قصور ہیرا گولڈ کا نہیں، قصور ہمارے حافظے کا ہے۔ ورنہ یہ دھوکہ دہی کوئی نئی نہیں ہے۔ ہر دس پندرہ سال میں کوئی نہ کوئی مذہبی یا سماجی تنظیموں کا سہارا لے کر کروڑوں کا چونا لگا جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں۔ ہاں ہیرا گولڈ کے دھوکے میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ اِس بار بڑے بڑے علمأسلف بھی آگئے۔ خیر سانپ تو نکل گیا اب لکیرکو پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں، ہاں مستقبل میں اگر کوئی سبق سیکھنا ہوتو ہمارے پاس چند اہم تجاویز ہیں۔
سب سے پہلے تو اِس غلط فہمی سے باہر آیئے کہ صرف مسلمان ہی دھوکہ کرتے ہیں۔ ہیراگولڈ،IMA، المیزان، الامانہ، الحرم، الفلاح سعیدبھائی وغیرہ اور دوسرے کئی زمینات اور عمرہ و حج ایجنٹوں سے دھوکے کھانے کے بعد اکثرلوگ اتنے بددل ہوگئے کہ حمیّتِ قومی کا لحاظ کئے بغیر یہ کہنے لگے کہ مسلمانوں کے سارے کاروبار ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ غیرمسلموں نے اِن سے بھی کئی گنا زیادہ فراڈ کئے ہیں جیسے FMLC, Trade Bizz India, Vihaan, Manpasand Beverages, Satyam, Saradha Chitfunds, Viyamshi etc۔ فرق اتنا تھا کہ مسلمان دھوکے باز کمپنیوں میں کسی غیرمسلم نے کبھی پیسہ نہیں لگایا لیکن غیرمسلموں کی ہر اسکیم میں مسلمانوں کا بھی ہزاروں کروڑ روپیہ ڈوب گیا۔
ایک اہم سوال پر غور کیجئے کہ وجئے مالیا اور نیرومودی وغیرہ نے کئی ہزار کروڑ کے غبن کئے لیکن کسی بھی فرد یعنی Individual کا نقصان نہیں ہوا، جبکہ ہیراگولڈ وغیرہ نے کئی معصوم افراد کی زندگی بھر کی کمائی کو لوٹ لیا۔ ایسا اسلئے ہوا کہ وجئے مالیا وغیرہ نے بنکوں کو لوٹا۔ بنکوں کی ذمہ دار RBIہوتی ہے۔ اسلئے RBIنے کسی فرد کا نقصان ہونے نہیں دیا جبکہ ہیراگولڈ وغیرہ کسی بھی سرکاری Regulatory body like RBI, SEBI (Security & Exchange board of India) or IRDAI etcسے رجسٹرڈ ہی نہیں تھے۔ یہ لوگ انفرادی طور پر کہیں مذہب اور کہیں سماجی تنظیموں کاسہارا لے کر راست عوام کی جیبوں کو صاف کرتے تھے۔ اسلئے پہلا سبق یہ ہے کہ جب تک کسی کمپنی کے پاس ان سرکاری طور پر ضمانت دینے والے اداروں کا رجسٹریشن نہ ہو ان کے ساتھ ہرگز سرمایہ نہیں لگانا چاہئے۔
سوال یہ ہیکہ حکومت کے پاس ایسے قوانین موجود ہیں جن کے ذریعے ایسی پونزی اسکیمس پر فوری ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے جیسے Unregulated Deposit Schemes Ordinance 2019 اس قانون کے تحت بنکوں پر لازم ہے کہ جب کسی اکاؤنٹ میں کوئی مشکوک رقم جمع ہونے لگے فوری انکم ٹیکس، کورٹ اور پولیس کو الرٹ کردیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ لوٹنے تک حکومت خاموش رہتی ہے؟ پونزی اسکیمیس کی کامیابی کے ذمہ دارچار لوگ ہوتے ہیں۔ سیاستدان، پولیس،انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور بنک۔ جتنے مضبوط سیاستدان پیچھے ہونگے اور اُن کو خوب مال پہنچتا رہے گا وہ باقی تین لوگوں کو کنٹرول کرتے رہیں گے،
