اتوار، 11 اکتوبر، 2020

وراثت اور وصیّت کا نظام مسلمانوں کی عظمت کی بحالی کی ضمانت


ایک ایسا حکم جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کہا ہم نے مستحب بنادیا، جسے اللہ تعالیٰ ”تلک حدود اللہ“ یعنی جسے سرحد  ایل او سی  قرار دیا، ہم نے اس کو پھلانگ دیا، نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا، یعنی جب کوئی ایل او سی کراس کرکے ایک قدم بھی دوسری سرحد میں داخل ہوتا ہے اس کا حشر سب کو معلوم ہے۔ نتیجہ

دیکھ لیجئے آج عدالتوں میں خونی رشتے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں، پہلوانوں، لیڈروں، دلالوں، پولیس اور وکیلوں کی عید ہورہی ہے، مسلمانوں کی جائدادیں اور مال لٹ رہے ہیں۔ دادا جانوں اور نانا جانوں نے چھوڑا تو بہت کچھ، لیکن اولاد کو  وراثت اور وصیّت کے بارے میں تربیت نہیں کی، اور نہ خود کبھی احکامات کو جاننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کہیں بھائیوں نے ایک دوسرے کا حق ماردیا، کہیں مرحوم بھائیوں کے خاندان کا حق دبا دیاگیا،کہیں ماموں یا چچانے بھانجوں اور بھتیجوں کو ان کے حق سے محروم کردیا۔ عام طور کزنس Cousins میں زندگی بھر جو رقابتیں رہتی ہیں، وہ اسی بنیاد پر ہوتی ہیں کہ دادا یا نانا کی وراثت کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا۔کئی لوگ بزنس پارٹنرشپ کرتے ہیں، کسی پارٹنر کا انتقال ہوجاتا ہے، پارٹنر  قبضہ کرلیتے ہیں۔بیٹیوں کی شادی  میں ماں باپ اچھے داماد خریدنے کے چکّر میں بیٹوں کی وراثت تباہ کرتے ہیں، جب بیٹیاں اپنا وراثت کا حق مانگنے آتی ہیں تو بھائی انہیں چلتا کردیتے ہیں، مجبوراً بہنوں کو بھائیوں کے خلاف عدالت  جانا پڑتا ہے۔  بڑی بڑی دینی جماعتیں اور مدرسے والے ایک دوسرے کے خلاف سپریم کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ ان جماعتوں اور مدرسوں کے نام پر وقف کی ہوئی کروڑوں روپئے کی جائدادوں پر کنٹرول کرنے کے لئے کون امیر بنے گا، اس کے جھگڑے ہیں۔ 

وراثت کے ان جھگڑوں میں ملوّث افراد کا آپ قریب سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں، دین اور قوم  کی ہمدردی میں بڑی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں،  اور نماز، روزہ عمرہ بھی ادا کرتے ہیں، متشرع بھی ہیں۔ لیکن وراثت کے جھگڑوں کو علما سے نہیں بلکہ غیر شرعی  ججوں سے حل کروانا چاہتے ہیں۔  ایسے ہی لوگوں سے عدالتیں بھری پڑی ہیں، جن کو شریعت کا فیصلہ نہیں چاہئے بلکہ غیرشرعی عدالتوں کا فیصلہ چاہئے۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کو قرآن نے کہا کہ ”ومن لّم یحکم بما انزل اللہ فاولیٓک ھم الظالمون، ھم الکافرون، ھم الفاسقون۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے فیصلے اس شریعت کے مطابق نہیں کئے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو یہی لوگ کافرہیں، فاسق ہیں اور ظالم ہیں۔

