کُتّےبلّیاں بھینس بکریاں بےچارےکریں بھی تو کیا۔ وہ تو اشرف المخلوقات نہیں۔ صبح اٹھتےہی پیٹ بھرنےکی فکر، دن بھرکچہرےکےڈھیروں یا میدانوں میں گھاس چرنا، دوپہرمیں کسی سائےمیں کچھ دیرسستالینا۔ شام اپنےاپنےہم جِنس دوستوں کےساتھ وقت گزاری، رات کچھ مستی میں اور اگلی صبح ہوتے ہی پھروہی معمول۔ کچھ جو پالتو ہوتےہیں، ان کے ذرا ٹھاٹ زیادہ ہوتےہیں، وہ نازونخروں کےساتھ پالےجاتےہیں۔ پھرایک دن مربھی جاتےہیں۔ پالتوہےتوگھرمیں مرتاہے اورفالتو ہےتوسڑک پر۔ پھران کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ البتہ ایک نسل چھوڑجاتےہیں، جو بچےپیدا کرکے اگلی نسل، پھر وہ نسل اگلی نسل پیداکرتی چلی جاتی ہے۔ پوری زندگی پیٹ بھرنا، بچےپیدا کرنا اورایک دن مرجانا، یہی ان کی زندگی کی کہانی ہے۔
حضرتِ انسان یعنی اشرف المخلوقات کو دیکھئے۔ صبح اٹھتےہی انہی جانوروں کی طرح کچہرے کے ڈھیروں یا میدانوں میں روٹی کی دوڑ یعنی نوکری،کاروبار،بچوں کو اسکول بھیجنےاورگھرکےکام کاج کی فکر،لنچ بریک میں کچھ آرام اور کچھ سوشیل میڈیا، شام دوستوں رشتہ داروں سےباتیں، رات کچھ دیرمستی،پھر سوگئے اوراگلی صبح پھروہی کچہرے کے ڈھیروں پر بھاگنے کی دوڑ۔ پوری عمرگزرجاتی ہے۔ قابلِ زکرکوئی کام کوئی کرتےہیں تو بس بچےپیدا کرتےہیں، پھروہ بچےاسی طرح اپنےبچےپیدا کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی اسی طرح نسل در نسل بچے ییدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور ایک دن مربھی جاتےہیں۔ کوئی تنگ و تاریک ایک دوکمروں کے گھرمیں تو کوئی عالیشان بنگلوں میں۔ ان کا بھی نام ونشان ختم ہوجاتاہے۔
کتناکم فرق ہے دونوں مخلوقات میں؛ مقصدِ حیات دونوں کی زندگی میں سوائے پیٹ بھرنے، بچےپیدا کرنےاورآسائیشوں کے لئے مارےمارے پھرنےکےاورکچھ نہیں۔ ہاں کچھ گائےبھینس بکریاں دودھ دےکرانسانیت کوکچھ توفائدہ پہنچاتےہیں، اسی طرح لاکھوں میں دوچارانسان ایسے ضرورہوتے ہیں جو اپنے اشرف المخلوقات ہونےکی ذمہ داری کو محسوس کرکےانسانیت کےلئےکچھ نہ کچھ تو کرجاتےہیں، لیکن باقی سب کتّےبلّیوں، مچھرمکھی اورچھپکلیوں کی طرح پیٹ بھرنے اور بچےپیدا کرنےمیں ساری زندگی گزار کر مرجاتے ہیں۔
ہمیں تلاش ہے اُن لاکھوں میں سے دوچاراشرف المخلوقات کی جوایک مقصدِحیات تو رکھتےہیں۔
علیم خان فلکی
.jpeg)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں