کرلی۔ ہم جو کبھی اُس معشوق کے بہکاووں میں آکر آسمانوں میں اڑ رہے تھے، پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہمارے پر کٹے، کب ہم اپنی اصلی عمر کی حدوں سے نکل کر کتے، گدھے اور بندر کے اسٹیج میں آگئے۔ اب اس بے وفا کمینی کی یاد آتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ اگر ایک دن بلکہ ایک گھنٹے کے لئے کہیں مل جائے تو اس کا گلا دبادیں۔ مگر وہ بہت دور نوجوانوں کی بھیڑ میں کھڑی مسکرا مسکرا کر ہمیں منہ چُڑاتی ہے۔ آپ یقینا یہ جاننے کے لئے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ بے وفا تھی کون۔۔۔۔۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کوئی کافر حسینہ تھی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ اگر وہ کوئی کافر حسینہ ہوتی تو بھلا ہم آپ کو کیوں بتاتے؟ اگر ایک ہوتی توشائد بتابھی دیتے، لیکن وہ جادوگرنی کوئی حسینہ نہیں تھی بلکہ ہماری جوانی تھی۔ وہ اُس ناقابلِ اعتبار محبوبہ کی طرح تھی، جو زندگی میں آئی تھی تو علی الاعلان خوشخبریاں، خواب، ارمان، جذبات، اکساہٹیں اور منچلے ارادے لے کر آئی تھی، لیکن گئی تو ایسے کہ جانے سے پہلے کوئی خبر دی نہ وارننگ۔ جی چاہتا ہے کہ جوانی کو پکڑ کر کسی شیشے میں بند کردوں اورشیشے کے اوپر سگریٹ یا گُھٹکا کی پیکٹ کی طرح یہ اسٹیکر لگادوں کہ یہ صحت کے لئے مضر ہے۔ مگر کتنے ہیں جو یہ پڑھ کر سگریٹ یا گُھٹکا چھوڑتے ہیں؟ یہ جوانی تو ایک ایسا پبلک ٹوائلٹ ہے جس کے باہر جو بھی ہے اسے اندر جانے کی جلدی ہے اورجو اندر ہے اسے باہر نکلنے کی جلدی ہے۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی

زندہ دلانِ حیدرآباد







 

جمعرات، 14 نومبر، 2024

آج کی شادیاں اور ان میں شرکت - ایک کھلی بدعت - تحقیق: ڈاکٹر علیم خان فلکی



یہ کتاب کل قیامت میں آپ کا دامن پکڑے گی اگر

آپ نے کسی بھی دعوت میں جانے سے پہلے اِسے

نہیں پڑھا۔ 


انتساب    

اُن مجاہد بھائیوں اور بہنوں کے نام 

جنہوں نے منگنی، جوڑا جہیز یا شادی کے دن کے 

کھانوں کے دعوت ناموں کو 

یہ کہہ کر واپس کیا کہ ہم معذرت خواہ ہیں،

 یہ شادی ہمارے نبی ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے

 ہم اس میں شرکت نہیں کرسکتے۔

ہم نے یہ غلطی پہلے کئی بار کی ہے لیکن ہمیں 

 جب علم نہیں تھا کہ ایسی شادی بدعت ہے، اور بدعتی کو

کل نبیﷺ حوضِ کوثر پر شفاعت سے 

دھتکار دیں گے


فہرست ِ مضامین

۱۔ جہیزاوربارات والی شادیوں میں شرکت ایک بدعت ہے یا نہیں؟

۲۔ لوگ منگنی،جہیز اور کھانوں کو بدعت کیوں ماننا نہیں چاہتے؟

۳۔ مختلف مسلکوں کی جاری کردہ بدعات کی فہرست

۴۔ بدعت کیا ہے؟

۵۔ کیا امام ابوحنیفہؒ اور ابن تیمیہؒ وغیرہ کے زمانے میں اِن شادیوں کی بدعات تھیں؟

۶۔ بدعت کیوں شرک جیسا گناہ ہے؟

۷۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ(اچھی بدعت بُری بدعت)

۸۔ مجدّد الف ثانی کے بدعت پر مکتوبات

۹۔ کیا آج کی شادیوں کی رسومات مباح ہیں؟

۰۱۔ جہیز اور بارات کے حرام ہونے کا ثبوت

۱۱۔ نبیﷺ صحابہؓ اور تابعین ایسی دعوتوں کا کیسے بائیکاٹ کرتے تھے


۳۱۔ مباح کی تعریف

۴۱۔ کیا جہیزِ فاطمی مباح ہے؟

۵۱۔ شادی کے دن کا کھانا بدعت کیوں ہے؟

۶۱۔ بینک اور انشورنس کی طرح جہیز اور کھانے بھی حرام کیوں نہیں؟

۷۱۔ اسلام میں شادی کا کھانا صرف ایک ہے اور وہ ہے ولیمہ

۸۱۔ ایک ہی نشست میں نکاح اور ولیمہ کیوں نہیں ہوسکتے

۹۱۔ شبِ زفاف یعنی دلہا دلہن کے ملن کے پہلے کیا ولیمہ ہوسکتا ہے؟

۰۲۔ کون لوگ ہیں جو کھانا اور جہیز خوشی سے کرتے ہیں؟

۱۲۔ کیا قرآ ن و حدیث میں جہیز، کھانے یا منگنی کا نام لے منع کیا گیا ہے؟

۲۲۔ حرفِ آخر




آج کی مہنگی شادیاں ایک بدعت ہیں یا نہیں ۔  ایک چیلنج


  پچھلے دنوں اسی موضوع پر محمد عثمان لدھیانوی صاحب شاہی امام پنجاب کا حیدرآباد میں دو گھنٹے کا دلائل سے بھرپور ایک انتہائی جامع خطاب ہوا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ خلافِ سنّت رسومات والی شادیوں کے کرنے والے بھی اور اس میں شرکت کرنے والے دونوں حوضِ کوثرسے دھکّے مار کے نکالے جائیں گے۔ سامعین کی اکثریت نے تو اس بات کو برحق مانا۔اور آخرمیں شاہی امام صاحب نے تمام سے ہاتھ اٹھوا کر یہ حلف لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی خلافِ سنت شادی کا نہ دعوت نامہ قبول کریں گے اور نہ ان میں شرکت کریں گے۔ چھ ہزار سے زیادہ مردوں اور خواتین نے اس عظیم الشان اجتماع میں شرکت کی اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اس کو آن لائین دیکھا اور بے پناہ متاثر ہوئے، لیکن کچھ کم عقل لوگوں نے سوشیل میڈیا پر اعتراضات پھیلا کر لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ انہیں حوضِ کوثر سے متعلق حدیثوں پر سخت اعتراض تھا۔ چونکہ حوضِ کوثرسے متعلق بخاری اور مسلم میں پچاس سے زیادہ حدیثیں وارد ہوئی ہیں جن تمام کا لب لباب یہ ہے کہ لوگ قیامت میں اپنے اپنے نامہئ اعمال کو دیکھ کر لرز رہے ہوں گے اور ایسے میں نبی ﷺ ”یا امّتی“ کہہ کر پکاریں گے، جب لوگ شفاعت کے لئے حوضِ کوثر کی طرف دوڑیں گے تو فرشتے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردیں گے اور کہیں گے کہ ”یا رسول اللہ، ان لوگوں نے آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ کے دین میں نئی نئی چیزیں ایجادکرلی تھیں“ یعنی بدعتیں ایجاد کی تھیں۔نبیﷺ کہیں گے ”سحقاً سحقاً لمن بدّل بعدی“ یعنی ”دور کرو دور کرو انہیں جنہوں نے میرے دین کو بدلا“۔ اس طرح بدعتی حوضِ کوثر سے دھتکار دیئے جائیں گے۔جتنے ایسی شادیوں کے پسند کرنے والے تھے انہوں نے سوال اٹھایا کہ ”یہ امام ہوتا کون ہے ہمیں بدعتی کہنے والا“، ”ہم کو حوضِ کوثر سے نکلوانے والا یہ ہوتا کون ہے؟“ اور یہ بھی کہا گیا کہ”کیا شہر کے علما ختم ہوگئے تھے جو باہر کے امام کو بلایا گیا“۔ اگرچہ کہ امام صاحب کی ذات پر بھی حملے ہوئے اور ان کی کردار کشی کی گئی، ہم یہاں اس سے بحث نہیں کریں گے، لیکن عوام کی اکثریت کے ذہن میں بہرحال یہ سوال تو پیدا ہوگیا کہ یہ مہنگی شادیاں ایک بدترین بدعت ہونے کے باوجود ہمارے علما و مشائخین نے کھل کر بتایا کیوں نہیں۔ اس لئے اِس حجّت کوپوری کرنے کے لئے یہ تحقیق پیش کرنی پڑی، تاکہ کل قیامت میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں۔ 

  کسی بھی مسلک کی جاری کردہ بدعات کی فہرست میں آج کی ہندوؤانہ طرز کی شادیوں کے کرنے اور ان میں شرکت کرنے کے بارے میں بدعت کاکوئی فتویٰ نہیں ہے۔ اس لئے سارے مسلک، شاہی امام کے خلاف اِس بات پر متحد ہوگئے کہ جہیز اور بارات وغیرہ ناجائز ضرور ہیں لیکن اگر لڑکی والے ”خوشی سے“ خرچ کرتے ہیں تو ایسی دعوت کو بدعت کہنا غلط ہے۔ جبکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہم ترین صحابہؓ کی شادیوں میں لڑکی والوں سے کھانا یا جہیز وغیرہ کے لینے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کبھی کسی مسلک نے ان خرافات کو صحیح یا جائز کہا ہو۔ سبھی ایسی تقریبات میں شرکت سے پرہیز کرنے کی تلقین ضرورکرتے ہیں لیکن یہ تلقین اسی طرح کی رسمی تلقین ہے جسطرح سگریٹ یا گُھٹکے کے پیاکٹ پریہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ صحت کے لئے مضر ہے،اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسی تقریبات میں شرکت کا”شرعی طور پر حکم کیا ہے“  توجواب یہی آتاہے کہ یہ چیزیں غلط ضرور ہیں لیکن دعوت قبول کرنا سنّت موکدہ ہے۔ یہی وہ چور دروازہ ہے جسے مولویوں اور مشائخین کی اکثریت نے کھول کر قوم کو جہیز، بارات اور دوسری خرافات کو انجام دینے کا لائسنس عنایت فرمایا ہے۔جب تک ایسی غیرشرعی دعوتوں کو قبول کرنے والے اوراُن میں جاکر پیٹ بھر کرنکلنے والے باقی رہیں گے، یہ شادیاں معاشرے کو تباہ کرتی رہیں گی، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بھگوا طاقتیں اور اسرائیل بھی آج امت کو اتنا نقصان نہیں پہنچارہے ہیں جتنا ان شادیوں کی رسومات پوری کرنے والے اور ان شادیوں میں شرکت کرنے والے پہنچا رہے ہیں۔ 


لوگ بدعت کو بدعت مانناکیوں نہیں چاہتے؟

پہلی وجہ تو یہ ہیکہ چاہے وہ مولوی صاحب ہوں کہ مرشد، عام انسان ہوں کہ خواص، سوائے ایک یا دو فیصد لوگوں کے ہر ہر خاندان اس گنگا میں ہاتھ دھوچکا ہے۔اگر ان چیزوں کو حرام یا بدعت کہیں تو ان کی قیمت لوٹانی واجب ہوجاتی ہے، کیونکہ امارتِ شرعیہ بہار کا فتویٰ موجود ہے جو مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒ نے دیا ہے کہ ”لڑکی والوں سے جوبھی ناجائز خرچ (جیسے جوڑے کی رقم، جہیز، کھانوں کی دعوتیں وغیرہ)کروایا گیا ہو،  اگر لاعلمی کی وجہ سے کروایا ہو تو وہ مال ایک امانت ہے، اور اگر جان بوجھ کر کروایا ہوتو یہ ایک رشوت ہے، اور ہردو صورتوں میں لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا، اس پر اس کی قیمت لوٹانا واجب ہے“۔اب ظاہر ہے جو کسی کا مال نہ لوٹائے وہ خیانت کرنے والا ہے، اور خیانت کرنے والے کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔ اب جو لوگ بیٹوں کا  جہیز اور کھانا ہضم کرچکے ہیں، وہ تولاکھوں روپیہ واپس نہیں کرسکتے، اور جو بیٹیوں پر لاکھوں ناجائز لٹا چکے ہیں ان کے سسرال والے تو کبھی اس کی قیمت لوٹانے تیار نہیں ہوں گے۔دوسرے یہ کہ ان کو ان کے دامادوں کے ناراض ہوجانے کا خوف ہے۔ 

دوسری وجہ ہے نفسیات انسانی Human psychology کہ آدمی اپنے دھرم، مسلک، پیر یا اپنے عقیدے کے پنڈت یا عالم ہی کی بات مانتا ہے، یا پھر اپنے باپ دادا ہی کے راستے کو صحیح سمجھتا ہے۔ اسی لئے نبیوں نے بھی جب بھی ہدایت کی دعوت دی، قوموں نے یہی جواب دیا کہ ”بل نتبعوا ما الفینا علیہ آباء نا“ یعنی ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباواجداد کو پایا ہے“،یا پھر جیسے کہ قرآن کہتا ہے کہ ”واتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ“۔ ان لوگوں نے اپنے پنڈتوں اور لیڈروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا“ وہ جس چیز کو حلال کہتے یہ حلال مان لیتے، وہ جس چیز کو حرام کہتے یہ حرام مان لیتے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ جب ان کے فقہائے متقدمین نے شادیوں کی رسومات کو بدعت نہیں کہا تو یہ لوگ کبھی اس کو بدعت نہیں مانیں گے۔لیکن فقہائے متقدمیں یعنی امام ابوحنیفہؒ یا ابن تیمیہ ؒوغیرہ نے کیوں اسے بدعت نہیں کہا، اس کی تفصیل آگے پیش کی گئی ہے۔   

تیسری وجہ یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ روزِ قیامت بدعتی کو رسول اللہ ﷺ بھی شفاعت سے دھتکار دیں گے۔ لیکن کیا کیا جائے مسلک پرستی کا کہ ایک مسلک ایسا ہے جس کے پیروں کے پیر کو اللہ نے خودایک بار نہیں بلکہ ستّر مرتبہ وعدہ   تیسری وجہ یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ روزِ قیامت بدعتی کو رسول اللہ ﷺ بھی شفاعت سے دھتکار دیں گے۔ لیکن کیا کیا جائے مسلک پرستی کا کہ ایک مسلک ایسا ہے جس کے پیروں کے پیر کو اللہ نے خودایک بار نہیں بلکہ ستّر مرتبہ وعدہ کیا ہے کہ ان کو اور ان کے تمام مریدوں کو سیدھے جنّت میں داخل کردیا جائیگا، مطلب یہ ہوا کہ انہیں حوضِ کوثر پرنہ تو رکنے کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی اور نہ رسول اللہ کا سامنا کرنے کی ضرورت ہوگی، گویا حوضِ کوثر ان کی جاگیر ہوگئی،اب پیروں کی طرف سے جنت کی اتنی ٹھوس گیارنٹی ملنے کے بعدبھی اگر کوئی انہیں ان کی شادیوں پر بدعت کا الزام لگائے اور حوضِ کوثر سے  دھکے مار کر نکلوانے کی بات کرے تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اویسی صاحب کو دارالسلام سے نکالنے کی بات کرے۔ اس لئے یہ لوگ شادیوں کی بدعت کے بارے میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ دوسری طرف وہ مسلک ہیں جو صحیح العقیدہ ہونے کا یا مکمل کتاب اللہ کتاب السنّہ کے منہج پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ان کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی باپ خوشی سے کھانا یا جہیز دے تو یہ مباح ہے، یعنی جائز ہے۔ 

چوتھے یہ کہ ہر مسلک کے پاس بدعتوں کی اپنی اپنی فہرست ہے جسے ان کے بزرگوں نے مرتب فرمائی ہے۔اس سے ہٹ کر وہ کسی اور بدعت کو بدعت تسلیم نہیں کرسکتے تاوقتکہ بدعت کو بدعت ثابت کرنے والا ان کے اپنے مسلک، جماعت اور عقیدے کا نہ ہو۔ اجتہاد کے دروازے بند ہیں، ہاں ایسی دعوتوں کو مباح کہہ کر جائز کرنے کا اجتہادجاری ہے۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ عہدِ جدید میں بے شمار فتنے برپا ہوئے ہیں جن میں جہیز اور کھانے ایک فتنہ بلکہ فتنہ کُبریٰ بن کر ابھرا ہے۔ طلاق پرہزاروں کتابیں اور تقریریں موجود ہیں۔شادی کے بعد طلاق سوسائیٹی میں 1% ہے جبکہ جھگڑے، گھرچھوڑ کر جانے، اور پولیس، وکیل یا قاضی کے پاس جانے کے واقعات 50% سے بھی زیادہ ہیں۔حیرت ہے کہ 1% والے مسئلے پر مولوی سالہا سال سے فتوے دے رہے ہیں، لیکن50%  ہونے والے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ تحقیق یا اجتہاد نہیں ہواہے۔مدرسوں کے نصاب میں جتنا مواد طلاق پر پڑھایا جاتا ہے اُس کا 10% بھی نکاح کے صحیح طریقے پر پڑھایا نہیں جاتا۔

 بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اجتہاد کے دروازے سختی سے بند کئے جاچکے ہیں۔ ہاں ایک دو دروازے کھلے ہیں جیسے بات جب 73 ویں فرقے کی آتی ہے،تو ہر مسلک اور ہر فرقے کے لوگ اپنے 73 واں فرقہ ہونے پر بھرپور اجتہاد کرتے ہیں۔جس طرح اسرائیل اور ایران اور حماس وغیرہ ایک دوسرے پر میزائیل داغ رہے ہیں،اُسی طرح ہر مسلک ایک دوسرے پر کافر، بدعتی، مشرک، گستاخ وغیرہ کے فتوے داغنے پرپورا پورا اجتہاد کررہا ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل بدعات کی فہرست اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں پھیلے ہوئے اختلافات، ضد اورنفرتوں کا اندازہ لگالیجئے۔ 


مختلف مسلکوں کی جاری کردہ بدعات کی فہرست

 فاتحہ، سلام، میلادالنّبی، عرس، تیجہ، دسواں، چہلم، برسی، صندل، پنکھے،قصیدہ بُردہ شریف، گیارہویں، کُنڈے،مرشد کے شجرہئ نسب کا وِرد، ماتم، شب برات یا شب معراج  اور محرّم میں خصوصی محفلیں، اذان سے پہلے یا بعد مخصوص درود یا اللہ ہو یا کوئی اور نعرے، نماز اور روزے کی زبانی نیّت، میت کے لئے قرآن خوانی اور آیت کریمہ، نمازِ جنازہ کے بعد دعا، چالیس قدم پر دعا، فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا، گردن کا مسح، رفع یدین، آمین بالجہر، لال پیلے ہرے فاخرانہ لباس،اماموں کی تقلید، درگاہوں کا تبرّک، نذرونیاز،رسول اللہﷺ کا نام سن کر انگوٹھے چومنا، محرم میں شادی نہ کرنا اور اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اللہ کے علاوہ کسی اور ذات یا چیز کی قسم کھانا، نماز میں ہاتھ باندھنا، سینے پر ہاتھ باندھنا یا ناف پر ہاتھ باندھنا، اول وقت افطار اور تاخیر سے سحر، عید کی نماز میں پہلے خطبہ یا بعد، ایک نشست میں تین طلاق یا ایک طلاق کا مسئلہ، جوتوں پر مسح،جمع بین الصلاتین، نماز تراویح باجماعت، نمازِ جنازہ یا نکاح میں غیرمسلک والے کی امامت، صلوۃ التسبیح، یاغوث یا یاعلی یا یامحمد کہہ کر مانگنا وغیرہ۔ فی الحال ہم آج کے سب سے بڑے فتنے یعنی آج کی شادیوں کی رسومات پر غور کریں گے کہ یہ بدعات ہیں یا نہیں۔ 


بدعت کی تعریف

 یہ بدع سے مشتق ہے۔لغوی طور پر اس کے معنی ہیں کسی سابقہ مادہ، اصل، مثال، نمونے یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا۔ اللہ بدیع السمٰوٰت والارض ہے۔ بدیع اسی بدعت سے ہے، یعنی اللہ نے اس پوری کائنات کو بغیرکسی سابقہ وجود کے ایجاد کیا۔ اصطلاح میں اس کے معنی ہیں شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا جس کی دلیل نہ قرآن میں ہو نہ سنّت میں۔ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ”البدعۃ اصلھا ما احدث علی غیرمثال سابقاََ“ یعنی بدعت کی اصل یہ کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونے کے ایجاد کی گئی ہو“ اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ ”بدعت وہ ہے جو سنّت کے مقابلے میں ہو یعنی سنّت کا Replacement ہو“ (فتح الباری 253-4)۔معروف دیوبندی عالم مفتی کفایت اللہؒ لکھتے ہیں کہ ”بدعت ان چیزوں کوکہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی نہ قرآن میں اس کا ثبوت ملے نہ سنّت میں، اور نہ صحابہؓ میں، نہ تابعین میں نہ تبع تابعین میں اس کا وجود پایا جائے اور اس کام کو دین (ثواب) سمجھ کر کیا جائے۔ (تعلیم الاسلام، حصہ چہارم، صفحہ 27)۔ مکتب اہلِ حدیث بدعت کو مسترد کرتا ہے اور اسے صرف جہنم میں لے جانے والا عمل گردانتا ہے۔ بریلوی مسلک میں بدعت کی دوقسمیں ہیں ایک اچھی بدعت دوسری بُری بدعت، لیکن علما نے یہ شرط رکھی کہ ایسا عمل جو شریعت کے کسی بھی حکم سے ٹکرائے وہ بدعت ہے۔  


قرآن و حدیث میں بدعت کا بیان

حدیث: من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد: متفق علیہ)۔ جس کسی نے ہمارے دین میں نئی چیز کی ایجاد کی جو دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ شائد اس لئے کہ بدعتی بدعت کو نیکی سمجھ کر تا ہے، اس لئے اس سے توبہ کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ 

قرآن: الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔۔۔ (المائدہ ۳)۔ بدعت اس آیت کی نفی ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں دین نے زندگی کا مکمل قانون دیا ہے، وہیں شادی کا طریقہ کار بتانے میں ناکام ہوگیا، اس لئے مشرکوں کے طریقوں کو مباح قرار دے کر لوگ دین کو مکمل کررہے ہیں۔

حدیث: خبردار؛ تم دین میں نئی ایجادات یعنی بدعت سے بازآجاو، بے شک ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم لے جانے والی ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

حدیث: اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ اُس وقت تک قبول نہیں فرماتا جب تک وہ بدعت کو نہ چھوڑ دے (الترغیب 54)


بدعت کیا ہے

۱۔ یہ ختمِ نبوت کا انکار ہے۔

 عامرعثمانیؒ نے ”بدعت کیا ہے“ صفحہ 10 پر لکھا کہ بدعت ایجاد کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہمارا دین کامل نہیں ہے، نامکمل ہے اس لئے رسول اللہ کی شریعت میں کمی بیشی کی گنجائش ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب نکلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی گویا نبوت کی ضرورت باقی ہے۔ یہ ختم نبوت کا انکار ہے۔ (یعنی رسول اللہ ﷺ کو بیٹی کے ہاتھ پیلے کیسے کرنے ہیں، وہ اس کے آداب سے وہ واقف نہیں تھے، نعوذباللہ) 

 ۲۔ بدعت توحید کی ضد ہے

عامرعثمانیؒ ”بدعت کیا ہے“ میں لکھتے ہیں کہ قانون بنانا رب کی ذمہ داری ہے۔ اس نے زندگی گزارنے کا مکمل قانون بھی دیا اور اس نبی ﷺ کی صورت میں ایک مکمل نمونہ بھی دے دیا۔ تبھی اس نے کہا کہ میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، ”الیوم اکملت لکم دینکم“، اگر یہ زندگی گزارنے کا طریقہ مکمل نہ ہوتا تو اللہ یہ نہ کہتا کہ یہ دین مکمل کردیا۔ اب اس دین و شریعت میں کوئی چیز شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نہیں جانتے تھے یا پھر بتانا بھول گئے،جس کی وجہ سے دین میں تھوڑی سی اور وضاحت کی کمی رہ گئی، اس لئے لوگوں کو اجازت ہے کہ اس میں ترمیم کریں۔ کیا یہ شرک نہیں ہے کہ رب کے قانون بنانے کے حق میں ہم دخل اندازی کریں اور کیا  بہتر ہے کیا بہتر نہیں ہے کے فیصلے کریں؟

۳۔ بدعت ہدایت سے دور کردیتی ہے۔

بدعت پسندوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جہاں انہیں اللہ رب العزت کی آیات یا رسول ﷺ کی حدیثیں سنائی جائیں وہ ان کے مقابلے میں اپنے بزرگوں کے حوالے پیش کردیتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے قول اللہ کی آیات یا احادیث سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ چونکہ بندہ نیکی اور ثواب ہی کی نیت سے بدعت انجام دیتا ہے اس لئے اسے توبہ کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے علما اور مشائخین کو ایسی شادیوں میں بلایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ ان کی شادیاں معتبر ہوجائیں۔ 

بندہ پہلی بار بدعت کرتا ہے تو تھوڑے تکلّف Hesitation کے ساتھ کرتا ہے۔ لیکن دوسری تیسری بار اسے اعتماد ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح کررہا ہے۔ جیسے وہ شادیوں کے دکھاوے کی دعوت میں جاتا ہے تو اسے یہ سب غلط لگتا ہے، لیکن دو تین بار جانے کے بعد

پھر اسے برا نہیں لگتا، اسے عادت ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اِن خرافات کا اپنے گھر کی شادیوں میں اہتمام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ 

بدعت شرک ہے

یہ بدعتی رسومات جیسے منگنی، جہیز، کھانے، عالیشان مہنگے ولیمے وغیرہ اس بنیاد پر شرک ہیں کہ ان میں سوائے دکھاوے، غلو، صمدھاوے پر رعب، یا اپنے Status دکھانے کے اور کچھ نہیں۔ یوں تو ”تعزّمن تشاء و تزل من تشاء بیدک الخیر“ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی عزت اور ذلت کے دینے والا صرف اللہ ہے اس کا وہ اقرار تو کرتے ہیں، لیکن شادیوں کے معاملات میں ”لوگ کیا کہیں گے“ کا خوف انہیں اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی دکھاوا ہے اور دکھاوا شرک ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ان دو حدیثوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ ایک تو ان تین لوگوں سے متعلق ہے جو بالوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ایک عابد، دوسرے ذاہد اور تیسرے مجاہد۔ کیونکہ ان کی عبادتیں، تقویٰ، اور جہاد کے پیچھے یہ نیت بھی تھی کہ لوگ واہ واہ کریں۔ دوسری حدیث یہ کہ ”من صلی یرائی فقد شرک، من صام یرائی فقد شرک، و من تصدق یرائی فقد شرک“ یعنی جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کی خیرات کی اس نے شرک کیا۔اس کی کئی مثالیں ہیں جیسے سعودی عرب میں ہم دیکھتے تھے کہ آفس کے اوقات میں کبھی نماز نہیں پڑھنے والے بھی جب آفس میں اذان ہوتی تو سارے نماز میں شریک ہوتے، صرف اس لئے کہ کفیل اور اسٹاف انہیں بے نمازی نہ سمجھیں۔ کتنے ایسے ہیں جن کے اپنے رشتہ دار محتاج و مستحق ہیں، لیکن یہ لوگ اپنی زکوٰۃ و خیرات جماعتوں، مدرسوں اور نام و نمود کے کاموں پر لٹاتے ہیں۔ اِن شادیوں میں بھی صرف یہی ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کے خوف سے ایک ایک ہزار مہمانون کو جمع کرتے ہیں، شادی کے دن کا دلہن کا جوڑا جو دلہن پھر ساری زندگی الماری میں بند رکھتی ہے، وہ خریدتے ہیں اس لئے کہ ”ورنہ لوگ کیا کہیں گے“۔ اور ایسی کئی چیزیں ہیں جن کی ضرورت نہیں، لیکن ضرورت پیدا کرلی جاتی ہے۔ یہی اسراف و تبذیر ہے، جسے حرام قرار دیا گیا۔  

۴۔ بدعت غلو Exaggeration ہے۔ 
حد سے بڑھنے کو غلو کہا گیا ہے، اور قرآن و حدیث میں غلو سے بچنے کی کئی جگہ تاکید ہے۔ جیسے
لا تغلوا فی دینکم (سورہ النسا)۔ یعنی اپنے دین میں غلو نہ کروو
حدیث: ایاکم ولغلوّ فانھا اھلک من کان قبلکم الغلوا یعنی خبردار غلو سے بچنا، تم سے پہلے کی قوموں کو غلو نے برباد کیا۔ 
توحید کی ضد اگرچہ شرک ہے لیکن عام انسان یہ سمجھ نہیں پاتے کہ کون سے کام اگرچہ نیکی کے کام لگتے ہیں، لیکن وہ شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔جس نے بھی لاکھوں روپیہ ان شادی کی رسموں پر برباد کیا اس سے پوچھئے آپ نے ایسا کیوں کیا تو جواب ملے گا کہ فلاں فلاں نے بھی ایسا ہی کیا۔ جاکر فلاں فلاں سے پوچھئے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ فلاں فلاں کی شادی دیکھ کر ہم نے ایسا کیا۔ یہ دکھاوا ہی توہے جو کوویڈ Covid کی طرح ہر قریب جانے والے انسان کو لگ جاتا ہے۔دکھاوے کی خواہش ہیومن نیچر میں چھپی ہوتی ہے۔ وہ محسوس نہیں کرتا کہ وہ شادی پر جو لاکھوں کا خرچ کررہا ہے وہ دکھاوا ہی غلو ہے۔ جب علما و مشائخ یا دینی جماعتوں کے اکابرین بھی ایسی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں تو لوگوں کو ان چیزوں کے غلو ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔یہ رویّہ اندھی تقلیدBlind faith کہلاتا ہے۔ یہ بھی دین میں غلو ہے۔ 

 صحابہؓ کے دور میں پیدا ہونے والی بدعتیں 
وہ بدعتیں جو اُس دور میں پیدا ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ذیل کے واقعات کو پڑھ کریہ اندازہ لگایئے کہصحابہؓ اور تابعین و تبع تابعین کے دور اندیش نگاہوں نے کس طرح بدعات کو محسوس کرلیا اور سختی سے ان کو ختم بھی کیا۔ 
حضرت عمرؓ کا واقعہ
 جس درخت کے نیچے رسول اللہﷺ نے مدینہ سے آنے والوں کی بیعت لی تھی، لوگوں کی نظر میں وہ درخت ایک متبرک بن گیا اور بہت ہی نیک نیتی کے ساتھ وہ لوگ وہاں نماز پڑھنے لگے، حضرت عمرؒ نے جب دیکھا کہ لوگ اس جگہ کو ایک مقدس مقام سمجھ کر وہاں عبادت کرنے کو نیکی سمجھنے لگے ہیں تو انہوں نے وہ درخت کٹوادیا، تاکہ ایک بدعت کا راستہ نہ کھلے۔
ایک بار حج سے واپسی میں انہوں نے دیکھا کہ راستے میں ایک ایسی مسجد ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے ایک بار نماز پڑھی تھی، لوگ دیوانہ وار اس مسجد کی طرف نوافل پڑھنے دوڑے۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا ”ائے لوگو؛ اہلِ کتاب انہی باتوں کی وجہ سے گمراہ ہوئے کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنادیا تھا“
ایک نوجوان جو ذہد و تقوٰی کے جذبہ سے معمور تھا، اس نے خدا خوفی کی نیت سے اپنی چال ڈھال ضعیفوں جیسی بنالی تھی، حضرت عمرؓ نے اپنا کوڑا اٹھایا اور کہا کہ سیدھا ہو کر چل، انکساری اور زہد کے نام پر اپنے آپ کو بوڑھا بنانا غلط ہے۔
حضرت علی کا واقعہ(نظم البیان صفحہ 73)
ایک صحابیؓ نے عید کی نماز سے پہلے نفل پڑھنے کھڑے ہوئے۔ (یہ مسئلہ تو سب کو معلوم ہوگا کہ فجر اور عید کے نماز کے بیچ کوئی نفل نماز پڑھنی نہیں ہے)۔ حضرت علیؓ نے انہیں روکا۔ انہوں نے جواب دیا: ائے امیرالمومنین؛ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر سزا نہیں دے گا۔ (یہ وہی غلط فہمی ہے جو آج بھی پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو جس چیز میں نیکی نظرآئے وہ یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔  چاہے اس عمل کی کوئی اصل ہو یا نہ ہو)۔حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ”مجھے اتنا علم ہے کہ اللہ کسی ایسے کام پر ثواب نہیں دیتا جس کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیااور نہ اس کی ترغیب دی“۔ اور آگے یہ فرمایا کہ ”تیری یہ نمازفضول ہے، اورفضول فعل حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ضرور سزا دے گا اِس لئے کہ تو نے رسول اللہ کی مخالفت کی ہے“۔ (یعنی جو عمل رسول اللہﷺ نے نہیں کیا، اس کو نیکی سمجھ کر کرنا ہی بدعت ہے)
حضرت سعید بن المسیب ؒ کا واقعہ(دارمی، صفحہ 62)
حضرت علیؓ سے ہی ملتا جلتا ایک اور واقعہ جو ہمیں جہیز اور کھانے بدعات کیوں ہیں، یہ سمجھنے میں رہنمائی کرے گا، ملاحظہ فرمایئے کہ  حضرت سعید ؒ نے ایک شخص کو عصر کے بعد نفل پڑھتے دیکھا۔ آپ ؒ نے اسے روکا تو اس نے وہی جواب دیا جو ایک صحابیؓ نے حضرت علیؓ کو جواب دیا تھا کہ ”کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر سزا دے گا؟“۔ حضرت سعیدؒ نے جواب دیا ”نہیں، نماز پڑھنے پر سزا نہیں دے گا بلکہ سنّتِ رسول کے خلاف کرنے پر ضرور سزا دے گا“۔  
اسی طرح فتح الباری میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک صحابیؓ کو کسی نے بچّے کی ختنہ کی تقریب کی دعوت دی۔ انہوں نے فرمایا ہم نے رسول اللہ ﷺکے دور میں نہ کوئی ایسی دعوت دیکھی اور نہ شرکت کی۔انہوں نے دعوت میں جانے سے انکار کردیا۔ 
کوئی بھی نیکی کا کام کسی بھی وقت نہیں کیا جاسکتا۔ سنّت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جو نیکی کا جو موقع ہے اسی وقت وہ کی جائے ورنہ بدعت شروع ہوجاتی ہے اور عمل فاسد ہوجاتا ہے، جیسے:  درودِ شریف کی عظمت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ذبیحہ کرتے ہوئے بجائے بسم اللہ اللہ اکبر کہنے کے درود پڑھ لے تو  ذبیحہ کیا حلال ہوگا؟  اسی طرح سجدے کو تمام عبادات کا تاج کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک رکعت میں دو سجدوں کے بجائے چار سجدے کرے، سجدے کی فضیلت بتائے اور کہے کہ میں اپنی خوشی سے کررہا ہوں (جیسے کہ جہیز اور کھانے دینے کے لئے دلیل پیش کرتے ہیں)، تو نماز فاسد ہوگی کہ قبول؟ اسی طرح ایک دوسرے کو تحفے دینا، مہمان نوازی اور ضیافت کرنا یہ بھی سنّت کے اہم ترین پہلو ہیں۔ لیکن ان کا مقصد اور طریقہ بھی رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے پیش کردیا ہے۔اب تحفے اور مہمان نوازی و ضیافت کو جہیز یا شادی کے دن کے کھانے سے جوڑنا ایک نئی بدعت ہے۔ یہ چیزیں اللہ کے نبیﷺ، ان کی شہزادیوں ؓ اور ان کے صحابہ ؓکی شادیوں میں دور دور تک نہیں تھیں۔ اکث ریت کو معلوم ہے کہ وہ غلط کررہے ہیں، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی ایک پولیس والا یا بلدیہ والا یا کوئی سرکاری انسپکٹر سمجھ رکھا ہے جس کو کچھ نہ کچھ رشوت یا معمول دیتے رہنے سے اپنا کاروبار چلانے میں آسانی ہوتی ہے، اسی طرح لوگ بھی ایسی شادیوں کی بدعات کو بھرپور طریقے سے انجام دے کر اللہ کو ایک نفل عمرہ کی رشوت دے کر، غریبوں کو افطار اور سحر راشن کٹ تقسیم کرکے، مرشدوں یا جماعتوں یا مسجد وں اور مدرسوں کو لفافے دے کر نیکی کااطمینان حاصل کرلیتے ہیں۔  
بدعتیوں کے اعتراضات
جب شادیوں کی ان مشرکانہ رسومات کو بدعت کہا جائے تو لوگ انتہائی نامعقول اعتراضات پیش کرتے ہیں جیسے:
کیا آپ کا داڑھی کٹانا یا چھوٹی رکھنا بدعت نہیں ہے؟ کیا آپ کا پینٹ شرٹ سوٹ ٹائی بدعت نہیں ہے؟ کیا رسول ﷺ آپ کی طرح قیمتی کار میں بیٹھتے تھے؟“یہی نہیں بلکہ یہ بھی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ”کیا نبی ﷺ مدرسے کھولتے اور سفیروں کو چندے لانے بھیجتے تھے؟ قرآن کو پاروں میں تقسیم کرنا اور اعراب یعنی زیر زبر لگاناکیا بدعت نہیں ہے؟ کیا قرآن کو شائع کرنا، ریڈیو اور ویڈیو میں لانا بدعت نہیں ہے؟ کیا اہم شخصیات کی سالگرہ منانا بدعت نہیں ہے؟ کیا جھنڈا چڑھانا، ووٹ ڈالنا شرک و بدعت نہیں ہے؟ کیا نفل عمرے، سہ شبی شبینہ، پنج شبی شبینہ، بچے کی قرآن خوانی پر یا حفظِ قرآن کی تکمیل پر نشرح کرنا، وغیرہ۔۔۔ یہ غلط فہمیاں لوگوں کو اس لئے ہیں کہ لوگ شریعت کی ہر چھوٹی چھوٹی بات اس کے نام کے ساتھ لکھی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ منشائے شریعت یعنی Ultimate goal of Shariya دیکھنا اوراصول و کلیات Basic principles and rules سمجھنا نہیں چاہتے۔ شادی کی یہ تمام رسومات کو حرام، شرک اور بدعت قرار دینے کے پیچھے منشائے شریعت کیا ہے، اس کی تفصیل آگے پیش کی جارہی ہے۔

بدعت حسنہ اور بدعتِ سیّۂ (اچھی بدعت اور بری بدعت)
جس طرح زہر زہر ہوتا ہے، اچھا ہوکہ بُرا، میٹھا ہو کہ کڑوا، اسی طرح بدعت بدعت ہے، اس میں اچھی بدعت یا بری بدعت کی تقسیم خود ایک بدعت ہے۔ علماءِ جمہور کا کہنا ہے کہ جہاں تک حضرت عمرؓ کا تراویح کے تعلق سے ”نعمت البدعہ ھذہ“ (یہ ایک اچھی بدعت ہے) کا کہنا ہے، یہ بدعت لغوی ہے، شرعی اصطلاح میں جو بدعت ہے یہ وہ نہیں، کیونکہ باجماعت تراویح کی اصل خود سنّت میں موجود ہے۔
اہلِ سنت کے معروف عالم ِ دین شاطبیؒ بدعت کی دونوں اقسام کو رد کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس تقسیم کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے یہ خود ایک بدعت ہے۔ اور آگے فرماتے ہیں کہ واجب، مستحب یا مباح پر کوئی نہ کوئی اشارۃً ہی سہی، شرعی دلیل ہوتی ہے لیکن بدعت کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی۔
 شیخ احمد سرہندی کے اہم کارناموں میں اکبراعظم کے دور میں جو بدترین بدعات پیدا ہوچکی تھیں، ان کو مٹانا ہے، اسی بنا پر انہیں گوالیار کی قید میں کئی ماہ بند کردیا گیا تھا۔ بدعات کو مٹانے کے عظیم جہاد کی وجہ سے انہیں مجدّد الف ثانی یعنی پورے Millinium کے ریفارمر کا لقب دیا گیا۔ بدعات پر انہی کے مکتوبات میں جو نکات بیان ہوئے ہیں، وہ بدعت کے موضوع پر ایک حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ شیخ احمد سرہندی کی ہر مسلک والے تعظیم کرتے ہیں،  اس لئے ان کے مکتوبات سے اہم نکات پیش خدمت ہیں۔ہم نے اپنے موضوع سے ان کے نکات کا تعلق واضح کرنے کے لئے اپنا تبصرہ براکٹ میں پیش کیا ہے۔  

مجدّد الف ثانی شیخ احمدسرہندیؒ کے بدعت سے متعلق مکتوبات
ناشر حضرت شاہ ابوالخیر اکیڈیمی، دہلی
مکتوب 19 دفتر دوم
”بدعت چاہے جس قسم کی ہو، اس میں کوئی خیرنہیں۔الیوم اکملت لکم۔۔۔۔ کے نازل ہوجانے کے بعد کسی بھی بدعت کے حسنہ ہونے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے؟ فماذا بعد الحق اِلّا الضلال (سورہ یونس)۔یعنی حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟ کسی بھی بدعت کو حسنہ کہنے والے اگر یہ جانتے کہ یہ الیوم اکملت کا انکار ہے تو وہ ہرگز اس قسم کی باتوں کی جرات نہ کرتے“۔ 
مکتوب 186 دفتر اول 
”بعض علما کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم کی ہوتی ہے، بدعت حسنہ اور بدعتِ سیۂ۔ مگر فقیر کو بدعت میں کوئی حسن یا نورانیت نظرنہیں آتی۔ یہ تاریکی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی نیا عمل یعنی بدعت بالفرض بصارت کی کمزوری کی وجہ سے خوشنما نظربھی آئے“ (جیسے دلہا دلہن کے شاندار اسٹیج، کئی کئی ڈِش کے کھانے، شادی خانے وغیرہ) تو کل قیامت میں جب نظر تیز ہوگی تو سوائےنقصان اور ندامت کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جس چیز کو سید البشر ﷺ نے مردود کہا یعنی بدعت کو، اس میں حسنہ کہاں سے آئے گی؟ ہر بدعت سیّۂ یعنی بُری ہے، ہر بدعت  سنت کو ختم کرنے والی شئے ہے۔ حضرت حسّان بن ثابتؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی ہے کہ ”مابتدا قوم بدعۃ فی دینھم الا نزع اللہ من سنّتھم مثلھا ثم لا یُعیدوھا الیھم الی یوم القیامۃ (ترمذی)۔ یعنی کوئی قوم اپنے دین میں بدعت جاری نہیں کرتی مگر اللہ تعالیٰ اس جیسی ایک سنّت کو ان میں سے اٹھا لیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سنت کو قیامت تک ان کی طرف نہیں لوٹاتا۔ (یہ ایک خطرناک وارننگ ہے۔ اگر نکاح کی صحیح سنت کا طریقہ واپس لانے کی کوشش نہیں کی گئی تو پھر قیامت تک یہ نکاح کی سنّت واپس نہیں آئیگی، اور مسلمان لڑکے اور لڑکیاں مشرکوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے راستے پر اس تیزی سے نکل پڑیں گے کہ کوئی انہیں روک نہ سکے گا، بلکہ اس کے آثار شروع ہوچکے ہیں)۔ 
مکتوب 255 دفتراول
”سنّت اور بدعت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک کے وجود سے دوسرے کی نفی لازم آتی ہے۔ لہذا ایک کے زندہ کرنے سے دوسرے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یعنی سنت کا زندہ کرنا بدعت کو مردہ کرنا ہے اور بدعت کو زندہ کرنا سنت کو مردہ کرنا ہے“۔ (مثال: مہر کی رقم۔ یہ واجب ہے۔مہر عورت کی قیمت نہیں اس کی مرضی کا اعلان، اس کے حقوق کا ٹوکن ہے۔مگریاد رہے مہر کی شرعی حیثیت اسی وقت تک قائم ہوتی ہے جب عورت سے ایک ہاتھ دے ایک ہاتھ لے والا معاملہ نہ کیا جائے۔ لیکن جب سے اِس نکاح میں مرد نے  ایک ہاتھ سے مہر دے کر دوسرے ہاتھ سے منگنی اور بارات کا کھانا اور جہیز لینے کی بدعت شروع کی، مہر کی سنّت بھی ختم ہوگئی اور اس کی اہمیت بھی۔اسلام نے عورت کو جو عزت، مقام اور حقوق دیئے تھے وہ بھی دفن ہوگئے۔مہر کی صورت میں عورت کی مرضی کو اتنی اہمیت دی گئی تھی کہ چاہے وہ ایک لوہے کی انگوٹھی مہر میں قبول کرے چاہے ایک چادر یا باغات، یہ نکاح کے لئے عورت کی مرضی کی علامت ہے۔ اور یہ حق دیا گیا کہ اگر عورت بعد میں قاضی سے یہ کہے کہ یہ نکاح میری مرضی سے نہیں ہوا مجھ پر زبردستی کی گئی تو قاضی کو اس نکاح کی تنسیخ کرنے کا حکم ہے۔ لیکن اس جوڑے جہیز اور کھانے کی اخراجات نے عورت کے حقوق چھین لئے۔ اب لڑکی اسی مرد سے شادی کرنے پر مجبور ہے جس مرد کی قیمت اُس لڑکی کے گھر والے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، یعنی جو جس معیار کا جوڑا، ہُنڈا، منگنی اور بارات کی دعوت اور جہیز دے سکتا ہے اسی معیار کا مرد اس کی لڑکی کو ملے گا)۔”پس بدعت چاہے حسنہ ہر یا سیّۂ، ہر حال میں اس سے سنت دور ہوجاتی ہے۔ اس کو حسنہ کہہ کر شائد سنّت کو اضافی حسن پیدا کرنے کا گمان ہوتاہے جب کہ اس حسن کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ تمام سنّتیں حق تعالیٰ کی پسندیدہ ہیں۔ اور بدعتیں شیطان کی پسندیدہ ہیں۔ بدعتوں کے پھیل جانے کی وجہ سے آج یہ باتیں شائد کئی لوگوں کو بری لگیں، لیکن کل قیامت کے دن معلوم ہوجائیگا کہ ہم ہدایت پر تھے یا وہ لوگ“۔ 
مکتوب 54 دفتر اول
یقین جانئے کہ بدعتی کی صحبت کا فساد کافر کی صحبت کے فساد سے زیادہ ہے۔ (اس ارشاد کو اگر شادیوں پر منطبق کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ تمام رسومات جواگرچہ کہ کافر بھی کررہے ہیں، جن کو مسلمان غلط کہتے ہیں۔لیکن چونکہ مسلمان نکاح کو سنّت کی نیت سے کرتے ہیں، اس لئے اس میں جتنی مشرکانہ رسموں کو داخل کرلیتے ہیں، خود انہیں نہ بدعت سمجھتے ہیں،نہ ان بدعات میں اُنہیں کوئی برائی نظر آتی ہے کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ تو ایک سنت کی تکمیل کرکے نیکی کا کام کررہے ہیں، ایسے لوگوں کی دعوت میں شریک ہونے والے جتنے لوگ ہیں، وہ بھی اپنے گھر کی شادیوں میں انہی رسومات کی نقل کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کافر کی دوستی میں ویسی شادی کرنے کی خواہش نہیں ہوتی، لیکن مسلمان بدعتی کی صحبت میں یہ حِرص پیدا ہوہی جاتی ہے)۔

اِن رسموں کو جائز کرنے کے حیلے بہانے
۱۔ مباح
چونکہ مولویوں اور مرشدوں نے اِن بدعات کو مباح کہا ہے اس لئے ہر کس و ناکس اسی مسلک پر چلتا ہے، مباح کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ  اگر لڑکی والے بغیر کسی دباؤ، قرض یا مشکل میں پڑے کررہے ہیں تو یہ مباح ہے،چاہے اس کے لئے باپ کا گھر بِک جائے، چاہے سود پر، یا چوری سے، یا بھیک سے یا قرضوں اور چندوں سے شادی کرنی پڑے، وہ ہر قیمت پر اس کو کرتا ہے۔
۲۔ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے
بے شمار طورطریق جو مشرکوں سے آئے ہیں، وہ مسلمانوں میں عقیدہ بن چکے ہیں، جیسے: شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے، اٹوٹ بندھن، جنم جنم کا ساتھ، جس گھر میں دلہن کی ڈولی جائے وہیں سے اس کا ڈولا یعنی جنازہ اٹھے، وغیرہ وغیرہ۔ انہی مشرکانہ عقائد کی وجہ سے آدمی حرام حلال یا جائز ناجائز کی پرواک کئے بغیر آپے سے باہر ہوکر نئی نئی رسمیں ایجاد کرتا ہے اور فضول خرچی میں اضافہ کرتاچلاجاتاہے۔ اسی لئے شائد حضرت علیؓ نے فرمایا تھاکہ ”شریف آدمی غصّے کے وقت پہچانا جاتا ہے اور رذیل آدمی خوشی کے وقت۔ 
۳۔ رشتہ داری نبھانا شریعت سے زیادہ اہم ہے: 
 کوئی کہتا ہے کہ رشتہ داریاں کاٹنا حرام ہے کیونکہ شادی ہی تو ایک موقع ہے کہ سارے رشتے دار آپس میں ملتے ہیں، ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کرکے رشتہ داریاں کاٹی نہیں جاسکتیں۔ رشتہ داری کا مطلب لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہر حلال و حرام میں ساتھ دینا رشتہ داری ہے۔ ایک طرف مصعب بن عمیرؒ کی سیرت ہے جو کہ مکہ کے امیر ترین گھرانے کے شہزادے تھے، ان کے چچا نے کہا کہ اگر تم محمد کے ساتھ ہو تو تمہارا نہ جائداد میں کوئی حصہ ہوگا، اور نہ ان عالیشان کپڑوں پر حق ہوگاجو تم نے پہن رکھے ہیں، انہوں نے وہ کپڑے اتارے اور گھر سے نکل گئے۔ سعد بن ابی وقاص ؒ کی ماں نے کہا کہ تجھے دودھ نہیں بخشوں گی اگر تو نے محمد کا ساتھ نہیں چھوڑا، حضرت سعدؒ نے دودھ کے رشتے کی پروا نہیں کی۔ تب جاکریہ دین ہم تک پہنچا۔ لیکن اِن شادیوں کی بدعات نے یہ انقلاب لایا کہ ہمیں رشتہ داریاں محمد سے کہیں زیادہ عزیز ہوچکی ہیں، ہم کسی رشتہ دار کو بالخصوص صمدھاوے کو ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یاد رکھئے رشتہ داری کا حق صرف یہ ہے کہ اگر وہ ضرورتمند ہوں تو مدد کیجئے، بیمار ہوں تو مزاج پرسی کیجئے، لیکن اصل حق یہ ہے کہ انہیں حقیقی دین پہنچاتے رہئے اور ان کی اصلاح کی کوشش کیجئے۔ اگر وہ ماننے تیار نہیں تو ان کے بدعات کے کاموں سے الگ ہوجایئے۔ اور خاموشی سے نہیں بلکہ علی الاعلان اپنی بیزاری کا اعلان کیجئے جس طرح وہ علی الاعلان بدعات کی رسموں کو انجام دے رہے ہیں، کیونکہ کل قیامت کے دن یہی سارے خاندان والے اور دوست احباب آپ سے فرار حاصل کرنے والے ہیں۔ ”یوم یفرالمرء من اخیہ و امہ و ابیہ و صاحبتہ و بنیہ (سورہ عبس 34-36) یعنی اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں اور باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے فرار ہوجائیگا۔ سجمھدار آدمی وہ ہے جو آج ان سے فرار اختیار کرلے جو کل قیامت میں اس سے فرار ہونے والے ہیں۔ آج اگر وہ ان رشتہ داروں کا ساتھ دے گا تو کل حوضِ کوثر پر شفاعت سے دھتکارا بھی جائیگا اور یہی سارے رشتہ دار اس سے فرار حاصل کرلیں گے۔ بیٹی کہے گی کہ میں نے نہ پانچ سو ہزار مہمانوں کو بلانے کہا تھا نہ جہیز دینے کہا تھا، انہوں نے اپنی شان کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا۔ بیٹا کہے گا کہ نہ میں نے جوڑے کی رقم لینے کہا تھا نہ جہیز اور کھانے کا ڈیمانڈ کرنے کہا تھا، انہوں نے خود زمانے کے چلن کو اپنایا تھا۔ 
۴۔ اِن شادیوں سے مسلمانوں کی روزگار پیدا ہورہی ہے۔
 جو لوگ یہ احمقانہ دلیل دیتے ہیں کہ ان شادیوں کی وجہ سے ہزاروں باورچیوں، ویٹروں،فوٹوگرافروں، ویڈیوگرافروں اور سوشیل میڈیا پر ڈالنے والوں کو روزگار مل رہا ہے اورمسلمانوں کی اکنامی بہتر ہورہی ہے، اِن دلیل دینے والوں کو چاہئے کہ سوّر کے گوشت کی اور شراب، گانجہ، حشیش بنانے کی فیکٹریز، پب، کیاسینو، جوّے کے اڈّے، ریس کورس وغیرہ کو بھی جائز کریں کیونکہ ان جگہوں سے بھی لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہے۔ 
۵۔ معیاری شادی، استطاعت، کلچر، اپنی اولاد پر خرچ نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے
 کچھ لوگ کہتے ہیں ہمیں کچھ نہیں چاہئے بس شادی معیاری ہونی چاہئے، یعنی بغیر ڈیمانڈ کے ہی دونوں کی طرف سے ایسی شادی ہو کہ ہر دعوتی خوش ہوکر جائے۔ اب رہا سوال کہ معیار کس کا ہو؟ تو صاف جواب یہ ہے کہ رسول یا صحابہؓ کا معیار نہیں بلکہ فلاں فلاں کی شادی کا معیار۔ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی یا ان کے صحابہؒ کی شادی معیاری نہیں تھی، بلکہ معیاری شادی آج کے بدعتیوں کی ہے۔ 
کوئی تو ”استطاعت کے مطابق کھانے، پہننے اور سواری رکھنے“ کی حدیثیں بتا کر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرنے کی اجازت کا جواز لارہا ہے گویا نبیﷺؓ کی استطاعت نہیں تھی لیکن جس کے پاس استطاعت ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ کا نکاح کا طریقہ صحیح ہے لیکن وہ کلچر الگ تھا، آج کا کلچرالگ ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں ہم اُس دورِ رسالت کے کلچر کو دقیانوسی Outdated کلچرکو نہیں اپنا سکتے۔ نعوذباللہ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بھر کی کمائی اپنی اولاد پر خرچ نہیں کرینگے تو پھر کس پر کریں گے؟ حضرت شعیب ؑ نے بھی قوم کو جب اللہ کی طرف بلایا تو ان کی قوم نے یہی کہا تھا کہ”ائے شعیب ہم تو تم کو ایک سمجھدار آدمی سمجھتے تھے۔ تم یہ چاہتے ہو کہ ہم محنت کریں، پسینہ بہائیں اور کمائیں اور اس کمائی کے خرچ کرنے پر تمارے رب کا اختیار ہو، یہ تو بہت نادانی کی بات کہی تم نے“۔ اس حیلے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو یہ سمجھداری نہیں تھی کہ اولاد پر خرچ کرنا اور اپنی کمائی ان پر لٹانا، اگر پیسہ نہیں ہو تو قرض لینا، یا مانگنا، یاگھر فروخت کرناضروری ہوتا ہے۔ اس لئے لوگوں کے نزدیک اولاد پر خرچ کرنا ایک ایسی نیکی بن گئی ہے کہ وہ اس کو جہاد سمجھ کر چاہے جس راستے سے آئے پیسہ لا رہے ہیں اور خرچ کررہے ہیں۔ کیا یہ اس دور کی سب سے بڑی بدعت نہیں ہے؟ 
۶۔ ہم ان رسومات کو دین کا فریضہ سمجھ کر نہیں کرتے
، کوئی کوئی فرماتے ہیں کہ لوگ منگنی، بارات، جہیز، پھول اور سہرے، بینڈ باجے، ناچ گانے وغیرہ اِ س نیّت سے نہیں کرتے کہ یہ دین کا حصہ ہیں، دین کا حکم تو نکاح کی محفل اور ایجاب و قبول اور ولیمہ ہے جو کہ ہم کررہے ہیں۔ باقی چیزوں کا تعلق کلچر سے ہے، اس میں کیا برائی ہے؟ “۔گویا نبیﷺ کاکلچراُن کے دور کا کلچر تھا، ہمارے دور کا کلچر الگ ہے۔ گویا اتباعِ رسول کا فریضہ صرف نمازروزے یا داڑھی وغیرہ تک ہے۔ شادیوں میں اتباعِ رسول کا دخل نہیں ہے۔ نعوذباللہ
۷۔ اکثریت یعنی میجاریٹی یہی کررہی ہے
انسان میجاریٹی کا غلام ہے۔ اسی لئے آج کی شادیوں میں وہ سبھی کچھ کرتا ہے جو میجاریٹی کررہی ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہر دیکھنے والے کے دل میں خوشی اسی طرح منانے کی آرزو پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ اکثریت کا نظام بن جاتا ہے۔اب کوئی اس کے خلاف جانے کی کوشش کرے تو اُس شخص کوپاگل کہا جاتا ہے۔ اس لئے عام آدمی تو درکنار کئی مولوی اور مرشد بھی بدعتوں کو مباح کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تاکہ اکثریت ان کے اثر سے باہرنہ نکل جائے۔یہی وجہ ہے کہ نیک اورسمجھدار لوگ ہر دور میں اقلیت یعنی Minority  میں رہتے ہیں۔یہ کمزور اور بے بس ہوتے ہیں۔ مائناریٹی اور میجاریٹی کی طاقت کی مثال یہ ہے کہ رات کے وقت اندھیرے میں آپ چل رہے ہیں اور ایک دو کتّے آپ کے پیچھے بھونکنے لگیں تو آپ انہیں لکڑی سے یا زور سے آواز نکال کر ڈرا کر بھگا سکتے ہیں۔ لیکن اگر دس بارہ کتّے جمع ہوجائیں، تو وہ ایک دوسرے کی طاقت کے زور پر آپ پر حملہ کرتے ہیں، آپ بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں، کتے آپ کو زخمی بھی کرڈالتے ہیں۔ سیاست میں آپ نے دیکھا کہ میجاریٹی جس کو ووٹ ڈالتی ہے وہ غنڈا لیڈر بن جاتا ہے۔ اور جواچھا لیڈر ہے وہ اپنی ضمانت بھی ضبط کروالیتا ہے۔ قرآن میں مائناریٹی اور میجاریٹی پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ لوگ ”لوگ کیا کہیں گے“ کے مسلک کو چھوڑیں اورمیجاریٹی کی پوجا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا  ہے کہ
 ”وقلیل من عبادی الشکور (سورۃ سبا 13) یعنی میرے شکرگزار بندے مائناریٹی میں ہوتے ہیں۔ ”فقلیلاًمایومنون“ ّبقرہ 88)۔ ایمان لانے والے مائناریٹی ہوتے ہیں۔
جو لوگ میجاریٹی کی شادیوں کی طرح شادیاں کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ جان لیں کہ میجاریٹی کو فالو کرنے والے اللہ کی نظر میں کون ہیں۔
و اِن تطیع اکثر من جی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ط ان یبتغون الا الظن و ان ھم الا یخرصون۔ (انعام 116)
یعنی  اگر آپ میجاریٹی کو فالو کریں گے تو یہ لوگ آپ کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے، یہ لوگ گمان Imaginations اور اندازوں Specultations کی بنیاد پر باتیں کرنے والے ہوتے ہیں۔
اکثرالناس لا یعلمون  (اعراف 187) یعنی لوگوں کی میجاریٹی علم نہیں رکھتی، (جاہل ہوتی ہے)
اکثرالناس لا یشکرون (بقرہ 243) یعنی لوگوں کی میجاریٹی شکرکرنے والی نہیں ہوتی۔
اکثرالناس لا یومنون (ھود 17) یعنی لوگوں کی میجاریٹی ایمان نہیں لاتی۔ 
اکثرکم فاسقون (مائدہ 59) یعنی تم میں سے جو میجاریٹی میں ہیں وہ فاسق ہوتے ہیں 
اکثرھم یجھلون (انعام 111) ان کی میجاریٹی جہالت کرتی ہے
اکثرھم لا یعلمون الحق فھم معرضون (انبیا 24) ان کی میجاریٹی علم نہیں رکھتی یعنی جاہل ہوتی ہے، اس لئے
 سیدھے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔   
اب آپ فیصلہ کیجئے کہ آپ کو میجاریٹی کا ساتھ دینا ہے یا مائناریٹی کا۔آپ میجاریٹی کے نظام سے بغاوت کی ہمت نہیں رکھتے تو میجاریٹی کا انجام کیا ہونے والا مذکورہ آیات کو قرآن میں تفصیل سے پڑھئے اور فیصلہ کرلیجئے کہ نبیﷺ کے طریقے پرچلنے والی مائناریٹی سے رشتہ رکھنا ہے یا ابولہب اورابوجہل والوں کی میجاریٹی سے رشتہ رکھنا ہے۔ 

۸۔  کیا قرآن یا حدیث میں جہیز، کھانے یا منگنی کا نام لے کر منع کیا گیا ہے؟
جس طرح قرآن میں حشیش، چرس، گانجہ، وہسکی یا برانڈی کا نام لے کر انہیں حرام نہیں کیا گیا اسی طرح منگنی، جہیز، رخصتی کا کھانا وغیرہ، اِن بدعات کے نام کے الفاظ قرآن یا حدیث میں کہیں بیان نہیں ہوئے، اس لئے مولوی بھی اور عوام بھی ان کو حلال کرنے کے جوازیہ نکالتے ہیں کہ شریعت میں ان کا نام لے کر منع نہیں کیاگیا، اس لئے یہ مباح ہیں۔ کچھ لوگ اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ ”سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی اورپنیر اور جنگلی گدھے کے تعلق سے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا”حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا، اور جس کے تعلق سے اللہ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ معاف ہے۔ (سنن ترمذی 1726)۔ فقہا نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا کہ اصل اشیا میں حکم ہے۔ یعنی جب حرام ہونے کی دلیل نہ ہو تو وہ اپنی اصل کے مطابق مباح ہے۔ علمائے اہلِ سنت نے اسی حدیث سے استدلال کرکے میلاد، عرس اور چہلم وغیرہ کو جائز کہا ہے۔ اور شادیوں کے معاملے میں بھی اسی حدیث سے استدلال کرکے جوڑا جہیز کھانے وغیرہ کو جائز کرتے ہیں۔ لیکن یہاں فقہا ہی کا اصول جو مباح کی شرط کے میں بیان ہوا ہے، وہ یہ کہ ”مباح ایسا عمل ہے جو شریعت کے کسی حرام یا مکروہ سے نہ ٹکرائے“۔ جہیز اور کھانے اس دور میں ان احکامات سے ٹکراتے ہیں، جن کوقرآن و حدیث میں راست حرام قرار دیا گیا ہے جیسے غیرقوم کی نقل، تبذیر یعنی فضول خرچی،ایک دوسرے کے مال کو دھوکہ دے کر کھانا یعنی خوشی سے ہے کہہ کر کھانا،  حِرص، رشوت، دِکھاوا، ظلم یعنی خود کو بھی اور دوسروں کو مشقّت میں ڈالنا، غلط چلن پیدا کرنا۔
ہندوستان کے ایک معروف مفتی صاحب نے ان رسموں کو بدعت یا حرام کہنے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے
 دلیل میں سورۃ النحل کی یہ آیت 116 پیش کی ”ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلٰل وہ ھذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب۔ یعنی”اور یہ تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو“۔ 
اگر مفتی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ ان جہیز اور کھانوں کی رسموں کوجب تک اللہ خود حرام قرار نہ دے، اپنی طرف سے حرام کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے تو اسی آیت میں یہ بھی تو ہے کہ تم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال بھی نہ کہو۔آپ ہمارے حرام کہنے پر اعتراض کرکے خود بھی تو ایک چیز کے حلال ہوجانے کا جواز پیش کررہے ہیں، کیا آپ کو اپنی طرف سے حلال کہنے کا حق ہے؟ کیا یہ بھی اللہ پر جھوٹ باندھنا نہیں ہے؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں  جب تک کھانے اور جہیز کے الفاظ کے ساتھ حُرمت نہ آئے اُس وقت تک حرام نہیں کہا جاسکتا، تو پھر آپ کے لئے بھی تواسی آیت میں یہ حکم ہے کہ جب تک کھانے اور جہیز کے الفاظ کے ساتھ ان کی حِلّت نہ آئے آپ بھی اِن چیزوں کو حلال نہیں کہہ سکتے۔ حرام ہونے کے تو کئی دلائل پیش کردئے گئے ہیں، جن میں سب سے بڑی دلیل تو یہ ہے کہ یہ چیزیں بدعت ہیں۔ آپ کی طرح کے مولوی اِن چیزوں کو حلال کرنے کے جتنے دلائل دیتے ہیں، ان تمام کا ذکر مضمون میں کیا جاچکا ہے، اور ثابت کیا گیا کہ وہ سارے دلائل کتنے کمزور اور من گھڑت ہیں۔ اب آپ ہی ان کے حلال ہونے پر مزید کوئی مستند دلیل دے سکتے ہیں تو خدارا دیجئے۔ 
۹۔ کیا شادی کے دن مہمانوں کو خالی پیٹ واپس بھیج دیں؟
مہمان آتے نہیں بلائے جاتے ہیں، گھر گھر جاکر انہیں دعوت نامہ دیا جاتا ہے، یا آجکل واٹس اپ پر بھیجاجارہا ہے۔ سعودی عرب بلکہ پورے عرب میں طریقہ یہ ہے کہ قاضی کے پاس خود دلہادلہن، ولی، دو گواہ اور دو چار انتہائی قریبی رشتہ دار جاتے ہیں، آفیشئل نکاح ہوتا ہے، دونوں دستخط کرتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔ اس طرح نکاح ہوجاتا ہے۔ پھر وداعی کی تاریخ مقرر ہوتی ہے اس دن پہلے ولیمہ کا کھانا ہوتا ہے پھر وداعی۔ نکاح کے دن لوگوں کو جمع کرنے کا طریقہ اگر رسول اللہ ﷺ کو پسند ہوتا تو سب سے پہلے آپ ﷺ کو یہ کرنا چاہئے تھا کہ آخری بیٹی اور سب سے چہیتی بیٹی کی شادی تھی، خاندان کی آخری شادی تھی، ایسے موقع پر پورے مدینہ کو دعوت دیتے، یا کم سے کم قریش کے ایک ایک آدمی کو دعوت دیتے، یا کم سے کم جنہوں نے ہجرت میں ساتھ دیا، یا کم سے کم وہ انصار جنہوں میں مدینہ میں آپ کو سیٹ کیا ان لوگوں کو بلاتے۔ اس سلسلے کی مزید تفصیلات آگے ”شادی کا کھانا صرف ایک ہے اور وہ ہے ولیمہ“ میں ملاحظہ فرمایئے۔ 

کیاامام ابوحنیفہ ؒ اور ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کے زمانے میں یہ بدعات تھیں؟
لوگ اپنے اپنے اماموں کے لٹریچر میں حلال و حرام، بدعت یا مباح کے احکام تلاش کرتے ہیں، اور کرنا بھی چاہئے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہؒ وغیرہ حتیٰ کہ اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلویؒ کے زمانے تک آج کی شادیوں کو کوئی تصور نہیں تھا۔ جب نہ شادی خانے تھے نہ مہنگی شادیوں کا چلن۔ اماموں کے زمانے میں اگر آج کی شادیاں ہوتیں تو کیا وہ ان کو جائز کرتے؟ اس زمانے میں نکاح دیوان خانے یا گھر کے باہر ڈیرہ ڈال کر ہوتیں۔ نکاح کے وقت صرف کھجور،یا چائے ہوتی۔ ولیمہ بھی ڈیرہ ڈال کر کیا جاتاجس میں ایک بریانی اور ایک میٹھے کی پلیٹ ہوتی۔لوگ سنّت کے مطابق نیچے زمین پر دستر بچھا کر کھاتے، نہ ڈائننگ ٹیبل، نہ کرسیاں نہ ویٹرز۔ جہیز میں ایک سائیکل، پلنگ، الماری ہوتی۔ شائد اس لئے اُس وقت کے علما نے اس موضوع پر زیادہ نہیں لکھا، کیونکہ یہ ہر عام آدمی کی استطاعت میں ہوتا، شائد اسی بنیاد پر بعد کے علما نے اس کو مباح کہہ ڈالا۔ لیکن بدعت بہرحال بدعت ہے۔ بقول شیخ احمد سرہندیؒ کے کہ بدعت زہر ہے، چاہے اچھی کہہ لو یا بُری۔ جب بدعت کا بیج بویا جاچکاتھا لیکن کسی نے محسوس نہیں کیا اور جب یہ چیزیں ایجاد ہونی شروع ہوئیں، اگر اُس وقت کے علما نے اِس بدعت کو بھانپ لیا ہوتا تو شائد اس کی جڑ کٹ جاتی۔ مگر اب وہ بیچ اُگ کر ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اس کے زہریلے پتے اور پھل گھر گھر اپنا اثر دکھارہے ہیں۔ اُس وقت یہ بدعت سانپ کا بہت چھوٹا سا رینگتا ہوا بچہ تھا، اب بڑا ہوکر یہ ایک ایسا ازدھا بن چکا ہے جو پورے معاشرے کو ڈس چکا ہے۔ اماموں کے زمانے میں تو یہ بھی تصور نہیں تھا کہ بت پرستی کے عالمی مرکز ہندوستان میں کروڑوں مسلمان پیدا ہوجائیں گے، اور بجائے نبیﷺ کے نکاح کے طریقے کو قائم کرنے کے، مشرک سماج کے بھگوانوں کی شادیوں کے طریقے کو اپنالیں گے۔جب اُس دور میں اِس بدعت کا تصور ہی نہیں تھا تو وہ فقہا لکھتے ہی کیسے؟ اس لئے ہر مسلک کو نئے دور کے ان فتنوں کو بدعت کہنے میں تردّد ہے،یہی وجہ ہیکہ ان اماموں کے سچے مقلد ِان رسوماتِ شادی کو مباح کہنے پر مجبور ہیں۔جہیز اور بارات کے بدعت ہونے کا ثبوت
۱۔ غیر قوم کی نقل حرام ہے۔ 
حدیث: من تشبہ بقوم فھو منھم یعنی جو جس قوم کی نقل کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔(سنن ابوداؤد، کتاب اللباس 4031)۔  منگنی، سانچق، منڈا، مبارکہ، پھول سہرے وغیرہ رسول ﷺ کی سنت نہیں بلکہ مہارانی جودھابھائی کی قوم کی نقل ہیں۔جہیز رامچندر سیتا کی اور بارات کا کھانا لارڈ شیوا پاروتی کی شادی نقل ہے۔ ایسی کوئی خرافات سیرت رسولﷺ یا ان کی صاحبزادیوں، نواسوں یا اہم صحابہؓ کی شادیوں میں نہیں تھیں تو پھر بھی مولوی یا مرشد اگر ان کو جائز کرنے کی جسارت کررہے ہیں تو یہ لوگ بہت بڑی بدعت کو رواج دے رہے ہیں۔ 
۲۔ یایھاالذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (بقرہ) ائے ایمان والو؛ اپنا مال ایک دوسرے کے بیچ باطل طریقے سے یعنی دھوکہ اور جھوٹ کہہ کر مت کھاو۔ 90% لوگ بیٹی کو محض ایک سوشیل بلیک میل سے بچانے کے لئے جہیز اور کھانوں کا انتظام کرتے ہیں، کہتے ہیں ہم خوشی سے کررہے ہیں، لڑکے والے کہتے ہیں ہم نہیں مانگے، لڑکی والوں نے خوشی سے دیا۔ ”خوشی سے“ کا حیلہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ مجبوری اور دباو میں جو پیسہ خرچ ہورہا ہے، اس کو خوشی سے کہنا کیا ایک دھوکہ اور جھوٹ نہیں ہے؟ 
۳۔ الرّاشی والمرتشی فی النار :  رشوت کا دینے والا اور لینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔ (امام احمد، ترمذی، طبرانی)۔ اگرسرکاری افسر کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تو وہ آپ کا کام نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر لڑکے کو معقول جہیزاور کھانا نہ دیا جائے تو وہ آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کرے گا۔ کیا یہ ایک رشوت نہیں ہیں؟ نوکری اور تنخواہ اگر اچھی ہو، گھر ذاتی ہو تو کیا ایسے لوگ معیاری شادی نہیں مانگتے؟ گویا رسول اللہ ﷺاور صحابہؓ کی شادیاں معیاری نہیں تھیں، ورنہ یہ لوگ کہتے کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کی شادیوں جیسی شادی چاہئے۔ 
۵۔ ”ولاتبذروا ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین“ (سورہ بنی اسرائیل 24)یعنی تبذیر ہرگز نہ کرو، کیونکہ تبذیر کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں“۔تبذیر کے معنی ہیں ایک چیز جس کی ضرورت ہی نہیں ہے اس کی ضرورت پیدا کرلینا اور اس پر فضول خرچی کرنا۔  نکاح اور ولیمہ کا شریعت میں حکم موجود ہے اس لئے یہ ضرورت ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی ضرورتیں ہیں جیسے منگنی، پاونمیس، سانچق، منڈا،  اُبٹن، مبارکہ، شادی کے دن کا کھانا، جہیز، عالیشان مہنگا ولیمہ وغیرہ ضرورت نہیں، لیکن ان کو ضرورت بنالینے کے لئے لوگوں کے پاس ایک لاکھ بہانے ہیں۔لاک ڈاؤن ایک مثال ہے لوگوں نے کئی رسومات کے بغیر شادیاں کیں اور پتہ چل گیا کہ ان ہندوؤانہ رسموں کے بغیر نکاح بالکل ہوسکتا ہے۔ اس لئے شریعت ان تمام ضرورتوں کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ اب لوگ ارمان کے نام پر یا سسٹم کے نام پر یہ کرتے ہیں تو یہ فضول خرچی حرام ہے، 
   
نبیﷺ، صحابہؓ اور تابعین کس طرح اِ ن بدعت والی دعوتوں کا بائیکاٹ کرتے تھے
۱۔  نبیﷺ ایک بار بیٹی فاطمہؓ کے گھرکھانے کی دعوت پرگئے، اندر پردے پر کوئی نقش نظرآیا، فوری واپس پلٹے، حضرت علیؓ جب منانے دوڑے تو فرمایا ”نبی کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں زیبائش و آرائش ہو۔ (سنن ابوداؤد 3755، ابن ماجہ 3360، مسند احمد 220-222)
۲۔ حدیث: نھی النبی ﷺ عن طعام المتباریین۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں ”مقابلہ کرنے والوں کی دعوت میں جانے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے“۔  (سنن ابوداؤد 3193)
۳۔ حدیث: من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا تقعد علی مائدہ تدارعلیھا الخمر۔ جو بھی اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ ایسے دستر پر نہ بیٹھے جہاں شراب مہیا کی جارہی ہو۔ (مسند احمد، اسلام میں حلال و حرام از یوسف قرضاوی)۔ تحقیق مناط کے استنباطی اصولوں کے مطابق صرف شراب کی دعوت نہیں بلکہ ہر ایسی دعوت جہاں تبذیر یعنی فضول خرچی ہو۔ فضول خرچی حرام ہے دلیل یہ ہے کہ ”ولا تبذروا اِنّ المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین“۔ فضول خرچی نہ کرو بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ تبذیر کے اصل معنی جس چیز کی ضرورت نہ ہو وہ ضرورت پیدا کرنا ہے۔ منگنی، سانچق، بارات، مبارکہ، منڈا، جمعگی، سالگرہ، چہلم، برسی، روزہ رکھائی، روزہ افطاری، جشنِ عقیقہ، بسم اللہ، نومولود کی نام رکھائی، وغیرہ تبذیر ہیں۔ ان کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ضرورت پیدا کرلی جاتی ہے، اور اتنی اہم ضرورت بنالی جاتی ہے کہ اس کے لئے لوگ قرض بھی مانگتے ہیں۔ ایسی دعوتوں میں شرکت جائز اس لئے نہیں کہ جب ایسی دعوتوں میں کوئی دوسروں کے گھر جاکر کھاتا ہے تو اس پر بھی یہی بدعات اپنے گھر بھی کرنے کا ایک قرض ہوجاتا ہے، اس طرح استطاعت رکھنے والے تو چند ہوتے ہیں، باقی لوگ محض دکھاوے اور رسم ورواج کی خاطر اپنی اکنامی خراب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اسی کے نتیجے میں غربت، افلاس، بیروزگار، وغیرہ عام ہوجاتے ہیں۔ 
 ۴۔ ابووائل ؓ نے ایک دعوت میں لہوولعب یعنی گانا بجانا دیکھا، فوری واپس لوٹ گئے اورفرمایا ”گانا دلوں میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ (عون المعبود، شرح سنن ابو داؤد کتاب الادب)
۵۔ امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں ”لا ندخل ولیمۃ فیھا طبل والامعزات۔ یعنی ہم کسی ایسے ولیمہ میں داخل نہیں ہوتے جہاں طبلہ اور سارنگی ہوتے ہیں۔ (آداب الزفاف الشیخ البانی صفحہ 166 ترجمہ مبشر احمد ناشر جماعتِ اسلامی ہند)۔ یہاں ولیمہ مخصوص نہیں ہے۔ چونکہ اسلام میں ولیمہ کے علاوہ کوئی اور کھانے کا وجود ہی نہیں اس لئے اُس دور میں دعوت صرف ولیمہ کی ہوتی ہے۔ آج اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دعوت چاہے شادی کے دن کی ہو یا منگنی کی یا کوئی بھی دعوت جس میں موسیقی، ناچ گانے، قوالی، آرکسٹرا اور ڈی جے وغیرہ ہو۔ 
۶۔ عبداللہ بن عمرؓ نے ایک ولیمہ کی دعوت میں دیواروں پر پردے دیکھے۔ میزبان کو ڈانٹ کر پوچھا ”تو نے مکہ کو گھر لا کر کب سے بسا لیا ہے؟ ساتھیوں کو پردے پھاڑ دینے کا حکم دیا اور فوری واپس نکل گئے۔ (فتح الباری)اسی طرح ایک صحابیؓ کو کسی نے بچے کی ختنہ کی خوشی میں دعوت دی۔ انہوں نے فرمایا ہم نے نبیﷺ کے دور میں کبھی کوئی ایسی دعوت نہ دیکھی اور نہ کھائی، یہ بدعت ہے۔ (فتح الباری)
۷۔ حذیفہ بن الیمان نے ایک ولیمہ کی دعوت میں غیراسلامی کپڑے نوٹس کئے اور یہ کہہ کر فوری واپس پلٹ گئے کہ ”جو جس قوم کی نقل اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار کیا جائیگا۔ (اقتضا الصراط المستقیم از ابن تیمیہؒ مقدمہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ)
۸۔ ابوایوب انصاری ؓ حضرت سالم ؓ کی دعوت میں گئے اور وہاں دیواروں پر ڈیکوریشن کے طور پر پردے دیکھے۔ واپس ہونے لگے، سالمؓ نے فرمایا”یہ عورتوں کے اصرار پر لگایا“، ابو ایوب انصاریؓ نے فرمایا”میں تم سے یہ توقع نہیں کرسکتا تھا (یعنی تم بھی عورتوں کی باتوں میں آجاؤگے)، میں تمہارا کھانا نہیں کھا سکتا“، یہ کہہ کر بغیر کھائے واپس لوٹ گئے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
۹۔ احمد بن حنبلؒ نے ایک دعوت میں کرسیوں پر چاندی کی سجاوٹ دیکھی، فوری واپس پلٹے، میزبان نے روکنے کی کوشش کی تو ایک تھپڑ رسید کیا اور فرمایا ”زی المجوس، زی المجوس“ یعنی یہ مجوسیوں کا چلن ہے۔ (اقتضا الصراط المستقیم از ابن تیمیہؒ مقدمہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ)
۰۱۔ حضرت عمران بن حصینؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاسق (کھلے طور پر احکامِ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والے) لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، 376)
۰۱۔ مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ نظامیہ 21 سپٹمبر 2011 کے روزنامہ سیاست میں مذہبی صفحہ پر ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ”دعوتِ ولیمہ قبول کرنا سنّتِ موکّدہ ہے بشرطیکہ اس میں لغویات، لہوولعب اور منکرات نہ ہوں۔ اگر پہلے سے علم ہوتو بائیکاٹکریں، دعوت میں داخل ہونے کے بعد علم ہو تو فوری واپس پلٹ جائیں“۔(بحوالہ شامی، کتاب الحظروالاباحہ، صفحہ 241)۔ 
اور ایسے کئی واقعات موجود ہیں، لیکن مضمون طویل نہ ہوجائے اس لئے درخواست کرتے ہیں کہ اس پر ہمارا مفصل کتابچہ ”غیرشرعی تقاریب کا بائیکاٹ۔ ایک جہاد“ ہم سے طلب کیجئے۔ 

مباح کی تعریف: 
۱۔ ایسا عمل جس کو فقہی اعتبار سے انجام دینا یا ترک کرنا دونوں برابر ہیں۔ 
۲۔ ایسا عمل جس کے کرنے پر نہ ثواب ہے اور نہیں کرنے پر کوئی سزا نہیں۔
۳۔ ایسا عمل جس کے متعلق کوئی واجب، حرام، مستحب یا مکروہ کا حکم وارد نہیں ہوا ہے۔ یعنی ایسا عمل جو شرعاً حلال ہو نہ حرام، واجب ہو نہ مکروہ۔
۴۔ ایسا عمل جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا لیکن منع بھی نہیں کیا۔(یہی وہ دلیل ہے جو شادی کی خرافات کو جائز کرنے کے لئے دی جاتی ہیں، جب کہ اس دلیل کی بھی کوئی دلیل نہیں) 
شرائط: علما نے مباح کے جائز ہونے کے لئے بھی شرطیں رکھی ہیں جیسے ایسا عمل جو شریعت سے نہ ٹکرائے وہی مباح ہوسکتا ہے۔ جیسے لذیذ کھانے، نفیس کپڑے یا اچھے بنگلے میں رہنا، ہوائی جہاز یا ٹرین میں بیٹھنا۔ قرآن میں بھی مباح کی شکلیں موجود ہیں جیسے لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم، (سورہ بقرہ198) یعنی اگر تم حج کے سفر میں تجارت کے ذریعے اللہ کا فضل تلاش کرو تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔مطلب یہ کہ حج کے سفرمیں تجارت کرنا نہ فرض ہے نہ سنت، نہ واجب نہ مستحب اور نہ منع ہے۔ نہ تو کرنے پر ثواب ہے اور نہ نہیں  کرنے پر گناہ۔  
دوسری اہم شرط یہ ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح یعنی Priorityنہ ہو۔ اگر ترجیح پر اصرار ہوگا تو یہ بدعت ہے۔اللہ کے نبیﷺ نے کئی کام کبھی کئے کبھی نہیں کئے جس کی بہترین مثال تراویح ہے۔لیکن ان کاموں کو ترجیح دے دینا، یعنی اس کو مستقل سنت بنادینا یا بالکل ہی نظرانداز کردینا، ان دونوں صورتوں میں ضد بدعت ہے۔ جیسے حج کے سفر میں تجارت مباح ہے، یعنی ہر شخص تجارت کرے یہ لازم نہیں ہے۔یہ مستحب بھی نہیں۔ لیکن اگر کوئی تجارت کرنے پر زور دے یا کوئی تجارت نہ کرنے پر اصرار کرے تو پھریہ بدعت ہے۔ اسی ترجیح کے ضمن میں عامرعثمانیؒ ”بدعت کیا ہے“ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام بخاریؒ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے،لیکن ان کی بیان کردہ احادیث میں بکثرت وہ روایات بھی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ناف پر بھی باندھتے تھے۔ تو پتہ یہ چلا کہ دونوں عمل صحیح ہیں۔ لیکن جب لوگوں نے سینے پر ہی ہاتھ باندھنے یا ناف پر ہی ہاتھ باندھے کو ترجیح دینی شروع کی تو پھر یہ ایک ضد بن گئی، جس کے نتیجے میں مسجدوں کو الگ کرنے کی بدعت کا آغاز ہوا۔ صرف ہاتھ باندھنا ہی اصل وجہ نہیں بلکہ بے شمار وہ چیزیں تھی جن کی اصل سنت میں موجود تھی۔ لیکن لوگوں نے اپنی اپنی ترجیحات کو ہی اصل دین بناکر پیش کرنا شروع کیا اور اسی کی وجہ سے نئے نئے مسلک بنتے چلے گئے، فرقہ واریت پیدا ہوئی اور اسی میں شدّت پسندی وجود میں آئی۔لیکن ہر ہر فرقہ اپنے اپنے مسلک اور گروہ بندی میں خوش اور مطمئن ہوگیا کہ بس وہی 73واں فرقہ ہے، باقی سب 72 میں سے ایک ایک ہیں۔ ”من الذین فرقوا دینھم و کانوا شیعا کل حزب بما لدیھم فرحون“ (سورہ روم) ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا او ر خود گروہ بن گئے، ہر گروہ اس فرقہ بندی پر خوش ہے“۔سوال یہ ہے کہ کیا فرقہ بندی بدعت نہیں ہے،جو دین میں محض ترجیحات پیدا کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں؟  
مباح کے معاملے میں ترجیح دینے کے عمل نے پورے دین کو الٹ کر رکھ دیا۔ مثلاً شادی کا کھانا یا جہیز۔ اصول یہ ہے کہ اگر کوئی دلہا کی طرف سے آنے والے دس پندرہ مہمانوں کی ضیافت کردے یابیٹی کو خوشی سے کچھ سامانِ جہیز دے دے تو اس میں کوئی برائی نہیں، یہ مباح تو ہوسکتا ہے، اور اگر کوئی ضیافت کرنا نہیں چاہے، اور کوئی جہیز کا سامان بھی نہ دے تواس میں بھی کوئی برائی نہیں، یہ بھی مباح ہے۔ لیکن اگر جہیز اور کھانے کو اتنی زیادہ ترجیح یعنی Priority دے دی جائے کہ سو شادیوں میں ۹۹ شادیوں میں یہ لازمی ہوجائے، اور یہ سب نہیں کرنے والوں کی بیٹی کی شادی مشکل ہوجائے  تو اس صورت میں اکثریت کی طرف سے کھانے اور جہیز کو لازمی کرلینا ایک کھلی بدعت ہے۔

 کیا جہیزِ فاطمی مباح ہے؟
لوگ اکثر اس جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ ؓ کو جہیز دیا تھا، اور ایسے ہی لوگوں نے اِس ”جہیزِ فاطمی“ کی اصطلاح گھڑی۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے واقعی جہیز دیا ہوتا تو اس عمل کو مباح کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے سنت کہا جاتا۔ بعض مولوی تو یہ بھی کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ”جہیز یا کھانے کا ”مطالبہ“ کرنا حرام ہے“ مطالبے کے بغیر اگر کوئی دے رہا ہے تو یہ مباح ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں نکاح کو آسان کرنے کی جو مہم چلائی جارہی ہے اور ایک اقرار انامہ لیا جارہا ہے اس میں شِق اول میں ہی ”خوشی سے دینے اور لینے“کا چور دروازہ کھولا گیا ہے۔ لکھا ہے کہ میں ”نکاح کو آسان بنائیں گے جہیز کے مطالبہ۔۔۔۔ سے پرہیز کریں گے“۔ کیا اِ س کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ مطالبہ نہیں کریں گے، لیکن جو آرہا ہے وہ آنے دیں گے؟ اگر یہ مطلب مقصود نہیں تھا تو پھر یہ لکھا جانا چاہئے تھا کہ ”جہیز ہرگز قبول نہیں کرینگے، اگر پھر بھی کوئی اصرار کرے تو ہم شادی سے انکار کردیں گے اور دوسری لڑکی ڈھونڈھیں گے“۔ اسی حلف نامے میں شادی کے دن کے کھانے کی بھی گنجائش نکل آتی ہے جب کہ یہ بدعت ہے۔ اگر پانچ دس لڑکے والے آتے ہیں اور ان کو کچھ کھلایا جاتا ہے تو یہ ضیافت شائد جائز بھی ہو، لیکن اگر دلہا والے اپنے ساتھ ایک قافلہ لے کر آئیں تو اس کی شریعت میں کوئی اجازت نہیں، اگر کوئی اسے مباح قرار دیتا ہے تو شریعت کے کس باب سے؟ 
جو لوگ جہیز کو مباح کہتے ہیں، وہ یہ بتائیں کہ جہیزِ فاطمی سے پہلے ”مہرِ علی“ آیا یا پہلے جہیزِ فاطمی بھیجا گیا؟ حقیقی واقعہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے پہلے اپنی ذِرہ بیچی اور مہر کی رقم ادا کی، اسی رقم سے بعد میں نبی ﷺ نے کچھ سامان منگوایا۔ جہیز کو مباح کہہ کر ہضم کروانے والے مولوی یہ تو بتائیں کہ مباح کا حکم زیادہ اہم ہے یا واجب کا؟ واجب تو مہر تھا۔ نبیﷺ کا کوئی نکاح اُدھار مہر پر نہیں ہوا۔جس طرح علیؓ نے اپنی ذرہ بیچی، اسی طرح آج کا دلہا پہلے اپنا موبائیل، بائیک یا کار یا گھر بیچ کر مہر ادا کرے پھر جہیز مانگے تو شائد یہ مباح ہو۔ اپنے ضمیر سے پوچھئے کہ واجب چیزیعنی مہر کو اُدھار کرکے مباح چیزیعنی کھانا اورجہیزکو نقد وصول کرنا، گیارہ ہزار مہر باندھ کر گیارہ لاکھ کی شادی کروانا،کیا مباح ہوسکتا ہے؟ وہ مولوی جنہوں نے پہلی بار امت کو اُدھار مہر کی اجازت عطا کی انہیں اجازت کس نے دی کہ وہ شریعت کے فیصلے خود کریں؟اگرچہ کہ مہر کو اُدھاررکھنے کی گنجائش قرآن میں بھی موجود ہے  اور سیرت صحابہؓ میں بھی، لیکن مہر ادھار رکھ کرلڑکی والوں سے جہیز اور کھانے نقد وصول کرنے کی ایک بھی مثال نہ قرآن میں ہے نہ سیرتِ صحابہؓ میں۔ اس لئے یہ کھانے اورجہیز مباح نہیں سراسر بدعت ہیں۔اور ان دعوتوں میں شرکت کرنے والے ان بدعت کے حاملین کی پرورش کرنے والے ہیں۔ 

شادی کے دن کاکھانا بدعت کیوں ہے؟
اگرچہ کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر ولیمہ اگلے ہی دن ہوا، یہ مسنون ہے۔ فقہی احکام میں اس کا درجہ مسنون کا ہے،جس کا وقت سنت موکّدہ نہیں۔ ایجاب و قبول ہوجانے کے بعد ولیمہ فوری بھی کھلایا جاسکتا ہے، بعد میں بھی۔ اور یہ بھی حکم ہے کہ یہ استطاعت کے مطابق کیا جائے۔ سنّت ہی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن سنّت کی اتباع کی آڑ لے کرخلافِ سنّت سینکڑوں مہمانوں کا ولیمہ اگلے دن مقرّر کرنا اور شادی کے دن لڑکی والوں سے کھانا لینے کی ایک ایک نئی رسم ایجاد کرنا، یہ صرف ہندوستان (جس میں کل تک پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے) کے مولویوں کی کارفرمائی ہے۔ وہ اِس طرح سے کہ انہوں نے اجازت دی تب ہی تو ہی یہ رسم آگے بڑھی۔ اس کا آغاز اکبراعظم سے ہوا۔ جب وہ راجپوت شہزادی مہارانی جودھا بائی کو بیاہ کر لایا، تو مہارانی راجپوتوں کی وہ تمام رسمیں لے کر آئی جو مسلمان معاشرہ میں مروّج ہوگئیں۔ لوگوں نے سرکاری مولویوں سے اس شادی کے ہنگاموں کا شرعی جواز پوچھا تو مولوی پریشان ہوگئے اور بڑی چالاکی سے ان رسموں کو اسلامیانے یعنیIslamise کرنے کی ترکیب نکالی۔چونکہ رسول اللہ ﷺ نے تحفے دینے کی تلقین فرمائی ہے لہذا اس کو جواز بناکرمولویوں نے اِس جوڑے کی رقم، ہُنڈا،  جہیز اور سلامی کا جواز نکا ل کر پیش کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کو مہمان نوازی اور ضیافت کرنا پسند تھا اس لئے اس کو جواز بنا کر منگنی، بارات، مبارکہ، سانچق، منڈے، جمعگی، چوتھی وغیرہ کے کھانوں کو جائز کردیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ چلن بادشاہ سے وزیروں، پھر نوابوں، رئیسوں،افسروں کے گھروں میں آیا پھر عام انسانوں میں تیزی سے عام ہوتا گیا۔ اکبر تو نہیں رہا لیکن وہ مولوی آج بھی زندہ ہیں، جو یہی فتوے دے کر شادیوں کی خرافات پر خرچ کرنے کا جواز پیش کرکے قوم کو غربت و افلاس کے گڑھوں میں دھکیل رہے ہیں۔ کیونکہ جو شخص شادیوں پر بے انتہا خرچ کرتا ہے وہی کچھ مولوی حضرات کے مدرسوں کو زکوٰۃ و خیرات بھی دل کھول کر دیتاہے۔ اب ایسے محسنوں کی شادی کے کھانے یا جہیز کو ناجائز کہہ کر کوئی مولوی اپنی آمدنی کا ذریعہ تو بند نہیں کرسکتا۔ یقیناً سارے مولوی ایسے نہیں ہوتے، لیکن اکثریت کے چلن کو دیکھ کر باقی سب خاموش رہتے ہیں۔ 

ایسی شادی میں تعاون کرنے والے کون کون ہیں 
قرآن کا حکم ہے کہ”تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (سورہ مائدہ 2) یعنی اہلِ ایمان کو حکم ہے کہ صرف نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ہرگز تعاون نہ کرو۔ 
ہمارے بزرگوں نے بنک، انشورنس، شراب، جوّے کو ہی حرام قرار نہیں دیا بلکہ اس میں تعاون کرنے والوں، ان میں ملازمت کرنے والوں اور ان کاروبار کے لئے اپنی جگہیں کرائے پر دینے والوں،  اِن تمام کی آمدنی اور تنخواہوں کو بھی حرام قرار دے دیا تھا۔ حتیٰ کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے داڑھی منڈھانے کو ہی حرام نہیں کہا بلکہ داڑھی مونڈھنے میں تعاون کرنے والے حجام کی آمدنی کو بھی حرام قرار دیا ہے۔اسی طرح آج کی شادیوں میں تعاون کرنے سب سے پہلے وہ ہیں جو ایسی شادیوں کا دعوت نامہ قبول کرتے ہیں، اور شرکت کرتے ہیں۔ بعض تو رقعہ لے لیتے ہیں لیکن شادی میں نہیں جاتے۔ یہ عمل خود اس حرام کو مضبوط کرنے والا ہے جس کو آپ روک تو نہیں رہے ہیں بلکہ ایک خاموش تائید عطا کررہے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم صرف مسجد میں نکاح میں شریک ہوتے ہیں یا صرف ولیمہ میں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ ایک بدعتی کی پوری شادی کی کئی رسموں اور تقریبات میں سے ایک یا دو میں ساتھ دینا پوری شادی کی تصدیق کرنا ہے۔ سوال صرف ایک یہ ہے کہ کیا آج کی مہنگی شادیاں جائز ہیں یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہیں تو پھر بنک، انشورنس اور شراب کے کاروبار میں ساتھ دینے والوں کی طرح ان شادیوں کے رشتے لگانے والے، جاکر کھانے والے، فوٹوز اور ویڈیوز والے، کیٹرنگ یعنی پکوان کرنے والے،وہ اخبار والے جو اِن شادیوں کی تصویریں شائع کرتے ہیں، ایسی شادیوں کا نکاح پڑھانے والے قاضی، ایسے نکاح کے موقع پر تقریریں کرنے والے مولوی،کیا یہ سارے ساتھ دینے والے ایک حرام اور بدعت کو مضبوط کرنے میں تعاون کرنے والے نہیں بن رہے ہیں؟       
اسلام میں شادی کا کھانا صرف ایک ہے، اور وہ ہے ولیمہ۔ 
ولیمہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ پہلے دن کرنا حق ہے دوسرے دن نیکی اور تیسرے دن دکھاوا۔ (ترمذی)۔ چونکہ دورجہالت میں کئی کئی دن کے ولیمے ہوتے تھے لیکن اس جاہلانہ اور مشرکانہ دور میں بھی کھانا صرف مرد کھلاتا تھا۔ لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانے کی کوئی مثال دورِ جہالت میں بھی نہیں ملتی سوائے ہندوستان کے بت پرست مشرک معاشرے کے۔ اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی یہ رسم اپنائی، اور ولیمہ کو اگلے دن سنّت کے نام پر برقرار رکھ کر نکاح میں ایک نئے کھانے کا اضافہ کردیا، وہ ہے رخصتی کے دن کا کھانا۔ اس لئے یہ بدعت ہے۔مولویوں نے دعوت قبول کرنے کے  احادیث کو پیش کرکے ان میں شرکت کا جواز بھی پیش کردیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ دعوت جس مقصد سے ہورہی ہے آیا وہ سنّت ہے یا بدعت؟ شادی کے دن کے کھانے کے جو بچکانہ جواز پیش کئے جاتے ہیں وہ پیچھے حیلے بہانوں کے باب میں بیان ہوچکے ہیں جیسے:   
”مہمانوں کو بغیر کھلائے کیا خالی پیٹ واپس بھیج دیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے مہمانوں کی ضیافت کا حکم نہیں دیا ہے؟“۔ یہ وہی حیلہ بازی ہے جو یہودیوں میں عام تھی، ہمارے علما کی اکثریت اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ بدعت ہے، لیکن پھر بھی کیوں خاموش ہے، یہ آ پ کی ذمہ داری ہے کہ ان سے پوچھیں۔ جب نکاح کے موقع پر مہمانوں کو جمع کرنے کا حکم ہی نہیں ہے تو پھر نکاح کے دن سینکڑوں مہمانوں کو جمع کرنے کا جواز کیا ہے؟ نکاح کی محفل ایک پرائیوٹ معاملہ ہے۔ عبدالرحمان بن عوفؓ اور جابربن عبداللہؓ جیسے کئی صحابیؓ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے چہیتے تھے، لیکن وہ مدینہ یعنی رسول اللہ ہی کے شہرمیں نکاح کرتے ہیں اور رسول اللہﷺ کو نہ خبر دی جاتی ہے نہ دعوت۔ اسی طرح خالد بن ولیدؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ بچپن کے دوست ہیں، کئی جنگیں ساتھ لڑے ہیں۔ ایک جنگ کے بعد خالد بن ولید کے خیمے میں ان کا نکاح ہوا، بازو کے خیمے میں سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں انہیں ہی خبر نہیں، کیونکہ اسلام میں نکاح ایک پرائیوٹ معاملہ ہے۔ مجمع جمع کرنا اسلامی روایت نہیں بت پرستوں کی ہے۔ مشرکوں اور راجپوتوں کی طرح نکاح کو ایک جشن اور ہنگامہ آرائی کا بہانہ بنانے کا چلن اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں۔
ایک ہی نشست میں نکاح اور ولیمہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ 
جب لوگ اگلے دن اس اعتماد پر ولیمہ کھاتے ہیں کہ دلہا نے شبِ زفاف کی ذمہ داری یقینا پوری کی ہوگی، حالانکہ دلہا سے کنفرم کوئی نہیں کرتا لیکن پھر بھی انہیں اعتمادہوتا ہے، یہی اعتماد اگر رخصتی سے پہلے ولیمہ ہوجائے تو اُس وقت بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ دلہا شبِ زفاف کی ذمہ داری پوری کرلے گا۔ تو پھر ایک ہی وقت میں نکاح اور ولیمہ ہوجائیں تو بھونڈے اعتراضات کیوں؟ اگر اب بھی مولویوں کا یہ اعتراض ہے کہ کم سے کم کچھ منٹ ایک دوسرے سے تنہائی میں ملے بغیر ولیمہ نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ سنت ہے تو پھریہ بتائیں کہ مہر واجب ہے، سنت میں نقد ہے، لیکن ادھار پر نکاح ہورہا ہے، شادی کے دن کاکھانا سنت میں نہیں ہے مگر ہورہا ہے، ولیمہ سادہ کرنا اور زیادہ سے زیادہ ایک بکری پر کرنا سنت ہے، لیکن اس سے ایک ہزار گُنا زیادہ بڑا ولیمہ ہورہا ہے، ان تمام بدعات کے باوجود بھی آپ ایسی شادیوں میں جانے کو مباح کہہ رہے ہیں، تو ایک ہی نشست میں نکاح اور اسی وقت ولیمہ کا اعلان کردیا جائے تو اس کو مباح کہنے میں کیا اعتراض ہے؟
شبِ زفاف یعنی دلہا دلہن کے ملن سے پہلے کیا ولیمہ ہوسکتا ہے؟
کیا وجہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات ایک پکّے عقیدے کی طرح بیٹھ چکی ہے کہ ولیمہ دلہادلہن کے ملن سے پہلے جائز ہی نہیں ہوتا۔ اسی دن اور اسی وقت کرنا انہیں عیب کیوں لگتا ہے۔ مرد حضرات تو مان بھی جاتے ہیں، لیکن ان کی عورتیں ہرگز نہیں مانتیں۔ دراصل مولویوں نے ولیمہ ملن سے پہلے نہ کرنے کے اتنے فضائل و احکام بتائے ہیں کہ اس کو عقیدہ بنالینا ایک نیچرل بات ہے۔ حالانکہ شبِ زفاف کے بعد ولیمہ مسنون ہے، لیکن علما کی نزدیک فرض یا واجب یا موکّدہ نہیں ہے۔کیا وجہ ہے کہ پوری شادی کی تقریبات میں کئی ایک سنّتیں پامال ہورہی ہیں، جس پر مولوی خاموش ہیں، وہاں نہ نکاح کو فاسد کہتے ہیں نہ باطل۔ جیسے ادھار مہر، گیارہ ہزار تا ایک لاکھ کا مہر لیکن گیارہ لاکھ کے جہیز، بارات کا کھانا، جوڑے کی رقم، ولیمہ میں سینکڑوں کا ہجوم، سلامی، پٹاخے، ناچ گانے وغیرہ۔ ان چیزوں کو وہ برا نہیں کہتے لیکن اس انداز سے نہیں کہتے کہ لوگ ان کو کرتے ہوئے کراہیت محسوس کریں، لیکن اگلے دن ولیمہ کی سنت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سننے والا عقد کے موقع پر اگر ولیمہ کرنے کا اسے مشورہ دیا جائے تو وہ کراہیت محسوس کرتا ہے۔ 
 اگر کوئی نبیﷺ کی محبت میں ان ہی کے طریقے پر اگلے دن ولیمہ کررہا ہو تو یہ محبت اسی وقت قابل اعتبار ہے جب نکاح کے بعد نہ وہ کوئی کھانالے اور نہ جہیز لے،  نقد مہر ادا کرے،اور نہ لڑکی والے اورنہ لڑکے والے اپنے اپنے پچاس یا سو مہمانوں کے لئے الگ الگ کھانوں کا انتظام کرکے فضول خرچی کریں، مسجد یا گھر میں نکاح ہو، پانچ دس افراد کے ساتھ دلہن اپنے گھر لالیں اور اگلے دن ولیمہ ہو تو یقینا نبیﷺ سے محبت کا دعویٰ صحیح ہے بلکہ قابلِ تعریف ہے۔ لیکن سنت کے نام پر اگلے دن ولیمہ رکھ کر شادی کے دن لڑکی کے والدین سے خوشی سے جہیز اور کھانا لینے کی بدعت ایجاد کرنا نبیﷺ سے محبت کے نام پر ایک ڈرامہ بازی اور جھوٹ ہے۔
اب مولوی یہ بتائیں کہ شادی کے دن کے کھانے کی بدعت ایجاد کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے یا اسی وقت ولیمہ کردینا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی وقت ولیمہ کرنے سے اور بھی کئی خرافات بلکہ منکرات اپنے آپ ختم ہوجاتی ہیں۔ وہ اس طرح سے کہ اگر نکاح اور ولیمہ کو الگ الگ کردیا جائے تو دو دو الگ الگ ڈریسس کے خرچے، صرف دلہادلہن کے ڈریسس نہیں بلکہ پورے خاندان کے۔ دو الگ الگ وقت کے بیوٹی پارلرکے خرچے جو صرف دلہن کے نہیں بلکہ دلہادلہن کے مائیں، بہنیں اور تمام قریب ترین عورتوں کے ہوتے ہیں۔دو الگ الگ وقتوں میں آنے والوں کے وقت کا اسراف، پھر دلہا کا دعوت میں تاخیر سے آنا، آدھی رات تک وقت کی بربادی۔اگر مغرب بعد نکاح اور عشا بعد ولیمہ ہوجائے تو یہ کہیں زیادہ بہتر ہے اگلے دن کے ولیمہ سے۔ اس کی مزید تفصیل آگے پیش کی جارہی ہے۔ 
اصل بدعتی لڑکی والے
شادی کے دن کے کھانے پر اصرار اکرنے والے زیادہ تر لڑکی والے ہوتے ہیں، جنہیں اِس بدعت کو قائم رکھنے کی ضد ہوتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کو فاطمہؓ کی طرح رخصت کرنا نہیں چاہتے بلکہ سیتا اور پاروتی کی طرح رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں حضرت فاطمہ ؓ یا امہات المومنینؓ کی مثال بھی دیں تو وہ آپ کا صرف مذاق ہی نہیں اڑاتیں بلکہ آپ کو اپنا مخالف سمجھ کر غصے سے جواب بھی دیتی ہیں۔حاصلِ کلام یہ ہے لڑکی والے ولیمہ کی سنّت کو قائم کرنے کے راستے کی رکاوٹ ہیں جو محض اپنی بیٹی کا سسرال والوں پر رعب قائم رکھنے کے لئے رخصتی کے دن ایک نئے کھانے کی بدعت پر اصرار کرتے ہیں۔لڑکے والوں کے انکار کے باوجود وہ اپنے خاندان میں شان کی خاطر ضد کرتے ہیں۔ ان کی ضد کے آگے ہتیار ڈال دیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اُن کی طرف بھی کئی بھوکڑ ہوتے ہیں جو کھانے کا سوال اٹھاتے ہیں، اس لئے لڑکی والوں سے پانچ چھ سو مہمانوں کی دعوت کے راشن کارڈ اپنے لوگوں میں شان سے تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ 
لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ لڑکی والوں کو کچھ نہیں کہتے، صرف لڑکے والوں کو ہی مجرم سمجھتے ہیں۔ یہ سارا قصوراُس سسٹم کا ہے جس کے بنانے والے لڑکے والے اور لڑکیاں والے دونوں ہیں۔ قدم قدم پر دونوں نے دین کی نافرمانی کی اور نئی بدعتیں ایجاد کرکے سسٹم کو مکمل برباد کرڈالا۔ مثلاً:
۱۔ لڑکیوں کی تعلیم: اللہ کے نبیﷺ کا فرمان تھا کہ بالغ ہونے کے بعد اگر کفو مل جائے تو پہلے نکاح کرو۔ یعنی ایجوکیشن، کیرئیر اور Well settled ہونا اس کے بعد ہے۔ لیکن ہم نے یہ حکم الٹ دیا اور ایجوکیشن اور کیرئیر کو پہلے نمبر پر کردیا، اب لڑکا ہو یا لڑکی، 30 سال سے پہلے شادی نہیں کرپاتے۔ 
۲۔ لڑکی والوں کو جب معلوم ہے کہ انہیں جہیز اور کھانوں پر خرچ کرنا ضروری ہے تو پھراُنہیں اتنا پیسہ اِنویسٹ کرنے سے پہلے کیا خرید رہے ہیں، اِس کا اچھی طرح اطمینان بھی کرلینا ضروری ہے۔پہلے مرد کی حیثیت خریدار یعنی Buyer کی تھی، اب خریدار لڑکی والے ہیں، اس لئے وہ لڑکے کا ذاتی گھر، پروفیشن، کمائی، رکھ رکھاو سب دیکھ کر داماد پر اِنویسٹ کرتے ہیں۔ پھر اگر وہ مناسب نہ نکلے تو اس پر 498A بھی لگواتے ہیں۔ کوئی لڑکی والے یہ نہیں چاہتے کہ شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد ان کی لڑکی ساس سسر نندوں یا دیوروں کی نوکرانی بن کر خدمت کرے۔ اگریہ مرد اور خود ان کے باپ اور دادا خود اپنی شادیاں سنّت پر لڑکی والوں سے ایک روپیہ بھی خرچ کروائے بغیر کرتے تو ان کی مرد نسلوں کو آج یوں ذلیل نہ ہونا پڑتا۔ 
۳۔آپ کے دادا اور نانا کے زمانے تک دادا یا نانا ایجوکیٹیڈ ہوتے اور دادیاں اور نانیاں مشکل سے میٹرک ہوتیں۔ لیکن شادیاں ہوجاتیں اور خوشحال زندگی گزرتی۔ جب مرد ایک میٹرک سے بھی کم کی لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی عیب نہیں محسوس کرتا تھا لیکن آج لڑکیاں زیادہ پڑھ رہی ہیں، اور ان کو اپنے سے زیادہ ایجوکیٹیڈ لڑکے کی تلاش ہے۔ وہ میٹرک پاس مرد سے شادی نہیں کرسکتیں۔ چونکہ مردوں میں زیادہ ایجوکیٹیڈ لڑکوں کی بہت کمی ہے، اور جو ہیں ان کی قیمت بہت زیادہ ہے، اس لئے یہ لڑکیاں وینکٹ اور سریش کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں 
۴۔ لڑکی والے جو سب سے بڑی غلطی کررہے ہیں وہ یہ کہ لڑکیوں کو فیمنسٹ بنارہے ہیں۔ جس کے آگے کی نسل کو بہت بدترین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ پہلے لڑکی کی تعلیم کامقصد یہ تھا کہ وہ اچھے اخلاق سیکھے،  بچوں کی تعلیم اور اپنے خاندان کی خوشحالی میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ بٹائے۔ لیکن آج ماں باپ نے لڑکیوں کے دماغ میں پہلے دن سے یہ بٹھایا ہوا ہے کہ ان کو اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے تاکہ اگر کل شوہر مرجائے، بھاگ جائے یا دوسری شادی کرلے تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہ پڑے۔ گویا سرکشی اور بغاوت کے بیج میٹرک اور انٹر سے ہی لڑکیوں کے ذہن میں بو دیئے جاتے ہیں۔ اس لئے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر شوہر ذرا سا گھور کر بھی دیکھے تو بیوی سہم جاتی تھی۔ اب فوری دھمکی پر اتر آتی ہے۔ پہلے شوہر ایک تھپّڑ ماردے تو بیوی ڈر جاتی تھی، اب فوری 100ڈائیل کرتی ہے یا پولیس اسٹیشن اور وکیل کے آفس جاتی ہے۔ اور اگر کسی شریف خاندان کی ہو بھی تو قاضی کے دفتر کو چلی جاتی ہے۔ 
اس بدعت کے نقصانات
۱۔ دو گناہ ایسے ہیں جن کے خلاف یوم قیامت اللہ تعالیٰ نے خود مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک ہے سود اور دوسرے وراثت۔
وراثت کا نظام پامال ہوچکا ہے۔ 
وراثت کے معاملے میں جہیز اور کھانوں کی بدعات نے قوم کو دو ایسے حرام میں مبتلا کردیا ہے کہ اس کے اثرات نسلوں تک جارہے ہیں۔ پہلا حرام یہ کہ باپ اپنی پوری کمائی بیٹیوں کی شادی پر لٹا کر بیٹوں کو کوئی بزنس مین یا اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے انہیں کنگال بنا کر نوکریاں ڈھونڈھنے چھوڑدیتا ہے۔اس سے بیٹوں کی وراثت متاثر ہوجاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ دوسرا حرام یہ ہے کہ جب باپ کا انتقال ہوتا ہے تو جو بھی وراثت  باقی بچتی ہے، بیٹے اپنی بہنوں کو قریب آنے نہیں دیتے، وراثت سے ان کا حق مار دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اِس جہیز اور کھانوں کی بدعت نے نہ صرف وراثت کے نظام کو تباہ کردیا، اور نہ صرف بیٹوں بیٹیوں اور ان کی اولادوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی رنجشیں پیدا کردیں۔ ان شادیوں پر فضول خرچی کی وجہ سے جو پیسہ بیٹوں اور دامادوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرسکتا تھا، وہ کھانوں اور  شادی خانوں پر چلا گیا اور بیٹے اور داماد کنگال کے کنگال رہ گئے۔ 
کھانوں اور جہیز کے لئے سود پر پیسہ لانا عام ہوگیا ہے
جہاں تک سود کا معاملہ ہے، کون نہیں جانتا کہ کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو شادیوں پر سود سے پیسہ لاتی ہے،  بچت گھٹ اور اس جیسی کئی اسکیموں کے ذریعے کتنی عورتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔لوگ گھریا زیور رہن کرکے کئی کئی سال چھڑا نہیں پاتے، جہیز کا سامان EMI پر خریدنے بڑے شورومس پر کتنے برقع پوش عورتوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے کہ آدمی سخت مجبوری میں سود دے،اگر لوگ واقعی مجبور ہیں تو پھر شادی پر خوشی سے خرچ کرنے کا کیوں ڈھونگ کرتے ہیں؟ کون سی شریعت اس سود کے لین دین کو جائز کرے گی۔ اگر یہ جہیز اور کھانوں کی بدعت نہ ہوتی تو نہ مجبوری ہوتی نہ سود۔
۳۔ نبی ﷺ کی سنت یہ تھی کہ لڑکی بالغ ہونے کے بعد اگر کفو مل جائے تو پہلے نکاح۔ یعنی کیرئیر یا ایجوکیشن اگر حاصل کرنا ہے تو بعد میں ضرور کیجئے۔ لیکن ان لڑکی والوں نے اس سنّت کو ”پہلے ایجوکیشن اور کیرئیر نکاح بعد میں“ سے بدل دیا۔ بدعت اور کیا ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔
۴۔ مسجدیں الگ شادی خانے ایک
آج ہر مسلک کی مسجد الگ ہے۔لیکن شادی خانوں میں جاکر دیکھئے۔ آج جس مسلک والے کا جس شادی خانے میں منگنی کا فنکشن ہے، اسی مسلک کو غلط کہنے والے کسی دوسرے مسلک والے کا اسی شادی خانے میں شادی کے دن کا کھانا ہے، اور ان دونوں کے مسلکوں کو غلط کہنے والے تیسرے مسلک والے کا اسی شادی خانے میں پرسوں دو ہزار آدمیوں کا مہنگا ولیمہ ہے۔      
 بدقسمتی سے شیخ احمد سرہندی نے جو ریفارم لایا اور بدعات کا خاتمہ کیا، ان میں سے کئی بدعات خود ان کی قبر پر آج کھلم کھلا ہورہی ہیں۔وہ نقشبندی سلسلے کے ایک عظیم مجدّد تھے، لیکن شادیوں کے معاملے میں خود نقشبندی سلسلے کے کئی مشائخین بلکہ ہر سلسلے کے معتقدین اور مشائخین کی اکثریت کے گھروں کی شادیاں مارواڑیوں اور راجپوتوں کی رسموں کے مطابق ہورہی ہیں، جو کہ سراسر بدعت ہیں۔ اس سے  نہ صرف شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ مرتبت العالی شیخ کی توہین بھی ہورہی ہے۔جب سلسلے کے سجادے، متولی، خود ایسی شادیاں کریں تو ان کے  ہزاروں مریدوں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ اس طرح مجدّد صاحب نے بدعات کو مٹا کر جو روشنی پھیلائی، اسی سلسلے کے لوگ اندھیروں میں ڈوبے جارہے ہیں۔اور اِن مہنگی شادیوں کی بدعت نہ صرف سلسلوں میں بلکہ آج کی بڑی بڑی دینی جماعتوں کے افرادکی اکثریت کے گھروں کی شادیاں بھی بغیر منگنی یا جہیز یا شادی کے دن کے کھانے کے نہیں ہوسکتیں، اکثریت انہی بدعات میں مبتلا ہے۔ یہ صحیح العقیدہ کہلانے والے جماعتی افراد بھی اسی ڈھٹائی کے ساتھ ایسی شادیوں کے جائز اور مباح ہونے پر اسی طرح بھونڈے دلائل پیش کرتے ہیں جس طرح اہلِ سلسلہ لاتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ امت میں اتحاد نہیں ہے۔ یہ سارے مسلک دوسرے تمام مسائل پر ایک دوسرے سے اختلاف ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تحقیر اور تکفیر تک چلے جاتے ہیں، لیکن شادیوں کے معاملے میں سارے متحد ہیں، ان سب میں اتفاق بلکہ اجماع ہوچکا ہے کہ ہم دوسرے مسائل پر تو ضرور اختلاف کریں گے لیکن نکاح کی سنّت کو قائم ہونے نہیں دیں گے۔ اپنے اپنے ارمان، اپنی سہولت Convenience کے مطابق نبیﷺ کے طریقہئ نکاح میں نئی نئی چیزیں شامل کرتے رہیں گے۔ شادیوں کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا مذہب نہیں چلے گا بلکہ ”لوگ کیا کہیں گے“ کا مذہب چلے گا، اور اِس مذہب کی سرپرستی نہ عالم کریں گے نہ مفتی، نہ پیر نہ مرشد بلکہ گھر کی عورتیں کریں گی۔   
۵۔ سنّت سے گھروں میں برکت آنا چاہئے یا مصیبت؟
جسٹس ساچر کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ مسلمانوں کی 85% آبادی سطح غربت Poverty line پر یا سطح غرب سے نیچےBelow Poverty Line ہے۔ہم امیروں یا NRIs کی بات نہیں کرتے۔ بات اس 85% والوں کی کرتے ہیں جو یاتو Middle class ہیں یا Poor class ہیں۔ مڈل کلاس بیٹیوں کی شادیاں کرکے بیٹوں کو نوکریوں کی غلامی میں دھکیل دیتی ہے، غریب کلاس قرضوں چوریوں یا پھر خیرات و زکوٰۃ مانگنے پر آجاتی ہے۔ یہ لوگ سب اسی لئے کرتے ہیں کہ بیٹیوں کی شادی سنت پر ہوجائے، ورنہ بیٹیوں کے لئے غیرمسلموں میں بے شمار لوگ ہیں جو بغیرجہیز اور بغیر کھانوں کے شادیاں کرنے تیار ہیں۔ لیکن صرف عزت کے ساتھ بیٹیوں کے نکاح کی سنت پوری کرتے ہیں، لیکن شادی کے بعد مالی طور پر برکت ہوتی ہے یا مصیبت؟ کیا کسی کا گھر بِکنا ایک برکت ہے؟ قرضہ لینا اور کئی کئی سال تک سود ادا کرنا کیا برکت کی نشانی ہے یا مصیبت کی؟

اِس دور میں شادی کیسے ہو
۱۔ شادی کی بات چیت میں پہلا ایجنڈا یہ ہو کہ شادی مکمل رسول اللہ ﷺ کے ماڈل پر ہوگی۔ کوئی کھانا یا جہیز یا منگنی وغیرہ نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ایک بھی پارٹی ان چیزوں کے لئے اصرار کرے تو بات چیت کو وہیں ختم کردیجئے، کیونکہ نہ وہ لڑکا دنیا کا آخری ہے اور نہ وہ لڑکی۔ جو لڑکے والے ڈائرکٹ یا اشاروں کنایوں میں جہیز یا کھانے کا ڈیمانڈ کرتے ہیں، وہ بھکاری ہیں۔ اور جو لڑکی والے لڑکے والوں کے انکار کے باوجود کھانا اور جہیز دینے پر اصرار کرتے ہیں، وہ لوگ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی قبرکھود رہے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ماں باپ یہ نہیں سوچتے کہ اگر کل ان کی بیٹی کے تین چار بیٹیاں ہوجائیں تو ان کی شادیوں پر بیچنے کیا ہوگا، اگر داماد آج کل کے دامادوں کی طرح Hand to Mouth رہ گیا تو نواسیاں کیا کریں گے، کیا وہی کریں گی جو آج کل کی غریب لڑکیاں کرنے پر مجبور ہیں یعنی ڈیٹنگ، چیٹنگ، لیواِن ریلیشنشپ؟
۲۔ شادی سے پہلے پِری میریج کونسلنگ Pre-marriage counseling کروایئے۔ اگر صحیح پروفیشنل کونسلنگ ہو تو شادی کے بعد کے 80% جھگڑے پیدا ہی نہیں ہوتے۔جس چیز کو لوگ شادی کی بات چیت کہتے ہیں، اور اس بات چیت کے لئے خاندان کے سینئیر رشتہ داروں کو بٹھاتے ہیں، جو دراصل ایک دلالی کرتے ہیں، یعنی بجائے بات چیت کی سنت پوری کرنے کے ابوجہل اور ابولہب کی روایتوں کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں جیسے کتنے مہمان شادی کے بلائے جائیں گے، زیور کتنا ہوگا، جوڑا اور جہیز کتنا ہوگا وغیرہ۔
بات چیت کا طریقہ یہ ہے کہ پروفیشنل پری میریج کونسلر کے ہاں دونوں پارٹیاں بیٹھیں اور عقد نامہ بنائیں۔ یاد رہے عقد کے معنی اگریمنٹ کے ہیں۔ یہ اگریمنٹ اگر صحیح بنے تو شادی کے بعد کوئی جھگڑا نہیں ہوسکتا۔ سوشیوریفارمس سوسائٹی آفس میں یا Zoom پر پری میریج کونسلنگ فراہم کرتی ہے۔ دونوں پارٹیوں کی اس اگریمنٹ پر دستخط کے بعد اس کی قانونی طور پر بھی اور شرعی طور پر بھی حیثیت ہوجاتی ہے پھر کسی پارٹی کو نہ پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت پڑتی ہے نہ کورٹ کو۔ اس خدمت کے لئے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 9642571721 or 9959959008
۳۔ نکاح اور ولیمہ ایک ہی دن ایک ہی وقت جیسے دن میں 12 بجے نکاح اور ظہر کے بعد ولیمہ یا مغرب میں نکاح او ر عشاء میں ولیمہ رکھئے جس طرح پورے عرب ممالک میں ہوتا۔ جس کی تفصیل پچھلے صفحات پر موجود ہے۔ جو بھی اس پر اعتراض کرے، اسے یہ کتاب دیجئے یا ہم سے رابطہ کروایئے)
۴۔ مہر کی رقم نقد ادا کیجئے۔  
۵۔ولیمہ:  اللہ کے نبیﷺ کی ولیمہ کی سنت یہ ہے کہ آپ ﷺ کا سب سے بڑا ولیمہ ایک بکری کا تھا۔ وہ سادات بھی  جان لیں کہ وہ جن سے اپنا شجرہ نسب ملاتے ہیں یعنی حضرت علیؓ سے، ان کا ولیمہ بھی صرف ایک بکرے کا تھا۔ ولیمہ صرف قریبی لوگوں میں اعلان کا نام ہے۔ جن جن لوگوں نے آپ کو آج تک دعوتوں میں بلایا ہے، ان تمام کو حساب برابر کرنے کے لئے جمع کرنا، غیرضروری رشتہ داروں جیسے بہن کا پورا سسرال، بھائی کے داماد کا پورا خاندان، سنت کے خلاف ہے۔ اس کو آج کے مہنگے ولیموں سے بدل کر اپنے ولیمہ کو بدعت میں تبدیل مت کیجئے۔ 

 







مصنف کی دیگر کتابیں اور کتابچے
۱۔ مرد بھی بِکتے ہیں ۔  جہیز کے لئے (اردو، ہندی، تلگو، بنگالی، انگلش)
۲۔ غیرشرعی شادیوں کا بائیکاٹ ۔  ایک جہاد (اردو اور انگلش)
۳۔ نکاح یا وِواہ (80 سوالات و جوابات)  اردو
۴۔ اسلام میں عورت کا مقام اور موجودہ معاشرے میں اس کی اصلی حیثیت (اردو)
۵۔ جہیز ۔  ویمنس رائٹس کا کھلی خلاف ورزی(اردو)
۶۔ لائف انشورنس ۔  آج کی اہم ضرورت (اردو، انگلش)
۷۔ وندے ماترم۔ قومی ترانہ یا دہشت گرد ترانہ (اردو، انگلش)
۸۔ خطبہ حجۃ الوداع کا اصلی پیغام(اردو)
۹۔ نفل عمرہ کو مذہبی پِکنک نہ بنایئے(اردو)
۰۱۔ بہوجن سماج اور مسلم نقطہئ نظر(انگلش)

موبائیل: 9642571721
یوٹیوب چینل: Socio Reforms Society of India 
بلاگ:http://aleemkhanfalaki.blogspot.com/ 
ویب سائٹ:www.socioreforms.com
پتہ: دفتر سوشیوریفارمس سوسائیٹی آف انڈیا
امان فنکشن ہال، متصل مسجد نصیریہ
فرسٹ فلور، فلیٹ ۱، مراد نگر، مہدی پٹنم، حیدرآباد

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...