کیابقر عید کے دن مسلمان محلّوں میں گندگی اور تعفّن دیکھ کر کوئی غیر مسلم یہ یقین کرسکتا ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جس کا آدھا ایمان پاکی پے یعنی صفائی ستھرائی اور نفاست کو رسول ﷺ نے آدھا ایمان قراردیا ہے؟۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس پاکی کا مطلب صرف اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ہے۔ ماحول کو پاک رکھنا ہماری سرشت میں نہیں۔ اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہم پورے جوش ایمانی کے ساتھ جانوروں کو گھر کے اندر یا گلی میں ذبح کرتے ہیں اور جانور کا خون، پیشاب فضلہ وغیرہ باہر سڑک پر بہادیتے ہیں۔ گلی میں دریا بہنے لگتا ہے پھر اس گندے پانی پر سے گزرتی ہوئی گاڑیاں کتنے لوگوں پر چھینٹے اڑاتی گزرتی ہیں، کتنوں کو ناپاک کردیتی ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہم پاک و صاف ہیں یہی کافی سمجھتے ہیں۔
ہم وہ Stereotypeعبادتیں جو ہمارے بزرگوں سے چلی آرہی ہیں ان کوجوں کا توں کرنے کو تو عبادت سمجھتے ہیں لیکن جن عبادتوں میں کامن سینس کا استعمال کرنا ضروری ہے ان کو ہر گز خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی لئے ہم قربانی کو تو اسلام کا اہم رکن سمجھتے ہیں لیکن پاکی کو نہیں کیونکہ ہمیں نہ ماحول یعنی Environmentسے کوئی واسطہ ہے اور نہ پڑوسیوں یا راستہ چلنے والوں کے حقوق سے کوئی واسطہ۔ ورنہ مسلمانوں کیلئے یہی آیت کافی تھی کہ۔ ان اللہ یحب التوابین ویحب المطہرین۔ ترجمہ: یقینا اللہ تعالی محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہین پاک صاف رہنے والوں سے۔ اگر مسلمان اس آیت کو اپنی زندگی اور پورے ماحول پر نفاذ کے بارے میں تدبر فرماتے تو آج Tissue Paperکے موجد ہوتے۔ لیکن ہم سالہا سال بلکہ صدیوں تک ڈھیلا سکھانے کے مسائل میں الجھے رہے اوردنیا نے ٹیشو پیپر ایجاد کردیا، اب ٹیشوپیپر کا استعمال کہاں تک جائز ہے اس پر بحث کرتے رہتے ہیں۔ ایک دور تھا مکہ سے مدینہ جائے ہوئے اتنے مقدس ترین مقامات کے راستے میں کوئی ایسا بیت الخلاء نہیں تھا جہاں کوئی سلیم الفطرت انسان داخل ہوسکے۔ بڑے بڑے متوے بھی اپنے جسم کی پاکی کو تو اسلام سمجھتے تھے لیکن فراغت کے بعد Flushکرنا، وضو کا پانی جمع ہورہا ہے وہاں مچھر پیدا ہورہے ہیں اور بدبو پیدا ہورہی ہے تو اسے صفائی کرنا یہ ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ اب کچھ سالوں سے جب سے McDonaldاور KFCوغیرہ آگئے ہیں جہاں صاف ستھرے Toiletsکا انتظام ہے۔ وہاں لوگ فیمیلیز کے ساتھ رکتے ہیں۔
ہماری درخواست ہے کہ ہرقربانی کرنے والا یہ سوچے کے عید کے دن کی گندگی کو دیکھ کر دوسری قومیں جو ہمیں حقارت اور نفرت سے دیکھنے لگی ہیں کیا وہ غلط ہیں؟۔ اگر وہ ہماری جگہ ہوتے اور ہم ان کی جگہ ہوتے تو خود ایسی گندگی کو دیکھ کر ہم ان کے بارے میں کیا سوچتے۔ نہ صرف ہر گلی میں گندے نالے بہاتے ہیں بلکہ بدبو دار اوجڑی کچہرے کی کنڈی میں ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے، گلی میں ہی جہاں خالی جگہ نظر آئے وہیں پھنکوادیتے ہیں۔ بکرے کے سر اور پائے جلا کر دھوئیں اور بدبو سے پورے ماحول کو Pollutedکرڈالتے ہیں۔ جب سے چرم قربانی بکنی بند ہوگئی ہیں لوگ سڑکوں پر ہی چمڑے پھینکنے لگے ہیں۔ یہ گندگی دیکھ کر غیر قوموں کا اسلام اور مسلمانوں سے بدظن ہونا فطری بات ہے۔یہی وجہ ہے کہ کھبی وہ اذانیں بند کرنے کی بات کرتے ہیں اور کھبی سڑکوں پر عید یا جمعہ کی نمازیں پڑھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ کئی علماء نے جب یہ ثابت کیا ہے کہ خاندان کے ہر فرد پر قربانی واجب نہیں ہوتی بلکہ پورے خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے، ہم اس طریقے کو اپنا کر کچھ گندگی ہم کرسکتے ہیں۔ اگر زیادہ جانور قربان کرنے ہی ہیں تو ضرور کریں لیکن جہان کئی ہزار روپیہ جانوروں کی خرید پر اور قصابوں پر خرچ کرتے ہیں وہیں دو چار ہزار گندگی کو دور پھنکوانے کیلئے بھی بجٹ کریں۔ سعودی عرب، امارات قطر وغیرہ اگرچہ اسلامی ملک ہیں لیکن قربانی کے معاملے میں سخت ہیں۔ وہاں کوئی گھر پر قربانی کرکے سڑک پر پانی بہانے یا کچہرے کی کنڈیوں میں اوجڑی یا چمڑا ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتا ورنہ بلدیہ اور پولیس پہنچ جاتی ہے۔ اگر ہندوستان میں ہمیں گھروں کے سامنے قربانی کی اجازت ہے تو کیا اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم صفائی و پاکی کے احکامات کو ترک کرکے گلیوں کو گندا کردیں؟۔ کئی حضرات گائے کی قربانی فخر سے کرتے ہیں گویا انہوں نے بہت بڑا جہاد انجام دیا ہے۔ اس قربانی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن بحیثیت انسان اور ایک پڑوسی کے حقوق پر ایمان لانے والے مسلمان کے ہم پر یہ بھی تو فرض ہے کہ دوسری قوم کے احساسات کا بھی احساس کریں۔ کیا ان کو ہم ایک گوشت خور ہونے کا احساس دلاکر انہیں اسلام میں داخل کرلیں گے؟۔ نہیں، بلکہ ہم ان لوگوں کی اسلام سے نفرت کو اور ہوا دینگے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اکثریت والے محلوں میں تو داد گیری سے بکری، گائے یا اونٹ ذبح کر ڈالتے ہیں۔ بدلے میں وہ لوگ جن علاقوں میں مسلمان کم ہیں اور کمزور ہیں ان کو ذبح کرکے بدلہ لیتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کمزور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھیں تو جہاں خود اکثریت میں ہیں وہاں ان کی اقلیت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کے ساتھ اخلاق، انسانیت، ایثار و رواداری سے پیش آئیں۔
قرآن نے کئی جگہ گائے کا نام لے کر اس کی پرستش سے نہ صرف منع کیا بلکہ اس شرک سے مشرکوں کو روکنے اور انہیں توحید کی طرف بلانے کا حکم دیا۔ ہم نے کھبی انہیں دعوت دینے کی کوشش نہیں کی صرف گائے کو ذبح کرنے کو ہی دعوت دین اور جہاد اور فتح سمجھ لیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ جب غیر قوم ہولی، دیوالی اور گنپتی وغیرہ میں گلیوں میں ایسی ہی گندگی اور کچہرا پھیلاتی ہیں تو ہم ان کے بارے میں کیا تصور قائم کرتے ہیں، یا لاؤڈ اسپیکر پر سارا دن بھیانک آوازوں سے بھجن لگا کر Sound Pollutionپھیلا کر سارے ماحول کا سکون غارت کر ڈالتی ہیں تو ہم کتنی کراہیت محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم بھی کئی کام جو ان کے مقابلے پر کرتے ہیں وہ بھی ہمارے بارے میں وہی رائے قائم کرتے ہیں۔ وہ بھی گندگی پھیلاتے ہیں لہذا ہم بھی کیوں نہ ایسا ہی کریں، یہ سوچ اسلام کو رسوا کرنے والی سوچ ہے۔ ہم ایک طرف اسلام کا ایک رکن ادا کررہے ہیں لیکن صفائی کا حکم نظر انداز کرکے نہ صرف قربانی کا اجر ضائع کررہے ہیں بلکہ دینا کی نظر میں اسلام کا امیج بگاڑ رہے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تین بار قسم کھا کر فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جس کی وجہ سے پڑوسی کو تکلیف پہنچے۔ یہاں ہم گلیوں میں ناپاکی پھیلا کر ایک نہیں بلکہ کئی پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ علماء کو چاہئے کہ جہاں قربانی کے مسائل اتنی تفصیل سے بیان کرتے ہیں، چرم قربانی کیلئے اپیل کرتے ہیں، وہیں اسلام میں صاف ستھرائی کے احکامات بھی اسی زور و شور سے بیان کریں جس زور سے قربانی کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ محلے کے ہرفرد، ہر مسجد کے ذمہ داران اور تعلیم یافتہ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی محلے اور بالخصوص اپنے پڑوسیوں پر نظر رکھیں اور انہیں ایسی گندگی سے روکیں، یہ کام بھی امر بالمعروف ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ کام حیدر آباد میں NG0's Team نے شروع کیا ہے جوہ ر محلے میں Clean Environmentکی تحریک لے کر جارہی ہے۔ یہ بہت قابل قدر مہم ہے۔ ایسی ہر شہر میں کوئی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرے۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی
9642571721

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں