بدھ، 24 نومبر، 2021

کیا علما اور مشائخین نکاح کو آسان بنانے میں واقعی ایماندار ہیں؟

 


 

نوٹ:  اس مضمون کا مقصد علما یا مشائخین پر تنقید نہیں، صرف ایک سوال کا جواب دینا ہے کہ ہم اتنی کوشش کے باوجود جہیز اور کھانوں کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں۔ پلیز آخری سطر تک پڑھئے، جواب مل جائے گا)

حیدرآباد کے پرانے شہر کے ایک صوفی سلسلے کے سپوت کی شادی کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر کافی مقبول ہورہی ہے۔ یوں تو ایسی کئی ویڈیوز یوٹیوب پر ہیں، لیکن وہ  سیاسی لوگوں، تجارت پیشہ،اور عام جہلاکی ہیں۔ اِس ویڈیو میں جگہ جگہ پیلی ٹوپیوں اور عماموں میں ملبوس وہ  بزرگ سرپرستی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو نہ صرف شہر کے اہم دینی اور سیاسی جلسوں بلکہ اصلاحِ معاشرہ  یا میلادالنبی کے جلوسوں یا اوقاف وغیرہ کے مسائل پر ہونے والی میٹنگوں میں قیادت فرماتے ہیں۔اِن  ویڈیوز بنانے والی کمپنیوں نے اپنی مارکٹنگ کے لئے ایسی کئی شادیوں، منگنیوں، ولیموں حتیٰ کہ عقیقوں اور بسم اللہ کی ویڈیوز بھی  ڈال رکھی ہیں،جنہیں دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کیا پیلی یا ہری ٹوپیاں، کیا لال، گلابی اور کالے شملے، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ اور یہ صرف حیدرآباد  کی بات نہیں، پورے ہندوستان میں ہر مسلک اور ہر سلسلہ کے قائدین کی ایک بڑی تعداد کا معاملہ ہے۔ کسی ایک شہر یا کسی ایک  فرقے یا گروہ کو تنہا مورودِ الزام ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اگر نوجوان یہ نادانی بلکہ چھچھورا پن کرلیتے تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے،  لیکن وہ مرشدین جن سے عوام کی رشد وہدایت کی توقع کی جاتی ہے، جن کے پاس ہر روز بے شمار لوگ دعا کروانے، بیعت کرنے اور پانی پرشجرہ  بُھنکوانے کے لئے حاضر ہوتے ہیں، اگر یہی لوگ اپنی شادیوں میں بجائے اہلِ بیت کے طریقوں کو قائم کرنے کے، راجپوتوں کے مشرکانہ رسم و رواج کو قائم کریں تو عام معصوم مریدوں پر کیا اثر پڑے گا، انہیں یہ سوچنا چاہئے۔ جو بھی اِن شادیوں میں ہورہا ہے وہ دین کا سر جھکا دینے کے لئے کافی ہے۔ان ویڈیوز کا جائزہ لیجئے اور گستاخیئ رسول اور گستاخیئ اہلِ بیت کا اندازہ لگایئے۔ نکاح کے وقت کی فلمبندی کے پیچھے جو قوالی پیچھے چلتی ہے وہ ہے۔                       نبی خوش ہیں، خدائی بھی خدا بھی                       علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی

                                لڑکا ہے خدا کے گھر کا                                         لڑکی ہے نبی کے گھر کی

 یعنی دلہا علیؓ کی مثال ہے اور دلہن فاطمۃ الزہرا ؓکی مثال ہے۔ دلہا کے ابّا جان اللہ کی جگہ ہیں، اور ان کے صمدھی یعنی دلہن کے والد نبی کی جگہ  ہیں۔ اب علی و فاطمہؓ کی مثال کی شادی آگے بڑھتی ہے، اور اگلے سین میں عام خرافات شروع ہوتی ہیں، قوالی بدل جاتی ہے اور  اب زہرا ؓ  کی  عاشق سے بے تکلفی شروع ہوجاتی ہے، اور دوسری قوالی یہ چلنی شروع ہوتی ہے۔   

                                میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر                        جب نظر سے ملائی مزا ٓگیا

اب سوائے استغراللہ یا نعوذباللہ کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہاں سے علی و زہرا اور ان کے ساتھ خدا اور نبی بھی اسٹائیل بدلتے ہیں۔ خدا اور نبی کی مثال کے صمدھی کہیں تلوار کا مظاہرہ فرمارہے ہیں، کہیں سلیمان شاہ کی طرح ارتغرل کو پیشانی پر پیار کرکے دشمنوں کا خاتمہ کرنے وداع کررہے ہیں۔ حضرت علیؓ  کو خود اپنی شادی کا علم نہیں تھا،وہ تو کسی کام سے بازار گئے تھے، انہیں ایک صحابی ؓ کے ذریعے بلوابھیجا گیا کہ تشریف لایئے، آپ کے نکاح کی محفل ہے۔ لیکن یہاں کے علی کئی کئی دن کی تیاریاں کرکے، شیروانی پہنتے ہوئے لمحات کی فوٹوز اور ویڈیوز بناتے ہوئے، کئی کئی کاروں کا جلوس نکال کر ٹرافک میں خلل پیدا کرتے ہوئے، موٹے موٹے پھولوں کے ہار اور بدّیّاں، سہرے،ہاتھوں میں خنجر، سروں پر شیواجی یا مہاویر پرتاب سنگھ کے تاج نما شملے، دلہا پر ابّاجان روپیوں کے نئے نئے کڑک نوٹ برساتے ہوئے، نظرآتے ہیں۔ ایسے دلہا دلہن کی شادی کو ”ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی“، یا ”ابھیشیک سے ایشوریا رائے کی شادی“ کی مثال تو دی جاسکتی ہے، لیکن علی و زہرا کی مثال نہیں۔ یہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ کی توہین بلکہ گستاخی ہے۔

 

دلہا کے  ہاتھ میں خنجر یا تلوار پکڑنے کا چلن اسلام کا ہرگز نہیں۔ یہ مکمل راجبوتوں کا ہے۔  حضرت علیؓ نے دلہن کو لانے تلوار کبھی نہیں اٹھائی بلکہ دشمنوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اٹھائی۔ ”خدا کے گھر کے بیٹے علی“ سے تعبیر کئے جانے والے  یہ دلہے جب ہندوستان میں خدا کے گھر جلائے جاتے ہیں، بستیاں جلائی جاتی ہیں، گجرات میں زہرا کی امت کی بیٹیوں کی سڑک پر کھلے عام عصمت ریزی کی جاتی ہے، گولی مارو سالوں کو کہا جاتا ہے، اس وقت تو یہ تلوار نہیں اٹھاتے، اس وقت تو ان کی زبان خنجر نہیں بنتی، اس وقت تو یہ کئی کئی کاروں کے جلوس نہیں نکالتے، اس وقت تو کڑک نوٹ جیبوں سے نکال کر امت کے لئے لڑنے والوں کی مدد نہیں کرتے، نہ ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، پھر کس بنیاد پر انہیں  در خیبر اکھاڑنے والے علیؓ کی مثال کو اپنے لئے استعمال کرنے کی  جسارت ہوسکتی ہے؟ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ صوفی بزرگوں نے جو قربانیاں دیں، جس طرح معین الدین چشتیؒ، نظام الدین اولیاؒ، وغیرہ نے ہندوستان کی سرزمین پر توحید و رسالت کا چراغ روشن کیا،مشرکانہ رسم و رواج سے نجات دلائی، آج انہی اسلاف کی اولادیں اسلام کو انہی مشرکانہ رسم و رواج کی طرف لوٹا رہی ہیں۔

