منگل، 10 فروری، 2015

خدارا حج اور عمرہ کو ایک مذہبی پکنک نہ بنائیے - ایک سے زیادہ بار حج اور عمرہ پر آنے والوں کے نام ایک کھلا خط


میرے عزیزسادہ لوح تاجر جو باربار پورے خاندان کے ساتھ فائیو اسٹار حج یا عمرہ کرنے کو عبادت عظیم سمجھتے ہو۔ 

میرے قابل احترام عالمو، فاضلو،مرشدوجو نفل کو بھی فرض کا درجہ دے کر بار بار چلے آتے ہو۔ قوم کے چالاک امیرو جو زمینات پر ناجائز قبضوں سے یا دوسری ناجائز آمدنیوں سے عمرے پر عمرے کئے جاتے ہو۔میرے پیارے ابا جانو اور امی جانو جو اولاد کی محنت کی کمائی پر عبادت عظمی کا لطف اٹھاتے ہو۔ میری قوم کے سیاسی لیڈرو جو بار بار سیاسی عمرے اور حج کرکے اپنے ووٹروں کو اپنی خدا خوفی کا ثبوت دیتے ہو۔ سعودی عرب میں مقیم رفیقو جو بار بار حج کرکے نہ صرف قانون شکنی کرتے ہو بلکہ دوسروں کیلئے زحمت بن جاتے ہو۔ 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکا تہ

پہلے اس واقعہ کو غور سے پڑھ لو جو مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے نقل کیا ہے۔ بشیرؒ بن عبد الحارث ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کا ایک مرید، ایک مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا"یا مولائی! میں نے پھر ایک بار حج کا قصد کیا ہے۔ کیا اجازت ہے؟  "۔ بزرگ نے پوچھا "نیت کیا ہے؟ رضائے الہی یا دیدار کعبہ و مدینہ یا اظہار زہد و تقوی "؟ مرید نے کچھ لمحے سوچا اور کہا "حضور رضائے الہی اور کیا"۔ بزرگ نے فرمایا  "کیا میں تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں جس پر عمل کرکے حج پر گئے بغیر ایک تو تمہار ا حج بھی ہوجائے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالی تمہارا حج قبول بھی کرلیاور تیسرے یہ کہ تمہیں حج کرنے کی خوشی اور اطمینان بھی حاصل ہوجائے؟"مرید نے پوری فرمانبرداری سے کہا "حضور ضرور بتایئے"۔ بزرگ نے فرمایا کہ اگر تم حج پر خرچ ہونے والی رقم کو ان مسکینوں اور ناداروں میں تقسیم کردو جو کثرت اولاد کی وجہ سے قرض یا بیماری یا کسی اور وجہ سے محتاج ہیں یا کسی ایسے شخص کی مدد کرو جو صاحب نصاب نہیں لیکن تجارت کرکے صاحب نصاب بن سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کی روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے تو اس عمل سے نہ صرف تمہارا نفل حج بھی قبول ہوجائے گا بلکہ اللہ تم سے راضی ہوجائے گا۔ اب بتا ؤ کیا چاہتے ہو؟ " مرید سوچ میں پڑگیا اور بہت دیر بعد جھجکتے ہوئے بولا "حضور طبیعت حج کرنے پر مائل ہے"(یعنی اب موڈ بن چکا ہے)۔ بزرگ نے فرمایا "شیطان انسان کے نفس پر نیکیوں ہی کے بہانے قابو پاتا ہے اور اس سے وہی اعمال کرواتا ہے جو اس کے نفس کو مرغوب ہوں "۔

ذرا غور کیجئے آج ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں ایک طرف مسلمان اخلاقی، سیاسی اور معاشی طور پر ذلیل تر ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف مکہ اور مدینہ کو دوڑ دوڑ کر آنے والوں کی تعداد میں ہر سال لاکھوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ حرم شریف میں شب قدر کی دعا میں  شریک ہونے کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے آنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پھر بھی کوئی دعا قبول ہوتی ہے نہ کسی مسلمان کے اخلاق یا کردار میں تبدیلی آتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ 

ایسا اس لیے ہے کہ آج ہمار ا ہر عمل وہ ہے جو ہمارے نفس کو مرغوب ہے۔ ایسا کوئی حکم جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے دیا ہو لیکن اگر وہ ہمارے موڈ کے خلاف ہو، مزاج اور اصول سے میل نہ کھاتا ہو یا اسے ہماری عقل اور منطق (Rationale&Logic) تسلیم نہ کرتی ہو، تو ہم اس پر ہرگز عمل نہیں کرتے۔ نہ صرف اسے ٹال دیتے ہیں بلکہ ضمیر کی تسلی کیلئے کوئی نہ کوئی جواز بھی پیدا کرلیتے ہیں۔ بلکہ فتوے بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ پوچھئے کسی بے پردہ خاتون سے، کہے گی پردہ آنکھوں میں اور دل میں ہونا چاہئے۔ پوچھئے کسی بھی سمجھدار مسلمان سے دعوت و تبلیغ کی فرضیت کے بارے میں تو کہے گا پہلے آدمی کو خود باعمل ہونا چاہئے اسکے بعد دوسروں کو دعوت دینی چاہئے۔ پوچھئے کسی بھی جہیز کے عوض بکنے والے بھکاری بے غیرت مرد سے، کہے گا ہم نے ہرگز نہیں مانگا، لڑکی والوں نے سب کچھ اپنی خوشی سے دیا۔ پوچھئے سود اور رشوت کے نظام کا ساتھ دینے والوں سے۔ کہیں گے یہ تو سسٹم ہے۔ پوچھئے جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی، حسد اور فریب کرنے والوں سے، کہیں گے دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ ہم بری نیت سے کوئی کام نہیں کرتے۔ پوچھئے قطع رحمی یعنی رشتے داریاں کاٹنے والوں سے، کہیں گے اگر دوسرے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔ 

ہر شخص یوں تو نمازی اور با عمل ہے لیکن ہر ایک نے اپنی پسند کی عبادت پکڑ رکھا ہے۔ کسی کو داڑھی پسند ہے تو کسی کو نماز۔کسی کو نفل عمرے یا حج کرنا تو کسی کو خدمت خلق کا ادارہ کھولنا پسند ہے۔ لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے جس کا حکم سب سے پہلے انکی ذات پر نافذ ہوتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اسی فطرت کی عکاسی سورۃ حجرات میں یوں کی گئی ہے۔ 

ترجمہ: یہ بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے تم یہ کہو کہ اسلام لائے ہو۔ ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا۔ 

اسلام لائے یعنی دوسرے لوگ جو کام کر رہے ہیں تم بھی کر رہے ہو۔ دوسرے نماز پڑھتے ہیں تم بھی پڑھتے ہو دوسرے زکوۃ، ختنہ، نکاح اور تدفین وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں، تم بھی چلتے ہو تاکہ مسلمان سوسائٹی میں تمہیں بھی شمار کیا جائے۔ لیکن ایمان لانا الگ چیز ہے جو ابھی تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا، صرف زبانوں پر ہے۔ اسی لیے جب اصل امتحان کا وقت آتا ہے تو تم دوسری عبادتوں کو پیش کرکے اپنے ضمیر کی تسلی کرنا چاہتے ہو جو دراصل اللہ تعالی کو چکمہ دینا ہے۔ ایک کمانے والے سے حلال کمائی کا سوال پہلے ہوگا بعد میں نمازوں کا۔ ایک دولہے یا دولہے کے ماں باپ سے جوڑا جہیز اور غیر اسلامی رسومات کا سوال پہلے ہوگا روزوں اور زکوۃ کا بعد میں۔ اسی طرح ایک استطاعت رکھنے والے سے نفل عمروں اور نفل حج کا سوال بعد میں ہوگا پہلے انفاق کا۔ لوگ حدیث کو تو یاد رکھتے ہیں کہ ایک حج سے دوسرے حج کے درمیان اور ایک عمرے سے دوسرے عمرے کے درمیا ن تمام صغیرہ گناہوں کو معاف کردیا جائیگا لیکن اس حدیث کو بھول جاتے ہیں کہ پانچ چیزوں کا جواب دئے بغیر قیامت کے دن کوئی ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے گا (چاہے اسکے ساتھ دوسری عباد توں کے پہاڑ ہی کیوں نہ ہوں)۔ 1۔ وقت، 2۔جوانی کی صلاحیتیں، 3۔مال آیا کہا ں سے؟، 4۔ مال خرچ کہاں اور کس طرح ہوا؟،

5۔ علم (حاصل کرنے اور پھیلانے کی کتنی جستجو کی)۔ 

کیوں ایسا ہوتا ہے کہ بار بار عمرے اور حج پر ٹراویلنگ ایجنٹ کو لاکھوں روپئے دیتے وقت کوئی دکھ نہیں ہوتا لیکن ایک ضرورت مند سامنے آجائے یا امت کی فلاح کے لیے کوئی اپیل کردے تو طبیعت پر ناگواری طاری ہوجاتی ہے۔ ایک دو ہزار جیب سے نکالتے بھی ہیں تو دلی تکلیف ہوتی ہے؟ انہیں جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ مانگنے والا ان کا بعد میں احسان مند اور ممنون و مشکور رہے گا دس روپے بھی نہیں دیتے۔ دیتے بھی ہیں تو اسطرح کہ مانگنے والا اگر ان کو حساب پیش نہ کرتے تو آئندہ اسے نہیں دیتے اور بدنام کردیتے ہیں۔ 

ایسا اس لئے ہوتا ہے نفس کو حج و عمرہ مرغوب ہے۔ مرغوب عبادت میں مزا بھی آتا ہے جو پیسہ یا وقت اپنی ذات پر خرچ ہو ایسی عبادت اچھی لگتی ہے۔ انفاق یعنی اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ کرنے سے اپنے مال میں کمی ہوجانے کا خوف ستاتا ہے۔ اس لیے کسی کی مدد کرنے کے سوال پر وہی کہہ اٹھتے ہیں جو مشرکین و منافقین کہہ اٹھتے تھے کہ،  "ویسئلونک  ماذا  ینفقون "(سورہ بقرہ) ترجمہ، "وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم آخر کتنا خرچ کریں "۔ ڈھائی فیصد زکوۃ و خیرات تو ہم کرتے ہی ہیں اور کیا کریں؟ آگے جواب میں کہا گیا۔ "قل العفوا"۔ ترجمہ " ان سے کہہ دیجئے سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیجئے سوائے اسکے جو آج کے کھانے کی یا پہننے کی ضرورت کا ہے۔  "یہی ہے زکوۃ اور انفاق کا اصول۔ حضرت عمر ؓ  کا قول یاد رہے "ڈھائی فیصد کا حساب تو منافق کرتے ہیں "۔ یعنی منافق دکھانے کے لیے نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے۔ روزہ بھی رکھتے تاکہ کوئی ان پر اعتراض نہ کرے۔ مومن کے لیے ڈھائی فیصد یا پانچ فیصد کا سوال ہی کیا۔ جب ضرورت مند سامنے آجائے یا کسی غیرت مند محتاج کی خبر اسے مل جائے تو وہ اپنے پاس جو بھی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے اس شخص کی امانت سمجھ کر فوری خرچ کر ڈالتا ہے۔ ڈھائی فیصد یا پانچ فیصد کا سوال نہیں کرتا۔ یہ انتظار بھی نہیں کرتا کہ کوئی آئے اور ا س سے مانگے اور نہ یہ انتظار کرتا ہے کہ اسکے مال پر سال پورا گزرا ہے یا نہیں۔ وہ خود اپنا فریضہ سمجھ کر اپنے خاندان اور قرابت داروں میں تلاش کرتا ہے کہ کون محتاج ہے اور کون بیمار۔ کون بیوہ ہے اور کون بچہ تعلیم یا روزگار سے محروم ہے۔ کون سا باپ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پریشان ہے اور کون حضرت علی کی سنت پر قائم رہتے ہوئے بغیر جوڑا یا جہیز کے مردانہ خودداری کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن مالی طور پر مجبور ہے۔ 

ہم لوگ مشرک بت پرستوں پر ہنستے ہیں کہ وہ اپنے تہواروں پر کروڑوں روپیہ ضائع کرتے ہیں، لیکن جب ہم اپنے دامن میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ہم بھی اسی غیر قوم کی طرح اپنی مرغوب عبادت پر لاکھوں خرچ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی ایک شہر جیسے حیدر آباد دکن یا کراچی پاکستان کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ وہاں سے ہر سال کم سے کم ایسے دس ہزار نفل عمرہ و حج کرتے ہیں جنکا فرض حج ادا ہوچکا ہے اور حج کے علاوہ بھی وہ عمرہ کرچکے ہیں۔ ایک سفر عمرہ یا حج پر کم سے کم ایک لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔ اگرچہ آجکل سارے بڑے لیڈر، تاجر، پہلوان اور مرشد فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس میں سفر کرنا اور مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرنا اپنی شان سمجھتے ہیں، جس پر ایک آدمی کا کم سے کم دو لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔ لیکن آپ کمترین حساب سے بھی اندازہ لگائیں تو 

10,000افرادX   100,000 روپے=    Rs. 1,00,00,00,000 (ایک ارب روپے) 

باقی ہندوستان سے منجملہ ممبئی، لکھنو، دہلی، پٹنہ، کیرلا اور بنگلور و مدراس وغیرہ سے نفل عمرے اور حج کرنے والوں کی تعداد، یوں تو لاکھ سے  اوپر پہنچتی ہے لیکن مثال کی خاطر اگر آپ کم سے کم صرف پچیس ہزار افراد ہی رکھیں تو حساب یہ بنتا ہے۔ 

Rs. 1,00,000 x 25,000 Persons = 

Rs. 2,50,00,00,000

یعنی ڈھائی ارب روپے =  US$ 625 Million

پاکستان میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ ہر تیسرا پاکستانی جو حج یا عمرے پر آتا ہے وہ عمرہ یا حج اسکا نفل ہوتا ہے۔ اسطرح پاکستانی حضرات بھی چار تا پانچ ارب روپے یعنی کم سے کم ایک بلین ڈالر ہر سال اس عبادت پر خرچ کرتے ہیں جو فرض نہیں ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس خرچ کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ وہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں جنکی تجوریاں پہلے سے ہی بھری پڑی ہیں۔ یعنی ایر لائنس، ٹراویلنگ ایجنٹس، ہوٹل مالکان، معلم وغیرہ۔ اندازہ لگائیے یہ پانچ چھ ارب روپیہ اگر ہر سال امت کی فلاح کیلئے لگ جائے تو چند سال میں یہ امت اس مقام پر پہنچ جائے جہاں لوگ ہاتھ میں زکوۃ لیے مستحق کو ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اورکوئی مستحق نہیں ملتا۔

یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی فرد یا جماعت اٹھے اور پورے پانچ چھ ارب روپے اکھٹا کرلے۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ہر فرد ہر سال نفل عمرے یا حج کی نیت کرے اور اسی نیت کے ساتھ وہی رقم اپنے قریب ترین لوگوں کی تعلیم پر خرچ کردے۔ کیونکہ جو ذہانت اللہ تعالی نے ہندو پاک کے افراد کو بخشی ہے اسکا کوئی ثانی نہیں۔ اگر اس قوم کے پچاس فیصد افراد بھی سطح غربت سے نکل کر تعلیم سے آراستہ ہوجائیں تو امریکہ اور یورپ مات کھا جائیں۔ ہندو قوم کے افراد تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، کمپیوٹر، اکاؤنٹس اور فائنانس کے میدانوں میں ہندوستان یا امریکہ ہی نہیں یورپ، خلیج اور افریقہ میں بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ جس آفس کے بھی دروازے پر نظر ڈالیں گے وہاں ہندو نام کی تختی لگی ہوگی اور اندر ایک مسلمان ڈرائیور یا کلرک کے طور پر کام کررہا ہوگا۔ یہ دیکھ کر کیا آپ کی حمیت قومی تڑپ نہیں اٹھتی؟ امریکہ اسرائیل اور سنگھ پریوار پر ہم لعنت تو کرتے ہیں لیکن ان سے اچھی باتیں کیوں نہیں سیکھتے۔ دیکھئے کس طرح ان کے امیر لوگ غریب طلباء کی تعلیم کی مکمل ذمہ داری لے لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ عمرے اور حج کرنے کو تو عبادت سمجھتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر کچھ عارضی چندہ دے دیتے ہیں لیکن کسی طالب علم کی تعلیم کی تکمیل تک مکمل ذمہ داری لینے میں ہمیں دور دور تک ثواب نظر نہیں آتا۔ جبکہ اگر مسلمان طلباء کو موقع ملے تو وہ کسی بھی قوم کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔     

یہ بھی تو ممکن ہے کہ لوگ اپنا ایک عمرہ یا حج کم کرلیں اور مدرسوں پر لگادیں جہاں سے وہ علماء وحفاظ نکل رہے ہیں جو امام یا موذن تو بنتے ہیں لیکن عصری تعلیم سے محرومی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہم ان مدرسوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کردیں تو انداز ہ لگادئیے کہ کتنی بڑی خدمت ہوسکتی ہے؟مدرسوں کو بجائے زکوۃیا خیرات دے کر علماء کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کے اگر دو دو چار چار افراد مل کر پورا مدرسہ ہی اسپا نسر کرلیں تو مدرسوں کو نہ صرف سو سو پچاس پچاس روپے کے چندے وصول کرنے کے عذاب سے نجات ملے گی بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کا وقار بھی بلند ہوگا۔ آج ہر دینی یا سماجی جماعت کے پاس ایک نہ ایک ایسا شاندار منصوبہ کا غذ پر موجود ہے جو امت کے کسی نہ کسی شعبے کو مضبوط کرسکتا ہے لیکن مال اور افراد نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ اور اہل استطاعت یہ چاہتے ہیں کہ خود تو کماتے رہیں اپنی مرضی سے خرچ کرتے رہیں اور مزید بچت ہو تو نفل عمرے حج کرکے اپنے نفس کو اور موٹا کرتے رہیں لیکن جو لوگ جماعتوں یا اداروں میں کام کررہے ہیں وہ نوکریاں یا کاروبار ترک کردیں۔ بیوی بچوں کو اللہ کے نام پر چھوڑدیں اور بس فی سبیل اللہ جماعت کا کام کرتے رہیں۔ آپ کا بچہ تو بہترین اسکول میں پڑھے۔ امریکہ، لندن جائے لیکن مدرسے یا جماعت والوں کے بچے سرکاری اسکول یا مفت کے مدرسے میں پڑھیں۔ کیا یہ خود غرضی نہیں ہے؟اپنے شوق عبادت کی تسکین کیلئے تو آپ ایک لاکھ روپے پھونک سکتے ہیں لیکن جماعتوں اور اداروں کے منصوبوں پر یہی رقم لگاکر پوری قوم کی ترقی کیلئے سہارا نہیں بن سکتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ ایک عمرہ یا حج کی رقم اپنی جو بھی پسند یدہ جماعت ہو اسکے افراد پر یا اس جماعت کے کسی منصوبے پر خرچ کردیں تاکہ وہ جس مقصد سے اٹھی ہیں وہ کوئی ٹھوس کام کرسکیں۔اگر سو افراد بھی ایسا کرلیتے ہیں تو آج بے شمار کمزور جماعتیں اور ادارے ہیں جو دوبارہ طاقتور ہوکر قیادت کے حامل ہوسکتے ہیں۔مرحوم ڈپٹی نذیر احمد کے الفاظ یادرہیں کہ۔

میرے عزیز و۔تم ذاتی طور پر چاہے لاکھ ترقی کرلو۔ چاہے جتنے امیر اور طاقتور ہو جاؤ۔ لیکن اگر تمہاری اجتماعی طاقتیں کمزور پڑجائیں تو تمہاری ذاتی حیثیت تم کو اجتماعی طور پر ذلیل ہونے سے نہیں روک سکتی۔(ابن الوقت)

ممبئی کے مسلمانوں کی مثال یاد رکھو کہ وہاں ہزاروں امیر ہیں  نہ صرف ہر سال عمرہ یا حج پابندی سے کرتے ہیں بلکہ حیدر آبادیوں یا پاکستانیوں سے کہیں زیادہ زکوۃوخیرات نکالتے ہیں۔ لیکن ان کی اجتماعی طاقتیں یعنی جماعتیں اور ادارے مال کی کمی،آپسی اختلاف اور مسلکی جھگڑوں کی وجہ سے اتنی کمزور ہیں کہ جس وقت بابری مسجد کے بعد بدترین فسادات رونما ہوئے نرسمہا راؤ جو اس وقت وزیر اعظم تھا،فوری طور پر بمبئی پہنچا۔ شیو سینا کے جتنے متاثرین تھے ان کی عیادت کرنے گیا لیکن نہ کسی مسلمان لیڈر سے ملا،نہ کسی مسلمان کی عیادت کی۔ لوگوں نے پوچھا آپ مسلمانوں سے کیوں نہیں ملے؟اس نے کہا   "میں کس سے ملتا؟"یہی گجرات میں ہوا۔ سونیا گاندھی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان بدترین فسادات کا شکار ہوئے ہیں کسی مسلمان سے ملنا گوارا نہ کیا۔ وجہ صاف ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان ذاتی ترقی کا خوا ہشمند ہے لیکن اجتماعی طور پر طاقتور ہونے کا اسکا پاس کوئی شعور نہیں۔اس لئے نہ وہ کسی جماعت میں شریک ہوتا ہے نہ کسی جماعت کے ہاتھ مضبوط اسکے ذہن میں ہے۔جس قوم کے اندر اجتماعیت کا شعور نہ ہو، جس میں جماعتیں مضبوط نہ ہوں، اس قوم کو گجرات، ہاشم پورہ، بھیو انڈی،مؤ،میرٹھ، جمشیدپور وغیرہ کی طرح تباہ وتاراج کر ڈالنا دشمن کیلئے آسان ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس قوم کا اسکی زبان کلچر مذہب اور ادب سے محروم کر ڈالنا بھی بہت آسان ہوجاتا ہے۔ 

یہی حال پاکستان کا ہے جہاں شرح خواندگی 12%اور سطح غربت پر رہنے والے 75%ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہر تاجر، ہر عالم، ہر مرشد، ہر امیر اور ہر بااثر ملازم کسی نے کسی جماعت یا مدرسے یا ادارے سے جڑ جائے اور اسکو مضبوط کرے،جسطرح منی سے ہزاروں قافلے الگ الگ نکلتے ہیں لیکن پہنچتے ایک ہی جگہ یعنی عرفات میں ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں جماعتیں یا ادارے ہیں۔ الگ الگ مقاصد اور طریقہ  کار ہیں لیکن تمام اگر اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں تو یہ امت جس مقام پر پہنچے گی وہ ہے "نشاۃثانیہ" یعنی renaissance۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنے نفل عمرے کی کمائی ان بے شما راردو اخباروں اور رسائل پر لگادیں جو اس زبان کو زندہ رکھنے کی کاوش میں لگے ہوئے ہیں؟یا ان اردو اسکولوں کی بقا پر لگادیں جو صرف اردو زبان کیلئے نہیں بلکہ اردو زبان سے وابستہ ایک پورے دین، کلچر، تہذیب اور تاریخ کی بقا کے لئے جنگ لڑرہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے شہروں کے باہر اضلاع میں ہزاروں یتیم غیر قوم کے دوسرے یتیم خانوں میں پل رہے ہیں اور غیر مذہب میں جذب ہورہے ہیں۔ کیا ایک ایک فرد گاؤں اور دیہات میں یتیم خانے کی پوری ذمہ داری نہیں لے سکتا۔؟کیا آپ نے وہ حدیث نہیں سنی کہ کسی یتیم کی پرورش کرنے والا قیامت میں میرے ساتھ اسطرح قریب ہوگا جسے دو جُڑی ہوی اُنگلیاں ہوتی ہیں؟

آپ پوری انسانیت کی فلاح کے لئے پیدا ہوئے تھے لیکن افسوس آپ کا وقت آپ کا چندہ اور آپ کی توانائیاں صرف مسلمانوں کے لئے ہیں۔  اس لئے دوسری قومیں آپ کو انسانیت کا ہمدرد نہیں سمجھتیں۔ کیا آپ انسانیت کیلئے یہ نہیں کرسکتے کہ کوئی شخص leprosyسنٹر کھول لے۔ کوئی TBیا AIDSکئے لئے اپناپیسہ وقف کردے اور آپ بھی دوسری قوموں کو فائدہ پہنچائیں؟کیا دوسری قوموں کے بے شمار اداروں سے مسلمان فائدہ نہیں اُٹھاتے؟

ہزاروں لڑکیاں جوڑے جہیز کی مجبوری کی وجہ سے غیر مذہب میں شادیاں کررہی ہیں یا ان کے یہاں نوکریاں کررہی ہیں اور بے شمار ایسی ہیں جو جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں ایسی ہیں جو بے سہارا ہیں۔ شوہر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں یا ناکارہ ہیں۔ ان کے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور چور اُچکے بن رہے ہیں۔ کیا آپ کو انگریزی اور دوسرے اخبارات پڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آتا کہ کہیں کسی خبرمیں کسی مسلمان کا نام نہیں آتا؟ اگر آتا ہے تو صرف جرائم وحادثات کے کالم میں۔ کیا آپ کی غیرت نہیں جاگتی؟کیا آپ اپنے نفل عمرے اور حج کی رقموں سے ایسے سنٹر قائم نہیں کرسکتے جہاں ایسی بے سہارا عورتوں اور ان کے بچوں کو سہارا دیا جاسکے؟ کون نہیں جانتا کہ جوڑا یا جہیز چاہے خوشی سے دیا جائے یا مطالبے پر، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔ شادی کے دن کا کھانا جسکاخرچ لڑکی والوں پر ڈال دیا جاتا ہے یہ سب حرام ہیں۔ لیکن لوگ جانتے بوجھتے اپنے فائدے کیلئے منافقت کرتے ہیں اور ان چیزوں کو جائز کرلیتے ہیں۔ ایک عمرے کی رقم میں کم سے کم پانچ ہزار کی تعداد میں ایک کتاب شائع ہوسکتی ہے جس کے ذریعے ان حرام کاموں سے لوگوں کو آگاہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکتا ہے ۔

کیا آپ اپنے نفل عمروں اور حج کی رقموں کو ان قابل طلباء کے لئے وقف نہیں کرسکتے جنکے اندر بہترین تقریری اور تحریری صلاحتیں ہیں جو غیر مسلموں میں جاکر سمینار یا ڈائلاگ یا DEBATEکے ذریعے اسلام کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ان کے ذہنوں میں بٹھادی گئی ہیں ان کو دور کرسکتے ہیں؟یہی تو ہندو کررہا ہے۔ یہی تو امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔ 

کیا آپ اُن کتابوں کو ہندی، انگیریزی، تلگو، مراٹھی وغیرہ میں ترجمے کرواکے زندہ نہیں کرسکتے جو ہزاروں کی تعداد میں آج اُردو  میں ہونے کی وجہ سے ختم ہورہی ہیں اور ان کے ساتھ ہی آپ کے دین کا اور تاریخ وادب کا ایک عظیم سرمایہ ختم ہی نہیں بلکہ نیست ونابود     ہورہاہے؟صرف ایک نفل عمرے یا حج کی قیمت میں کم سے کم دو کتابیں شائع ہوسکتی ہیں جو جب تک پڑھی جاتی رہیں گی آپ کیلئے نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی۔ 

آج ہر شہر وسیع سے وسیع ترہوتا جارہا ہے اور مسلمان بھی ایک سے ایک اعلی اور شاندار گھر بنارہے ہیں لیکن دور دور تک کوئی مسجد نہیں ملتی۔ کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں کوئی مسجد نہیں ہے۔ بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ خود مسلمان ایسے کئی پلاٹنگ کے کاروبار میں شامل ہیں جس میں کمرشیل پلاٹ تو سینکڑوں ہوتے ہیں لیکن پوری کالونی میں کوئی مسجد نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی بھی ہے تو بمشکل سو آدمیوں کیلئے بھی کافی نہیں ہوتی۔ کیا آپ دو چار حضرات مل کر اپنے عمروں اور حجوں کی رقموں سے نئی بستیوں میں مسجدیں تعمیر نہیں کرسکتے؟

کتنے ایسے بے گناہ معصوم نوجوان ہیں جن کودہشت گردی کے جرم میں مہینوں بلکہ سالوں سے جیلوں میں بند کردیا گیا ہے جو اپنے خاندانوں کے واحد کمانے والے ہیں۔ ان کو آزاد کروانا قُرآن کے الفاظ میں "گردنوں کو چھڑانے"کی تعریف میں داخل ہے۔ ایک ایک نفل عمرے یا حج کی قیمت میں ایک ایک خاندان مصیبت سے آزاد ہوسکتا ہے۔ 

 اگر آپ کاموں میں سے کسی کام کو بھی ضروری نہیں سمجھتے کوئی بات نہیں لیکن اس کام کو تو شروع کرسکتے ہیں جو آپ ہی کے ذہن میں سب سے زیادہ اہم ہے اور جس سے امت کا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اسطرح کسی کا ذہن دینی میدان میں تو کسی کا تعلیمی میدان میں کسی کا ادبی میدان تو کسی کااور کسی میدان میں کام کرے گا۔ اسطرح ہندوستان اور پاکستان سے ہر  سال ہزاروں نفل عمرہ یا حج پر جانے والوں کا اگر ایک ایک لاکھ روپیہ مختلف اجتماعی ترقی کے کاموں پر لگنا شروع ہو جائے تو انشاء اللہ آئندہ دس تا پندرہ سال میں اس امت کا اختلافی معاشی دینی وسیاسی نقشہ بدل جائے گا۔ 

اب آئیے اُن داخلی حاجیوں پر گفتگو ہوجائے جو مملکت سعودی کے مختلف حصوں سے ہر دو چار سال بعد معلمین کو کم سے کم دو ہزار ریال فی کس دے کر چلے آتے ہیں۔ جہاں تک سال کے دوسرے مہینوں میں عمرے کرنے کا سوال ہے اسمیں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جہاں تک پیسہ خرچ کر کے حج پر آکے دوسرے حاجیوں کے لئے مسائل کھڑے کرنے کا سوال ہے ان پر بھی وہی اخلاقی ذمہ داری ہے جو ھندو پاک سے نفل عمروں اور حج پر آنے والوں پر ہے کہ وہ دوسروں کے لئے رکاوٹ نہ بنیں سعودی حکومت حج کے شاندار انتطامات کے معاملے میں اپنا ریکارڈ رکھتی ہے اسکے باوجود اژدھام کی وجہ سے ہر سال بے شمار جانیں حادثات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اتنے لاکھ حاجیوں کا انتطام کوئی معمولی کار نامہ نہیں لیکن اگر لوگ تعاون نہ کریں تو حادثات ہی نہیں بلکہ رہائش، بلدیہ، ٹرافک وغیرہ کے مسائل کو بھی قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت سعودی عرب ہر سال کوشش کرتی ہے کہ پہلی بار عمرہ یا حج کرنے والوں کو پہلے موقع ملے۔ لیکن نفل حج اور عمرے والے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور اتنی بھیڑ کردیتے ہیں کہ خود کو بھی دوسروں کو بھی عبادت کے صحیح لطف سے محروم کرڈالتے ہیں۔ حیرت تو اور ان اقامہ ہولڈرحاجیوں پر ہوتی ہے جو سعودی قانون سے واقف ہیں لیکن قانون توڑنے کو وطیرہ بنا رکھا ہے۔ کیا ایسے حاجی اور ان کی مدد کرنے والے معلمین جو انہیں بغیر تصریح کے حج کرنے میں مدد کرتے ہیں اللہ تعالی کے نزدیک قیامت میں قانون شکن نہیں ہیں؟ہمیں کئی ایسے خود ساختہ مفتی اور عالم ملے جو حج کرنے کے لیے ملکی قانون کو توڑ نا جائز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیئے کہ سعودی علماکھبی ایسا قانون جاری ہونے دیتے جو شریعت کے خلاف ہو۔ لوگوں کو چاہئے کہ قانون کو احترام کریں۔

یاد رکھئے اگر نفل حج اور عمروں کی کثرت کا عمل رسول اللہﷺ کو محبوب ہوتا تو سیرت رسول اور سیرت صحابہ اسکے ذکر سے بھری ہوتی۔

رسول اللہﷺ نے ایسے کئی اعمال کی تلقین فرمائی جن کا کرنا نفل حج یا عمرہ ہی کے برابر ہے جیسے کسی غلام کو آزاد کروانا، کسی مصیبت سے باہر نکالنا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا جب ایک صحابی ؓنے اصرار کے ساتھ پوچھنا شروع کیا کہ کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے تو آپ ﷺنے انہیں غصے سے فرمایا نہیں۔ 

میرے محترم صاحبو۔ حج یا عمرہ ایر پورٹ کا سفر نہیں۔ اسکا سفر ابراہیمی ؑعزم سفر ہے ۔ جسکا آغاز رشتے داروں کی دعوت طعام اور گلپوشی سے نہیں ہوتا اور نہ اسکا اختتا م گلپوشیوں اور مبارکبادیوں پر ہوتا ہے۔ حج یا عمرہ ابراہیم ؑ کے اُس سفر کا نام ہے جو قُم (عراق)سے شروع ہوکر مکہ ّپر ختم ہوتا ہے۔ جو اس سفر کے لئے تیار ہو اسکی پہلی منزل گھر سے شروع ہوتی ہے اور باپ کی اس ناجائز کمائی کے خلاف ہوتی ہے جوکہ اس وقت معزز اور جائز آمدنی کا زریعہ سمجھا جاتا تھا۔ گھر سے نکال دیا جاناحج کے سفر کاآغاز ہے ۔دوسری منزل میں بتوں کو توڑنا ہے۔ صرف پتھر کے بت ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ خوف کے بت، قانون کے بت،بیوی بچوں کے مستقبل کے بت، والدین کی جان مال اور عزت کے بت، خود اپنی جان ومال کے بت۔ ان تمام بتوں کو توڑ نے کیلئے سب سے پہلے شرک کے بت کو توڑ کر واحدا نیت کے اعلان کے ساتھ ہی اصل حج کے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی قانون وقت آپ کیلئے سزائے موت تجویز کرتا ہے۔ ماں باپ قطع تعلق کرلیتے ہیں،دوست احباب اور رشتے دار دشمن بن جاتے ہیں۔ گھر کے قریب کسی مندر میں گھس کر کسی بت کو توڑ دینا یا گھر سے بت پرستی کی مشرکانہ اور بدعتانہ نشانیوں اور رسموں کو بھی ختم کردینا آسان ہے لیکن مذکورہ ان بتوں کو توڑنا آسان نہیں جو ہمارے مزاج میں شامل ہوچکے ہیں۔ جن بتوں کی بدولت سماج میں ہمارا مقام ہے۔ انہی کی بدولت تو ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کے اچھے گھرانوں سے رشتے آتے ہیں۔ان بتوں کو دھکا لگائے بغیر کوئی یہ چاہے کہ حضرات ابراہیم ؑکی خلافت وامامت حاصل کرلے تو یہ ناممکن ہے۔ لیکن جس کے لئے ممکن ہوجائے اسکے لئے آتش نمرود گلستان بن جاتی ہے۔ عقل تماش بیں بن کر حیرت میں ڈوب جاتی ہے اور عشق آگ میں انجام کے خوف سے بے نیاز ہوکر کود پڑتا ہے۔ یہاں دراصل حج کے سفر کا ایمیگریشن ہے۔ اس سفر کیلئے گھر بار ماں باپ ہی نہیں وطن سے نکال دیا جانا ضروری ہوتا ہے تب جاکر مکہ کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے۔ مکہ پہنچنے پر حج کا فوری اختتام نہیں ہوتا بلکہ پہلے ساری دنیا کی امامت سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک آخری امتحان اور ہوتا ہے جو سعودی کے ویزا کی طرح اہم ہے۔ اگر بغیر ویزا کے کوئی احرام باندھ کر پہنچ جائے تو اُسکا جو بھی انجام ہوتا ہے وہی انجام معنوی طور پر اس حج یا عمرے کا بھی ہوتا ہے جو بغیر اس آخری شرط کے حج یا عمرے کا مکمل سمجھتا ہے۔ گھر، ماں باپ، محلہ اور وطن چھوڑنا کوئی مشکل کام نہیں۔جاہل بیویوں کی وجہ سے لوگ ماں باپ کو یوں بھی چھوڑ تے ہیں۔ روز گار کیلئے وطن کو بھی چھوڑ تے ہیں لیکن کوئی اپنی اولاد کو نہیں چھوڑ سکتا۔اس کی خاطر تو انسان حلال و حرام کی فکر سے بھی بے نیاز ہوجاتا ہے۔ لیکن حج یا عمرہ جو کہ ابراہیم ؑ نے ادا کیا وہ اولاد کی قربانی کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اس کا علامتی ثبوت یہ ہے کہ جب قربانی کے جانور پر آدمی چھری پھیرتا ہے تو دل میں پہلے یہ ٹھوس ارادہ کرلیتا ہے کہ اگر اللہ کے حکم کے آگے اولاد بھی آجائے تو اسے یوں ہی قربان کردوں گا۔ بد قسمتی سے آج لاکھوں بکرے گائے اور اونٹ ذبح تو ہورہے ہیں، گوشت تقسیم تو ہورہا ہے۔ فقہی مسائل جیسے جانور کیسا ہو، اس کی عمر کیا ہو، ذبح کرتے وقت کس طرف رخ ہو، کیا دعا پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل تو خوب بیان ہورہے ہیں لیکن قربانی کا مقصد کیا ہے، اسکے کیا اثرات آپ پر، آپ کے خاندان پر اور زمانے پر واضح ہوں یہ کہیں کوئی اللہ کا بندہ نہ غور کرتا ہے نہ کوئی بیان کرتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حج یا عمرہ کر کے لوٹنے والا معصوم بچے کی طرح پاک ہو جاتا ہے۔ معصوم بچہ سب کو پیا را ہوتا ہے۔ لوگ اس کا مذہب یا رنگ یا ذات نہیں دیکھتے۔ ہر ایک اس سے پیار کرتا ہے کیونکہ اسکے پاس کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا، کسی کو اس سے جھوٹ، غیبت،دھوکہ،حسد،سازش یا فساد کی توقع نہیں ہوتی۔ اگر آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے ایسے ہی پیار کریں جیسے معصوم بچے سے پیار کرتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قربانی کا گوشت جیسے ہی کسی کے گھر پہنچے لوگ یہ جان لیں کہ آج کے بعد اللہ کے حکم کے سامنے اگر اولاد بھی رکاوٹ بنے تو آپ اولاد کو بھی اسی طرح ذبح کرسکتے ہیں۔ اگر آپ واقعی یہ عزم رکھتے ہیں کہ ہر قسم کے بت کو توڑ یں گے تو بخدا بار بار عمرے اور حج کا ارادہ کیجئے آپ کا عمرہ یا حج پورے زمانے کیلئے باعث تقلید ہوگا۔ ورنہ اگر حج یا عمرے کا مقصد جانے بغیر اللہ تعالی کے پاس اپنے چالو کھاتے میں سے کچھ گناہ کم کرنے اور کچھ نیکیاں ڈپازٹ کرنے کی نیت سے آتے رہے، معاشرے کا نظام وہی عورتوں کے ہاتھوں میں رہا اور آپ باہر تو بڑے نیک اور پارسا بنے رہے لیکن آپ کی خوشیوں اور غموں کے مواقع،شادی بیاہ کی تقریبات، بچوں کی پرورش، جمع پونجی وخرچ وغیرہ سب کچھ عورتوں کے ہاتھ میں رہے اور معاشرے کے اکثر یتی مردوں کی طرح بیویوں کے غلام رہیں۔جوڑے جہیز کی لعنت ہندو گھرانوں کی طرح آپ کے گھر کی بھی زینت بنتی رہے۔دو دو چا چار بیٹوں کے والدین شان سے دو دو چا ر چار عمرے کرتے رہیں اور بیٹیوں کے باپ قرض چکاتے چکاتے عمریں گزاردیں۔ نہ گھر بدلے نہ سیاست بدلے،نہ معاشرہ بدلے نہ معاشیات کا نظام تو خدا را یہ تو سوچئے کہ سی این این اور بی بی سی وغیرہ پر کروڑوں غیر مسلم مکہ اور مدینہ میں شب قدر اور حج کے لاکھوں انسانوں کے مجمع کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے۔ یہی ناکہ ہندو گنپتی پر پیسہ لٹاتے ہیں اور آپ مزاروں پر یامکہ مدینہ کے سفر پر۔ آپ کے پاس ثواب کا نظریہ ہے کہ ان کے پاس پُن ّ کا۔کرشمے اور کرامات کے قصے آپ بھی سناتے ہیں اور وہ بھی۔ کاشی اور امر ناتھ جاکر یا گنگا جل نہا کر اُنہیں بھی اُتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے جتنی آپ کو زم زم سے وضو کر کے۔ 

سوال یہ ہے کہ ایک مومن اور مشرک کی عبادت میں فرق کہاں ہے۔ جس عبادت سے زندگی کے اطوار نہیں بدلتے، گھر خاندان اور محلے میں جس عبادت سے ایک اخلاقی انقلاب برپا نہیں ہوتا اُس عبادت میں صرف مال، وقت اور توانائیوں کا زیاں ہوتا ہے۔ جس عابد کو فقط اپنی پسند کی عبادت کرنے کے اطمینان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ ایک مشرک کی عبادت تو ہو سکتی ہے مومن کی نہیں۔ اسلام کی کوئی عبادت ایسی نہیں جس سے انسان کی اپنی زندگی اور گھر اور خاندان میں ایک انقلاب نہ آتا ہو۔ اور حج اور عمرہ تو عظیم عبادت ہے جس کے صیحح فائدے اگرپچاس فیصد بھی ظاہر ہوجائیں تو اندھے دیکھنے لگیں اور بہرے سننے لگیں۔ صاحبو یاد رکھو ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک حاجی وہ ہوتا ہے جو احرام باندھ کر ابھی سواری پر پاؤں ہی رکھتا ہے کہ اسکی لبیک کی صدا کے ساتھ ہی فرشتے پکار اُٹھتے ہیں کہ مبارک ہو تجھے تیرا حج قبول کرلیا گیا اور ایک حاجی وہ ہوتا ہے جو پورا حج کرلیتا ہے اپنے آپ کو تھکاتا ہے مال خرچ کرتا ہے لیکن فرشتے اُس پر افسوس کرتے ہیں۔کہتے ہیں تیرا حج تیرے منہ پر مار دیا گیا کیونکہ تیرا مال حرام،تیری کمائی، تیرا کھانا،تیرا کپڑا سب کچھ حرام سے آلودہ تھا۔ جن گھروں میں جوڑے جہیز کا حرام مال جمع ہو، جس گھر میں سود اور رشوت کا مال جمع ہو۔ جب تک کہ شدید مجبوری نہ ہو سود پر گھر گاڑی اور دوسری اشیاء جمع کی گئی ہوں۔ جس کمائی کیلئے جھوٹ بولنا جائز کرلیا گیا ہو۔ جن گھروں میں مال کا اسراف کرنے کے لئے ایسی ایسی نئی تقریبات ایجاد کرلی گئی ہوں۔ جنکو نہ اللہ کے رسول نے پسند کیا نہ صحابہ نے۔ ایسے گھروں کے افراد جب حج پر حج اور عمرے پر عمرے کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ بیت اللہ کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ اسلام کی عظیم عبادتیں دنیا والوں کے لئے باعث تمسخربن جاتی ہیں۔ 

میرے عزیزو۔آؤ حج بیت اللہ، عمرے اور مدینے کی زیارتوں کیلئے۔ بار بار آؤ۔ لیکن اپنے شوق عبادت کو پورا کرنے کیلئے نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کے عزم کے ساتھ آؤ جس کی خاطر اللہ تعالی نے ان عبادتوں کا حکم دیا ہے۔ مدینے والے پر اپنی جان ومال لٹادینے کے دعوے کرنے والو آؤاور مدینے والے کے ایک ایک فرمان کو پورا کرنے کے لئے اپنی جان لٹادینے کی قسم کھانے کو آؤ۔

ان کا فرمان ہے کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ اُن کا فرمان ہے کہ دوسرے کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ ان کا فرمان ہے کہ سچا تاجر قیامت کے روز انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔ ان کا فرمان ہے کہ جس شخص کی کمائی میں ناجائز آمدنی کا ایک لقمہ بھی شامل ہو۔ اسکی دعائیں زمین سے ایک ہاتھ بھی اوپر نہیں اٹھائی جائیں گی۔ اُن کا فرمان ہے کہ جو بندہ اوروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے فرشتے اُس کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اگر مدینے والے سے محبت کا دعوی ہے تو اُ ن کے ان فرمانوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کی قسم کھانے ایک بار آجاؤ اور پھر دیکھو کہ کیسے زمانے بھر میں انقلاب آتا ہے۔ انشاء اللہ وہ انقلاب آئیگا کہ جب آپ اس عمرے یاحج سے لوٹ کر جائیں گے تو آپ کا وجود ایک مکمل دعوت بن جائیگا جسکے نتیجے میں کروڑوں،ہندو،عیسائی اور دوسرے تمام باطل مذاہب کے ماننے والے عمرہ یا حج کرنے کی تمنا کریں گے انشاء اللہ۔ اور اگر اس مقصد کے بغیر آنا چاہتے ہوتو یاد رکھو یہ فقط ایک مذہبی پکنک کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کی فلاح کے کسی کام میں یہ پیسہ لگادو تاکہ دوسرے انسانوں کی زندگی کو فائدہ پہنچے اور ان کی دعائیں آپ کی آخرت کا سامان بن جائیں۔ اللہ تعالی ہم تمام کو یہ نکات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ 

                         کُند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام 

                         ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا 

فقط۔

آپ کا خیراندیش    

علیم خان فلکی،جدّہ

 aleemfalki@yahoo.com



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...