جو اسلام آج رائج ہے اسے آپ ایک ایسا اسٹیریوٹائپ اسلام کہہ سکتے ہیں جس میں عبادتیں، دعائیں اور کرامات کے قصے تو ہیں لیکن اس میں جو ایک مضبوط اکنامک سسٹم، ایک پولیٹیکل اور مورل سسٹم موجود ہے۔ اس کا دور  دور تک کوئی وجود پیش ہی نہیں کیا جاتا۔ اس قرآن میں روزگار کے حصول اور اولاد ہونے کی معجزاتی آیات تو لوگوں کی نظر آتی ہیں۔ لیکن دولت کی صحیح تقسیم، خاندانی دشمنیوں کے خاتمے کے طریقے اور غربت و افلاس کو ختم کرنے کے گُر کسی کو نظر نہیں آتے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ امت کے معاشی استحکام Economic stability کے احکامات پیش کردیئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر زکوٰۃ کا ایک منظم نظام قائم ہوجائے، نکاح اور مہر مکمل نبی کے طریقے پر قائم ہوجائیں، وراثت اور وصیّت پر سختی سے عمل شروع ہوجائے تو نہ کسی مسلمان کو بنکوں سے قرض لینا پڑے اور نہ کوئی بھکاری نظر آئے۔

                                آج بھی ہم چاہیں تووراثت اور وصیّت کے نظام کو قائم کرکے ایک اخلاقی اور معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے نہ آپ کو کتابیں لکھنی ہیں، اور نہ تقریریں لکھنی ہیں اور نہ کوئی جنگ کرنی ہے۔ صرف اتنا کرنا ہے کہ کسی جنازے کو دیکھ کر یہ غور کرنا ہے کہ مرحوم نے جو کچھ مال اور جائداد پیچھے چھوڑی وہ اب جن کے حوالے ہوگی، وہ بیٹے اور دامادکیا کبھی  یہ سوچیں گے کہ اباجان یا امی جان جنت کی ٹھنڈی ہوائیں کھارہے  ہوں گے یا دوزخ کی گرم تپتی ہوئی دھوپ میں جل رہے ہوں  گے۔ پھر جنازے کو دیکھ کر یہ بھی سوچئے کہ یہ وقت کل آپ پر بھی آنے والا ہے، سب کی میّتیں اٹھنے والی ہیں۔ کل نفسِِ ذائقۃ الموت۔کیا آپ کو یہ احساس ہے کہ ساری زندگی جس مال کو جمع کرنے میں آپ نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے، وہ مال اب کسی نہ کسی کے حوالے تو ہوگا۔ کیا وہ آپ کو محشر میں آپ کے گناہ کو اپنے سر لینے تیار ہوں گے؟

لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھا ہوا ہے کہ قیامت میں بس نماز، روزہ، داڑھی، ٹوپی اور مسلکوں پر عقیدے کا سوال ہوگا، باقی چیزوں کو اللہ تعالیٰ کچھ عمرے، خیرات، زیارات، اذکار اور وظائف کے عوض معاف کردے گا۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے۔ قیامت میں پوچھے جانے والا سوال نامہ کوئی متعین Fixed Qurestionaire  نہیں ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جس کوجو حیثیت دی تھی، اسی سے متعلق سب سے پہلا سوال ہوگا۔ نمازوں، روزوں وغیرہ کی قبولیت کا انحصار اصل سوال پر ہوگا۔ قاضی یا جج اپنے فیصلوں کی بنیاد پر پکڑا جائے گا۔ عالم اپنے اُس علم پر پکڑا جائے گا جس پر اس نے عمل نہیں کیا، بزنس مین جھوٹ اور حلال کمائی پر پکڑا جائے گا۔اسی طرح  قیامت میں ان لوگوں سے جنہوں نے اپنے مرنے کے بعد مال اور جائداد چھوڑی تھی ان سے سب سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ کیا  وہ راثت اور وصیّت کے احکامات پر چلتے ہوئے مرے تھے یا غفلت برتی تھی۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں اس وارث کی فریاد سب سے پہلے سنی جائیگی جس کو اس کے حق سے محروم کردیا گیا۔ ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ ”جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے وراثت اور وصیّت کے احکام کی پابندی کی تو وہ تقویٰ پر مرا، اور اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے راضی ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الوصایہ)۔

دین کی تعریف صرف دولفظوں میں کی گئی ہے۔ ”الدین معاملہ“۔ دین معاملے کا نام ہے یعنی ایک دوسرے سے صحیح Dealing کا نام اسلام ہے۔ معاملہ کا دوسرا نام عدل Justice ہے۔ جہاں ”یقیمون الصلوٰۃ“ یعنی نماز قائم کرنے کا حکم ہے وہیں ”کونوا قوّامین بالقسط“ کابھی اسی تاکید اور اسی زور کے ساتھ حکم ہے۔ بالخصوص وراثت کی تقسیم، اس میں اگر عدل نہ ہوا تو حدیث میں یہ تنبیہ آئی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ خود ایسے شخص کے خلاف مقدمہ لڑے گا“۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”ایک آدمی ستّر سال نیکیوں میں گزارے گا لیکن وراثت کے معاملے میں غفلت برتے گا، وہ دوزخی ہوگا۔ اور ایک آدمی ستّر سال گناہوں میں ملوّث ہوگا لیکن وراثت اور وصیّت کے معاملے میں کھرا ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا“۔

اسلام ایک مکمل معاشی نظام یعنی اکنامک سسٹم دیتا ہے۔ بقول مولانا مناظر احسن گیلانیؓ  کے  اسلام  تقویٰ کے نام پر صرف چپراسی، مزدور یاکلرک بننے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ بنکوں کی قطار میں کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے، بلکہ خود بینکر، انشورر، آڈیٹر، فیکٹری مالک اور  انڈسٹری کے مالک بننے کا بھی درس دیتا ہے۔ یہ تمام کام اس وقت ہوں گے جب دولت کی تقسیم Distribution of Wealth کا نظام صحیح ہوگا۔ کمیونزم، سوشلزم اور کیپٹلزم اسی دولت کی منصفانہ تقسیم کے نظریئے سے وجود میں آئے، لیکن جو انصاف زکوٰۃ، مہر، نفقہ، وراثت، نکاح، اور وصیّت میں ملتا ہے وہ دنیا کا کوئی اور نظام نہیں دے سکتا۔ وراثت کے نظام کو قائم کرنے کے لئے علما، یا لیڈر یا امیر لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شخص اپنی ذات پر پہلے قائم کرنے کا  مکلّف ہے۔ وراثت کے معاملے کو اللہ تعالیٰ نے جہاں ”حدود اللہ“ قرار دیا، وہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ جس جگہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں قائم کی جائیں گی وہاں ایک سال کی برکت چالیس سال کی بارش کی برکت ہوگی۔ ورنہ ”ومن یتعدّ حدود اللہ فاولیٓک ھم الظالمون“  یعنی جس نے اللہ کی حدوں کو توڑا وہی لوگ ظالم ہیں۔ وراثت کے بارے میں علم کو نبی نے ”آدھا علم“قرار دیا۔ اور حکم دیا کہ ”علّموا علم الفرائض فانّھا اوّل العلم نسیت من امتی“ (ابن ماجہ)، یعنی علم الفرائض یعنی وراثت اور وصیّت کے بارے میں علم حاصل کرو، کیونکہ میری امت سے سب سے پہلے یہ علم اٹھالیا جائیگا، ذہنوں سے بُھلا دیا جائیگا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ”ایک وقت ایسا آئے گا کہ دو لوگ وراثت کے بارے میں جھگڑا کررہے ہوں گے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ملے گا“۔

وراثت اور وصیت کیا ہے، یہ بھی جان لیں۔ وراثت وہ ہے جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ جس کی تقسیم کا طریقہ سورہ نساء آیت 11,12 میں مکمل بتادیا گیا۔ مرنے والے کو کوئی اختیار نہیں کہ اپنی طرف  سے ایک روپیہ کی بھی کمی یا زیادتی کرے۔ وصیّت یہ ہے کہ جو لوگ وراثت کے راست حقدار تو نہیں لیکن مرنے والا چاہتا ہے کہ ان کی مدد کی جائے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ ایک تہائی یعنی 1/3rd مال کو اپنی مرضی سے کسی کو دینے کی وصیّت کرسکتا ہے جیسے مرحوم بیٹے کی اولاد، کوئی بھی قریبی رشتہ دار یا کوئی مدرسہ، ادارہ  یا کسی آرگنائزیشن کیلئے وقف کرسکتا ہے۔حضرت عبیداللہ سندھیؓ نے لکھا کہ اگر ماں یا باپ یا بھائی بہن غیرمسلم ہیں، جنکو وراثت میں شامل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کوئی بھی شخص ان کے حق میں ایک تہائی کی وصیّت کرسکتا ہے۔  اس کے علاوہ ایک اور شق ہے ہِبہ کی۔ ہبہ وہ ہے جو آدمی اپنی زندگی میں ہی وراثت کے طور پر تقسیم کردیتا ہے لیکن اس صورت میں لازم ہے کہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، تمام میں مساوی تقسیم ہونی چاہئے۔ شریعت نے زندگی میں ہی وراثت کی تقسیم سے منع کیابعض معاملات میں وصیت کرنا واجب ہے، جیسے قرض کی واپسی، حج، روزے یا زکوٰۃ چھوٹ گئے ہوں تو اس کا کفارہ کس طرح ہوگا، علما سے معلوم کرکے اسے ادا کرنے کی وصیت کرنی لازمی ہے، اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی کا مال ہڑپا ہے تو اسے واپسی کی وصیت لازم ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آج کئی لوگ جو معتبر، تعلیم یافتہ اور انتہائی نیک اور شریف معلوم ہوتے ہیں، جوانی میں بچوں کو بڑا کرنے، ان کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے لئے انہوں نے کتنے جھوٹ، فریب، خیانت،اور کسی کے اعتماد کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ رشوتیں لے کر گھر بنائے ہیں، خوشامد پسندی کے ذریعے پروموشنس حاصل کیا اور کسی اور کا حق مارا، باپ دادا کی وراثت غیرمنصفانہ طریقے سے حاصل کی، ان تمام ناجائز کاموں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کو کم از کم اب بڑھاپے میں جب کہ اولاد ترقی کرچکی ہے، اپنے پاوں پر کھڑی ہوچکی ہے، آدمی یہ فیصلہ کرلے کہ بیٹوں اور دامادوں کو خوش کرکے اللہ کو ناراض کرناچاہتا ہے یا اللہ کو خوش کرکے اپنی آخرت سنوار لینا چاہتا ہے۔ جن بیٹوں اور دامادوں کے لئے زیادہ سے زیادہ چھوڑ کر وہ مرے جارہا ہے وہ تو یوں بھی کل قیامت میں اِن سے خود غرض ہوجائیں گے۔ ”یوم یفرالمرء من اخیہ۔۔۔۔سورہ عبس) یعنی باپ بیٹا ماں دوست سارے کے سارے ایک دوسرے سے فرار حاصل کریں گے۔ پھر کیوں نہ آدمی اپنی آخرت بچانے آج ان سے خودغرض ہوجائے جو کل اِن سے خودغرض ہونے والے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ وراثت اور وصیت کے نظام کو قائم کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ

۱۔ ہر چیز کو لکھا جائے۔رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ ”کسی کے پاس جب کوئی ایسا مال آئے جس پر وصیت کی جاسکتی ہے، تو اس پر دو راتیں ایسی نہ گزریں جب اس کی وصیت تیار نہ ہو“۔ آپ کے بنک اکاونٹ، پاس ورڈ، لائف انشورنس پالییسیاں، شیئرز، جائداد، کسی کو اگر قرض دیا ہو یا کسی سے لیا ہو، ایک ایک روپیہ کی تفصیل لکھ کر محفوظ کردیں، اور ہر دو چار مہینے بعد اس کو تازہ کرتے رہیں۔ اگر بیوی یا ماں باپ کو بتانا نہیں چاہتے تو دو تین کاپپاں  بناکر اس کو سیل کرکے کسی کے پاس امانت کے طور پر محفوظ کردیں اور ورثا کو اطلاع دے دیں کہ اگر آپ کو کچھ ہوجائے تو فلاں فلاں کے پاس وصیت نامہ لکھا ہوا ہے اس کے مطابق وراثت کو تقسیم کردیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے بے شمار لوگ ایسے مرگئے جو کل قیامت میں سخت جوابدہ ہوں گے، جن کی کتنی بچت تھی، کہاں کیا خریدا تھا، بنک اکاونٹ یا پالیسی کہاں تھی، یہ کسی کوعلم نہ ہوا اور ان کے خاندان اچانک مصیبتوں کے شکار ہوگئے۔ بالخصوص NRIs جو امریکہ، یورپ یا سعودی وغیرہ میں رہتے ہیں، یہ لوگ قیامت میں زیادہ پکڑ میں آسکتے ہیں کیونکہ اگر ان کی یہ تفصیلات لکھی ہوئی نہ ہوں اور وہ اچانک موت کا شکار ہوجائیں تو نہ صرف یہ کہ غیرملکی بنک فائدہ اٹھالیتے ہیں بلکہ اصل وارث محروم ہوجاتے ہیں۔

۲۔ مرحوم اباجان کی وراثت کی تقسیم وارثوں پر پر فرض ہے۔ جو لوگ وارث نہیں ہیں ان پر فرضِ کفایہ ہے کہ ان وارثوں کو غلطی کا احساس دلائیں۔ اگر خاندان میں سے کسی ایک نے بھی یہ فرض ادا کردیا تو سب بری ہیں، اگر کسی نے بھی توجہ نہیں دلائی تو سارے گناہگار ہوں گے۔

۳۔ عورتیں خاص طور پر سمجھیں کہ ہماری سوسائٹی میں ایک تو عورتوں کو وراثت دی ہی نہیں جاتی۔ خود عورت کے پاس جو کچھ ہے  وہ بھی اس کی تقسیم شریعت کے مطابق نہیں کرتیں۔ جیسے ہی کسی عورت کا انتقال ہوتا ہے۔ بیٹے بہو مل کر جو جو جس نے دیا تھا وہ واپس لے لیتے ہیں۔ جو بیٹے یا بیٹیاں غریب تھیں انہیں صدقے کے طور ایک آدھ انگوٹھی ہاتھ آتی ہے۔ یہ وراثت کی تقسیم عدل کے خلاف ہے۔ جس بیٹے یا بیٹی نے اپنی ماں کو تحفہ دے دیا اب وہ مال،  ماں کی ملکیت ہوگی۔ اس کے مرنے کے بعد اپنی اپنی دی ہوئی چیز اٹھالینا ایک حدیث کے مطابق تھوک کر چاٹنے کے برابر ہے۔ اب اس سونے کی تقسیم شریعت کے مطابق ہوگی، اس پر ساری اولاد کا حق ہے چاہے انہوں نے خود ماں کو کوئی تحفہ دیا تھا یا نہیں دیا تھا۔ عورتیں اس ناانصافی کی وجہ سے کل قیامت میں سخت پکڑ میں آئیں گی۔ عورتوں کو چاہئے کہ پہلے ہی اپنی ایک تہائی کے بارے میں فیصلہ کریں کہ وارثوں کے علاوہ و کس رشتہ دار یا کس ادارے کو یہ دینا چاہتی ہیں۔ ورنہ بیٹیاں اور بہو تو سونا لے کر خوش ہوجائیں گی لیکن کل قیامت میں نہ کوئی بیٹی بچانے آئے گی نہ کوئی بہو۔

۴۔ ہر مسجد میں  علما کی سرپرستی میں وراثت کمیٹی بنائی جائے جو  وراثت کے مسائل کو شرعی طور پر حل کرنے کے لئے مدد کرے۔

۵۔ ہر شخص اپنا ایک تہائی، دو گواہوں کی موجودگی میں لکھ کر چھوڑ دے۔ وصیت کی  اہمیت اس دور میں بے انتہا اہم ہے۔ وہ لوگ جن کے بیٹے بیٹیاں خوشحال ہیں، امریکہ وغیرہ میں ہیں، جنہیں وراثت کی شدید ضرورت بھی نہیں، وہ لوگ اگر یہ دولت اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردیں تو بے شمار لوگ غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اسلام پر ان کا اعتقاد بڑھ سکتا ہے۔ غیر مسلم اس عمل کو دیکھ کر اسلام کے قریب آسکتے ہیں۔ اگر ورثا راضی ہوں تو ایک تہائی سے زیادہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کی جو صورت ِ حال ہے ہر شخص اس سے واقف ہے۔ اگر یہ ایک تہائی اماؤنٹ ان تنظیموں کے لئے وصیت میں لکھ دیا جائے جو اس وقت سیاسی بیداری، میڈیا، ایجوکیشن یا Empowerment کے لئے کام کررہے ہیں، ظلم کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں، معصوم نوجوانوں کو جیلوں سے چھڑانے کے لئے کام کررہے ہیں، قرآن کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ لوگوں کو اسٹیریوٹائپ اسلام سے نکال کر حقیقی اسلام سے روشناس کروارہے ہیں، لٹریچر جو اردو کے ساتھ دفن ہورہا ہے اسے اگلی نسل کے لئے دوسری زبانوں میں منتقل کررہے ہیں، ایسی تنظیمیں محض پیسے کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی کام کرنے سے قاصر ہیں،لوگ امیر ہیں لیکن تنظیمیں غریب ہیں۔ جب تک  ان کو فنڈز نہیں ملیں گے وہ قوم کو دشمن کے مقابلے میں کھڑا نہیں کرسکتے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوجائے، مسلکوں کی جنگ ختم ہوجائے،  اگر زکوٰ ۃ کا ایک اجتماعی نظام قائم ہوجائے، اگر سادگی سے نکاح کا طریقہ نبی قائم ہوجائے تاکہ دلہنوں کے والدین کے سر سے جہیز اور ضیافتوں کا بوجھ ہٹ جائے، اگر وراثت اور وصیّت کا نظام قائم ہوجائے تو ایک انقلاب آسکتا ہے، لیکن ان سارے کاموں کے لئے قدم قدم پر پیسے کی ضرورت ہے۔ یہ سارے لوگ جو اپنے پیچھے گھر، مال، گاڑیاں، اور بے شمار چیزیں چھوڑ کر مررہے ہیں، صرف اپنے بیٹوں اور دامادوں کے بنک بیلنس کو بڑھا رہے ہیں، یہ لوگ اپنی آخرت مکمل تباہ کررہے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ یہ اپنے خاندان کی ذمہ داریا ں پوری کرچکنے کے بعد اب باقی سارا مال، اس گرتی ہوئی بلکہ مرتی ہوئی قوم کے اداروں کے حوالے کردیں، یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی تعلیم، صحت یا کاروبار کے لئے لگادیں تو جس طرح دنیا میں کامیاب زندگی گزار کرجارہے ہیں اسی طرح ان کی آخرت  بھی انشاء اللہ بہت شاندار ہوگی۔ اس معاملے میں صحیح رہنمائی کے لئے سوشیوریفارمس سوسائٹی کی جانب سے کونسلنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہم سے واٹس اپ پر رابطہ فرمائیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...