جہیز کی وجہ سے آج پورا معاشرہ تباہ ہوچکا ہے۔ اس معاشرے کو تباہی سے بچانا ہے تو صرف ایک راستہ ہے، وہ یہ کہ شادیوں کو مکمل اہلِ بیت کے طریقے پر انجام دینا شروع کریں۔ علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی کی قوالی لگانے سے پہلے ایک لمحہ یہ سوچئے کہ اگر کل حوضِ کوثر پر اللہ کے نبی نے پوچھ لیا کہ کیا تم نے میری بیٹی زہرا کی شادی میں منگنی، جوڑے، جہیز (خوشی سے) اور بارات کے کھانے دیکھے تھے؟ کیا جواب ہوگا ان کے پاس؟ اگر رسول اللہ نے یہ پوچھا کہ جب میں نے میری بیٹی زہرا کی شادی میں نہ قریش کے سرداروں کو دعوت دی، نہ اوس و خزرج کے سرداروں کو، نہ یہودی قبائل کے سرداروں کو اور نہ مہاجرین صحابہؓ کو جنہوں نے میری خاطر اپنے ماں باپ، گھر، کاروبار سب کچھ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تھی، تو پھر تم نے کس طرح یہ جائز کرلیا کہ تمہاری زہرا کی شادی میں ہزاروں لوگ جمع ہوں؟ یاد رہے سادات کو عام مسلمان اسی نظر سے دیکھتے ہیں  جو عام ہندو ایک برہمن کو۔  برہمن اپنی روایات سے پھر جائے تو پھر وہ برہمن نہیں رہتا، لیکن سادات اہلِ بیت کی روایات کو چھوڑ کر اگر راجپوتوں اور مشرکوں کی روایات کو اپنا لیں تو پھر بھی سادات باقی رہتے ہیں، کیونکہ اندھے  عقیدتمندوں کے دماغوں میں عقیدوں، ولایتوں، شفاعت و مغفرت  کے ایسے ایسے فلسفے چرس اور گانجے کی طرح  بٹھادیئے گئے ہیں کہ ان کو ذہنی غلامی سے نکالنا ناممکن ہے۔اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کل تک جو علما اور مفتی تصویر کو ناجائز اور وویڈیو کو حرام کہتے تھے، وہ بھی سارے ”ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز“کے مصداق ویڈیو میں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ یہی صورتِ حال دوسرے مسلکوں میں ہے۔ سارے مسلک اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہر عقیدہ قائم ہوگا، لیکن علی و زہراؓ کی شادی کی سنت ہرگز قائم نہیں ہوگی۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک امیر ترین شخص کی بیٹی کی شادی کے دن کے کھانے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ وعظ بھی فرمایا، اور یہ پیغام دیا کہ اگر رسول اللہ نے اپنی بیٹی کی شادی کے دن کھانا نہیں کھلایا تو ضروری نہیں کہ ہم بھی اس کو سنت بنائیں،نبی نے غربت کی وجہ سے نہیں کھلایا ہوگا، کوئی بات نہیں، آپ کھلا سکتے ہیں۔ اس بدعت کو اتنی مضبوطی سے قائم کیا گیا ہے کہ لوگوں کے گھر برباد ہورہے ہیں لیکن کوئی دیوبندی، کوئی مشائخ، کوئی اہلِ حدیث اِ س لعنت کو بدعت ماننے تیار نہیں۔ ابھی حال ہی میں وجئے واڑہ کے ایک مفتی قاسمی نے اپنی بیٹی کی شادی اسی طرز پر کی جس طرز پر مشائخین کررہے ہیں۔ دیوبند کے اہم ترین علما جہاز سے بلوائے گئے،انہی علما کو جو نکاح کو آسان کرو مہم میں سب سے زیادہ شعلہ بیان وعظ فرماتے ہیں، جب موصوف سے سوال کیا گیا تو انہوں نے سوال کرنے والوں کو انتہائی فحش زبان میں جواب دیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسی مفتی قاسمی کے صمدھی حیدرآبا د میں پچھلے ہفتہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے منعقد کردہ جلسے میں نکاح کو کیسے آسان کیا جائے کے موضوع پر تقریر فرمارہے تھے۔ اس اسٹیج پر اکثریت ان علما اور دانشوروں کی تھی جن کے اپنے گھروں کی شادیوں میں کئی کئی لاکھ روپئے خرچ کئے گئے، اور یہی لوگ شہر کی ہر بڑی شادی میں سب سے پہلے شریک ہوتے ہیں۔اہلِ حدیث بھی اِن سے مختلف نہیں۔ جس طرح مسلم پرسنل لا بورڈ کے عہد نامہ میں مطالبہ کے بغیر خوشی سے جہیز اور کھانے لینے کی پوری پوری گنجائش رکھی گئی ہے، اسی طرح اہلِ حدیث کے علما کی اکثریت جہیز کے مطالبے کے خلاف ہے، لیکن ان کے نزدیک  خوشی سے لینا بھی جائز ہے اور دینا بھی اور ایسی شادیوں میں شرکت کرنا بھی۔ ایڈوکیٹ فیض، مقصودالحسن فیصی صاحب،  قاری شعیب میر صاحب، ابتسام الٰہی ظہیر صاحب وغیرہ کی  بے دلیل، غیرمنطقی ویڈیوز کے جواب میں ہم نے دلائل کے ساتھ جواب دے دیا ہے جس کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اہلِ حدیث کے بارے میں عام امیج تو یہ ہے کہ یہ فرقہ مکمل کتاب اللہ کتاب السّنہ“ کو فالو کرتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ نکاح جیسی اہم ترین سنّت کو ان لوگوں نے بھی مصلحتوں کا تابع بنادیا، اور ہر اس خرافات کے چور دروازے کھول دیئے جن کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی اور معاشی طور پر برباد ہورہا ہے۔ بعض اہلِ حدیث اسپیکرز جیسے حافظ جاوید عثمانی صاحب نے ایک ویڈیو میں شادی کے دن کے کھانے کو واضح طور پر حرام، حرام، حرام کہا۔ لیکن ان کی بات کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ موصوف عالم نہیں صرف حافظ ہیں۔ گویا عالم ایک برہمن ہے اور غیرعالم ایک ہریجن جس کو دھرم کی کوئی بات کہنے کا حق نہیں۔ بلکہ غیرعالم چاہے وہ ذاکر نائیک جیسے عظیم داعی ہی کیوں نہ ہوں، اُن کی تقاریر سننے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ یہی رویہ دیوبندی علما کا ہے اور یہی رویہ بریلویوں کا۔جس چالاکی سے برہمن نے ذہنوں پر برہمنیت کی ایسی طاقتور حکومت قائم رکھی ہے کہ ہر شودر، ویش یا شتری ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہے،، بالکل اسی طرح علما اور مشائخین کے بھی ذہنوں پر اپنی بادشاہی ایسے قائم کررکھی ہے کہ کوئی غیر عالم یا غیر مشائخ ان کی جاگیر میں داخل نہیں ہوسکتا۔

 جہاں تک تبلیغی جماعت یا جماعتِ اسلامی کا تعلق ہے، یہ افراد بھی کہیں نہ کہیں جاکر کسی نہ کسی مسلک کے عالم  یا شیخ کے ہی تابع ہیں، اس لئے ان کی بھی 90% اکثریت بظاہر شادیوں میں غیرشرعی رسومات کے خلاف ہے، لیکن اپنے گھر کی شادی کے وقت  زمانے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ غیرشرعی تقریباتِ شادی میں  برابر شریک ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ پاپلر فرنٹ جو کہ واحد جماعت ہے جس میں جوڑا جہیز لینے والے کو پارٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، لیکن ایسی شادیوں میں شرکت کے معاملے میں وہ بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔

 

                اتنی طویل تمہید کا مقصد نہ کسی مسلک یا سلسلہ پر تنقید کرنا تھا اور نہ علما یا مشائخین کی تضحیک کرنا تھا۔ مقصد صرف ایک سوال کا جواب دینا تھاکہ ہم جہیز اور کھانوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں۔  مسئلہ یہ ہے کہ 99% لوگ جن کے آباواجداد کبھی پنڈتوں کے تابع تھے، آج بھی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ پنڈتوں کی جگہ مشائخین اور علما نے لے لی ہے۔ نظام کو بدلنے کے لئے کوئی بھی اپنے مرشد، شیخ، اکابرین، امیرِ جماعت اور امام  کی اجازت کے بغیر ایک بھی قدم اٹھانے تیار نہیں۔ آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا                               منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