دوسرا سبق یہ ہے کہ سرمایہ لگانے سے پہلے صحیح Financial Consultantسے مشورہ کرنا ضروری ہے جو کہ لوگ عام طور پر نہیں کرتے۔بغیر ایکسپرٹس کے مشورے کے، پہلے لاکھوں روپیہ لگادیتے ہیں جب دھوکہ ہوجاتا ہے تب وکیلوں کو پیسہ دے کر مشورے ڈھونڈھتے ہیں۔ لوگ ڈاکٹر کو، وکیل اور پولیس والوں کو تو اڈوانس میں نقد ادا کرتے ہیں لیکن کچھ کام ایسے ہیں جو پوری قوم مفت میں کروانا چاہتی ہے جیسے فینانشیل کنسلٹنسی۔ بجائے ماہرین سے مشورہ لینے کے سالے، سسرے یا ابّاجان سے مشورے لیتے ہیں نتیجہ ہیراگولڈوغیرہ کی شکل میں نکلتا ہے یاپھر دھوکے والی جائدادوں میں۔
مسلمانوں کی Income per Capitaجسٹس ساچر کی رپورٹ سے واضح ہے کہ دلتوں سے بھی کمتر ہے۔افسوسناک صورتِ حال یہ ہیکہ آج پوری قوم ڈرائیوروں، واچ مین، ٹھیلے والوں یا پھرچپراسیوں، کلرکوں، ٹیچروں، کانسٹبلوں، معمولی کنٹراکٹرز، دوکانداروں اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی ہے۔ جو لوگ اچھے ڈاکٹر اور انجینئر ہیں وہ بھی کسی نہ کسی کمپنی میں محض ملازم ہیں کوئی CEO ہے نہ کوئی Decision maker۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مسلمانوں کے پاس پیسہ نہیں؟ ایسا ہرگز نہیں، مسلمانوں کے پاس کئی ہزار کروڑ روپیہ ہے لیکن ان کے پاس انوسٹمنٹ کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمایئے:
۱۔ شادیاں
جو باپ بیٹے کو کاروبار کرنے کیلئے دس لاکھ نہیں دے سکتا وہ بیٹی کی شادی طئے ہوجائے تو کہیں نہ کہیں سے پیسہ لالیتا ہے۔ یا تو گھر بیچتا ہے یا قرض، چندہ، زکوٰۃ ضرور وصول کرتا ہے۔ اگر یہ پیسہ جو غیراسلامی شادیوں کے طریقوں پر برباد ہورہا ہے اگر وہ لڑکی کے بھائیوں کے ہاتھ آئے تو بھائی تاجر بن سکتے ہیں جن کیلئے رسول اللہ ﷺ نے بشارت فرمائی ہے۔ صرف شہرِ حیدرآباد کے وقف بورڈ سے سالانہ دو ہزار نکاح نامے جاری ہوتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک شادی پانچ لاکھ سے لے کر ایک کروڑ کی بھی ہورہی ہے۔۔ اگرہم ایک اوسط دس لاکھ فی شادی بھی مان کر چلتے ہیں تو پتہ چلے گا صرف شہرِ حیدرآباد میں تقریباً سو کروڑ روپیہ ہر سال شادیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر ایسے ہی کم سے کم صرف پچاس شہر کا حساب دیکھیں جیسے لکھنو، علیگڑھ، بمبئی، احمدآباد، بنگلور وغیرہ کو بھی شامل کریں تو مسلمان 5000 کروڑ روپیہ ہر سال صرف شادیوں پر خرچ کرتے ہیں۔
۲۔ سالگرہ، انیورسری، پہلی زچگی، چہلم، برسی، روزہ افطارپارٹی، عقیقے، بسم اللہ، ختنہ، نوروز، وغیرہ
ان رسومات پر جتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے کیا انہیں دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کا Income Per Capita دلت سے کم ہے؟ہمارے پاس ان کا کوئی سروے تو نہیں لیکن ہر شخص ایک محتاط اندازہ تو قائم کرسکتا ہے کہ ان تقریبات پر پوری قوم کم سے کم پانچ ہزار کروڑ روپیہ ضائع کرڈالتی ہے۔
۳۔ گولڈ
شائد آپ کو اندازہ نہیں کہ مسلمانوں کی دولت کا کتنا بڑا حصّہ آج بنکوں کے لاکرز میں بند ہے۔ یہ برسہابرس سے رکھا ہوا سونا جو صرف چند شادیوں کے موقع پر دوسروں کو دکھانے کے کام آتا ہے اس گولڈ میں ہزاروں شوہروں اور بیٹوں کا مستقبل دفن ہے۔ میڈیم کلاس فیملیز میں عام طور پر ہر عورت کے لاکر میں کم سے کم پچاس تولے سونا ہوتا ہے۔ اگر دو تین بھائی مل کر اس سونے کو تجارت میں لگائیں تو بے شمار کاروبار وجود میں آسکتے ہیں۔ انڈیا سالانہ گولڈ ایمپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال آٹھ ٹن سونا ایمپورٹ کرتا ہے۔ اس میں سے 25% مندروں میں چڑھایا جاتا ہے اور باقی عورتوں کے زیور میں استعمال ہوتا ہے۔ جب امریکہ اور یورپ بھی گولڈ ایمپورٹ کرتے ہیں لیکن وہاں کی کوئی عورت نندی کی گایؤں کی طرح زیور لاد کر نہیں چلتی۔ سارا گولڈ انویسٹ کرتی ہیں۔اپنے اپنے خاندان کی تمام عورتوں کے پاس محفوظ گولڈ کی مقدار کا اندازہ لگایئے اور پھر بتایئے کہ کیا مسلمان غربت و افلاس کا شکار ہیں؟
ایک اور اہم نکتہ غور کیجئے کہ جس طرح ہندوؤں میں عقیدہ ہے کہ بھگوان پر گولڈ چڑھانے سے نجات ہوتی ہے، اسی طرح مسلمانوں میں بھی عقیدہ ہے کہ درگاہوں پر نذرانے چڑھانے سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہیکہ مسلمان گولڈ نہیں بلکہ پیسہ نذرانے میں دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام شہروں کی چھوٹی چھوٹی درگاہوں کے غلّے کا دس دس کروڑ روپیہ میں حراج ہوتا ہے۔ اس سے ان درگاہوں کی آمدنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب ایک شہر کی عام درگاہوں کا کلکشن اتنا ہے تو اجمیر، نظام الدینؒ وغیرہ جیسی درگاہوں کا کلکشن کتنا ہوگا؟ یہ پیسہ قوم کی ملکیت ہونا چاہئے تھا یا سجّادہ نشینوں کی؟ کیا ان اولیاءِ کرام نے دین کی تبلیغ محض اپنی نسلوں کو عیش فراہم کرنے اور تصوّف کے متوازی دین کو چلانے کیلئے کی تھی؟ اگر ان تمام درگاہوں کا پیسہ قوم کی ترقی پر لگے توقوم میں دعوت و تبلیغ اور تحقیق کے کئی مراکز قائم ہوسکتے ہیں۔
۴۔ نفل عمرہ
اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک کتابچہ ”خدارا نفل عمرہ کو پِکنک مت بنایئے“ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ مختصر یہ ہیکہ ایک نفل عبادت پر یہ قوم کم سے کم Rs. 10,000 Cr. خرچ کرتی ہے جس کا فائدہ کس کس کو پہنچ رہا ہے اس کا بھی اندازہ لگایئے اور یہ بھی علما سے پوچھئے کہ امت کی غربت و افلاس دور کرنے اور عمرہ کرنے میں کون سا عمل زیادہ افضل ہے۔ علمائے حق یہی کہیں گے کہ جب قوم غلامی، لِنچنگ، فسادات، اور غربت و افلاس میں گِھر چکی ہو ایسے وقت میں نفل عمروں اور زیارتوں، عرسوں کا پیسہ امت کی معاشی ترقی پر لگنا زیادہ افضل ہے۔
۵۔ پارٹنرشِپ بزنس
مسلمانوں میں دو چار فیصد سے زیادہ ایسی مثالیں نہیں جن میں آپس میں پارٹنرشپ کا بزنس کامیاب ہوا ہے۔ ہیراگولڈ جیسی کمپنیوں کے ڈوبنے کے بعد ہر کوئی تبصرے کرسکتا ہے لیکن پہلے نہیں بتاسکتا۔ ایک بات ہم پہلے ہی بتادینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ اپنے سرمائے سے محبت کرتے ہیں تو دوستی یا رشتہ داری کی بنیاد پر اعتبار کرکے پارٹنرشِپ ہرگز نہ کریں۔ پچانوے فیصد بزنس نہ صرف ناکام ہوتے ہیں بلکہ ایک طرف پیسہ بھی ڈوب جاتا ہے اور دوسری طرف تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایسی شراکتوں کی ایک اور اہم بنیاد یہ بھی ہے کہ قرآن کے اہم حکم کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یاایھالذین آمنوا اذاتداینتم بدین الی اجل مسمّی فاکتبوہ (سورہ بقرہ آیت ۳۸۲) کہ ائے ایمان والوں اپنے درمیان ہونے والو اگر تم ایک دوسرے سے کسی مخصوص مدت تک کیلئے قرض لو تو لکھ لیا کرو۔ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہمارے سارے معاملات زبانی اور مروّتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ کبھی قانونی طور پر ہر دو کو پابند بنانے والے ایگریمنٹ نہ لکھے جاتے ہیں اور نہ کسی قانونی کاروائی کرنے والے کو فیس ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے سینکڑوں ایسی بغیر لکھا پڑھی کی پارٹنرشپ کرنے والوں کو ڈوبتے دیکھا ہے۔سبق یہ ہیکہ ایسی پارٹنرشِپس میں ڈوبنے والے پیسے کا بھی اگر سروے کیا جائے تو یہ بھی ہزاروں کروڑ میں پہنچتا ہے۔ یہی پیسہ اگر نہیں ڈوبتا تو مسلمان کئی انڈسٹری کے مالک ہوتے۔
۶۔ وراثت کے احکام
قرآن نے نماز روزے یا حج کو تلک حدوداللہ نہیں کہا لیکن وراثت کے معاملے کو فرمایا کہ تلک حدوداللہ یعنی یہ اللہ کی حدیں یعنی LoC (Line of Control)یہاں تک کہ حدیث میں آیا ہے کہ وراثت میں کمی بیشی کرنے والے کے خلاف اللہ تعالیٰ خود مقدمہ لڑے گا۔ لوگ لڑکیوں کی شادیوں پر اپنی ہوس کی خاطر خوب پیسہ خرچ کردیتے ہیں لیکن لڑکیوں کو وراثت نہیں دیتے۔ بزرگ خواتین کے انتقال پران کا زیور اس طرح تقسیم ہوتا ہے کہ جس بیٹے یا بیٹی نے ماں کو جو دیا تھا وہ واپس لے لیتے ہیں۔ جو بیٹا یا بیٹی نے مجبوری کی وجہ سے کچھ نہ دیا انہیں کچھ نہیں ملتا۔ حالانکہ مرحومہ کو جس نے جو تحفہ دیا وہ مرحومہ کی ملکیت ہوگئی۔ ان کے انتقال پر اب یہ ترکہ سب میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔
ایک اور اہم ترین حکم جو نظرانداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہیکہ ہر مرد اور عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ترکے میں سے ایک تہائی 1/3rd دولت کی کسی کے حق میں بھی وصیت کرسکتے ہیں۔ باقی تقسیم شریعت کے طریقے پر ہوگی۔ اگر ہر عورت اور ہر مرد اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنا ایک تہائی کسی تحریک، کسی تحریکی فرد، کسی مستحق شخص یا کسی مدرسے کے حق میں وصیت کردیں تو قوم کی ترقی میں کتنی مدد مل سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ ساری زندگی اولاد کیلئے اور دامادوں کو خریدنے کماتے کماتے مرجاتے ہیں۔ کئی ایک تو ایسے ہیں جن کی اولادیں خوشحال ہیں لیکن پھر بھی ہوس یہ ہوتی ہے کہ ان کے بعد بھی سب کچھ دامادوں اور بیٹے بیٹیوں کو ملے۔ جو زیور بیٹیوں اور بہوؤں کو ملتا ہے وہ پھر لے جاکر لاکرز میں زنگ آلود کرتی ہیں اور وہ بھی جب مرتی ہیں تو ان کے زیور کے ساتھ بھی وہی حشر ہوتاہے۔ لیکن یہ لوگ اس خزانے کو قوم کے کام آنے نہیں دیتے۔وارثین کو بھی جب بغیر محنت کے دولت ہاتھ آتی ہے تو کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہ بھی شادیوں اور فضول شوق پر بے رحمی سے پیسہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاکہ وراثت کا وہ حکم جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک بہترین Financial Planning عطا فرمائی تھی، ضائع ہوجاتا ہے۔ غریب اور غریب ہوتا جاتا ہے امیر اور امیر ہوتا جاتا ہے۔ان کے گھروں کی خدمت کرنے والے نوکروں کی تنخواہ دس دس ہزار ہوتی ہے لیکن اللہ کے گھر کی خدمت کرنے والے امام، مؤذن اور خطیب کی تنخواہ پانچ ہزار ہوتی ہے۔ پھر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ علما قوم کی تقدیر پلٹ دیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
سبق یہ ہیکہ مسلمان غریب نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث پر عمل کرلیں تو امیر ترین لوگ بن سکتے ہیں۔
لائف انشورنس والے انوسٹمنٹ۔ ایک حل
اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر بات کریں ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ ان مشاہدات پر غور فرمائیں:
۱۔ حادثاتی امواتAccidental deaths
اِس وقت تقریباً ہر شہر میں اوسطاً بارہ افراد کی موت کی خبر ہراخبار میں ہوتی ہے۔ پانچ سڑک حادثات میں، پانچ خودکشی میں اور کم سے کم دو قتل۔ ان اموات میں کم سے کم ایک تا دو مرنے والے مسلمان ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر روز کم سے کم دوعورتیں بیوا ہوتی ہیں، چار پانچ بچے یتیم ہوتے ہیں چار پانچ بزرگ جو مرحوم پر منحصر ہوتے ہیں وہ بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ مرنے والوں میں خوشحال گھرانوں کے افراد کی تعداد کم ہوتی ہے۔زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو جب تک پہلی تاریخ کو تنخواہ نہ لائیں گھر چلانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر ایک آدمی صبح گھر سے نکلے اور خبر آئے کہ اب وہ کبھی زندہ نہ لوٹے گا اس کے گھروالے کیا کریں؟ یا توبیوی گھر سے نکلے اور نوکری کرے، یا بچّوں کو یا تو ماموں پالیں یا چاچایا بچوں کی تعلیم کیلئے یا بچیوں کی شادی کیلئے گھر بیچاجائے، یا بھیک، چندہ یا خیرات مانگی جائے یاپھر بچے تعلیم چھوڑدیں۔
کیا ہمارے پاس کوئی ایسے بیت المال یا ایسے سخی افراد ہیں جو ہر روز اتنی بڑی تعداد میں پیدا ہونے محتاجوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مکمل مدد کرے؟
۲۔ اچانک موت Sudden deaths or Natural deaths
کتنے لوگ ہیں جو ہر روز ہارٹ اٹیک، کِڈنی فیلئر یا کسی اور وجہ سے اچانک مرجاتے ہیں یا معذور ہوجاتے ہیں۔ ایسے کتنے واقعات ہیں کہ کسی کی موت کے بعد پارٹنر ہر چیز پر قبضہ کرلیتے ہیں، مرحوم نے بغیر لکھائی پڑھائی کے جتنوں کو قرض دئے تھے وہ سارے ہضم کرجاتے ہیں، کئی واقعات ایسے بھی ہیں کہ مرحوم کے بھائی فتویٰ لاکر مرحوم کی بیوی کا حق مارتے ہیں اور کئی واقعات ایسے بھی ہیں کہ بیوی اور اسکے گھر والے مرحوم کے ترکہ پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اس کے مانباپ اور بھائی بہنوں کو بے دخل کردیتے ہیں۔ بے شمار اموات تو ایسی ہوئی ہیں کہ مرحوم نے کاروبار کیا، کہیں پیسہ لگایا لیکن بیوی معصوم تھی یا بچے بہت چھوٹے تھے، مرحوم کے کیا تھے کسی کو پتہ نہیں چلتا، پیسہ بنکوں کے یا چِٹ فنڈ والوں کے یا کسی اور کے حوالے ہوجاتا ہے۔ کئی ایسے افراد بھی ہم نے دیکھے جو گلف میں کام کرتے تھے، چھٹّی پر آئے، انتقال کرگئے اور ان کے کفیلوں نے ان کے جملہ حقوق غصب کرلئے۔
۳۔ دوسری شادی:
ہمارا معاشرہ ایک برہمن معاشرہ ہے۔ یہاں دوسری بیوی کا تصوّر اسی ”رانڈ“ کا تصوّر ہے جو منوسمرتی میں لکھا ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو ہندو معاشرے میں ہوتا ہے۔ پہلی بیوی طلاق یا خلع تک چلی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں خود بھی اور بچے بھی بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ کہیں خود مرد دوسری بیوی کے خوف سے پہلی بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے، کہیں پہلی بیوی کے خوف سے دوسری کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں کسی نہ کسی ایک بیوی اور کسی نہ کسی ایک بیوی کے بچوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، بچوں کا مستقبل متاثر ہوجاتا ہے۔
۴۔ Inflation
اِس وقت ملک میں inflation rate 6%ہے۔ اس کا مطلب یہ ہیکہ آج اگر کسی کو ماہانہ خرچ بیس ہزار روپئے ہے تو آج سے ٹھیک بیس سال بعد یہ خرچ ساٹھ ہزار روپئے تک پہنچ جائیگا۔ کیا آپ کی جائداد، دوکان یا نوکری سے اتنے اخراجات اُس وقت پورے ہونگے؟
۵۔ فسادات
فاشزم کی جو لہر اِس وقت ملک میں پورے عروج پر ہے یہ اور بڑھے گی۔ مسلمانوں کی جان و مال کے ساتھ ساتھ دین، کلچر اور تاریخ کو مٹانے کے جو جو واقعات سامنے آرہے ہیں، مسلمان بے بس ہوتے جارہے ہیں۔ ہر پسماندہ قوم کیلئے تحفظات یعنی Reservationsدیئے جارہے ہیں لیکن مسلمانوں کو چپراسی کی نوکری کیلئے بھی کوئی تحفظ نہیں۔ اہم سرکاری عہدوں پر مسلمانوں کا تقرّر ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ دوسرے یہ کہ کب مکانات اور کاروبار جلادیئے جائیں، کب لِنچنگ جیسے واقعات وقوع پذیر ہوجائیں، کب آپ کے نوجوانوں کو بنا کسی قصور کے دہشت گردی میں ملوّث کردیا جائے اور ان کا انکاؤنٹر کردیا جائے اس کے بھی بھرپور امکانات ہیں۔ بی جے پی اور آریس یس جب تک ہیں اس ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ اِن حالات میں آپ کی فینانشیل پلاننگ کیا ہے، کس طرح آپ اپنی بیوی اور بچوں کو تحفظ دے سکیں گے؟
اِن تمام امور کے پیشِ نظر ایک حل جو کسی طرح آپ کے خاندان کو تحفظ دے سکتا ہے وہ ایسی جگہ انوسٹمنٹ ہے جہاں لائف بھی انشورڈ ہو۔ تاکہ اگر آپ کو کچھ ہوجائے تو آپ کے خاندان کو گھر فروخت کرنے، قرض یا چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پڑے، بیوی اور بیٹی کو مجبوری میں نوکریاں کرنی نہ پڑیں۔
ہم جانتے ہیں کہ لائف انشورنس کے لفظ کے ساتھ ہی کئی لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے کانوں میں برسہابرس سے یہی بٹھایا گیا ہے کہ یہ حرام ہے۔ ہم نے ایسے کئی لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے لائف انشورنس کے بارے میں کچھ پڑھا ہے۔ جواب ملا کبھی پڑھا نہیں صرف سنا ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے اپنی شادی میں لڑکی والوں سے بارات کا کھانا لیا ہے؟ کیا آپ ایسی خلافِ سنت شادیوں میں شرکت کرتے ہیں؟ ان کا جواب نہ صرف ہاں میں ہوتا ہے بلکہ اس حرام کو جائز کرنے کے فتوے لے آتے ہیں۔ خوشی سے دینے اور لینے کو جائز سمجھنا جس میں سراسر قوم کا اخلاقی اور مالی نقصان ہے، لیکن مالی تحفظ کی ضمانت دینے والی لائف انشورنس کو ناجائز سمجھنا ایک اجتماعی غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت ہے۔
لائف انشورنس کے بارے میں عام غلط فہمیاں یہ ہیں کہ اس میں ”غرر، جوّا، تقدیر پر ایمان سے روگردانی، سود وغیرہ“ شامل ہیں۔ اس ضمن میں اطمینان بخش جوابات کا یہاں لکھنا ناممکن ہے۔ ایک مکمل ریسرچ ورک جو ہم نے اپنی کتاب "Life Insurance and The Muslims"میں پیش کردیا ہے، قارئین سے درخواست ہے کہ وہ www.socioreforms.comکی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرلیں یا پھر ہمیں +91 9642 571 721پر واٹس اپ کریں ہم PDF بھیج دینگے۔ اِس کتاب میں ہم نے ان تمام علما کے دلائل پیش کئے ہیں جو اس کے حق میں ہیں یا مخالف ہیں۔ اب یہ آپ کی عقلِ سلیم یعنی Common Senseپر منحصر ہے کہ پڑھ کر آپ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ نے فقہ اکیڈیمی کے ذریعے بھاگل پور فسادات کے بعد ہندوستان بھر کے علما کو جمع کیا اور حیدرآباد کے 1991 اور اس کے بعد کے 1992اعظم گڑھ کے اجلاس میں یہ قرارداد پاس کروائی کہ ”الضرر تبع الخطورہ، دفع الحرج، دفع الضرر، تحفظ جان و مال“ کی بنیاد پر لازماً لائف انشورنس کروایا جائے۔ جامعہ نظامیہ اور مناظر احسن گیلانی کے اہم فتوے بھی لائف انشورنس کی تائید میں موجود ہیں جن کا انگریزی ترجمہ ہم نے اپنی کتاب میں پیش کردیا۔اہلِ حدیث میں دو گروپ ہیں ایک گروپ جو مفتیئ اعظم سعودی عرب مرحوم عبداللہ بن باز اور ان کے بیٹے احمد بن عبدالعزیز بن باز، عادل صلاحی اور یوسف القرضاوی کا قائل ہے وہ لائف انشورنس کی تائید میں ہے۔ دوسر ا جو شدّت پسند گروپ ہے شیخ صالح منجّد کو مانتا ہے وہ اس کا مخالف ہے لیکن کار انشورنس اور ہیلتھ انشورنس کو جائز سمجھتا ہے۔
یہاں صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اوپر بیان کئے گئے تمام حالات کی روشنی میں آپ کی حلال کمائی کی حفاظت اور آپ کے خاندان کے صحیح تحفظ کیلئے اس وقت ایسی اسکیمس کی ضرورت ہے جس میں آپ کی لائف بھی انشورڈ بھی ہو۔ کس طرح یہ اسکیم خریدی جائے اور کتنا پریمم ادا کیا جائے اس کے لئے بھی کسی فینانشیل کنسلٹنٹ سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ یہاں ہم لائف انشورنس انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کیا کیا فائدے بہم پہنچاتا ہے اس پر روشنی ڈالیں گے۔
انفرادی فائدے
لائف انشورنس ہر ہر شخص کے اپنی اپنی ضروریات کو پوری کرنے کی اسکیمیں پیش کرتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہیکہ اگر آپ کو خدانخواستہ کچھ ہوجائے تو آپ کے خاندان کو مکمل ضمانت دیتا ہے کہ جتنا آپ ان کے لئے چھوڑ کر جانا چاہتے تھے جس کا پریمیم آپ نے پورا ادا بھی نہیں بھی کیا ہے تو انشورنس والے آپ کے خواب کو شرمندہ نہیں ہونے دینگے بلکہ پوری رقم آپ کے بیوی اور بچوں کے حوالے کی جائیگی۔یہ آپ کی اپنی ضرورت اور استطاعت کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ زندہ رہیں تو پوری رقم سے کاروبار کرسکتے ہیں۔ ایسی اسکیمیں جن میں ضمانت ہوتی ہے کہ آپ کا پیسہ کسی ایسے کاروبار میں نہیں لگایا جائیگا جس میں کوئی حرام کام شامل ہو۔ ایسی اسکیمس کو Sharia Complianed کہتے ہیں۔ پیسے ادا کرنے کی مدت ایک سال بھی ہوسکتی ہے اور کئی سال بھی۔ بڑھاپے میں اگر آپ اولاد پر بالخصوص بہو یا داماد پر منحصر ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی پالیسی ہوتی ہے۔ کوئی بچہ معذور پیدا ہوجائے، بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے باہر بھیجنا پڑے، آپ نے کاروبار کیا اور کسی نے آپ کا پیسہ ہڑپ کرلیا، یا مرنے والے نے بنک سے قرض لیا اور اس کے مرنے کے بعد بنک نے پیسہ روک لیا اور بیوی بچوں کو محروم کردیا، ایسی تمام صورتوں میں اپنے خاندان محفوظ رکھنے کی کئی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ آپ کی پالیسی کو ضمانت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قرض بھی حاصل کرسکتے ہیں، کسی اور دلا بھی سکتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ لائف انشورنس کے ذریعے آپ انکم ٹیکس دینے سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
اجتماعی فائدے
گروپ انشورنس کے ذریعے ایک ہی پیشے کے کئی افراد کو آپ اگر ایک گروپ بناکر انشورڈ کردیتے ہیں تو پریمیم کا آدھی رقم کمپنی ادا کرتی ہے اور آدھی ریاستی حکومت یا پھر کسی بھی آرگنائزیشن کی طرف سے ملتی ہے۔ غریب لوگوں کو ان کی پریشانی کے وقت یہ ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوتی ہے۔کتنے لوگ ہیں جو ہوٹل، کارخانے، شادی خانے اور مختلف کاروبار کرتے ہیں، ان کے ہاں کئی ملازم ہوتے ہیں جو معمولی تنخواہوں پر ہوتے ہیں۔ اگر ان بے چارے ملازمین کا حادثہ ہوجائے یا بیمار ہوجائیں تو دس بیس ہزار دے کر احسان کردیتے ہیں، باقی عمر اب وہ بھیک مانگتا پھرے۔ اگر ان تمام ملازمین کا گروپ انشورنس کروادیا جائے اور وہی دس بیس ہزار جو انہیں بھیک دیتے ہیں وہی پریمیم میں ادا کردیں تو یہ سارے ملازمین کی زندگی کا ایک تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اگر انہیں کچھ ہوجائے تو ان کی بیوی اور بچوں کی مدد جاری رہتی ہے۔
جو لوگ راہِ لللہ جماعتوں اور اداروں کی خوب اعانت کرتے ہیں اگر انہیں خوف ہو کہ ان کے بعد ان کی اولاد یہ سلسلہ باقی نہیں رکھے گی تو وہ اپنی جانداد کی ضمانت پر ایک پالیسی خرید سکتے ہیں جسے ESTATE کہتے ہیں، اس کے ذریعے ان کے مرنے کے بعد ان تمام اداروں اور تحریکوں کا فائدہ ہوسکتا ہے جو قوم کیلئے کام کرتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ اپنی پوری جماعت کے افراد، مسجدوں کی کمیٹیوں بالخصوص امام، مؤذن اور خطیب کا بھی انشورنس کرواسکتے ہیں اس کو بھی گروپ انشورنس کہتے ہیں۔ ان لوگوں کیلئے انتظامی کیمٹیاں یہ تو کرسکتی ہیں کہ ان کا گروپ انشورنس کروالیں اور انہیں کچھ ہوجائے تو کم سے کم ان دین کے خدمت کرنے والوں کی بیویاں اور بچے تو پریشان نہ ہوں۔
خلاصہ یہ ہیکہ ہیراگولڈ جیسے نقصانات سے مستقبل میں بچنا چاہتے ہوں، فسادات یا حادثات سے اپنے خاندان کو بچانا چاہتے ہوں اور قوم کی اکنامی کو مضبوط کرکے افراد کو ڈرائیوروں اور ٹھیلے والوں کی اکثریت سے باہر نکالنا چاہتے ہوں تو یہ چند تجاویز ہیں۔ جن پر عمل کرنے کیلئے کسی جماعت کی ضرورت ہے نہ لیڈر کی، نہ حکومت سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہے اور نہ صرف دعائیں کرتے رہنے کی۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ کوشش شروع کردے۔ انشااللہ اللہ کی مدد بھی آئیگی ورنہ اب ابابیل یا من و سلوٰی تو آسمان سے آنے سے رہے۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی
واٹس اپ: 9642571721

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں