پیر، 26 اکتوبر، 2020

کافر کافر کا کھیل کب تک

 

ہر شخص کی زبان پر یہ ہے کہ ہماری قوم میں اتحاد نہیں، ہمارے پاس صحیح لیڈرشپ نہیں ہے۔ اتحاد نہیں ہونے کے اسباب یوں تو اور بھی ہیں لیکن سب سے اہم سبب یہی ہے کہ ہر شخص جیبوں میں اپنے استاذوں، علما، پیروں اور مرشدوں کے دیئے ہوئے ”کافر، کافر“ کے فتوے لے کر گھوم رہا ہے۔ جو خنجر سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یوں تو یہ روش تاریخ میں خلفائے راشدین کے دور میں ہی شروع ہوچکی تھی، لیکن ہندوستان میں 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد کرونا کی طرح پھیل گئی۔ آج صورتِ حال یہ ہے فاشسٹوں نے صدیوں بھائیوں کی طرح رہنے والے معصوم ہندو ذہنوں میں جو فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا ہے، اس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان کو دیکھتے ہی آج کسی بھی ہندو کے ذہن میں جو چلنے لگتا ہے، وہ ہر مسلمان محسوس کرسکتا ہے، لیکن خود مسلمانوں کے اندر ایک دوسرے کو دیکھ کر جو ذہنوں میں چلنے لگتا ہے وہ یہ کہ سامنے والا کس مسلک، کس جماعت اور کس عقیدے کا مسلمان ہے؟دیوبندی ہے؟ بریلوی ہے؟ اہلِ حدیث ہے یا شیعہ؟

ان مسلکوں کے بانیان Founders کے عظیم کارناموں کو بیان کرنے کے لئے ضخیم کتابیں درکار ہیں۔ انہی کی وجہ آج جتنی قرآن کی تفسیریں، حدیثوں کی شرحیں، فقہ کی بحثیں، تصوف کی دلیلیں، کتاب اللہ کتاب السنہ کی تاویلیں ہیں وہ زندہ ہیں اور روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہیں۔ انہی علما کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج گلی گلی حافظ، عالم، مفتی، پیرومرشد، مدرسے، جلسے اور جلوس،درگاہیں، اور خانقاہیں مل جاتے ہیں۔انہی کی وجہ سے  گاؤں گاؤں اللہ اکبر کی صدائیں تو بہرحال گونجتی ہیں۔ ان تمام احسانات کے باوجود ایک نادانستہ غلطی نے”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی“ کے مصداق آج امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔  انہی کی وجہ سے آج جتنے مسالک اور فرقے ہیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوچکے ہیں بلکہ ایک متوازی اسلام بن چکے ہیں، ہر مسلک 73 واں فرقہ ہے، باقی سارے دوسرے مسلکوں، جماعتوں اور فرقوں کی رینکنگ 72 یا اس سے کم ہے۔

                مغلیہ حکومت کے خاتمے کے بعد قیادت کی مکمل باگ ڈور علما اور مشائخین کے ہاتھ میں آگئی۔ کوئی مسلمان ایسا نہ رہا جو کسی نہ کسی عالم یا پیر سے جڑا نہ رہا۔ عقیدت کا یہ عالم رہا کہ جب بات مذہب کی آئے تو کوئی نہ ابوالکلام آزاد جیسے لیڈر کی سنتا اور نہ علامہ اقبال جیسے مفکّر کی۔ علما یا مشائخین نے جس چیز کو اسلام قرار دے دیا، بھولے بھالے لوگوں نے اسی کو اسلام مان لیا ہے۔ علما یا مرشد کا تصوّر ذہنوں میں اس قدر مضبوط بٹھادیا گیا جس قدر شودروں کے دماغ میں برہمن کا۔ تاریخ نے ایک بہترین موقع دیا تھا کہ علما اور مشائخین اس قیادت کا فائدہ اٹھاتے اور انگریزوں کے مقابلے میں امت مسلمہ کو متحد کرکے صف آرا کردیتے، کیونکہ اُس وقت جنگِ آزادی کی قیادت صرف مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ ہندو لیڈرشِپ ابھی پرورش پارہی تھی۔ جب 1857 کی جنگ کے بعد انگریز نے یہ دیکھ لیا کہ مسلمانوں کا متحد رہنا ایک خطرہ ہے، اس نے مسلمانوں کو پہلے ہندو سے لڑوادیا۔ 1870 میں دیانند سرسوتی کو استعمال کرکے آریہ سماج بنوائی اور گؤ رکھشا کی تحریک شروع کرواکر کئی ہندومسلم فسادات کروادیئے۔ 1872 میں بنکھم چند سے وندے ماترم لکھوا کر مسلمانوں کے خلاف تمام تعلیم یافتہ ہندوؤں کا کھڑا کردیا۔ یہ تفصیل راقم الحروف کی کتاب ”وندے ماترم۔ قومی ترانہ یا دہشت گرد ترانہ؟“ میں موجود ہے، آپ چاہیں تو منگواسکتے ہیں۔ اس کے بعد 1877 میں کچھ بریلویوں کو مکہ بھیج کر دیوبندیوں  اور اہلِ حدیث کے خلاف مشرک ہونے کے فتوے منگوائے۔ جوں ہی فتوے ہندوستان پہنچے، محلہ محلہ مسجدوں پر قبضوں کے لئے لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، کئی قتل ہوئے۔ جنگِ آزادی کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، اور ایسے نکلی کہ  جنگِ آزادی کی تاریخ سے ہی ان کا نام نکل گیا۔ جو تاریخ آج ہندوستان میں پڑھائی جارہی ہے اس میں لگتا ہی نہیں کہ مسلمانوں نے جنگِ آزادی میں کبھی حصہ بھی لیا تھا، حالانکہ سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے صرف مسلمان تھے۔ دیوبندی، بریلوی دشمنی اس قدر بڑھی کہ بے شمار شرمناک واقعات جنم لینے لگے، اور آج تک ہندوستان، پاکستان میں وہی واقعات دوہرائے جارہے ہیں۔ تہمتوں، بدگمانیوں، مناظروں کے ذریعے تحقیر، تکفیر، پولیس اور عدالتوں میں مقدمات کا بازار گرم ہوگیا۔ ابوالکلام آزاد نے اس کا مفصّل بیان لکھا کہ کس طرح لوگ اگر کسی دوسرے مسلک کا آدمی گھر یا مسجد میں آجاتا تو گھر کو یا مسجد کو دھلوایا کرتے۔حالانکہ رسول اللہ نے کئی مشرک قبیلوں  کے ڈیلیگیشنس سے مسجد نبوی میں ملاقات کی، لیکن کبھی مسجد نبوی کو دھلوایا گیا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسجدوں  اور قبرستانوں پر لکھ دیا جاتا کہ یہاں صرف فلاں مسلک کے لوگوں کے لئے اجازت ہے۔ جب کہ قرآن کا حکم ہے۔ ”ممّن منع مسٰجداللہ ان یُذکر فیھا۔۔۔۔“ یعنی اس سے بڑا ظالم اور کون ہے جو لوگوں کو مسجدوں میں آنے سے روکے۔۔۔۔ یہ کینسر امت میں اس وقت پیدا ہوا جب عاشقانِ رسول نے کسی بھی شخص کو گستاخِ رسول کہنے کے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جب مدارس کا جال بچھادینے والوں نے ہر طرف مناظروں Debatesکے بازار گرم کردیئے۔ جب کتاب اللہ، کتاب السنہ اور منہجِ سلف کے دعویداروں نے ہر ہر شخص میں کفر، شرک اور بدعت ڈھونڈھنے لگے۔نتیجہ یہ نکلا کہ:

 ہر مسلک کا تعلیمی اور تربیتی نظام دوسرے مسلک کی کمزروریاں پکڑنا بن گیا۔ زمانہ اسلام کا متلاشی تھا۔ ہم دوسروں کو اسلام پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کے اندر سے کافروں کو چھانٹنے میں لگ گئے۔اسلام ایک راہِ ہدایت دینے والا مذہب جاکر کافر سازی کی ایک فیکٹری بن چکا تھا۔ ہم  طرح طرح کے کافر پیدا کرنے میں لگے تھے۔فاتحہ سلام چہلم اور عرس کرنے والے کافر، دارلحرب اور جہاد کا نعرہ دینے والے کافر، درگاہوں پر جانے والے کافر، امام حسینؓ، کربلا، یزید و معاویہ ؓ سے متعلق عقیدوں والے کافر، غرض ہم کئی فقہی اور تاریخی واقعات کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں لگ گئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر مسلک کے ماننے والے نے اپنے علما کی تقلید میں ہر دوسرے شخص پر کافر، مشرک، بدعتی اور منافق کے فتوے لگانے شروع کردیئے۔ اہلِ حدیث کے بانی محمد بن عبدالوہاب ؓ نے کہہ دیا کہ تمام مقلّد کافر ہیں۔ امام احمد رضاخان ؓ نے فرمایا کہ دیوبندی مرجائے تو اس کو کپڑے میں لپٹ کر گاڑ دو، اس پر نمازِ جنازہ جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہے، دیوبندیوں نے بریلویوں کو درگاہوں پر جانے اور مانگنے پر مشرک ڈیکلیر کردیا، اُدھر شیعوں نے تمام سنّیوں کو اور اِدھر سنّیوں نے تمام شیعوں کو کافر قررار دے دیا۔ اس طرح اب دنیا میں کتنے مسلمان بچے؟

ایک دوسرے کو کافر بدعتی وغیرہ کے کہنے کے کھیل میں سب سے زیادہ قرآن اور حدیث کا مذاق اڑا۔ کیونکہ ہر کافر کہنے والے کے پاس دلیل قرآن و حدیث  سے تھی۔ اور جس پر فتویٰ لگایاگیا،  اس کے پاس جوابی دلیل بھی قرآن و حدیث ہی سے تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف جلسے جلوسوں کے مقابلے آج بھی جاری ہیں، ایک نے کربلاکا نعرہ لگایا تو دوسرے نے مدینہ کا۔ ایک نے محرّم کو حرمت بخشی تو ایک نے ربیع الاول کو۔ ایک نے کہا یوم یومِ غوث، تو دوسرے نے کہا یوم صحابہ،مقرّرین، واعظین، اکابرین، ذاکرین کی ہمیش عید رہی، انہیں ہزاروں روپئے کہ لفافے ملتے رہے،  اتحاد امت نہ کبھی کسی کا مقصد تھا، نہ آج ہے اور نہ مسقتبل میں کوئی امکان ہے، کیونکہ صدیوں سے جو گند عقائد میں شامل ہوچکی ہے وہ اب اتحادِ امت کی تطہیرمیں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور یہ رکاوٹ صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ حرم کعبہ میں چار سو سال تک ہر نماز کی چار الگ الگ جماعتیں کھڑی ہوتی تھیں۔ مصر میں عدالتیں چار الگ الگ مسلکوں کے قاضیوں کی ہوا کرتی تھیں۔

کافر سازی کی قرآن و حدیث میں ممانعت:

یہ دیکھنا ضروری ہے کہ علما ہی کی سرپرستی میں جو کچھ ہوا کیا وہ شریعت کی روشنی میں جائز تھا؟ کیا قرآن و حدیث میں ہمیں کسی کو کافر، بدعتی، مشرک، منافق، فاسق یا کچھ اور کہنے کی اجازت ہے؟حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک آٹو والا بھی اس بات سے واقف ہے کہ فرقہ بندی اور تکفیر کی اسلام میں اجازت نہیں پھر علما کیسے ان احکامات سے غافل ہوئے؟

رسول اللہ نے فرمایا کہ میرے اصحاب میں سے بارہ ایسے اصحاب ہیں جو اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکیں گے جب تک سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر نہیں جائے گا۔ لیکن آپ نے ان اصحاب کے نام کسی کو نہیں بتائے سوائے ایک صحابی حذیفہ بن یمانؓ کے۔ آج جتنی جسارت سے ہم لوگ کسی پر بھی منافق کا فتویٰ جاری کردیتے ہیں، ہمیں کیا یہ واقعہ یہ نہیں سکھاتا کہ کسی کو منافق کہنے کا حق جب خود صحابہؓ  کو نہیں تھا  تو ہم کیسے یہ حق اپنے لئے جائز کرسکتے ہیں؟

سورہ بقرہ میں کہا گیا کہ ”ولکل وِجھۃ ھو مولّیھافاستبقواالخیرات، این ما تکونوا یاتی بکم اللہ جمیعا“ ہر ایک کے لئے ایک سمت مقرر ہے جس طرف وہ جھکتا ہے، پس تم نیکیوں میں مقابلہ کرو، تم جہاں بھی ہوگے تمہیں اللہ تعالیٰ ایک دن جمع کردے گا“، اور حق ناحق کا فیصلہ فرمادے گا۔ سورہ مائدہ آیت 45 میں بھی یہی بات کہی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے الگ الگ جماعتیں ضرور پیدا کی ہیں، لیکن مسلکوں کی جیت کا مقابلہ نہ کرو بلکہ اللہ نے جو احکامات دیئے ہیں ان کو پورا کرنے کا مقابلہ کرو۔ آج کے تناظر میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو قائم کرنے کے لئے سنّتوں کو قائم کرنے کے مقابلے کرو، عفوودرگزر کے مقابلے کرو، ایک دوسرے کی کمزوریوں کو پوشیدہ رکھنے کے مقابلے کرو، صبراور انکساری کے مقابلے کرو۔ یہ احادیث ہمیں سکھاتی ہیں کہ یہ مقابلہ کیسے ہو کہ فرمایا رسول اللہ نے کہ کسی آدمی کے ایمان سے نکل جانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی سے صرف سن کر بغیر تحقیق کیئے، بات آگے کہہ دے۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ آدمی کے ایمان سے نکل جانے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کی تحقیراور تضحیک کرے، یعنی دوسرے مسلکوں کا مذاق اڑائے۔ ہم اپنے استادوں، اکابرین یا مرشدین کے کہنے پر ڈرے بغیر یا تحقیق کئے بغیر کسی کو بھی کافر مشرک یا بدعتی کہتے رہتے ہیں، ہم بخدا اپنی آخرت تباہ کررہے ہیں۔ کسی کی تکفیر یا تحقیر کردینااپنے علم پر ایک تکبر یا غرور کی نشانی ہے۔ اور کِبر،  اللہ کی چادر ہے،فیصلہ کرنے والی وہی ذات باری تعالیٰ ہے۔ کسی کو کافر یا مشرک یا منافق کہہ دینا اللہ کے فیصلے کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔

بخاری کتاب الادب، حدیث 6105 ہے ”و من رمی مومناً بکفر فھو کقتلہ“یعنی”اور کسی کو کافر قرار دے دینا اس کو قتل کردینے کے برابر ہے“۔اس حدیث کی تشریح میں یہ لکھا گیا ہے کہ تکفیر کرنے کا اختیار صرف راسخ العلم علماکا ہے، عام مسلمان کسی کو بھی کافر کہنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ جب کہ قرآن و حدیث میں نہ راسخ العلم علما کو اجازت ہے نہ عام مسلمانوں کو۔ اس غلط تشریح کی وجہ سے خود راسخ العلم علما کا اعتبار ختم ہوگیا۔ ظاہر ہے جب ایک راسخ العلم عالم کسی دوسرے کو کافر کہنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے تودوسرے چپ تو نہیں بیٹھیں گے، وہ بھی راسخ العلم عالم ہوں گے جو جوابی تکفیر کریں گے۔ ان دونوں کے ماننے والے اپنے علما کے حوالے سے ایک دوسرے کو کافر کافر کے فتوے دینے لگیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خود کہہ رہا ہے کہ ہر اختلاف کا فیصلہ وہ خود قیامت کے روز کردے گا، تو یہ علما اپنے معاملے کو اللہ اور آخرت پر چھوڑنے کے بجائے، ایک دوسرے سے راست کہنے کے بجائے، دوسرے علما کو جمع کرکے مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنے کے بجائے، جلسے کرکے جاہل عوام کو کیوں جج بناتے ہیں؟یوٹیوب پر ایسے بے شمار تقریریں  موجود ہیں جن میں قرآن کے دیئے ہوئے اخوّت، اتحاد اور اختلافات کو اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑنے کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ہر مسلک کے علما اس لئے لوگوں کو ایسی حرکتوں سے منع نہیں کرتے کہ وہ خود کسی نہ کسی درجے میں ملوّث ہیں۔

بخاری کتاب الادب حدیث 6104ہے کہ ”ای مارجل قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما“ جو بھی شخص اپنے بھائی کو کافر کہے ان دونوں میں سے کوئی ایک پر یہ کلمہ لوٹ گیا“۔ اس کی تشریح میں امام نوویؓ نے بہت اہم بات کہی ہے کہ جب تک کوئی اپنی زبان سے اسلام کو یا اسلام کے کسی حکم کو باطل قرار نہیں دیتا اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ کہنے والا مکفور کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا البتہ کفر کی معصیت کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں ضرور لکھا جائیگا۔ یہاں حال یہ ہے کہ ایک دوسرے کی کتابوں سے یا ویڈیو سے جملے نکال کرایک دوسرے کو کافر قرار دیا جارہا ہے۔جب کہ ظاہری الفاظ سے کہنے والے کے اصل منشا کو اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ خود صحابہؓ  بھی ظاہری الفاظ سے غلط فہمیوں کا شکار ہوئے۔ ایک صحابی نے جاکر لوگوں سے کہہ دیا کہ اللہ کے رسول نے پیاز کو حرام قرار دے دیا، ایک صحابی ؓ نے جاکر لوگوں سے کہہ دیا کہ رسول اللہ نے اپنی ساری بیویوں کو طلاق دے دی۔ ایک حدیث اس پوری بحث کا خاتمہ کرنے کافی ہے کہ رواہ مسلم حدیث 219، فرمایا رسول اللہ نے کہ جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہا حالانکہ وہ ایسا نہیں تھا تو یہ کلمہ اسی پر لوٹے گا“۔ سرسید، اقبال، قاسم ناناوتیؓ، احمد رضا خانؓ، ابوالاعلیٰ مودودی،جاوید غامدی، طاہرالقادری جیسے کئی علما کرام سے ہزار علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن کسی کو اللہ کا دشمن سمجھنا، انتہائی گمراہی اور اپنے علم کے غرور کی نشانی ہے۔ کیا ان لوگوں پر اللہ سے دشمنی کا شک کیا جاسکتا ہے جب کہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں اللہ کے دین کی سربلند ی کے لئے وقف کردیں۔ ان کے علاوہ قرآن کی کئی آیتیں جیسے ”لیس لک من الامر من شئی، او یتوب علیم او یعذبھم“ یا ”فانما علیک البلاغ“، یا ”لست علیھم بمصیطر“ وغیرہ اس بات کی نشادہی کرتی ہیں کہ خود انبیا کو سمجھانے کے مشن پر بھیجا گیا، کسی کو کافر، مشرک، یا منافق کہنے کے لئے نہیں۔

حل: حل یہی ہے کہ

۱۔ قد خلت لھا ماکسبت و لکم ما کسبتم ولا تُسئلون عما کانوا یعملون“ جو کچھ ہوچکا ہے وہ ماضی ہے، جن علما نے بھی ایک دوسرے کو کافر مشرک کہا ہے وہ اب ماضی ہوچکا ہے، وہ اب بھول جایئے،آپ کے ساتھ آپ کا حساب ہوگا، ان سے اُن کا حساب ہوگا، آپ سے اُن کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا۔ اب آپ اپنی آخرت کی فکر کیجئے اور اپنی زبان اور قلم کو قابو میں رکھئے۔

۲۔ اچھا گمان رکھئے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایمان یہ ہے کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو“۔ اگر آپ سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو آپ دوسروں سے کیا چاہیں گے۔ آپ یہی چاہیں گے کہ وہ اکیلے میں آپ کو توجہ دلائیں، دوسروں کے سامنے کہہ کر آپ کی تذلیل یا تکفیر نہ کریں، سوشیل میڈیا یا جاہل عوام کے سامنے جاکر نہ کہیں۔ آپ بھی یہی کیجئے کہ اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھیں تو ان کو اسی طرح توجہ دلائیں جس طرح آپ اپنے لئے چاہتے ہیں۔ اگر وہ نہ مانیں تو ان کے لئے دعا کرنا یہی مومن کی نشانی ہے۔

۳۔ جو لوگ ایسے مسلکوں پر چلتے ہیں جن کے پاس کافر، مشرک، بدعتی، منافق، وہابی، درگاہ پرست، مقلّدغیرمقلّد، گستاخِ رسول، گستاخِ صحابہ جیسے ناموں کے رجسٹر ہیں، جو ہر وقت انہی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، جن کے دلوں میں یہی زہر بھرا ہوا ہے۔ جن کی عام گفتگو، تقریریں، تحریریں، جلسے، جلوس، جماعتیں اور انجمنیں صرف انہی موضوعات پر گھومتی ہیں،  ان کو سمجھایئے، اگر نہ سمجھیں تو ان سے دوری اختیار کیجئے۔ نہ ان کی جماعت میں شریک ہویئے اورنہ  ان کو مالی یا اخلاقی مدد دیجئئے۔اپنے اصلی دشمن کو پہچانئے۔ آج ہمارے اصلی دشمن وہ فاشسٹ ہیں جو ہر قیمت اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم ان فرقوں سے باہر نکل جائیں۔ جو لوگ اب تک ہم کو ان فرقوں میں بانٹتے رہے ہیں ان تمام کو شکریہ اور خداحافظ کہہ کر کسی ایسی جماعت اور کسی ایسے امیر کے ساتھ ہوجائیں جو قرآن کو لفظ بہ لفظ سمجھتے ہیں، اور اللہ کا دین نافذ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدرسوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

پیر، 19 اکتوبر، 2020

لائف انشورنس کو سمجھنا ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت


 

کیا وجہ ہے کہ یوں تو بے شمار بدترین حرام جیسے جھوٹ، جہیز، رشوت، سود، لوٹ، چوری وغیرہ میں تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں ملوّث ہے لیکن جیسے ہی لائف انشورنس کا نام آتا ہے ہر ایک کی زبان پر پہلے ”حرام۔۔ناجائز۔۔۔“ آتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ لائف انشورنس کے حلال یا حرام، جائز یا ناجائز کے ہونے پر بحث کی جائے۔ بلکہ یہ ہے  مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت اور افلاس کو روکنے کے لئے شرعی حدود میں لائف انشورنس کس حد تک مدد کرسکتا ہے، اس کا جائزہ لیا جائے، اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کو فوری حرام یا ناجائز سمجھنے کے پیچھے ان سائیکالوجیکل یا تاریخی محرکات کا پتہ چلایا جائے جس کی وجہ لوگوں کو دوسرے حرام کاموں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن لائف انشورنس پر اچانک انہیں اپنے ایمان سے خارج ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے، لوگ اس موضوع پر تحقیق کرنا یا کم از کم پڑھنا بھی نہیں چاہتے، اس کی کیا وجہ ہے؟

راقم الحروف کی اس موضوع پر ایک تحقیقی تصنیف Life Insurance and Muslims تقریباً دس سال پہلے شائع ہوئی تھی، اکثر احباب کا اصرار تھا کہ اس کو اردو میں شائع کیا جائے، جسے اب شائع کیاگیا ہے۔ ان تمام علما اور دانشوروں کی آرا کو اس میں جمع کیا گیا ہے جن کے ذریعے اس مسئلے کو دورِ حاضر میں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، جیسے مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مفتی سعید احمدؒ دارالعلوم وقف دیوبند، سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ، مولانا اقبال احمد سہیل، سرسید احمد خان، جامعہ نظامیہ، ندوۃ العلما، الشیخ عادل اصلاحی سلفی، مفتی ظفیرالدین دارلعلوم دیوبند وغیرہ۔ اس کتاب کو پوری پڑھے بغیر لائف انشورنس پر کوئی منفی یا مثبت تبصرہ کرنا اپنے آپ سے بھی اور ملت کے ساتھ بھی ایک زیادتی ہوگی۔ یہاں صرف چند سوالات پیش کیئے جارہے ہیں، جن کے جوابات کتاب میں دیئے گئے ہیں۔

سوال ۱: NCRB کی رپورٹس جو گوگل پر موجود ہیں، اس کے مطابق ہر روز پورے ملک میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 408 ہے، زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی ہزار میں ہے، قتل 80 ہر روز، ریپ 91 ہر روز، دیگر اموات ناگہانی جیسے ہارٹ، گُردے، دماغ وغیرہ کے فیلیر کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد جو دواخانوں کے مطابق 1700 ہر روز ہے۔ فسادات، کرونا، ڈینگو، ایڈز، زلزلہ، بارش، سیلاب، لِنچنگ، وغیرہ میں مرنے والوں کی تعداد کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بھی سینکڑوں میں ہیں۔خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 2.3 لاکھ ہے۔ ان تمام اموات میں، تناسب کے لحاظ سے ہر بڑے شہر میں ہر روز 20-25 آدمی مرتے ہیں تو ان میں کم سے کم 4-5 مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز 4-5 عورتیں بیوا ہوتی ہیں، 5-10 بچے یتیم ہوتے ہیں اور کئی بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ کے شہر میں کوئی  جماعت، بیت المال، کوئی صاحبِ خیر امیر آدمی ایسے ہیں کہ ہر خاندان کو مکمل بے چارگی اور غربت سے باہر نکال دیں؟، کیا آپ کی ملت میں اتنی زکوٰۃ نکل جاتی ہے کہ ہر روز اتنی بڑی تعدا د میں بے سہارا ہونے والے خاندانوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے؟ اپنے آپ کو اس خاندان کی جگہ رکھ کر سوچئے جس کا کمانے والا صبح گھر سے نکلا اور شام گھر نہ لوٹا، صرف اس کے مرنے کی اطلاع آئی تو سوچئے اب اس گھر پر کیا گزرے گی۔ اب اس خاندان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے صرف چند صورتیں رہ جاتی ہیں۔ 1۔ عورت نوکری کرے، بچے تعلیم ادھوری چھوڑدیں۔ جب ایک مجبور عورت نوکری ڈھونڈھنے مردوں کے پاس جاتی ہے تو مردوں کے ذہنوں میں کیا کیا چلنے لگتا ہے، اس سے ہر مرد واقف ہے۔ پھر مرحوم کی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے چندہ، خیرات جمع کیا جائے۔ 2۔ عورت اپنے بچوں کو  ان کے چچا، تایا یا ماموں کے حوالے کرے اور خود شادی کرلے۔ 3۔ مرنے والا اپنی زندگی میں یا تو کوئی جائداد یا کاروبار چھوڑ کر جائے یاپھر کم سے کم کوئی انشورنس پالیسی چھوڑ کر جائے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا جائز ہے، بھیک؟ بچوں کی تعلیم ختم کرکے انہیں معمولی نوکریاں کروانا؟ بیوی کو باہر نکلنے پر مجبور کرنا؟ خاندان کو چچا، ماموں وغیرہ یا زکوٰۃ و خیرات پر زندگی گزارنے پر  چھوڑ دینا یا پھر آپ کی کمائی سے اپنے خاندان کے لئے ایسا انتظام کردینا جس سے ان کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آئے؟۔

کل قیامت میں ایسی تمام بیوائیں اور یتیم ان تمام کا دامن پکڑیں گے جنہوں نے مرنے والوں کے دماغ میں یہ تو بٹھادیا کہ لائف انشورنس حرام ہے، لیکن اس کا نہ کوئی متبادل دیا اور نہ اس کے متبادل کو قائم کرنے کی کوئی کوشش کی۔ اور وہ تمام لوگ بھی پکڑ میں آئیں گے جنہوں نے مرنے والے کویہ نہیں سمجھایا کہ جس طرح ہر ماہ بجلی اور پانی کا بِل بھرنا ضروری ہے، بچوں کی فیس اور گھر کا کرایہ دینا ضروری ہے، اسی طرح اپنی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر خاندان کے مستقبل کی حفاظت کے لئے پریمیم بھی دینا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی غربت و افلاس جس نے ان کے دین، اخلاق اور وجود کو تباہ کردیا ہے، اس کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ رِسک لینے کو جائز ہی نہیں سمجھتے۔مثال کے طور پر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنے سے مسلمان اس لئے ڈرتا ہے کہ اگر نقصان ہوجائے تو؟، اگر کاروبار کو آگ لگ جائے، پارٹنر دھوکہ دے دے، ادھار لینے والے پیسہ وقت پر واپس نہ کریں، فساد میں تباہ ہوجائیں، کرین الٹ جائے یا مزدور مرجائیں یا کچھ اور ہوجائے تو نقصان کہاں سے پورا کیا جائے؟، چونکہ ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ  انشورنس تو حرام ہے اس لئے جب پیچھے سے کوئی طاقتور مدد نہ ہوتو کاروبار تو کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لئے مسلمان صرف نوکری کرنے، یعنی غلامی کرکے ہاتھ پھیلا کر تنخواہ لینے یا پھر بہت ہی چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے پر مجبور ہے۔

سوال 2۔  کیا آپ جانتے ہیں کہ بڑھاپے میں پہنچنے والوں کے ساتھ بیٹے اور داماد کیا سلوک کرتے ہیں،  ہزار میں ایک بچہ Hidden deseases کا شکار پیدا ہوتا ہے، طلاق کے نتیجے میں بے ماں یا بے باپ کے ہوکر سینکڑوں بچے تباہ ہوجاتے ہیں، شادیوں میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے لوگوں کی پوری عمر کی کمائی لُٹ جاتی ہے، ہزاروں یتیم لڑکے اور لڑکیاں صرف غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں، جہیز کی وجہ سے ہونے والے ڈومیسٹک تشدّد کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کا ذہنی سکون غارت ہوجاتا ہے، لڑکیوں کے بھائی سب کچھ بہنوں کے جہیز میں دے کر کنگال ہوجاتے ہیں اورکرائم پر اتر آتے ہیں؟ اگر یہی روش باقی رہی تو یہ قوم آئندہ پندرہ بیس سال میں کہاں کھڑی ہوگی کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے؟ ان تمامسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ ہر شخص پہلے اپنا، اپنے بچوں کا،اور  اپنے بوڑھے ماں باپ کا انشورنس کروائے، تاکہ اس کی موت، حادثہ، معذوری، بیوی سے طلاق، یا بڑھاپے کی وجہ سے اس کے متعلقین کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

سوال3۔ کیا پرانی فقہ اِس عہدِ جدید کے مسئلے کو حل کرنے کے کے لئے رہنمائی کرسکتی ہے؟ یہ سوال ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ”انشورنس۔ اسلامی معیشت میں“ میں اپنے مقدمے میں اٹھایا ہے۔ کیونکہ فقہ یا تفقہ فی الدین جس کو  کامن سینس کہاجاسکتا ہے، قرآن و سنت کی حقیقی معنوں میں اسی وقت ترجمان ہوگی جب وہ عہدِ موجود کے مسائل کو قرآن و سنت کے اصل منشا Ultimate goal کو سامنے رکھ کر فقہی اصول و ضوابط بنائے۔ فقہ کا اہم ضابطہ یہ ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس چیز پر فتویٰ دیا جارہا ہے وہ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اس سے انصاف قائم ہوتا ہے یا حقوق کی پامالی ہوتی ہے؟ اس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا حقدار کو اس کا حق ملتا ہے۔ جب ائمہ اور علماءِ متقدمین نے سود کی تعریف اور اس کے بارے میں فتوے جاری کئے تھے اُس وقت اگرچہ عہدِ رسالت کے وہ طریقے بنیا د تھے جسمیں گیہوں کے بدلے گیہوں وغیرہ کی پیچیدہ روایتیں تھیں جو اس وقت کے لوگوں کے لئے آسانی سے سمجھ میں آجانے والی تھیں کیونکہ یہ اس وقت کا چلن تھا۔ لیکن فقہ کا یہ بھی اصول ہے کہ عہد، مقام اور حالات کے بدلنے کے ساتھ فتویٰ دینے کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ اب دور بدل چکا ہے، آبادی، وسائل، کمیونیکیشن، ٹکنالوجی، کمائی اور خرچ کے طریقے اور ذرائع اور ان کے ساتھ ساتھ انفارمیشن بدل گئی ہے۔ اب نئے حالات میں قرآن و سنت کو صحیح Interprete کرنے کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حضرت عمرؓ کے کئی فیصلے جو عہدِ رسالت کے رواج سے مختلف ہوتے تھے، ان کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کتاب میں کئی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے قرآن اور سنت کا اصل منشا پیشِ نظر تھا، عہدِ رسالت کا رواج نہیں۔ لیکن سود یا انشورنس ہی نہیں، کئی معاملات میں آج تک ہم صدیوں پرانی کتابوں میں آج کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں، اور اجتہاد کے دروازے خود پر بھی اور دوسروں پر بھی بند کرچکے ہیں۔

سوال 4۔ کیا عہدِ رسالت میں جو سود کی شکل تھی جسے حرام ہی نہیں، اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے برابر، ماں سے زنا کرنے کے برابر قرار دیا گیا، کیا لائف انشورنس میں سود کی شکل وہی ہے؟ محض لفظ سود کے شبہ میں سود کی حرمت کی یہ شدید آیات اور حدیثیں ہم جو ہر ”اضافی رقم Additional amount پر اسٹامپ کیئے جاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ کاروبار میں وصول ہونے والی اضافی  رقم میں اور غریب اور مفلس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس سے قرض سے زیادہ  وصول کی جانے والی اضافی رقم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس تفصیل کے لئے علما کرام کی تحقیق اِس کتاب میں پڑھنی پڑھے گی۔

سوال 5۔ کیا سود کے احکام ایک مسلم ملک میں اور ایک دارالحرب میں یکساں ہوں گے؟ پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا کہ ”لا ربوا بین المسلم والحربی فی دارالحرب“؟یعنی دارلحرب میں مسلمان اور کافر کے درمیان سود، سود نہیں ہوتا۔ دارلحرب کی تعریف کیا ہے، یہ ایک طویل بحث ہے جس کو کتاب میں پڑھاجاسکتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ وہ ملک جہاں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہ ہو، حاکم مخالفِ اسلام ہو اور عدالتوں کے فیصلے خلافِ شریعت ہوں۔ علما کا ایک طبقہ اس حدیث کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، جب کہ ایک طبقہ اسی حدیث کی بنیاد پر ہندوستان سے بنک کے لین دین اور انشورنس کو جائز قرار دیتا ہے؟ یہاں ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کو تفقہ فی الدین یعنی کامن سینس کا استعمال کرکے، مسلکی اور عقائد کے تعصب سے باہر نکال کر غیرجانبداری سے دونوں علما کے دلائل کو پڑھ کر ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔

سوال 6۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ”سود کی آیات عہدِ رسالت کے آخری دور میں نازل ہوئیں، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ان کی تشریح فرماتے، آپ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے“۔ یہ قول ابن ماجہ، مسند احمد، ابن کثیر نے نقل کئے، اسے سلفی ادارے دارالسلام ریاض نے ”سیرت عمر فاروقؓ“ میں جلد اول صفحہ 416 پر شائع کیا، یہ کتاب ڈاکٹر محمد الصلابی نے لکھی ہے۔ یہ نکتہ معمولی نکتہ نہیں ہے۔ سود کی تعریف متعین کرنے اور موجودہ ہندوستان میں بنک اور انشورنس کو ڈیل کرنے کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔

سوال7۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لائف انشورنس ایک  جوّا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟  ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، الشیخ عادل اصلاحی، اور دوسرے اس دعوے کو یکسر رد کردیتے ہیں کیونکہ جوّا ایک ایسا رِسک ہے جو دانستہ لیا جاتا ہے، اگر نہ لے تو کوئی نقصان نہیں ہوتا، اِس سے ایک خاندان ہی نہیں پورا معاشرہ برباد ہوتا ہے، ایک آدمی کی جیت کئی لوگوں کے ہار کی وجہ سے ہوتی ہے، اس میں آدمی کی نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ میں جیت جاؤں، باقی جائیں جہنم میں۔ لیکن اس کے برعکس انشورنس اگرچہ یہ بھی ایک رِسک ہے لیکن اس میں سب کا فائدہ ہوتا ہے نقصان کسی کا نہیں ہوتا، اس سے ہزاروں نہیں لاکھوں خاندان پلتے ہیں، معاشرے میں اپنی جان اور مال کی حفاظت کے ساتھ کاروبار میں مزید لگن، محنت اور ترقی کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ اس سے پوچھئے جسے دواخانے کا لاکھوں کا بِل دینا نہیں پڑا، جو حادثہ میں مالی نقصان سے محفوظ رہا، جس خاندان کو بروقت مدد کی وجہ سے گھربیچنا نہیں پڑا، جس کو ساری زندگی وظیفہ ملتا رہا، اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی بیوی کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑا۔

سوال 8۔ لوگ لائف انشورنس کو غرر یعنی Ambuiguity, Speculation کہتے ہیں۔ یعنی جس چیز کی ڈیل ہورہی ہے وہ غیر یقینی یعنی اس میں Uncertainty ہو، جیسے بھینس پانی میں ہے اور اس کا سودا کرلینا، انشورنس میں غیریقینی کوئی بات نہیں۔ ہر بات لکھی ہوتی ہے۔

سوال 9۔ لائف انشورنس پر اعتراض کی وجہ کیا ہے؟ یہ سبب 160 سال پرانا ہے، جب انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت ختم کرکے بے شمار مظالم ڈھائے، ان سے جنگ آزادی یعنی جہاد جب ڈیکلیر کردیا گیا، اس وقت قوم میں جذبہ جہاد کو پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انگریز کی ہر چیز کو حرام قرار دیا جائے۔ بنک، انشورنس ہی نہیں انگریزی تعلیم، عورتوں کی تعلیم، کالج  اور یونیورسٹی، فیملی پلاننگ، ٹائی سوٹ وغیرہ، اِن ساری چیزوں کو حرام ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا، انگریز تو چلا گیا لیکن اس دور کے فتوے باقی رہ گئے۔انشورنس اور بنکنگ کے جائز ہونے پر اہلِ سنت الجماعت کے علما کا فتویٰ موجود ہے جسے جامعہ نظامیہ،حیدرآباد اور ندوۃ العلما لکھنو نے 1990 میں جاری کیا۔ دیوبند تقسیم ہے۔ ایک گروہ سخت مخالف ہے، لیکن دوسرا گروہ جو مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قیادت میں اس بات کا قائل ہے کہ رفع ضرر کے لئے اپنی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی خاطر انشورنس خریدا جاسکتا ہے۔ اس فتوے پر تقریباً 55 علما  بشمول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے دستخط کئے ہیں۔ اسی طرح اہلِ حدیث یعنی سلفی مسلک بھی دو گروہوں میں منقسم ہے۔ چونکہ انشورنس کا بزنس سعودی عرب میں سب سے زیادہ نفع بخش بزنس ہے، اس لئے شاہی خاندان اور دوسرے امیر سعودیوں کا کئی ملین رہال کا اس بزنس میں انوسٹمنٹ ہے۔ ہر کمپنی کی گورننگ باڈی میں علما شریک ہیں جو شرعی حدود کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ تمام علما نہ صرف انشورنس کی تائید میں ہیں بلکہ اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ علما ہیں جیسے الشیخ عبدالعزیزبن بازؒ، الشیخ  عثیمینؒ اور الشیخ الفوزان وغیرہ، جن کے شاگردوں کی تعداد ساری دنیا میں ہزاروں میں ہے، یہ شیوخ کسی بھی قسم کے انشورنس یعنی لائف، جنرل، کار اور میڈیکل کو یکسر حرام قرار دیتے ہیں۔ ان کے فتوے جو www.islam-qa.com پر شائع ہوتے ہیں، ان فتوؤں کا ایک جائزہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ EMI جو شریعت کی نظر میں سخت مشتبہ کاروبار ہے، سعودی علما کے نزدیک جائز ہے۔

ایسے کم سے کم پچاس اور سوالات ہیں جن کا جواب اِ س کتاب میں مل جائیگا جیسے کیا ہر اضافی رقم سود ہے؟سعودی عرب یا پاکستان کے فتوے ایک غیرمسلم ملک جیسے ہندوستان ہے، اس پر کیا لوگو ہوسکتے  ہیں؟مسلم ممالک میں اسلامی انشورنس ”تکافل“ ناکام کیوں ہے؟لائف انشورنس کی ماہیت کیا ہے؟مسلمانوں نے کافربنکوں کا  اپنے سود کو چھوڑ کر کتنے ہزار کروڑ روپیہ کا فائدہ کیا ہے؟ لائف انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا ہر سال کتنے ہزار کروڑ کانقصان ہوتا ہے؟ اکثر لوگ اعتراضات کرتے ہی کہ  لائف انشورنس میں غِش، غبن، وراثت میں ناانصافی، خلافِ توکّل، خلاف عقیدہئِ تقدیر، عیاشی، صرف کمپنی کا فائدہ، بوڑھوں کا نقصان، موت سے غفلت، زندگی کی ضمانت، پالیسی خریدنے والے کا قتل، سازش، وغیرہ پائے جاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟اگر مسلمان اپنی خود ایک لائف انشورنس کمپنی یا بنک قائم کرنا چاہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات مختلف علما اور دانشوروں کی آرا کی روشنی میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو 7097475916 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قارئین جن کی عمریں لائف انشورنس کروانے کی عمر سے آگے نکل چکی ہیں، وہ لوگ کم سے کم یہ تو کرسکتے ہیں کہ اپنی اولاد اور اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کو لائف انشورنس سے ناواقف رہنے کے نقصانات سے آگاہ کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ کیونکہ جو بھی یہ کہے گا کہ یہ ناجائز ہے، آپ ان سے پوچھئے کیا آپ نے اس کی تحقیق کی ہے؟ تو وہ یہی کہے گا کہ نہیں، میں نے صرف یہ سنا ہے۔

 بقول اقبال َ۔

      شیر مردوں سے ہوا پیشہئ تحقیق تہی                          رہ گئے صوف و ملّا کے غلام ائے ساقی

 

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

  

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

وراثت اور وصیّت کا نظام مسلمانوں کی عظمت کی بحالی کی ضمانت


ایک ایسا حکم جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کہا ہم نے مستحب بنادیا، جسے اللہ تعالیٰ ”تلک حدود اللہ“ یعنی جسے سرحد  ایل او سی  قرار دیا، ہم نے اس کو پھلانگ دیا، نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا، یعنی جب کوئی ایل او سی کراس کرکے ایک قدم بھی دوسری سرحد میں داخل ہوتا ہے اس کا حشر سب کو معلوم ہے۔ نتیجہ

دیکھ لیجئے آج عدالتوں میں خونی رشتے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں، پہلوانوں، لیڈروں، دلالوں، پولیس اور وکیلوں کی عید ہورہی ہے، مسلمانوں کی جائدادیں اور مال لٹ رہے ہیں۔ دادا جانوں اور نانا جانوں نے چھوڑا تو بہت کچھ، لیکن اولاد کو  وراثت اور وصیّت کے بارے میں تربیت نہیں کی، اور نہ خود کبھی احکامات کو جاننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کہیں بھائیوں نے ایک دوسرے کا حق ماردیا، کہیں مرحوم بھائیوں کے خاندان کا حق دبا دیاگیا،کہیں ماموں یا چچانے بھانجوں اور بھتیجوں کو ان کے حق سے محروم کردیا۔ عام طور کزنس Cousins میں زندگی بھر جو رقابتیں رہتی ہیں، وہ اسی بنیاد پر ہوتی ہیں کہ دادا یا نانا کی وراثت کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا۔کئی لوگ بزنس پارٹنرشپ کرتے ہیں، کسی پارٹنر کا انتقال ہوجاتا ہے، پارٹنر  قبضہ کرلیتے ہیں۔بیٹیوں کی شادی  میں ماں باپ اچھے داماد خریدنے کے چکّر میں بیٹوں کی وراثت تباہ کرتے ہیں، جب بیٹیاں اپنا وراثت کا حق مانگنے آتی ہیں تو بھائی انہیں چلتا کردیتے ہیں، مجبوراً بہنوں کو بھائیوں کے خلاف عدالت  جانا پڑتا ہے۔  بڑی بڑی دینی جماعتیں اور مدرسے والے ایک دوسرے کے خلاف سپریم کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ ان جماعتوں اور مدرسوں کے نام پر وقف کی ہوئی کروڑوں روپئے کی جائدادوں پر کنٹرول کرنے کے لئے کون امیر بنے گا، اس کے جھگڑے ہیں۔ 

وراثت کے ان جھگڑوں میں ملوّث افراد کا آپ قریب سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں، دین اور قوم  کی ہمدردی میں بڑی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں،  اور نماز، روزہ عمرہ بھی ادا کرتے ہیں، متشرع بھی ہیں۔ لیکن وراثت کے جھگڑوں کو علما سے نہیں بلکہ غیر شرعی  ججوں سے حل کروانا چاہتے ہیں۔  ایسے ہی لوگوں سے عدالتیں بھری پڑی ہیں، جن کو شریعت کا فیصلہ نہیں چاہئے بلکہ غیرشرعی عدالتوں کا فیصلہ چاہئے۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کو قرآن نے کہا کہ ”ومن لّم یحکم بما انزل اللہ فاولیٓک ھم الظالمون، ھم الکافرون، ھم الفاسقون۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے فیصلے اس شریعت کے مطابق نہیں کئے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو یہی لوگ کافرہیں، فاسق ہیں اور ظالم ہیں۔

جو اسلام آج رائج ہے اسے آپ ایک ایسا اسٹیریوٹائپ اسلام کہہ سکتے ہیں جس میں عبادتیں، دعائیں اور کرامات کے قصے تو ہیں لیکن اس میں جو ایک مضبوط اکنامک سسٹم، ایک پولیٹیکل اور مورل سسٹم موجود ہے۔ اس کا دور  دور تک کوئی وجود پیش ہی نہیں کیا جاتا۔ اس قرآن میں روزگار کے حصول اور اولاد ہونے کی معجزاتی آیات تو لوگوں کی نظر آتی ہیں۔ لیکن دولت کی صحیح تقسیم، خاندانی دشمنیوں کے خاتمے کے طریقے اور غربت و افلاس کو ختم کرنے کے گُر کسی کو نظر نہیں آتے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ امت کے معاشی استحکام Economic stability کے احکامات پیش کردیئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر زکوٰۃ کا ایک منظم نظام قائم ہوجائے، نکاح اور مہر مکمل نبی کے طریقے پر قائم ہوجائیں، وراثت اور وصیّت پر سختی سے عمل شروع ہوجائے تو نہ کسی مسلمان کو بنکوں سے قرض لینا پڑے اور نہ کوئی بھکاری نظر آئے۔

                                آج بھی ہم چاہیں تووراثت اور وصیّت کے نظام کو قائم کرکے ایک اخلاقی اور معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے نہ آپ کو کتابیں لکھنی ہیں، اور نہ تقریریں لکھنی ہیں اور نہ کوئی جنگ کرنی ہے۔ صرف اتنا کرنا ہے کہ کسی جنازے کو دیکھ کر یہ غور کرنا ہے کہ مرحوم نے جو کچھ مال اور جائداد پیچھے چھوڑی وہ اب جن کے حوالے ہوگی، وہ بیٹے اور دامادکیا کبھی  یہ سوچیں گے کہ اباجان یا امی جان جنت کی ٹھنڈی ہوائیں کھارہے  ہوں گے یا دوزخ کی گرم تپتی ہوئی دھوپ میں جل رہے ہوں  گے۔ پھر جنازے کو دیکھ کر یہ بھی سوچئے کہ یہ وقت کل آپ پر بھی آنے والا ہے، سب کی میّتیں اٹھنے والی ہیں۔ کل نفسِِ ذائقۃ الموت۔کیا آپ کو یہ احساس ہے کہ ساری زندگی جس مال کو جمع کرنے میں آپ نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے، وہ مال اب کسی نہ کسی کے حوالے تو ہوگا۔ کیا وہ آپ کو محشر میں آپ کے گناہ کو اپنے سر لینے تیار ہوں گے؟

لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھا ہوا ہے کہ قیامت میں بس نماز، روزہ، داڑھی، ٹوپی اور مسلکوں پر عقیدے کا سوال ہوگا، باقی چیزوں کو اللہ تعالیٰ کچھ عمرے، خیرات، زیارات، اذکار اور وظائف کے عوض معاف کردے گا۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے۔ قیامت میں پوچھے جانے والا سوال نامہ کوئی متعین Fixed Qurestionaire  نہیں ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جس کوجو حیثیت دی تھی، اسی سے متعلق سب سے پہلا سوال ہوگا۔ نمازوں، روزوں وغیرہ کی قبولیت کا انحصار اصل سوال پر ہوگا۔ قاضی یا جج اپنے فیصلوں کی بنیاد پر پکڑا جائے گا۔ عالم اپنے اُس علم پر پکڑا جائے گا جس پر اس نے عمل نہیں کیا، بزنس مین جھوٹ اور حلال کمائی پر پکڑا جائے گا۔اسی طرح  قیامت میں ان لوگوں سے جنہوں نے اپنے مرنے کے بعد مال اور جائداد چھوڑی تھی ان سے سب سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ کیا  وہ راثت اور وصیّت کے احکامات پر چلتے ہوئے مرے تھے یا غفلت برتی تھی۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں اس وارث کی فریاد سب سے پہلے سنی جائیگی جس کو اس کے حق سے محروم کردیا گیا۔ ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ ”جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے وراثت اور وصیّت کے احکام کی پابندی کی تو وہ تقویٰ پر مرا، اور اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے راضی ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الوصایہ)۔

دین کی تعریف صرف دولفظوں میں کی گئی ہے۔ ”الدین معاملہ“۔ دین معاملے کا نام ہے یعنی ایک دوسرے سے صحیح Dealing کا نام اسلام ہے۔ معاملہ کا دوسرا نام عدل Justice ہے۔ جہاں ”یقیمون الصلوٰۃ“ یعنی نماز قائم کرنے کا حکم ہے وہیں ”کونوا قوّامین بالقسط“ کابھی اسی تاکید اور اسی زور کے ساتھ حکم ہے۔ بالخصوص وراثت کی تقسیم، اس میں اگر عدل نہ ہوا تو حدیث میں یہ تنبیہ آئی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ خود ایسے شخص کے خلاف مقدمہ لڑے گا“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”ایک آدمی ستّر سال نیکیوں میں گزارے گا لیکن وراثت کے معاملے میں غفلت برتے گا، وہ دوزخی ہوگا۔ اور ایک آدمی ستّر سال گناہوں میں ملوّث ہوگا لیکن وراثت اور وصیّت کے معاملے میں کھرا ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا“۔

اسلام ایک مکمل معاشی نظام یعنی اکنامک سسٹم دیتا ہے۔ بقول مولانا مناظر احسن گیلانیؓ  کے  اسلام  تقویٰ کے نام پر صرف چپراسی، مزدور یاکلرک بننے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ بنکوں کی قطار میں کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے، بلکہ خود بینکر، انشورر، آڈیٹر، فیکٹری مالک اور  انڈسٹری کے مالک بننے کا بھی درس دیتا ہے۔ یہ تمام کام اس وقت ہوں گے جب دولت کی تقسیم Distribution of Wealth کا نظام صحیح ہوگا۔ کمیونزم، سوشلزم اور کیپٹلزم اسی دولت کی منصفانہ تقسیم کے نظریئے سے وجود میں آئے، لیکن جو انصاف زکوٰۃ، مہر، نفقہ، وراثت، نکاح، اور وصیّت میں ملتا ہے وہ دنیا کا کوئی اور نظام نہیں دے سکتا۔ وراثت کے نظام کو قائم کرنے کے لئے علما، یا لیڈر یا امیر لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شخص اپنی ذات پر پہلے قائم کرنے کا  مکلّف ہے۔ وراثت کے معاملے کو اللہ تعالیٰ نے جہاں ”حدود اللہ“ قرار دیا، وہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ جس جگہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں قائم کی جائیں گی وہاں ایک سال کی برکت چالیس سال کی بارش کی برکت ہوگی۔ ورنہ ”ومن یتعدّ حدود اللہ فاولیٓک ھم الظالمون“  یعنی جس نے اللہ کی حدوں کو توڑا وہی لوگ ظالم ہیں۔ وراثت کے بارے میں علم کو نبی نے ”آدھا علم“قرار دیا۔ اور حکم دیا کہ ”علّموا علم الفرائض فانّھا اوّل العلم نسیت من امتی“ (ابن ماجہ)، یعنی علم الفرائض یعنی وراثت اور وصیّت کے بارے میں علم حاصل کرو، کیونکہ میری امت سے سب سے پہلے یہ علم اٹھالیا جائیگا، ذہنوں سے بُھلا دیا جائیگا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ”ایک وقت ایسا آئے گا کہ دو لوگ وراثت کے بارے میں جھگڑا کررہے ہوں گے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ملے گا“۔

وراثت اور وصیت کیا ہے، یہ بھی جان لیں۔ وراثت وہ ہے جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ جس کی تقسیم کا طریقہ سورہ نساء آیت 11,12 میں مکمل بتادیا گیا۔ مرنے والے کو کوئی اختیار نہیں کہ اپنی طرف  سے ایک روپیہ کی بھی کمی یا زیادتی کرے۔ وصیّت یہ ہے کہ جو لوگ وراثت کے راست حقدار تو نہیں لیکن مرنے والا چاہتا ہے کہ ان کی مدد کی جائے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ ایک تہائی یعنی 1/3rd مال کو اپنی مرضی سے کسی کو دینے کی وصیّت کرسکتا ہے جیسے مرحوم بیٹے کی اولاد، کوئی بھی قریبی رشتہ دار یا کوئی مدرسہ، ادارہ  یا کسی آرگنائزیشن کیلئے وقف کرسکتا ہے۔حضرت عبیداللہ سندھیؓ نے لکھا کہ اگر ماں یا باپ یا بھائی بہن غیرمسلم ہیں، جنکو وراثت میں شامل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کوئی بھی شخص ان کے حق میں ایک تہائی کی وصیّت کرسکتا ہے۔  اس کے علاوہ ایک اور شق ہے ہِبہ کی۔ ہبہ وہ ہے جو آدمی اپنی زندگی میں ہی وراثت کے طور پر تقسیم کردیتا ہے لیکن اس صورت میں لازم ہے کہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، تمام میں مساوی تقسیم ہونی چاہئے۔ شریعت نے زندگی میں ہی وراثت کی تقسیم سے منع کیابعض معاملات میں وصیت کرنا واجب ہے، جیسے قرض کی واپسی، حج، روزے یا زکوٰۃ چھوٹ گئے ہوں تو اس کا کفارہ کس طرح ہوگا، علما سے معلوم کرکے اسے ادا کرنے کی وصیت کرنی لازمی ہے، اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی کا مال ہڑپا ہے تو اسے واپسی کی وصیت لازم ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آج کئی لوگ جو معتبر، تعلیم یافتہ اور انتہائی نیک اور شریف معلوم ہوتے ہیں، جوانی میں بچوں کو بڑا کرنے، ان کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے لئے انہوں نے کتنے جھوٹ، فریب، خیانت،اور کسی کے اعتماد کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ رشوتیں لے کر گھر بنائے ہیں، خوشامد پسندی کے ذریعے پروموشنس حاصل کیا اور کسی اور کا حق مارا، باپ دادا کی وراثت غیرمنصفانہ طریقے سے حاصل کی، ان تمام ناجائز کاموں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کو کم از کم اب بڑھاپے میں جب کہ اولاد ترقی کرچکی ہے، اپنے پاوں پر کھڑی ہوچکی ہے، آدمی یہ فیصلہ کرلے کہ بیٹوں اور دامادوں کو خوش کرکے اللہ کو ناراض کرناچاہتا ہے یا اللہ کو خوش کرکے اپنی آخرت سنوار لینا چاہتا ہے۔ جن بیٹوں اور دامادوں کے لئے زیادہ سے زیادہ چھوڑ کر وہ مرے جارہا ہے وہ تو یوں بھی کل قیامت میں اِن سے خود غرض ہوجائیں گے۔ ”یوم یفرالمرء من اخیہ۔۔۔۔سورہ عبس) یعنی باپ بیٹا ماں دوست سارے کے سارے ایک دوسرے سے فرار حاصل کریں گے۔ پھر کیوں نہ آدمی اپنی آخرت بچانے آج ان سے خودغرض ہوجائے جو کل اِن سے خودغرض ہونے والے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ وراثت اور وصیت کے نظام کو قائم کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ

۱۔ ہر چیز کو لکھا جائے۔رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ ”کسی کے پاس جب کوئی ایسا مال آئے جس پر وصیت کی جاسکتی ہے، تو اس پر دو راتیں ایسی نہ گزریں جب اس کی وصیت تیار نہ ہو“۔ آپ کے بنک اکاونٹ، پاس ورڈ، لائف انشورنس پالییسیاں، شیئرز، جائداد، کسی کو اگر قرض دیا ہو یا کسی سے لیا ہو، ایک ایک روپیہ کی تفصیل لکھ کر محفوظ کردیں، اور ہر دو چار مہینے بعد اس کو تازہ کرتے رہیں۔ اگر بیوی یا ماں باپ کو بتانا نہیں چاہتے تو دو تین کاپپاں  بناکر اس کو سیل کرکے کسی کے پاس امانت کے طور پر محفوظ کردیں اور ورثا کو اطلاع دے دیں کہ اگر آپ کو کچھ ہوجائے تو فلاں فلاں کے پاس وصیت نامہ لکھا ہوا ہے اس کے مطابق وراثت کو تقسیم کردیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے بے شمار لوگ ایسے مرگئے جو کل قیامت میں سخت جوابدہ ہوں گے، جن کی کتنی بچت تھی، کہاں کیا خریدا تھا، بنک اکاونٹ یا پالیسی کہاں تھی، یہ کسی کوعلم نہ ہوا اور ان کے خاندان اچانک مصیبتوں کے شکار ہوگئے۔ بالخصوص NRIs جو امریکہ، یورپ یا سعودی وغیرہ میں رہتے ہیں، یہ لوگ قیامت میں زیادہ پکڑ میں آسکتے ہیں کیونکہ اگر ان کی یہ تفصیلات لکھی ہوئی نہ ہوں اور وہ اچانک موت کا شکار ہوجائیں تو نہ صرف یہ کہ غیرملکی بنک فائدہ اٹھالیتے ہیں بلکہ اصل وارث محروم ہوجاتے ہیں۔

۲۔ مرحوم اباجان کی وراثت کی تقسیم وارثوں پر پر فرض ہے۔ جو لوگ وارث نہیں ہیں ان پر فرضِ کفایہ ہے کہ ان وارثوں کو غلطی کا احساس دلائیں۔ اگر خاندان میں سے کسی ایک نے بھی یہ فرض ادا کردیا تو سب بری ہیں، اگر کسی نے بھی توجہ نہیں دلائی تو سارے گناہگار ہوں گے۔

۳۔ عورتیں خاص طور پر سمجھیں کہ ہماری سوسائٹی میں ایک تو عورتوں کو وراثت دی ہی نہیں جاتی۔ خود عورت کے پاس جو کچھ ہے  وہ بھی اس کی تقسیم شریعت کے مطابق نہیں کرتیں۔ جیسے ہی کسی عورت کا انتقال ہوتا ہے۔ بیٹے بہو مل کر جو جو جس نے دیا تھا وہ واپس لے لیتے ہیں۔ جو بیٹے یا بیٹیاں غریب تھیں انہیں صدقے کے طور ایک آدھ انگوٹھی ہاتھ آتی ہے۔ یہ وراثت کی تقسیم عدل کے خلاف ہے۔ جس بیٹے یا بیٹی نے اپنی ماں کو تحفہ دے دیا اب وہ مال،  ماں کی ملکیت ہوگی۔ اس کے مرنے کے بعد اپنی اپنی دی ہوئی چیز اٹھالینا ایک حدیث کے مطابق تھوک کر چاٹنے کے برابر ہے۔ اب اس سونے کی تقسیم شریعت کے مطابق ہوگی، اس پر ساری اولاد کا حق ہے چاہے انہوں نے خود ماں کو کوئی تحفہ دیا تھا یا نہیں دیا تھا۔ عورتیں اس ناانصافی کی وجہ سے کل قیامت میں سخت پکڑ میں آئیں گی۔ عورتوں کو چاہئے کہ پہلے ہی اپنی ایک تہائی کے بارے میں فیصلہ کریں کہ وارثوں کے علاوہ و کس رشتہ دار یا کس ادارے کو یہ دینا چاہتی ہیں۔ ورنہ بیٹیاں اور بہو تو سونا لے کر خوش ہوجائیں گی لیکن کل قیامت میں نہ کوئی بیٹی بچانے آئے گی نہ کوئی بہو۔

۴۔ ہر مسجد میں  علما کی سرپرستی میں وراثت کمیٹی بنائی جائے جو  وراثت کے مسائل کو شرعی طور پر حل کرنے کے لئے مدد کرے۔

۵۔ ہر شخص اپنا ایک تہائی، دو گواہوں کی موجودگی میں لکھ کر چھوڑ دے۔ وصیت کی  اہمیت اس دور میں بے انتہا اہم ہے۔ وہ لوگ جن کے بیٹے بیٹیاں خوشحال ہیں، امریکہ وغیرہ میں ہیں، جنہیں وراثت کی شدید ضرورت بھی نہیں، وہ لوگ اگر یہ دولت اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردیں تو بے شمار لوگ غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اسلام پر ان کا اعتقاد بڑھ سکتا ہے۔ غیر مسلم اس عمل کو دیکھ کر اسلام کے قریب آسکتے ہیں۔ اگر ورثا راضی ہوں تو ایک تہائی سے زیادہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کی جو صورت ِ حال ہے ہر شخص اس سے واقف ہے۔ اگر یہ ایک تہائی اماؤنٹ ان تنظیموں کے لئے وصیت میں لکھ دیا جائے جو اس وقت سیاسی بیداری، میڈیا، ایجوکیشن یا Empowerment کے لئے کام کررہے ہیں، ظلم کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں، معصوم نوجوانوں کو جیلوں سے چھڑانے کے لئے کام کررہے ہیں، قرآن کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ لوگوں کو اسٹیریوٹائپ اسلام سے نکال کر حقیقی اسلام سے روشناس کروارہے ہیں، لٹریچر جو اردو کے ساتھ دفن ہورہا ہے اسے اگلی نسل کے لئے دوسری زبانوں میں منتقل کررہے ہیں، ایسی تنظیمیں محض پیسے کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی کام کرنے سے قاصر ہیں،لوگ امیر ہیں لیکن تنظیمیں غریب ہیں۔ جب تک  ان کو فنڈز نہیں ملیں گے وہ قوم کو دشمن کے مقابلے میں کھڑا نہیں کرسکتے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوجائے، مسلکوں کی جنگ ختم ہوجائے،  اگر زکوٰ ۃ کا ایک اجتماعی نظام قائم ہوجائے، اگر سادگی سے نکاح کا طریقہ نبی قائم ہوجائے تاکہ دلہنوں کے والدین کے سر سے جہیز اور ضیافتوں کا بوجھ ہٹ جائے، اگر وراثت اور وصیّت کا نظام قائم ہوجائے تو ایک انقلاب آسکتا ہے، لیکن ان سارے کاموں کے لئے قدم قدم پر پیسے کی ضرورت ہے۔ یہ سارے لوگ جو اپنے پیچھے گھر، مال، گاڑیاں، اور بے شمار چیزیں چھوڑ کر مررہے ہیں، صرف اپنے بیٹوں اور دامادوں کے بنک بیلنس کو بڑھا رہے ہیں، یہ لوگ اپنی آخرت مکمل تباہ کررہے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ یہ اپنے خاندان کی ذمہ داریا ں پوری کرچکنے کے بعد اب باقی سارا مال، اس گرتی ہوئی بلکہ مرتی ہوئی قوم کے اداروں کے حوالے کردیں، یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی تعلیم، صحت یا کاروبار کے لئے لگادیں تو جس طرح دنیا میں کامیاب زندگی گزار کرجارہے ہیں اسی طرح ان کی آخرت  بھی انشاء اللہ بہت شاندار ہوگی۔ اس معاملے میں صحیح رہنمائی کے لئے سوشیوریفارمس سوسائٹی کی جانب سے کونسلنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہم سے واٹس اپ پر رابطہ فرمائیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...