یہی ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حقیقی اسلام کو قائم کرنے کے لئے جس مردِ حُر کی ضرورت ہے، وہ دور دور تک نہیں ملتا۔ چاہے کوئی جماعت ہو یا مسلک، منشائے شریعت کو کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔

شیر مردوں سے ہوا پیشہئ تحقیق تہی                  رہ گئے صوفی و ملّا کے غلام ائے ساقی

 اسلام میں شادی ایک انتہائی پرائیوٹ معاملہ ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف، جابر اور خالد بن ولید کے نکاح خود بتارہے ہیں کہ رسول اللہ خود اسی بستی میں موجود ہیں، لیکن نہ  نکاح کے موقع پر ان کی دعوت ہے نہ ولیمہ میں۔ یہ صرف چند افرادِ خاندان کے بیچ کا معاملہ ہے۔ لوگوں کو جمع کرنا کئی کئی اونٹ کاٹنا، دورِ جاہلیت میں تھا۔ یہ اتنی عظیم سنّت بلکہ حکمت کی بات ہے کہ یہ اگر قائم ہوجائے تو معیشت میں مسلمان نہ صرف بنکوں اور انڈسٹریز کے مالک ہوسکتے ہیں، بلکہ غیرقومیں صرف ایک سنّت کو دیکھ کر فوج در فوج اسلام میں داخل ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا کسی  سیاسی لیڈر یا سماجی ورکر کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام صرف مشائخین اور علما کرسکتے ہیں، کیونکہ لوگ صرف ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر صدیوں سے جس مشرک سماج میں رہتے رہتے، ہم پر مشرکانہ عقائد اور رسومات اس قدر حاوی ہیں کہ ان کو اسلامی احکامات سے بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگربدلنے کی کوشش کریں تو مریدوں اور عقیدتمندوں کی بغاوت کا خطرہ ہے، یا پھر چندے اور لفافے بند ہوجانے کا بھی خوف ہے۔ اسی لئے اکبراعظم کے درباری علما کی طرح  جنہوں نے مہارانی جودھا بائی کی لائی ہوئی ہر رسم کو جائز کردیا، اگر نہ کرتے تو ظلِّ الٰہی کا عتاب نازل ہوجاتا۔ اسی طرح آج کے علما بھی کسی نہ کسی طرح انہی راجپوتانہ رسموں کو   ”خوشی سے“، ”عرف“، ”مباح“، رسم ورواج“ وغیرہ کے نام پر جائز کرکے دے رہے ہیں۔ اور دلیل میں بجائے منشائے شریعت کو لانے کے، اُس زمانے کے فقہا کے فتوے لارہے ہیں جن کے زمانے میں نہ جہیز تھا، نہ کھانے، نہ عالیشان ولیمے۔ چونکہ عوام کے ذہنوں پر مشائخین اور علما حکومت کرتے ہیں، اس لئے ہم جیسے غیرعالموں نے آواز اٹھائی تو ہمارا انجام وہی ہوگا جو ایک فاشسٹ حکومت اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کا کرتی ہے۔

 

علما اور مشائخین اگرچاہیں تو شادیوں کی لعنتیں ایک سال میں ختم ہوسکتی ہیں۔ یہ لوگ متحد ہوکر صرف  یہ طئے کریں کہ نکاحِ رسول کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ اگر کوئی ان کے خلاف کرے تو اس کی شادی میں شرکت کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ جب تک یہ لوگ ایسی شادیوں کے خلاف تقریریں کرتے رہیں گے، لیکن ایسی شادیوں میں خود بھی شرکت کرینگے، اور ایسی شرکت کو حرام قرار نہیں دیں گے۔ امّت غربت و افلاس کی کھائیوں میں مزید گرتی رہے گی، لڑکیاں ارتداد کرتی رہیں گی۔ جہاں تک جہیز، منگنی، بارات کے کھانے، جوڑے کی نقد رقم وغیرہ کے حرام ہونے کا تعلق ہے، اور ایسی شادیوں میں شرکت کے ناجائز ہونے کا تعلق ہے، ہم نے ہر مسلک کے علمائے حق کی رائے کوقلمبند بھی کردیا اور ویڈیوز میں بھی جاری کردیا۔ جن کو دلچسپی ہو وہ ہماری ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

+91 9642571721

 

  

بدھ، 3 نومبر، 2021

شادی کے سات اہم مرحلے


 

الحمدلللہ اب نوجوان یہ پوچھنے لگے ہیں کہ مکمل سنّت کے مطابق شادی کیسے ہو۔ ان کی رہنمائی کے لئے ہم صحیح اسلامی شادی کا طریقہ کیا ہے، اس پر روشنی ڈالیں گے۔ پہلی بات تویہ کہ پوری اسلامی ڈکشنری میں ”شادی“ کو کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ یہ لفظ شادمانی سے نکلا ہے جو ایران سے آیا ہے۔ یعنی Grand Festivity۔ یہ مغلوں کی مہربانی ہے کہ جب انہوں نے راجپوت دلہنوں کو لانا شروع کیا، تو ان مہارانیوں کے ساتھ وہ ساری رسمیں مسلمانوں میں داخل ہوگئیں، جومشرکانہ اور اسلامی شعار کے بالکل خلاف تھیں۔لوگ عبادتوں کے معاملے میں رسول اللہ کی سنّت پر چلنا چاہتے ہیں، لیکن نکاح کے معاملے میں رسول اللہ یا حضرت علیؒ کی  طرح کے دلہا بننے کے بجائے راجپوت، مشرک یا فلم اسٹارز کی طرح کے دلہے بننے پر ضد کرتے ہیں۔  بڑے بڑے پھولوں کے ہار، سہرے، بدّی، امام ضامن، ہاتھوں میں تلوار، خنجر یا سروتے، سر پر تاج یا پگڑیاں، گھوڑے یا ہاتھی پر بارات، باجے اور ناچنے والے باراتی، اور محل نما بڑے بڑے شادی خانے، دوسری طرف مہارانی جودھابائی کی طرح سونے اور چاندی میں ڈوبی ہوئی دلہنیں، گھونگھٹ، ایک رات کا لاکھوں روپئے کا جوڑا،اور شادی سے پہلے اور بعد میں مکمل مارواڑی مشرکوں کے رسومات جیسے بری، مایوں، سانچق، ہلدی، وغیرہ وغیرہ، یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم شادیوں میں رسول اللہ کے کسی عمل کو داخل کرنے تیار نہیں ہیں۔

            اچھی طرح یاد رکھئے کہ ایسی شادیاں اسلام سے خارج ہیں۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں اور ”کل بدعۃِِ ضلالۃ“۔ بدعت سب سے بڑی  گمراہی ہے۔ ایسی شادیاں تبذیر، تشبّہ یعنی غیرقوم کی نقل اور فتنہ ہونے کی بنیاد پر ناجائز ہیں۔ ان شادیوں میں شرکت کرنے والے اِن حرام کاموں کی تائید کرنے والے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غیراسلامی شادیوں پرتنقید کرنے والے سمجھدار تعلیم یافتہ لوگ خود ایسی شادیوں کا دعوت نامہ مسکرا کر قبول کرتے ہیں اور اپنی منافقت کا علی الاعلان اظہار کرتے ہیں۔ ان میں بڑی بڑی دینی جماعتوں کے افراد، مشائخین اور اہلِ مدارس کی اکثریت شامل ہے، جو اس بات پر متفق ہے کہ ہر مسئلہ پر مسلک اور مسجد الگ کریں گے لیکن نکاح کی صحیح سنّت کو قائم ہونے نہیں دیں گے۔

شادی کا پہلا مرحلہ ۔  انتخاب

             اگر انتخاب کی کسوٹی میں  جہیز، ہنڈا، خاندان،امریکہ یا سعودی کا ویزا، ا جائداد، وغیرہ شامل ہوجائیں تو وہ نکاح ایک کاروبار ہوسکتا ہے، سنّتِ نکاح نہیں۔نکاح کے معاملے میں نیّت شرط ہے۔اگر نیت یہ ہو کہ بندہ صرف اللہ کی رضا کے پیش نظر اپنی نفس کی حفاظت کے لئے نکاح کررہا ہے، اور  لڑکے یا لڑکی کے انتخاب کا  معیار صرف کردار یا سیرت ہے تو یہ نکاح شرعی طوپر جائز ہے۔ فرمانِ رسول ہے کہ  لڑکا یا لڑکی کے انتخاب میں تم خاندان، حسب نسب، حسن، دولت کو ہرگز نہ دیکھو بلکہ سیرت کو دیکھو، ورنہ تم معاشرے میں فساد برپا کردوگے۔ آج نوجوان نسل چاہتی تو ہے کہ سادگی سے شادی کرے، لیکن ماں باپ کی نیت کچھ اور  ہوتی ہے۔وہ کردار سے پہلے ایک دوسرے کا Status دیکھتے ہیں۔ اسی نافرمانی کے نتیجے میں آج طلاقیں، جھگڑے، اور خودکشیوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

شادی کا دوسرا مرحلہ  ۔   بات چیت

اکثر لوگ یہ ایکٹنگ کرتے ہیں کہ    ”ہم نے کچھ نہیں مانگا لیکن لڑکی والوں نے اصرار کیا“، لڑکی والے کہتے ہیں کہ ”لڑکے والوں نے  معیاری شادی مانگی“۔ اور آخر میں شادی میں وہ تمام خرافات نظر آتی ہیں جو جائز نہیں ہیں۔ یہ ڈرامہ بازی اس لئے ہوتی ہے کہ بات چیت کی جو اصل سنّت ہے، اس کو مکمل نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ بات چیت میں پہلا ایجنڈا مہر کا طئے کرنا ہے۔ اور اس کے بعد شادی کا وقت، مقام وغیرہ۔ حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کے وقت کی بات چیت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔

            جو لوگ یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم تو سنّت کے مطابق ہی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن لڑکی والے نہیں مانے، کیا ان لوگوں نے بات چیت کے آغاز میں ہی یہ شرط رکھی تھی کہ ”ہم یہ شادی سنّت کے مطابق مکمل سادگی سے چاہتے ہیں، اس میں نہ کوئی جہیز ہوگا نہ کھانا، اگرآپ اس پر اتفاق کرتے ہیں تو ہم آگے بات چیت کرتے ہیں، ورنہ خداحافظ“؟

