بدھ، 3 نومبر، 2021

شادی کے سات اہم مرحلے


 

الحمدلللہ اب نوجوان یہ پوچھنے لگے ہیں کہ مکمل سنّت کے مطابق شادی کیسے ہو۔ ان کی رہنمائی کے لئے ہم صحیح اسلامی شادی کا طریقہ کیا ہے، اس پر روشنی ڈالیں گے۔ پہلی بات تویہ کہ پوری اسلامی ڈکشنری میں ”شادی“ کو کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ یہ لفظ شادمانی سے نکلا ہے جو ایران سے آیا ہے۔ یعنی Grand Festivity۔ یہ مغلوں کی مہربانی ہے کہ جب انہوں نے راجپوت دلہنوں کو لانا شروع کیا، تو ان مہارانیوں کے ساتھ وہ ساری رسمیں مسلمانوں میں داخل ہوگئیں، جومشرکانہ اور اسلامی شعار کے بالکل خلاف تھیں۔لوگ عبادتوں کے معاملے میں رسول اللہ کی سنّت پر چلنا چاہتے ہیں، لیکن نکاح کے معاملے میں رسول اللہ یا حضرت علیؒ کی  طرح کے دلہا بننے کے بجائے راجپوت، مشرک یا فلم اسٹارز کی طرح کے دلہے بننے پر ضد کرتے ہیں۔  بڑے بڑے پھولوں کے ہار، سہرے، بدّی، امام ضامن، ہاتھوں میں تلوار، خنجر یا سروتے، سر پر تاج یا پگڑیاں، گھوڑے یا ہاتھی پر بارات، باجے اور ناچنے والے باراتی، اور محل نما بڑے بڑے شادی خانے، دوسری طرف مہارانی جودھابائی کی طرح سونے اور چاندی میں ڈوبی ہوئی دلہنیں، گھونگھٹ، ایک رات کا لاکھوں روپئے کا جوڑا،اور شادی سے پہلے اور بعد میں مکمل مارواڑی مشرکوں کے رسومات جیسے بری، مایوں، سانچق، ہلدی، وغیرہ وغیرہ، یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم شادیوں میں رسول اللہ کے کسی عمل کو داخل کرنے تیار نہیں ہیں۔

            اچھی طرح یاد رکھئے کہ ایسی شادیاں اسلام سے خارج ہیں۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں اور ”کل بدعۃِِ ضلالۃ“۔ بدعت سب سے بڑی  گمراہی ہے۔ ایسی شادیاں تبذیر، تشبّہ یعنی غیرقوم کی نقل اور فتنہ ہونے کی بنیاد پر ناجائز ہیں۔ ان شادیوں میں شرکت کرنے والے اِن حرام کاموں کی تائید کرنے والے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غیراسلامی شادیوں پرتنقید کرنے والے سمجھدار تعلیم یافتہ لوگ خود ایسی شادیوں کا دعوت نامہ مسکرا کر قبول کرتے ہیں اور اپنی منافقت کا علی الاعلان اظہار کرتے ہیں۔ ان میں بڑی بڑی دینی جماعتوں کے افراد، مشائخین اور اہلِ مدارس کی اکثریت شامل ہے، جو اس بات پر متفق ہے کہ ہر مسئلہ پر مسلک اور مسجد الگ کریں گے لیکن نکاح کی صحیح سنّت کو قائم ہونے نہیں دیں گے۔

شادی کا پہلا مرحلہ ۔  انتخاب

             اگر انتخاب کی کسوٹی میں  جہیز، ہنڈا، خاندان،امریکہ یا سعودی کا ویزا، ا جائداد، وغیرہ شامل ہوجائیں تو وہ نکاح ایک کاروبار ہوسکتا ہے، سنّتِ نکاح نہیں۔نکاح کے معاملے میں نیّت شرط ہے۔اگر نیت یہ ہو کہ بندہ صرف اللہ کی رضا کے پیش نظر اپنی نفس کی حفاظت کے لئے نکاح کررہا ہے، اور  لڑکے یا لڑکی کے انتخاب کا  معیار صرف کردار یا سیرت ہے تو یہ نکاح شرعی طوپر جائز ہے۔ فرمانِ رسول ہے کہ  لڑکا یا لڑکی کے انتخاب میں تم خاندان، حسب نسب، حسن، دولت کو ہرگز نہ دیکھو بلکہ سیرت کو دیکھو، ورنہ تم معاشرے میں فساد برپا کردوگے۔ آج نوجوان نسل چاہتی تو ہے کہ سادگی سے شادی کرے، لیکن ماں باپ کی نیت کچھ اور  ہوتی ہے۔وہ کردار سے پہلے ایک دوسرے کا Status دیکھتے ہیں۔ اسی نافرمانی کے نتیجے میں آج طلاقیں، جھگڑے، اور خودکشیوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

شادی کا دوسرا مرحلہ  ۔   بات چیت

اکثر لوگ یہ ایکٹنگ کرتے ہیں کہ    ”ہم نے کچھ نہیں مانگا لیکن لڑکی والوں نے اصرار کیا“، لڑکی والے کہتے ہیں کہ ”لڑکے والوں نے  معیاری شادی مانگی“۔ اور آخر میں شادی میں وہ تمام خرافات نظر آتی ہیں جو جائز نہیں ہیں۔ یہ ڈرامہ بازی اس لئے ہوتی ہے کہ بات چیت کی جو اصل سنّت ہے، اس کو مکمل نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ بات چیت میں پہلا ایجنڈا مہر کا طئے کرنا ہے۔ اور اس کے بعد شادی کا وقت، مقام وغیرہ۔ حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کے وقت کی بات چیت ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔

            جو لوگ یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم تو سنّت کے مطابق ہی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن لڑکی والے نہیں مانے، کیا ان لوگوں نے بات چیت کے آغاز میں ہی یہ شرط رکھی تھی کہ ”ہم یہ شادی سنّت کے مطابق مکمل سادگی سے چاہتے ہیں، اس میں نہ کوئی جہیز ہوگا نہ کھانا، اگرآپ اس پر اتفاق کرتے ہیں تو ہم آگے بات چیت کرتے ہیں، ورنہ خداحافظ“؟

            بات چیت کا طریقہ یہ ہے کہ لڑکا خود لڑکی کو دیکھ لے، اس کے بعد یہ بتائے کہ ”میں فلاں فلاں ہوں، اتنا کماتا ہوں، گھر ذاتی ہے یا کرائے کا ہے، جہیز کا سامان خود فراہم کروں گا، ولیمہ اور نقد مہر اپنی استطاعت کے مطابق دوں گا۔“ اگر لڑکی کو منظور ہے تو وہ ہاں کہے۔ اس کے بعد بزرگ حضرات مقام اور تاریخ طئے کریں۔ لڑکی والوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ شادی کے بعد لڑکی کو جہیز نہ لانے پر نہ کوئی طعنہ دیا جائے گا اور نہ یہ احسان جتایاجائے گا کہ ہم دونوں طرف سے کرکے لائے۔ لڑکوں کی ماں اور دادی وغیرہ کی طرف اس قسم کے احسان جتانے کے واقعات کی وجہ سے ہی لڑکیاں بددل اور باغی ہوجاتی ہیں۔اکثر صحابہ ؓ کے نکاح تو بات چیت کے موقع پر ہی ہوگئے۔کیونکہ شادی کے موقع پر سینکڑوں مہمانوں کو جمع کرنا سیتا یا پاروتی کا طریقہ ہے نہ کہ امہات المومنینؓ  یا اہلِ بیتؓ کا۔ شادی کی بات چیت میں پہلے یہ طئے ہو کہ شادی کس کے ماڈل پر ہوگی، اسلام کے ماڈل پر، یا مشرکوں کے ماڈل پر، یا آج کل کے سسٹم کے ماڈل پر۔ اس سے پتہ چل جائے گا کہ کون کتنا بڑا عاشقِ رسول ہے۔

شادی کا تیسرا مرحلہ  ۔  پِری میریج کونسلنگ

 عہدِ حاضر میں جہاں طلاق کا تناسب 1% ہے لیکن جھگڑوں کا تناسب 60% ہے، ان جھگڑوں کو ختم کرنا ہے تو شادی سے پہلے دونوں خاندانوں کی کونسلنگ ضروری ہے۔ اس کی اہمیت اور طریقہ کار پر ہماری یوٹیوب ویڈیو ضرور سماعت فرمایئے۔ جب تک دونوں خاندان، شادی کے بعد ہونے والے جھگڑوں کے اسباب اور ان کے حل کے بارے میں شادی سے پہلے ہی نہ سمجھ لیں، شادی کرنا ایک بہت بڑا رِسک ہے۔ بہن کی بیٹی ہونا، یا بھائی کا لڑکا ہونا یا دیندار جماعت کا خاندان ہونا، جھگڑوں کو روکنے کی ضمانت نہیں۔ کسی بھی پولیس اسٹیشن، وکیل یا قاضی کے دفتر یا مہیلا کورٹ جاکر دیکھئے بات سمجھ میں آجائیگی۔کونسلر کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں فریقین سے یہ عہد لکھوائے کہ شادی کے بعد اگر کوئی اختلافات ہوں گے تو وہ پولیس، کورٹ یا کسی اور کے پاس نہیں جائیں گے۔ نکاح کے وقت دونوں کسی ایک ایک حکَم کو منتخب کرلیں، اور یہ عہد کریں کہ جو بھی حکَم کا فیصلہ ہوگا وہ اس کو تسلیم کریں گے۔ یہ انڈین قانون کے مطابق بھی اور شرعاً بھی درست ہے۔ حکَم کے طور پر وہ اپنی جماعت، اپنے مرشد یا کونسلنگ کے ادارے یا قاضی یا کسی بڑے عالمِ دین کو اپنا آربِٹریٹر منتخب کرسکتے ہیں۔

شادی کا چوتھا مرحلہ ۔   منگنی

لڑکی مانگنے کی رسم کو منگنی کہا جاتا ہے۔ لڑکی کو دیکھنا، پسند کرنا اور مہر طئے کرنا خود ایک منگنی ہے۔ جس کے بعد منہ میٹھا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اس کے لئے لڑکی والوں سے الگ ایک دعوت کرواناایک بدعت اور بلیک میل ہے۔ کیونکہ اگر لڑکی والے یہ نہ کریں تو شادی طئے نہیں ہوتی۔ یہ تبذیر ہے یعنی ایسی ضرورت جس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن فاسق لوگوں کے اعتراضات کے خوف سے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، اس لئے یہ حرام ہے۔ اگر لڑکی والے یا لڑکا والے منگنی کی رسم کے لئے ضد کریں تو ایسا رشتہ فوری توڑ دینا چاہئے۔ اگر لوگ پھر بھی یہ کریں تو ایسی شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا اور اس میں جاکر کھانا جائز نہیں۔

شادی کاپانچواں مرحلہ ۔  نکاح کی تقریب

نکاح مسجد میں ہو، یہ افضل ہے۔ علما نے گھر پر یا قاضی کے دفتر پر، یا اگر ولیمہ نکاح کے فوری بعد ہے تو شادی خانے میں بھی کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر بات چیت کے موقع پر ہی لڑکا اور لڑکی راضی ہوں تو کوئی بھی بزرگ لکھا ہوا خطبہ نکاح دیکھ کر پڑھا سکتے ہیں، اور ایجاب و قبول کی کاروائی مکمل کی جاسکتی ہے،  اور بعد میں کسی بھی قاضی کے دفتر جاکر قانونی کاروائی مکمل کی جاسکتی ہے۔  ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے تو لڑکی کے والد کو ہی نکاح پڑھانے کی ترغیب دی ہے۔ یہ یاد رہے کہ محفلِ نکاح میں صرف مردوں کی ضرورت ہے۔ دلہن کے ساتھ ایجاب و قبول کا حکم پورا کرنے کے لئے دو چار عورتیں بھی آجائیں توکافیہے، لیکن عورتوں کا ہجموم  جمع کرناقطعی غلط ہے۔ عرب ممالک میں نکاح کورٹ میں ہوتا ہے۔ قاضی حضرات لڑکی کی مرضی معلوم کرتے ہیں،  اور نکاح کی کاروائی پوری کردیتے ہیں۔پانچ چھ افراد سے زیادہ کا مجمع نہیں ہوتا۔ نکاح ہوجانے کے بعد دونوں رخصتی کی تاریخ مقرر کرتے ہیں، اسی دن لڑکا رخصتی سے قبل ولیمہ کھلاتا ہے۔  نکاح کے موقع پرمہمانوں کا ہجوم جمع کرنا،اور انہیں کھانے کھلانا شرعی طور پر جائز نہیں، کیونکہ یہ بدعت ہی نہیں بلکہ رشوت، دکھاوا اور ایک بلیک میل ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہوتو لڑکے والے شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے۔ اور یہ فتنہ ہونے کی بنیاد پر بھی حرام ہے، کیونکہ جتنے لوگ شریک ہوتے ہیں ان پر بھی ایسی دعوتیں کرنا لازمی ہوجاتا ہے ورنہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں ہونا مشکل ہوجاتا ہے، جس کے لئے ان کو یا تو گھر فروخت کرنا پڑتا ہے یا پھر سود، خیرات، چوری وغیرہ کے راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔

شادی کا چھٹا مرحلہ  ۔    نقد مہر

            قربان جایئے اِس شریعت  پر کہ جس نے عورت پر کنیا دان کے نام پر ہونے والے ہر ظلم کا خاتمہ کردیا۔ کنیا دان میں  عورت جب تک پیسہ، سونا، جائداد اور مہمانوں کا کھانا نہیں لاتی اس کی شادی ناممکن ہوتی ہے۔ ایسی عورت جو جہیز نہ لائے اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ کنیادان کے مقابل اسلام نے نقد مہر کا تصور دیا۔ مرد اپنی استطاعت کے مطابق جتنا مہر ادا کرسکتا ہے وہ آفر کرے، اگر عورت کو قبول ہے تو وہ نکاح  جائز ہوجائیگا۔ مہر کے معاملے میں بھاجی ترکاری کی قیمت چکانا جائز نہیں۔ مہر عورت کی قیمت نہیں بلکہ اس کی مرضی کا ٹوکن ہے۔ جہاں مرد، گیارہ ہزار مہر مقرر کرکے گیارہ لاکھ کا جہیز اور کھانا وصول کرتا ہے، وہ نکاح کو کنیادان میں تبدیل کردیتا ہے۔ مہر شرعی طور پر واجب ہے، واجب کا مطلب یہی ہے کہ خرچ مرد کرے، نہ کہ عورت۔ اگر وہ عورت سے بھی خرچ کروارہا ہے تو نہ اُس مہر کی شرعی حیثیت باقی رہی اور نہ نکاح کی۔ قاضی یا مولوی کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوسکتا ہے لیکن شریعت کی نظر میں یہ ایک دھوکہ ہے۔دوسرے یہ کہ سنّت میں ادھار مہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ادھار مہر کو ایجاد کیا،انہوں نے سنت سے نہیں بلکہ کسی اور کمزور یا ضعیف روایت سے ثابت کیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ نکاح اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔

شادی کا ساتواں مرحلہ ۔  ولیمہ

ولیمہ نہ فرض ہے نہ واجب۔ یہ مسنون ہے۔ یہ صرف ایک اعلان ہے، یہ نکاح کے فوری بعد بھی کیا جاسکتا ہے اور اگلے دن بھی کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں حکم یہ ہے کہ ولیمہ پہلے دن کھلانا حق ہے، دوسرے دن نیکی اور تیسرے دن دکھاوا ہے(ترمذی)۔ کچھ لوگ  کہتے ہیں کہ ولیمہ کے لئے دلہا دلہن کی ملاقات شرط ہے، لیکن بغیر ملاقات کے ولیمہ کھلانا اتنی بڑی برائی نہیں جتنی بڑی برائی ولیمہ کو اگلے دن پر ٹال کر شادی کے دن لڑکی والوں کے خرچ پر اپنے مہمانوں کی ضیافت کروانا ہے۔ یہ ایک بدعت، اسراف اور تبذیرہے  اور لڑکی والوں پر ظلم ہے، اس لئے حرام ہے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ ولیمہ اگلے دن کرکے اپنے اپنے مہمانوں کو الگ الگ بانکویٹ ہال لے کر کھانا کھلایا جائے۔ یہ بھی اس دور کی بدترین بدعت ہے۔  پورے عالمِ اسلام میں بالخصوص عربوں میں رخصتی کے دن ہی ولیمہ کھلایا جاتا ہے، پھر رخصتی ہوتی ہے۔ سعودی عرب وغیرہ میں کام کرنے والا ہر شخص اس کی گواہی دے گا۔ لیکن مسئلہ انڈیا پاکستان کی عورتوں کا ہے۔ چونکہ ان کے مردوں نے اپنے سسرال سے بھی کھانا وصول کیا ہوا ہوتا ہے،  اس لئے وہ اپنی اولاد کی شادی کے موقع پر بیوی کے آگے خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ولیمہ انتہائی مختصر مہمانوں کو بلا کر  کرنا اسلامی روایت ہے۔ اسی لئے کئی اہم ترین صحابہؓ  کے ولیمے میں خود رسول اللہ اور ان کے اہلِ بیت کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ رسول اللہ کا سب سے بڑا ولیمہ ایک بکری پر دیا گیا، خود حضرت علیؓ و فاطمہ ؓ کا ولیمہ بھی صرف ایک بکری پر تھا۔ اگر لوگوں کو جمع کرنا اسلامی روایت ہوتی تو رسول اللہ اور حضرت علیؓ پر اپنے ولیموں میں پورے  مدینہ کو دعوت دینا ایک اخلاقی فرض تھا۔  شہنشاہِ دو جہاں کا نکاح جب موجود ہے تو ہمارا، ہجوم کو جمع کرنا کیا مقصد رکھتا ہے؟ کیا ہم بہت کلچرڈ ہوگئے اور نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ کلچرڈ  نہیں تھے؟ 

 

 

شادی کے چند اور اہم امور

۱۔ نکاح نامہ

اسلام میں نکاح ایک عقد یعنی اگریمنٹ ہے۔ اگریمنٹ اسی وقت اگریمنٹ کہلاتا ہے جب دونوں پارٹیوں کی طرف طئے شدہ لین دین کی تفصیلات درج کی جائیں۔ صرف مرد کی طرف سے ادا کئے جانے والے مہر کا اعلان کرنا اور دلہن کی طرف سے لئے جانے والے سامان  اور کھانے کا کوئی اعلان نہ کرنا اگریمنٹ کے اصول کے خلاف ہے۔ یہ عقد ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ عورت پر ظلم ہے۔ جس طرح پولیس والا رشوت کی رسید دینا نہیں چاہتا، اسی طرح دلہا والے جہیز کی رسید دینا  نہیں چاہتے۔ یہ ایک کلچرڈ بھیک اوربلیک میل ہے۔ ایسی شادی میں شریک ہونے والے بھی اس دھوکے دہی کے گواہ اور شریک ہیں۔ جب تک دلہا والے جو کچھ جہیز اور کھانے وصول کررہے ہیں، یہ بھی عقد میں لکھ کر دستخط نہ کریں، لڑکی والوں کو چاہئے کہ ہرگز شادی نہ کریں۔

۲۔ اولاد پر خرچ نہیں کرینگے تو کس پر کرینگے؟

اکثر لوگوں کے پاس شادیوں پر خوب خرچ کرنے کا یہ بہانہ ہوتا ہے۔ آپ بیٹے یا بیٹی کے نام پر کوئی لائف انشورنس پالیسی خریدیں۔ (اس کے جائز ناجائز کے تعلق سے جاننے کے لئے ہم سے علما کی رائے حاصل کریں)۔ یا کسی مستند کمپنی کے شیئر خریدیں، تاکہ یہ پیسہ ان کے مستقبل میں کام آئے۔

۳۔ پہلے نکاح یا پہلے کیریئر؟

            اللہ کے نبی کا حکم ہے کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے نکاح کرو کیونکہ معاش کے دروازے کھولنے کی ذمہ داری اللہ کی ہے۔ لیکن جب لوگوں نے اس حکم کو الٹ دیا تو نتیجہ سامنے ہے۔ شادی کی عمر جب تجاوز کرجائے گی تو عیاشی اور فحاشی کا بڑھنا فطری بات ہے۔ اگر عین جوانی میں لڑکا لڑکی کو شادی کرنے دیں، جو پیسہ فضول دعوتوں اور جہیز پر لٹاتے ہیں، وہی پیسہ لڑکی یا لڑکی پر شادی کے بعد ان کے کیرئیر کے بننے تک ان پر خرچ کریں، دو چار سال فیملی پلاننگ کریں تو بعد میں لڑکا لڑکی  نہ کسی برائی کی طرف بڑھیں گے اور نہ ان کی میچنگ ڈھونڈھنے میں پریشانی ہوگی۔

۴۔ پہلی زچگی کا خرچہ لڑکی والوں سے لینا

یہ ایک انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ رسم ہے۔پلنگ لڑکی لائے، میاں عیش کریں اور بچہ پیدا ہو تو زچگی کا خرچہ لڑکی والے دیں، اس سے زیادہ نامردی اور بے غیرتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ سوائے چند ایک لوگوں کے، لڑکی والوں کی اکثریت اس سے پریشان رہتی ہے۔دواخانے جو لوٹ مار میں مشہور ہیں، نارمل ڈیلیوری کو آپریشن میں تبدیل کرکے غریبوں کو کنگال کرڈالتے ہیں۔ لڑکوں کے والدین کو شرم آنی چاہئے۔

۵۔ جوائنٹ فیملی

اسلام نے کیوں جوائنٹ فیملی کی ہمت افزائی نہیں کی، یہ عہدِ حاضر میں میاں بیوی کے درمیان بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر ہمارے تفصیلی مضامین اور ویڈیو موجود ہیں، مختصر یہ کہ اب تک جیسا معاشرہ چلتا آیا ہے اسے بھول جایئے، دلہا دلہن کو پہلے دن سے اپنی زندگی آزادی سے خوشحال ماحول میں خود گزارنے کا موقع ملنا ضروری ہے، ورنہ خاندانوں میں جھگڑے، علہٰدگیاں اور طلاقیں نہیں روکی جاسکتیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی، صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد +91 9642571721    

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...