ہفتہ، 15 جون، 2024

ریٹائرڈ لوگ سوسائٹی کے لئے ایک رحمت یا بوجھ؟


یہ لوگ جو 55 یا 60 سال کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں، یہ کتنے خوش نصیب ہیں انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں۔ ہر نعمت کا احساس آدمی کو اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ نعمت چِھن جاتی ہے۔ ان کے پاس قوم کے لئے بہت کچھ کرنے کا وقت تھا، سب سے بڑی دولت یعنی فرصت اور ذمہ داریوں سے فراغت ان کی پاس تھی، بچے سیٹ ہوچکے تھے، PR تھا، بہت کچھ کرنے کی صلاحیتیں بھرپور تھیں، وسائل تھے، اپنی عمر کے 30 - 35 سال تک ماں باپ اور بھائی بہنوں کے لئے کچھ کرتے رہے، اس کے بعد گھر اور اولاد کے لئے مرتے رہے، اب جب قوم کے لئے کچھ کرنے کا وقت آیا تو فضول محفلوں میں سیاست، مذہب، اور سماج پر صرف تبصرے، مشورے، اور اعتراضات میں وقت گزارتے رہے، اچانک کسی دن جب دل کا دورہ پڑے گا، دماغ، یا گُردے ناکارہ ہوجائیں گے، شوگر، بی پی وغیرہ سے مجبور رہو جائ
یں گے، یا کسی ایکسیڈنٹ میں یا حمام میں پاؤں پِھسل جائیگا، تب ایک بستر کے ہوجائیں گے، اولادیں ایک گھنٹہ پاس بیٹھنے سے بھی گریز کریں گی، ساری زندگی جو ”میری پراپرٹی، میرا بینک بیلنس“ کہہ کر اکڑتے رہے، وہ بیوی بیٹوں اوردامادوں کے اختیار میں چلا جائیگا، اس دن اِس نعمت کا احساس ہوگا، کہ ہم ریٹائرڈ لائف میں کیا کیا نہیں کرسکتے تھے، لیکن ہم نے کیا کردیا؟ 

زندگی ایک T20 کا میچ ہے۔ آخری دو چار Over کتنے اہم ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر فیلڈ پر آنے نہیں دیاجاتا، بلکہ پویلین میں بٹھادیا جاتا ہے، جہاں بیٹھ کر صرف تبصرے کرسکتے ہیں۔یہ ریٹائرڈ لوگ جب پویلین میں قید ہوجائیں گے یعنی صرف گھر اور بستر کے ہوجائیں گے، تب بہت دیر ہوجائیگی۔ اور ایک دن اِن کو دفنا کر آنے والے اِن کی زندگی کا آڈِٹ کریں گے، اولاد تو کہے گی حضرت بہت اچھے تھے، ہمارے لئے اِتنا چھوڑ کر گئے، داماد اور بہوئیں کہیں گی ”بُڈّھا بہت اچھا تھا، ہمارے لئے کافی کچھ چھوڑ کر گیا“۔ قوم جس کو آپ سے کبھی کوئی فائدہ ہی نہیں پہنچا، وہ آپ کو کبھی یاد بھی نہیں کرے گی۔ اُن کے لئے تو آپ اسی کتّے یا بلی کی طرح ہوں گے جو سڑک کے کنارے مرجاتے ہیں تو کوئی اس کی نوٹس بھی نہیں لیتا۔  اور جن اولادوں اور دامادوں کے لئے ساری زندگی کا سرمایہ لگادیا،وہ چہلم تک دو چاربار قبر پر آئیں گے، اس کے بعد پھر کبھی کوئی نہیں آئے گا۔ 

اِن ریٹائرڈ لوگوں کے پاس جو نعمتیں گِنائی گئی ہیں،کاش یہ لوگ اِن نعمتوں کے ختم ہونے سے پہلے احساس کرلیں کہ ایک ایک نعمت کا حساب کتنا سخت ہوگا۔ریٹائرڈ لوگوں کو خود یہ اندازہ نہیں ہے کہ ان کے پاس کتنی بڑی طاقت ہے۔ 2011 کی Census کے مطابق 60+ لوگ سوسائٹی میں 11% ہیں، یعنی ایک لاکھ کی آبادی میں گیارہ ہزار۔ اگر اہم اہم شہروں کی ہی آبادی دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ 

حیدرآباد میں 20  لاکھ مسلمانوں میں ریٹائرڈ لوگ 2.2 لاکھ ہیں۔ بمبئی میں 25 لاکھ مسلمانوں میں یہ 2.75 لاکھ ہیں 

لکھنو میں 10 لاکھ مسلمانوں میں یہ لوگ 1.1 لاکھ ہیں۔  پٹنہ میں 2.6 لاکھ مسلمانوں میں یہ لوگ 28 ہزار ہیں 

کشمیر میں 85 لاکھ مسلمانوں میں یہ لوگ 9.3 لاکھ ہیں۔دہلی میں 9 لاکھ مسلمانوں میں یہ لوگ 99 ہزار ہیں۔ 

اگر صرف نوابوں کے شہر حیدرآباد کا حساب کریں جہاں آج بھی یہ ریٹائرڈ لوگ اسی جھوٹی شان اور اکڑ کے ساتھ رہتے ہیں جیسے آخری نظام نواب میرعثمان علی خان کے دور میں رہتے ہیں۔ شکریہ ادا کریں یوگی کا ورنہ لکھنو کے لوگ بھی نواب واجد علی شاہ ہی کے دور میں رہتے تھے۔ حیدرآباد میں ریٹائرڈ لوگوں کی تعداد 2 لاکھ ہے۔ ان میں سے دیڑھ لاکھ کو چھوڑ دیجئے جو بیمار، نااہل، کاہل، ہروقت مایوسی کی باتیں کرنے والے ہیں، صرف پچاس ہزار لوگ اگر سوشیوریفارمس یا کوئی بھی اصلاحی تحریک، جماعت، یا آرگنائزیشن جوائن کرکے چار پانچ گھنٹے بھی ایک سچے Activist یا والنٹئربن کر کام کریں تو ہرتنظیم اپنے مقاصد میں کامیابی کا جھنڈا گاڑ سکتی ہے۔ 

ریٹائرڈ لوگوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گوگل پر 3.5% Revolution کے عنوان سے ایک انوکھی رپورٹ ملے گی۔ مختلف ممالک کے 323 انقلابات کا جائز ہ لیا گیا۔ ان میں پُرامن یعنی Peaceful مہم کے ذریعے لائے جانے والے انقلابات ہتیار اور خونریزی کے ذریعے لائے جانے والے انقلابات کے مقابلے میں دُوگنے تھے، جیسے برازیل، ایران، فلپائین، عرب اسپرنگ، مارٹن لوتھرکِنگ، چیکوسلواکیہ، جارجیا، کے علاوہ ہندوستان کی آزادی اور Wallstonecraft کا عورتوں کے حقوق کے لئے لایا جانے والا انقلاب بھی شامل ہے۔ان انقلابات کے لئے جتنے لوگ گھروں سے نکلے تھے ان کی تعداد کُل آبادی کا صرف 3.5% تھی۔ جو بغیرکسی ہتیار کے گھروں سے نکل پڑے تھے۔ اس کو Mass strength کہتے ہیں، یعنی کئی لہریں مل کر جس طرح طوفان بن جاتی ہیں، اسی طرح ہزاروں انسان جب سڑک پر جمع ہوجاتے ہیں، انسانی سروں کا طوفان بڑی سے بڑی  حکومت کے دل میں ہیبت بٹھانے کے لئے کافی ہوتاہے۔  

بمبئی کی مسلم آبادی کا 3.5% کُل 87,500 بنتے ہیں، جبکہ مسلم ریٹائرڈ لوگوں کی ہی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے، یعنی 2.7 لاکھ۔ ان ریٹائرڈ لوگوں میں سے 182,000 کو نکال دیجئے جو گھروں سے کبھی نہیں نکل سکتے، تب بھی صرف 87 ہزارریٹائرڈ لوگ جو کہ پوری مسلم آبادی کا 3.5% بنتے ہیں، اگر یہ لوگ جو اپنی من مانی زندگی پوری گزار چکے ہیں، اب آخری اوورس میں ہیں، اگر یہ لوگ قوم کے لئے موت کی پروا کئے بغیر کچھ کرنے کے لئے گھروں سے باہر آجائیں، تو آج جتنی سیاسی ذلّتیں اور معاشرتی برائیاں ہیں، ساری کی ساری جڑ سے اکھڑ سکتی ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے اپنے شہر کا حساب لگالیجئے، آپ کو انقلاب کا فلسفہ سمجھ میں آجائیگا، مگر شرط یہی ہے کہ یہ ریٹائرڈ لوگ قربانی کے لئے تیار ہوں۔ ان کی خوش نصیبی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ان کو قدرت نے یوں بھی یہ عمر بونس میں دی ہے۔ وہ اپنی اصلی عمر جی چکے ہیں، اب سوائے گھر میں روٹیاں توڑنے، دعوتیں اڑانے، فضول فلسفے بگھارنے اور چند پسندیدہ عبادات کرنے کے علاوہ ان کے پاس کچھ اور کام نہیں ہے۔ بونس کی یہ زندگی اس لئے ہے کہ ہر Decade یعنی ہر دس سال میں کم سے کم دو سال کا اوسط عمر میں  اضافہ ہورہا ہے۔ 1984 میں Life Span کا اوسط 60 سال تھا۔ اب 2024 میں اوسط عمر 71 ہے۔ یہی 2050 تک آتے آتے 81 ہوجائیگی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمر میں یا دولت یا شہرت میں اضافہ اللہ کا انعام ہے، ہرگز نہیں،یہ امتحان ہے۔ ولا یحسبن الذین کفروا انما نملی لھم خیرلانفسھم انما نملی لھم لیزدادوا اثما ولھم عذاب مھین۔ اللہ تعالیٰ محض ڈھیل دے رہا ہے کہ بندہ ضرورت سے زیادہ عمر یا دولت مل جائے تو دیکھیں کرتا کیا ہے۔ان نعمتوں کا غلط استعمال کفر ہے اور کفر کا نتیجہ سخت عذاب ہے۔ 

یہ لوگ کیا کررہے ہیں، اور کیا کیا کرسکتے ہیں۔

فی الحال ان ریٹائرڈ لوگوں کی اکثریت وقت برباد کررہی ہے۔ نوجوانوں پر تو موبائیل، عاشقی، اور آوارہ گردی پر خوب تنقید کررہی ہے کہ نوجوان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔ ذرا  ریٹائرڈ لوگ اپنے آپ سے بھی یہ سوال کریں کہ وہ خود کیا کررہے ہیں، اب ان ریٹائرڈ لوگوں کا اگلا پڑاؤ صرف قبر ہے اور اس کے بعد۔۔۔۔۔ ایک ایسے وقت جب کہ دین کو سِرے سے مٹانے کیلئے ہر طرح کے بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، آنے والی نسلوں کو غلام ابن غلام ابن غلام بنانے کی پوری پوری منصوبہ بندی ہورہی ہے، یہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ الیکشن میں ایک پارٹی کو ہٹا کر دوسری کو لادیں گے تو ان کا دین، تہذیب، کلچر، تعلیم، تاریخ اور مستقبل سب بچ جائیگا۔ جیتے والی پارٹی اِن کے گھر آکر کھٹکا مارے گی، اور عرض کرے گی کہ لیجئے آپ کی قوم کی وہ ساری نوکریاں، حقوق، اور ریزرویشنس جو دبا دیئے گئے تھے، لیجئے حاضر ہیں، 

جو قوم اپنے حقوق کے لئے خود نہیں اٹھ سکتی، اُسے دوسرے آکر نہیں اٹھا سکتے۔ یہ بوڑھے گھر میں خاندانی سیاست اور باہر تبصروں، مشوروں، اعتراضات اور مایوسی کی باتیں بلکہ تقریریں کرتے نہیں تھکتے۔ دعوتوں میں شرکت ان کا محبوب مشغلہ ہے۔تمام ریٹائرڈ لوگوں کی بیویوں کا حال اور بھی زیادہ افسوسناک ہوتا ہے، ان عورتوں کی پوری زندگی خاندانی سیاست اور تقریبات کے اطراف گھومتی ہے۔ پھر ایک دن یہ ریٹائر لوگ بیٹوں اور دامادوں میں وراثت کی تقسیم کے جھگڑے چھوڑ کر مرجاتے ہیں۔ کاش یہ لوگ بجائے وراثت کے جھگڑوں کے ان نسلوں کے ہاتھوں میں کوئی مشن، کوئی تحریک اور کوئی فکر چھوڑ کر جائیں تو اگلی اس تحریک کو زندگی بخش سکتی ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیا کرسکتے ہیں۔

۱۔ Mass strength یعنی عوامی طاقت پیدا کرنے میں ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر دو لاکھ میں سے صرف بیس ہزار لوگ کسی اصلاحی یا انقلابی تنظیم کو جوائین کرلیں تو ان تنظیموں کی طاقت بڑھ جائیگی۔ اگر کسی بھی تنظیم کی میٹنگ میں بیس پچیس افراد کے بجائے پانچ چھ سو افراد جمع ہونا شروع ہوجائیں، نمازوں میں پورے محلے کے ریٹائرڈ لوگ باجماعت جمع ہونا شروع ہوجائیں تو حکومت، پولیس، پریس، عوام ہر ہر ڈپارٹمنٹ نوٹس لے گا،  جب آپ کسی ایک انصاف کے لئے لڑنے والی تحریک سے جڑ جائیں اور اپنی دانشوری اور لیڈری چھوڑ کر پہلے ایک جیوٹ والنٹیئر یا ایکٹیوسٹ بن جائیں۔ اسلام نے بد سے بدتر حالات میں نشاۃ ثانیہ کا فارمولہ یہی دیا ہے ایک جماعت سے جڑجائیں اور اپنے آپ کو سمع و طاعت کا پابند بنالیں۔ بشرطیکہ امارت کے پاس لیڈر شپ اور Mass strength  کا صحیح شعور ہو۔  

2۔ آج کی شادیاں جو مکمل مشرکانہ رسم و رواج پر مبنی ہیں،ملک میں بلڈوزر چلانے والے آج اتنا نقصان نہیں کررہے ہیں جتنا نقصان یہ شادیاں کرنے والے اور ان شادیوں کا دعوت نامہ قبول کرنے والے کررہے ہیں۔ یہ ایک انقلابی کام ہے کہ جو شادیاں ہمارے نبیﷺ کے طریقے سے ہٹ کر ہیں، ان کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی جنگی پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ سوشیوریفارمس سوسائیٹی اس سلسلے میں اپنے خرچ پر آکر آپ کے علاقے میں شعور بیدار کرسکتی ہے۔

3۔ بہوجن سماج سے ہم نے صدیوں غفلت برتی۔ ان پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے، لیکن نہ ہمارے بادشاہوں نے اور نہ ہمارے باپ دادا نے ان سے ہمدردی کی اور نہ ان کو گلے لگایا اور نہ ان کے لئے انصاف حاصل کرنے کی جنگ کی۔ اب فاشسٹوں نے ایک ایک بہوجن کے دماغ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر بھردیا ہے تاکہ یہ لوگ نہ اسلام کو سمجھیں اور نہ مسلمانوں کے قریب ہوں۔ ان لوگوں کے ذہنوں سے زہر نکالنے کا کام ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ جب تک ہم ان بہوجنوں کے ساتھ نہیں چلیں گے، دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری بنادیئے جائیں گے۔ یہ کام کس طرح ہوگااس کی تربیت کے لئے سوشیوریفارمس سوسائٹی سے رابطہ کریں۔ 

۴۔ کونسلنگ: ریٹائرڈ حضرات شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی کونسلنگ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی طلاق اور خلع یا بغیر طلاق یا خلع کے علہدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے ہر ہر بزرگ کا کونسلر بننا لازمی ہے، اس کی بھی تربیت کے لئے ہماری خدمات حاضر ہیں۔ 

5۔ آج حقیقی اسلام دفن کردیا گیا۔ اس کے اوپر کئی ٹن کا فقہ کا، حدیثوں کے اختلاف کا، تصوف اور انکارِ حدیث کا، بزرگ پرستی اور مسلک پرستی  اور جماعت پرستی کا، بوجھ ڈال دیا گیا۔ اصل قرآن اور اصل اسلام کو اس انبار کے نیچے سے نکال کر دوبارہ کھڑا کرنے کا کام کرنے کے لئے اگر ریٹائرڈ لوگ آگے آئیں تو کم سے کم ان کی آخرت تو شاندار ہوگی، ورنہ یہ خود بھی اور آنے والی نسلیں بھی جہالت اور گمراہی پر ہی مریں گی۔ 

 5۔ تعلیمی، طبّی، صحت، Empowerment، خدمتِ خلق، اردو، ادب، سیاسی شعور بیداری، بینک اور سود کا متبادل، بیت المال اورنظامِ زکوۃ کا قیام، اور ایسے بے شمار کام ہیں جو قائم تو کئے گئے ہیں، لیکن افراد کی کمی کی وجہ سے سارے کام محض ایک ہوائی دعوے بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر یہ سارے ریٹائرڈ لوگ اپنی آخری عمر کا سرمایہ امت کے حوالے کرنے اٹھ جائیں تو یہ سارے ہوائی منصوبے ایسے مضبوط قلعے بن سکتے ہیں کہ ساری دنیا ان میں پناہ لینے کے لئے خود آگے بڑھے گی۔ انشاء اللہ۔ 



ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائیٹی، حیدرآباد

9642571721  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پانچ ستونوں سے آگے۔ تیسری قسط - کیا پاؤور حاصل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے؟

پانچ ستونوں سے آگے کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں دین کا  تصوّر صرف  نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کے اطراف گھومتا ہے۔ انہی...