            بات چیت کا طریقہ یہ ہے کہ لڑکا خود لڑکی کو دیکھ لے، اس کے بعد یہ بتائے کہ ”میں فلاں فلاں ہوں، اتنا کماتا ہوں، گھر ذاتی ہے یا کرائے کا ہے، جہیز کا سامان خود فراہم کروں گا، ولیمہ اور نقد مہر اپنی استطاعت کے مطابق دوں گا۔“ اگر لڑکی کو منظور ہے تو وہ ہاں کہے۔ اس کے بعد بزرگ حضرات مقام اور تاریخ طئے کریں۔ لڑکی والوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ شادی کے بعد لڑکی کو جہیز نہ لانے پر نہ کوئی طعنہ دیا جائے گا اور نہ یہ احسان جتایاجائے گا کہ ہم دونوں طرف سے کرکے لائے۔ لڑکوں کی ماں اور دادی وغیرہ کی طرف اس قسم کے احسان جتانے کے واقعات کی وجہ سے ہی لڑکیاں بددل اور باغی ہوجاتی ہیں۔اکثر صحابہ ؓ کے نکاح تو بات چیت کے موقع پر ہی ہوگئے۔کیونکہ شادی کے موقع پر سینکڑوں مہمانوں کو جمع کرنا سیتا یا پاروتی کا طریقہ ہے نہ کہ امہات المومنینؓ  یا اہلِ بیتؓ کا۔ شادی کی بات چیت میں پہلے یہ طئے ہو کہ شادی کس کے ماڈل پر ہوگی، اسلام کے ماڈل پر، یا مشرکوں کے ماڈل پر، یا آج کل کے سسٹم کے ماڈل پر۔ اس سے پتہ چل جائے گا کہ کون کتنا بڑا عاشقِ رسول ہے۔

شادی کا تیسرا مرحلہ  ۔  پِری میریج کونسلنگ

 عہدِ حاضر میں جہاں طلاق کا تناسب 1% ہے لیکن جھگڑوں کا تناسب 60% ہے، ان جھگڑوں کو ختم کرنا ہے تو شادی سے پہلے دونوں خاندانوں کی کونسلنگ ضروری ہے۔ اس کی اہمیت اور طریقہ کار پر ہماری یوٹیوب ویڈیو ضرور سماعت فرمایئے۔ جب تک دونوں خاندان، شادی کے بعد ہونے والے جھگڑوں کے اسباب اور ان کے حل کے بارے میں شادی سے پہلے ہی نہ سمجھ لیں، شادی کرنا ایک بہت بڑا رِسک ہے۔ بہن کی بیٹی ہونا، یا بھائی کا لڑکا ہونا یا دیندار جماعت کا خاندان ہونا، جھگڑوں کو روکنے کی ضمانت نہیں۔ کسی بھی پولیس اسٹیشن، وکیل یا قاضی کے دفتر یا مہیلا کورٹ جاکر دیکھئے بات سمجھ میں آجائیگی۔کونسلر کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں فریقین سے یہ عہد لکھوائے کہ شادی کے بعد اگر کوئی اختلافات ہوں گے تو وہ پولیس، کورٹ یا کسی اور کے پاس نہیں جائیں گے۔ نکاح کے وقت دونوں کسی ایک ایک حکَم کو منتخب کرلیں، اور یہ عہد کریں کہ جو بھی حکَم کا فیصلہ ہوگا وہ اس کو تسلیم کریں گے۔ یہ انڈین قانون کے مطابق بھی اور شرعاً بھی درست ہے۔ حکَم کے طور پر وہ اپنی جماعت، اپنے مرشد یا کونسلنگ کے ادارے یا قاضی یا کسی بڑے عالمِ دین کو اپنا آربِٹریٹر منتخب کرسکتے ہیں۔

شادی کا چوتھا مرحلہ ۔   منگنی

لڑکی مانگنے کی رسم کو منگنی کہا جاتا ہے۔ لڑکی کو دیکھنا، پسند کرنا اور مہر طئے کرنا خود ایک منگنی ہے۔ جس کے بعد منہ میٹھا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اس کے لئے لڑکی والوں سے الگ ایک دعوت کرواناایک بدعت اور بلیک میل ہے۔ کیونکہ اگر لڑکی والے یہ نہ کریں تو شادی طئے نہیں ہوتی۔ یہ تبذیر ہے یعنی ایسی ضرورت جس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن فاسق لوگوں کے اعتراضات کے خوف سے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، اس لئے یہ حرام ہے۔ اگر لڑکی والے یا لڑکا والے منگنی کی رسم کے لئے ضد کریں تو ایسا رشتہ فوری توڑ دینا چاہئے۔ اگر لوگ پھر بھی یہ کریں تو ایسی شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا اور اس میں جاکر کھانا جائز نہیں۔

شادی کاپانچواں مرحلہ ۔  نکاح کی تقریب

نکاح مسجد میں ہو، یہ افضل ہے۔ علما نے گھر پر یا قاضی کے دفتر پر، یا اگر ولیمہ نکاح کے فوری بعد ہے تو شادی خانے میں بھی کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر بات چیت کے موقع پر ہی لڑکا اور لڑکی راضی ہوں تو کوئی بھی بزرگ لکھا ہوا خطبہ نکاح دیکھ کر پڑھا سکتے ہیں، اور ایجاب و قبول کی کاروائی مکمل کی جاسکتی ہے،  اور بعد میں کسی بھی قاضی کے دفتر جاکر قانونی کاروائی مکمل کی جاسکتی ہے۔  ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے تو لڑکی کے والد کو ہی نکاح پڑھانے کی ترغیب دی ہے۔ یہ یاد رہے کہ محفلِ نکاح میں صرف مردوں کی ضرورت ہے۔ دلہن کے ساتھ ایجاب و قبول کا حکم پورا کرنے کے لئے دو چار عورتیں بھی آجائیں توکافیہے، لیکن عورتوں کا ہجموم  جمع کرناقطعی غلط ہے۔ عرب ممالک میں نکاح کورٹ میں ہوتا ہے۔ قاضی حضرات لڑکی کی مرضی معلوم کرتے ہیں،  اور نکاح کی کاروائی پوری کردیتے ہیں۔پانچ چھ افراد سے زیادہ کا مجمع نہیں ہوتا۔ نکاح ہوجانے کے بعد دونوں رخصتی کی تاریخ مقرر کرتے ہیں، اسی دن لڑکا رخصتی سے قبل ولیمہ کھلاتا ہے۔  نکاح کے موقع پرمہمانوں کا ہجوم جمع کرنا،اور انہیں کھانے کھلانا شرعی طور پر جائز نہیں، کیونکہ یہ بدعت ہی نہیں بلکہ رشوت، دکھاوا اور ایک بلیک میل ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہوتو لڑکے والے شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے۔ اور یہ فتنہ ہونے کی بنیاد پر بھی حرام ہے، کیونکہ جتنے لوگ شریک ہوتے ہیں ان پر بھی ایسی دعوتیں کرنا لازمی ہوجاتا ہے ورنہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں ہونا مشکل ہوجاتا ہے، جس کے لئے ان کو یا تو گھر فروخت کرنا پڑتا ہے یا پھر سود، خیرات، چوری وغیرہ کے راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔

شادی کا چھٹا مرحلہ  ۔    نقد مہر

            قربان جایئے اِس شریعت  پر کہ جس نے عورت پر کنیا دان کے نام پر ہونے والے ہر ظلم کا خاتمہ کردیا۔ کنیا دان میں  عورت جب تک پیسہ، سونا، جائداد اور مہمانوں کا کھانا نہیں لاتی اس کی شادی ناممکن ہوتی ہے۔ ایسی عورت جو جہیز نہ لائے اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ کنیادان کے مقابل اسلام نے نقد مہر کا تصور دیا۔ مرد اپنی استطاعت کے مطابق جتنا مہر ادا کرسکتا ہے وہ آفر کرے، اگر عورت کو قبول ہے تو وہ نکاح  جائز ہوجائیگا۔ مہر کے معاملے میں بھاجی ترکاری کی قیمت چکانا جائز نہیں۔ مہر عورت کی قیمت نہیں بلکہ اس کی مرضی کا ٹوکن ہے۔ جہاں مرد، گیارہ ہزار مہر مقرر کرکے گیارہ لاکھ کا جہیز اور کھانا وصول کرتا ہے، وہ نکاح کو کنیادان میں تبدیل کردیتا ہے۔ مہر شرعی طور پر واجب ہے، واجب کا مطلب یہی ہے کہ خرچ مرد کرے، نہ کہ عورت۔ اگر وہ عورت سے بھی خرچ کروارہا ہے تو نہ اُس مہر کی شرعی حیثیت باقی رہی اور نہ نکاح کی۔ قاضی یا مولوی کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوسکتا ہے لیکن شریعت کی نظر میں یہ ایک دھوکہ ہے۔دوسرے یہ کہ سنّت میں ادھار مہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ادھار مہر کو ایجاد کیا،انہوں نے سنت سے نہیں بلکہ کسی اور کمزور یا ضعیف روایت سے ثابت کیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ نکاح اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔

شادی کا ساتواں مرحلہ ۔  ولیمہ

ولیمہ نہ فرض ہے نہ واجب۔ یہ مسنون ہے۔ یہ صرف ایک اعلان ہے، یہ نکاح کے فوری بعد بھی کیا جاسکتا ہے اور اگلے دن بھی کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں حکم یہ ہے کہ ولیمہ پہلے دن کھلانا حق ہے، دوسرے دن نیکی اور تیسرے دن دکھاوا ہے(ترمذی)۔ کچھ لوگ  کہتے ہیں کہ ولیمہ کے لئے دلہا دلہن کی ملاقات شرط ہے، لیکن بغیر ملاقات کے ولیمہ کھلانا اتنی بڑی برائی نہیں جتنی بڑی برائی ولیمہ کو اگلے دن پر ٹال کر شادی کے دن لڑکی والوں کے خرچ پر اپنے مہمانوں کی ضیافت کروانا ہے۔ یہ ایک بدعت، اسراف اور تبذیرہے  اور لڑکی والوں پر ظلم ہے، اس لئے حرام ہے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ ولیمہ اگلے دن کرکے اپنے اپنے مہمانوں کو الگ الگ بانکویٹ ہال لے کر کھانا کھلایا جائے۔ یہ بھی اس دور کی بدترین بدعت ہے۔  پورے عالمِ اسلام میں بالخصوص عربوں میں رخصتی کے دن ہی ولیمہ کھلایا جاتا ہے، پھر رخصتی ہوتی ہے۔ سعودی عرب وغیرہ میں کام کرنے والا ہر شخص اس کی گواہی دے گا۔ لیکن مسئلہ انڈیا پاکستان کی عورتوں کا ہے۔ چونکہ ان کے مردوں نے اپنے سسرال سے بھی کھانا وصول کیا ہوا ہوتا ہے،  اس لئے وہ اپنی اولاد کی شادی کے موقع پر بیوی کے آگے خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ولیمہ انتہائی مختصر مہمانوں کو بلا کر  کرنا اسلامی روایت ہے۔ اسی لئے کئی اہم ترین صحابہؓ  کے ولیمے میں خود رسول اللہ اور ان کے اہلِ بیت کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ رسول اللہ کا سب سے بڑا ولیمہ ایک بکری پر دیا گیا، خود حضرت علیؓ و فاطمہ ؓ کا ولیمہ بھی صرف ایک بکری پر تھا۔ اگر لوگوں کو جمع کرنا اسلامی روایت ہوتی تو رسول اللہ اور حضرت علیؓ پر اپنے ولیموں میں پورے  مدینہ کو دعوت دینا ایک اخلاقی فرض تھا۔  شہنشاہِ دو جہاں کا نکاح جب موجود ہے تو ہمارا، ہجوم کو جمع کرنا کیا مقصد رکھتا ہے؟ کیا ہم بہت کلچرڈ ہوگئے اور نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ کلچرڈ  نہیں تھے؟ 

 

 

شادی کے چند اور اہم امور

۱۔ نکاح نامہ

اسلام میں نکاح ایک عقد یعنی اگریمنٹ ہے۔ اگریمنٹ اسی وقت اگریمنٹ کہلاتا ہے جب دونوں پارٹیوں کی طرف طئے شدہ لین دین کی تفصیلات درج کی جائیں۔ صرف مرد کی طرف سے ادا کئے جانے والے مہر کا اعلان کرنا اور دلہن کی طرف سے لئے جانے والے سامان  اور کھانے کا کوئی اعلان نہ کرنا اگریمنٹ کے اصول کے خلاف ہے۔ یہ عقد ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ عورت پر ظلم ہے۔ جس طرح پولیس والا رشوت کی رسید دینا نہیں چاہتا، اسی طرح دلہا والے جہیز کی رسید دینا  نہیں چاہتے۔ یہ ایک کلچرڈ بھیک اوربلیک میل ہے۔ ایسی شادی میں شریک ہونے والے بھی اس دھوکے دہی کے گواہ اور شریک ہیں۔ جب تک دلہا والے جو کچھ جہیز اور کھانے وصول کررہے ہیں، یہ بھی عقد میں لکھ کر دستخط نہ کریں، لڑکی والوں کو چاہئے کہ ہرگز شادی نہ کریں۔

۲۔ اولاد پر خرچ نہیں کرینگے تو کس پر کرینگے؟

اکثر لوگوں کے پاس شادیوں پر خوب خرچ کرنے کا یہ بہانہ ہوتا ہے۔ آپ بیٹے یا بیٹی کے نام پر کوئی لائف انشورنس پالیسی خریدیں۔ (اس کے جائز ناجائز کے تعلق سے جاننے کے لئے ہم سے علما کی رائے حاصل کریں)۔ یا کسی مستند کمپنی کے شیئر خریدیں، تاکہ یہ پیسہ ان کے مستقبل میں کام آئے۔

۳۔ پہلے نکاح یا پہلے کیریئر؟

            اللہ کے نبی کا حکم ہے کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے نکاح کرو کیونکہ معاش کے دروازے کھولنے کی ذمہ داری اللہ کی ہے۔ لیکن جب لوگوں نے اس حکم کو الٹ دیا تو نتیجہ سامنے ہے۔ شادی کی عمر جب تجاوز کرجائے گی تو عیاشی اور فحاشی کا بڑھنا فطری بات ہے۔ اگر عین جوانی میں لڑکا لڑکی کو شادی کرنے دیں، جو پیسہ فضول دعوتوں اور جہیز پر لٹاتے ہیں، وہی پیسہ لڑکی یا لڑکی پر شادی کے بعد ان کے کیرئیر کے بننے تک ان پر خرچ کریں، دو چار سال فیملی پلاننگ کریں تو بعد میں لڑکا لڑکی  نہ کسی برائی کی طرف بڑھیں گے اور نہ ان کی میچنگ ڈھونڈھنے میں پریشانی ہوگی۔

۴۔ پہلی زچگی کا خرچہ لڑکی والوں سے لینا

یہ ایک انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ رسم ہے۔پلنگ لڑکی لائے، میاں عیش کریں اور بچہ پیدا ہو تو زچگی کا خرچہ لڑکی والے دیں، اس سے زیادہ نامردی اور بے غیرتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ سوائے چند ایک لوگوں کے، لڑکی والوں کی اکثریت اس سے پریشان رہتی ہے۔دواخانے جو لوٹ مار میں مشہور ہیں، نارمل ڈیلیوری کو آپریشن میں تبدیل کرکے غریبوں کو کنگال کرڈالتے ہیں۔ لڑکوں کے والدین کو شرم آنی چاہئے۔

۵۔ جوائنٹ فیملی

اسلام نے کیوں جوائنٹ فیملی کی ہمت افزائی نہیں کی، یہ عہدِ حاضر میں میاں بیوی کے درمیان بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر ہمارے تفصیلی مضامین اور ویڈیو موجود ہیں، مختصر یہ کہ اب تک جیسا معاشرہ چلتا آیا ہے اسے بھول جایئے، دلہا دلہن کو پہلے دن سے اپنی زندگی آزادی سے خوشحال ماحول میں خود گزارنے کا موقع ملنا ضروری ہے، ورنہ خاندانوں میں جھگڑے، علہٰدگیاں اور طلاقیں نہیں روکی جاسکتیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی، صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد +91 9642571721    

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...